☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

الۗمّۗ۝۱ۚ

ا،ل، م۔ یہ حروف مقطعات ہیں۔ ان کے کوئی معنی بہ سند صحیح رسول اللہﷺ سے مروی نہیں ہیں ۔

تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ۝۲ۙ
ہُدًى وَرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَ۝۳ۙ

یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں جن میں تمام تردانائی کی تعلیم ہے (اس میں نیکو کاروں کے لئے ہدایت کا سامان اور رحمت الٰہی کی بشارت ہے۔)

الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ

(جن کے بنیادی اعمال یہ ہوتے ہیں کہ) وہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں(یعنی بخل نفسی سے اپنے کو پاک کرتے ہیں)

وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ۝۴ۭ

اور وہ اخروی زندگی کا یقین رکھتے ہیں( وہاں کی زندگی کا زیادہ سے

زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اور حتی المقدور ضرر آخرت سے بچتے ہیں۔ ماحول کتنا ہی بگڑجائے ان کے پایۂ استقامت میں بہ توفیق الٰہی لغزش پیدا نہیں ہوتی)

اُولٰۗىِٕکَ عَلٰی ہُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ وَاُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵

یہ وہ لوگ ہیں جو بہ توفیق الٰہی ہدایت پرقائم ہیں اور یہی لوگ فلاح آخرت پانے والے ہیں۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ۝۰ۤۖ

اور مخالفین میں سے کوئی ایسا بھی ہے جوحقائق کوجانے بغیر دل بہلائی کے لئے بے ہودہ قصے کہانیاں خریدتا ہے تاکہ لوگوں کوسنا سنا کر اللہ کے راستے سے پھیردے(گمراہی میں مبتلا کرے)

توضیح : مخالفین لوگوں کوغلط سلط قصے سنا کرمجلس نبوی میں آنے اورکلام الٰہی کوسننے سے باز رکھتے تھے۔

وَّیَتَّخِذَہَا ہُزُوًا۝۰ۭ

اوراس کلام الٰہی کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اُولٰۗىِٕکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۝۶

ایسے لوگوں کے لئے ذلت آمیز عذاب ہے۔

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰى مُسْتَکْبِرًا

اور جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں توغرور وتکبر کے ساتھ منہ پھیر لیتا ہے۔

کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا کَاَنَّ فِیْٓ اُذُنَیْہِ وَقْرًا۝۰ۚ

ایسے کہ وہ سناہی نہیں گویا کہ اس کے کانوں میں ثقل ہے
(یعنی کانوں میں کاگ (ڈاٹ) کی طرح کوئی چیز لگی ہوئی ہے جو سننے میں مانع ہورہی ہے)

فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۷

پس اس کودرد ناک عذاب (جہنم) کی بشارت دیجئے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ جَنّٰتُ النَّعِیْمِ۝۸ۙ

جو لوگ ایمان لائے اورنیک کام کرتے رہے( یعنی جنہوں نے الٰہی تعلیمات کوقبول کیا اور ان کے مطابق زندگی بسر کرتے رہے) ان کے لئے نعمتوں سے بھری ہوئی جنت ہے

خٰلِدِیْنَ فِیْہَا۝۰ۭ وَعْدَ اللہِ حَقًّا۝۰ۭ وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۝۹

جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچا اور وہ زبردست حکیم ہے۔

توضیح :حق تعالیٰ کی وہ تمام تجاویز جن کا تعلق انسان کے تزکیہ نفس سے ہے وہ اٹل ہیں جو ان پر عمل کرے گا کامیاب وبامراد ہوگا، اور جو تجاویز الٰہی کی خلاف ورزی کرے گا، سراسر نقصان میں رہے گا۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا وَاَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ

(اللہ ہی نے) آسمانوں کوستونوں کے بغیر پیدا کیا جس کو تم دیکھتے ہو اور زمین پرپہاڑوں کا سلسلہ قائم کیا تاکہ تم کولے کر ہلنے نہ لگے( اور تمہیں مضطرب نہ کردے)

وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَاۗبَّۃٍ۝۰ۭ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَنْۢبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ۝۱۰

اور اس میں ہر طرح کے جانور پھیلادیئے اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر ہم نے اس میں ہر قسم کے نفیس (خوش ذائقہ مفید صحت) چیزیں اگائیں۔

ھٰذَا خَلْقُ اللہِ فَاَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ۝۰ۭ

یہ ہے اللہ کی خالقیت، پھر مجھے دکھاؤ توسہی، انہوں نے کیا کیا پیدا کیااللہ کے علاوہ (جنہیں تم شریک فرماں روائی قرار دیتے ہو)

بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۱۱ۧ

واقعہ یہ ہے کہ یہ ظالم کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلہِ۝۰ۭ

اوریقیناً ہم نے لقمان کودانائی عطا کی تھی کہ اللہ ہی کا شکر گزار بندہ بنا رہے۔

(یعنی ساری نعمتوں کوبلا شرکت غیرے اللہ ہی کی طرف سے جانے اور ان کا استعمال مرضیات الٰہی کے مطابق کرے)

وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ

جو کوئی شکر کرے گا تواس کا فائدہ اسی کوپہنچتا رہے گا

وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ۝۱۲

اور جوناشکری کرتا ہے( اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں کا اعتراف نہیں کرتا) تواللہ تعالیٰ بے پرواہ وتعریف کے لائق ہے۔

توضیح : وہ بہ ذات خود ستودہ صفات ہے ساری تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں چاہے کوئی تعریف کرے یا نہ کرے وہ بے نیاز ہے۔

وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَیَعِظُہٗ

(اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا۔

یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللہِ۝۰ۭؔ

ائے میرے بیٹے اللہ تعالیٰ کے ساتھ (اللہ تعالیٰ کی فرماں روائی میں) کسی (مقرب سے مقرب بندہ) کوشریک نہ کرنا

اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۝۱۳

یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ۝۰ۚ

اور ہم نے انسان کواس کے والدین کے بارے میں تاکیدی نصیحت کی ہے۔

حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ

کہ اس کی ماں اس کا بوجھ (اپنے پیٹ میں وضع حمل تک) تکلیف پر تکلیف سہتے ہوئے اٹھائے رکھتی ہے۔ (پھر اس کودودھ پلاتی ہے)

وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ

اور دوسال میں اس کا دودھ چھڑایا جاتا ہے(اس وقت تک وہ اپنے سینے سے لگائے رکھتی ہے)

اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ۝۰ۭ

اسلئے ہم نے اس کو نصیحت کی) کہ میرا شکر ادا کرتا رہ اپنے والدین کا بھی۔

اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۝۱۴

(ائے انسان تجھ کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ ( اپنے اعمال کا بدل پانا ہے)

وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۙ فَلَا تُطِعْہُمَا

اور اگر وہ میرے ساتھ کسی کو شریک کرنے پرتجھے مجبور کریں جس کا تجھے علم نہیں ہے توہرگز ان کا کہنا نہ ماننا۔

وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا۝۰ۡ

البتہ دنیا کی زندگی میں ان سے نیک برتاؤ کرتے رہنا۔

وَّاتَّبِــعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ۝۰ۚ

اور اس شخص کی اتباع کرنا جو میری طرف (پورے اخلاص واطاعت کے ساتھ )رجوع ہوچکا ہو۔

توضیح : ایسے شخص کودین کا پیشوا بنانا چاہئے جس کے اندر انابت الیٰ اللہ ہو، تا کہ وہ تمہارے اندر بھی وہی جذبہ خیرپیدا کردے۔

ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۱۵

پھر تم سب کو(محاسبہ اعمال کے لئے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ پھر میں تمہیں بتادوں گا کہ تم کس طرح کے عمل کرتے رہے تھے۔

یٰبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ

ائے میرے بیٹے اگر کوئی چیز یا عمل رائی کے دانہ کے برابر ہو۔

فَتَکُنْ فِیْ صَخْـرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللہُ۝۰ۭ

پھر وہ کسی پتھر کی چٹان کی دراز میں ہو یا آسمانوں میں پوشیدہ ہویا زمین میں، تواللہ اسے نکال کر لے آئیں گے ۔

اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۝۱۶

بے شک اللہ بڑے ہی باریک بین ہیں( کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علمی سے باہر نہیں ہے)

یٰبُنَیَّ اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ۝۰ۭ

(صحت عقیدہ کی تعلیم کے بعد تاکید کی جاتی ہے) ائے میرے بیٹے نماز قائم رکھ، لوگوں کونیکی کا حکم دے اور برائیوں سے منع کر اور (مخالفین حق کی طرف سے) جو بھی تکلیفیں پہنچیں بہ طیب خاطر برداشت کر۔

اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۝۱۷ۚ

یہ بڑی ہمت اور حوصلہ کے کام ہیں۔

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۝۰ۭ

اور(اپنی بڑائی کے زعم میں) لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر اور زمین پراکڑ کر مت چل۔

اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ۝۱۸ۚ

یقیناً اللہ تعالیٰ تمام خود پسند فخر کرنے والوں کوپسند نہیں فرماتے۔

وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ۝۰ۭ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۝۱۹ۧ

اوراپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز کوپست کر(نرم لہجہ گفتگو کر) بے شک سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ گلا پھاڑ پھاڑ کربات نہ کرے)

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ

کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ اللہ نے آسمانوں اورزمین کی ساری چیزوں کوتمہارے لئے مسخر کیا۔

وَاَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّبَاطِنَۃً۝۰ۭ

اور تم پراپنی ظاہری وباطنی نعمتیں پوری کردیں۔(پورےطریقہ پر عطا کی ہے۔ )

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًى وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ۝۲۰

اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اللہ کے بارے میں کچھ جانے بغیر بلا دلیل علمی، کتاب اللہ کے واضح احکام کے بغیر جھگڑتے ہیں۔

وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تعلیم نازل کی ہے اس کا اتباع کرو، اس کے مطابق اللہ پرایمان رکھو اوراس کی ہدایتوں کے مطابق عمل کرو۔

قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ

توکہتے ہیں ہم تواسی کی پیروی کریں گے جس پرہم نے اپنے باپ دادا کوپایا ہے۔

اَوَلَوْ کَانَ الشَّیْطٰنُ یَدْعُوْہُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ۝۲۱

اگر چہ کہ شیطان انہیں دہکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا ہو۔

توضیح : شیطان ہی نے ان کے آبا واجداد کویہ غلط تعلیم دی تھی کہ اللہ نے اپنے مقرب بندوں کواپنا اختیار دے کراپنا شریک کاربنا رکھا ہے۔ لہٰذا یہ غلط تعلیم وراثتاً ان کی اولاد میں منتقل ہوتی گئی۔ اب اس کے خلاف صحیح تعلیم کو سننا اور سمجھنا انہیں گوارا نہیں۔

وَمَنْ یُّسْلِمْ وَجْہَہٗٓ اِلَى اللہِ وَہُوَمُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۭ

اور جس نے اپنے آپ کواللہ کے حوالہ کردیا اور (ہدایت الٰہی کے مطابق) نیک عمل بھی کرتا رہا تواس نے ایک ایسا مضبوط سہارا حاصل کرلیا (جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔)

وَاِلَى اللہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝۲۲

اور سارے معاملات کا انجام (آخری فیصلہ) اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

توضیح : جزائے اعمال کے معاملہ میں کوئی کسی کی سفارش نہیں کرسکتا جیسا کہ ارشاد ہے۔ لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا ۔ يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ۔ (سورہ نباءآیت ۳۷) جزائے اعمال کے معاملے میں کسی کوبولنے کی اجازت نہ ہوگی اور نہ وہ کچھ بول سکیں گے إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ ، سوائے اس کے کہ اللہ رحمن ہی اجازت دیں۔

وَمَنْ کَفَرَ فَلَا یَحْزُنْکَ کُفْرُہٗ۝۰ۭ

اور جو کوئی ان حقائق کا انکار کرے تواس کے کفر سے آپ کو رنجیدہ خاطر نہ ہونا چاہئے( وہ آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا وہ اپنے ہی لئے درپے آزار ہے)

اِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ فَنُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا۝۰ۭ

بالآخر ان سب کو(محاسبہ اعمال کیلئے) ہمارے پاس ہی حاضر ہونا ہے سو ہم خبر دیں گے ان کو ان کے کرتوتوں کے بارے میں۔(پھر ہم بتادیں گے کہ انجام آخرت سے متعلق وہ کتنی غلط روش اختیار کئے ہوئے تھے)

اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۲۳

بے شک اللہ تعالیٰ دلوں کے چھپے ہوئے راز جانتے ہیں ۔

نُمَـتِّعُہُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّہُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِیْظٍ۝۲۴

ہم انہیں (دنیا سے) تھوڑا سا استفادہ کرنے کا موقع دیتے ہیں پھر انہیں کشاں کشاں سخت ترین (نار) کی طرف لے جاتے ہیں۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ۝۰ۭ

اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا توبس یہی کہیں گے۔ اللہ۔

قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ۝۰ۭ

(ان کے اس جواب پر) کہئے الحمد للہ، ساری تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں۔

توضیح : تم مانتے ہی ہو کہ خالق ارض وسماوات اللہ تعالیٰ ہی ہیں توپھر خالق ومخلوق میں برابری، شرکت یا اختیار ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۲۵

بلکہ ان کی اکثریت لاعلم ہے( محض جہالت کی وجہ حقیقت کا انکار کرتی ہے)

لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے۔ اللہ ہی کا ہے۔(سب اسی کے مملوک ومربوب ہیں)

اِنَّ اللہَ ہُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ۝۲۶

بیشک اللہ تعریف کرنے والوں کی تعریف سے بے نیازہیں، محمود ہیں (ساری تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں چاہے کوئی تعریف کرے یا نہ کرے)

وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَۃٍ اَقْلَامٌ

اور اگر زمین کے سارے درخت قلم بنائے جائیں،

وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللہِ۝۰ۭ

اور سمندر کا پانی سیاہی بن جائے اور اس کے مزید سات سمندر سیاہی بن جائیں۔ تب بھی اس کی قدرتیں اور عجائبات وکمالات اور اس کی معلومات احاطۂ تحریر میں نہیں آسکتیں (اور نہ ختم ہوسکتی ہیں)

اِنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۝۲۷

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکیم ہیں۔

مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ۝۰ۭ

تم سب کا پیدا کرنا اورپھر دوبارہ زندہ کرنا۔ اللہ کے لئے ایک شخص کے پیدا کرنے اور جِلا اٹھانے کے برابر ہے

اِنَّ اللہَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ۝۲۸

بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والے جاننے والے ہیں۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ

کیا تم اللہ کی اس قدرت کونہیں دیکھ رہے ہو کہ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے، اور دن کورات میں،

وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۡکُلٌّ یَّجْرِیْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى

اور چاند و سورج کو ایک مقررہ مدت تک کے لئے تمہارے کام میں لگائے رکھا ہے۔ ہر ایک اپنے محور پرگھوم رہا ہے،

وَّاَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۝۲۹

اور تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے با خبر ہیں۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ

یہ سارے دلائل اس لئے بیان کئے گئے ہیں کہ( تم اس حقیقت کوتسلیم کر لوکہ) اللہ ہی (کا الٰہ واحد ہونا) حق ہے

وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ۝۰ۙ

اور اس اللہ کوچھوڑ کرجن غیر اللہ کویہ لوگ پکارتے ہیں۔ وہ سب باطل ہے( وہم وگمان ہے)

وَاَنَّ اللہَ ہُوَالْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ۝۳۰ۧ

اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی عالی مرتبت بزرگ و برتر ہیں ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْکَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللہِ لِیُرِیَکُمْ مِّنْ اٰیٰتِہٖ۝۰ۭ

کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو؟ اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں سے کشتیاں دریا میں چلتی ہیں، تا کہ وہ اپنی (قدرت کی) کچھ نشانیاں تمہیں دکھائے۔

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ۝۳۱

بے شک ان واقعات میں لوگوں کے لئے بڑا سبق ہے جومصیبتوں کومن اللہ سمجھ کرصبر کرتے ہیں اورنعمتوں کومن اللہ جان کرشکر بجالاتے ہیں۔

توضیح : ایمان باللہ کی یہی دوعلامتیں ہیں جیسا کہ آنحضورﷺ نے فرمایا۔ الایمان نصفان نصف صبر، نصف شکر ہے۔

وَاِذَا غَشِیَہُمْ مَّوْجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۝۰ۥۚ

اور جب (سمندر کی طوفانی لہریں) سائبانوں جیسی موجیں ان پر چھا جاتی ہیں تواس وقت( یہ مشرکین بھی جذبہ اخلاص کیساتھ بلا شرکت غیر مدد کیلئے) اللہ تعالیٰ ہی کو (قادر مطلق جان کر) پکارتے ہیں،اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے۔

فَلَمَّا نَجّٰىہُمْ اِلَى الْبَرِّ فَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ۝۰ۭ

پھر جب ہم انہیں (سلامتی کے ساتھ) خشکی کے کنارے پہنچادیتے ہیں توان میں سے بعض اپنے کئے ہوئے اقرار کوپورا کرتے ہیں( اوراللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنے رہتے ہیں) بعض مخالفت حق سے باز آتے، میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔

وَمَا یَجْــحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوْرٍ۝۳۲

اورہماری آیتوں کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو بڑے ہی غدار (عہد شکن) نا شکرے ہوتے ہیں۔

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِہٖ۝۰ۡ

ائے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو (یعنی نافرمانی کے انجام کومستحضر رکھو) اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام نہ آئے گا۔

(یعنی بیٹا اپنی بداعمالیوں کے سبب عذاب میں پکڑا جائے گا توباپ اس کوبچا نہ سکے گا)

وَلَا مَوْلُوْدٌ ہُوَجَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ شَـیْـــــًٔا۝۰ۭ

اور نہ اولاد اپنے باپ کے لئے کچھ کام آئے گی

اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا۝۰۪

بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے (یعنی جزائے اعمال کے متعلق جو وعدہ الٰہی ہے وہ اٹل ہے۔ مقرب سے مقرب بندہ بھی کسی کو عتاب الٰہی سے بچا نہیں سکتا) لہٰذا تمہیں دنیا کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈال دے۔

( دنیا کی مصروفیات اور اس کی رنگا رنگی آخرت سے غافل نہ کردے)

وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللہِ الْغَرُوْرُ۝۳۳

اور نہ کوئی فریب کار تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے (فریب نفس یا فریب شیطان یا اسی کی طرح دھوکہ باز انسان قانون نجات وتعذیب کے خلاف خوش فہمیوں میں مبتلا نہ کردے)

اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ۝۰ۚ

بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کو ہے۔

(کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب ہوگی وہ تو پلک جھپکنے سے پہلے واقع ہوسکتی ہے)

وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ۝۰ۚ

اور وہی بارش برساتا ہے،

وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَام۝۰ِۭ

اور وہی حاملہ کے رحم میں پرورش پانے والوں کی کیفیت حیات اور ان کے نرو مادہ ہونے کوجانتا ہے۔

وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا۝۰ۭ

اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کرنے والا ہے۔
(کیا غیرمعمولی واقعات پیش آنے والے ہیں)

وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ۝۰ۭ

اور کوئی نہیں جانتا کہ کس زمین میں اسے موت آئے گی۔

اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۝۳۴ۧ

بے شک اللہ تعالیٰ ہی ان تمام امور کوجانتے ہیں، اور ہر چیز سے پوری طرح با خبر ہیں۔

توضیح :اس سورۃ میں اہل ایمان کے لئے سبق ہے کہ اولاً وہ اپنی اولاد کوشرک سمجھائے، اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد ہونے کی تعلیم دے۔ انجام آخرت اور پرسش اعمال کے نتائج سے ڈرائے اور ان کے اندر انابت الی اللہ اور اشاعت حق کا جذبہ پیدا کرے۔ اخلاق حسنہ کی تعلیم دے، مگر افسوس کہ آج امت کا دیندار طبقہ بھی ان فرائض سے غافل نظرآتا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔
اور ایک سبق یہ بھی ہے کہ بچوں کونرمی پیارو محبت کے ساتھ نصیحت کرنی چاہئے۔