☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

وَالصّٰۗفّٰتِ صَفًّا۝۱ۙ

قسم ہے ان (فرشتوں) کی جوصفیں باندھ کرکھڑے ہوتے ہیں(یعنی احکام الٰہی کی تعمیل میں ہروقت مستعد رہتے ہیں)

فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا۝۲ۙ

پھر ان فرشتوں کی قسم جو(دشمنان حق کو) ڈانٹ کرتے ہیں(ان انھیں حوادثات وآفات میں مبتلا کرتے ہیں)

فَالتّٰلِيٰتِ ذِكْرًا۝۳ۙ

پھر ان فرشتوں کوقسم جوکلام نصیحت سناتے ہیں۔

توضیح : یعنی وہ فرشتے جوامر حق کی طرف توجہ دلانے کے لئے تذکیر کی خدمت انجام دیتے ہیں (بہ شکل حوادث ہوکہ بصورت تعلیمات الٰہیہ والہامات نیک)

اِنَّ اِلٰہَكُمْ لَوَاحِدٌ۝۴ۭ

یقیناً تمہارا معبود حقیقی ایک ہی ہے۔

بس وہی تمہارا معبود، حاجت روا، کارساز، کارفرما، خالق مالک ورازق ہے۔

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا

آسمانوں اورزمین اورجوچیزیں ان کے درمیان میں ہیں،

وَرَبُّ الْمَشَارِقِ۝۵ۭ

سب کا وہی رب اور مالک ہے اور سارے مشارق (ومغارب) کا بھی رب ہے۔

اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِزِيْنَۃِۨ الْكَـوَاكِبِ۝۶ۙ

ہم نے آسمان دنیا کوستاروں سے زینت بخشی۔

وَحِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ مَّارِدٍ۝۷ۚ

اور ہرشیطان سرکش سے اس کومحفوظ کردیا۔

لَا يَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰي

شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے۔

وَيُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ۝۸ۤۖ

(جب وہ ملاء اعلی کی طرف جاتے ہیں تو) ہرطرف سے ان پر آگ کے شعلے برسائے جاتے ہیں۔

دُحُوْرًا

مارے اوربھگاے جاتے ہیں،

وَّلَہُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ۝۹ۙ

اور ان کے لئے پیہم عذاب ہے۔

اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَــطْفَۃَ فَاَتْــبَعَہٗ شِہَابٌ ثَاقِبٌ۝۱۰

تا ہم اگر ان میں سے (فرشتوں کی) کوئی بات لے اڑے توایک دہکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔

فَاسْتَفْتِہِمْ اَہُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا۝۰ۭ

لہٰذا ائے نبی(ﷺ) ان سے پوچھئے، کیا ان کی پیدائش زیادہ مشکل ہے یا ان چیزوں کی جنہیںہم نے پیدا کیا ہے؟ (یعنی دیگر مخلوقات)

اِنَّا خَلَقْنٰہُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ۝۱۱

ہم نے انھیں لیس دار(چمٹ جانے والی) مٹی سے پیدا کیا ۔

بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُوْنَ۝۱۲۠

آپؐ تو(اللہ تعالیٰ کی قدرت وکاریگری پر) متعجب ہیں اور یہ اس کا مذاق اڑارہے ہیں۔

وَاِذَا ذُكِّرُوْا لَا يَذْكُرُوْنَ۝۱۳۠

اور جب انھیں نصیحت کی جاتی ہے(کسی حکم وہدایت کوسنتے ہیں) تو نصیحت حاصل نہیں کرتے۔

وَاِذَا رَاَوْا اٰيَۃً يَّسْتَسْخِرُوْنَ۝۱۴۠

اورجب کوئی نشانی دیکھتے ہیں تواس کی ہنسی اڑاتے ہیں ۔

وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ۝۱۵ۚۖ

اور کہتے ہیں یہ توکھلاجادو ہے۔

توضیح : نبی محترمﷺ جنت اور دوزخ اوراس کے عذاب اورمردوں کے اٹھائے جانے کا ذکر فرماتے ہیں اور آخرت کا نقشہ ان کی آنکھوں میں پھرجاتا توکہتے۔

ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا

کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جب ہم مرجائیں گے اورمٹی بن جائیں گے اور ہڈیاں رہ جائیں گے۔

ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۱۶ۙ

تو ہم دوبارہ زندہ اٹھائے جائیں گے؟

اَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۱۷ۭ

اورکیا ہمارے آباء واجداد بھی جوپہلے گزرچکے ہیں ؟

قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ۝۱۸ۚ

کہئے ہاں(بلاشبہ قبروں سے اٹھائے جاؤگے) اورتم بہ لحاظ انجام ہمیشہ کے لئے ذلیل وخوار ہوکر رہوگے۔

فَاِنَّمَا ہِىَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ

پھر وہ ایک ڈانٹ کی طرح زوردار آواز ہوگی۔

فَاِذَا ہُمْ يَنْظُرُوْنَ۝۱۹

جس کے ساتھ ہی (وہ تمام احوال قیامت جن کی خبر ان منکران حق کودی گئی تھی) اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔

توضیح : یہ دوسرا صور ہوگا جس کے ساتھ ہی تمام مردے زندہ ہوںگے۔

وَقَالُوْا يٰوَيْلَنَا ھٰذَا يَوْمُ الدِّيْنِ۝۲۰

اور وہ اس وقت کہیں گے ہائے ہماری کم بختی یہ تویوم الجزاء ہے ۔

ھٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِيْ كُنْتُمْ بِہٖ تُكَذِّبُوْنَ۝۲۱ۧ

(ان سے کہا جائے گا) یہی وہ فیصلہ کا دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا
وَاَزْوَاجَہُمْ

(حکم ہوگا) جمع کرو، ان تمام ظالموں (سرکشوں نافرمانوں) اوران کے ساتھیوں (ہم جنسوں، ہم عقیدہ عورتوں مردوں) کو

وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ۝۲۲ۙ

اوران معبوان باطل کوجن کی اللہ کے سوا وہ عبادت کرتے تھے۔

مِنْ دُوْنِ اللہِ فَاہْدُوْہُمْ اِلٰى صِرَاطِ الْجَحِيْمِ۝۲۳

پھر ان سب کوجہنم کا راستہ دکھادو۔

توضیح : دنیا میں غیراللہ یعنی فرشتوں، انبیاؑء اولیائے کرام، بزرگان دین کی بھی پرستش کی جاتی ہے، ان کی قبریں اورمزاریں پوجی جاتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ بھی مشرکین کے معبود ہیں۔ لیکن فی الحقیقت یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی پرستش کی جائے اوران کیلئے لوازم عبادت ونذر ونیاز کی جاتی رہے۔ بلکہ وہ تو زندگی بھرغیراللہ کی پرستش سے منع کرتے رہے، اس لئے یہ لوگ ان معبودان باطل میں شمار نہیں کے جائیں گے، جنہیں جہنم میں ڈالا جائے گا یا جہنم کا راستہ دکھایا جائے گا۔

وَقِفُوْہُمْ اِنَّہُمْ مَّسْـُٔـوْلُوْنَ۝۲۴ۙ

(کہا جائے گا) ذرا انھیں ٹھیراو، ان سے کچھ پوچھنا ہے۔

مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ۝۲۵

(پوچھا جائے گا) تمہیں کیا ہوگیا۔ اب کیوں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔

بَلْ ہُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُوْنَ۝۲۶

بلکہ وہ توآج (شرمندگی سے) سرجھکائے کھڑے ہوں گے ۔

وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ۝۲۷

اورباہم ایک دوسرے کے مقابل ہوکرتکرار کرنے لگیں گے۔

قَالُوْٓا اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْيَمِيْنِ۝۲۸

(اپنے پیشواؤں سے) کہیں گے یقیناً تم تو ہمارے خیر خواہ بن کر(پوری توانائیوں کے ساتھ) دین کی شکل میں ہمیں دین ہی سے برگشتہ کررکھا تھا۔

قَالُوْا بَلْ لَّمْ تَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝۲۹ۚ

ان کے پیشوا کہیں گے(ایسا نہیں ہے) بلکہ تم خود ہی ایمان لانا نہیں چاہتے تھے۔

وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ۝۰ۚ

اور تم پرہمارا کوئی زور تونہ تھا۔

بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طٰغِيْنَ۝۳۰

بلکہ تم خودہی ایک سرکش قوم تھے۔

فَحَــقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَآ۝۰ۤۖ

پس ہمارے بارے میں ہمارے پروردگار کی بات پوری ہوکر رہی۔

اِنَّا لَذَاۗىِٕقُوْنَ۝۳۱

اب ہم سب عذاب کا مزہ چکھنے والے ہیں۔

فَاَغْوَيْنٰكُمْ اِنَّا كُنَّا غٰوِيْنَ۝۳۲

ہم نے تم کوبہکایا جب کہ ہم خود بھی گمراہ تھے۔

فَاِنَّہُمْ يَوْمَىِٕذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ۝۳۳

لہٰذا وہ سب اس روزعذاب میں شریک رہیں گے۔ (پیروی کرنے والے اوران کے پیشوا، گمراہ کرنے والے اور گمراہ ہونے والے)

اِنَّا كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِيْنَ۝۳۴

ہم گنہگاروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔

اِنَّہُمْ كَانُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَہُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ۝۰ۙ

ان کا حال یہ تھا کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی (معبود اورمستعان) نہیں ہے تو

يَسْتَكْبِرُوْنَ۝۳۵ۙ

وہ تکبر کرتے۔

وَيَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْٓا اٰلِـہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْــنُوْنٍ۝۳۶ۭ

اورکہا کرتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کوچھوڑدیں ایک شاعر اور دیوانے کی خاطر ؟

بَلْ جَاۗءَ بِالْحَــقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۳۷

حالانکہ وہ ایک سچا دین لے کرآئے تھے اورپچھلے پیغمبروں کی بھی تصدیق کرتے تھے۔

توضیح : پیغمبر کسی کی مخالفت نہیں کرتے۔ ان کی تبلیغ میں ان کی کوئی غرض شامل نہیں ہوتی، یہی ان کے رسول برحق ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔

اِنَّكُمْ لَذَاۗىِٕقُوا الْعَذَابِ الْاَلِــيْمِ۝۳۸ۚ

(اگر تم نہ مانو تویاد رکھو) یقیناً تم دردناک عذاب کا مزہ چکھنے والے ہو۔

وَمَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۳۹ۙ

اور تم کواسی کا بدلہ ملے گا جو تم کیا کرتے تھے(کسی اورکا عمل کام نہ آئیگا)

اِلَّا عِبَادَ اللہِ الْمُخْلَصِيْنَ۝۴۰

سوائے ان کے جواللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں(یعنی جن کے عقیدہ وعمل میں شرک نہیں ہے وہ عذاب سے بچالئے جائیں گے)

اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ۝۴۱ۙ

یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے (خوش ذائقہ) غذائیں مقرر ہیں۔

فَوَاكِہُ۝۰ۚ وَہُمْ مُّكْـرَمُوْنَ۝۴۲ۙ

(طرح طرح کے)پس میوے انھیں دیئے جائیں گے اور وہ وہاں نہایت ہی اعزاز کے ساتھ رہیں گے۔

فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۴۳ۙ

انواع واقسام کے میوؤں سے بھرے ہوئے باغوں میں ۔

عَلٰي سُرُرٍ مُّتَـقٰبِلِيْنَ۝۴۴

نہایت ہی مزین مرصع تخت ہائے فاخرہ پرآمنے سامنے ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے رہیں گے۔

يُطَافُ عَلَيْہِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍؚ۝۴۵ۙ

شراب کے چھلکتے ہوئے جام ان کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔

بَيْضَاۗءَ لَذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ۝۴۶ۚۖ

وہ (شراب) سفید ہوگی اور پینے والوں کیلئے نہایت ہی خوش ذائقہ بھی

توضیح :وہ شراب پھلوں سے کشیدکی ہوئی نہ ہوگی بلکہ اس کے قدرتی چشمے ہوں گے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ ۔ اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کے لئے خوش ذائقہ شراب ہوگی (سورۃ محمد آیت ۱۵)

لَا فِيْہَا غَوْلٌ وَّلَا ہُمْ

(دنیا کی شراب کی طرح) کوئی نقصان وہ چیز نہ ہوگی۔

عَنْہَا يُنْزَفُوْنَ۝۴۷

اورنہ اس کے سبب وہ بدحواس ہوں گے (اورنہ ہی وہ فضول بکواس کرینگے)

وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِيْنٌ۝۴۸ۙ

اوران کے پاس (ان کی زوجیت میں) نگاہیں نیچی رکھنے والی باحیا (شرمیلی) بڑی بڑی آنکھوں والی حسین عورتیں ہوں گی۔

كَاَنَّہُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ۝۴۹

گویا کہ وہ بیضۃ الخدر یعنی اس طرح پردہ میں رکھی ہوئی لڑکیاں ہوں گی جنہیں کسی نے دیکھا یا ہاتھ لگایا نہ ہوگا۔

فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ۝۵۰

پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکر حالات پوچھیں گے۔

قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْہُمْ اِنِّىْ كَانَ لِيْ قَرِيْنٌ۝۵۱ۙ

ان میں سے ایک کہے گا۔ دنیا میں میرا ایک ہم نشین تھا۔

يَّقُوْلُ اَىِٕنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِيْنَ۝۵۲

کہتا تھا۔ کیا تم بھی ایسی باتوں کے ماننے والوں میں سے ہو ۔

ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا

کہ جب ہم مرجائیں گے اور مٹی وہڈیاں ہوجائیں گے

ءَاِنَّا لَمَدِيْنُوْنَ۝۵۳

توکیا ہم کوجزا وسزا دی جائے گی۔ (کیا محاسبۂ اعمال کے لئے ہمیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا ؟)

قَالَ ہَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ۝۵۴

ارشاد ہوگا کیا تم جھانک کراس کودیکھنا چاہتے ہو ؟

فَاطَّلَعَ فَرَاٰہُ فِيْ سَوَاۗءِ الْجَحِيْمِ۝۵۵

پس وہ جھانکے گا تواس کودوزخ کے بیچوں بیچ دیکھے گا ۔

قَالَ تَاللہِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِيْنِ۝۵۶ۙ

اس سے مخاطب ہوکر کہے گا۔ اللہ کی قسم تو تومجھے تباہ کرنے ہی کوتھا۔

وَلَوْلَا نِعْمَۃُ رَبِّيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ۝۵۷

اور اگر میرے پروردگار کا فضل شامل حال نہ ہوتا تومیں بھی آج ان گرفتار ہونے والوں میں سے ہوتا۔

اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ۝۵۸ۙ

اچھا توکیا اب ہم (کبھی) مرنے والے نہیں ہیں ؟

اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى

پہلی بار مرنے کے سوا(وہ توہوچکا)

وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ۝۵۹

اور نہ ہم عذاب پانے والوں میں ہیں۔

اِنَّ ھٰذَا لَہُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۶۰

بے شک یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔

لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ۝۶۱

ایسی کامیابی کے لئے عمل کرنے والوںکوعمل کرنا چاہئے (ایمان لانا اور اطاعت کرنی چاہئے)

اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَۃُ الزَّقُّوْمِ۝۶۲

کیا یہ مہمانی (عزت ولذت) بہتر ہے یا زقوم کا درخت

اِنَّا جَعَلْنٰہَا فِتْنَۃً لِّلظّٰلِمِيْنَ۝۶۳

ہم نے اس درخت کوظالموں کے لئے فتنہ بنادیا ہے۔
(یعنی ان کے لئے امتحان وعذاب کا ذریعہ بنایا ہے)

اِنَّہَا شَجَــرَۃٌ تَخْرُجُ فِيْٓ اَصْلِ الْجَحِيْمِ۝۶۴ۙ

وہ ایک درخت ہے جوجہنم کی تہ سے نکلتا ہے۔

توضیح :ہ سن کرکفار مکہ نے قرآن کریم پرطعن اورنبی محترم ﷺ کا مذاق اڑانا شروع کیا۔ لوسنو! اب جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں سے بھی درخت اگے گا، مگرانہوں نے یہ جانا کہ اللہ تعالیٰ آگ میں بھی آتشی جاندار پیدا فرماتے ہیں جسے سمندر کہتے ہیں جوآگ میں پرورش پاتا اور آگ ہی کھاتا، اور آگ سے باہر نکلتے ہی مرجاتا ہے۔

طَلْعُہَا كَاَنَّہٗ رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ۝۶۵

اس کے خوشے شیطان کے سرجیسے ہوں گے۔

ناگ سانپ کی پھنی کی طرح جس کوناگ پھنی یا چپل سینڈ کہتے ہیں۔

فَاِنَّہُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْہَا

پھر وہ(جہنمی) اس درخت کے پھل کھائیں گے۔

فَمَالِـــــُٔوْنَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ۝۶۶ۭ

اور اسی سے پیٹ بھریں گے (یہی ان کی غذا ہوگی)

ثُمَّ اِنَّ لَہُمْ عَلَيْہَا لَشَوْبًا مِّنْ حَمِيْمٍ۝۶۷ۚ

پھر ان کے لئے اس کھانے کے بعد کھولتے ہوئے پانی کے ساتھ (خون و پیپ کا) آمیزہ دیا جائے گا۔

ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَہُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ۝۶۸

پھر ان کی واپسی جہنم ہی کی طرف ہوگی۔

توضیح : جب وہ جہنمی بھوک وپیاس سے بے قرار ہوں گے توانھیں زقوم کے درخت اورکھولتے ہوئے پانی کے چشموں کی طرف ہانک دیا جائے گا۔ جب وہ کھاپی کرفارغ ہوں گے توپھر ان کی واپسی جہنم میں ہی ہوگی۔

اِنَّہُمْ اَلْفَوْا اٰبَاۗءَہُمْ ضَاۗلِّيْنَ۝۶۹ۙ

انہوں نے اپنے آباو اجداد کوگمراہی کی حالت میں پایا ہے۔

فَہُمْ عَلٰٓي اٰثٰرِہِمْ يُہْرَعُوْنَ۝۷۰

پھر یہ بھی انھیں کے قدم بہ قدم دوڑچلے۔

وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَہُمْ اَكْثَرُ الْاَوَّلِيْنَ۝۷۱ۙ

اوران سے پہلے بھی ان کے پیشرو، اکثر گمراہ ہوچکے ہیں۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا فِيْہِمْ مُّنْذِرِيْنَ۝۷۲

حالانکہ ہم نے ان میں (انجام آخرت سے) ڈرانے والے پیغمبر بھیجے تھے۔

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذَرِيْنَ۝۷۳ۙ

پھر دیکھئے ان تنبیہ کئے جانے والوں کا کیا انجام ہوا۔

اِلَّا عِبَادَ اللہِ الْمُخْلَصِيْنَ۝۷۴ۧ

سوائے اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں کے (جن کے عقیدے وعمل میں شرک نہ ہوگا، اس عذاب سے بچالئے جائیں گے)

وَلَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيْبُوْنَ۝۷۵ۡۖ

اورنوحؑ نے (قوم کی اذیت رسانیوں سے تنگ آکر مدد کے لئے) ہمیں پکارا توہم بھی (پکارنے والوں کو) کیا ہی اچھا جواب دینے والے ہیں (یعنی دعاؤں کوسن لیتے اور مدد کرتے ہیں)

وَنَجَّيْنٰہُ وَاَہْلَہٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ۝۷۶ۡۖ

اور ہم نے انھیں اوران کے گھر والوں کوشدید ترین اذیتوں سے نجات دی۔

یہاں محمدﷺ اورآپؐ کے متبعین کواشارۃً تسلی دی گئی کہ اسی طرح تمہیں بھی قوم کی اذیت رسانیوں سے نجات دیں گے۔
توضیح : حضرت نوحؑ مدت ہائے دراز تک قوم کودین کی طرف بلاتے رہے، بجز معدودے چند ساری قوم نے مخالفت کی۔ بالآخر مایوس ہوکر انہوں نے ان الفاظ میں دعا کی فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ (سورہ قمرآیت نمبر ۱۰) اپنے رب سے دعا کی الٰہی میں ان کے مقابلہ میں کمزور ہوں، میری مدد کیجئے۔

وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَہٗ ہُمُ الْبٰقِيْنَ۝۷۷ۡۖ

اوران کی اولاد کودنیا میں باقی رکھا۔

وَتَرَكْنَا عَلَيْہِ فِي الْاٰخِرِيْنَ۝۷۸ۡۖ

اورآنے ولی نسلوں میں ان کا ذکر جمیل چھوڑا۔

طوفان نوحؑ کے ہزاروں برس گزرنے کے بعد بھی دنیا ان کا ذکر خیر کررہی ہے۔

سَلٰمٌ عَلٰي نُوْحٍ فِي الْعٰلَمِيْنَ۝۷۹

نوحؑ پرسلامتی ہودنیا جہاں میں۔

اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝۸۰

ہم نیکوں کاروں کوایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔

اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ۝۸۱

واقعی وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔

ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِيْنَ۝۸۲

پھر ہم نے دوسرے گروہ کوغرق کردیا۔

وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِہٖ لَاِبْرٰہِيْمَ۝۸۳ۘ

اورنوحؑ ہی کے طریقوں پرابراہیمؑ تھے۔

اِذْ جَاۗءَ رَبَّہٗ بِقَلْبٍ سَلِـيْمٍ۝۸۴

جب کہ وہ اپنے رب کے پاس قلب سلیم کے ساتھ آئے۔

اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ وَقَوْمِہٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ۝۸۵ۚ

جب انہوں نے اپنے باپ اوراپنی قوم سے کہا یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم سب عبادت کرتے ہو؟

اَىِٕفْكًا اٰلِــہَۃً دُوْنَ اللہِ تُرِيْدُوْنَ۝۸۶ۭ

کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے ہی گھڑے ہوئے معبودان باطل کی پرستش کرتے ہو؟

فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۸۷

آخر اللہ رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟

توضیح : کیا تم سمجھتے ہو کہ اس طرح شرک کرنے سے وہ تمہیں یونہی چھوڑدے گا؟

فَنَظَرَ نَــظْرَۃً فِي النُّجُوْمِ۝۸۸ۙ

پھر(ابراہیم ؑ نے) تاروں پرایک نگاہ ڈالی اور (سوچنے لگے)

فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ۝۸۹

پھر کہا میں (تمہارے کفر سے) سخت نالاں ہوں۔

فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِيْنَ۝۹۰

چنانچہ وہ لوگ انھیں چھوڑکر واپس ہوگئے۔

فَرَاغَ اِلٰٓى اٰلِـہَــتِہِمْ

پھر وہ(ان کی واپسی کے بعد ان کے مندر میں گھس پڑے) اور ان کے معبودان باطل کی طرف متوجہ ہوئے۔

فَقَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ۝۹۱ۚ

کہا تم (اپنے سامنے رکھی ہوئی بھینٹ چڑھائی ہوئی چیزیں) کھاتے کیوں نہیں ہو؟

مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ۝۹۲

تمہیں کیا ہوگیا ہے، تم بات بھی نہیں کرتے؟

فَرَاغَ عَلَيْہِمْ ضَرْبًۢـا بِالْيَمِيْنِ۝۹۳

پھر پوری قوت کے ساتھ انھیں ضربیں لگائیں۔ (انھیں توڑپھوڑکررکھ دیا)

فَاَقْبَلُوْٓا اِلَيْہِ يَزِفُّوْنَ۝۹۴

پس وہ لوگ (گھبرائے ہوئے) آپکی طرف دوڑے دوڑے چلے آئے۔

توضیح : سورہ انبیاء میں اسکی تفصیل ہے یہاں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ جب قوم نے دیکھا کہ سارے بت ٹوٹے پڑے ہیں توایک دوسرے سے پوچھ گچ شروع کی کچھ لوگوں نے کہا۔ ابراہیم نامی ایک شخص بت پرستی کے تعلق سے ایسی باتیں کرتا رہتا ہے ، اس پر مجمع نے کہا، انھیں پکڑلاؤ ، چنانچہ ایک گروہ دوڑتا ہوا گیا اور (حضرت ابراہیمؑ) کوان کے پاس لے آیا۔

قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ۝۹۵ۙ

ابراہیمؑ نے کہا کیا تم اپنی ہی تراشی ہوئی چیزوں کوپوجتے ہو؟

وَاللہُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ۝۹۶

حالانکہ تم کواللہ نے پیدا کیا اور ان چیزوں کوبھی جنہیں تم بناتے ہو۔

قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْيَانًا فَاَلْقُوْہُ فِي الْجَــحِيْمِ۝۹۷

انہوں نے آپس میں کہا، ان کے لئے آگ کا ایک آلاؤ تیار کرواور(دہکتی ہوئی) آگ میں انھیں ڈال دو۔

فَاَرَادُوْا بِہٖ كَيْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَسْفَلِيْنَ۝۹۸

انہوں نے ان کی خلاف (انھیں جلاکر ہلاک کرنے کی) تدبیریں کیں تھیں، لیکن ہم نے انھیں نیچا دکھا دیا۔

توضیح : ان کی یہ تدبیریں کارگرنہ ہوئیں اورانھیں آگ میں جلنے سے بچالیا گیا۔

وَقَالَ اِنِّىْ ذَاہِبٌ اِلٰى رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِ۝۹۹

اورابراہیمؑ نے کہاں میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں وہی مجھے راستہ دکھائے گا (یعنی اللہ تعالیٰ ہی کا ہورہنے میں قوم دشمنی پرتل گئی ہے اس لئے میں اللہ ہی کے لئے اور اللہ ہی کے بھروسہ پرترک وطن کرتا ہوں وہی میری رہنمائی فرمائے گا )

رَبِّ ہَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۱۰۰

(اورساتھ ہی دعا فرمائی) ائے میرے پروردگار مجھے ایک بیٹا عنایت فرمائیے جوصالحین میں سے ہو

فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ۝۱۰۱

سوہم نے ایک حلیم الطبع لڑکے کی بشارت دی۔

فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَہُ السَّعْيَ

جب وہ ان کے ساتھ دوڑدھوپ کرنے کی عمر کو پہنچا تو۔

قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ

ابراہیمؑ نے کہا، ائے میرے بیٹے میں نے خواب میں تمہیں ذبح کرتے دیکھا ہے۔

فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى۝۰ۭ

اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟

قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ۝۰ۡسَتَجِدُنِيْٓ

صاحبزادے نے کہا، ابا جان آپ کوجو حکم ہوا ہے وہی کیجئے

اِنْ شَاۗءَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۰۲

انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔

فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِيْنِ۝۱۰۳ۚ

پھرجب دونوں نے سرتسلیم خم کردیا توباپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا(وہ ذبح کرنے ہی کوتھے کہ)

وَنَادَيْنٰہُ اَنْ يّٰٓــاِبْرٰہِيْمُ۝۱۰۴ۙ

ہم نے انھیں آواز دی، ائے ابراہیمؑ

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا۝۰ۚ

تم نے اپنا خواب سچا کردکھایا۔

اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۰۵

بے شک ہم نیکی کرنے والوں کوایسی ہی جزادیتے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے حکم پرجان ومال قربان کردینے کا عزم ہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کوتکلیف و رنج میں بلاوجہ مبتلا نہیں کرتے بلکہ ان کی آزمائش ، درجات بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔

اِنَّ ھٰذَا لَہُوَالْبَلٰۗــؤُا الْمُبِيْنُ۝۱۰۶

یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی(اطاعت کا امتحان تھا)

وَفَدَيْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ۝۱۰۷

اورہم نے اس کے فدیہ میں ایک بڑی قربانی دے کراس کو بچالیا۔

توضیح :اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتوں نے ایک مینڈھا حضرت اسماعیلؑ کی جگہ رکھ دیا، تا کہ بیٹے کے بدلے وہ ذبح ہوجائے اوریہ ایک بڑی قربانی قرار دی گئی۔

وَتَرَكْنَا عَلَيْہِ فِي الْاٰخِرِيْنَ۝۱۰۸ۖ

اور اس کی تعریف وتوصیف ہم نے بعد میں آنے والوں کے لئے ہمیشہ کے لئے چھوڑدی۔

کہ اطاعت وجاں نثاری کے اس واقعہ کی عظیم الشان یادگار قیامت تک باقی رہے۔

سَلٰمٌ عَلٰٓي اِبْرٰہِيْمَ۝۱۰۹

سلام ہے ابراہیمؑ پر

كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۱۰

ہم نیکی کرنے والوں کوایسی ہی جزادیتے ہیں۔

اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۱۱

بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے

وَبَشَّرْنٰہُ بِـاِسْحٰقَ نَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۱۱۲

اور ہم نے انھیں ایک اورفرزند اسحاقؑ کی بشارت دی کہ وہ نبی ہوں گے اور نہایت ہی شائستہ لوگوں میں سے ہوںگے۔

وَبٰرَكْنَا عَلَيْہِ وَعَلٰٓي اِسْحٰقَ۝۰ۭ

اور ہم نے ان پر اوراسحاق پربرکتیں نازل کیں

وَمِنْ ذُرِّيَّـتِہِمَا مُحْسِنٌ

اور ان دونوں کی اولاد میں کوئی نیکوکار ہے

وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ مُبِيْنٌ۝۱۱۳ۧ

توکوئی اپنے آپ پرظلم کرنے والا گنہگار۔ (یعنی مشرک، کافر، فاسق وغیرہ)

توضیح :جس فرزند کے ذبح ہونے کا ذکر ہے وہ حضرت اسمٰعیلؑ ہیں۔ مگر اہل کتاب کا صدیوں سے یہ رویہ ہے کہ وہ حضرت اسحاقؑ کو حضرت ابراہیمؑ کا بڑا بیٹا ثابت کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ ان کی کتابوں میں لکھا ہوا تھا کہ نبی آخرالزماں حضرت ابراہیمؑ کے بڑے بیٹے کی نسل سے ہوں گے۔ جب حضرت محمدﷺ، حضرت اسمٰعیل کی نسل سے پیدا ہوئے، جو حضرت ابراہیمؑ کے بڑے بیٹے تھے، تواہل کتاب نے آنحضرتﷺ کی رسالت کا انکار کردیا۔ اورلوگوں کوباورکروایا کہ نعوذ باللہ یہ رسول جھوٹے ہیں، کیونکہ ہماری کتابوں کے لحاظ سے آخری نبی تواسحاقؑ کی اولاد میں سے ہوں گے اور اسحقؑ ہی ابراہیمؑ کے بڑے بیٹے ہیں۔ اس کے برخلاف قرآن مجید ہی سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے بڑے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل ہی تھے۔ چنانچہ حضرت ا براہیمؑ خود کہتے ہیں ’ ’الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ‘‘ (سورہ ابراہیم آیت نمر ۳۹) ترجمہ:۔ شکر ہے اللہ کا جس نے بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحٰق عطا کیے۔
نیز، حضرت اسحاقؑ کے پیدا ہونے کی جوبشارت دی گئی ہے۔ غلامٌ علیم ہے اور یہاں جس لڑکے کی بشارت دی گئی ہے بغلام حلیم۔ ذبح کاحکم بغلام حلیم ہی سے متعلق ہے، اس کے علاوہ حضرت اسحاقؑ کی پیدائش کی بشارت کے ساتھ حضرت ابراہیمؑ کے پوتے حضرت یعقوبؑ کی بشارت بھی دی گئی ہے۔

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰي مُوْسٰى وَہٰرُوْنَ۝۱۱۴ۚ

اور ہم نے موسیٰ وہارونؑ پر بھی احسانات کئے

وَنَجَّيْنٰہُمَا وَقَوْمَہُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ۝۱۱۵ۚ

اور ہم نے ان کو اوران کی قوم کوایک نہایت ہی شدید مصیبت سے نجات دی۔

فرعون اور اس کی قوم کے مظالم سے بنی اسرائیل کوبچالیا۔

وَنَصَرْنٰہُمْ فَكَانُوْا ہُمُ الْغٰلِبِيْنَ۝۱۱۶ۚ

اور ہم نے ان کی مدد کی، چنانچہ وہ غالب رہے۔

وَاٰتَيْنٰہُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِيْنَ۝۱۱۷ۚ

اور ہم نے ان دونوں کوایک نہایت ہی واضح کتاب( توریت) عنایت کی۔

وَہَدَيْنٰہُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَــقِيْمَ۝۱۱۸ۚ

اورانھیں راہ راست دکھائی۔

وَتَرَكْنَا عَلَيْہِمَا فِي الْاٰخِرِيْنَ۝۱۱۹ۙ

اور ان کے بعد آنے والی نسلوں کے لئے ان کا ذکر خیر (مستند تاریخی حیثیت سے) باقی رکھا۔

سَلٰمٌ عَلٰي مُوْسٰى وَہٰرُوْنَ۝۱۲۰

سلام ہوموسیٰ وہارونؑ پر

اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۲۱

ہم نیکی کرنے والوں کوایسی ہی جزا دیتے ہیں

اِنَّہُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۲۲

واقعی وہ دونوں ہمارے مومن بندوں میں سے تھے

وَاِنَّ اِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۱۲۳ۭ

اور یقینا الیاسؑ بھی پیغمبروں میں سے تھے۔

اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۲۴

جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کیا تم (اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام سے) نہیں ڈرتے ؟

اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ۝۱۲۵ۙ

کیا تم بعل نامی بت کومدد کے لئے پکارتے ہو اور سب سے بہتر پیدا کرنے والے احسن الخالقین کوچھوڑدیتے ہو ؟

اللہَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ اٰبَاۗىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۲۶

اللہ تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے گذرے ہوئے آباء واجداد کا (بلاشرکت غیرے) پروردگار ہے۔

فَكَذَّبُوْہُ فَاِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ۝۱۲۷ۙ

مگر انہوں نے انھیں جھٹلایا، پس یقیناً وہ (سزا کے لئے) پیش کئے جانے والے ہیں۔

اِلَّا عِبَادَ اللہِ الْمُخْلَصِيْنَ۝۱۲۸

بجز اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کے جن کو خالص کرلیا گیا تھا۔

توضیح : خاص بندوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ صحیح اوراعمال صالح ہوں۔

وَتَرَكْنَا عَلَيْہِ فِي الْاٰخِرِيْنَ۝۱۲۹ۙ

اور ہم نے (الیاسؑ کا ذکرخیر بھی تاریخی حیثیت سے) بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے باقی رکھا۔

سَلٰمٌ عَلٰٓي اِلْ يَاسِيْنَ۝۱۳۰

سلام ہوا الیاسؑ پر

اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۳۱

ہم نیکی کرنے والوں کوایسی ہی جزادیتے ہیں۔

اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۳۲

بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔

وَاِنَّ لُوْطًا لَّمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۱۳۳ۭ

اور یقیناً لوطؑ بھی پیغمبروں میں سے تھے۔

اِذْ نَجَّيْنٰہُ وَاَہْلَہٗٓ اَجْمَعِيْنَ۝۱۳۴ۙ

جبکہ ہم نے لوطؑ کو اوران کے گھر والوں کونجات دی(عذاب سے بچالیا)

اِلَّا عَجُوْزًا فِي الْغٰبِرِيْنَ۝۱۳۵

سوائے ایک بڑھیا کے جوپیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔
(جس کا مبتلائے عذاب ہونا طے شدہ تھا)

ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِيْنَ۝۱۳۶

پھر ہم نے باقی سب کوتہس نہس کردیا۔

وَاِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَيْہِمْ مُّصْبِحِيْنَ ۝۱۳۷ۙ وَبِالَّيْلِ۝۰ۭ

اور(ائے منکران قوم) تم صبح شام ان قوموں کی تباہ شدہ بستیوں پرسے گذرتے ہو۔

اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۳۸ۧ

توکیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے(کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں) ؟

کچھ توسمجھ بوجھ سے کام لئے ہوتے اور دوسروں سے عبرت لئے ہوتے۔

وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۱۳۹ۭ

اوریونسؑ بھی پیغمبروں میںسے تھے۔

اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝۱۴۰ۙ

جب وہ ایک بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ نکلے (اورجاسوار ہوئے)

توضیح : کشتی پہلے ہی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھی۔ آپ کے سوار ہوجانے کے بعد توازن کے قائم نہ رہنے سے ڈگمگانے لگی اور مسافروں کی جان خطرے میں پڑگئی، طے پایا کہ کشتی میں سے ایک شخص کودریا میں ڈھکیل دیا جائے، توسب کی جان بچ سکتی ہے، چنانچہ

فَسَاہَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ۝۱۴۱ۚ

کشتی والوں میں قرعہ اندازی ہوئی (آپ بھی شریک قرعہ ہوئے)
تووہ زک وہزیمت اٹھانے والوں میں سے ہوگئے۔
(چنانچہ انھیں دریا میں ڈھکیل دیا گیا)

فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَہُوَمُلِـيْمٌ۝۱۴۲

پس مچھلی نے انھیں (ثابت) نگل لیا اور وہ اپنے آپکوملامت کرتے رہے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ نے حضرت یونسؑ کوانھیں کی قوم میں مامور فرمایا تھا۔ قوم نے انھیں پیغمبر تسلیم نہیں کیا توایمان نہ لانے کی پاداش میں عذاب الٰہی کے واقع ہونے کی قوم کوخبر دی۔ اور خود اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نکل گئے۔ وقت مقررہ پرجب عذاب کا نزول ہونے لگا تو قوم نے آہ وزاری کی اور ایمان لے آئی۔ یہاں تک کہ عذاب ٹل گیا۔ یہی ایک قوم ایسی گذری ہے۔ جسے عذاب الٰہی کے بعد بچالیا گیا۔ حضرت یونسؑ کوعذاب کے واقع نہ ہونے کی خبر پہنچی تو وعدۂ عذاب کے پورانہ ہونے کی وجہ لوگ کہیں انھیں جھوٹا قرار نہ دیں۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر دریا کی طرف چل پڑے تھے۔
ابق کا لفظ ان ہی لوگوں پر بولا جاتا ہے جو اپنے آقا، مالک، رب کی اجازت کے بغیر بھاگ جاتے ہیں۔ جب آپ کو اس بات کا احساس ہوا تو اپنے آپ پرملامت کرنے لگے۔

فَلَوْلَآ اَنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِيْنَ۝۱۴۳ۙ

اگر وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے۔

توضیح : یہ تسبیح نہ کئے ہوتے کہ اللہ تعالیٰ آپ کسی پر ظلم وزیادتی کرنے کے نقص سے پاک ہیں دراصل میں ہی قصورواروں میں سے ہوں۔

لَـلَبِثَ فِيْ بَطْنِہٖٓ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۝۱۴۴ۚ

تو وہ لوگوں کے دوبارہ زندہ کئے جانے۔ (یعنی قیامت) تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ (یعنی مچھلی کا پیٹ ان کی قبر بنتا)

فَنَبَذْنٰہُ بِالْعَرَاۗءِ وَہُوَسَقِيْمٌ۝۱۴۵ۚ

پھر ہم نے انھیں ایک ساحلی چٹیل میدان میں ڈال دیا اور وہ اس وقت نہایت ہی مضمحل وناتوان تھے۔

وَاَنْۢبَتْنَا عَلَيْہِ شَجَرَۃً مِّنْ يَّقْطِيْنٍ۝۱۴۶ۚ

اورہم نے ان پر ایک بیل دار پودا اگایا (مثل تربوز وغیرہ تا کہ وہ ان پر سایہ کئے ہوئے رہے اوراس کا پھل غذا اور پانی کا کام دے)

وَاَرْسَلْنٰہُ اِلٰى مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ۝۱۴۷ۚ

اور ہم نے ان کو لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا (یہ وہی بستی تھی جس کو چھوڑکر حضرت یونسؑ بھاگ نکلے تھے۔)

فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰى حِيْنٍ۝۱۴۸ۭ

پھر وہ لوگ ایمان لے آئے توہم نے انھیں ایک خاص وقت تک دنیا سے متمتع ہونے کا موقع دیا۔

فَاسْتَفْتِہِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَہُمُ الْبَنُوْنَ۝۱۴۹ۙ

ائے نبی(ﷺ) ان مشرکین سے پوچھئے کہ تمہارے پروردگار کے لئے توبیٹیاں اور خود ان کے لئے بیٹے ہیں۔

توضیح : عرب میں قریش جہنیہ بنی سلمہ، خزاعہ، بنی ملیح اور بعض دوسرے قبائل انھیں اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان سفارشی قراردیتے ہوئے، فرشتوں کے تعلق سے لوازم عبادت بجالاتے تھے۔

اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ اِنَاثًا وَّہُمْ شٰہِدُوْنَ۝۱۵۰

کیا واقعی ہم نے فرشتوں کوعورتیں ہی بنایا ہے اور کیا وہ اس وقت موجود تھے۔ (کیا یہ آنکھوں دیکھی بات کہہ رہے ہیں)

اَلَآ اِنَّہُمْ مِّنْ اِفْكِہِمْ لَيَقُوْلُوْنَ۝۱۵۱ۙ

دیکھو یہ اپنی جھوٹ موٹ بنائی ہوئی (بات) کہتے ہیں کہ

وَلَدَ اللہُ۝۰ۙ

اللہ تعالیٰ اولاد رکھتے ہیں۔

وَاِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۱۵۲

بے شک وہ بڑے ہی جھوٹے ہیں۔

اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَي الْبَنِيْنَ۝۱۵۳ۭ

کیا اللہ تعالیٰ نے بیٹوں کے مقابلے میں اپنے لئے بیٹیاں پسند کرلیں ؟

مَا لَكُمْ۝۰ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ۝۱۵۴

تمہیں کیا ہوگیا (تمہاری عقلیں کہاں ماری گئیں) تم کیسا (غلط اوربیہودہ) حکم لگاتے ہو۔

اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۱۵۵ۚ

کیا تم غوروفکر سے کام نہیں لیتے ؟

اَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِيْنٌ۝۱۵۶ۙ

کیا تمہارے پاس اس غلط وباطل عقیدے کے جواز میں کوئی سند علمی ہے؟

فَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۱۵۷

اگر تم سچے ہو تو اپنی کتاب پیش کرو( جس کے تم مدعی ہو ؟ )
( اور جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ فرشتے میری بیٹیاں ہیں)

وَجَعَلُوْا بَيْنَہٗ وَبَيْنَ الْجِنَّۃِ نَسَـبًا۝۰ۭ

اورانہوں نے اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان نسب کا رشتہ قرار دے رکھا ہے۔

توضیح :بعض مفسرین نے جِنْ کے معنی پوشیدہ مخلوق کے لحاظ سے فرشتہ کیا ہے۔ اور بعد کا مضمون اسی کا مقتضی ہے)

وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ۝۱۵۸ۙ

حالانکہ اجنہ خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ (جو اللہ تعالیٰ پر ایسی جھوٹی باتیں بناتے ہیں) مجرم کی حیثیت سے حاضر کئے جانے والے ہیں۔

سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يَصِفُوْنَ۝۱۵۹ۙ

اللہ تعالیٰ پاک ہیں ان صفات سے جن کویہ اللہ تعالیٰ کی طرف متصف کرتے ہیں۔

اِلَّا عِبَادَ اللہِ الْمُخْلَصِيْنَ۝۱۶۰

مگر اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ایسے باطل عقائد نہیں رکھتے لہٰذا

فَاِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ۝۱۶۱ۙ

تم اور جن کوتم پوجتے ہو(جن کی عبادت کرتے ہو)

مَآ اَنْتُمْ عَلَيْہِ بِفٰتِـنِيْنَ۝۱۶۲ۙ

(اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں میں سے) کسی کو بھی نہیں بہکاسکتے۔

اِلَّا مَنْ ہُوَصَالِ الْجَحِيْمِ۝۱۶۳

مگر اس کو جو دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہونے والا ہے(جس کا جہنمی ہونا طے شدہ ہے وہی تمہارے دام فریب میں آسکتا ہے)

توضیح : ادھر فرشتوں کے تعلق سے مشرکین کا یہ عقیدہ ہے اور ادھر فرشتے کہتے ہیں۔

وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ۝۱۶۴ۙ

کہ ہم میں سے ہر ایک مقام مقرر ہے۔

وَّاِنَّا لَنَحْنُ الصَّاۗفُّوْنَ۝۱۶۵ۚ

اور ہم تواللہ رب العزت کے صف بستہ خدمت گار ہیں

وَاِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ۝۱۶۶

اور ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کی تسبیح بیان کرنے والے ہیں۔

(اللہ تعالیٰ کا ہرنقص وعیب سے پاک ہونا بیان کرتے رہتے ہیں)

وَاِنْ كَانُوْا لَيَقُوْلُوْنَ۝۱۶۷ۙ

اور یہ (منکران حق) یہ بھی کہا کرتے تھے کہ

لَوْ اَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۶۸ۙ

اگر ہمارے پاس بھی پہلے کے لوگوں کی طرح کتاب آتی تو

لَكُنَّا عِبَادَ اللہِ الْمُخْلَصِيْنَ۝۱۶۹

یقیناً ہم (بلاشرکت غیرے) خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے

فَكَفَرُوْا بِہٖ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ۝۱۷۰

مگر جب وہ کتاب آگئی توانہوں نے اس کا انکار کردیا۔ پس عنقریب وہ (انکار حق کے نتیجہ کو) جان لیں گے۔

وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ۝۱۷۱ۚۖ

اورپیام الٰہی پہنچانے والے بندوں کے بارے میں ہماری یہ بات طے شدہ ہے کہ

اِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ۝۱۷۲۠

بیشک (ہمارے رسولؐ) مخالفین کے مقابلے میں کامیاب ہوکر رہیں گے۔

وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۱۷۳

اور ہمارا لشکر ہی ان پر غالب ہوکر رہے گا۔

فَتَوَلَّ عَنْہُمْ حَتّٰى حِيْنٍ۝۱۷۴ۙ

پس(ائے نبیﷺ) آپ کچھ مدت تک ان سے کنارہ کش رہئے (انھیں ان کے حال پر چھوڑدیجئے)

وَّاَبْصِرْہُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُوْنَ۝۱۷۵

اورانھیں دیکھتے رہئے، عنقریب وہ بھی اپنے انجام کودیکھ لیں گے۔

اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْــجِلُوْنَ۝۱۷۶

کیا وہ ہمارے عذاب کے لئے جلدی کرتے ہیں؟

فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِہِمْ

جبہمارا عذاب ان کے قریب میدانوں میں آئے گا

فَسَاۗءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِيْنَ۝۱۷۷

تووہ ان کے لئے بہت ہی برا ہوگا جنہیں ڈرایا گیا ہے۔

وَتَوَلَّ عَنْہُمْ حَتّٰى حِيْنٍ۝۱۷۸ۙ

اور آپ کچھ مدت تک ان سے منہ پھیرلیجئے (انھیں کے حال پر چھوڑ دیجئے)

وَّاَبْصِرْ فَسَوْفَ يُبْصِرُوْنَ۝۱۷۹

اورانھیں دیکھتے رہئے پس عنقریب یہ بھی(اپنے کفر کا نتیجہ) دیکھ لیں گے۔

سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا يَصِفُوْنَ۝۱۸۰ۚ

(ائے نبیﷺ) آپ کا پروردگار پاک ہے ان مشرکانہ باتوں سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔

وَسَلٰمٌ عَلَي الْمُرْسَلِيْنَ۝۱۸۱ۚ

اور سلام ہو تمام رسولوں پر

وَالْحَـمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۸۲ۧ

اور ساری تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو سارے عالمین کا رب (حاجت روا، کارساز، مالک ومختار) ہے۔