☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

سَبَّحَ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

آسمانوں اور زمین میں ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔

توضیح : کائنات ارضی وسماوی کا ذرّہ ذرّہ زبانِ حال سے اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مشرکانہ عقائد سے پاک ومنزہ ہیں جو مشر کین اپنے طور پر گھڑ رکھے ہیں۔

وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱

وہ بڑا ہی زبر دست حکمت والا ہے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے سارے تجاویز نہایت اٹل اور حکیمانہ ہیں۔ وہ الحکیم ہے اور ساری مخلوق غیر حکیم، غیر حکیم کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ الحکیم کے تجاویز میں دخل اندازہوں۔

لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ

آسمانوں اور زمین کی فرمانروائی اسی کے لئے ہے

توضیح :کائنات کا یہ سارا نظام اللہ تعالیٰ ہی مقررکیا ہوا ہے۔ اس نظامِ الٰہی میں کوئی فرد ِخلق کسی حیثیت سے سبھی شریک و دخیل نہیں ہے۔

يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۝۰ۚ
وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲
ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۝۰ۚ

وہی زندگی بخشتا ہے۔( موت اور حیات اسی کے اختیار میںہے۔)
اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
وہی ہر شئے کے اول اور انجام کو جانتا ہے
اور اس کے ظاہر وباطن کوبھی

وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۳
ہُوَالَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ
فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ
ثُمَّ اسْـتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۝۰ۭ
يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْــرُجُ مِنْہَا
وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ
وَمَا يَعْرُجُ فِيْہَا۝۰ۭ
وَہُوَمَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ۝۰ۭ

اور وہ ہر شئے کو بخوبی جانتا ہے۔
وہی توہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا

پھر عرش پر متمکن ہوا
وہ جانتا ہے جو کچھ زمین کے اندر داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے
اور جو آسمان سے اتر تا ہے
اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے
وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۴
لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ
وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝۵

اور جو کچھ تم کرہے ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہے ہیں۔
آسمانوں اور زمین کی فرماں روائی اسی کے لئے ہے اور تمام امور فیصلے کے لئے اسی کے پاس لوٹائے جاتے ہیں۔

يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ
وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ۝۰ۭ
وَہُوَعَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۶

وہی رات کو دن میں داخل کرتاہے
اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے
اور وہ دلوں کے رازوں سے تک واقف ہے ۔

توضیح : ایسی وسیع العلم وسیع القدرت، ہستی کی نسبت یہ عقیدہ پیدا کرلینا کہ وہ اپنے مقرب بندوں کو اپنا شریک کار بنائے رکھا ہے اور ان کے واسطے وسیلے کے بغیر دعاؤں کی شنوائی نہیں ہو تی اور نہ دنیاو آخرت کا کوئی کام بن سکتا ہے نری جہالت اور اللہ تعالیٰ پر بہتان تراشی و ظلم عظیم ہے ۔

اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ
وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِيْنَ فِيْہِ۝۰ۭ
فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَاَنْفَقُوْا لَہُمْ اَجْرٌ كَبِيْرٌ۝۷

پس اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول ؐ پر بھی
اور اس مال میں سے (راہ حق میں دین کی بقاء واشاعت میں)خرچ کیا کرو۔ جس مال کا تمہارے مورث کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا
لہٰذا جو لوگ تم میں سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں(اور راہ حق میں) مال خرچ کرتے ہیں ان کے لئے بڑا اجر ہے ۔

وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۚ وَالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ
وَقَدْ اَخَذَ مِيْثَاقَكُمْ
اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۸

اور (اہل کتاب) تم کو کیا ہو گیا کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے جب کہ رسول ﷺ تم کو تمہارے اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں
اور خود اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنے آخری رسول ؐ پر ایمان لے آنے کا وعدہ لے رکھا ہےاگر تم(اللہ کی اس یاددہانی کا) یقین کرنے والوں میں سے ہو ۔

سورہ مائدہ میں اسی معاہدہ کا ذکر ہے:
توضیح :وَاذْكُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَيْكُمْ وَمِيْثَاقَہُ الَّذِيْ وَاثَقَكُمْ بِہٖٓ۝۰ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۷
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کے اس فضل ورحمت کو یاد رکھو کہ اس نے تم کو دین کی تعلیم دے کر تمہارے لئے دنیا و آخرت کی سعادت کا سا مان کردیا اور اس پختہ عہد کو یاد رکھو جو اللہ تعالیٰ نے تم سے لیا تھا اور تم نے کہا تھا کہ ہم نے سن لیا اور قبول کرلیا۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اقرار بندگی کے پورا نہ کرنے کی اللہ تعالیٰ نے جو سزا مقرر کر رکھی ہے اس سے ڈرو، بے شک اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں خوب واقف ہیں ۔

ہُوَالَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِہٖٓ اٰيٰتٍؚ بَيِّنٰتٍ
لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ
اِلَى النُّوْرِ۝۰ۭ
وَاِنَّ اللہَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۹

وہی تو ہے جس نے اپنے بندہ (محمد ﷺ) پر اپنی واضح تعلیم نازل کی

تاکہ تم کوکفر و جہل کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی میں لے آئے

اور بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بڑے ہی شفیق اور بڑے ہی مہر بان ہیں۔

وَمَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلِلہِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

اورتمہیں کیا ہو گیا کہ تم اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ نہیں کرتے؟
آسمانوں اور زمین کی ملکیت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے ۔

توضیح : موت آئے گی تو اپنا سب مال چھوڑ کر مرجاؤ گے۔ ایسے چھوڑ نے سے بہتر تو یہ تھا کہ مال کو راہِ خدامیں دے دیا جا تا پھر وہ ذخیرئہ آخرت ہوجاتا ۔

لَايَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ۝۰ۭ

تم میں سے جس نے فتح مکہ سے قبل اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا اور (اہل باطل سے) جدال وقتال کرتا رہا

اُولٰۗىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً
مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا۝۰ۭ
وَكُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ
وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝۱۰ۧ

وہ لوگ درجہ میں ان لو گوں سے بڑھے ہوئے ہیں
جنھوں نے فتح مکّہ کے بعد خرچ کیا اور کفّار سے جہاد و قتال کیا
تاہم دونوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے اچھا وعدہ کر رکھا ہے
اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ ان سے باخبر ہیں (کہ تم میں سے کسی نے کس موقع پر جان ومال کی قربانی دی)

توضیح :یہ آیت حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی فضیلت میں نازل ہوئی کہ آپ سب سے پہلے ایمان سے مشرف ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے شمار جانی ومالی قربانیاں دیں ۔

مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا
فَيُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَلَہٗٓ اَجْرٌ كَرِيْمٌ۝۱۱ۚ
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ
يَسْعٰى نُوْرُہُمْ بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَبِاَيْمَانِہِمْ

کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض دے ۔اچھا قرض(یعنی اپنال مال جہاد اور دین حق کی بقاء کے لئے اور فی سبیل اللہ بطیب خاطر خرچ کرے)
تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کا مال کئی گنابڑھا کر دیں گے۔
اور اس کیلئے (اللہ تعالیٰ کے پاس) بہترین اجر ہے (ائے نبی ﷺ) جس دن آپ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو دیکھیں گے کہ
ان(کے ایمان) کا نور ان کے آگے اور ان کی داہنی طرف دوڑتا ہوگا (یہ نور پل صراط پر سے گزرنے کے لئے ان کے ساتھ ہوگا)

بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۲ۚ
يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا

(تو وہ ان سے کہا جائے گا) آج تمہارے لئے خوش خبری ہے ایسے باغوں کی، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور جن میں تم ہمیشہ ہمیشہ رہو گے
اور یہی بڑی کا میابی ہے ۔
اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں اہل ایمان سے کہیں گے

توضیح : یہ وہ دن ہو گا کہ لوگ پل صراط سے گزرنے لگیں گے۔اہل ایمان اپنے اعمال کے لحاظ سے تیزی کے ساتھ گزر جائیں گے اوراہل کفر و شرک کٹ کٹ کر دوزخ میں گریں گے۔

انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ۝۰ۚ قِيْلَ ارْجِعُوْا وَرَاۗءَكُمْ

(ذرا) ہمارا بھی انتظار کیجئے تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ حاصل کر سکیں
(مگر) انھیں جواب دیا جائے گا، پیچھے ہٹ جاؤ اور اپنا نور کہیں تلاش کرو

فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا۝۰ۭ
فَضُرِبَ بَيْنَہُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ۝۰ۭ

بَاطِنُہٗ فِيْہِ الرَّحْمَۃُ
وَظَاہِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ۝۱۳ۭ

پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی، جس میں ایک دروازہ ہوگا
جس کے اندرونی حصہ میں رحمت الٰہی ہوگی
اور اس کے بیرونی حصہ میں عذاب ہوگا۔

توضیح :اندر کی جانب جہاںاہل ایمان ہوں گے وہاں توخداکی رحمت اور اس کی نعمتیںہوںگی اور باہرکی جانب جہنم اور اس کا عذاب ہوگا۔

يُنَادُوْنَہُمْ اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ۝۰ۭ

قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ
وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ
وَغَرَّتْكُمُ الْاَمَانِيُّ

(اس عذاب کو دیکھ کر منافق) اہل ایمان سے کہیں گے، کیا ہم دنیا میں تمہارے ساتھ نہ تھے؟
اہل ایمان کہیں گے ہاں تم ہمارے ساتھ تو تھے لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا
اور موقع پرستی کی اور(دینِ الٰہی کے بارے میں) شک وشبہ میں پڑے رہے
اور تمہاری بے جا تمنّا ؤں(غلط آرزوؤں) نے تمہیں دھو کہ میں ڈال رکھا

حَتّٰى جَاۗءَ اَمْرُ اللہِ وَغَرَّكُمْ بِاللہِ الْغَرُوْرُ۝۱۴
فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَۃٌ وَّلَا مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ
مَاْوٰىكُمُ النَّارُ۝۰ۭ
ہِىَ مَوْلٰىكُمْ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝۱۵

تا آں کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آگیا اور آخروقت تک اس دھو کہ باز (شیطان) نے تم کو دھو کہ میں رکھا۔
آج تم سے کوئی فد یہ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ان لو گوں سے جنھوں نے کفر کیا۔
تمہارا ٹھکا نہ دوزخ ہے
وہی تمہارے لائق ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے ۔

اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓااَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِكْرِ اللہِ
وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ۝۰ۙ

(احوالِ قیامت کو سن لینے کے بعد بھی )کیا اہل ایمان کے لئے ابھی وقت نہیں آیاکہ ان کے دل ذکر الٰہی سے نرم اور رقیق ہو جائیں
اور جو کچھ حقائق(قرآن کے ذریعہ) بیان کئے گئے ہیں اس سے ان کے دل نرم و گداز ہو جائیں

وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ
فَطَالَ عَلَيْہِمُ الْاَمَدُ
فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ۝۰ۭوَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ۝۱۶

اور وہ ان لو گوں کی طرح نہ ہو جائیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی(لیکن انھوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ اس کے سمجھنے کی کوشش کی)
(اسی حالت میں) ایک زمانہ دراز گزر گیا
تو ان کے دل سخت ہو گئے (قبولیت حق کی صلاحیت باقی نہ رہی) اور ان میں سے اکثر فاسق ہی رہے ۔

دین اسلام کو قبول نہ کرکے آج بھی یہ قوم کافر بنی ہوئی ہے۔

اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ

قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۱۷

یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہی زمین کو اس کے مردہ(یعنی خشک اور نا قابل نمو ہونے کے بعد زندہ کرتے ہیں یعنی زمین پر مینہ برسا کر اسے نباتات اگانے کے قابل بنادیتے ہیں)
یقیناً ہم نے اپنی نشانیاں کھول کر تم سے بیان کردی ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو۔

توضیح :جس طرح خشک و مردہ زمین مینہ برسنے کے بعد نبا تات کے اگانے کے قابل ہو جاتی ہے اسی طرح کلام الٰہی کے آبِ حیات سے مُردہ دل بھی زندہ ہو سکتے ہیں،یعنی سوچ سمجھ کر احکام الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے ارادہ سے تلاوت کی جاتی ہے تو اس کا فائدہ یقیناً حاصل ہو تا ہے ۔

اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ
وَ اَقْرَضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا

بے شک خیر خیرات کرنے والے مرد اور خیر خیرات کرنے والی عورتیں
خلوص و خوش دلی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو قرض دے رہے ہیں
یعنی جہاد وقتال میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں

يُّضٰعَفُ لَہُمْ

ان کا وہ انفاق(اللہ کی راہ میں خرچ کرنا) ان کے لئے کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا

وَلَہُمْ اَجْرٌ كَرِيْمٌ۝۱۸
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ۝۰ۤۖ وَالشُّہَدَاۗءُ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۭ لَہُمْ

اور ان کے لئے بہترین اجر ہے ۔
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، ایسے ہی لوگ اپنے رب کے پاس صدیق و شہید ہیں
ان کے لئے ان کے اعمال کا خصوصی اجر ہے اور (پل صراط پر)ان کے

اَجْرُہُمْ وَنُوْرُہُمْ۝۰ۭ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۝۱۹ۧ

ایمان کی خصوصی روشنی
اور جن لو گوں نے کفر کیا اور ہما ری آیتوں کو جھٹلا یا وہ دوزخی ہیں

اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِيْنَۃٌ
وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ

خوب جان لو کہ دنیوی زندگی(آخرت کے مقابلہ میں) ایک کھیل تماشہ ظاہری زیب و زینت ہے

اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا

وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۝۰ۭ
كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ
ثُمَّ يَہِيْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا
ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا۝۰ۭ

اور مال واولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش میں لگے رہنا ہے
اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ (اس سے کھیتی اگتی اور خوب بہار پر آتی ہے تو ) کسانوں کو بھلی لگتی ہے
پھر ائے دیکھنے والے تو اس کو دیکھتا ہے کہ پک کر زرد پڑجا تی ہے
پھر وہ خس و خاشک کی طرح ہو جاتی ہے

اسی طرح دنیا بھی چند روزہ بہار ہے۔ بالآخر یہاں کی ہر چیز فنا ہونے والی ہےیہاں کسی کا مستقل ٹھکا نہ نہیں ہے یہاں کی بہار بھی عار ضی اور خزاں بھی عار ضی

وَفِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ۝۰ۙ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانٌ۝۰ۭ

اور آخرت میںکافروں کے لئے شدید ترین عذاب ہے اور (اہل ایمان کے لئے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش و رضا مندی ہے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان نیک بندوں کو جنھوں نے الٰہی تعلیم کے مطابق دنیوی زندگی گزاری تھی رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ (اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوگئے) کا جانفزا مژدہ سنا یا جائے گا اور انھیں جنّت کی گونا گوں نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا، اور وہ رَضُوْا عَنْہُ۝۰ۭ۔ اللہ تعالیٰ کی ان عطا یا کو پاکر خوش ہوجائیں گے ۔

وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝۲۰
سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۙ

اور دنیا کی زندگی زیب و زینت عیش و عشرت ایک دھو کہ کے سوا کچھ نہیں

اپنے پر ور دگار کی بخشش و مغفرت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو
اور اس جنت کی طرف (سبقت کرو)جس کی وسعت آسمان وزمین جیسی ہے

اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۝۰ۭ
ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

جو ان لو گوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہے جس کو چاہتے ہیں عطا کرتے ہیں۔

توضیح :عطا اسی کے لئے ہے جو طالب عطا ہو۔

وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۝۲۱
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ
اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ
اَنْ نَّبْرَاَہَا۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں۔
کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین (ملک ) پر یا تمہاری
جانوں پر آتی ہو
مگر قبل اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں کتاب لوح محفوظ میں لکھی ہو تی ہیں

یعنی کسی انسان کو پیدا کرنے سے پہلے تمام مصیبتیں خارجی ہوں یا داخلی وہ سب تقدیر الٰہی میں لکھ دی گئی ہیں ۔

اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ۝۲۲ۚۖ
لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ

ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے بہت آسان ہے۔
(یہ سب کچھ اس لئے ہے) تاکہ(دنیاکی) کوئی چیز تمہارے ہاتھ سے نکل جائے تو اس کارنج نہ کرو(کہ اس کا ضائع ہونا لکھا جا چکا ہے)

وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ۝۰

وَاللہُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُـــوْرِۨ۝۲۳ۙ

اور کوئی چیز اللہ تعالیٰ تمہیں عطا کریں تو (یہ سمجھ کر) نہ اتراؤ(کہ وہ تمہاری عقل و تدبیر سے ملی ہے)
اور اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے شیخی بازکو پسند نہیں کر تے ۔

الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ۝۰ۭ
وَمَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللہَ ہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۝۲۴

یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی بخل کرتے ہی اوردوسروں کو بھی بخل پر اکساتے ہیں
اور جو کوئی (احکام الٰہی سے) رو گردانی کرتا ہے(اور اپنی کج روی پر اڑا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کچھ پرواہ نہیں) بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بے نیاز سرا پا خوبیوں کے مالک ہیں۔

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ

یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو (بندوں کی اصلاح و ہدایت کے لئے) نہایت واضح احکام دے کر بھیجا

وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۝۰ۚ
وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ
فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ
وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ

اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل وانصاف کی تعلیم نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں(اور افراط و تفریط سے بچیں)
اور ہم نے لوہا پیداکیا
جس میں شدید قوت ہے
اور لو گوں کے لئے بہت سے فوائد ہیں۔

یعنی اس سے ہتھیار اور زندگی کی بہت سی اشیاءبنائی جاتی ہیں۔

وَلِيَعْلَمَ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَيْبِ۝۰ۭ

اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ۝۲۵ۧ

تاکہ اللہ تعالیٰ یہ جان لیں کہ (لو ہے کہ آلا ت حرب سے آراستہ ہو کر ) اللہ رسول پر ایمان بالغیب لانے والوں میں دین حق کی بقاو اشاعت میں کو ن اہل باطل سے لڑتا ہے
بے شک اللہ تعالیٰ زبر دست قدرت والے ہیں۔

توضیح :اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ عالم ہے کہ ادنیٰ اشارہ پر کافروں کا قلع قمع کردے، لیکن اگر ایسا ہوتا تو بن دیکھے اللہ رسول پر ایمان لانے اور اللہ و رسول کی خوشنودی کی خاطر دین حق کے لئے جان ومال کی بازی لگا دینے والوں کا کمال ظاہر نہ ہوتا اور نہ وہ درجات کے مستحق قرار پاتے ۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰہِيْمَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْكِتٰبَ

اور ہم نے نوحؑ اورابراہیمؑ کو پیغمبر بناکر بھیجا اور ہم نے ان کی اولاد میں نبوت(پیغمبری) اور کتاب کا سلسلہ جاری رکھا

فَمِنْہُمْ مُّہْتَدٍ۝۰ۚ
وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ۝۲۶
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ
وَاٰتَيْنٰہُ الْاِنْجِيْلَ ۵

تو ان میں بعض تو ہدایت یافتہ ہوئے
اور بہت سے ان میں نافرمان رہی رہے ۔
پھر ان کے بعد ہم نے پئے درپے اپنے رسول بھیجے
اور جن کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور انھیں انجیل عطا کی۔

ۥۙ وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَاتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً۝۰ۭ

اور جن لو گوں نے ان کی پیروی کی، ان کے دلوں میں ہم نے شفقت وہمدردی پیدا کی

وَرَہْبَانِيَّۃَۨ ابْتَدَعُوْہَا

اور رہبا نیت خود انھوں نے ایجاد کرلی

یعنی عبادت میں غلو اور ترک لذات کی ایک نئی بات انھوں نے اپنے طور پر پیدا کرلی۔

مَا كَتَبْنٰہَا عَلَيْہِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللہِ
فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَايَــتِہَا۝۰ۚ

ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انھوں نے یہ بدعت نکالی
پھر یہ اس رہبانیت کو بھی نباہ نہ سکے

توضیح : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لاَرَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلاَمِ، اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔(مسند احمد) ایک اور حدیث میں حضورﷺ نے فرمایا: رَھْبَانِیَّۃُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃُ الْجِہَادِ فِی سَبِیْلِ اللہ ۔ اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے (مسنداحمد۔ ابی یعلیٰ)

فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ۝۰ۚ
وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ۝۲۷
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ
يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ

پس ان لو گوں میں سے جو ایمان لائے تھے۔ ہم نے انھیں ان کا اجر عطا کیا

مگر ان میں سے اکثر فاسق اور نافرمان ہیں۔
ائے لوگوں جو ایمان لائے ہواللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
اور اللہ کے رسول (محمد ﷺ) پر ایمان لاؤ
اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ عطا فرمائیں گے

توضیح :ایک اجر کفر سے اسلام کی طرف آنے کا اور دوسرا اسلام میں اخلاص اختیار کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کا

وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ وَيَغْفِرْ لَكُمْ۝۰ۭ
وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۲۸ۙۚ
لِّئَلَّا يَعْلَمَ اَہْلُ الْكِتٰبِ

اَلَّا يَــقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللہِ

اور وہ تمہیں ایمان بخشے گا، جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تمہارے قصور معاف کردے گا
اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے اور(بندئہ مومن پر) بڑے ہی رحیم ہیں
(اور یہ دوہری نعمتیں تم کو اس لئے عنایت کرے گا)تاکہ اہل کتاب یہ بات جان لیںکہ
وہ اللہ کے فضل پر کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے

توضیح ::وہ اپنے عقائد کے بگاڑ کی وجہ رتی برابر بھی اللہ کے فضل کے مستحق نہیں رہے ۔

وَاَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللہِ

اور فضل تو بس اللہ ہی کہ ہاتھ میں ہے

يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ
وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۝۲۹ۧ

وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتاہے
اور اللہ تعالیٰ تو بڑے فضل والے ہیں۔