بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۱ۚۖ
ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے
توضیح :سورئہ بقرہ آیت نمبر ۱۸۵ میں ارشاد ہے: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُرمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہےاس سے ظاہر ہے کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ اللہ کافرشتہ غار حرامیں نبیﷺ کے پاس وحی لے کر آیاتھا۔وہ رمضان کی ایک رات تھی،وہ وحی سورئہ علق کی ابتدائی پانچ آیتوں پر مشتمل تھی سورئہ علق میں اس رات کو شب قدرکہاگیا ہے۔ اور سورئہ دخان میں اسی کو مبارک رات فرمایاگیا ہے۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِمُبٰرَکَۃٍ (آیت ۳)ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت کی راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک طاق رات ہے۔ (مسند احمد )
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِمُبٰرَکَۃٍ (آیت ۳)ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت کی راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک طاق رات ہے۔ (مسند احمد )
وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۲ۭ
لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۰ۥۙ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۳ۭؔ
اور آپ کیا جانیئے کہ شب قدر کیا ہے؟
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے
توضیح :اس ایک رات میں جو ذکرو عبادت کی جائے گی وہ اجر کے لحاظ سے ہزار مہینوں کے برابر ہوگی یہاں ہزار کا لفظ محاورۃ لایا گیا ہے یعنی اس کی قدر عام مہینوں ہزار درجہ زیادہ ہے۔
تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕکَۃُ وَالرُّوْحُ
فِیْہَا بِـاِذْنِ رَبِّہِمْ۰ۚ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ۴ۙۛ
سَلٰمٌ۰ۣۛ
ہِیَ حَتّٰى مَطْلَــعِ الْفَجْرِ۵ۧ
اس رات فرشتے اور روح الا مین(جبر ئیل علیہ السلام) اپنے رب کی اجازت سے ہر حکم کولے کر زمین پر اتر تے ہیں
وہ رات سراسر سلا متی ہے
طلوع فجر تک
توضیح :کار کنان قضاء وقدر کو نظم عالم کے تمام احکام ہر سال اسی رات دے دیئے جاتے ہیں اور سال تمام ان احکام کی تعمیل ہوتی رہتی ہے۔ اس رات کی ذکرو عبادات ازقسم نوافل ہیں۔ ان عبادات کو فرض نہیں فرمایا گیا مگر زیادہ سے زیادہ کی ترغیب دی۔حضرات صحابہ کرامؓ اس رات محض عبادت واستغفار کے لئے جاگنے کا اہتمام فرماتے تھے،مگر جس قسم کے جلسے اور اجتماعات آج کل رائج ہیں اور مساجد کو غیر ضروری روشنی سے سجا یا جا تا ہے اس کا کوئی رواج عہد صحابہؓ میں نہ تھا۔ان عبادات کا اجر تب ہی ملے گا،جب وہ الٰہی و نبوی تعلیم اور روش صحابہؓ کے مطابق ہوں۔