سورۂ فیل مکی ہے اور اس میں پانچ آیتیں ہیں۔
تمہید : عرب اور اس کے اطراف واکناف میں زمانہ قدیم سے خانۂ کعبہ بیت اللہ کے نام سے مشہور تھااس کی بڑی عزت کی جاتی تھی، اگر چہ کہ خانۂ کعبہ کچھ عرصہ کے لئے بت خانہ بنا رہا، اس کے باوجود بیت اللہ کے ہی نام سے موسوم تھا۔ لوگ دور دور سے حج کو آیا کرتے تھے۔
ابر ہہ یمن کا حاکم تھا، کعبۃ اللہ کی عظمت گوارا نہ کرسکا۔ اس نے اپنے ملک میں ایک شان دار کلیسا(گر جا) تعمیر کروایا اور اعلان کروا یا کہ لوگ کعبۃ اللہ کے بجائے اس کلیسا کی زیارت کو آئیں۔ اس اعلان پر غضب ناک ہوکر ایک عرب نے کلیسا میں رفع حاجت کر ڈالی۔ ابر ہہ نے اس تو ہین پر قسم کھائی کہ وہ کعبۃ اللہ کو ڈھائے بغیر نہ رہے گا چنا نچہ ۷۱ ءمیں ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی لے کر مکّہ کی طرف روانہ ہوا، اور مکّہ سے تین میل کے فاصلہ پر پڑاؤ کیا، اور اپنے ایک قاصد کو یہ پیام دے کر بھیجا کہ: میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس گھر کعبۃ اللہ کو ڈھانے آیا ہوں۔ اگر تم نہ لڑو تو تمہاری جان ومال سے کچھ تعرض نہ کیاجائے گا۔ اور اپنے قاصد کو یہ بات بھی دی کہ اگر اہل مکّہ کوئی ہدایت کرنا چاہیں تو ان کے سردار کو میرے پاس لے آنا۔ عبد المطلب اس وقت کے سب سے بڑے سر دار تھے۔قاصد نے ان سے مل کر ابرہہ کا پیام سنا یاانھوں نے کہا: ہم میں ابرہہ سے لڑنے کی طاقت نہیں۔یہ اللہ کا گھر ہے۔ وہ چاہے گا تو اپنے گھر کی آپ حفاظت کرے گا قاصد نے ساتھ چلنے کو کہا اوروہ راضی ہوگئے۔
عبدالمطلب اس قدر وجیہ اور پرکشش شخصیت تھے کہ انھیں دیکھ کر ابرہہ بہت متاثر ہوا۔ اور خود آگے بڑھ کران کے قریب بیٹھ گیا۔ ابر ہہ نے پو چھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔؟ انھوں نے کہا: میرے اونٹ جو پکڑے گئے ہیں وہ مجھے واپس دیئے جائیں۔ ابر ہہ نے کہا، آپ کو دیکھ کرمیں بے حد متاثر ہوا تھا، مگر آپ کی اس بات نے آپ کو میری نظروں سے گرادیا کہ آپ صرف اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں،اور یہ گھر جو آپ کا اور آپ کے آبائی دین کامرکز ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔ انھوں نے کہا میں صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور ان ہی کے بارے میں تم سے درخواست کرتا ہوں، رہایہ گھر، تو اس کا ایک مالک ہے وہ اس کی حفاظت خود کرلے گا۔
ابرہہ نے کہا: وہ اس کو مجھ سے بچا نہ سکے گا۔ عبدالمطلب نے کہا : تم جانو اور وہ جانے۔ یہ کہہ کر وہ ابرہہ کے پاس سے اٹھ آئے۔ اس نے ان کے اونٹ واپس کردیئے۔ یہ واقعہ مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادی محصب کے قریب محصر کے مقام پر پیش آیاتھا۔
حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ جب مزدلفہ سے منیٰ کی طرف چلے تو عذاب الٰہی کی اس وادی میں آپ نے اپنے اونٹ کی رفتار تیز کردی۔آج بھی مسنون عمل یہی ہے کہ اس مقام سے بہ عجلت ممکنہ گزرجائیں۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ
بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ۱ۭ
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آپؐ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا(جب وہ کعبۃ اللہ کو مسمار کرنے کی نیت سے آرہے تھے)
اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ۲ۙ
وَّاَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ۳ۙ
کیا اس نے ان کی تدبیر کو اکارت نہیں کردیا ۔
اور ان پر(خوں خوار) پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے۔
تَرْمِیْہِمْ بِحِـجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ۴۠ۙ
فَجَــعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ۵ۧ
جو ان پر پکی ہوئی مٹی کے کنکر پھینک رہے تھے۔
پھر انھیں کھائے اور روندے ہوئے چارے کی طرح کر دیا۔