☰ Surah
☰ Parah

وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْ يُّحْشَرُوْٓا اِلٰى رَبِّہِمْ

اور(ائے نبیﷺ) اس قرآن کے ذریعہ اُن لوگوں کو ڈرا تے رہیئے جو یہ خوف رکھتے ہیں کہ (محا سبۂ اعمال کے لیے) وہ اپنے پر ور دگار کے سامنے حاضر کیے جا ئیں گے۔

لَيْسَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِيٌّ وَّلَا شَفِيْعٌ

(اور وہ جانتے ہیں کہ) اللہ کے سوا نہ تو اُن کا کوئی دوست ہے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا۔

لَّعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۝۵۱

(یہ تعلیم انھیں اس لیے دی گئی ہے کہ) تاکہ وہ پار سا وپر ہیزگار بنے رہیں۔

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَہٗ۝۰ۭ

ائے نبی ﷺ ان لوگوں کو (جو غریب ونادار ہیں، دعوت حق قبول کرچکے ہیں اور) جو صبح و شام (ہرحاجت و مشکلات میں) اپنے ہی رب کو (مدد کے لئے) پکارتے ہیں، رضائے الٰہی کے جو یا ہیں (روسائے قریش کی خاطر) انھیں اپنے سے دور نہ کیجئے۔

توضیح : رو سائے قریش دعوتِ حق سننے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس نہیں آتے تھے عذر یہ کرتے تھے کہ معمولی قسم کے لوگ آپؐ کے پاس جمع رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھنا ہماری رئیسا نہ شان کے خلاف ہے۔ اِد ھر رسول اللہ ﷺ کے قلب ِ مبارک میں یہ خیال آتا رہتا کہ اگر رو سائے قریش ایمان لے آئیں تو عوام بھی بے جھجک ایمان لے آئیں گے۔
لہٰذا اس تعلق سے آپؐ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ غریب لوگ اس وقت نہ آئیں جس وقت رو سائے قریش آپؐ کے پاس بیٹھے ہوں یا رو سا ئے قریش کے آنے کا وقت ہو۔ رو سائے قریش کی دراصل یہ ایک چال تھی۔ اللہ تعالیٰ نےآپؐ کو اُن کی چال سے با خبر کردیا اور نصیحت فر ما ئی کہ آپؐ رو سا ئے قریش کی خاطر غریب اہل ایمان کو اپنے پاس سے نہ اُٹھا ئیں۔

مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ

ان کے حساب( اِن کی بداعمالیوں) کی آپؐ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

وَّمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْہِمْ مِّنْ شَيْءٍ

اور نہ آپؐ کے حساب کی جواب دہی ان پر ہے۔

فَتَطْرُدَہُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۵۲

اگر آپ انھیں اپنے سے دور کردیں تو ظالموں میں ہوجاؤگے (آپ کا شمار بھی نا منا سب کام کرنے والوں میں ہو جا ئے گا۔)

وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ

اور اسی طرح ہم نے بعض لوگوں کی بعض سے آزمائش کی ہے۔ روسائے قریش کے مقابلے میں غر با کو ایمان کی توفیق بخشی۔

لِّيَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنْۢ بَيْنِنَا۝۰ۭ

تا کہ یہ( رو سا ئے قریش یہ حسرت آ میز کلمات) کہیں کیا یہی لوگ، ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضیلت دی ہے۔

اَلَيْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِيْنَ۝۵۳

( اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں) کیا اللہ تعالیٰ اپنے شکر گزار بندوں کو نہیں جانتے( یقیناً جانتے ہیں)

توضیح :دراصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ طالب حق کو ہدایت دیتے ہیں۔ چا ہے وہ کتنے ہی غریب کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت کے وہی مستحق ہوتے ہیں جو اپنے قلب میں حق کی طلب رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلِ عظیم کا مستحق بننے کے لیے امارت غر بت معیار نہیں۔ لہٰذا غریب ایمان والوں کو اپنے سے دور رکھنےکے بجا ئے آپؐ ان کی عزت افزا ئی کیجئے۔ کیونکہ انھوں نے دعوتِ الٰہی قبول کر لی ہے۔
حضرت سعدبن وقاص روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت ہم چھ آدمیوں کے حق میں اُتری ہے۔ یعنی سعد ؓ اور ابن مسعودؓ اور صہیب اور بلالؓ اورعمّارؓ اور مقدار کہ ہم لوگ جنابِ رسول خداﷺ کی خد مت میں حاضر ہو تے تو قریب ہو کر بیٹھتے اور باتیں سنتے کفّار قریش کو یہ بات نا گوار ہوتی۔
روساء قریش نے کہا ہما رادل آپؐ کی باتیں سننے کو تو چا ہتا ہے لیکن ہم کو ان غلاموں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ لہٰذا جب ہم آپؐ کے پاس آیا کریں تو آپ انھیں اپنے پاس سے اٹھا دیا کیجئے اور جب ہم چلے جائیں تو پھر آپ کو اختیار ہے ، انھیں اپنے پاس بیٹھا لیں۔ آپؐ نے اس بات کو مان لیا تو رو سا ئے قریش نے کہا۔ آپؐ ہمیں اس مضمون کی ایک تحریر لکھ دیجئے آپؐ نے کاغذمنگوا یا اور حضرت علیؓ کو لکھنے کے لیے بلا یا۔ اتنے میں جبر ئیل امین یہ آیت لے کر آئے۔ گو کہ طالبانِ حق غریب ہیں۔ لیکن ان کی خاطر داری مقدم رکھنی چا ہئے۔ تب سے آپؐ ہماری بہت خا طر کر نے لگے۔

وَاِذَا جَاۗءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ

اور جب آپؐ کے پاس وہ لوگ آئیں جنھوں نے ہماری تعلیم قبول کرلی ہے تو آپؐ اُن سے سلام علیکم کہا کرو۔

كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ۝۰ۙ

(اور یہ بھی کہیئے) تمہارے پرور دگار نے رحمت اختیار کی ہے۔

اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢ ابِجَــہَالَۃٍ

تم میں سے جو کوئی جہالت کی وجہ کوئی بُرا کام کر بیٹھے۔

ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِہٖ وَاَصْلَحَ۝۰ۙ

پھر اس کے بعد(ساتھ ہی) توبہ کرلے اور(اپنے عقیدہ اور اعمال کی) اصلاح کرلے۔

فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۵۴

تو اللہ تعالیٰ بخشنے والے رحم فر ما نے والے ہیں۔

وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلِتَسْتَبِيْنَ

اور اسی طرح ہم اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تا کہ آپ کو

سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْنَ۝۵۵ۧ

مجرمین کی چال کا پتہ چل جا ئے۔

توضیح : وہ چال یہ تھی کہ اگر آپؐ اپنی مجلس میں امیر و غریب کا امتیاز جا ئز رکھیں تو رو سائے قریش غریب اہل ایمان پر طعن کر سکیں کہ تم ایمان لانے کے بعد بھی محمد ﷺ کی نظروں میں ذلیل ہی رہے۔ اور ہم ایمان نہ لا کر بھی معز زہی ر ہے۔ اس طرح اہل ایمان کو رسول اللہ ﷺ سے ناراض کرادیں اور جو لوگ ایمان لائے ہیں۔ ان کی خا طر شکنی ہو اور وہ حق سے پھر جائیں۔

قُلْ اِنِّىْ نُہِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ

ائے نبی(کفارِ مشرکین سے) کہیئے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا تم جنھیں پکار تے ہو، مجھے اُن کی عبادت سے منع کیا گیا ہے۔

قُلْ لَّآ اَتَّبِعُ اَہْوَاۗءَكُمْ۝۰ۙ

کہہ دیجئے میں تمہارے(باطل) خوا ہشات(باطل عقائد) کی پیر وی نہیں کرتا۔

قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَ۝۵۶

اگر میں ایسا کروں تو بے راہ ہو جا ئوں گا اور میرا شمار ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ ہوگا۔

قُلْ اِنِّىْ عَلٰي بَيِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَكَذَّبْتُمْ بِہٖ۝۰ۭ

کہیئے میں تو اپنے رب کی طرف سے( عقلی فطری) واضح دلیل پر قائم ہوں اور تم اس کی تکذیب کرتےہو۔

مَا عِنْدِيْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ۝۰ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ

تم جس چیز کےلئے( عذاب یا جس آخری فیصلہ کی) جلدی کرتے ہو وہ تو میرے پاس (میرے اختیار میں) نہیں ہے( اس کے واقع ہو نے کا ایسا) حکم تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

یعنی 

يَقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَخَيْرُ الْفٰصِلِيْنَ۝۵۷

وہی امرِحق بیان فر ما تا ہے اور وہی( حق وباطل کا) بہترین فیصلہ کرنے والا ہے

قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِيْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ لَقُضِيَ الْاَمْرُ بَيْــنِيْ وَبَيْنَكُمْ۝۰ۭ

کہہ دیجئے جس چیز کی تم جلدی کر رہے ہو اگر وہ میرے اختیار میں ہو تی تو میرے اور تمہارے درمیان (کبھی کا) فیصلہ ہو چکا ہوتا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِـمِيْنَ۝۵۸

اور اللہ تعالیٰ تو ظا لموں سے خوب واقف ہیں۔

وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ

اور اسی(اللہ) کے پاس غیب کی کنجیاں، ہیں جن کو اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

یعنی 

وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ

یعنی تمام خزا ئنِ غیبیہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں۔
اور وہ بحرو بر( یعنی خشکی وتری کی )سب چیزوں کو جانتا ہے۔

وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا يَعْلَمُہَا

اور جو پتہ( درخت سے) جھڑ تا ہے وہ اس کو بھی جانتا ہے،

وَلَا حَبَّۃٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ۝۵۹

اور زمین کے اندر تہ بہ تہ تا ریکیوں میں کوئی دانہ اور کوئی خشک وتر چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی( لوحِ محفوظ) میں لکھی ہوئی نہ ہو۔

وَہُوَالَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ

وہی تو ہے جو رات کو سونے کی حالت میں تمہاری روح قبض کرتا ہے۔

وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ

اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہواُس کو بھی جانتا ہے۔

ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْہِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى۝۰ۚ

(اور کارو بار کی انجام دہی کے لیے) پھر تمہیں نیند سے جگا تا ہے تاکہ متعین ( یہی سلسلہ جا ری رکھ کر زندگی کی ) مدّت پوری کرے۔

ثُمَّ اِلَيْہِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۶۰ۧ

پھر تم سب کو اسی( اللہ ) کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ پھر تم جو کچھ بداعمالیاں کر تے رہے تھے وہ تمہیں( گِن گِن کر) بتا دے گا۔

وَہُوَالْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ

اور وہ اپنے بندوں پر غالب( و مقتدر) ہے۔

وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَۃً۝۰ۭ

اور( اسی نے) تمہاری حفاظت کے لیے نگہبان(فرشتے) مقرر کیے۔

حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ۝۶۱

یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آجا تی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں۔ اور وہ قبضِ روح کے مقررہ وقت میں ذرا بھی کو تا ہی نہیں کرتے۔

ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللہِ مَوْلٰىہُمُ الْحَقِّ۝۰ۭ

پھر سب کےسب (قیامت کے دن محا سبۂ اعمال کے لیے) اللہ تعالیٰ کی طرف جوان کا حقیقی کار ساز ہے، لائے جا ئیں گے۔

یعنی 

اَلَا لَہُ الْحُكْمُ۝۰ۣ وَہُوَاَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ۝۶۲

خبر دار( اچھی طرح سُن لو)فیصلہ اُسی کے اختیار میں ہے اور وہی بہت جلد حساب لینے والا ہے ۔

قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَہٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۝۰ۚ

(ائےنبی) ان سے پو چھئے بحر وبر کی تا ریکیوں سے تمہیں کون نجات بخشتا ہے۔ نہایت ہی خشیت کے ساتھ دل ہی دل میں اُسی کو( مدد کے لیے )پکار تے ہو۔

لَىِٕنْ اَنْجٰىنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ۝۶۳

اگر اللہ تعالیٰ ہم کو اس مصیبت سے نجات بخشیں تو ہم اُسی کے شکر گذار ہوں گے۔

قُلِ اللہُ يُنَجِّيْكُمْ مِّنْہَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ۝۶۴

کہیئے اللہ تعالیٰ ہی تم کو اس مصیبت اور ہر تکلیف سے بچا تے ہیں۔ پھر بھی تم ( اس کے ساتھ) شرک کرتے ہو۔

توضیح : مثلاً یہ کہنا کہ اگر پیغمبروں بزر گوں کا واسطہ وسیلہ نہ ہو تا تو ہما ری دعا ئیں قبول نہ ہو تیں، یہ بھی ِشرک ہے ۔

قُلْ ہُوَالْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ

کہیئے وہ اس بات پر قادر ہے کہ کسی وقت بھی آسمان سے تم پر عذاب بھیجے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے ( بہ شکلِ زلز لہ) عذاب آئے۔

اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ۝۰ۭ

یاتم کو فرقہ واریت میں بانٹ کر تمہا رے اتّحاد کو پارہ پارہ کردے اور ایک دوسرے سے لڑا کر( آپس میں) لڑائی کا مزہ چکھا دے

اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّہُمْ يَفْقَہُوْنَ۝۶۵

دیکھئے ہم کس طرح بار بار( مختلف طریقوں سے) اپنی آیتیں بیان کرتے ہیں تا کہ وہ حق وباطل کو سمجھیں۔

وَكَذَّبَ بِہٖ قَوْمُكَ وَہُوَالْحَقُّ۝۰ۭ

اور اس قرآن کو آپؐ کی قوم نے جھٹلا دیا حا لانکہ قرآن سراسر حق ہے۔

قُلْ لَّسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ۝۶۶ۭ

کہئے میں تم پر مسّلط نہیں کیا گیا ہوں(تمہیں اختیار ہے چا ہے مانو یا نہ مانو)

لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْـتَقَرٌّ۝۰ۡ وَّسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۝۶۷

ہر چیز کے( ظہور میں) آنے کا ایک وقت مقرر ہے اور عنقریب تم کو معلوم ہو جا ئے گا۔

وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا

اور جب آپ دیکھیں کہ وہ ہما ری آیتوں کے متعلق بے ہودہ بکواس کر رہے ہیں ۔

فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِہٖ۝۰ۭ

تو آپؐ اُن سے الگ ہو جائیے تا آنکہ وہ اور باتوں میں مصروف ہوجائیں۔

وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ

اور اگر آپؐ کو شیطان بھول میں ڈال دے

فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ۝۶۸

تو یاد آجا نے کے بعد ظا لموں کے پاس نہ بیٹھے رہیئے۔

وَمَا عَلَي الَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ

اور پر ہیز گا روں پر لوگوں کے حساب کی جواب دہی نہیں ہے۔

وَّلٰكِنْ ذِكْرٰي لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۝۶۹

اس کے با وجود نصیحت تو ضروری ہے تا کہ وہ ( گمرا ہی سے ) بچ جائیں۔

وَذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَہُمْ لَعِبًا وَّلَہْوًا

اور جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تما شہ بنائے رکھا ہے اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑ دیجئے۔

وَّغَرَّتْہُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا

دنیا کی زندگی نے انھیں دھو کہ میں ڈال رکھا ہے۔

وَذَكِّرْ بِہٖٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌۢ بِمَا كَسَبَتْ۝۰ۤۖ

اُنھیں قر آن کے ذریعہ نصیحت کیا کیجئے تا کہ کو ئی شخص(قیامت کے دن اپنے باطل عقائد و)اعمال کی پا داش میں عذاب میں مبتلا نہ ہونے پائے۔

لَيْسَ لَہَا مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلِيٌّ وَّلَا شَفِيْعٌ۝۰ۚ

کیو نکہ (اُس روز ) اللہ تعالیٰ کے سوا( اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں) کوئی غیر اللہ اس کا نہ مدد گار ہوگا اور نہ سفارشی۔

وَاِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْہَا۝۰ۭ

اور اگر وہ ( اپنی مجر مانہ روش کی پاداش میں) ہر وہ چیز جو روئے زمین پر ہے فد یہ میں دینا چا ہے تو اس سے ہر گز قبول نہ کی جائے گی۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا كَسَبُوْا۝۰ۚ

یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی مشر کا نہ روِش کی پاداش میں ہلاکت میں ڈالے گئے

لَہُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ۝۷۰ۧ

انھیں پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک سزائیں ہیں۔ اس سبب سے کہ وہ کفر کرتے تھے۔

قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا

(ائے نبیﷺ) کہہ دیجئے۔ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ (یعنی اللہ کے مقرب بندوں )کو مدد کے لیے پکاریں جو نہ ہم کو کسی طرح کا نفع پہنچاسکتےہیں اور نہ ضرر۔

وَنُرَدُّ عَلٰٓي اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ہَدٰىنَا اللہُ

اللہ تعالیٰ ہم کو (دین اسلام کی) ہدایت دینے کے بعد کیا ہم اُلٹے پائوں پھر جائیں یعنی مرتد ہو جائیں(جس باطل عقیدے کو ترک کر کے آئے ہیں کیا اُسے دوبارہ اختیار کریں)

كَالَّذِي اسْتَہْوَتْہُ الشَّيٰطِيْنُ فِي الْاَرْضِ حَيْرَانَ۝۰۠

اُس شخص کی طرح جس کو شیطان نے صحرا میں حیران و پریشان کر دیا ہو (بھٹکا دیا ہو)

لَہٗٓ اَصْحٰبٌ يَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَى الْہُدَى ائْتِنَا۝۰ۭ

اس کے کچھ رفیق ہوں اُس کو راستے کی طرف بُلا رہے ہوں کہ ہما ری طرف آ ۔

قُلْ اِنَّ ہُدَى اللہِ ہُوَالْہُدٰي۝۰ۭ

کہئے سید ھا راستہ تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے دکھا یا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا صحیح طریقہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتلا یا ہے۔

وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۷۱ۙ

اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ(اسی طریقہ کے مطابق) رب العالمین کے آگے سرِ نیاز جھکا ئیں۔

وَاَنْ اَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّقُوْہُ۝۰ۭ وَہُوَالَّذِيْٓ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ۝۷۲

اور یہ کہ نماز قائم رکھیں اور اسی سے ڈریں۔ اور وہی تو ہے جس کے پاس (محاسبۂ اعمال کے لیے ) تم حاضر کیے جا ئو گے ۔

وَہُوَالَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ

اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو با مقصد بنا یا (عبث نہیں پیدا کیا )

وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ۝۰ۥۭ

اور جس دن (اُس انجام کے ظاہر ہونے کا) وہ حکم دے گاکہ ہوجاتو وہ ہوجائے گا۔ حشر بر پا ہوگا، یعنی قیامت واقع ہو جا ئے گی۔

قَوْلُہُ الْحَقُّ۝۰ۭ وَلَہُ الْمُلْكُ

اُس کا یہ ارشاد بر حق ہے( یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ بات ہو کر رہے گی) اور نافرمانر وائی اسی کے لیے (مختص) ہے۔

يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ۝۰ۭ

جس دن صور پھونکا جا ئے گا(قیامت اسی دن بر پا ہوگی)

عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ۝۰ۭ

وہی پو شیدہ وظاہر کا جاننے والا ہے۔

وَہُوَالْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ۝۷۳

اور وہی حکیم وخبیر ہے۔( یعنی تجاویز الٰہی بڑے ہی حکیمانہ و ما ہرا نہ ہیں)

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِيْمُ لِاَبِيْہِ اٰزَرَ

(وہ واقعہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے)اور جب ابرا ہیم ؑ نے اپنے باپ آذر سے کہا۔

اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِہَۃً۝۰ۚ

کیا تم بتوں کو معبود قرار دیتے ہو۔ (یعنی گزرے ہوئے بزر گوں کی مورتیاں بنا کر ان کی پرستش کرتے ہو۔)

اِنِّىْٓ اَرٰىكَ وَقَوْمَكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝۷۴

میں تم کو اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔

وَكَذٰلِكَ نُرِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

اور اسی طرح ہم نے ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمین میں اپنی فر ما نر وائی دکھائی (ایسی فر ما نروائی جس میں اللہ کا کوئی شریک نہیں۔)

وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ۝۷۵

تا کہ وہ یقین کر نے والوں میں سے ہو جا ئیں ۔ (یعنی مشاہدہ کی بناء پر قوتِ یقین کے ساتھ لوگوں کو حق کی طرف بلا ئیں۔ اور اللہ کا معبود ومستعان حقیقی، کار ساز و حاجت روا ہو نا ذہن نشین کرائیں۔)

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْہِ الَّيْلُ رَاٰ كَوْكَبًا۝۰ۚ قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ۝۰ۚ

جب رات کی تا ریکی اُن پر چھا گئی تو ایک روشن ستارہ دیکھا( بطورِ معارضہ قوم کو الزام دینے کے لیے ) کہا یہ میرا پر ور دگار ہے۔

فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ۝۷۶

پھر جب وہ ستارہ غروب ہو گیا تو (حضرت ابراہیمؑ نے)کہا میں غائب ہو جا نے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(اِسی طرح)

فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ۝۰ۚ

پھر جب آپ نے چاند کو چمکتا دمکتا دیکھا تو کہاں ہاں یہ میرا رب ہے۔

فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَىِٕنْ لَّمْ يَہْدِنِيْ رَبِّيْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّاۗلِّيْنَ۝۷۷

پھر جب وہ ( چاند بھی) غروب ہو گیا تو کہا اگر میرا رب مجھ کو ہدایت نہ دے تو (ایسی چیزوں کو رب مان کر) میں بھی راہ حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں میں سے ہو جا ئوں گا۔

فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً

پھر جب آپؐ نے آفتاب کو طلوع ہو تے دیکھا۔

قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ ہٰذَآ اَكْبَرُ۝۰ۚ

کہاہاں یہ میرا رب ہےیہ (کہ سب سے زیادہ) بڑا ہے۔

فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۝۷۸

پھر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہا ائے میری قوم جن چیزوں کو تم(اللہ تعالیٰ کا) شریک قرار دیتے ہومیں اُس سے بے تعلق ہوں۔

توضیح : کو اکب پر ستی اور شمس وقمر کو متصرف فی العالم سمجھنا بھی شرک ہے۔

اِنِّىْ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۷۹ۚ

میں (ان تمام غیراللہ سے بے رُخ ہو کر جن کو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ الٰہ بنا ئے ہوئے ہیں) اپنا رُ خ اخلاص کے ساتھ اُس ذاتِ واحد کی طرف کر چکا یعنی اللہ کا ہو رہا جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔
(یعنی حا جتوں مصیبتوں میں غیر اللہ کی طرف متوجہ ہو نے والوں میں سے نہیں ہوں مدد کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کو پکار تا ہوں)

وَحَاۗجَّہٗ قَوْمُہٗ۝۰ۭ قَالَ اَتُحَاۗجُّوْۗنِّىْ فِي اللہِ وَقَدْ ہَدٰىنِ۝۰ۭ

اور اُن کی قوم اُن سے جھگڑ نے لگی(آپؑ کی بات نہ مانی) (ابراہیمؑ نے اپنی قوم سے) کہا کیا تم مجھ سے اللہ تعالیٰ کے( اِلٰہ واحد ہونے کے) بارے میں جھگڑ تے ہو۔ اُس نے مجھے سید ھا راستہ دکھا یا۔

وَلَآ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ رَبِّيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ

اور جن چیزوں کو تم اُس کا شریک قرار دیتے ہو میں اُن سے نہیں ڈرتا سوائے اس کے کہ میرا رب ہی(کسی مصلحت کے تحت ) ایسا چا ہے۔

توضیح :اللہ تعالیٰ مخا لفینِ حق کی تنبیہ کے لیے مصیبت بھیجتے ہیں۔ اور دعوتِ حق کے ماننے والوں پر مصا ئب اس لیے آتے ہیں کہ وہ گناہوں سےپاک ہوتے رہیں اور اس لیے بھی کہ دنیا کے رنج و آلام کو دیکھ کر اُ خروی زندگی کے تمنا ئی بنے رہے۔ لہٰذا بندوں پر مصائب کا آتے رہنا بھی ایک عا لما نہ نظام ہے۔

وَسِعَ رَبِّيْ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا۝۰ۭ

اور میرا رب ہر چیز کے تعلق سے بڑا ہی وسیع العلم ہے۔

اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ۝۸۰

کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟

وَكَيْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَكْتُمْ

اور میں کس طرح(ان سے) ڈر سکتا ہوں جنھیں تم نے شریکِ خدا بنا رکھا ہے۔

وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللہِ

اور تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریکِ قرار دیتے ہوئے بھی نہیں ڈر تے۔

مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا۝۰ۭ

جس کے جواز میں اللہ تعالیٰ نے تم پر کوئی دلیل نا زل نہیں کی۔

فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ۝۰ۚ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۱ۘ

پس دونوں فریقوں میں سے کو نسا فریق امن کا مستحق ہے؟ (بتا ئو) اگر تم جانتے ہو۔

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ

جو لوگ ایمان لائے(یعنی اللہ تعالیٰ ہی کو معبود ومستعان مانا) اور انھوں نے اپنے ایمان کو شرک کی آمیزش سے پاک رکھا۔

اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۸۲ۧ

اُن ہی کے لیے امن وسلا متی ہے (یعنی وہی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ومامون رہیں گے) اور وہی ہدایت پا نے والے ہیں۔

توضیح :ظلم سے مُراد شرک ہے امن و ہدایت کے مستحق ہو نے کے لیے شرک سےپاک ہو نا لازم ہے۔

وَتِلْكَ حُجَّتُنَآ اٰتَيْنٰہَآ اِبْرٰہِيْمَ عَلٰي قَوْمِہٖ۝۰ۭ

اور یہ وہ لائل ہیں جو ہم نے ابراہیمؑ کو اُن کی قوم کے مقابلہ میں سکھائے تھے۔

نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ۝۰ۭ

ہم جس کو چا ہتے ہیں فضیلت ِعلمی عطاء کرتے ہیں۔

اِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ۝۸۳

بے شک تمہارا پر ور دگار بڑا ہی دانا جاننے والا ہے۔

وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ۝۰ۭ

اور ہم نے اُنھیں اسحٰق( نا می فر زند) اور یعقوب(نا می پو تا) بخشا۔

كُلًّا ہَدَيْنَا۝۰ۚ

ہم نے سب کو راہِ ہدایت بخشی۔

وَنُوْحًا ہَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ

اور ان سے پہلے ہم نے نوحؑ کو بھی راہِ ہدایت دی تھی۔

وَمِنْ ذُرِّيَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۝۰ۭ

اور ان کی آل واولاد میں سے داو،دؑ وسلیمانؑ اور ایوبؑ و یوسفؑ اور موسیٰؑ وہارونؑ کوبھی(ہدایت کے اعلیٰ مقام پر فا ئز کیا یعنی نبوت عطا ء کی)

وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝۸۴ۙ

ہم نیکو کاروں کو (ان کی نیکیوں کا )ایسا ہی بدل عطا کرتے ہیں۔

وَزَكَرِيَّا وَيَحْيٰى وَعِيْسٰي وَاِلْيَاسَ۝۰ۭ كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۸۵ۙ

اور اسی طرح ذکر یاؑ اور عیٰسےؑ اور یحییٰؑ اور الیاسؑ سب کے سب صالحین میں سے تھے۔

وَاِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَيُوْنُسَ وَلُوْطًا۝۰ۭ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝۸۶ۙ

اور اسماعیلؑ اور یسعؑ اور یونسؑ اور لوطؑ ہم نے ان سب کو (نبوت) دے کر سارے عالم پر فضیلت بخشی۔

وَمِنْ اٰبَاۗىِٕہِمْ وَذُرِّيّٰــتِہِمْ وَاِخْوَانِہِمْ۝۰ۚ وَاجْتَبَيْنٰہُمْ وَہَدَيْنٰہُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۸۷

اور اُن کے آبا واجداداور اُن کی اولاد اور اُن کے بھائی کو بھی بر گزیدہ کیا اور انھیں(جنّت کی) سید ھی راہ دکھا ئی۔

ذٰلِكَ ہُدَى اللہِ يَہْدِيْ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝۰ۭ

یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میںسے جسے چا ہتے ہیںہدایت دیتے ہیں۔

توضیح : سنّتِ الٰہی یہ ہے کہ طالبِ ہدایت کو ہدایت دی جاتی ہے۔

وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۸۸

(بہ فرضِ محال) اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو ان کی نیکیاں بھی بر باد کردی جاتیں ۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ۝۰ۚ

یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب دی دانا ئی بخشی اور نبوت سے سر فراز کیا۔

فَاِنْ يَّكْفُرْ بِہَا ہٰٓؤُلَاۗءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَّيْسُوْا بِہَا بِكٰفِرِيْنَ۝۸۹

اگر یہ( کفّار قریش) ان باتوں سے انکار کریں توہم نے (ان پر ایمان لانے کے لیے) ایسی قوم کا انتخاب کیا ہے کہ وہ کبھی اُن کا انکار نہ کرے گی(مدینہ کے انصار مُراد، ہیں)

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ۝۰ۭ

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت بخشی لہٰذا انھیں کے طریقے کی تم اقتدا کرو۔

قُلْ لَّآ اَسْــــَٔـلُكُمْ عَلَيْہِ اَجْرًا۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ) انھیں یہ بھی کہئیے کہ میں اس قرآن کے سنا نے کا تم سے کوئی صلہ نہیں چا ہتا۔

اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٰي لِلْعٰلَمِيْنَ۝۹۰ۧ

یہ قرآن تو سارے عالم کے لیے ایک نصیحت نامہ ہے۔