وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ
اور لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی جیسی قدرجاننی چا ہیئے تھی نہ جا نی۔
اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ۰ۭ
جب انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر (وحی یا کتاب وغیرہ) کچھ بھی نازل نہیں کی ۔
قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِہٖ مُوْسٰي
ان سے پو چھئےجوکتاب موسیؑ لائے تھے وہ کس نے نازل کی تھی۔
نُوْرًا وَّہُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِيْسَ
جس میں لوگوں کے لیے علم کی روشنی اور ہدایتیں تھیں جسے تم نے علیحدہ اور اق میں نقل کر رکھا ہے۔
تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا۰ۚ
جس کے بعض اجزاء کوتم بیان کرتے ہو، اور اکثر (اہم) اجزاءکو چھپا تے ہو۔
وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاۗؤُكُمْ۰ۭ
اوراس کتاب کے ذریعہ تمہیں وہ تعلیم دی گئی ہے جسے تم جانتے تھے نہ تمہا رے باپ دادا۔
قُلِ اللہُ۰ۙ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِيْ خَوْضِہِمْ يَلْعَبُوْنَ۹۱
کہہ دو اللہ (اللہ ہی نے اس کتاب کو نازل فر ما یا تھا)پھر ان( معترضین) کو اُن کے حال پر چھوڑ دیجئے کہ وہ اپنی (اسی باطل )بے ہودہ بکواس میں مبتلا رہیں۔
وَہٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ
اور یہ (قرآن) بابرکت کتاب ہے جسےہم نے نازل کیاہے جو
مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ
اپنے سے پہلےکی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے(یعنی اُصولاً اس میں وہی تعلیم ہے جو اس سے پہلے نازل کی گئی تھی۔)
وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَہَا۰ۭ
اور جو اس لیے نازل کی گئی ہے کہ آپؐمکہ اور اس کے اطراف رہنے والوںکو(یعنی ساری دنیا کو) اس بات سے آگاہ کردیں( کہ جو اس تعلیم کو قبول نہیں کرے گا، اس کا ابدی ٹھکا نا جہنّم ہے)
وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ
اور ( واقعہ یہ ہے کہ) جو لوگ حیاتِ آخرہ پر یقین رکھتے ہیں وہی اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
وَہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ۹۲
اور وہ (اہتمام کے ساتھ) اپنی نما زوں کی حفاظت کر تے ہیں۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹی باتیں افترا ء کرے۔
اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْہِ شَيْءٌ
یا یہ کہیئے کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے جب کہ اس پر کوئی چیز وحی نہ کی جاتی ہو۔
وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ۰ۭ
ادر وہ بھی جو یہ کہے کہ میں بھی اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کی طرح ایک کتاب بنا کر لاسکتا ہوں۔
وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ
کاش آپؐ ان ظالموں( مشرکوں) کو اس وقت دیکھتے جب کہ یہ موت کی سختیوں میں مبتلاء ہو تے ۔
وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْہِمْ۰ۚ
اور فرشتے(عذاب کے لیے) انکی طرف ہاتھ بڑ ھا رہے ہوں گے ۔
اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۰ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ
(اور کہہ رہے ہوں گے) اپنی جان آپ نکالو۔ آج تمہیں ذلّت آمیز عذاب دیا جا ئے گا۔
بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِہٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۹۳
اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کےمتعلق جھوٹی باتیں کہتے تھے اور تم احکامِ الٰہی سے سر کشی کرتے تھے یعنی نہ مانتے تھے۔
وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ
اور( کہا جا ئے گا) تم ہما رے پاس اسی طرح تنہا آئے ہو جس طرح ہم نے تم کو پہلی مرتبہ( بے سرو سا مان) پیدا کیا تھا۔
وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِكُمْ۰ۚ
اور جوکچھ مال ومتاع ہم نے تمہیں عطا کیا تھا، وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے (دنیا میں) چھوڑ آئے۔
وَمَا نَرٰي مَعَكُمْ شُفَعَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّہُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰۗؤُا۰ۭ
کیا بات ہے کہ ہم تمہارے ساتھ تمہارے سفارشیوں کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ جن کے متعلق تمہا را گمان تھا کہ وہ تمہا رے ( شفیع) اور ہمارے شریک ہیں۔
لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۹۴ۧ
تمہا رے اور ان (شرکاء) کے درمیان(جو عقیدت مند یاں) تھیں، وہ سب (آج) ختم ہوگئیں۔ اور جو دعوے تم کرتے تھے و ہ سب جاتے رہے۔
توضیح : ان کے سفارشی ہونے کے تعلق سے جو تصوارت ذہن میں تھے۔ وہ سب فنا ہو گئے ۔ کام نہ آئے ۔
اِنَّ اللہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى۰ۭ
بیشک اللہ تعالیٰ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر( درخت و پودے) اُگا تے ہیں۔
يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْـحَيِّ۰ۭ
وہ جاندار کو بے جان سے اور بے جان کو جان دار سے پیدا کرتے ہیں۔
ذٰلِكُمُ اللہُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ۹۵
یہی تو اللہ ہے پھر تم کد ھر بہکا ئے جا رہے ہو۔
فَالِقُ الْاِصْبَاحِ۰ۚ
(وہی رات کی تا ریکی سے) صبح کی روشنی نمودار کرتے ہیں ۔
وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا۰ۭ
اللہ ہی نے رات کو سکون وآرام کے لیے بنا یا اور چاند اور سورج کو (اپنے اپنے محور پر ایک مقرر ہ حساب سے) گھو متے رہنے کا پابند بنا یا (تا کہ مہینوں سال اور صدیوں کا شمار ہو تا رہے)
ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ۹۶
یہ ایک نہایت ہی زبر دست جاننے والے (اللہ) علیم کا مقرر کیا ہوانظام ہے(جس میں کسی کی سفارش و مشورہ کو دخل نہیں)
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَہْتَدُوْا بِہَا فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۰ۭ
اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور دریا ئو ںکے اندھیروں میں ان سے راستے معلوم کرو۔
قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۹۷
عقل سے کام لینے والوں کے لیے ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردی ہیں ۔
وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ
اور وہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص واحد سے پیدا کیا۔
فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْـتَوْدَعٌ۰ۭ
پھر تمہارے لیے چند روز ٹہر نے اور (سپر دِخاک ہو نے) کی جگہ تجویز فر ما ئی۔
قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّفْقَہُوْنَ۹۸
سمجھنے والوں کیلئے ہم نے اپنی آیتیں وضاحت کے ساتھ بیان کردیں۔
وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۰ۚ
اور وہ اللہ ہی تو ہے جس نے آ سمان سے مینہ بر سا یا۔اور وہ اللہ ہی تو ہے جس نے آ سمان سے مینہ بر سا یا۔
فَاَخْرَجْنَا بِہٖ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا
پھر ہم ہی اس (مینہ) کے ذریعہ ہر قسم کی رو ئید گی (نبا تات) اور سر سبز وشاداب کھیت اُگا تے ہیں۔
نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا۰ۚ
اس سے تہ بہ تہ دانے دار انا ج پیدا کرتے ہیں۔
وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِيَۃٌ
اور کھجور کے گا بھے میں سے کھجور کے گچھے جو بوجھ سے جھکے پڑ تے ہیں نکالے۔
وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّيْتُوْنَ
اور انگور کے باغ اور زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے
وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِہًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِہٍ۰ۭ
جو بظاہر ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، ذایقہ کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جُدا جُدا ہیں۔
اُنْظُرُوْٓا اِلٰى ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَــرَ وَيَنْعِہٖ۰ۭ
(ذرا غور سے ) ان پھلوں کو دیکھو ذرا ذرا سے دانے کس طرح تد ریجاً پھل بنتے ہیں اور (پکنے پر کس قدر) خوش ذائقہ ہو تے ہیں۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكُمْ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۹۹
ایمان لا نے والوں کیلئے ان میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کئی ایک نشان ہیں
توضیح :یہ نظامِ کائنات اہلِ ایمان و طالبانِ حق کو بہ زبانِ حال کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اِلٰہ واحد ہیں وہی لائق عبادت قابلِ استعانت ہیں۔ اور یہ نظامِ الٰہی اُن تمام انسانوں کے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو الٰہ واحد مانتے ہیں اور جو نہیں مانتے اور جو اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان پیغمبر وں بزرگوں کو واسطہ وسیلہ بنا تے ہیں اور جو نہیں بناتے۔سب کیلئےبود وباش کا یکساں نظام اس باطل عقیدے کی تردید کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لو گوں سے خوش ورا ضی ہو تے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو واسطہ وسیلہ بناتے ہیں اور ایسے بندوں پر مہر بانی نہیں کرتے جو واسطے وسیلے کے قائل نہیں۔
وَجَعَلُوْا لِلہِ شُرَكَاۗءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ
ایسے لوگ بھی ہیں جنھوںنےجنوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھیرا یا ہے۔ حالانکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ (خالق ومخلوق میں رتی برا بر کا تصور بھی شرک ہے)
وَخَرَقُوْا لَہٗ بَنِيْنَ وَبَنٰتٍؚ بِغَيْرِ عِلْمٍ۰ۭ
اور انھوں نے بِلا دلیلِ علمی اللہ تعالیٰ کے لیے(اجنّہ و ملا ئکہ کو) بیٹے وبیٹیاں تجویز کر رکھا ہے۔
سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ۱۰۰ۧ
وہ پاک بلند و بر تر ہے ان باتوں سے جو مشرکین بیان کرتے ہیں۔
توضیح : اللہ تعالیٰ کی نسبت مشر کا نہ عقائد رکھنا گو یا اللہ تعالیٰ کے لیے نقص وعیب ثابت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر نقص وخامی سے پاک و منزّہ ہیں۔
بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ
آسمانوں اور زمین کو پہلی دفعہ پیدا کرنے والے( اُس ذاتِ والا شان) کے لیے اولاد کیوں کر تجویز کی جا سکتی ہے۔
وَّلَمْ تَكُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ۰ۭ
جب کہ انھیں بیوی نہ ہو( صمد ہوں اور شانِ بے نیازی رکھتے ہوں۔)
وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ۰ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۱۰۱
اللہ ہی نے ہر چیز کو پیدا فر مایا۔ وہی ہر چیز کی حقیقت کو جانتے ہیں۔ (نظم ونسق کی تمام تجا ویز سے باخبر ہیں)
ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ
یہی اللہ تمہارے پر ور دگار ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود و مستعان نہیں۔
خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْہُ۰ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ۱۰۲
وہی ہر شے کے پیدا کر نے والے ہیں لہٰذا (بلا شرکتِ غیر ے) اللہ کی عبادت کرو۔( اللہ سے استعانت(مدد) چا ہو)۔ اللہ ہر شے کے حاجت روا کار ساز(ما ویٰ و ملجا) ہیں۔
لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ۰ۡوَہُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ۰ۚ
(اللہ کی یہ شان ہے کہ) نگا ہیں اس کا ادر اک نہیںکر سکتیں یعنی دیکھ نہیں پاتیں۔ اور وہ ساری نگا ہوں پر نگاہ رکھے ہوے ہے(ساری مخلو قات ہر آن اللہ تعالیٰ کی نظر وں میں ہے)
وَہُوَاللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ۱۰۳
اور وہ نہایت ہی باریک بین ہر حال سے باخبر ہیں۔
قَدْ جَاۗءَكُمْ بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۚ
یقیناً تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت پیدا کرنے والی تعلیم پہنچ چکی ہے۔
فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِہٖ۰ۚ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْہَا۰ۭ
لہٰذا جس نے بصیرت حاصل کی اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ اور جو اندھا بنارہا اس کا وبال اسی پرپڑے گا۔
وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ۱۰۴
اور میں تم پر نگہبان نہیں ہوں( تمہارے اعمال کے تم خود ذمّہ دار ہو۔)
وَكَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ وَلِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ
اور اسی طرح اپنی آیتیں مختلف اندازسے بیان کر تے ہیں تاکہ کا فریہ نہ کہیں کہ آپؐ اہل کتاب سے سیکھ کر آئے ہیں۔
وَلِنُبَيِّنَہٗ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۱۰۵
اور اس لیے بھی کہ جو لوگ سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں ان پر حق وصداقت ظاہر ہو جا ئے۔
اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۰ۚ
ائے نبی(ﷺ) ان احکام کی پوری پوری اتباع کیجئے جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر وحی کیے گئے ہیں(خواہ جاہل اس کے خلاف لاکھ ہنگا مہ آرائی کریں، فتنہ و فساد مچائیں یا کچھ ہی کریں)
لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ۱۰۶
اللہ تعالیٰ کے سوا(اللہ تعالیٰ کے ساتھ) کوئی معبود ومستعان نہیں(وہی عبادت واستعانت کے لائق ہے) اور آپؐ مشر کین سے کنا رہ کش ہو جائیے
وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكُوْا۰ۭ
اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو مشرکین شرک نہ کرتے( اللہ تعالیٰ سب کو شرک سے بازر کھتے مگر اللہ کے دین میں جبر نہیں۔ اگر کوئی جبراً حق کو مان لے تو وہ اس کے لیے نفع بخش نہ ہو گا۔)
وَمَا جَعَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا۰ۚ
اور(ائے نبیﷺ) ہم نے آپؐ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِوَكِيْلٍ۱۰۷
اور نہ آپؐ اُن کی( برائیوں کے) ذمّہ دار ہیں۔
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ
اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو یہ لوگ حاجتوں اور مصیبتوں میں مدد کے لیے پکارتے ہیں، آپ انھیں برُا بھلا نہ کہیئے۔
فَيَسُبُّوا اللہَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ۰ۭ
کہ کہیں وہ بھی مخالفت کے جوش میں جہل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو بھی بُرا بھلا کہنے لگیں۔
كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ۰۠
اسی طرح ہم نے ہر ایک فرقہ کے اعمال اُن کی نظر میں اچھے کر دکھائے (تاکہ ان کا امتحان لیں)
ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ مَّرْجِعُہُمْ
پھر انھیں(محا سبۂ اعمال کیلئے) اپنے پر ور دگار ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
فَيُنَبِّئُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۱۰۸
پھر ہم انھیں بتا دیں گے کہ وہ کن اعمال کے مرتکب تھے۔
وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَيْمَانِہِمْ
اور وہ(منکرانِ حق) اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا تے ہیں۔
لَىِٕنْ جَاۗءَتْہُمْ اٰيَۃٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِہَا۰ۭ
کہ اگر اُن کے پاس کوئی معجزہ آتا تو وہ اُس پر ضرور ایمان لے آتے۔
قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللہِ
کہئیے معجزات تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔
وَمَا يُشْعِرُكُمْ۰ۙ اَنَّہَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۱۰۹
اور(ائے ایمان والو) تم کیا جانو اگر معجزہ آبھی جائے تب بھی وہ ایمان نہ لائیں گے(پہلے کی طرح کہیں گے یہ جا دو ہے یا کچھ اور عذر کر جائینگے)
وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ
اور ہم اُن کے دل اور اُن کی نگا ہوں کو اُلٹ دیں گے۔
كَـمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ
جس طرح پہلی مرتبہ وہ اس قرآن پر ایمان نہ لائے تھے (ویسے پھر بھی ایمان نہ لائیں گے)
وَّنَذَرُہُمْ فِيْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَہُوْنَ۱۱۰ۧ
اور ہم اُن کو اُن کی سر کشی میں چھوڑ دیں گے کہ وہ اسی میں بھٹکتے رہیں۔
توضیح : معجزہ کا مطا لہ بھی سر کشی کی علامت ہے۔
وَلَوْاَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃَ وَكَلَّمَہُمُ الْمَوْتٰى
اور اگر ہم اُن کی طرف فرشتے اُتا رتے اور ان سے مُر دے باتیں کرنے لگتے
وَحَشَرْنَا عَلَيْہِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ
اور ہم دنیا کی ہر چیز ان کے سامنے جمع کردیتے تب بھی وہ ایمان نہ لاتے سوائے اس کے کہ مشیتِ الٰہی یہی ہو کہ وہ ایمان لائیں۔
وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ يَجْہَلُوْنَ۱۱۱
لیکن ان کی اکثریت جہالت ہی کو اپنائے ہوئے ہے (اب ان سے ایمان لا نے کی توقع نہیں)
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا
اور اسی طرح ہم نے شیطان سیرت انسانوں اور شیطان صفت جناتوں کو ہمیشہ سے ہر نبی کادشمن بنا یا ہے۔
شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ
(یہ باہم متحد ہو کر نبیؐ کے خلاف سا زش کیا کرتے ہیں۔ یہ سنّت اس لیے جا ری رکھی کہ جب تک دشمن قوی سے قوی تر نہ ہو باطل کے مقابلے میں حق کی قوت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا)
يُوْحِيْ بَعْضُہُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا۰ۭ
ایک دوسرے کے دل میں (خوش آئند اور) فریب آمیز باتیں ڈالتے ہیں(لوگوں کودینِ حق کی مخالفت پر اُبھار تے ہیں)
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ۱۱۲
اور اگرآپؐکا پر وردگار چا ہتا(کہ وہ ایسا نہ کریں) تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے۔ لہٰذا اِنکو اور یہ جوکچھ باتیں بنا رہے ہیں، اسی حال پر چھوڑ دیجئے۔
وَلِتَصْغٰٓى اِلَيْہِ اَفْـــِٕدَۃُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ
(وہ ایسے کام اس لیے بھی کرتے ہیں) اُن لوگوں کے دِل اس طرف مائل ہوجائیں، جو(الٰہی تعلیمات کے مطابق) حیاتِ آخرہ پر ایمان نہیں رکھتے۔
وَلِيَرْضَوْہُ وَلِيَقْتَرِفُوْا مَا ہُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ۱۱۳
اوروہ جن برائیوں کو کر تے رہے تھے اُسی کو پسند کریں اسی میں مبتلا ء رہیں۔
اَفَغَيْرَ اللہِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا وَّہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا۰ۭ
کہئے کیا میں(تمہارےاور اپنے درمیان فیصلہ کرنے کیلئے کسی) غیر اللہ کو حکم بنائوں؟ اللہ ہی تو ہے جس نے تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل فرمائی۔
وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ
اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب(توراۃ) دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب(قرآن) برحق تمہارے پر ور دگار کی جانب سے نا زل ہوئی ہے۔
فَلَاتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ۱۱۴
پس آپؐشک کرنے والوں میں سے نہ ہو جائیں۔
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا۰ۭ
آپ کے رب کا کلام(قرآن) عدل، انصاف و صداقت پر مبنی ہے۔
لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِہٖ۰ۚ وَہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۱۱۵
(اہل کتاب، مشرکین مکہ و منکرین کی خواہش کی بناء پر) اللہ تعالیٰ کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے(جوکچھ یہ کہتے ہیں)
وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ
اکثر لوگ جو زمین(کے گوشوں گوشوں) پر آباد ہیں۔ اگر آپ ان کے مشوروں پر چلیں گے تو وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹا دیں گے۔
اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ۱۱۶
وہ تو محض اپنے وہم وگمان کی پیروی کرتے ہیں اور وہ (بے سر وپا قیاسی باتیں کرتے ہیں)سب اٹکل ہی دوڑاتےہیں۔
اِنَّ رَبَّكَ ہُوَاَعْلَمُ مَنْ يَّضِلُّ عَنْ سَبِيْلِہٖ۰ۚ
بلا شبہ آپ کا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے۔
وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ۱۱۷
اور وہ اُن سے بھی واقف ہے جو راہِ ہدایت پر ہیں ۔
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰيٰتِہٖ مُؤْمِنِيْنَ۱۱۸
جس جانور پر(ذبح کے وقت) اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا ئے تم اُس کا گوشت کھا لیا کرو۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کے احکام (کی صداقت) پر ایمان رکھتے ہو۔
وَمَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ
آخر تم کو یہ کیا ہو گیا کہ اُس جانور کو نہیں کھاتے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو۔
وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ
جو چیزیں تم پر حرام ہیں تفصیل کے ساتھ تمھیں بتا دی گئی ہیں۔
اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْہِ۰ۭ
سوائے اس کے کہ اس کے کھا نے کے لیے مجبور ہو جائو۔
(اضطراری کیفیت طاری ہو جا ئے)
وَاِنَّ كَثِيْرًا لَّيُضِلُّوْنَ بِاَہْوَاۗىِٕہِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ۰ۭ
اکثرجاہل بے سمجھے بوجھے اپنی ہواوہوس کی بنا ء پر لوگوں کو گمراہ کیا کرتے ہیں۔
اِنَّ رَبَّكَ ہُوَاَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِيْنَ۱۱۹
بیشک آپ کا پروردگار حد و دِ الٰہی سے متجاوز ہونے والوں کو خوب جانتے ہے
وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ۰ۭ
ظاہری وباطنی تمام گناہوں کو ترک کردو۔
توضیح: مشرکین کے بہکا وے میں آکر وہ جانور نہ کھا ئو جو اپنی موت آپ مرا ہو۔ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا يَقْتَرِفُوْنَ۱۲۰
یقیناً جو لوگ گناہ کررہے ہیںوہ عنقریب اپنے کیے ہوئے گناہوں کی سزا پائیں گے۔
وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۰ۭ
تم ایسے جانوروں کو نہ کھائو جن پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو(یعنی جو اپنی موت آپ مرا ہو) کیونکہ یہ بڑی ہی نا فر مانی کی بات ہے۔
(اطاعت سے انحراف ہے۔ یعنی جن اشیاء پر اللہ تعالیٰ کے سوا غیر کانام بطورِ تقرب پکا راجا ئے یا دل میں خیال غیر کا رکھا جائے کہ وہ قبول کرکے مُراد پوری کردے یا کرادے تو ایسی چیزوں کو خواہ جانور ہو ں یا دیگر اشیائے خوردنی ان کو مت کھائو اور سمجھ رکھو کہ اس قسم کی چیزوں کا کھانا یقیناً نا پاک ہے۔)
وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــہِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ۰ۚ
اور شیا طین اپنے ساتھیوں کے دِلوں میں شکو ک (واعتراضات)پیدا کرتے ہیں تاکہ وہ(اللہ کی تعلیم کے بارے میں) تم سے جھگڑ تے رہیں۔
وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ۱۲۱ۧ
اور اگر تم ان (مشرکین) کے کہنے پر چلو گے(یعنی ان کے غلط طریقوں کی پیروی کرو گے) تو یقیناً تم بھی مشرک ہو جائو گے۔
توضیح : حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ علما ئے یہود نبیٔ محترم ﷺ پراعتراض کرنے کے لیے جہلا ئے عرب سے کہا کرتے کہ جس جانور کو تم اپنے ہاتھ سے اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ہووہ تو حلال ہوا۔ اور جو جانور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی موت آپ مرتا ہے تو وہ کس طرح حرام ہوا؟
اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا
کیا وہ شخص جو(دین وایمان کے تعلق سے ) مُر دہ تھا پھر ہم نے اس کو حیاتِ(ایمانی) بخشی اور ہم نے اُس کیلئے (ایمان کی) روشنی عطا کی۔
يَّمْشِيْ بِہٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُہٗ
جس کی روشنی میں وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھر تا ہے (زندگی کی راہ طے
فِي الظُّلُمٰتِ
کرتاہے) کیا وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو( جہل کی) تار یکیوں میں پڑا ہوا ہو۔
لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا۰ۭ
وہ اُس سے نکل نہیں سکتا(کیو نکہ وہ جہل کو علم سمجھ رہا ہے۔)
كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۱۲۲
اسی طرح کا فروں کے لیے وہ اعمال خوشنما بنا دیئے گئے ہیں جنھیں وہ (بھلے سمجھ کر) کر تے ہیں۔
توضیح : جو لوگ رہنمائی کو ر ہز نی سمجھتے ہیں، سنّتِ الٰہی یہ ہے کہ صحیح راہ نہ پائیں۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَۃٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِيْہَا لِيَمْكُرُوْا فِيْہَا۰ۭ
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے اکا برین کو مجرم بناے رکھاہے تاکہ وہ وہاں اپنے مکروفریب کاجال پھیلائے رکھیں۔
توضیح:اس آیت میں فرمایا جب کسی آبادی میں کوئی داعیٔ حق کھڑا ہوتا ہے تو وہاں کے سر دار محسوس کرتے ہیں کہ اگر دعوتِ حق کامیاب ہو گئی تو ان کے ظا لما نہ اختیارات کا خاتمہ ہو جائے گا، اس لیے انھیں داعیٔ حق سے ایک طرح کی ذاتی دشمنی اور کد ہوجاتا ہے وہ طرح طرح کی مکاریاں کرتے ہیں ، تاکہ لوگ دعوتِ حق قبول نہ کریں ۔
وَمَا يَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِہِمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۱۲۳
اور وہ جو کچھ مکرو فریب کرتے ہیں، اپنے ہی ساتھ کرتے ہیں مگر انھیں اس کا شعور تک نہیں۔
وَاِذَا جَاۗءَتْہُمْ اٰيَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ
اور جب بھی کوئی نشانی ان کےسامنے آتی ہے تو (مغرورانہ انداز میں) کہتے ہیں ہم ہر گزنہ مانیں گے۔
حَتّٰي نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللہِ۰ۭۘؔ
جب تک کہ ہم کوبھی وہ چیز نہ دی جاے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے۔
توضیح :رسول صرف پیغا مبرہی نہیں ہوتے۔ بلکہ الٰہی تعلیم کا عملی نمونہ بھی ہو تےہیں۔ فطرتِ انسانی یہ ہے کہ جب تک اس کے سامنے کوئی عملی نمونہ نہ ہو صحیح معنوں میں اتباع نہیں کر سکتا ۔ رسولوں کے ذریعہ ہدایت کا سامان کر نا ہی فطرتِ انسانی کے مطابق ہے ۔ ہر آدمی کا قلب محلِّ وحی نہیں ہوتا۔ ہر شخص کے پاس جبرئیل امین نہیں بھیجتے جا تے۔
اَللہُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ۰ۭ
اللہ تعالیٰ جانتےہیں کہ اپنی رسالت کا کام کس سے لیں۔
سَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللہِ
اِن لوگوں کو جنھوں نے یہ جُرم کیاہے ۔ عنقریب اللہ تعالیٰ کے پاس ذلّت آمیز سزا ملے گی۔
وَعَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ۱۲۴
(اور ان شرارتوں کی پاداش میں) یہ سخت ترین عذاب سے دوچار ہوں گے۔
فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہٗ يَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۰ۚ
لہٰذا اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دینا چا ہتے ہیں، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں۔
توضیح : ہدایت انھیں دی جا تی ہے جو طالبِ ہدایت ہو تے ہیں وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ
وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ
اور جسے چا ہتے ہیں۔ اُس کو( اُسی کی) گمرا ہی میں پڑا رہنے دیتے ہیں۔
يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۰ۭ
اس کے سینے میں ضیق(تنگی) پیدا کر دیتے ہیں۔ اور وہ ایسی گرانی محسوس کرتا ہے۔ جیسے آسمان پر چڑھ رہا ہو۔
توضیح :وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اسلام قبول کرنا گو یا معلق آسمان پر چڑ ھنا ہے جو ممکن ہی نہیں۔
كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَايُؤْمِنُوْنَ۱۲۵
اسی طرح اللہ تعالیٰ کفر وشرک کی گند گی ان لو گوں پر مسّلط کردیتے ہیں جو ایمان نہیں لاتے ۔
توضیح : جو لوگ الٰہی تعلیم کو جو بالکلیہ عقل وفطرت کے مطابق ہے، قبول نہیں کرتے تو انھیں شرک کی نجاستوں ہی میں پڑا رہنے دیتے ہیں۔
وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِـيْمًا۰ۭ
اور تمہارے رب کا مقرر کیا ہوا سید ھا راستہ یہی ہے۔
(جو بِلا کھٹکے منزلِ مقصود یعنی جنّت میں پہنچادیتا ہے)
قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ۱۲۶
ہم نے واضح کردیا ہے نشانیوں کو، غور کرنے والوں کے لئے (جو لوگ نصیحت حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ہم نے اپنی تعلیم کے حق ہونے کے تفصیلی دلائل بیان کر دیئے ہیں۔)
لَہُمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّہِمْ
اُن کے لیے اُن کے رب کے پاس سلا متی کا گھر (الجنہ) ہے ( جہاں وہ ہر آفت و مصیبت سے محفوظ و خوشحال زندگی گزاریں گے۔)
توضیح : دارالسلام سے مُراد جنّت ہے۔ حساب کے بعد اہل ِ جنّت،جنّت میں داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو سلام پیش کیا جائے گا۔ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ۲۴ۭ تم نے صبر وشکر کے ساتھ زندگی گزاری تم پر سلامتی ہو۔ آخرت کیا ہی بہتر گھر ہے )
وَہُوَ وَلِـيُّہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۱۲۷
اُن کے نیک اعمال کی وجہ اللہ تعالیٰ ان کے مددگار ہیں۔
وَيَوْمَ يَحْشُرُہُمْ جَمِيْعًا۰ۚ
اور جس دن اللہ تعالیٰ تمام جن وانس کو جمع کریں گے( فرمائیںگے)
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ۰ۚ
ائے جنات کی جماعت تم نے انسانوں کے گمراہ کرنے میں بڑا حصّہ لیا۔
وَقَالَ اَوْلِيٰۗـؤُہُمْ مِّنَ الْاِنْسِ
اور انسانوں میں سے جو ان سے تعلق رکھتے تھے کہیںگے۔
رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ
ائے ہما رے رب ہم نے ایک دوسرے سے(نا جائز) فا ئدہ اٹھایا۔
وَّبَلَغْنَآ اَجَلَنَا الَّذِيْٓ اَجَّلْتَ لَنَا۰ۭ
تا آنکہ ہم اس ساعت کو پہنچ گئے جو آپ نے ہما رے لیے مقرر رکھی تھی(یعنی قیامت)
قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۰ۭ
اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے۔ تمہارا مستقل ٹھکانا آتش ِ جہنّم ہے جس میں تم ہمیشہ ہمیشہ رہو گے۔ مگر جنھیں اللہ تعالیٰ بچا نا چاہیں۔
اِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ۱۲۸
بے شک آپ کارب بڑا ہی جاننے والا حکمت والا ہے۔
(کہ کون کس سزا کا مستحق ہے۔ جزاء و سزا کی ہر تجویز بڑی ہی عا لما نہ اور حکیمانہ ہے)
وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِـمِيْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۱۲۹ۧ
اور اسی طرح ہم بعض کفّار ومشرکین کو ( جہنّم میں) ایک دوسرے کے قریب رکھیں گے۔ (ان کے اعمال کے سبب جو وہ کرتے تھے )