يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ
(قیامت کے دن کہا جائے گا) ائے گروہِ جن وہ انس کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے۔
يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ
جو تمہیںمیری آیتیں(احکام) پڑھ کر سنا تے۔
وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا۰ۭ
اور اس دن کے آموجود ہو نے(اور قیامت کی جزاء اور سزا) سے تمہیں ڈرا تے نہ تھے۔
قَالُوْا شَہِدْنَا عَلٰٓي اَنْفُسِـنَا
وہ کہیں گے ہم اپنے آپ پر گواہ ہیں(یعنی ہم کو اپنے قصور کا اعتراف ہے۔ بے شک آپ کے رسول آئے تھے اور انھوں نے محا سبۂ اعمال کے دن سے ڈرا یاتھا)
وَغَرَّتْہُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا
اور دنیا کی (خوش حال) زندگی نے انھیں دھو کہ میں ڈال رکھا تھا ۔
توضیح : یا تو یہ سمجھ رہے تھے کہ انھیں دو بارہ جی اٹھنا نہیں ہے یاد نیا کی خوشحال زندگی کو اس بات کی علامت سمجھتے رہے کہ آخرت بھی اچھی ہوگی۔ یا سمجھتے رہے کہ بزر گوں کی سعی و سفارش سے کام نکل جائے گا وغیرہ
وَشَہِدُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ۱۳۰
اور خود اپنے خلاف گوا ہی دیں گے( اقرار کریں گے) کہ واقعی وہ کافر تھے ( اللہ کے رسول کی تعلیمات کا انھوں نے انکار کیا تھا)
ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ يَكُنْ رَّبُّكَ مُہْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا غٰفِلُوْنَ۱۳۱
یہ شہادت ان سے اس لیے لی جائے گی تا کہ یہ معلوم ہو جا ئے کہ آپ کا پر ور دگار ایسا نہیں ہے کہ ظلم کے ساتھ ہلاک کر دے اور وہاں کے رہنے والوں کو خبر بھی نہ ہو (کہ کس پاداش میں انھیں ہلاک کیا گیا ہے ان کا کیا قصور تھا )
توضیح : اللہ تعالیٰ کسی بستی والوں کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتے جب تک کہ ان کے پاس رسول بھیج کر انھیں متنبہ نہ کرادے کہ اگر تم الٰہی تعلیمات پر عمل نہ کرو گے تو تمہیں ہلاک کیا جائے گا ۔
وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا۰ۭ
اور ہرا یک کے لیے بہ لحاظِ اعمال درجات مقرر ہیں(یعنی شرک و کفر کی شدّت وکمی کے لحاظ سے سزا مقرر ہے۔)
وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ۱۳۲
اور جو کچھ وہ (بداعمالیاں) کررہے ہیں(ائے نبیﷺ) آپ کا پرور دگار اُن سے بے خبر نہیں ہے۔
وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَۃِ۰ۭ
اور آپ کا پروردگار ہر بات سے مستغنی(بے نیاز) اور بڑی رحمت والاہے۔
توضیح : دنیا کے تمام انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگ جائیں تو اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال میں ذرّہ برابر اضافہ نہیں ہوتا اور سب کے سب انکار کردیں تو اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی میں ذرّہ برابر کمی واقع نہیں ہوتی۔
اِنْ يَّشَاْ يُذْہِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا يَشَاۗءُ كَـمَآ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّيَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِيْنَ۱۳۳ۭ
اگر وہ چا ہے تو تم سب کو فنا کردے ۔ اور تمہارےبعد جس کو چا ہے تمہارا جا نشین بنا دے جیسا کہ تم کو گزرے ہوئے لوگوں کی نسل سے پیدا کیا۔
اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍ۰ۙ وَّمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ۱۳۴
بے شک جو وعدۂ(عذاب) تم سے کیا گیا ہے(اٹل ہے)آکر رہے گا ۔ اور تم اس کو روک نہ سکوگے۔
قُلْ يٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰي مَكَانَتِكُمْ اِنِّىْ عَامِلٌ۰ۚ
ائے میری قوم کے لوگو تم ( اپنی جگہپر) عمل کیے جائو اورمیں (اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ) عمل کیے جا رہا ہوں۔
فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۰ۙ مَنْ تَكُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ۰ۭ
عنقریب تم جان لو گے کہ آخرت کا گھر( الجنتہ) کس کے لیے ہے ۔
اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۱۳۵
یقیناً ظالم(مشر ک) کبھی نجات نہیں پا سکتے۔
وَجَعَلُوْا لِلہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِيْبًا
اور وہ اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مویشوں میں اللہ تعالیٰ کا بھی ایک حصّہ مقرر کرتے ہیں (اونٹ، گائے بھیڑ اور اناج وغیرہ میں)
فَقَالُوْا ھٰذَا لِلہِ بِزَعْمِہِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَاۗىِٕنَا۰ۚ
اور بزعمِ خیال خود کہتے ہیں۔یہ حصّہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور یہ ہمارے شریکوں(معبود انِ باطل ) کے لیے
فَمَا كَانَ لِشُرَكَاۗىِٕہِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللہِ۰ۚ
پھر جو حصّہ ان کے شریکوں کا ہوتا ۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچایا جاسکتا تھا۔
وَمَا كَانَ لِلہِ فَہُوَيَصِلُ اِلٰي شُرَكَاۗىِٕہِمْ۰ۭ
اور جو حصّہ اللہ تعالیٰ کے نام کا نکالا ہوا ہوتا وہ ان کے شر کا ء کی طرف پہنچایا جا تا۔
توضیح : طریقہ یہ مقررکرر کھا تھا کہ جانوروں کی جس تعداد میں سے وہ اللہ تعالیٰ کا حصّہ مقرر کر دیتے اتنی مقدار میں جانور پیدا نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کا حصّہ نکالتے نہ تھے۔ ا س طرح زرا عت میںاگر کمی ہوتی تب بھی اللہ تعالیٰ کے نام کا حصّہ نہ نکالتے اور جن اکابر قوم کو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیا ہے اُن کے نام سے مقرر کیے ہوئے حصّہ میں کمی نہ کرتے تھے۔ مشرکین عرب منّت مانتے تھے کہ اپنی زراعت اور مویشی میں سے اتنا حصّہ اللہ تعالیٰ کے لیے نکالیں گے اور اتنا بُتوں کے لیے اللہ کا حصّہ فقیروں کو دیتے اور بُتوں کا ان کے مجاوروں کو اگر اللہ تعالیٰ کے حصّہ میںسے کچھ کم وبیش ہوجاتا تو اس کی پر واہ نہ کرتے لیکن بُتوں کی نیازکی بڑی نگہدا شت کرتے اور کہتے اُن کے حصّہ میں سے کچھ کم نہ ہو نا چا ہئے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کسی کی نذریامنّت شرک ہے۔
سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ۱۳۶
انھوں نے کیا ہی بُری تجویزیں ایجاد کررکھی ہیں۔
وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ قَتْلَ اَوْلَادِہِمْ شُرَكَاۗؤُہُمْ
اور اسی طرح ان کے بہت سے شر کاء نے قتلِ اولاد کے عمل کو مشرکین کی نظروں میں پسندیدہ بنا رکھا ہے۔
لِيُرْدُوْہُمْ وَلِيَلْبِسُوْا عَلَيْہِمْ دِيْنَہُمْ۰ۭ
تاکہ اپنے عقیدت مندوں کو تبا ہی میں ڈال رکھیں اور ان کے دین کو خلط ملط کردیں ۔ یعنی اپنے مذموم اور ظالما نہ طریقوں کو دین کے نام سے برقرار رکھیں۔
وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ۱۳۷
اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو وہ لوگ ایسی حرکات نہ کرتے لہٰذا آپ انھیں (ان کے حال پر ) چھوڑ دیجئے جوکچھ افترائی اعمال کیے جا رہے ہیں کیے جائیں۔
وَقَالُوْا ہٰذِہٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ۰ۤۖ
اور (جانوروں اور کھیت کے ایک حصہ کو مخصوص کرکے) کہتے ہیں یہ جانور اور کھیت مخصوص ہیں۔
لَّا يَطْعَمُہَآ اِلَّا مَنْ نَّشَاۗءُ بِزَعْمِہِمْ
بہ زعم ِ خودکہتے ہیں۔ ان کو کوئی نہیں کھا سکتا مگر جس کو ہم کھلا نا چا ئیں۔
وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُہُوْرُہَا
اور (کہتے ہیں ) یہ مخصوص مویشی ہیں جن پر سواری و بار بر داری حرام کردی گئی ہے۔
وَاَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللہِ عَلَيْہَا افْتِرَاۗءً عَلَيْہِ۰ۭ
اور کچھ جانور ہیں، جن پر وہ( بوقتِ ذبح) اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے۔ یہ سب باتیں انھوں نے اللہ تعالیٰ پر افتراء کی تھیں۔
سَيَجْزِيْہِمْ بِمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۱۳۸
انھوں نے جوکچھ افترا پرداز یاں کی ہیں، اسکا انھیں عنقریب بدلہ دیا جائیگا۔
وَقَالُوْا مَا فِيْ بُطُوْنِ ہٰذِہِ الْاَنْعَامِ خَالِصَۃٌ لِّذُكُوْرِنَا
(افترائی باتوں میں سے ایک بات بھی) اور وہ کہتے ہیں کہ اس جانور کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ خالص مردوں کے لیے ہے۔
وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓي اَزْوَاجِنَا۰ۚ
اور وہ ہماری عورتوں پر حرام ہے۔
وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَۃً فَہُمْ فِيْہِ شُرَكَاۗءُ۰ۭ
اور اگر وہ بچہ مُرد ہ پیدا ہو تو مر داور عورت اس کھا نے میں شریک ہو سکتے ہیں۔
سَيَجْزِيْہِمْ وَصْفَہُمْ۰ۭ
(حلال وحرام کے بارے میں ) اس طرح کی جھو ٹی با تیں جو انھوں نے گھڑرکھی ہیں عنقریب انھیں اس کی سزامل کر رہے گی ۔
اِنَّہٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ۱۳۹
بے شک اللہ ہی حکمت والا جاننے والا ہے۔
توضیح : اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ کونسی چیزیں مفید ہیں اور کونسی مضر۔ جو مفید ہیں انھیں حلال اور جو مُضر ہیں ۔حرام قرار دی
گئیں۔ غیرِ حکیم کو کیا حق ہے کہ وہ حلال وحرام کی تجا ویز کرے۔
قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ
یقیناً وہ لوگ بڑے ہی نقصان میں رہے جنھوں نے اپنی اولاد کو بے سمجھی ونادانی سے قتل کیا۔ (مشرکین کی ایک بے ہودگی یہ تھی کہ لڑکیوں کو قتل کرتے اور بڑے فخر سے اس کوبیان کرتے تھے)
وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَاۗءً عَلَي اللہِ۰ۭ
اور کھا نے پینے کی جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے انھیں دی تھیں۔ اللہ تعالیٰ پر افترا پر دازی کر کے اُن چیزوں کو انھوں نے اپنے پر حرام ٹھہرا لیا۔
قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُہْتَدِيْنَ۱۴۰ۧ
یقیناً وہ بھٹک گئے اور ہدایت پانے والوں میں سے نہ ہوئے۔
وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ
اور وہ(اللہ) ہی تو ہے جس نے( طرح طرح کے) باغ پیدا کیے۔ ایک وہ جن کی بیلیں چھڑیوں پر چڑ ھائی جاتی ہیں( جو اپنے تنوں پر کھڑے نہیں رہ سکتیں)دوسرے وہ درخت جو اپنے تنوں پر کھڑے ہوتے ہیں(جنھیں سہا رے کی حا جت نہیں)
وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُہٗ
اور کھجور کے باغ (نخلستان) پیدا کیے اور کھیتیاں اُگائیں جن میںطرح طرح کے پھل ہوتے ہیں جو ذا ئقہ ، ہیئت،کیفیت میں مختلف النوع ہوتی ہیں ۔
وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِہٍ۰ۭ
اور زیتون اور انار جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور بعض ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔
كُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ يَوْمَ حَصَادِہٖ۰ۡۖ
ان کے پھل کھائو جب یہ تیار ہو جا ئیں(پک جائیں) اور جس دن فصل کاٹو اس کاحق( زکوٰۃ) ادا کیا کرو
وَلَا تُسْرِفُوْا۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۱۴۱ۙ
اور اسراف نہ کرو بے شک اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔
اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت ثابت بن قیس نے اپنے باغ کے کھجور درختوں سے اُتر وائے اور دن بھر مسا کین کو تقسیم کرتے رہے حتّٰی کہ شام کو ان کے پاس ایک بھی کھجور نہ بچا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :یہ اسراف ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب نہیں ہے مال کو اس طرح نہ دینا چا ہیئے کہ خود محتاج ہو کر رہ جا ئیں۔
وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَۃً وَّفَرْشًا۰ۭ
اور مویشیوں میں بوجھ اٹھانے والے بھی پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے بھی (اور مویشیوں میں سے وہ جانور پیدا کیےجن سے سواری وبار بر داری کے کام لیے جاتے ہیں(اونٹ گھوڑا وغیرہ) اور وہ جانور بھی جو بوقت ِذبح زمین پر لٹا ئے جاتے ہیں (بکرے وغیرہ)
كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ
اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تم کو دیا ہے کھا ئو (اور پیو) اور شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو
اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۱۴۲ۙ
وہ تمہا را کھلا دشمن ہے۔
توضیح : یہ سب اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی چیزیں ہیں۔ اس بخشش و عطاء میں کسی اور کا دخل نہیں مَا كَانَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ کے مصداق منع وعطاء میں اللہ کے سوا کسی کو کسی قسم کا اختیار نہیں۔
یعنی
ثَمٰنِيَۃَ اَزْوَاجٍ۰ۚ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ۰ۭ
یہ آٹھ نر مادہ ہیں۔ دو بھیڑ و دنبہ کی قسم سے اور اور دو بکری کی قسم سے۔
قُلْ ءٰۗالذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَـيَيْنِ
ائے نبیﷺ ان سے پو چھئے کیا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں و حرام کیا ہے یا دونوں ما دائو ں کو۔
اَمَّا اشْـتَمَلَتْ عَلَيْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَـيَيْنِ۰ۭ
یا وہ (بچے) جو دونوں مادہ( بھیڑوں وبکریوں) کی جنین (پیٹ )میں پر ورش پاتے ہوں۔
نَبِّــــُٔــوْنِيْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۱۴۳ۙ
اگر تم اس بیان میں سچے ہوتو کسی دلیلِ علمی سے ثابت کردکھا ئو۔
وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ۰ۭ
اور اسی طرح دواونٹ کی قسم سے اور دو گائے کی قسم سے
قُلْ ءٰۗالذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَـيَيْنِ
(ائے نبیﷺ) ان سے پو چھئے کیا اللہ تعالیٰ نےان کے نر حرام کیے ہیں یا ما دہ ۔
اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَـيَيْنِ۰ۭ
یا وہ جو دونوں مادہ( اونٹی اور گاے) کے جنین (رحم )میں لپٹے ہوئے ہوں۔
اَمْ كُنْتُمْ شُہَدَاۗءَ اِذْ وَصّٰىكُمُ اللہُ بِھٰذَا۰ۚ
کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ تعالیٰ نے ان کے حرام ہونے کا تمہیں حکم دیا تھا۔
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ۰ۭ
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹی باتیں افتراء کرے اور علم کے بغیر لوگوں کو گمراہ کرے۔
اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۱۴۴ۧ
یقیناً اللہ تعالیٰ(ایسے) ظا لموں کو راہِ ہدایت نہیں دکھلا تے
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُہٗٓ
(ائے نبیﷺ) اُن سے کہیئے جو وحی میرے پاس آئی ہے، اس میں سے کوئی چیزمیں ایسی نہیں پاتا جو کسی کھا نے والے پر حرام ہو۔
اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ۰ۚ
سوا ئے اس کے کہ وہ مرا ہوا ہو یا ذبح کے بعد کا بہتا ہوا خون یا خنزیر کاگوشت نجس وناپاک ہے۔ یا وہ جو غیر اللہ کی خوشنو دی کے لیے نام زد کی گئی ہو گناہ کی ہو۔
حضرت ابن عباسؓ نے اس آیت عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُہٗٓ کو پڑھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو حلال کیا ہے وہ حلال اور جو حرام کیا وہ حرام ہے اور جس سے سکوت کیا وہ عفوہے (ابودائود۔ حاکم)
اور وہ جانور( بکرے وغیرہ) جو غیر اللہ کے نام پر چھوڑ تے ہیں اور اُن کی خوشنودی کے لیے ذبح کیے جاتے ہیں یہ سب اُہِلَّ لِغَیْرِ اللہ میں داخل ہیں۔
فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۴۵
ہاں جس پر اضطراری کیفیت طاری ہو جا ئے(بھوک سے بیتا ب وبے قرار ہو جائے اور ان میں کوئی چیز بقدر لایموت کھا لے یعنی جان بچا نے کے لیے کھا لے۔ نافر مانی نہ کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو یقیناً آپ کا رب بخشنے اوررحم کرنے والاہے۔
وَعَلَي الَّذِيْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ۰ۚ
اور یہودیوں پر ہم نے ناخن والے سب جانور حرام کر دیئے تھے(یعنی چیرے ہوئے کھروں والے جانور)
وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْہِمْ شُحُوْمَہُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُہُوْرُہُمَآ اَوِ الْحَــوَايَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ۰ۭ
اور گائے،بکری کی چربی بھی ہم نے ان پر حرام کردی تھی سوائےاس کے کہ جوان کی پیٹھ اور آنتوں میں لگی ہوی ہو یا ہڈی سے چمٹی رہی ہو۔
ذٰلِكَ جَزَيْنٰہُمْ بِبَغْيِہِمْ۰ۡۖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۱۴۶
یہ سزا ہم نے ان کی سر کشی کے سبب دی تھی اور یقیناً ہم صحیح بات بتانے والے ہیں۔
فَاِنْ كَذَّبُوْكَ
پھر اگر یہ لوگ آپؐ کی تکذیب رکرہے ہیں( آپ کو جھٹلا رہے ہیں)
فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ۰ۚ
تو کہہ دیجئے تمہارا پر ور دگار نہایت واسع الرحمت ہے(ورنہ کبھی کا تمہارا خاتمہ کر دیا گیا ہوتا۔ اب بھی اپنی مجر ما نہ روش سے باز آجائو تو وہ تمہیں اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دے گا۔)
وَلَا يُرَدُّ بَاْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ۱۴۷
اور(اپنی اس با غیا نہ روش پر اڑے رہو گے تو سن لو) مجرم قوم سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا۔
سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ۰ۭ
مشر کین یہ کہتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو ہم اور ہما رے باپ دادا شرک نہ کرتے(یعنی یہ کام اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہو تے تو ہمیں کرنے نہ دیتے) اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔
كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ حَتّٰي ذَاقُوْا بَاْسَـنَا۰ۭ
اسی طرح ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی جھوٹی باتیں کہی تھیں تا آنکہ انھوں نے ہما رے عذاب کا مزہ چکھ لیا۔
قُلْ ہَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا۰ۭ
کہیئے کیا تمہارے پاس کوئی سندِ علمی ہے؟(اگرہے) تو ہما رے پاس پیش کردو۔
اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ۱۴۸
تم تو محض وہم گمان کی اتّباع اور قیاس آرائیوں سے کام لیتے ہو۔
قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ۰ۚ
کہئے فیصلہ کُن دلیل تو اللہ ہی کے پاس ہے۔
فَلَوْ شَاۗءَ لَہَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ۱۴۹
اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو تم سب ہی کو ہدایت بخشتے۔
توضیح : اللہ تعالیٰ بندوں پر اپنی مشیت مسلّط فر ماتے تو سب کے سب ہدایت پر ہو تے۔ بہ جبر ہدایت یافتہ بنا نا گو یا بندوں کے اختیار کو سلب کرنا ہے۔ ایسا کرنا ظلم ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ر تّی برابر ظلم کرنے کے نقص سے پاک و منزہ ہیں۔ انسان فطر تاً اپنے حدودِ امکانی میں با اختیار ہے۔ بے اختیار نہیں رہنا چا ہتا۔ نیز انسان سے متعلق مشیت الٰہی یہ ہے کہ نیکی یا بدی، ایمان وکفر، اطاعت ومعصیت، ہدایت و ضلالت، ان میں سے جو بھی راہ اپنے لیے منتخب کرے، اللہ تعالیٰ وہی راہ اس کیلئے آسان کر دیتے ہیں۔
قُلْ ہَلُمَّ شُہَدَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ
(ائے محمدﷺ) آپؐ ان سے کہئے اپنے ان گو ا ہوں کولے آئو جو اس
يَشْہَدُوْنَ اَنَّ اللہَ حَرَّمَ ھٰذَا۰ۚ
بات کی شہادت دیںکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو حرام کر دیا ہے(جس کو تم حرام سمجھتےہو)
فَاِنْ شَہِدُوْا فَلَا تَشْہَدْ مَعَہُمْ۰ۚ
پھر اگر وہ شہادت بھی دیں تو آپؐ اُن کی موافقت میں گواہی نہ دیجئے۔
وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا
اور نہ اُن کے باطل خیالات کا اتباع کیجئے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَہُمْ بِرَبِّہِمْ يَعْدِلُوْنَ۱۵۰ۧ
اور وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے( آخرت کے منکرین ہیں) وہ اپنے پر ور دگار کے ساتھ دوسروں کوبھی( اللہ تعالیٰ) کے برابر قرار دیتے ہیں۔
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ
پیغمبرﷺ! کہیئے(لوگو) آئو میں تمہیں سنائوں کہ تمہارے رب نے تم پر کن کن چیزوں کو حرام کیا ہے
اَلَّا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۰ۚ
یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنا ئو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ۰ۭ
اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔
(حضرت محمدﷺ سے عبد اللہ بن مسعودؓ نے پوچھا تھا کہ حضور شرک کے بعد کو نسا بڑا گناہ ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو قتل کرے اس خوف سے کہ وہ تیرے ساتھ رزق میں شریک ہوگا( بخاری مسلم)
یعنی
نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاہُمْ۰ۚ
ہم تم کو بھی رزق دیتے ہیں اور اُن کوبھی۔
وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ۰ۚ
اور بے شرمی بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جا ئو خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی۔
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۰ۭ
اور جس کا قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اس کو قتل نہ کرو سوائے اس کے کہ شر عاً کسی کا قتل کرنا جائز ہو۔
ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۱۵۱
اس طرح اس (قرآن) کے ذریعہ تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ تاکہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔
وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا
اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جائو مگر ایسے طریقہ سے جو نہایت ہی
بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّہٗ۰ۚ
پسندیدہ ہو تا آنکہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں(اپنے نفع و نقصان کو سمجھ کی ان میں صلاحیت پیدا ہو)
وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ۰ۚ
اور ناپ تول میں کمی بیشی نہ کیا کرو۔
لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۰ۚ
ہم نے کسی کو اس کی وسعتِ نفس سے زیادہ مکلف نہیں کیا (یعنی اس کی طاقت سے زیادہ بار نہیں ڈالا)
وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي۰ۚ
اور جب بات کہو تو کھری کھری اور انصاف کی کہو اگر چہ کہ تمہارا قرابت دارہی کیوں نہ ہو۔
وَبِعَہْدِ اللہِ اَوْفُوْا۰ۭ
اور اللہ تعالیٰ سےکیے ہوئے عہد واقرار کو پورا کرو۔ (عہد بندگی ۔ عہد اطاعت اور وہ عہد جو اللہ تعالیٰ کانام لیکراللہ سے کیا گیا ہو)
ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۱۵۲ۙ
اس طرح قرآن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ان باتوں کی ہدایت کی ہے تاکہ تم نصیحت پذیر ہوجائو۔
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۰ۚ
اور یہ بھی ہدایت کی کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے ۔ لہٰذا تم اسی راستہ پر چلو۔
وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ۰ۭ
اور دوسری راہوں پر نہ چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹادیں گی۔
ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۵۳
یہ وہ ہدایتیں ہیں جو( قرآن کے ذریعہ) اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہیں تاکہ تمپرہیز گار بنو۔
ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَۃً
پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جس میں تمام اچھے کاموں کی تعلیم اور رحمتِ الٰہی سےمالا مال ہونے کے تفصیلی طور و طریق بتلا ئے گئے تھے ۔
لَّعَلَّہُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّہِمْ يُؤْمِنُوْنَ۱۵۴ۧ
تاکہ وہ اپنے پروردگار کے روبرو(جواب دہی کے لیے) حا ضر ہونے کایقین کریں(اور اسی یقین کے ساتھ اپنی آخرت کو سنوار نے کی کوشش میں لگے رہیں۔)
وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ
اور یہ ایک کتاب ہے ۔ جس کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی ہی بابرکت ہے۔
فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۱۵۵ۙ
لہٰذا تم اس کی اتباع کرو۔ اور (اس پر عمل نہ کرنے کے نتائج سے) ڈرو (یہ تعلیم اس لیے دی جاتی ہے) تاکہ تمپر رحم کیا جائے۔
اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا۰۠
(کتاب کے نازل کرنے میں یہ بھی حکمت تھی) کہ تم کہہ سکو کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دوگرو ہوں کو دی گئی تھی۔
وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِيْنَ۱۵۶ۙ
اور ہم کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑ ھتے پڑ ھا تے تھے
اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَہْدٰي مِنْہُمْ۰ۚ
یاتم یوں کہتےاگر کتاب ہم پر نازل کی جاتی تو ہم اُن سے زیادہ راست رو ثابت ہوتے۔
فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَيِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ۰ۚ
یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح کتاب آچکی جو موجب ہدایت ورحمت ہے۔
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَصَدَفَ عَنْہَا۰ۭ
اب اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا۔ جواللہ تعالیٰ کی تعلیمات کو جھٹلادے اورلوگوں کوبھی اس سے رو کے ۔
سَنَجْزِي الَّذِيْنَ يَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰيٰتِنَا سُوْۗءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يَصْدِفُوْنَ۱۵۷
جو لوگ ہماری تعلیمات سے(لوگوں کو) روکتے ہیں اس پاداش میںہم بھی انھیں سخت ترین سزا دیں گے۔
ہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِـيَہُمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ
کیا وہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ اُن کےپاس فرشتے آئیں۔
اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ۰ۭ
یا خود آپ کا پروردگار آئے یا آپ کے رب کی کچھ خاص نشانیاں آئیں۔(کیا اس وقت وہ ایمان لائیںگے)
يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ
جس دن آپ کے رب کے رب کی مخصوص نشانیاں ظاہر ہوں گی۔
توضیح : دَابَّۃُ الْاَرْضْ ۔ ایک جانور کا زمین سےنکلنا لوگوں سے باتیں کرنا ۔ آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا وغیرہ۔
لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُہَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ
اُس وقت کسی شخص کا ایمان لانا سود مند نہ ہوگا۔ کیونکہ وہ اس سے پہلے ایمان لایا نہ تھا۔
اَوْ كَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِہَا خَيْرًا۰ۭ
یا ایمان کی حالت میں نیک عمل نہ کیا ہو گا۔
توضیح : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ظاہر ہونے کےبعد کوئی ایمان لائے گا تو وہ ایمان نفع نہ دیگا اور گنا ہوں سے توبہ کرنا بھی مفید نہ ہو گا۔ مغرب سے سورج کاطلوع ہو نا ۔ دجّال کا نکلنا۔ دابۃ الا رض کازمین سے نکلنا۔
قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ۱۵۸
ائے پیغمبر ان سے کہیئے۔ اس گھڑی کا تم بھی انتظار کرواور ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِيْ شَيْءٍ۰ۭ
جن لوگوں نے اپنے دین میں تفر قے ڈالے اور کئی(گمراہ) فرقوں میں بٹ گئے آپؐ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
اِنَّمَآ اَمْرُہُمْ اِلَى اللہِ ثُمَّ يُنَبِّئُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۱۵۹
یقیناً ان کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میںہے۔ پھروہ انھیں بتائے گاجو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔
مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَـنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا۰ۚ
(جزائے اعمال کی نسبت سنّتِ الٰہی یہ ہے کہ) جواللہ تعالیٰ کےحضور ایک نیکی لے آئے گا تو اُس کو اس کادس گنا ملے گا۔
وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَۃِ فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَہَا وَہُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۱۶۰
اور جو کسی گناہ یا برائی کے ساتھ آئے گا تو اُس کو اُسی کے برابر سزا ملے گی ( جس قدر اُس نے گناہ کیے ہیں ) اور اُن پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
قُلْ اِنَّنِيْ ہَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۰ۥۚ
آپ کہہ دیجئے کہ مجھے میرے رب نے سیدھی راہ دکھا ئی ہے۔
دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۰ۚ
وہ ایک دین مستحکم ملّتِ ابراہیمی ہے(باطل سے کٹ کر اللہ ہی کا ہو رہنا ہے۔ ) جو ایک کی طرف مائل ہونا ہے۔
وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۱۶۱
ابراہیمؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۶۲ۙ
اور یہ بھی کہیئے میرے(ہر قسم کی عبادت) نماز( رو زہ نذرومنّت قربانیاں ۔ میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ ہی(کی خوشنودی) کیلئےہے جو سارے جہا نوں کا (بلا شر کتِ غیرے ) تنہا پر ورش کرنے والا ہے۔
لَا شَرِيْكَ لَہٗ۰ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِيْنَ۱۶۳
اس کا کوئی شریک نہیں (یعنی اس کے نظامِ ربوبیت میں کوئی فرد خلق کسی حیثیت سے بھی خواہ اعزاز اً سہی شریک و دخیل نہیں ہے۔) اور مجھے یہی حکم ملا اورتعلیم دی گئی۔ میں سب سے پہلے اس بات کاماننے والا ہوں۔
قُلْ اَغَيْرَ اللہِ اَبْغِيْ رَبًّا
کہئیےکیا میں غیر اللہ کو اپنا رب(حاجت روا) قرار دوں۔
(اُن غیر اللہ کو جو اللہ تعالیٰ ہی کے محتاج ہیں جو خود محتاج ہو وہ دوسروں کا حاجت روا کیسے ہو سکتا ہے؟)
وَّہُوَرَبُّ كُلِّ شَيْءٍ۰ۭ
وہی (کائنات کی) ہر چیزکے (بلاشرکت غیرے تنہا) حاجت روا ہیں۔
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْہَا۰ۚ
اور ہر شخص اپنے کیے کا آپ ذمہ دار ہے( اس کے بُرے اعمال کا وبال اسی پر پڑے گا)
وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰي۰ۚ
اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہ اٹھاے گا ۔
ثُمَّ اِلٰي رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۱۶۴
پھر تم جب اپنے رب کے پاس لوٹا ئے جائو گے تو ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم نے(دین حق میں) کیا کیا اختلاف پیدا کیے تھے۔
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ
وہ وہی تو ہے جس نے تم کو زمین پر صاحبِ اختیار بنا یا۔
وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۰ۭ
اور تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی۔ تاکہ جو کچھ اس نے تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے( اگر چہ کہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ کون کیا عمل کرتاہے ۔ لیکن آزمائش اِتمام حُجّت کا با عث ہوتی ہے۔)
اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ۰ۡۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۶۵ۧ
بے شک آپؐ کارب بہت جلد سزا دینے والا ہے اور واقعی وہ (توبہ کے بعد ) بڑا ہی بخشنے والا مہر بانی فر ما نے والا بھی ہے۔