وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ۰ۭ
اورائے نبیؐ یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں (کہ وہ کیا چیز ہے یہ سوال بنی اسرائیل نے کیا تھا)
قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا۸۵
کہئے کہ روح میرے رب کا ایک حکم ہے۔ اور تم کوبہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ (اتنا ہی جتنا کہ تمہاری اصلاح کے لیے ضروری ہے)
توضیح : اللہ تعالیٰ کی تخلیق وربوبیت کے تواتنے شعبے ہیں کہ ان کوبہ تفصیل بیان کرنے کے لیے تمام درخت قلم اورسارے سمندر سیاہی بن جائیں تب بھی ان کی تفصیلات ختم نہ ہوں۔
وَلَىِٕنْ شِـئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ
اوراگر ہم چاہیں توجس قدر وحی ہم نے آپ پربھیجی ہے سلب کرلیں۔
ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِہٖ عَلَيْنَا وَكِيْلًا۸۶ۙ
پھراس کے واپس لانے کیلئے آپ کوہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی نہ ملے۔
اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّكَ۰ۭ
مگریہ آپ کے رب ہی کی رحمت ہے( کہ ایسا نہ ہوا)
اِنَّ فَضْلَہٗ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيْرًا۸۷
بے شک آپ پر اس کا بڑا فضل ہے۔
قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ
(ائے نبیؐ منکرین قرآن سے) کہئے اگر جن وانس مل کر بھی قرآن کی طرح کوئی (اصلاحی) کتاب بنالانا چاہیں توایسی کتاب نہیں لاسکتے۔
وَلَوْ كَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِيْرًا۸۸
اگرچہ کہ وہ اس کام میں ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔
توضیح : آج بھی اس جہالت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ یعنی قرآن کے کلام اللہ ہونے کی تردید میں نت نئے استدلال تیار کیے جارہے ہیں۔ چنانچہ حاسدان اسلام اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ قرآن کوکلام الٰہی کی بجائے محمدﷺ کا کلام ثابت کردیں۔ یا قرآن کے الفاظ کم یا زیادہ کرائے جائیں تا کہ مسلمانوں کے قلوب سے اللہ تعالیٰ کی کتاب ہونے کا تصور محو ہوجائے یا کم ازکم اس عقیدے میں شک وشبہات ہی پیدا کئے جائیں۔
وَلَقَدْ صَرَّفْـنَا لِلنَّاسِ فِيْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ۰ۡ
اورہم نے اس قرآن میں لوگوں کوہرطرح سمجھایا ہے (سمجھانے کے جتنے بھی طریقے ہوسکتے ہیں ان سب کے ذریعہ کہیں توالفاظ اورکہیں تفہیم بدل کراورکہیں گزشتہ واقعات بیان کرکے اورکہیں مثالیں دے کرنہایت ہی عمدہ طریقے سے سمجھایا گیا کہ قرآن کوان کے پروردگار ہی نے انسانوں کی ہدایت کیلئے نازل کیا ہے، یہ اور کسی کا کلام نہیں ہے)
فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا۸۹
مگرلوگوں کی اکثریت نے انکار ہی کیا۔
وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا۹۰ۙ
اورکہا آپ پرہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ آپ ہمارے لیے (مکہ کی سنگلاخ زمین میں) کوئی چشمہ جاری نہ کردیں۔
اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّعِنَبٍ
یا خاص کرآپ کے لیے کھجوریا انگور کا باغ ہو
فَتُفَجِّرَ الْاَنْہٰرَ خِلٰلَہَا تَفْجِيْرًا۹۱ۙ
پھراس کے بیچ بیچ میں جگہ جگہ بہت سی نہریں آپ جاری کردیں۔
اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَـمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللہِ
یا جیسا کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں( ایمان نہ لانے کی صورت میں آسمان ہم پرٹوٹ پڑے گا) آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پرگرادیجئے۔
وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ قَبِيْلًا۹۲ۙ
یا اللہ کواورفرشتوں کوہمارے سامنے لے آئیے ۔
اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ
یا آپ کے لیے سونے کا گھر ہو
اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَاۗءِ۰ۭ
یا آپ (ہمارے سامنے) آسمان پرچڑھ جائیں ۔
وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُہٗ۰ۭ
اورہم آپ کا آسمان پرچڑھ جانا با ورنہ کریں گے جب تک کہ آپ لکھی لکھائی کتاب بھی وہاں سے نہ لے آئیں جس کو ہم (بآسانی) پڑھ سکیں۔
قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ ہَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا۹۳ۧ
(ان مطالبات کے جواب میں ائے نبیؐ آپ) صرف یہ کہہ دیجئے سبحان اللہ میں توصرف ایک بشر اوراللہ کا رسول ہوں (ان فرمائشات کا پورا کرنا میرے اختیار میں نہیں)
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَہُمُ الْہُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا۹۴
اور جب بھی لوگوں کے پاس ہدایت آئی تواس کے قبول کرنے میں یہی امرمانع ہوا کہ کہا کیا اللہ نے بشر کورسول بنا کربھیجا ہے (اگر یہ رسول ہوتے تومافوق البشر ہوتے)۔
توضیح : سورہ انعام آیت ۹ میں ان کے اسی مطالبہ کے جواب میں فرمایا گیا اگرہم فرشتے کورسول بنا کر بھیجتے تواس کو انسان ہی بنا کربھیجتے کیونکہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان کورسول بنا کر بھیجنا نہ صرف عدل وانصاف، رحمت وشفقت کا تقاضا ہے بلکہ عقل وفطرت انسانی کے عین مطابق بھی۔ انسان انسان ہی کودیکھ کرانسانیت سیکھتا ہے اپنے جیسے انسان ہی کی پیروی واتباع کرسکتا ہے۔ اگر فرشتے کورسول بنا کر انسانوں کواس کی پیروی کا حکم دیا جاتا تو یہ ظلم ہوتا۔
قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَۃٌ
(ائے نبیؐ) کہئے اگر زمین پرفرشتے ہوتے، اس پراطمینان سے بستے
يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْہِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا۹۵
چلتے پھرتے ہوتے توہم ان پرآسمان سے فرشتے کورسول بنا کر بھیجتے۔
قُلْ كَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ۰ۭ
(ائے نبیؐ) انکار حق کرنے والوں سے) کہئے (کہ تم میری رسالت کا لاکھ انکار کیے جاؤ) میرے اورتمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔
اِنَّہٗ كَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا۹۶
بے شک اللہ اپنے بندوں کے تمام احوال سے باخبر ہے۔
وَمَنْ يَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۰ۚ
اورجس کواللہ تعالیٰ راہ دکھائیں وہی ہدایت پاتا ہے۔
وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِہٖ۰ۭ
اورجس کوگمراہی میں پڑا رہنے دیں توپھر ائے نبیؐ آپ اللہ کے مقابلہ میں کسی کو ایسے لوگوں کا مددگار نہ پاؤگے۔
وَنَحْشُرُہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ عَلٰي وُجُوْہِہِمْ عُمْيًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا۰ۭ
اورہم انھیں قیامت کے دن گونگے اندھے اوربہرے بنا کر منہ کے بل (اوندھے منہ) گھسیٹتے ہوئے اٹھائیں گے،
مَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ۰ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِيْرًا۹۷
ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب بھی آگ دھیمی ہونے لگتی ہے توہم انھیں عذاب دینے کے لیے بھڑکاتے ہیں۔
ذٰلِكَ جَزَاۗؤُہُمْ بِاَنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا
یہ ان کی جزا ہے اس لیے کہ وہ ہماری آیتیوں کا انکار کرتے ہیں۔
وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا۹۸
اورانہوں نے یوں کہا تھا جب ہم مرکر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور ہماری ہڈیاں بھی بوسیدہ ہوجائیں گی توکیا دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟
اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ
کیا یہ لوگ اتنا نہیں جانتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اورزمین کوپیدا کیا وہ اس بات پرقادر ہے کہ ان کودوبارہ اسی حالت میں پیدا کردے۔
وَجَعَلَ لَہُمْ اَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيْہِ۰ۭ
اوران کے لیے( محاسبہ اعمال کا) ایک وقت مقرر کردیا ہے جس کے واقع ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔
فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًا۹۹
پھر(اتنی واضح تعلیم کے بعد بھی) ظالموں نے انکار کیا قبول نہ کیا۔
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَۃِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْـيَۃَ الْاِنْفَاقِ۰ۭ
کہئے اگر تم میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مالک بھی ہوتے توتم خرچ ہوجانے کے اندیشہ سے بخل ہی کرتے۔
وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۱۰۰ۧ
اورانسان بڑا ہی تنگ دل ہے۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍؚ بَيِّنٰتٍ
(ائے نبیؐ معجزہ کا مطالبہ کرنے والوں سے کہئے کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ) ہم نے موسیٰ کونوواضح معجزات عطا کیے
فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَہُمْ
لہٰذا ائے نبیؐ آپ بنی اسرائیل سے پوچھ دیکھئے جب وہ معجزات ان کے پاس آئے۔
فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا۱۰۱
توفرعون نے کہا ائے موسیٰ میں سمجھتا ہوں کہ کسی نے آپ پرجادو کردیا ہے۔
(ان نو معجزات کا ذکر سورہ اعراف کی متعدد آیتوں میں کیا گیا ہے)
قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ہٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ۰ۚ
موسیٰ نے کہا یقیناً تم جانتے ہو کہ یہ سارے معجزات آسمانوں اورزمین کے پروردگار کے سوا کسی نے نازل نہیں کیے جس میں کافی بصیرت ہے۔
وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا۱۰۲
اورائے فرعون میں سمجھتا ہوں کہ ہلاکت تیرے نصیب میں ہے۔
فَاَرَادَ اَنْ يَّسْتَفِزَّہُمْ مِّنَ الْاَرْضِ
تواس نے موسیٰ اوران کی قوم کوصفحہ ہستی سے مٹادینے کا ارادہ کرلیا۔
فَاَغْرَقْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ جَمِيْعًا۱۰۳ۙ
توہم نے اس کواور اس کے سارے ساتھیوں کوغرق دریا کردیا۔
وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا۱۰۴ۭ
اوراس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کوکہا کہ اب تم اس ملک میں رہو سہو (مگر اس بات کونہ بھولو) پھر جب وہ وعدہ آخرت آئے گا توہم تم سب کو جمع کرکے لے آئیں گے۔
وَبِالْحَـقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ۰ۭ
اورہم نے اس قرآن کوبالکل صحیح صحیح طورپرنازل کیا ہے اورسچائی کے ساتھ (شیطانی دست برد سے محفوظ رکھ کر) نازل کیا ہے۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۱۰۵ۘ
اورہم نے آپ کوخوشخبری دینے والا اورڈر سنانے والا بنا کر بھیجا (یعنی اہل ایمان کوجنت کی خوشخبری سنانے اورایمان نہ لانے والوں کوجہنم کی آگ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا لہٰذا
(آپ کے طریقہ تبلیغ میں انجام آخرت کے یہی دوپہلو نہایت ہی نمایاں ہونے چاہئیں)
وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَي
اورقرآن کوہم نے ہی (وقفہ وقفہ سے اور)تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا
النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ
ہے تا کہ آپ موقع بہ موقع ٹھہر ٹھہر کرلوگوں کوسنایا کریں۔
وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِيْلًا۱۰۶
اورہم ہی نے اس کوحسب ضرورت بتدریج اتارا ہے۔
(تا کہ قرآن اچھی طرح لوگوں کے ذہن نشین ہوجائے اوران کواس کے قبول کرنے میں کوئی گرانی اوراس پر عمل کرنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہو۔ قرآن کے بیک وقت نازل نہ ہونے پرجواعتراض کیا گیا ہے اس کا جواب ان آیتوں میں دیا گیا ہے)
قُلْ اٰمِنُوْا بِہٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا۰ۭ
( ائے نبیؐ ان معترضین سے) کہہ دیجئے تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ (مگریہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے)
اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْہِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۱۰۷ۙ
جن لوگوں کواس سے پہلے کی کتابوں کا علم دیا گیا ہے، جب ان کے سامنے یہ قرآن پڑھاجاتا ہے تووہ تھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔
وَّيَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا۱۰۸
اورکہتے ہیں سبحان اللہ یعنی ہمارا پروردگار وعدہ خلافی جیسے نقص سے پاک ہے بے شک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہوکر رہا۔
توضیح : یعنی ہمارے رب نے ہماری کتاب میں یہ جووعدہ فرمایا تھا کہ ایک آخری نبی اورایک آخری کتاب آئے گی وہ پورا ہوکررہا۔
وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُہُمْ خُشُوْعًا۱۰۹ ۞
اوروہ روتے ہوئے منہ کے بل گرجاتے ہیں یعنی سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اورقرآنی تعلیم سے ان کا خشوع اوربھی بڑھ جاتا ہے۔
قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ۰ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۰ۚ
ائے نبیؐ ان سے کہئے (جب تم مدد کے لیے اللہ تعالیٰ کوپکارو تو) اللہ کہو یا رحمٰن، جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب نام اچھے ہی ہیں۔
وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا۱۱۰
اوراپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھ اور نہ آہستہ بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کر۔ (اورنماز میں قرآن نہ (بہت زیادہ) بلند آواز سے پڑھئے اورنہ اتنی پست آواز سےکہ لوگ سن بھی نہ سکیں بلکہ ایک اوسط اوردرمیانی طریقہ اختیار کیجئے۔)
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ
اور(ائے نبیؐ آپ صاف صاف یہ) اعلان کردیجئے کہ ساری تعریف
وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّہٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْہُ تَكْبِيْرًا۱۱۱ۧ
صرف اللہ ہی کیلئے ہے جس نے نہ کسی کوبیٹا بنایا (کہ وہ اس کا ہاتھ بٹائے) اور نہ کوئی اس کی فرمانروائی میں شریک (ودخیل) ہے (اور نہ ہی اس نے اپنے اختیارات کا کوئی جزوکسی کوعطا کیا ہے) اورنہ وہ کمزور وعاجز ہے کہ اس کوکسی مددگار کی ضرورت لاحق ہو لہٰذا اس کی خوب خوب بڑائی بیان کرتے رہئے۔
توضیح : اس حکم کی تعمیل میں ہی اللہ اکبر کے کلمات بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان کلمات کے ذریعہ اس بات کا اعلان کیا جارہا ہے کہ کائنات کا خالق ورب، حاجت روا فریاد رس اللہ تعالیٰ ہی ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار کا کوئی جزوکسی فرد خلق کوچاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہوعطا نہیں فرمایا۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ان کلمات کے ذریعہ جن باطل عقاید کی تردید کی گئی ہے۔
آج ان کلمات کا نعرہ لگانے والے یعنی نعرۂ تکبیر کہنے والے ان ہی تمام باطل عقائد میں مبتلا ہیں اورمبتلا کیے جاتے ہیں۔