☰ Surah
☰ Parah

وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰيَۃً مَّكَانَ اٰيَۃٍ۝۰ۙ وَّاللہُ اَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ

اورجب ہم اپنے کسی سابقہ حکم وہدایت کوکسی دوسری آیت سے بدل دیتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ (کس موقع پربندوں کے لیے) کس حکم وہدایت کونازل کرے ؟

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ۝۰ۭ

توکہتے ہیں کہ آپ نے اپنی طرف سے یہ باتیں گھڑلی ہیں

بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۱۰۱

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر نہیں جانتے کہ حکم بدلنے میں کیا خوبی اورکیا حکمت ہے۔

قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ

(ائے نبی ! ) کہہ دیجئے کہ میرے رب کی طرف سے جبرئیل امین اس کوحق کے ساتھ لے کرنازل ہوئے ہیں۔

یعنی 

لِيُثَبِّتَ الَّذِيْنَ اٰمَنوْا وَہُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ۝۱۰۲

تا کہ اہل ایمان کوایمان پرثابت قدم رکھیں اورفرمانبرداروں کے لیے اس میں ہدایتیں اوربشارتیں ہیں۔

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّہُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ۝۰ۭ

اورہم جانتے ہیں کہ یہ (کفارمکہ) کہتے ہیں کہ اس کوکوئی بشر سکھا جاتا ہے (حالانکہ)

لِسَانُ الَّذِيْ يُلْحِدُوْنَ اِلَيْہِ اَعْجَمِيٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ۝۱۰۳

جس شخص کی نسبت ایسا کہا جاتا ہے اس کی زبان توعجمی ہے اور یہ (قرآن) خالص عربی اورنہایت ہی واضح کتاب ہے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ۝۰ۙ لَا يَہْدِيْہِمُ اللہُ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۰۴

جولوگ کلام الٰہی کونہیں مانتے اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت نہیں دیتے (وہ گمراہی پرہی رہیں گے) ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

یعنی 

اِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ۝۰ۚ

افتراء کرنے والے تووہی لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ کی آیتوں پرایمان نہیں لاتے۔

وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰذِبُوْنَ۝۱۰۵

اور وہی لوگ جھوٹے ہیں۔

مَنْ كَفَرَ بِاللہِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ

جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے یعنی کلمات کفر زبان سے نکالے سوائے اس کے کہ اس کو اس بات پرمجبور کیا گیا ہو اور اس کا قلب ایمان پرمطمئن ہو۔

وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ۝۰ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۱۰۶

لیکن جو دلی آمادگی کے ساتھ کفر کرے تو ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے اوران کے لئے بڑا ہی سخت عذاب ہوگا۔

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۙ

یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کوآخرت کے مقابلہ میں عزیز رکھا۔

وَاَنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝۱۰۷

اوراللہ تعالیٰ ایسے کافروں کوہدایت نہیں دیتے۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ وَسَمْعِہِمْ وَاَبْصَارِہِمْ۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝۱۰۸

یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پراورکانوں پراورآنکھوں پراللہ تعالیٰ نے مہرلگادی ہے اوروہ اسی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

لَا جَرَمَ اَنَّہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۱۰۹ 

ضرور ہے کہ وہ آخرت میں انتہائی خسارہ میں ہوں گے۔

ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ ہَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰہَدُوْا وَصَبَرُوْٓا۝۰ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۱۰ۧ

پھر جن لوگوں نے ستائے جانے کے بعدہجرت کی پھر جہاد کیے اور صبروثبات کی منزل سے گزرے بے شک ان آزمائشوں کے بعد (ائے نبیؐ) آپ کا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا، رحمت فرمانے والاہے۔

يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِہَا وَتُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝۱۱۱

جس دن ہرشخص اپنی مدافعت کے لیے حجت کرتا ہوا آئے گا اورہرشخص کواس کے کیے کا پورا پورا بدل دیا جائے گا اوران کی حق تلفی نہ کی جائے گی۔

وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْيَۃً كَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَىِٕنَّۃً يَّاْتِيْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللہِ فَاَذَاقَہَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ۝۱۱۲

اوراللہ تعالیٰ ایک بستی والوں کی مثال بیان فرماتے ہیں جہاں کے رہنے والے چین وسکون اوراطمینان کے ساتھ رہتے تھے، ان کے کھانے پینے کی چیزیں بافراغت ہرطرف سے انھیں میسر ہوا کرتی تھیں، پھرانہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کی تواللہ نے (کفران نعمت کی پاداش میں) انھیں بھوک وخوف کا لباس پہنا کرا یک محیط قحط وخوف کا مزہ چکھایا۔

توضیح : یہ ایک مثل ہے۔ مراد اس سے اہل مکہ ہیں۔ یہ شہر امن وچین میں تھا، اس کے ارد گرد سے لوگ لوٹ لیے جاتے تھے۔ لیکن جو کوئی اس کے احاطہ میں آجاتا وہ امن پاجاتا، ڈر اورخوف سے مامون ہوجاتا اوراس بستی کا رزق فراغت سے آتا تھا یعنی سہل اورآسان طریقے سے حاصل ہوتا تھا اس بستی والوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی، ان نعمتوں کو بزرگوں کا عطیہ جانا۔ سات سال تک قحط رہا۔ اللہ تعالیٰ نےان کی بے خوف زندگی کوخوف سے بدل دیا یہاں تک کہ صحابہ کرامؓ کے خوف سے وہ امن کوبھول گئے اورشام کا سفر کرنا چھوڑدیا۔

وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْہُمْ فَكَذَّبُوْہُ

اوران کے پاس انہی میں سے ایک رسول آیا توانہوں نے اس کوجھٹلادیا۔

فَاَخَذَہُمُ الْعَذَابُ وَہُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۱۱۳

عذاب نے انھیں آگھیرا اوروہ تھے ہی ظالم

فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰۠ وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ اِنْ

لہٰذا اللہ تعالیٰ نے تمہیں جوپاکیزہ اورحلال رزق عطا کیا ہے کھاؤ، اوراللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرواگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔

كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَ۝۱۱۴

یہی شیوۂ بندگی ہے۔

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ

یقیناً اللہ تعالیٰ نے تم پرحرام کردی ہیں مری ہوئی چیزیں اوربہتا ہوا خون اورسور کا گوشت۔

وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ۝۰ۚ

اورہروہ چیز جوغیراللہ کی خوشنودی کے لیے نامزدگی کی گئی ہو۔

توضیح :مردہ افراد کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کی نذرونیاز، قربانی اوراسی قبیل کی کوئی چیز بھی غیراللہ کے نامزد کرنا قطعا ًحرام ہے۔ ایک مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ ہم اللہ ہی کے نام سے ذبح کرتے ہیں تو پھر وہ کیسے حرام ہوسکتا ہے ؟ غیرمسلم جو قربانی یا نیاز ومنت و مراد اپنی دیوی یا دیوتا کے تعلق سے انجام دیتے ہیں ہمارے مشاہدہ کی حد تک ان مواقع پرجانور ذبح کرنے والے عموماً مسلمان ہی ہوتے ہیں اوروہ بسم اللہ اللہ اکبر کے ساتھ ہی ذبح کرتے ہیں توکیا ایسی چیز مسلمان کے لیے حلال ہے؟ جواب نفی میں ہے کیونکہ یہ غیراللہ کے لیے انجام دی ہوئی چیز ہے۔ پھریہی چیزیں مسلم افراد کے نام سے انجام دینے پرحلال کیسے ہوسکتی ہیں ؟ اس کے حرام ہونے کی اصل وجہوَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ ہی ہے۔
دوسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ کوئی شئی کسی سے نامزد کرنے سے حرام نہیں ہوتی۔ مثلاً میرا گھر، مہمان نوازی یا تواضع کے لیے جانور کوذبح کرنا، کسی شئی کا مہمان کے لیے پکانا جب حرام نہیں ہے توبزرگان دین کے نام پران امورکے انجام دینے سے کوئی شئے کیسے حرام ہوسکتی ہے۔ یہ غلط مبحث ہے۔ کیونکہ زندہ افراد کے لیے ان امور کا انجام دینا اللہ تعالیٰ نے حرام قرارنہیں دیا ہے بلکہ ان امور کی انجام دہی کی ترغیب دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردہ افراد کے لیے ان امور کے انجام دینے کوحرام قرار دیا ہے۔ جیسا کہ زندہ افراد کومدد کے لیے پکارنا حرام نہیں ہے بلکہ اسباب وتدبیر کے اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے لیکن مردہ وغائب افراد کومدد یا حل مشکلات کے لیے پکارنا حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی اسی طرح کا معاملہ ہے۔
ایک مغالطہ یہ بھی دیا جاتا ہے کہ بزرگان دین فنا فی اللہ باقی باللہ اورعین اللہ ہیں۔ ان حضرات کے نام سے کرنا گویا اللہ تعالیٰ ہی کے نام پرکرنا ہے۔ یہ تصوراسلام کے بالکل خلاف اورکفر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰؑ کوعین اللہ سمجھنا کفر قرار دیا ہے۔
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (مائدہ ۳) یقیناً ان لوگوں نے کفرکیا جویہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی عیسی بن مریم کی شکل میں ہیں۔ اللہ ورسولؐ کا حکم ہے کہ غیبی امداد یا فائدہ یا دفع مضرت یا حصول نفع کا تعلق صرف اللہ تعالیٰ ہی سے رہے۔ اگریہ تعلق غیر اللہ سے رہے گا توکفر کہلائے گا۔

یعنی 

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ

لہٰذا جوکوئی بھوک سے بیقرار ہوطالب لذت نہ ہو اور سد رمق قوت لایموت سے متجاوز نہ ہوتوجائز ہے (کیونکہ اسلام میں جان بچانا جائز ہے۔ بحالت مجبوری کچھ کھالے توجائز ہے)

فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۱۵

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔

وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ

اورکسی چیز کے بارے میں جھوٹ موٹ جو کچھ تمہاری زبان پرآئے

الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ

نہ کہا کروکہ یہ حلال ہے اوریہ حرام ہے۔

لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللہِ الْكَذِبَ۝۰ۭ

ایسا کرنا گویا اللہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھنا ہے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ۝۱۱۶ۭ

جولوگ اللہ تعالیٰ پرجھوٹی باتیں افترا کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے۔

مَتَاعٌ قَلِيْلٌ۝۰۠ وَّلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۱۷ وَعَلَي الَّذِيْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ

(جھوٹ کا) تھوڑا سا فائدہ توہے لیکن ان کے لیے درد ناک عذاب ہے اور یہودیوں پرہم نے وہ چیزیں حرام کردی تھیں جن کا بیان ہم اس قبل آپؐ سے کرچکے ہیں۔

وَمَا ظَلَمْنٰہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَ۝۱۱۸

اورہم نے ان پر کوئی زیادتی نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنا آپ نقصان کیا۔

ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْۗءَ بِجَــہَالَۃٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْٓا۝۰ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۱۹ۧ

پھر جن لوگوں نے نادانی سے کوئی برا کام کیا پھراس کے بعد توبہ کی اور اپنے اعمال درست کرلئے توبے شک ان مراحل کے بعد آپ کا پروردگار بڑا ہی بخشنے اوررحم کرنے والا ہے۔

اِنَّ اِبْرٰہِيْمَ كَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلہِ حَنِيْفًا۝۰ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۱۲۰ۙ

یقیناً ابراہیمؑ (مقتدائے خلق نبی ورسول تھے) اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار، باطل سے کٹ کرحق کواختیار کرنے والے تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔

شَاكِرًا لِّاَنْعُمِہٖ۝۰ۭ اِجْتَبٰىہُ وَہَدٰىہُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۝۱۲۱

اسی کی نعمتوںکے شکر گزارتھے (اللہ تعالیٰ نے انھیں نبوت کے لئے) منتخب فرمایا اورانھیں (جنت کی ) سیدھی راہ دکھائی۔

وَاٰتَيْنٰہُ فِي الدُّنْيَا حَسَـنَۃً۝۰ۭ وَاِنَّہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۱۲۲ۭ

اوردنیا میں بھی انھیں خوبی عطا کی تھی اورآخرت میں بھی وہ نہایت ہی نیک لوگوں میں سے ہوں گے۔

ثُمَّ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝۰ۭ

ائے نبیﷺ پھرہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ سب طرف سے یک سوہوکر دین ابراہیمؑ کی اتباع کریں اورابراہیمؑ مشرکین میں سے نہ تھے۔

وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۱۲۳

یعنی وہ ہرمعاملہ میں اپنے پروردگار ہی کی طرف رجوع ہوتے تھے۔

اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَي الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْہِ۝۰ۭ

پس ہفتہ کی تعظیم توصرف ان لوگوں پرلازم کی گئی تھی جنہوں نے دین میں اختلاف کیا تھا (یعنی یہود)

وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فِـيْمَا كَانُوْا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝۱۲۴

اوربے شک آپ کا پروردگار قیامت کے دن ان کے اختلافات کا فیصلہ کردے گا اوربتادے گا کہ کون حق پر تھا۔

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ۝۰ۭ

ائے نبیؐ نہایت ہی دانائی اوردل نشیں نصیحت کے ساتھ لوگوں کواپنے پروردگار کے راستے کی طرف بلاتے رہئے اوران سے بہت ہی اچھے طریقہ سے مناظرہ کیجئے یعنی مخالفین کے ساتھ اسلام کے افہام وتفہیم کی گفتگو کیجئے۔

اِنَّ رَبَّكَ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِہٖ وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ۝۱۲۵

بے شک آپ کا پروردگار جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکاہوا ہے اورجانتا ہے کہ کون راہ ہدایت پر ہے ۔

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ۝۰ۭ

اور اگران سے بدلہ لینے کا موقع ملے تواتنا ہی بدلہ لوجتنی تکلیف انہوں نے تمہیں پہنچائی ہے۔

وَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَخَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ۝۱۲۶

اوراگرتم صبر سے کام لو(اورمعاف کردو) تویقیناً یہ بات صبر کرنے والوں کے لئے نہایت ہی بہتر ہے۔

توضیح: یہاں انتقام لینے کی اجازت تودی مگر معاف کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللہِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْہِمْ

اورصبر ہی کیجئے اورآپ کا صبرکرنا بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں اوران کی بے دینی پرافسوس (ورنج) نہ کیجئے۔

وَلَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ۝۱۲۷

یہ جوکچھ مکروفریب وبدخواہی کرتے ہیں اس سے آپ کوتنگ دل ورنجیدہ خاطرنہ ہونا چاہئے۔

اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ۝۱۲۸ۧ

بے شک اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہیں اوران لوگوں کے ساتھ ہیں جونیکوکارہیں یعنی جواللہ رسول کی اطاعت بہ ذوق شوق کرتے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرموقع پربندۂ مومن کی مدد فرماتے ہیں نہ وہ مطلب کہ جن کوحضرات صوفیہ سرمعیت کے نام سے بیان کرتے ہیں۔