☰ Surah
☰ Parah

وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْہِ اَخَاہُ

اور جب وہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسفؑ نے اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس جگہ دی۔

قَالَ اِنِّىْٓ اَنَا اَخُوْكَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۶۹

کہا میں تمہارا (وہی) بھائی ہوں (جو تم لوگوں کے خیال میں گم ہوگیا تھا) پس، ہمارے یہ دوسرے بھائی جو کچھ بھی کررہے ہیں، اس کا رنج نہ کرنا۔

فَلَمَّا جَہَّزَہُمْ بِجَہَازِہِمْ جَعَلَ السِّقَايَۃَ فِيْ رَحْلِ اَخِيْہِ

پھر جب یوسفؑ ان بھائیوں کا غلہ اونٹوں پر لدوانے لگے تو اپنے سگے بھائی کے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔

ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَيَّــتُہَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ۝۷۰

پھر( جب قافلہ چلنے لگا تو) ایک پکارنے والے نے آواز دی ائے قافلے والو تم چور ہو۔

قَالُوْا وَاَقْبَلُوْا عَلَيْہِمْ مَّاذَا تَفْقِدُوْنَ۝۷۱

قافلے والوں نے پلٹ کرپوچھا تم کونسی چیز گم کیے ہو؟

قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ

انہوں نے کہا ہمارے بادشاہ کا پیالہ (پانی پینے کا گلاس) گم ہوا ہے۔

وَلِمَنْ جَاۗءَ بِہٖ حِمْلُ بَعِيْرٍ وَّاَنَا بِہٖ زَعِيْمٌ۝۷۲

اورجوکوئی اس کولے آئے گا، اس کوایک بارِشُتر غلہ انعام دیا جائے گا۔ اورمیں اس کا ضامن ہوں۔

قَالُوْا تَاللہِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْاَرْضِ وَمَا كُنَّا سٰرِقِيْنَ۝۷۳

قافلے والوں نے کہا خدا کی قسم تم لوگ جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد مچانے کے لیے نہیں آئے اورنہ ہم چور ہیں۔

قَالُوْا فَمَا جَزَاۗؤُہٗٓ اِنْ كُنْتُمْ كٰذِبِيْنَ۝۷۴

خدام نے کہا اگر تم جھوٹے نکلے، یعنی چوری ثابت ہوگئی توبتاؤ پھر اس کی کیا سزا ہے؟ (نوٹ: چوری کا جرم بھی فساد فی الارض کی تعریف میں آتا ہے)

قَالُوْا جَزَاۗؤُہٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِہٖ فَہُوَجَزَاۗؤُہٗ۝۰ۭ

انہوں نے کہا اس کی جزاء یہ ہے کہ جس کے سامان میں وہ نکلے پس وہی اس کی جزاء ہے یعنی جس کے پاس چوری کی چیز نکلے وہ اپنے پاس خدمت گار کی حیثیت سے رکھ لیا جائے گا۔)

كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِــمِيْنَ۝۷۵

ہم ظالموں کوایسی ہی سزا دیتے ہیں۔

فَبَدَاَ بِاَوْعِيَتِہِمْ قَبْلَ وِعَاۗءِ اَخِيْہِ

پس اس نے دوسرے بھائیوں کے سامان کی جھڑتی لینی شروع کی۔

ثُمَّ اسْتَخْرَجَہَا مِنْ وِّعَاۗءِ اَخِيْہِ۝۰ۭ

پھراپنے بھائی کے سامان میں سے اس (پیالہ) کونکالا

كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ۝۰ۭ

اس طرح ہم نے یوسفؑ کی خاطر یہ تدبیر کی۔

مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاہُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ۝۰ۭ

کیونکہ ملک کے قانون کے تحت یوسفؑ اپنے بھائی کولے نہیں سکتے تھے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہیں۔

توضیح : شریعت ابراہیمی میں چورکی سزا یہ تھی کہ جس کی چوری کی ہو، اس کا ایک برس تک مملوک غلام بنا کر رکھا جائے اس کے بعد چھوڑدیا جائے۔ یہی سزا یوسفؑ کے بھائیوں نے بیان کی اوراسی کے مطابق بنیامین کورک لیا گیا۔ ورنہ مصر کا قانون کچھ اس سے مختلف تھا۔ اوریہ قانون اجازت نہیں دیتا تھا کہ جس کے پاس سے چیز نکلے اس کوپکڑلیا جائے۔

یعنی 

نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ۝۷۶

ہم جسے چاہتے ہیں، درجے بلند کرتے ہیں ( درجات علمی مراد ہیں) اور اللہ علیم ہیں ہرصاحب علم سے بالاوبرتر ہیں(علم میں سب اسی کے محتاج ہیں)

قَالُوْٓا اِنْ يَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ

(اس موقع پربھائیوں نے) کہا گراس نے چوری کی ہے توکچھ عجب نہیں۔ کیونکہ اس کے ایک (حقیقی) بھائی (یوسفؑ) نے بھی چوری کی تھی۔

فَاَسَرَّہَا يُوْسُفُ فِيْ نَفْسِہٖ وَلَمْ يُبْدِہَا لَہُمْ۝۰ۚ

یوسفؑ نے ان کی یہ بات دل میں چھپائے رکھی اوران پرظاہر ہونے نہ دی۔

قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا۝۰ۚ

( اپنے دل میں) کہا واقعی تم ہی بہت برے ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ۝۷۷

جوکچھ تم باتیں بناتے ہو(الزام دیتے ہو) اللہ تعالیٰ توبخوبی جانتے ہیں۔

قَالُوْا يٰٓاَيُّہَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَہٗٓ اَبًا شَيْخًا كَبِيْرًا

(بھائیوں نے یوسفؑ سے) کہا۔ ائے عزیز مصر اس کے باپ بہت بوڑھے ہیں( وہ اس بچے سے بہت محبت کرتے ہیں۔ انھیں اس کی جدائی برداشت نہیں۔ اسے چھوڑ دیجئے)

فَخُذْ اَحَدَنَا مَكَانَہٗ۝۰ۚ

اس کے بدلے ہم میں سے کسی کوروک لیجئے۔

اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۷۸

ہم توآپ کوایک محسن نیک دل انسان دیکھتے ہیں۔

قَالَ مَعَاذَ اللہِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہٗٓ۝۰ۙ

یوسفؑ نے کہا اللہ کی پناہ جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے، اس کے سوا کسی اورکوپکڑکررکھیں۔

اِنَّآ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ۝۷۹ۧ

ایسا کریں توہم بڑے ہی ناانصاف ہوں گے۔

فَلَمَّا اسْتَيْـــَٔـسُوْا مِنْہُ خَلَصُوْا نَجِيًّا۝۰ۭ

(یوسفؑ نے جب ان کی درخواست نا منظورکردی) اوروہ اس سے ناامید ہوگئے۔ سب سے الگ ہوکر مشورہ کرنے لگے۔

قَالَ كَبِيْرُہُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَيْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللہِ

بڑے بھائی نے کہا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے والد نے تم سے خدا کا عہد لیا ہے۔

وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِيْ يُوْسُفَ۝۰ۚ

اوراس سے پہلے تم یوسفؑ کے معاملے میں کیا کچھ (قصور) کرچکے ہو۔

فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى يَاْذَنَ لِيْٓ اَبِيْٓ اَوْ يَحْكُمَ اللہُ لِيْ۝۰ۚ

جب تک کہ ابا مجھے اجازت نہ دیں، میں اس سرزمین سے ٹل نہیں سکتا۔ یا اللہ تعالیٰ ہی میرے لیے کوئی تدبیر فرمائیں۔

یعنی 

وَہُوَخَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ۝۸۰

اوروہ توبہترین فیصلہ کرنے والے ہیں۔

اِرْجِعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْكُمْ فَقُوْلُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ۝۰ۚ

تم سب اپنے باپ کے پاس جاؤ اورکہو۔ ابا جان آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے۔
(اس نے عزیز مصر کا پیالہ چرا کراپنے سامان میں رکھ لیا تھا)

وَمَا شَہِدْنَآ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حٰفِظِيْنَ۝۸۱

اورہم نے اپنی آنکھوں سے اس کوچراتے تونہیں دیکھا سوائے اس کے کہ وہاں جوواقعہ پیش آیا ا س بناء پرہم یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اورنہ ہم غیب کے حالات پرقابو پانے والے تھے(چنانچہ وہ اپنے باپ سے ملے اورمزید کہا)
(ہم کوکیا خبر تھی کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آئے گا جس کی وجہ ہم اپنے اس اقرار کوجوآپ سے کیا تھا، پورا کرنے سے قاصر رہیںگے)

وَسْـــَٔـلِ الْقَرْيَۃَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْہَا وَالْعِيْرَ الَّتِيْٓ اَقْبَلْنَا فِيْہَا۝۰ۭ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۝۸۲

اورآپ اس بستی والوں سے بھی دریافت کیجئے۔ جہاں ہم تھے اوراس قافلے سے بھی پوچھ لیجئے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں، اورہم اس معاملے میں سچے ہیں۔

یعنی 

قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا۝۰ۭ

(یہ سرگذشت سن کر) باپ نے کہا۔ تم نے اپنی طرف سے ایک بات بنالی ہے۔

فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ۝۰ۭ

پس صبر ہی اچھا ہے۔

عَسَى اللہُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِہِمْ جَمِيْعًا۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۝۸۳

ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کومیرے پاس پہنچادے وہی سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔( اس کی ساری تجاویز حکیمانہ ہیں)

وَتَوَلّٰى عَنْہُمْ وَقَالَ يٰٓاَسَفٰى عَلٰي يُوْسُفَ

اوروہ ان سے منہ پھیرلیے اورکہا ہائے افسوس یوسف پر(یوسفؑ کی گم شدگی پربڑا ہی افسوس کرنے لگے)

وَابْيَضَّتْ عَيْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَكَظِيْمٌ۝۸۴

اورشدت غم سے ان کی آنکھیں سفیدپڑگئیں اوروہ اسی غم میں گھلنے لگے۔

قَالُوْا تَاللہِ تَفْتَؤُا تَذْكُرُ يُوْسُفَ حَتّٰى تَكُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَكُوْنَ مِنَ الْہٰلِكِيْنَ۝۸۵

(بیٹوں نے باپ کی یہ حالت دیکھ کر) کہا واللہ اگر آپ یوسف کواسی طرح یاد کرتے رہیں گے، ان کے غم میں گھلے جاتے رہیں گے تو بیمار ہوجائیں گے یا اپنے آپ کوہلاک ہی کرلیں گے۔

قَالَ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللہِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۸۶

باپ نے کہا میں اپنے رنج وغم کا اظہار اللہ تعالیٰ سے کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جس کوتم نہیں جانتے۔

يٰبَنِيَّ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُوْسُفَ وَاَخِيْہِ وَلَا تَايْــــَٔــسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۝۰ۭ

(اور یہ بھی کہا) ائے میرے بیٹو جاؤ یوسف اوراس کے بھائی کوتلاش کرو اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔

اِنَّہٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۷

کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کافر ہی نا امید ہوتے ہیں۔

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْہِ قَالُوْا يٰٓاَيُّہَا الْعَزِيْزُ مَسَّـنَا وَاَہْلَنَا الضُّرُّ

پھر جب یہ لوگ مصر جا کر یوسفؑ کی پیشی میں حاضر ہوئے۔ توعرض کیا ائے عزیز مصر ہم اورہمارے متعلقین بڑی تکلیف اورمصیبتوں میں مبتلاء ہیں۔

وَجِئْنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجٰىۃٍ

ہم بہت ہی تھوڑی سی کم قیمت چیزیں لے کرآئے ہیں۔

فَاَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِيْنَ۝۸۸

مگرآپ ہمیں پورا پورا غلہ عنایت کیجئے اورہم پرخیرات کیجئے بے شک اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والوں کواس کا بہترین بدل دیتے ہیں۔

قَالَ ہَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ وَاَخِيْہِ اِذْ اَنْتُمْ جٰہِلُوْنَ۝۸۹

(اب یوسفؑ سے ضبط نہ ہوسکا، اپنے بھائیوں سے) پوچھا، تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ نادانی میں جوسلوک کیا تھا، کیا وہ تمہیں یاد ہے؟

قَالُوْٓا ءَ اِنَّكَ لَاَنْتَ يُوْسُفُ۝۰ۭ

بھائیوں نے حیرت سے پوچھا، کیا تم ہی یوسف ہو؟

قَالَ اَنَا يُوْسُفُ وَہٰذَآ اَخِيْ۝۰ۡ

یوسفؑ نے کہا ہاں میں ہی یوسف ہوں( اوراپنے بھائی کوبتا کرکہا کہ) یہ میرا بھائی ہے۔

قَدْ مَنَّ اللہُ عَلَيْنَا۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ نے ہم پربڑا احسان فرمایا۔

اِنَّہٗ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ فَاِنَّ اللہَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۹۰

حقیقت یہ ہے کہ جوکوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اورمصیبتوں میں صبر سے کام لیتا ہے توایسے نیکوکاروں کا بدل(دنیا میں بھی) اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتے۔

قَالُوْا تَاللہِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللہُ عَلَيْنَا وَاِنْ كُنَّا لَخٰطِــــِٕيْنَ۝۹۱

بھائیوں نے کہا۔ اللہ کی قسم اللہ نے تم کوہم پرفضیلت بخشی۔ اورواقعی ہم بڑے ہی خطاکار تھے۔

قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۝۰ۭ

یوسفؑ نے کہا آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔

يَغْفِرُ اللہُ لَكُمْ۝۰ۡوَہُوَاَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ۝۹۲

اللہ تمہارے گناہ معاف کردے، وہی سب سے بڑھ کررحم کرنے والا ہے۔

اِذْہَبُوْا بِقَمِيْصِيْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰي وَجْہِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرًا۝۰ۚ

اب تم میرا یہ قمیص لے جاؤ اوراس کومیرے باپ کے چہرے پرڈال دو، ان کی آنکھیں روشن ہوجائیں گی۔

وَاْتُوْنِيْ بِاَہْلِكُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۹۳ۧ

اوراپنے تمام گھروالوں(متعلقین) کولے کرمیرے پاس آجاؤ۔

وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ قَالَ اَبُوْہُمْ اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ۝۹۴

اورجب قافلہ مصر سے روانہ ہوا توان کے باپ نے کہا میں تویوسف کی خوشبو پارہا ہوں، تم لوگ کہیں یہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں کیسی بہکی بہکی باتیں کررہا ہوں۔

قَالُوْا تَاللہِ اِنَّكَ لَفِيْ ضَلٰلِكَ الْقَدِيْمِ۝۹۵

اہل خانہ نے کہا خدا کی قسم آپ اب تک اسی قدیم غلط خیال میں مبتلا ہیں۔

فَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَ الْبَشِيْرُ اَلْقٰىہُ عَلٰي وَجْہِہٖ

پھر جب خوشخبری دینے والا آیا اوراس نے یوسف کا قمیص ان کے والد کے چہرے پرڈال دیا۔

فَارْتَدَّ بَصِيْرًا۝۰ۚ

تواسی وقت ان کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔

یعنی 

قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ۝۰ۚۙ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۹۶

باپ نے بیٹوں سے کہا، کیا میں تم سے نہیں کہہ رہا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی باتیں جانتا ہوں، جوتم نہیں جانتے۔

قَالُوْا يٰٓاَبَانَا اسْـتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَآ اِنَّا كُنَّا خٰطِـــِٕـيْنَ۝۹۷

(بیٹوں نے اعتراف قصورکیا اور) کہا ابا جان ! ہمارے گناہوں کی معافی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے واقعی ہم بڑےہی خطاکار تھے۔

قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ۝۰ۭ

باپ نے کہا میں عنقریب تمہارے لیے اپنے پروردگار سے مغفرت کی درخواست کروں گا۔

اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝۹۸

بے شک وہ بڑا ہی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْہِ اَبَوَيْہِ

پھر جب یہ لوگ یوسفؑ کے پس پہنچے تویوسفؑ نے اپنے والدین کواپنے پاس جگہ دی (عزت واحترام کے ساتھ بٹھایا)

وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۝۹۹ۭ

اور کہا شہر میں چلو اب ان شاء اللہ امن وچین سے زندگی بسر کروگے (یوسفؑ نے ان کا استقبال شہر کے باہر کیا)

وَرَفَعَ اَبَوَيْہِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا۝۰ۚ

(شہر میں داخلے کے بعد) یوسفؑ نے اپنے ساتھ اپنے والدین کوتخت پربٹھایا اوروہ سب کے سب یوسفؑ کے آگے سجدہ ریز ہوگئے۔

وَقَالَ يٰٓاَبَتِ ہٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ۝۰ۡ

اوریوسفؑ نے کہا اباجان ! یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جومیں نے پہلے دیکھا تھا۔

قَدْ جَعَلَہَا رَبِّيْ حَقًّا۝۰ۭ

میرے پروردگار نے اس کوسچا کردکھایا۔

وَقَدْ اَحْسَنَ بِيْٓ اِذْ اَخْرَجَنِيْ مِنَ السِّجْنِ

اوراس نے مجھ پربڑے احسان کیے کہ اس نے مجھ کوجیل خانہ سے نکالا۔

وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ

اورتم کودیہات سے یہاں پہنچایا۔

مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّيْطٰنُ بَيْنِيْ وَبَيْنَ اِخْوَتِيْ۝۰ۭ

اس صورت حال کے بعد کہ شیطان میرے اورمیرے بھائیوں کے درمیان فساد برپا کرچکا تھا (اس طرح سب کا باہم ملنا ممکن نظرنہ آتا تھا)

اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ

بے شک میرا پروردگار (غیرمحسوس وغیر مرئی اسباب سے) جس پر چاہے، عنایت فرماتا ہے۔

اِنَّہٗ ہُوَالْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۝۱۰۰

بیشک وہ بڑا ہی جاننے والا حکمت والا ہے۔

رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ

(پھریوسفؑ نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ)
ائے میرے پروردگار ! آپ نے مجھ کو بادشاہت عطا کی

وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ۝۰ۚ

معاملہ فہمی اور خواب کی تعبیر کا علم بخشا۔

فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۣ

ائے زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے۔

اَنْتَ وَلِيّٖ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ۝۱۰۱

آپ ہی دنیا وآخرت میں میرے کارساز(حاجت روا) ہیں۔
میرا خاتمہ اسلام پرکیجئے اوراپنے نیک بندوں میں شامل کیجئے۔

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہِ اِلَيْكَ۝۰ۚ

یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم نے آپ کی طرف وحی کیں۔

وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَہُمْ وَہُمْ يَمْكُرُوْنَ۝۱۰۲

اورآپؐ تواس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے، جب کہ یوسف کے بھائیوں نے آپس میں یوسف کے خلاف سازش کی تھی۔

وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ۝۱۰۳

(غیب کی ان باتوں کو کھول کربیان کرنے کے باوجود) لوگوں کی اکثریت ایمان نہ لائے گی، آپ کتنا ہی چاہیں کہ وہ ایمان لے آئیں۔

وَمَا تَسْــــَٔـلُہُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۭ

حالانکہ آپ ان سے کوئی معاوضہ بھی نہیں چاہتے۔

اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۱۰۴ۧ

بجز اس کے کہ یہ قرآن سارے عالم کے لیے ایک نصیحت ہے۔

توضیح : مذکورۂ بالاآیات میں مندرجہ ذیل حقیقتوں کوبیان کیا گیا ہے۔
۱۔ ایک تویہ کہ رسول اللہﷺ نے جن گزشتہ اورقدیم واقعات کوبیان فرمایا ہے، وہ سنی سنائی باتیں ہیں اورنہ ذہنی اپج، بلکہ ان واقعات کاعلم صرف وحی کے ذریعہ ہوا ہے جوبجائے خود آپؐ کی نبوت کا کھلا ثبوت ہے۔ کیونکہ جوواقعات بیان کیے گئے ہیں، ان کے ظہورکے وقت نہ آپ موجود تھے اور نہ کوئی دوسرا ایسا ذریعہ ہی تھا جس کے ذریعے آپؐ تک یہ باتیں پہنچ سکتیں۔
۲۔ یہ کہ یوسفؑ کے واقعات کوبیان کرکے سرداران قریش کو متنبہ کیا گیا کہ جوندامت اورشرمساری برادران یوسف کے حصے میں آئی، وہی کچھ تمہارا بھی حشرہونے والا ہے۔ کیونکہ جوسلوک برادران یوسف نے یوسف کے ساتھ کیا تھا، وہی سلوک سرداران قریش نے حضور اکرمﷺ کے ساتھ کیا۔ مختصرا ًیہ بات واضح کی گئی کہ جوبھی طاقت اہل حق کی مخالفت کرے گی، بالآخر اس کے لیے ذلت ورسوائی ہے۔ ۳۔ یہ کہ ایمان لانے کا دارومدار انسان کی سمجھ بوجھ اوراس کی لگن کے ساتھ ساتھ ہدایت خداوندی پرہے نہ کہ نبیؐ کی مرضی وخواہش پرجیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ (سورہ القصص آیت ۵۶)
۴۔ یوسفؑ سے ان کے بھائیوں کوعداوت اوردشمنی کا واقعہ بیان کرکے اہل حق کوتسلی دی گئی کہ اگر خاندان قبیلہ اورقوم سب مخالفت پراترآئیں تب بھی اہل حق کوپست ہمت نہ ہونا چاہئے۔

وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

اورزمین وآسمان میں اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد ہونے کی کتنی ہی (بے شمار) نشانیاں موجود ہیں۔

يَمُرُّوْنَ عَلَيْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَ۝۱۰۵

جن پر سے یہ گزرتے ہیں، مگر نہ توجہ ہی کرتے ہیں اورنہ اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد ہونے پرایمان لاتے ہیں۔

وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِكُوْنَ۝۱۰۶

اوران میںاکثر لوگ اللہ تعالیٰ کومانتے بھی ہیں تواس طرح کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کوبھی شریک ٹھیراتے ہیں(یعنی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مقرب بندوں کی رائے ومشورے وسفارشات کی بناء پرحق تعالیٰ حکمرانی فرماتے ہیں)

اَفَاَمِنُوْٓا اَنْ تَاْتِيَہُمْ غَاشِـيَۃٌ مِّنْ عَذَابِ اللہِ

کیا وہ اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آکر انھیں گھیرلے گا؟

اَوْ تَاْتِيَہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝۱۰۷

یا دفعتا قیامت آجائے اوران کو اس کا علم بھی نہ ہو۔

قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۝۰ۣؔ

(ائے نبیﷺ) کہئے میرا طریق کارتویہی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں۔

عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۝۰ۭ

میں بصیرت پرہوں اورمیری اتباع کرنے والے بھی۔

وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۱۰۸

یاد رکھو اللہ تعالیٰ شرک سے پاک ہے اورمیں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا

اورہم نے آپؐ سے پہلے (مختلف بستیوں میں) جتنے بھی رسول بھیجے سب انسان ہی تھے( فرشتے نہ تھے)

نُّوْحِيْٓ اِلَيْہِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰى۝۰ۭ

ہم ان کی طرف وحی بھیجتے رہے( یعنی انھیں وحی کے ذریعہ تعلیمات الٰہی سے روشناس کراتے رہے) وہ بستی والوں کوسناتے رہے (پھرآپؐ کے رسول ہونے پرانھیںتعجب کیوں ہے؟)

اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ

کیا ان لوگوں نے ملک میں سیروسیاحت نہیں کی کہ وہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے گزری ہوئی نافرمان قوموں کا کیا انجام ہوا (کس طرح ان کی تباہی وبربادی ہوئی)

وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَيْرٌ لِّـلَّذِيْنَ اتَّقَوْا۝۰ۭ

اورآخرت کا گھر انھیں کے لیے سزاوار ہے، جومتقی ہیں (یعنی جواللہ تعالیٰ کوالٰہ واحد مان کرالٰہی ونبوی تعلیم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ جن باتوں سے انھیں منع کیا گیا ہے، ان سے بچتے ہیں اورجو کچھ انھیں حکم دیا جاتا ہے بہ ذوق وشوق اس کی تعمیل کرتے ہیں)

اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۰۹

کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھوگے ؟

حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ قَدْ كُذِبُوْا

یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے اورانھیں گمان غالب پیدا ہوگیا کہ اپنی نصرت ومدد کے بارے میں جوبات قوم سے انھیں نے کہی تھی، اس میں وہ سچے نہ تھے۔
(یعنی یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ اللہ تعالیٰ شاید ان کی مدد نہ کریں اوروہ اس تعلق سے جھوٹے ثابت ہوجائیں)

جَاۗءَہُمْ نَصْرُنَا۝۰ۙ فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاۗءُ۝۰ۭ

ان (پیغمبروں) کے پاس ہماری مدد آپہنچی پھرہم نے جس کوچاہا عذاب سے بچالیا۔

وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ۝۱۱۰

اورہمارا عذاب مجرم قوموں سے ٹالا نہ جائے گا۔

لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۝۰ۭ

یقیناً سمجھ داروں کے لیے انبیاء علیہم السلام کے واقعات میں عبرت کا کافی سامان ہے۔

مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى

یہ جوکچھ بیان ہوا ہے وہ کسی کی من گھڑت باتیں نہیں ہیں،(اللہ تعالیٰ کا کلام ہے)

وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ

بلکہ جوکتابیں اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں، انکی اس سے تصدیق ہوتی ہے (اس کتاب میں اصولاً وہی تعلیم ہے جوانبیاء علیہم السلام پرنازل ہوتی رہی تھی)

وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝۱۱۱ۧ

اور اس میں (تقویٰ تزکیہ عبادت وغیرہ) ہر شئے کی تفصیل ہے۔ اور ہر اس قوم کیلئےجوایمان لے آتی ہے ہدایتیں ہیں، سامان رحمت ہے۔
(ہدایتوں پرعمل پیرا ہونے کی صورت میں ہی رحمت الٰہی شامل حال ہوتی ہے)

نوٹ:۔ کتاب اللہ میں علم الٰہی ہے۔ علم الٰہی میں ہدایت الٰہی اورہدایتِ الٰہی میں رحمتِ الٰہی ہے۔