يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۰ۭ
پیغمبر (محمدﷺ) جواحکام آپ پرنازل کیے گئے ہیں انھیں (بلا اندیشہ ضررجان ومال) لوگوں تک پہنچاتے رہئے۔
وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۰ۭ
اوراگرایسا نہ کیا (یعنی احکام الٰہی کے پہنچانے میں) تساہل برتا تو (اس کے یہ معنی ہوں گے کہ) آپؐ نے اپنے فرائض رسالت انجام نہیں دیئے۔
وَاللہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ۰ۭ
اللہ تعالیٰ آپؐ کولوگوں کے شرسے محفوظ رکھیں گے۔
توضیح : آپؐ بلا خوف وخطر احکام الٰہی پہنچاتے رہیے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضرات صحابہ کرام راتوں کو آنحضرتﷺ کی نگہبانی کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی توآپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اب اٹھ جاؤ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت فرمادی ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۶۷
بے شک اللہ تعالیٰ کافرقوم کوہدایت نہیں دیتے۔
توضیح : سنت الٰہی یہ ہے کہ جب تک لوگ باطل کوحق سمجھ کرحق کا انکار کرتے رہیں گے اورطالب ہدایت نہ ہوں گے انھیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ اگر چہ کہ وہ اپنے زعم میں بڑے عالم ہی کیوں نہ کہلائیں۔
قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۰ۭ
کہئے ائے اہل کتاب تم ہدایت کے کسی مقام تک پہنچ نہیں سکتے جب تک کہ تم توریت اورانجیل کی تعلیمات پرقائم نہ ہوجاؤ اورجوکچھ کتابیں تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہیں(ان پرپوری طرح جمے نہ رہو)
وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا۰ۚ
اور(ائے نبیﷺ) یہ قرآن جوآپؐ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اس سے ان کی اکثریت سرکشی اورکفرمیں بڑھتی ہی جائے گی۔
فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۶۸
لہٰذا آپ کافرقوم پرافسوس نہ کیجئے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ہَادُوْا
یقیناً وہ لوگ جوایمان لائے اوروہ جویہودی ہوئے ۔
وَالصّٰبِـُٔــوْنَ وَالنَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ۶۹
اورستارہ پرست اورعیسائی ہوگئے ان میں سے جوبھی اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن(قیامت) پرایمان لاے اورنیک کام کرے تو (قیامت کے دن) ان پر نہ کچھ خوف طاری ہوگا اورنہ وہ حزن وملال میں مبتلا ہوں گے۔
لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ
یقینا ًہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا (کہ جوبھی رسول ان کے پاس آتے رہیں گے، ان پرایمان لائیں گے اوران کی رسالت کا اقرارکرینگے)
وَاَرْسَلْنَآ اِلَيْہِمْ رُسُلًا۰ۭ
اورہم نے ان کی طرف رسول بھیجے۔
كُلَّمَا جَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَہْوٰٓى اَنْفُسُہُمْ۰ۙ
جب بھی ان کے پاس رسول آئے اور وہ تعلیم پیش کی جس کوان کے دل نہیں چاہتے تھے۔
فَرِيْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِيْقًا يَّقْتُلُوْنَ۷۰ۤ
توانہوں نے انبیاء علیہم السلام کی ایک جماعت کوجھٹلایا اورایک جماعت کوقتل کردیا۔
وَحَسِبُوْٓا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ
اوریہ سمجھتے رہے کہ وہ (کسی عذاب الٰہی میں) مبتلا نہ کیے جائیں گے۔
فَعَمُوْا وَصَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللہُ عَلَيْہِمْ
اس سے اوربھی اندھے بہرے بنے رہے۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ان پرمہربانی فرمائی (پھررسول بھیجا)
ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا كَثِيْرٌ مِّنْہُمْ۰ۭ
پھربھی ان میں سے بہت سارے اندھے بہرے ہی بنے رہے (نتائج پرغور تک نہ کیا)
وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ۷۱
اوراللہ تعالیٰ ان کے سارے اعمال کودیکھتے رہے ہیں
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۰ۭ وَقَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ
یقیناً وہ لوگ بھی کافر ہیں جوکہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی مسیح ابن مریم کی شکل میںجلوگرہیں( اورجواس عقیدہ کونجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور لوگوں کوباورکراتے ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم نے راز میںیہ تعلیم دی تھی)
اعْبُدُوا اللہَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ۰ۭ
حالانکہ مسیح نے یہ کہہ دیا تھا کہ ائے بنی اسرائیل(اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق) اللہ تعالیٰ کی عبادت کروجومیرا بھی رب ہے اورتمہارا بھی (مشرکانہ عقائد سے بازآؤ)
اِنَّہٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ
(واقعہ یہ ہے کہ ) جوکوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کریگا (انبیا علیہم السلام اوراولیائے کرام کواللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی میں شریک کارسمجھ کرمدد کیلئے پکارے گا ان کے آگے لوازم عبادت نذرومنت مانے گا۔ )
فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَيْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ۰ۭ
توہرایسے شخص پراللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے۔ اور اس کا (ابدی) ٹھکانہ جہنم ہے۔
وَمَا لِلظّٰلِــمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۷۲
اورظالمین (مشرکین) کا کوئی حامی ومددگار نہ ہوگا۔
توضیح :مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے جن مشرکانہ عقائد کونجات کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں وہ جہنم میں جانے کا سبب بنے گا۔
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰــثَۃٍ۰ۘ
یقیناً کافر ہیں وہ لوگ جوکہتے ہیں اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔
توضیح : یعنی اللہ عیسیٰ ابن مریم۔ روح القدس (جبرئیل امین) یہ عیسائیوں کا عقیدۂ تثلیث ہے۔
وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ۭ وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۷۳
حالانکہ اس معبود یکتا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اوراگر وہ ایسے (عقائد) واقوال سے باز نہ آئیں توان میں سے ایسے کافروں کودرد ناک عذاب پہنچ کررہے گا۔
اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللہِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَہٗ۰ۭ
توپھرکیوں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آگے توبہ نہیں کرتے؟ اوراسی سے (اپنے گناہوں کی) معافی کیوں نہیں مانگتے۔
وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۷۴
اوراللہ تعالیٰ توبڑے ہی بخشنے رحم فرمانے والے ہیں۔ (بشرطیکہ انسان کفروشرک سے توبہ کرے)
مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ۰ۚ
مسیح ابن مریم توصرف اللہ تعالیٰ کے رسول تھے۔
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۰ۭ
ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں(یعنی پہلے کے رسول بھی بشرہی تھے) یہ بھی بشرہیں۔ اولاد آدم ہیں ۔
وَاُمُّہٗ صِدِّيْقَۃٌ۰ۭ كَانَا يَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ۰ۭ
اوران کی ماں بہت ہی سچی(راست باز) تھیں یہ دونوں (انسان تھے) کھاناکھاتے تھے(یعنی لوازمات بشری رکھتے تھے)
اُنْظُرْ كَيْفَ نُـبَيِّنُ لَہُمُ الْاٰيٰتِ
غورتوکیجئے ہم نے ان لوگوں کیلئے اپنی آیتیں کس طرح کھول کھول کر بیان کیں۔ (یعنی کتنے واضح الفاظ میں ان کے باطل عقائد کی تردید کردی۔)
ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۷۵
پھران کے حال پرغورکیجئے (اتنی واضح تفہیم کے باوجود) وہ کدھربہکے جارہے ہیں۔
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ
ائے پیغمبر(ﷺ) ان سے کہئے کیا تم اللہتعالیٰ کے سواغیراللہ کی عبادت کرتے ہو۔
مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۰ۭ وَاللہُ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۷۶
جوتمہیں نہ ضرر پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں اورنہ نفع کا اور(واقعہ یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ سننے اورجاننے والے ہیں۔
قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ
کہئے ائے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو۔
وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ
اورنہ ایسے لوگوں کی خواہشات کے پیچھے چلوجواس سے پہلے خود بھی گمراہ ہوئے۔
وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ۷۷ۧ
اوربہتوں کوگمراہ کیا۔ اور وہ خود بھی سیدھی راہ سے بھٹکے رہے۔
لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۰ۭ
بنی اسرائیل میں سے جولوگ کافر ہوئے ان پرداؤدؑ اورعیسیٰؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔
ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ۷۸
اس وجہ سے کہ انہوں نے نافرمانی کی اورحدود الٰہی سے تجاوز کرگئے۔
كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۰ۭ
وہ لوگوں کوبرے کاموں سے روکتے بھی نہ تھے اورخود بھی ان کے مرتکب ہوتے تھے۔
لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۷۹
کیا ہی بری روش تھی جس پر وہ چل رہے تھے۔
یعنی
تَرٰى كَثِيْرًا مِّنْہُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۰ۭ
ان میں اکثر لوگوں کوآپؐ دیکھتے ہیں کہ وہ (اہل ایمان کوچھوڑکر) کافروں کودوست بناتے ہیں۔
لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ
اپنی ذات کے لیے انہوں نے کیا ہی براسامان اپنے آگے بھیجا(یعنی حیات بعدالموت کے لیے انہوں نے کیا ہی بری تیاری کی)
اَنْ سَخِـــطَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَفِي الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ۸۰
کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوگئے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مبتلائے عذاب کردیئے گئے۔
وَلَوْ كَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالنَّبِيِّ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ
اوراگروہ اللہ تعالیٰ اورنبی پراورجوکتاب نبی پراتاری گئی ہے اس پر ایمان لاتے (یعنی یقین رکھتے)
مَا اتَّخَذُوْہُمْ اَوْلِيَاۗءَ وَلٰكِنَّ كَثِيْرًا مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ۸۱
اوران (کافروں) کودوست نہ بناتے( توان کے لیے بہترہوتا) لیکن ان میں اکثر فاسق ہی ہیں۔
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا۰ۚ
(محمدﷺ) اہل ایمان کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والوں میں آپؐ یہود اورمشرکین کوپاؤگے۔
وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى۰ۭ
اوردوستی کے لحاظ سے اہل ایمان سے قریب تران لوگوں کوپاؤگے جو اپنے کونصاریٰ کہتے ہیں۔
ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُہْبَانًا
یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اورعابد بھی۔
وَّاَنَّہُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ۸۲
اوروہ تکبر نہیں کرتے۔
توضیح : علماء نے کہا کہ نصاریٰ سے مراد نجاشی بادشاہ حبش اوراس کے ساتھی ہیں۔ حضرت جعفرطیار سے جب انہوں نے قرآن سناتوان کے دل نرم پڑگئے اورساتھ ہی وہ مسلمان ہوگئے۔
وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ
اورجب وہ اس کلام کوسنتے ہیں جورسول اللہﷺ پرنازل ہوا۔
تَرٰٓي اَعْيُنَہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ۰ۚ
(تو) تم دیکھتے ہوکہ حق کوپہچان لینے کی وجہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔
يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ۸۳
وہ کہتے ہیں ائے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ لہٰذا ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں شمار فرمالیجئے۔
وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللہِ وَمَا جَاۗءَنَا مِنَ الْحَقِّ۰ۙ
اور(کہتے ہیں) جب حق بات ہمارے پاس آچکی توپھرکوئی وجہ نہیں کہ ہم ایمان نہ لائیں۔
توضیح : حبشہ کے لوگوں نے نجاشی اوراس کے ساتھ ایمان لانے والوں پرطعن کیا کہ بغیر دیکھے ایمان لائے توانہوں نے جواب میں یہ بات کہی وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللہِ (موضح القرآن)
وَنَطْمَعُ اَنْ يُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِيْنَ۸۴
اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک بندوں کے ساتھ (جنت میں) داخل فرما دےگا۔
فَاَثَابَہُمُ اللہُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۰ۭ
اس اقرار (حق) کے بدلے اللہ تعالیٰ انھیں ایسی جنت میں داخل کریں گے جس کے نیچے نہریں بہتی ہونگی جس میں وہ ہمیشہ رہیںگے۔
وَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْمُحْسِـنِيْنَ۸۵
اور یہی جزاء ہے (ایمان لانے والے) نیکو کاروں کی۔
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَــحِيْمِ۸۶ۧ
اور جن لوگوں نے حق کا انکار کیا اور ہمارے احکام جھٹلائے وہ سب دوزخی ہیں۔
توضیح :مکہ میں جب کافروں نے مسلمانوں پر ظلم کیا تو حضرت محمد ﷺ نے اجازت دی کہ وہ کسی اور ملک میں جارہیں۔ قریب اسی (۸۰ )مسلمان بعض تنہا اور بعض اہل و عیال سمیت ملک حبشہ ہجرت کرگئے ۔ پھر مکہ کے کافروں نے وہاں کے بادشاہ کو بہکایا کہ اس قوم کواپنے ملک میں نہ رہنے دیں اس لئے کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام کو غلام کہتے ہیں۔ تب بادشاہ نے مسلمانوں کو بلوایا اور قرآن پڑھوا کر سنا۔ اس کے علماء بہت روئے اور کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے ہم نے ایسا ہی سنا ہے اور ہمیں خبر دی ہےکہ ان کے بعد قیامت سے پہلے اک اور نبی آئیںگے۔ وہ بیشک یہی نبی ہیں۔ بعد میں وہ بادشاہ حبشہ مسلمان ہوا۔ ان کے حق میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (موضح القرآن)
نوٹ: جو لوگ تارک الدنیا ہوکر نفس کشی اور رہبانیت کو بڑی نیکی سمجھتے تھے۔ اندیشہ تھا کہ ان کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی ایسا نوٹ: جو لوگ تارک الدنیا ہوکر نفس کشی اور رہبانیت کو بڑی نیکی سمجھتے تھے۔ اندیشہ تھا کہ ان کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی ایسا ہی کرنے لگیں۔ لہٰذا حکم دیا گیا۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَكُمْ
ائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو لذیذ مرغوب غذائیں تمہارے لئے حلال کردی ہیں ان کو اپنےپر حرام مت کرلو
توضیح :حلال چیزوں کو کسی وجہ سے بھی ترک کردینا گویا انھیں حرام کرلینا ہے۔ سوائے اس کے کہ کسی مرض کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہو۔
وَلَا تَعْتَدُوْا۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۸۷
اور حدود شرعیہ سے آگے نہ بڑھو۔ یقیناً حد سے گزرنے والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتے (اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی شئے کو نہ تو حرام قرار دو اور نہ اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیز کو اپنے پر حلال کرلو)
وَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ حَلٰلًا طَيِّبًا۰۠
اور اللہ تعالیٰ نے جن پاکیزہ و حلال چیزوں کو تمہارا رزق بنایا ہے کھاؤ۔
وَّاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ۸۸
اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو( معصیت سے بچانا ہی تقویٰ ہے۔)
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ
اللہ تعالیٰ ایسی قسموں پر کوئی مواخذہ نہیں فرماتے جو (بول چال میں) بلاقصد تمہاری زبان سے نکل جاویں۔
وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ۰ۚ
مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر اللہ تعالیٰ ضرور مواخذہ کریںگے (ایسی قسمیں توڑدینی چاہئیں)
فَكَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰكِيْنَ
اور اس طرح قسم کو توڑنےکاکفارہ دس مسکینوں کو کھاناکھلانا ہے۔
مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِيْكُمْ
اوسط قسم کا کھاناجو تم اپنےاہل و عیال کو کھلاتے ہو۔
اَوْ كِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ۰ۭ
یا انھیں (اوسط قسم کے) کپڑے پہنادو یا غلام آزاد کرو
فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰــثَۃِ اَيَّامٍ۰ۭ
لہٰذا جس کسی میں (ان تینوں باتوں کی) استطاعت نہ ہوتو تین روزے رکھے۔
ذٰلِكَ كَفَّارَۃُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ۰ۭ
یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے( مطلب یہ ہےکہ تم نےاگر حلال چیزیں نہ کھانے کی قسم کھائی ہے تو اس کو توڑ دو اور کفارہ ادا کردو۔)
وَاحْفَظُوْٓا اَيْمَانَكُمْ۰ۭ
اپنی قسموں کو پورا کرو (یعنی ایسی باتوں کی قسمیں نہ کھایا کرو جن پر تم عمل نہ کرسکو یا گناہ کرنے یا نیک کام نہ کرنے کی قسم نہ کھایا کرو۔)
كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۸۹
اس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہارے (فائدے کے) لئے اپنے احکام صاف صاف بیان کردیئےہیں تاکہ تم شکر گزار بندے بنے رہو۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ
رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ
ائے ایمان والو یقیناً شراب اور جوا اور استھان (پتھر سے تراشی ہوئی مورتیں یا بزرگوں کےنام کی قبریں، درگاہیں ،چلّے وغیرہ کی تعظیم یہ سب انصاف کی تعریف میں آتے ہیں) اور فال نکالنے کے تیر (یہ سب) گندے اور شیطانی کام ہیں۔
فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۹۰
لہٰذا ان چیزوں سے بچتے رہو (یہ تعلیم تم کو اس لئے دی جاتی ہے) تاکہ تم فلاح پاؤ۔
اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ
یقیناً شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ جوے اور شراب کے ذریعہ تمہارے درمیان بغض اور دشمنی پیدا کردے۔
وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ۰ۚ
اور تمہیں ذکر اللہ اور نماز سے غافل کردے۔
توضیح :یہاں ذکر اللہ سے مراد ایک دوسرے کے حقوق و واجبات کی ادائی ہے۔
فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۹۱
کیا تم ان کاموں سے باز نہ آؤگے؟
وَاَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا۰ۚ
اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ ﷺکی اطاعت کرو اور (اطاعت نہ کرنے کے انجام بد سے) ڈرتے رہو۔
فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰي رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۹۲
پھر اگر تم احکام الٰہی سے روگردانی کروگے تو جان لو کہ ہمارے رسولؐ کے ذمہ صرف واضح طور پر احکام پہنچا دینا ہے (یہ سمجھ کر کہ رسول اللہ ﷺ بخشوائیںگے، خبردار کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرنا)
لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْٓا
جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کوئی گناہ نہیں جو وہ (سابق میں) کھاچکے یا استعمال کرچکے (یعنی جنہوں نے امتناعی احکام سے پہلے جوے کا پیسہ کھالیا تھا)
اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا۰ۭ
بشرطیکہ وہ آئندہ (ان چیزوں سے) بچتے رہیں اور ایمان پر جمے رہیں اور نیک رویہ اختیار کریں۔ پھر (جن باتوں سے روکا گیا) ان سے پرہیز کریں (اور جو حکم الٰہی آئے اس کو بہ سروچشم) مان لیں پھر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور نیک کام کرتے رہیں۔
وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۹۳ۧ
اور اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو محبوب رکھتے ہیں (یعنی پسند فرماتے ہیں)
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللہُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَـنَالُہٗٓ اَيْدِيْكُمْ وَرِمَاحُكُمْ
(حالت احرام میں شکار کرنے کی ممانعت ہے اسلئے حکم دیا گیا ہے) ائے ایمان والو۔ اللہ تعالیٰ شکار سے تمہاری قدرے آزمائش کرتے رہیںگے جن تک تمہارے ہاتھ اور نیزے پہنچ سکیںگے (یعنی اللہ تعالیٰ شکارکو تمہارے قابو میں اور تمہارے نیزوں کی زد میں لاکر تمہارا امتحان کرینگے)
لِيَعْلَمَ اللہُ مَنْ يَّخَافُہٗ بِالْغَيْبِ۰ۚ
تاکہ اللہ تعالیٰ عملاً بھی آزمائش کرلیں کہ کون (اللہ تعالیٰ سے) غائبانہ ڈرتا ہے۔
فَمَنِ اعْتَدٰي بَعْدَ ذٰلِكَ
پھر اس کے بعد جو کوئی (احکام الٰہی سے) تجاوز کرے گا، (یعنی اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہوکر شکار کے موقع سے فائدہ اٹھائیگا)
فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۹۴
تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے (یعنی جہنم کی آگ میں جلتا رہیگا)
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ۰ۭ
ائے ایمان والو حالت احرام میں شکار نہ کرو (اگرچیکہ شکار کتنا ہی تم سے قریب اور تمہاری زد میں آجائے)
وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا
اور تم میں جو کوئی عمداً اس حالت میں شکار کرے
فَجَــزَاۗءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ
تو اس کے بدلے اس شکار کا ہم قیمت کوئی مویشی نذر دے۔
يَحْكُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ
جانور کی قیمت کا تعین (اور روزوں کا تعین) تم میں سے دو عادل کرینگے۔
ہَدْيًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَۃِ اَوْ كَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰكِيْنَ
کفارہ کاجانور (قربانی کے لئے) کعبۃ اللہ بھیجا جائے گا یا (اس گناہ کے) کفارہ میں مسکینوں کوکھانا کھلایا جائے گا۔
اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ۰ۭ
یا اس کے بدلے روزے رکھنے ہوںگے تاکہ اپنے کئے کی سزا بھگت لے۔
عَفَا اللہُ عَمَّا سَلَفَ۰ۭ وَمَنْ عَادَ
اس حکم سے پہلے جو غلطی ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کردیا
فَيَنْتَقِمُ اللہُ مِنْہُ۰ۭ
اور آئندہ جو کوئی اس کا اعادہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لینگے۔
وَاللہُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ۹۵
اور اللہ تعالیٰ زبردست انتقام لینے والے ہیں۔
اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ
تمہارے لئے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا (حالت احرام میں بھی) حلال کردیا گیاہے۔
مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّـيَّارَۃِ۰ۚ
تمہارے اور مسافروں کے فائدے کے لئے (چاہے تم اس کو حالت سفر میں کھاؤ یا مقیم رہ کر یا قافلہ کے لئے اس کو توشہ بناؤ)
وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا۰ۭ
اور تم پر خشکی کا شکار حرام ہے جب تک کہ تم حالت احرام میں ہو۔
وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْٓ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ۹۶
اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس کے سامنے تم (محاسبہ اعمال کے لئے) حاضر کئے جاؤگے۔
جَعَلَ اللہُ الْكَعْبَۃَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِــيٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْيَ وَالْقَلَاۗىِٕدَ۰ۭ
اللہ تعالیٰ نے قابل احترام مکان کعبۃ اللہ کو لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کا ذریعہ بنایا۔ اور حرمت کے مہینوں اور قربانی کے جانوروں کو بھی (قتل و غارت گری کے انسداد کاذریعہ بنایا)
ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ
یہ اس (بات کا یقین دلانے کے) لئے کہ تم جان لو کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس کو اللہ تعالیٰ (اچھی طرح) جانتے ہیں۔
توضیح : ایک ایسا ملک جہاں کوئی منظم حکومت نہ ہو اور جہاں کے لوگ قبائلی زندگی بسر کرتے ہوں۔ قتل و غارت گری کے عادی ہوں، وہاں لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے اللہ تعالیٰ نے حدودِ حرم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اور حرمت کے مہینوں میں جدال و قتال لوٹ و غارت گری کو حرام فرما کر امن قائم فرمایا۔
وَاَنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۹۷
اور یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتے ہیں (یعنی جان و مال کے تحفظ اور امن وامان کے بہتر سے بہتر طریقوں سے بخوبی واقف ہیں۔
اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ
(اچھی طرح) جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔ (خلاف ورزی کےانجام سے بچ نہ سکوگے)
وَاَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۹۸ۭ
اور (اگر سہواً ہوجائے تو) اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانیوالے ہیں
مَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ۰ۭ
رسول کے ذمہ تو صرف احکام پہنچادینا ہے۔
وَاللہُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْتُمُوْنَ۹۹
اور اللہ تعالیٰ جانتے ہی ہیں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو (یعنی یہ جانتے ہیں کہ اس تعلیم کے بعد تم نے اس کی کتنی قدر کی اور کس قدر ناقدری)
قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ
(ائے نبی ﷺ) کہئے پاک اور ناپاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں۔
وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَۃُ الْخَبِيْثِ۰ۚ
اگرچہ کہ ناپاک چیزوں کی کثرت تمہیںبھلی ہی کیوں نہ لگے۔
توضیح :گندگی اور پاکیزگی کا وزن اور قیمت ایک دوسرے کی زیادتی کی وجہ نہیں ہے۔ پاکیزگی اگر کم سے کم بھی ہو تو اپنی پاکیزگی کی وجہ نہایت ہی بیش بہا چیز ہے اور گندگی کتنی ہی زیادہ ہو اس کا نہ تو کوئی وزن ہے اور نہ کوئی قیمت۔ لہٰذا برائی کی کثرت دیکھ کر مرعوب و متاثر نہ ہونا چاہئے۔
فَاتَّقُوا اللہَ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۱۰۰ۧ
ائے عقلمندو (عقل سے کام لو) اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرو (یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کے انجام سے ڈرتے رہو۔)
(یہ تعلیم تم کو اسلئے دی گئی ہے) تا کہ تم (آخرت کی) کامیابی حاصل کرسکو۔