☰ Surah
☰ Parah

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْـيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ۝۰ۚ

ائے ایمان والو ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کیا کرو کہ اگر ان کی حقیقت تم پر ظاہر کردی جائے تو تمہیں برا لگے۔

وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْہَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ۝۰ۭ

اگر نزول قرآن کے وقت پوچھوگے تو وہ تمہیں بتا دی جائیںگی۔

عَفَا اللہُ عَنْہَا۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝۱۰۱

اللہ تعالیٰ نےایسی باتوں سے درگزر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے حلیم الطبع ہیں۔

قَدْ سَاَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِہَا كٰفِرِيْنَ۝۱۰۲

اسطرح کی باتیں تم سے پہلے والوں نے بھی پوچھی تھیں (جب وہ انھیں بتادی گئیں) تو انہوں نے اس کی صحت کا انکار کردیا۔ (مثلاً کسی نے سوال کیا کہ میرا باپ کون ہے جواب آیا کہ جن کو تم اپنا باپ سمجھ رہے ہو، وہ تمہارا باپ نہیں ہے۔ بلکہ تم کسی اور کی نسل سے ہو۔ صحیح جواب ملنے پر

مَا جَعَلَ اللہُ مِنْۢ بَحِيْرَۃٍ

انکار کردیا)اللہ تعالیٰ نے بحیرہ کو حرام نہیں کیا (بحیرہ وہ اونٹنی جو بتوں کے نذر کی جاتی تھی اس کے کان پھاڑ کر چھوڑ دیتے تھے تاکہ کوئی اس کا دودہ دوہ نہ سکے۔)

وَّلَا سَاۗىِٕبَۃٍ وَّلَا وَصِيْلَۃٍ وَّلَا حَامٍ۝۰ۙ

اور نہ سائبہ نہ وسیلہ نہ حام کو (حرام قرار دیا)

توضیح :سائبہ وہ جانور جو بتوں کےنام پر چھوڑ دئے جاتے جن سے کوئی کام نہ لیتےتھے جیسے آج بھی سانڈ چھوڑے جاتے ہیں۔
وصیلہ: وہ اونٹنی جو پہلے اور آخر دو مادہ بچے دے۔
حام: وہ اونٹ جس کی نسل سےچند بچے لے کر سواری وغیرہ کا کام ترک کردیتے تھے۔

وَّلٰكِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ۝۰ۭ

لیکن اہل کفر اللہ تعالیٰ پر جھوٹی باتیں افترا کرتے ہیں۔( یعنی ان کی حرمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔)

توضیح : ہر زمانے میں جہلا کا یہ طریقہ رہا اور اب بھی ہے۔ گائے، بیل، بکرے، مرغ کسی بت قبر یا دیو یا پیر کے نام پر چھوڑتے ہیں۔ ان سے کوئی خدمت لینا ان کو مارنا یاذبح کرناحرام سمجھتے ہیں۔ اس طرح اہلِ عرب بھی مختلف طریقوں سے جانور چھوڑا کرتے تھے۔

وَاَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۝۱۰۳

اور ان میں اکثر سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے (اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی ایسی جاہلانہ باتیںکہتے ہیں)

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس تعلیم کی طرف آؤ جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے اور جو تعلیم رسول دے رہے ہیں۔

قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ

تو کہتے ہمارے لئے وہی طریقہ (عبادت) کافی ہے۔ جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو (کرتے ہوئے) پایا ہے۔

اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۝۱۰۴

اگرچہ کہ ان کے باپ داداکچھ جانتے ہی نہ ہوں اور نہ سیدھی راہ پر ہوں۔ (اس کے باوجود انھیں کے غلط طریقہ پر چلنا چاہتے ہیں)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ۝۰ۚ

ائے ایمان والو تم پر تمہارے اپنے نفس کا حق ہے۔ (تو پہلے اپنے عقائد کی اصلاح کرلو اور گناہوں سے بچو)

یعنی 

لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَيْتُمْ۝۰ۭ

اگر تم ہدایت پر قائم رہو تو کوئی گمراہ شخص تمہارا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔

اِلَى اللہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا

تم سب کو محاسبہ اعمال کیلئے اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے لوٹ کر جانا ہے۔

فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ
تَعْمَلُوْنَ۝۱۰۵

پھر وہ تم کو تمہارے ان سب اعمال سےآگاہ کردےگا جنہیں تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَہَادَۃُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِيْنَ الْوَصِيَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ

ائے ایمان والو جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائےتو وصیت کےوقت تم (مسلمانوں) میں سے دو انصاف پسند قابل اعتبار گواہ لو۔

اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ

یا (مسلمان نہ ملیں تو) غیر مسلم میں سے دو گواہ کرلو اگر تم سفر کی حالت میں ہو۔

فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۭ

پھر تم پر موت کی مصیبت طاری ہو۔

تَحْبِسُوْنَہُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوۃِ

تو نماز کےبعد ان گواہوں کو روک رکھو۔

فَيُقْسِمٰنِ بِاللہِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِيْ بِہٖ ثَـمَنًا وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى۝۰ۙ

اگر تم کو ان گواہوں کی نسبت کچھ شک ہو تو وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھائیں کہ وہ (کسی دنیاوی مفاد کے لئے) غلط شہادت نہیں دیںگے۔ اگرچیکہ ان کا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

وَلَا نَكْتُمُ شَہَادَۃَ۝۰ۙ اللہِ

اور اللہ تعالیٰ کی (خوشنودی کی خاطر) شہادت کو نہ چھپائیںگے (صحیح صحیح گواہی دیںگے)ور نہ

اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِيْنَ۝۱۰۶

اس صورت میں ہم بڑے ہی گنہگار ہوںگے۔

فَاِنْ عُثِرَ عَلٰٓي اَنَّہُمَا اسْتَحَقَّآ اِثْمًا

پھر اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ میں ملوث کیا ہے (یعنی غلط گواہی دی ہے)

فَاٰخَرٰنِ يَقُوْمٰنِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِيْنَ اسْتَحَقَّ عَلَيْہِمُ الْاَوْلَيٰنِ

تو دو اور گواہ ان کی جگہ کھڑے ہوجائیں (جنہوں نے ان کا حق مارنا چاہا تھا) جو (میت سے) قرابت قریبہ رکھتے ہوں۔

فَيُقْسِمٰنِ بِاللہِ لَشَہَادَتُنَآ اَحَقُّ مِنْ شَہَادَتِہِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَآ ۝۰ۡۖ

پھر وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر کہیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ صحیح ہے اور ہم نے (اپنی گواہی میں) کوئی زیادتی نہیں کی (یعنی کوئی غلط بات نہیں کہی) ورنہ

اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۰۷

ہم ظالموں میں سے ہوجائیںگے۔

ذٰلِكَ اَدْنٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِالشَّہَادَۃِ عَلٰي وَجْہِہَآ

اس طریقہ سے بہت ممکن ہے کہ وہ صحیح صحیح شہادت دینے پر مجبور ہوجائیں۔

اَوْ يَخَافُوْٓا اَنْ تُرَدَّ اَيْمَانٌۢ بَعْدَ اَيْمَانِہِمْ۝۰ۭ

یا اس بات سے خوف کھائیں کہ ہماری قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کردی جائیںگی۔

وَاتَّقُوا اللہَ وَاسْمَعُوْا۝۰ۭ

اللہ سے ڈرو (اور جو بھی حکم دیا جائے بہ عزم اطاعت) غور سے سنو۔

وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝۱۰۸ۧ

اور (واقعہ ہیکہ) اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو اصلاح حال کی توفیق نہیں دیتے۔

يَوْمَ يَجْمَعُ اللہُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ۝۰ۭ

وہ دن یاد رکھنے کے قابل ہے جس دن اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو جمع کریں گے پھر ان سے پوچھیںگے تمہیں اپنی دعوت کا کیا جواب ملا تھا۔

قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا۝۰ۭ

وہ عرض کریںگے (باطن کا حال) ہم نہیں جانتے۔

اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۝۱۰۹

یقیناً آپ ہی غیب کی باتوں کے جاننے والے ہیں۔(ان کے دلوں کاحال)

اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِيْ عَلَيْكَ وَعَلٰي وَالِدَتِكَ۝۰ۘ

(وہ مکالمہ بھی قابل ذکر ہے) جب کہ اللہ تعالیٰ (قیامت میں) عیسیٰ علیہ السلام سے کہیںگے۔ ائے عیسیٰ ابن مریم میرے ان احسانات کویاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کئے۔

اِذْ اَيَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۝۰ۣ

جب کہ میں نے جبرئیل سے تمہاری مدد کی۔

تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ وَكَہْلًا۝۰ۚ

تم زمانہ شیر خوارگی میں اور بڑی عمر کو پہنچ کر لوگوں سے باتیں کیا کرتے

تھے (کہ میں اللہ ہی کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اللہ نے مجھے کتاب دی ہے۔ لہٰذا اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی)

وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَالتَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۝۰ۚ

اور اس وقت میں نے تم کو کتاب کا علم سکھایا دانائی بخشی توریت و انجیل کی تعلیم دی۔

وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ كَہَيْئَۃِ الطَّيْرِ بِـاِذْنِيْ

اور جب تم مٹی سے پرندوں کی شکلیں میرے حکم سے بناتے تھے۔

فَتَنْفُخُ فِيْہَا فَتَكُوْنُ طَيْرًۢا بِـاِذْنِيْ

پھر تم اس میں پھونک مارتے تو وہ میرے حکم سے (پرندہ ہوکر) اڑنے لگتا۔

وَتُبْرِئُ الْاَكْـمَہَ وَالْاَبْرَصَ بِـاِذْنِيْ۝۰ۚ

اور تم مادر زاد اندھے اور برص کے مریض کو میرے حکم سے بھلا چنگا کئے دیتے تھے۔

وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِيْ۝۰ۚ

اور جب تم میرےحکم سے مردہ کو زندہ کرتے تھے۔

وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَنْكَ

اور جبکہ میں نے بنی اسرائیل کی دست درازیوں سے تمہیں بچائے رکھا۔

اِذْ جِئْتَہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ

جب تم ان کے پاس (واضح) نشانیوں کے ساتھ آئے۔

فَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ۝۱۱۰

تو ان میں جو کافر تھے کہنے لگے یہ تو کھلے جادو کے سوا اور کچھ نہیں۔

وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيِّيْنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ۝۰ۚ

اور اس وقت میں نے حوارین کو توفیق دی کہ مجھ پر اور میرے رسولوں پر ایمان لائیں۔

توضیح :حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھی اور ان کی اتباع کرنے والوں کے لئے قرآن مجید میں ’’حواری‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔

قَالُـوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ۝۱۱۱

انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے۔ آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلمان ہیں (اطاعت گزار و فرمانبردار ہیں)

اِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ

اس وقت حواریوں نے عیسی ابن مریم سے کہا تھا۔

ہَلْ يَسْتَطِيْعُ رَبُّكَ اَنْ يُّنَزِّلَ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ۝۰ۭ

کیا آپ کا پروردگار ہمارے لئے (کھانے پینے کی چیزوں سے) جماجمایا دسترخوان آسمان سے بھیج سکتا ہے؟

قَالَ اتَّقُوا اللہَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۱۲

عیسیٰؑ نے کہا اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو (یہ بڑی گستاخانہ بات ہے)

قَالُوْا نُرِيْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْہَا

انہوں نے کہا (ہم بے ادبی نہیں کررہے ہیں) ہم چاہتے ہیں کہ (روزگار سے بے فکر رہ کر) اس دسترخوان سے کھائیں پئیں۔

وَتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُنَا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا

اور ہمارے دل مطمئن ہوجائیں اور ہم جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے۔

وَنَكُوْنَ عَلَيْہَا مِنَ الشّٰہِدِيْنَ۝۱۱۳

اور ہم اس پر(خوان نعمت کے مُنزّل من اللہ ہونے پر) گواہ ہیں۔

قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ

عیسیٰؑ ابن مریم نے دعاکی کہ ائے میرے پروردگار ہم پر آسمان سے (اکل و شراب کےسامان سے بھرا ہوا) ایک خوان نعمت نازل فرمایئے۔

تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰيَۃً مِّنْكَ۝۰ۚ

کہ( وہ دن) ہمارے اور ہمارے بعد آنے والوں کیلئے عید قرار پائے اور وہ آپ کی طرف سے (آپ کی تائید و نصرت کی) ایک نشانی بھی ہو۔

وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ۝۱۱۴

اور اس طرح ہمارے رزق کا سامان کردیجئے اور آپ تو بہترین رزق دینے والے ہیں۔

قَالَ اللہُ اِنِّىْ مُنَزِّلُہَا عَلَيْكُمْ۝۰ۚ

(اس دعا کے جواب میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا (میں ایسا خوان نعمت) تمہارے لئے بھیجتا ہوں (مگر یہ بات سن لو)

فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُہٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۱۵ۧ

پھر اس کے بعد تم میں سےجو کوئی کفران نعمت کرے گا تو میں اس کو ایسی سزا دوںگا کہ اہل عالم میں سے کسی کو نہ دوںگا۔

وَاِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ

اور (قیامت کے روز ہونے والے اس مکالمہ کو پیش نظر رکھو) جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم سے پوچھیںگے۔

ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــہَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ

کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا؟ کہ اللہ کے سوا (یا اللہ کے ساتھ) مجھے اور میری ماں کو معبود (و مستعان) قرار دے لو؟

قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ۝۰ۤ بِحَقٍّ۝۰ۭ۬

حضرت عیسیٰؑ جواب دیںگے (اللہ تعالیٰ اس طرح کی شرکت سے) آپ پاک ہیں۔ میرے لئے یہ بات کیسے سزا وار ہوسکتی ہے کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔

اِنْ كُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ۝۰ۭ

اگر میں نے ایسی بات کہی تھی تو آپ اس کو ضرور جانتے ہیں۔

یعنی 

تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ۝۰ۭ

آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے ضمیر میں ہے (یعنی اس طرح پوچھنے کا کیا مقصد ہے میں نہیں جانتا)

اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۝۱۱۶

بیشک آپ غیب کی ساری چیزوں (اور احوال) کو جانتے ہیں۔

مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِيْ بِہٖٓ

میں نے ان سے (ایسی) کوئی بات تو نہیں کہی تھی سوائے اس کے جس کاآپ نے حکم دیا تھا۔

اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ۝۰ۚ

وہ یہ کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی۔

وَكُنْتُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْہِمْ۝۰ۚ

اور میں جب تک ان میں رہا اسی بات کے حق ہونے کی شہادت دیتا رہا۔

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ

پھر جب آپ نے مجھے اپنی طرف آسمان پر زندہ اٹھالیا تو آپ ہی ان پر نگران رہے۔

وَاَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ۝۱۱۷

اور آپ تو (کائنات کی) ہر چیز کےنگران ہیں۔

اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُكَ۝۰ۚ

اگر آپ انھیں عذاب دیں تو وہ آپ ہی کے بندے ہیں۔

وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۱۸

اور اگر آپ انھیں معاف کردیں تو بے شک آپ بڑے ہی زبردست حکیم ہیں (یعنی آپ کا ہر فعل اور ہر تجویز نہایت ہی حکیمانہ ہے)

قَالَ اللہُ ہٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُہُمْ۝۰ۭ

اللہ جواب میں فرمائیںگے (حق کو جھٹلانے والوں کی مغفرت کا سوال ہی کیا ہے) آج وہ دن ہے کہ سچے لوگوں کو ان کی سچائی کام دیگی (یعنی رحمت الٰہی کے مستحق وہی لوگ ہونگے جنہوں نے دعوت حق کی تصدیق کی۔

لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝۰ۭ

ان کے لئے جنت ہے جس کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی۔ جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ (عیش و آرام سے) رہیںگے۔

رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگئے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے راضی ہوگئے۔

ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۱۹

یہی بڑی کامیابی ہے۔

لِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِيْہِنَّ۝۰ۭ

آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب اللہ تعالیٰ کا ہے (یعنی تمام موجودات کےبلا شرکت غیرے تنہا مالک و فرمانروا اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔)

وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۲۰ۧ

اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

توضیح :اپنے کسی مقرب سے مقرب بندہ کو اعزازاً بھی کسی ادنی قسم کا اختیار تفویض کئے بغیر اور کسی کی رائے ومشورے بغیر زمین و آسمان کی بلاشرکت غیرے فرمانروائی پر پوری طرح قادر ہے۔ اس بناء پر وہ دوبارہ حیاتِ جسمانی اور قیامت و محاسبہ اعمال کے قائل نہ تھے انکا عقیدہ یہ تھا کہ انسان مرتے ہی فرشتے اس
کی روح کو اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بزرگوں کی سعی سفارش یا ان کی نسبتوں سے روح کے ناری و ناجی ہونے کا فیصلہ کردیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ان گھڑے ہوئے عقیدوں کے سبب وہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور محمدﷺکو اللہ تعالیٰ کا رسول ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ اور ان کا خیال یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مافوق البشر طاقتوں کاحامل ہو۔ رسول کا انسانوں میں سے ہونا یعنی بشر ہونا ان کے لئے عجیب بات تھی۔ ایسے ہی کچھ اور اعتراضات تھے جو نزول قرآن کے زمانہ میں ان کے دلوں میں پیدا ہوتے رہے تھے جن کا ہر وقت جواب بھی نازل ہوتا رہا۔ اور تزکیہ نفس کی تعلیم کے بعض اجزا بھی ساتھ ساتھ نازل کئے جاتے رہے۔