☰ Surah
☰ Parah

كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ

( یہ تم پر ہما را ایسا ہی احسان ہے) جیسا کہ ہم نے تمہیں میں سے رسول بھیجا۔

يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ

وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ

وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۝۱۵۱ۭ

جو تم کو ہماری آیات پڑ ھ کر سنا تے ہیں اور تمہارا تز کیہ کر تے ہیں۔ (یعنی تمہا رے غلط عقائد کی اصلاح کرتے ہیں گناہوں سے پاک کرتے ہیں۔ احکام الٰہی پر عمل کر نے کا طریقہ بتا تے ہیں)
اور تم کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ عقل و دانا ئی سکھا تے ہیں (یعنی دین کی سمجھ پیدا کرتے ہیں)
نیز جن باتوں کا تم کو علم نہیں تھا تم ان کو ان کی تعلیم دیتے ہیں۔

تشریح : بند گی کے طور وطریق کی نبوی تعلیم بظا ہر خارج ازکتاب ہے اور آیت کریمہ مَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا کی رو سے داخلِ کتاب ہے۔اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اللہ کے رسول کی اتباع میں بجالا نا ہی دراصل دانا ئی ہے۔ حدیث میں عقل منداس کو کہا گیا ہے جو نا جائز خواہشات کو قا بو میں رکھے اور مرنے کے بعد کی زندگی کو سنوار نے کی کو شش میں لگ جا ئے۔ عقل و دانا ئی کی یہ تعلیم فی الحقیقت کتاب اللہ میں ہے اور نہا یت ہی بے وقوف کہا گیا ہے اس شخص کو جو من مانی زندگی گزارے اور نیک عمل کیے بغیر غلط آر زو ئوں میں مبتلا رہے کہ بزرگوں کی نسبتوں سے نجات ہوجائیگی ۔

فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۝۱۵۲ۧ

لہٰذا تم میری ان نعمتوں پر مجھ کو یاد کرو۔ میں بھی تمھیں یاد ر کھو ں گا (یعنی تم ہما رے احکام کی تعمیل کے ذریعہ ہما ری یاد میں لگے رہو۔ پھر میں بھی تمہاری اصلاح کی جانب متوجہ رہوں گا اور میرا شکر کرو(کہ میں نے تم کو اپنی ہدایتوں سے سر فراز کیا) اور میری ناشکری نہ کرو احکامِ الٰہی کی تعمیل شکر اور تعمیل سے گریز کفر ہے۔ 

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۳

ائے ایمان والو تم صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ صبرکر نے والوں کی مدد کرتے ہیں۔

آیاتِ ما قبل فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ کا جو صحیح مفہوم ہے وہ یہاں واضح ہو گیا۔
یعنی مصائب و مشکلات میں اللہ تعالیٰ سے مدد کا طالب ہو نا اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہے اور بندہ کی مدد کرنا۔ اُسے دین پر ثابت قدم رکھنا ہی گو یا اللہ تعالیٰ کا بندہ کو یاد کر نا ہے۔
اس کے سوا اہلِ تصوف مذ کو رہ آیات کا جو مطلب بیان کر تے ہیں یعنی ذاکر و مذ کو ر ایک ہو جائے۔ حسب ِارشادِ نبوی (ﷺ) تحریف غالّین ہے۔ اس آیت میں و اسْتَعِيْنُوْا سے مراد و اسْتَعِيْنُوْا بِاللہِ ہے۔ اس آیت سے مدد مانگنے کے وہ سا رے مشر کا نہ طریقوں کا ابطال ہو تا ہے جس میں امّت کے کثیر افراد مبتلا ہیں۔
اہلِ ایمان کے لیے مصا ئب و پریشانیوں میں نماز کے ذریعہ الٰہی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سے مدد ما نگیں اور صبر کریں۔ صبر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مصائب کے وقت پا ئے ثبات میں لغز ش نہ آنے پا ئے اور کوئی حرکت ایسی نہ ہو جو مرضیٔ رب کے خلاف ہو۔

وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۝۰ۭ

بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۝۱۵۴

اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں(معر کۂ حق و باطل میں) قتل کیے جاتے ہیں، ان کی نسبت یہ نہ کہو( یہ نہ سمجھو) کہ وہ مردے ہیں۔
موت سے اُن کی زندگی ختم نہیں ہو تی بلکہ زندگی کا مقام بدل جا تا ہے۔
بلکہ وہ زندہ ہیں( اس عالم میں زندہ ہیں جہاں وہ اپنے اعمال کا بہترین بدل پائیں گے)
مگر تم نہیں جانتے کہ (و ہ زند گی کیسی۔ ؟ وہ زند گی انسانی شعور وادراک سے بالا تر ہے)

توضیح :بے علم لوگ اس آیت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اولیائے کرام اور بزرگانِ دین زندہ ہیں اور اس طرح زندہ ہیں کہ اگر مشکلات میں مدد کے لیے ان کو پکارا جا ئے تو نہ صرف پکا رنے والے کی آواز ہی سنتے ہیں بلکہ اس کی مدد بھی کر تے ہیں۔ حالانکہ یہ آیت اس مفہوم کی اور اس مشر کا نہ عقیدہ کی متحمل نہیں ہے اور نہ آیت کا یہ محل ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں فی الحقیقت مشر کین اور منافقین کے اس خیال کی تردید کی ہے کہ اسلام قبول کرنا کیا ہے۔ گو یاد نیا وی عیش کے ساتھ ساتھ زندگی سے بھی ہاتھ دھونا ہے اس لیے یہ سمجھا یا جا رہا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو تے ہیں موت سے ان کی زندگی ختم نہیں ہو تی بلکہ آخرت کی زندگی کا آغاز ہو تا ہے۔ اور ان کے لوا ز مِ حیات اکل وشرب وہاں بھی جا ری رہتے ہیں۔ سورۂ آل عمران میں یہ تشریح موجود ہے ۔

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ

وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ
وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ

اور تمہارے قلبی احوال سے واقف ہو نے کے با وجود تم کو اپنے حالات سے( واقف کرا نے کے لیے) ہم تمہیں ضرور آزماتے رہیں گے۔ کچھ خوف سے کچھ بھوک وپیاس سے
اور کچھ جان ومال اور ثمرات کے نقصان سے ۔

اور آپؐایسے صابرین کو ( جو اِن حالات میں ثابت قدم رہتے ہیں جنّت کی) خو شخبری سنا دیجئے۔

الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ

یہ وہ لوگ ہیںکہ ان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو (رجوع اِلی اللہ ہوتے ہیں)

قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ

توکہتے ہیں ہم اللہ ہی کی مِلک ہیں اور ہم اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں (اور ان مصائب پر) صبر کا بے حد و حساب بدل پانے والے ہیں۔ جو مصیبت پہنچ رہی ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے اور اسی میں ہمارے لیے بہتری ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ۝۰ۣ

یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پرور دگار کی مغفرت ورحمت خاص وعام کے مستحق ہیں۔

وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ۝۱۵۷

اور یہی لوگ ہدایت یا فتہ ہیں۔

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِ اللہِ۝۰ۚ

یقیناً کو ہِ صفا و مروہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہو ئے منا سکِ حج میں سے ہیں ۔

توضیح :: یہ دو پہاڑ یاں ہیں مکہ میں کعبۃ اللہ کے قریب واقع ہیں حج و عمرہ کے طواف کے بعد ان کے درمیان تیز تیز چلتے اور نشیبی حصہ سے دوڑ تے ہوئے گزر تے ہیں۔ اسی کانام سعی ہے۔ اور یہ ملّت ابراہیمی ہو نے میں ۔ بعض کو شبہ پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فر مادی۔

فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ

لہٰذا جو شخص خا نۂ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے۔

نوٹ: عمرہ بھی ایک قسم کاحج ہے۔ اس میں اور حج میں یہ فرق ہے کہ حج خالص ذی الحجہ کے مہینے میں ہو تا ہے اور عمرہ اور مہینوں میں بھی ہو سکتا ہے۔حج میں احرام با ندھنا، پھر عرفہ کے دن عرفات کے میدان میں حاضر ہو نا پھر وہاں سے چل کر شعرا لحرام میں رات گزار نا، پھر صبح عید کو منٰی میں پہنچ کر کنکریاں پھینکنا اور حجامت بنوانا، احرام اتار نا، مکہ جا کر طوافِ کعبہ کرنا پھر صفاو مروہ کے درمیان جومکہ میںدو پہاڑ یاں ہیں دوڑ نا و غیرہ ہو تا ہے اور عمرہ میں صرف احرام باندھنا، خا نہ، کعبہ کا طواف کرنا، صفا و مروہ کے درمیان دوڑ نا ہو تا ہے پھر سر منڈ ھوائے اور احرام کھول دے اور حج بدل میں طواف کعبہ کے بعد سعی کرنا درست نہیں ہے۔ سعی کر نے کی صورت میں حج اسی کا ہوگیا۔ اب اس کو مصارفِ حج اداکرنا ضروری ہو جاتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس قرض کی پا داش میں ما خوذ ر ہے گا۔

فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِہِمَا۝۰ۭ
وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا۝۰ۙ فَاِنَّ اللہَ شَاكِـرٌ عَلِــيْمٌ۝۱۵۸

تواس پر کچھ گناہ نہیں کہ دو نوں کا طواف کرے۔
اور جو شخص جس قدر رغبت قلبی کے ساتھ کوئی نیک کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اتنی ہی قدر دانی کرتے ہیں بڑے ہی جاننے والے ہیں( یعنی اپنے مخلص بندوں کو خوب جانتے ہیں)

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْہُدٰى

جو لوگ ہما رے احکام، صاف و صر یح ہدایتیں جن کو ہم نے نازل کیا ہے( اپنے فاسد اغراض کے لیے) چھپا تے ہیں۔

مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ۝۰ۙ

بعد اس کے کہ ہم نے لوگوں کے لیے اپنی کتاب(توریت اور انجیل) میں اس کا اظہار کر دیا( کہ ایک آخری نبی اور آخری کتاب آنے والی ہےاور وہ فلاں فلاں صفات کے حامل ہوں گے جس کی بناء پر وہ آپ کو اس طرح پہچا نتے تھے جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں يَعْرِفُوْنَہٗ كَـمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ۝۰ۭ)

اُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُہُمُ اللہُ وَيَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ۝۱۵۹ۙ

ایسوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور بہت سے لعنت کرنے والے ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا

فَاُولٰۗىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْہِمْ۝۰ۚ
وَاَنَاالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۱۶۰

البتہ جو لوگ اپنی بداعمالیوں سے توبہ کرتے ہیں اور اپنی حالت درست کر لیتے ہیں اور جو امرِحق انھوں نے چھپا یا تھا۔اس کو صاف صاف بیان کرتے ہیں۔
تومیں بھی ان کےقصور معاف کیے دیتا ہوں۔
اور میں بڑا ہی معاف کرنے والا نہایت رحم والا ہوں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ

اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ۝۱۶۱ۙ
خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۚ
لَا يُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْظَرُوْنَ۝۱۶۲

جولوگ(امر حق کو چھپا کر) کا فر ہوئے اور (اسی حالت میں) مرے اور کافر ہی رہے۔
(دین واسلام کو قبول نہیں کیا)
ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور (اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں) سب انسانوں کی
وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی(پھٹکا ر) میں رہیں گے۔

نہ ان کے عذاب میں کمی کی جا ئے گی اور نہ انھیں مہلت دی جا ئے گی(یعنی ان کے عذاب میں ایک لحظہ کا وقفہ نہ ہوگا)

وَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ

لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ۝۱۶۳ۧ

اور(ائے لوگو خوب سمجھ لو) تمہارا معبود(تمہارا حا جت روا، مستعان، مالک و مختار) معبود( حقیقی) ایک ہی ہے ۔
اس کے سوا کوئی عبادت کے لا ئق نہیں وہی رحمٰن و رحیم ہے۔

توضیح :عوام میں غلط رہنمائی کی وجہ دین میں بہت سا ری خرابیاں گمرا ہیاں پیدا ہو چکی، ہیںجس کی وجہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا معبودِ حقیقی، حاجت روا، کار ساز خا لق مالک اور رب ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نظامِ ر بوبیت میں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کو شریک سمجھتے ہیں۔ کار خا نۂ قدرت میں انھیں بڑے ہی با اختیار جان کر ان کی نیاز و ندز ر مانتے ان سے استعانتیں چا ہتے ہیں یہی شرک ہے جس کا انجام جہنّم ہے۔
اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں ما کا ن لہم الخیرہ بیدہ الخیر انھیں کسی قسم کا اختیار نہیں۔ سا را اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود ِ حقیقی ہیں کسی کی رائے مشورہ اور کسی کو اپنا اختیار تفو یض کیے بغیر کسی کے واسطے وسیلے کے بغیر تنہا بہ نفسِ نفیس بندوں کی حاجت روائی فر ما تے ہیں۔

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ
وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ
وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا
وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ۝۰۠
وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ
الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۱۶۴

بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کر نے اور گر دش لیل ونہار میں یعنی رات ودن کے یکے بعد دیگرے آتے رہنے میں
اور ان کشتیوں میں جو ( سا مان اٹھائے ہوئے) سمندر میں چلتی ہیں جن سے لو گوں کو فا ئدہ پہنچتا ہے۔
اور اس بارش کے پا نی سے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان سےنازل کیا زمین کو اس کے خشک و مر دہ ہوجا نے کے بعد ترو تا زہ سرسبز و شاداب کیا۔
اور اس میں ہر قسم کے حیوانات پھیلا دیئے۔
اور ہوائوں کے بدلنے اور بادلوں میں جو زمین و آسمان کے درمیان روکا ہوا ہے۔
(اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اللہ ہی کے معبود و مستعان ہو نے کی) کس قدر نشانیاں، ہیں اُس قوم کے لیے جو عقل سو جھ بوجھ سے کام لیتی ہے۔

توضیح : یہ نظامِ ربوبیت جو کائنات کے گوشہ گوشہ میں جا ری ہے بڑے سے بڑا مفکر بھی جس سے فیض یاب ہے۔ہر سمجھ دار کے لیے جو سلیم الطبع ہو، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے واضح نشان ہیں، مشر کا نہ عقائد کی تردید ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کے اِلہٰ واحد معبود ومستعان ہو نے کا اثبات ہے۔یہ وہ حقائق ہیں جو ہر انسان کے تجربے اور مشا ہدہ میں ہیں۔ اس سرا پا رحمت نظامِ ربوبیت میں ہر انسان پر ورش پا رہا ہے اور منازلِ حیات طے کر رہا ہے۔چاہے وہ کسی کو واسطہ وسیلہ بنائے یا نہ بنائے۔ اللہ تعالیٰ کو اِلٰہ واحد معبود ومستعان ما نے یا نہ مانے حقائق کے انکار سے حقیقت نہیں بدلتی ۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا

اور لو گوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا( اللہ تعالیٰ کے ساتھ) غیر اللہ کو بھی ( چا ہے وہ ذی روح ہوں یا غیر ذی روح) شرکِ فرما نروا ئی قرار دے لیتے ہیں( یعنی رائے و مشورہ اور اختیار میں ان کو بھی شریک قرار دیتے ہیں۔) شرکت چا ہے وہ کتنی قلیل متصور ہو شرکت ہی کہلا ئے گی۔ اس طرح کی شرکت سے غیر شعوری طور پر اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کے درمیان حقیقت کے خلاف یک گو نہ برابری قرار پاتی ہے خالق ومخلوق تو برابر ہوہی نہیں سکتے۔

يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۝۰ۭ

وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں ، جیسی محبت اللہ تعالیٰ سے رکھنی چاہیئے۔

توضیح : مشرکین کے آگے جب یہ حقیقت بیان کی جاتی ہے کہ تم جن افرادِ خلق کو شریکِ خدائی قرار دیتے ہو۔ ان کو نفع وضرر کا رتی برابر اختیار نہیں ہے اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کو را ئے و مشورہ دے سکتے ہیں ۔ تو یہ ان کی عقیدت میں ایسے برہم ہوجاتے ہیں جیسے ایک صحیح العقیدہ مؤمن اللہ تعالیٰ کو بے اختیار کہنے کی صورت میں بر ہم ہو جاتا ہے ۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ

اور جو مومن ہیں ان کو اللہ تعالیٰ سے شدید محبت اور وابستگی ہو تی ہے۔

توضیح :جو لوگ الٰہی ونبوی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا معبود ومستعان مانتے ہیں حاجت روا وکار ساز جانتے ہیں۔ کسی کا واسطہ وسیلہ لینا بھی حقیقت کےخلاف شرک سمجھتے ہیں۔انھیں اللہ تعالیٰ سے شدید محبت ووابستگی ہو تی ہے۔ مرضیات الٰہی کو مقدم رکھتے ہیں ۔ اگر چہ کہ ساری دنیا ناراض ہو جائے۔ مشرکین اپنی حاجتوں اور پریشانیوں میں جس عقیدت کے ساتھ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ اہلِ ایمان اس سے کہیں زیادہ عقیدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی سے وابستہ رہتے ہیں۔ آج جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ نفع و ضرر کی قوتیں بعض افراد خلق مثلاً گزرے ہوئے بزر گانِ دین، اولیاء اللہ بڑے بڑے مقبرہ والوں کو حاصل ہیں وہ لوگ قیامت میں ان غیر اللہ کا بے اختیار ہو نا دیکھ لیں گے۔

وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ۝۰ۙ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلہِ جَمِيْعًا۝۰ۙ

اور ظالم جو کیفیت عذاب کے وقت دیکھیں گے اب اگر دیکھتےکہ ساری قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں(انھیں عذابِ الٰہی سے بچا نے والا کوئی نہیں ان کے باطل عقائد کی قلعی کھل جاتی)

وَّاَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ۝۱۶۵

اور اللہ تعالیٰ عذاب دینے میں بڑے ہی سخت ہیں۔

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا
وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْـبَابُ۝۱۶۶

وہ ایسا وقت ہو گا کہ (کفر کے پیشوا) غلط رہنما اپنے متبعین سےبے زاری کا اظہار کریں گے۔
جب کہ وہ دونوں عذابِ الٰہی کو دیکھ لیںگے اور آپس کے تمام تعلقات (اور ان کی عقید تیں) ختم ہو جا ئیں گے۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّۃً
فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ كَـمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا۝۰ۭ

اور ان کے تابعین( جو شِ انتقام میں) کہیں گے کہ اگر ہم کو پھر دنیا میں پلٹ کر جا نا نصیب ہو۔
تو ہم بھی ان سے ایسی ہی بے رخی بر تتے جیسے آج ہم سے یہ بر ت رہے ہیں۔

كَذٰلِكَ يُرِيْہِمُ اللہُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ
وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ۝۱۶۷ۧ

اس طرح حق تعالیٰ ان کے تمام اعمال(جن کو وہ اپنے لیے موجبِ فلاح و نجات سمجھ رہے تھے) موجبِ حسرت و ندامت بنا دیںگے۔
اور وہ دوزخ سے نکل نہ سکیں گے۔

نوٹ: گزشتہ آیات سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل نے احکامِ الٰہی سے نہ صرف رو گردانی کی بلکہ دین الٰہی میں بہت سارا ردبدل کردیا مثلاً یہ کہ :
۱۔ اونٹ حلال تھا لیکن حرام کرلیا۔ ۲۔ انبیاء علیہم السلام کی عقیدت و محبت میں غلو کیا اور انھیں خدا کا درجہ دیا۔
۳۔ ہفتہ کے روز مچھلی کا شکار منع تھا مگر اپنے طور پر جواز کی یہ صورت نکالی کہ جمعہ کے دن جال لگا تے اور ہفتہ کے روز جال میں پھنسی ہوئی مچھلیاں اتوار کے دن نکال لیتے۔ اس نا فرمانی کی پاداش میں ان کے چہرےمسخ کر دئے گئے۔
ان آیات میں حق تعالیٰ نے پچھلی امتوں کے جو واقعات بیان فر ما ئے ہیں، ان میں ہما رے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے بڑی عبرت کا سامان ہے۔ آج امتِ مسلمہ کی حالات کا جائزہ لیجئے۔ اس امّت کے بگاڑ میں اور پچھلی امتوں کی گمراہی کے واقعات میں بڑی مما ثلت پائی جاتی ہے۔ مثلاً
(۱) قرآن اس لیے نازل ہوا تھا کے زندگی کے ہرہر گو شہ میں اس کے احکام کی تعمیل کی جائے۔مگر اب قرآن صرف طاق کی زینت بن کررہ گیا ہے یا پھر تبرک کے لیے جلسوں کے آغاز کے وقت اور مُردوں پر ایصالِ ثواب کے لیے منتر اور اشلوک کے طور پر پڑھا جا نے لگا ہے۔
۲ ۔ حکم ہے کہ عورتیں پر دہ کریں مگر حال یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو اپنے کو حاجی و قاری کہلوا تے ہیں۔ مسجدوںکی امامت اور قرآن کی تفسیر کا بھی شوق رکھتے ہیں۔چند پیسوں کی خاطر اپنی جوان عمر بیٹیوں سےملازمت کر واتے ہیںکہ مردوں کے دوش بدوش و فتروں میں گھنٹوں بے پر دہ آزادا نہ وقت گزار دیں ۔ کوئی بتائے کہ ان کی عصمت و عفت اور عزتِ نفس کی کیا ضمانت ہے۔؟
۳۔ حق تعالیٰ کا فیصلہ ہے لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۝۰ۭ
جیسی کر نی ویسی بھر نی۔ لیکن عقیدہ اس طرح بگاڑ لیا کہ عقائد واعمال چا ہے کچھ بھی ہوں، زندگیاں فسق و فجور اور گناہوں سے کتنی ہی آلودہ ہوں مضائقہ نہیں۔ کیونکہ امت محمدیہ ہیں آخرت میں کسی نہ کسی بزرگ یا نبی کی سفارش پر۔ عذابِ الٰہی سے بچ جائیں گے۔
۴۔ بنیادی طور پر الٰہی ونبوی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مستعان مدد گار حاجت روا نہیں ہے لیکن اس حقیقت کے خلاف اکثررہنما کہلو ا نے والے یہ گمراہی پھیلا رہے ہیں کہ ہر بزرگ اور ولی اللہ مستعان و حاجت روا ہے۔ اس طرح لاالہ الااللہ اور لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ کی بنیادی تعلیم اور صریح حکمِ ربانی کے خلاف تعلیم دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ بزرگانِ دین اور اولیاء اللہ کو مدد کے لیے پکار نا۔ گویا اللہ تعالیٰ ہی کو پکار ناہے و غیر ہ۔ جو باتیں دین کی نہیں۔ ان کو دین میں شامل کرنا اور دین کے اصلی احکام کو فراموش کر دینا دراصل دین ہی کو بدل دینا ہے۔ غرض وہ سب کچھ اس امّت مسلمہ کے اندر پیدا ہو رہا ہے جو نزولِ قرآن کے زمانے میں بنی اسرائیل کا وصف تھا جو شخص نعمت دین کو بدل دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی ہی سخت سزا دینے والے ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰ؗۖ

ائے لوگو جوچیزیں زمین میں موجود ہیں ان میں سے حلا ل و پاک چیزیں کھا ئو۔

وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ
اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۱۶۸

اور تم شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو۔
وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

توضیح : غیر اللہ کی ربوبیت کے باطل عقیدہ میں مبتلا کرنا شیطان کا ایک اہم کام ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حلال چیز کو حرام کرلینا بھی امرِ شیطانی ہے۔وہ ایسے عقائد کی تعلیم دیتا ہے جس کے جو از میں کوئی دلیل علمی نہیں۔

اِنَّمَا يَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْۗءِ وَالْفَحْشَاۗءِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا

یقیناً وہ تم کو برائی و بے حیائی کے کاموں پر اکسا تا ہے۔
اور یہ (بات بھی دل میں ڈالتا ہے) کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی باتیں

تَعْلَمُوْنَ۝۱۶۹
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ

قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ
اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۝۱۷۰

گھڑا کرو جس کی تم سند نہیں رکھتے۔
اورجب ان (مشرکین) سے کہا جا تا ہے کہ جو کتاب اللہ تعالیٰ نے نا زل کی ہے، اس کے مطابق عمل پیرا ہوجائو(تو ضد وہٹ دھرمی کی وجہ اتباعِ حق سے گریز کرتے ہیں)
(جواب میں) کہتے ہیں کہ ( نہیں) ہم تو اسی طریقہ پر چلیں گے جس طریقہ پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔
اگر چہ کہ ان کے باپ دادا( دین کی) کچھ سمجھ بوجھ ہی نہ رکھتے ہوں اور نہ(کسی آسمانی کتاب کی) ہدایت رکھتے ہوں۔ (پھر بھی یہ انھیں کی اتباع کرتے ہیں اقوامِ عالم کا یہی کچھ حال ہے۔) حالانکہ الٰہی ونبوی تعلیم کے خلاف جو آبا ئی روایات خاندانی طور و طریق ورسو مات ہیں سب قابلِ ترک ہیں ۔

وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً۝۰ۭ

اور جو لوگ کا فرہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایسی چیز(ایسے جانور) کو آواز دے جو پکار نے کی آواز کے سوا کچھ نہ سنے۔

صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۝۱۷۱

(یہ کفّار دین کے معاملہ میں گو یا) بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہیں سکتے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ

ائے لوگو جو ایمان لائے حلال و پاکیزہ چیزیں کھائو جو ہم نے تم کو عطا کی ہیں۔ (رزقِ طیب محض اللہ تعالیٰ کی شان ِربوبیت سے مل رہا ہے۔ نہ وہ کسی کے واسطے وسیلے سے ہے اور نہ زورِ با زو سےہے)

وَاشْكُرُوْا لِلہِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَ۝۱۷۲

اور اللہ تعالیٰ ہی کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کے عبادت گزار بندے ہو(یعنی اگر تم بندۂ حق ہو تو ر سماً وروا یتاًحرمت و حلّت کے جو تصورات کام کررہے ہیں انھیں ترک کردو۔ اصل شکر گزاری یہ ہے کہ جو رزق تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہا ہے۔وہ محض اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت سے مل رہا ہے۔

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ
وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ۝۰

یقیناً تم پراس نے مرا ہوا جا نور اور(بہتا ہوا) خون اور سوّر کا گوشت حرام کیاہے۔
اور وہ تمام چیزیں جو غیر اللہ کے لیے نا مزد کی گئی ہوں ۔

تشریح: جو جانور غیر اللہ کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ اس پر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا ئے یا غیر اللہ کا ۔ حرمت کے لحاظ سے برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے وہ حلال نہ ہوگا۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کیا ہو تو وہ اسلام سے خارج ہو گیا اور وہ جانور ایسا ہو گا جیسا مر تد کا ذبح کیا ہوا۔
غیر اللہ کی خوشنو دی کے لیے نذر۔ نیاز۔ منت وغیرہ سب حرام ہے۔ اگر چہ کہ وہ ملا ئکہ انبیاء علیہم السلام صالحین امت اور دیگر بزرگانِ دین ہی کیوں نہ ہوں ان کے نام پر جانور ذبح کر نا یا مساکین و غیرہ کو کھلا نا لغیر اللہ کے حکم میں داخل ہے ۔

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۭ

(یہاں ایک استثنیٰ ہے کہ) جوکوئی بھوک سے بہت زیادہ بے قرار ہوجائے بہ شر طیکہ اس کی نیت نا فر ما نی اور مزہ حاصل کرنے کی نہ ہو تو

اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۷۳

(شدتِ اضطراب میں) مذکورہ حرام چیزیں بقدرِ قوتِ لا یموت کھالے تاکہ جان بچ جا ئے۔ اس پر کچھ گناہ نہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فر ما نے والے ہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ الْكِتٰبِ

وَيَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝۰ۙ

اُولٰۗىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِہِمْ اِلَّا النَّارَ
وَلَا يُكَلِّمُہُمُ اللہُ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَلَا يُزَكِّيْہِمْ۝۰ۚۖ

جو لوگ کتاب سے(حر متِ اشیاء کے) ان مذ کورہ احکام کو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فر ما ئے ہیں، چھپا تے ہیں (اور اس کے حلال ہو نے کا فتوی دیتے ہیں۔)
اور ان کے بدلے تھو ڑی سی قیمت (یعنی دنیا وی منفعت) حاصل کرتے ہیں۔
وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر تے ہیں۔

اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُن سے بات نہیں کریں گے۔ اور نہ ان کو (گنا ہوں کی آلا ئشوں سے) پاک کریں گے(یعنی تزکیۂ نفس کے لیے

وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۷۴

وہ کتنے ہی طریقے ایجاد کریں ان سے ان کا تزکیہ نہ ہوگا)
اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰى
وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ۝۰ۚ
فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَي النَّارِ۝۱۷۵

یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمرا ہی خریدلی۔

اور بخشش و مغفرت کے بدلے عذاب ۔
پھر وہ آتش جہنّم کے لیے کیسے با ہمت ہیں( یہ ایک محا ورہ ہے)

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَـقِّ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ نے کتاب کو سچائی کے ساتھ نازل فرمایا۔
(ان کے باطل عقائد کی تردید کردی اور ان کے تقدس اور پار سائی کا پر دہ چاک کردیا)

وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِي الْكِتٰبِ لَفِيْ شِقَاقٍؚبَعِيْدٍ۝۱۷۶ۧ

اور جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا ( کتمانِ حق ۔تحریف ونزع پیدا کی) وہ آپسی مخالفت میں پڑ گئے جس نے ان کو (راہ) حق سے دور کر دیا(یہو دو نصا رٰ ی مراد ہیں)

لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ
وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۝۰ۚ
وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى

نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف کرلو۔

بلکہ اصلی نیکی یہ ہے کہ جو کوئی(الٰہی و نبوی تعلیم کے مطابق) اللہ تعالیٰ پر اور آخرت پر

اور فرشتوں اور اللہ تعالیٰ کی کتاب اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان لائے
اور اپنا مال اللہ تعالیٰ کی خوشنو دی کے لیے قریبی رشتہ داروں کو دے (نمود و شہرت اور کسی قسم کی غر ض مقصود نہ ہو)

وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ
وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ۝۰ۚ

اور یتیموں اور مسکینوں اور مسا فروں کو دے۔
اور سا ئل(مانگنے والوں) کو دے اور گر دن چھڑا نے میں خرچ کرے۔

وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ۝۰ۚ

(یعنی غلاموں کو غلامی سے آزاد کرا نے میں خرچ کرے)
اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔

توضیح : نماز اصلاحِ اعمال کا ذریعہ ہے۔ اگر نماز وں سے اعمال کی اصلاح نہیںہورہی ہے۔ اور ایمان و عقائد میں خرابی ہے۔ ایمان و عقیدہ کی اصلاح کتاب و سنّت سے ہو تی ہے۔ الٰہی و نبوی تعلیم سے صرفِ نظر و بے نیازی ہو تو اس کالازمی نتیجہ بے راہ روی ہے۔ محض عمل سے عقائد درست نہیں ہو تے جہل علم سے دور ہو تا ہے اور علم کتاب اللہ میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے احکام نبیٔ محترم ﷺ کی اتباع میں بجا لا نا ہی دین ہے۔ طبع زاد آبا ئی طریقوں سے من ما نی اللہ تعالیٰ کی عبادت کر نا نیکی نہیں ہے اور ایمان بالآخرت کی خرابی یعنی دنیا کو دین پر تر جیح دینا آخرت سے غفلت برتنا ہے۔ انجام آخرت کا انحصار بزر گوں کی سعی وسفارش پر کر نا اور اس امانی و خوش، فہمی میں مبتلا ر ہنا کہ نجات بہر حال ہوجا ئے گی، فریب نفس اور شیطانی دھو کا ہے۔

وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۝۰

اور جب عہد کریں تو اپنے عہد و پیمان( قول و قرار) کو پورا کر نے والے ہوں۔

وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ۝۰ۭ
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۝۰ۭ
وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۝۱۷۷

اور سختی و تکلیف( تنگد ستی و بیماری) میں صبر کر نے والے اور میدانِ کارزار میں ثابت قدم رہنے والے
یہی وہ لوگ ہیں جو ( اپنے ادعا ئے ایمان میں) سچے ہیں۔
اور یہی لوگ متقی ہیں( یعنی احکامِ الٰہی کی خلاف ور زی کے انجامِ بد سے ڈرنے والے اور احکام ِ الٰہی کی سر فروشا نہ تعمیل کر نے والے ہیں۔ یہاں متقی کی تعریف متعین ہو تی ہے)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي۝۰ۭ

اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بِالْاُنْـثٰى۝۰ۭ
فَمَنْ عُفِيَ لَہٗ مِنْ اَخِيْہِ شَيْءٌ

ائے ایمان والو(عمداً قتل کیے جا نے والوں کے بارے میں) تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص کا حکم دیا جاتا ہے۔
(یعنی خون کا بدلہ خون سے لیا جا سکتا ہے )
آزا دشخص کے بدلے آزاداور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت(قتل کیے جائیں)
ہاں جس کو اس کے فریق کی طرف سے کچھ معافی ہو جا ئے (یعنی پوری معافی نہ ہو)

فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْہِ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۭ
ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَـۃٌ۝۰ۭ

فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۷۸

تو(اس صورت میں) بہ طریق احسن( خوں بہا) کا مطالبہ کرنا اور خوش خوئی کے ساتھ( خو ں بہا) ادا کر نا چاہئے۔
یہ(قا نو نِ دیت و عفو) سزامیں تخفیف(کمی) تمہارے پر ور دگار کی طرف سے( ایک شا ہا نہ ر عایت و) مہر با نی ہے۔
اس کے بعد جو کوئی زیادتی کرے گا تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے(یعنی مقتول کے ور ثا معا فی سےپھر جا ئیں یاقتل خوں بہا نہ دے)

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۷۹

اور قصاص کے حکم میں تمہاری زندگی( حیات ِاجتماعی کے تحفظ کا سامان) ہے۔ ائے سمجھ بوجھ سے کام لینے والو( تمہیں یہ احکام اس لیے دیئے گئے ہیں کہ) تم (خوں ریزی سے) بچو۔

یعنی 

كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا۝۰ۚۖ

الْوَصِيَّۃُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ

(اور یہ بھی مقصد ہے کہ خون خرابہ کا انسداد ہو) تم پر (یہ وصیت) فرض کیا جاتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے۔ اگر ترکہ میں کچھ مال چھوڑ جا نے والا ہو۔ تو
ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کر جائے۔

حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ۝۱۸۰ۭ

متّقین پر(والدین و قریبی رشتہ داروں کا) یہ حق ہے۔

توضیح : وصیت کے مسئلہ میں آئمہ فقہا میں اختلاف ہے کہ وصیت کرے اور نہ کرے۔ اس اختلاف کو نزا عی نہیں بنانا چاہیئے بلکہ اس میں راحج اور مر جوح کا فرق ہے۔

فَمَنْۢ بَدَّلَہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ
فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَي الَّذِيْنَ يُبَدِّلُوْنَہٗ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۱۸۱ۭ

لہٰذا جو کوئی وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے۔
تو اس کہ بدلنے کا گناہ انھیں لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ سننے والے ہیں(یعنی ہر عمل سے باخبر رہتے ہیں)

فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْاِثْمًـا

لہٰذاجو کو ئی وصیت کرنے والے کی طرف سے (کسی وارث کی) طرف داری یا حق تلفی کا اندیشہ رکھے۔
(یعنی عمداً ظلم کا ارتکاب کرے۔ کسی کو حق سے محروم کردے)

فَاَصْلَحَ بَيْنَہُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۸۲ۧ

تو (وصیت کو بدل کر) ورثاء میں صلح کرادے تو اس پر کو ئی گناہ نہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فر ما نے والے ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ

ائے لوگو جو ایمان لا ئے ہو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کی اُمتوں پر فرض کیے گئے تھے۔

 

تا کہ تم پر ہیزگار بنو۔

تشریح : روزہ میں کھا نے پینے کے اوقات بدلے گئے ہیں۔ طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک کھا نے پینے کے بجائے غروبِ آفتاب سے صبح صادق تک کھا نے پینے کی اجازت ہے۔اس طرح جائز خواہشات کو بھی قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ اور تزکیہ ہے۔ روزے کی بدولت انسان میں رفتہ رفتہ پر ہیز گاری پیدا ہو تی ہے۔نیز مومن مردِ مجا ہد ہو تا ہے اور مجا ہد کیلئےضروری ہے کہ کھا نے پینے کے اوقات کا ایسا پا بند نہ رہے کہ اس کی مجا ہدا نہ مساعی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو۔

اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۝۰ۭ
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ
فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ

(یہ روزے) گنتی کے چنددن ہیں(اس میں بھی استثنیٰ یہ ہے کہ)
لہٰذا تم میں جو شخص بیمار ہو یا سفر کی حالت ہو تو
دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کرے( یعنی قضا ء روزے رکھے)

وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَہٗ فِدْيَۃٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ۝۰ۭ

اور ان لوگوں پر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں روزے کے بدلے مسکین و محتاج کو کھا نا کھلائے۔

توضیح :سفر یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو فو راً فدیہ دے دے ۔ اگر چہ قضاء روزہ رکھنے کی نیت ہو۔

فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ۝۰ۭ

لہٰذا جو کوئی خو شد لی کے ساتھ نیک کام کرے وہ اسی کیلئےبہترہے۔

توضیح :صحت یاب ہونے یا سفر سے واپسی پر روزہ رکھ لے تو یہ شکل تطوع کی ہے۔

وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۴

اور اگر تم روزے رکھ لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ اگر تم سمجھو۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ۚ

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نا زل کیا گیا۔

ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰

جس میں لوگوں کے لیےہدایتیں ہیں اور ہدایتیں نہا یت ہی واضح ہیں اور (قرآن) حق و باطل کو الگ الگ کر نے والا ہے( صحیح اور غلط کو پرکھنے کا معیار ہے)

توضیح : قرآن کا بنیادی وصف ھُدًى لِّلنَّاسِ ۔ فر قان۔ بتیان ہے ۔یعنی قرآنِ مجید میں ہدایتِ عامّہ کا سامان ہے۔ اس کی تعلیم فہم عامّہ کے مطابق ہے۔ جس کے ذریعہ حق و باطل میں پوری پوری تمیز کی جا سکتی ہے۔
تزکیہ و تطہیر کا ہر حکم و ہدایت واضح اور صاف صاف ہے۔ کوئی پیچیدگی یا مشکل نہیں ہے۔

فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ
وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ
يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۝۰ۡ
وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّۃَ
وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ
وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۸۵

لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کے روزے رکھے۔
اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں اس کی قضاء کرے۔
(یہ سہولت اس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ تعالیٰ تم پر آسانیاں چا ہتے ہیں اور تم پر سختی کر نا نہیں چاہتے۔
اور (یہ آسان حکم اس لیے دیا گیاہے) تا کہ تم ایک ماہ کی مدّت پوری کرسکو۔
اور اس احسان کے بدلے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو (قرآن کے ذریعہ) ہدایتیں بخشیں(اور عذر کی صورت میں قضاء کر نے کی سہولت عطا فرمائی) اور تا کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر کرو ۔

توضیح : روزوں کی تکمیل پر عید کے دن اللہ تعالیٰ کی کبر یا ئی حمدوثنا کرنے اورشکر بجالانے کا جومسنون طریقہ ہے وہ اسی حکم کی عملی شکل ہے جس میں تکبیر بھی ہے اوردعائیں بھی۔

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ

اور جب میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (آپ کہہ دیجئے) میں قریب ہی ہوں۔

توضیح :قریب ہونے کا علم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہر حاجت و ضرورت میں ہر وقت اپنے ربِّ اعلیٰ و عظیم ہی کو پکار یں۔

اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ

جب کو ئی پکار نے والا مجھے پکار تا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔

فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶

لہٰذا نھیں چا ہئے کہ میرے احکام کو مانیں( تعلیماتِ الٰہی کو قبول کریں) اور مجھ ہی پر اعتماد ویقین رکھیں تا کہ وہ راہِ راست پاسکیں۔

توضیح :احکامِ الٰہی کو قبول کر نے کے بعد تعمیل احکام میں کوئی تکلیف پہنچے یا عدم قبولیت دعا پر انقباض پیدا ہو جا ئے تو ہرصورت کو اپنے لیے مفید سمجھے کیونکہ اللہ کی ہر تجویز حکیما نہ ہے لہٰذا اعتماد علی اللہ کے بغیر کوئی راہِ رشد حا صل نہیں کر سکتا ۔

اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَۃَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ۝۰ۭ

 

ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۝۰ۭ

(رمضان کے) روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی بیویوں سے مقاربت جا ئز کر دی گئی ہے۔
(اس سے قبل دوسری قوموں کی طرح تم بھی رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں سے الگ رکھے جا تے تھے)
وہ تمہا رے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے (یعنی وہ تمہارے لیے حرام کاری سے بچنے کا ذریعہ ہیں اور تم ان کے لیے)

توضیح : زن و شوہر کا تعلق جسم و لباس کا سا ہے جس طرح لباس سے جسم کو راحت ملتی ہے اسی طرح زن و شو کا قرب بھی ایک دوسرے کی تسکین وراحت اور حرام کاری سے بچنے کا ذریعہ ہے۔

عَلِمَ اللہُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ

فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ۝۰ۚ

اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ تم اپنے نفس کے حق میں خیانت کے مرتکب ہوا کرتے تھے(یعنی اجازت سے قبل رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے خواہش نفس کی تکمیل کیا کر تے تھے ۔)
(ندامت و معذرت پر) اللہ تعالیٰ نے تم پر مہر بانی کی اور تم سے درگزر فرما یا(یعنی تمہاری اس حرکت کو معاف کر دیا)

فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللہُ لَكُمْ۝۰۠

اب تم (رمضان کی راتوں میں) اس سے مباشرت کر سکتے ہو اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہارے لیے مقرر کیا ہے اس کا سامان کرو۔
(یعنی مطلب یہ کہ یہی مقا ربت تمہارے لیے صاحبِ اولاد ہو نے کا ذریعہ ہے)

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ
لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۝۰۠

اور کھا ئو اور پیو یہاں تک کہ تم پر صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے نمودار ہو نے لگے ۔

ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ۝۰ۚ

وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ۝۰ۙ فِي الْمَسٰجِدِ۝۰ۭ

تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۝۰ۭ

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۝۱۸۷

پھر( سپیدئی سحر نمو دار ہو نے کے بعد سے) غروبِ آفتاب تک روزہ پورا کرو۔
اور جب تم مسجدوں میں معتکف رہو تو بیویوں سے مبا شرت نہ کرو۔( اس سے ظاہر ہے کہ کسی خاص ضرورت سے گھر جاسکتے ہیں۔ مثلاً حاجت ِ ضروری وغیرہ، لیکن اعتکاف کی حالت میں بی بیوں کے ساتھ صحبت وبوس و کنار سب حرام ہے)
یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حدود ہیں۔
(یعنی اللہ تعالیٰ کی منع اور حرام کی ہوئی چیزیں ہیں)ان کے قریب بھی جانے کا خیال دل میں نہ آنا چا ہیئے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے اپنے احکام صاف صاف بیان فر ما تے ہیں تا کہ وہ پر ہیزگار بنیں( ایسی منع کی ہوئی چیزوں سے بچیں دینی احکام تزکیہ و تطہیر کے لیے ہیں اس لیے روزے میں تقوے کی نیت ضروری ہے)

وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ

اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھا ئو۔
اور نہ اس کو ( رشوت کے ذریعہ ے) حُکّام کے پاس پہنچا ئو۔
تاکہ( نا جائز اور غیر منصفا نہ طریقہ سے فیصلہ کرائو اور) لوگوں کے مال کا کچھ حصہ نا حق کھا جائو ۔

بِالْاِثْمِ
وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۸ۧ

(اس آیت سے رشوت وظلم و زیادتی کی حر مت ثابت ہو تی ہے)
اور تم جانتے ہو کہ (یہ سب کا م حرام ہیں)

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ۝۰ۭ

قُلْ ہِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۝۰ۭ

ائے نبی(ﷺ) لوگ آپ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں (کہ یہ بڑھتا اور گھٹتا کیوں ہے)
کہیئے کہ وہ لوگوں کیلئے دن تاریخ اور اوقاتِ حج معلوم کر نے کا ذریعہ ہے۔

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِھَا

اور نیکی اس بات میں نہیں ہے کہ ( احرام کی حالت میں)تم اپنے گھروں میں اس کی پچھلی دیوار سے پھا ند کر آئو۔

توضیح : جب لوگ حج کے لیے گھر سے نکل جاتے اور پھر کسی ضرورت سے گھر واپس آنا پڑ تاتو وہ گھر کے دروازے سے داخل ہو نے کے بجا ئے گھر کی پچھلی دیوار پھا ند کر آنے کو نیکی سمجھتے تھے۔ یہ ان کے اپنے من گھڑت طریقہ تھے۔اور افترائی باتیں تھیں۔ ان میں نیکی کا تصور ہی غلط تھا۔

وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى۝۰ۚ

اصل نیکی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نا راضی سے بچے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے اوامر ونوا ہی پر عمل پیرا ہو نا ہی بہت بڑی نیکی ہے۔ جس معاملے میں اللہ رسول کا کوئی حکم نہ ہواس کو اپنی طرف سے ایجاد کرنا اور نیکی سمجھنا بڑی غلطی ہے۔

وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا۝۰۠

وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۸۹

اور گھر واپس ہو نا پڑے تو( سیدھے سا دے طریقہ پر) گھر کے دروازے سے آیا کرو۔
اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تے رہو۔ تا کہ تم فلاحِ آخرت پا سکو۔
(جتنا خوفِ الٰہی دل میں ہوگا اتنا ہی اللہ رسول کے احکام کا پابند ہوگا)

توضیح :اس آیت سے بدعت کا امتناع ثابت ہوتا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی کام نیکی سمجھ کر اختیار کر نا نیکی نہیں ہے نیکی دراصل اللہ تعالیٰ سے ڈر نے اور احکامِ الٰہی کی خلاف ور زی سے بچنے کا نام ہے۔ احکامِ الٰہی کی تعلیم ہی سے ہم کو معلوم ہوسکے گا کہ ہم میں کتنا خوف اور کتنی اطاعت ہے۔

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ

اور تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑتے رہو جو تم سے لڑ تے ہیں۔( اور عہد شکنی کر تے ہیں)
اور تم حد سے نہ نکلو یعنی زیاد تی نہ کرو۔( معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل بھی زیاد تی کی تعریف میں آتی ہے)

اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝۱۹۰

اللہ تعالیٰ زیادتی کر نے والوں کو پسند نہیں فر ما تے۔

وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ
وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ
اَخْرَجُوْكُمْ

اور (جب قتال شروع ہو جا ئے تو) ان کافروں کو جہاں پائو قتل کرو۔
اور جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے(یعنی مکہ سے) وہاں سے تم بھی انکو نکال دو(یعنی انکو اتنا مارو کہ (مکہ سے ) بھاگ جا نے پر مجبور ہوجائیں)

وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۝۰ۚ

اور(دین سے گمراہ کر نے کا) فتنہ قتل وخوں ریز ی سے کہیں بڑھ کرہے۔

توضیح :قتل اگر چہ کہ کوئی اچھی چیز نہیںہے کہ اس میں انسانوں کی خوں ریزی ہے مگر شہر مکہ میں دینِ اسلام کے خلاف کفّار مشرکینِ مکہ کی سر گر میاں دینِ اسلام کو مٹا نے کی کوشش قتل سے بھی زیادہ انسانوں کے لیے مو جبِ بر بادی تھی، اس لیے اس فتنۂ عظیم سے بچنے کے لیے ان کا قتل مستحسن قرار دیا گیا ۔ کفّار مکّہ کے لیے دو ہی صوتیں تھیں یا تو وہ مسلمان ہو جا ئیں یا انھیں قتل کر دیا جا ئے۔ ان سے جز یہ قبول نہ کیا جا ئے گا۔

وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْہِ۝۰ۚ
فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ۝۰ۭ كَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ۝۱۹۱

اور جب تک وہ تم سے مسجد محترم( خا نۂ کعبہ کے پاس) لڑنے کی ابتدا نہ کریں تم بھی وہاں ان سے نہ لڑو۔
پھر اگر وہ (اپنے کفر سے ) باز آجائیں (اسلام قبول کرلیں) تو کفار (وہاں) تم سے لڑنے کی ابتدا کریں تو تم انھیں قتل کرو۔ کافروں کی یہی سزا ہے۔

فَاِنِ انْــتَہَوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۹۲

پھر اگر وہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فر ما نے والے ہیں (انھیں معاف کردیں گے)

وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ۝۰ۭ
فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۹۳

اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو کہ کفر مغلوب ہو جا ئے اور دین خالص اللہ ہی کا ہو جائے ۔
پھر اگر وہ کفر سے با ز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیاد تی نہ کر نی چاہیئے۔

توضیح : اسلام میں قتل کی اجازت اس لیے ہے کہ فتنہ یعنی غلبۂ کفر ختم ہو جا ئے۔

اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ

احترام کے مہینہ کا بدل احترام ہی کا مہینہ ہے۔

وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ۝۰ۭ

اور ادب واحترام کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں۔

توضیح : ادب واحترام کے بھی مہینے ہیں۔ ان کا احترام اسی وقت تک ہے۔ جب تک کہ دوسرا فریق بھی ان کا احترام کرے۔ کفار ان مہینوں کا احترام نہ کریںتو مسلمان بھی ان مہینوں میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں۔

فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ۝۰۠
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ۝۱۹۴

لہٰذا (ادب واحترام کے مہینوں میں ) جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پرویسی ہی زیادتی کرو۔ جیسی کہ اس نے تم پر کی ہے۔
تم پر جو ہتھیارا ٹھائے تم بھی اس پر ہتھیار چلا ئو دوسروں پر ہتھیار نہ اٹھائو۔
اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تے رہو( اللہ تعالیٰ کی نا فر ما نی کے انجامِ بد کو مستحضر رکھو) اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہیں (ان کی ہر طرح مدد کرتے ہیں)

توضیح : بار بار ۝۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ کی تاکید سے ظاہر ہے کہ خوفِ الٰہی ایمان کا ایک لازمی جزوہے۔ دراصل ایمان میں اقرار اطاعت ہے اور خوفِ الٰہی سے اطاعت کا سر فر و شا نہ جذ بہ پیدا ہو تا ہے۔ اس لیے بعض مفکرین نے اطاعت کے نہ ہونے پر ایمان کی نفی کا حکم لگا یا ہے اور یہی بات قرآنی تعلیم و تفہیم کے بہت قریب و مطابق ہے۔اطاعت میں نقص دراصل ایمان ہی کا نقص ہے ۔

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ۝۰ۚۖۛ
وَاَحْسِنُوْا۝۰ۚۛ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ ۝۱۹۵

اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان نہ کرو(جہاد فی سبیل اللہ میں بخل سے کام نہ لو۔)
اور نیکی کرو( جہا دو انفاق فی سبیل اللہ کیے جائو)
یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے ہی نیکو کاروں کو پسند فرماتے ہیں:

وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ کی خوشنو دی کے لیے حج و عمرہ کو پورا کرو۔ (اس طرح تکمیل کیے بغیر واپس نہ آئو)

فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْيِ۝۰ۚ

وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى يَبْلُغَ

پھر اگر تم راہ میں روک لیے جائو یا کسی مصیبت میں گھر جائو تو قربانی کے جانور جو بھی میسّر ہوں(اونٹ گائے بکری) مقامِ مذبح( ذبح ہو نے کی جگہ) پر بھجوادو۔
اور اپنے سروں کو نہ منڈ ھوا ئوجب تک کہ قربانی کے جانور اپنی جگہ پہنچ نہ

الْہَدْيُ مَحِلَّہٗ۝۰ۭ

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًى مِّنْ رَّاْسِہٖ

جائیں( حالتِ احرام ہی میں رہو)حالتِ احرام میں بال نکلوا نے کی
ممانعت ہے۔
لہٰذا تم میں سے کوئی بیمار ہو جائے یا اس کے سرمیں کسی قسم کی تکلیف ہو (اور حالتِ احرام میں سر منڈ ھوا ئے تو)

فَفِدْيَۃٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُكٍ۝۰ۚ

فَاِذَآ اَمِنْتُمْ۝۰۪ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْي

اس کے بدلے روزے رکھےیا صدقہ دے یا قربانی کرے
اس سلسلہ میں نبیٔ محترم ﷺ نے فر ما یا کہ تین دن کے روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھا نا کھلا ئے یا کم ازکم ایک بکری ذبح کی جا ئے
پھر جب تمہیں امن نصیب ہو جا ئے(اور تم حج کے لیے بہت پہلے مکہ پہنچ جائو) تو جو کوئی حج کے وقت تک عمرہ سے فائدہ اٹھا ئے یعنی حج و عمرہ کا ایک ہی احرام باندھے تو وہ قربانی کے جانور وں میں سے جو بھی قر بانی میسّر ہو کرے۔

توضیح : اگر احرام عمرہ اور حج کا الگ الگ ہو تو حاجی پر قر بانی ضروری نہیں، سوائے کفّارہ کے۔

فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَۃِ اَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ۝۰ۭ

تِلْكَ عَشَرَۃٌ كَامِلَۃٌ۝۰ۭ
ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۱۹۶ۧ

پھر جس کسی کو قر بانی نہ ملے( یا قربانی کی استطا عت نہ ہو)تو اسی وقت (دورانِ حج) تین روزے رکھے اور سات (روزے) جب تم اپنے گھر(وطن) واپس آجا ئو ( تو رکھو)
(اس طرح) یہ پو رے دس ہوئے۔
یہ دس روزے ایک ساتھ نہ رکھنے کی اجازت اُن کے لیے ہے جن کے اہل و عیال مکّہ میں نہ رہتے ہوں۔
اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تے رہو( کہ شرائط حج یا کسی امر کی خلاف ورزی ہونے نہ پا ئے) اور خوب جان لو کہ (خلاف ورزی کی صورت میں) اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔