☰ Surah
☰ Parah

اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ۝۰ۚ
فَمَنْ فَرَضَ فِيْہِنَّ الْحَجَّ

حج کے مہینے مخصوص و معروف ہیں( شوال، ذیقعدہ اور عشرہ ٔ ذی الحجہ۔ محرم رجب) احترام
تو جو کوئی ان مہینوں میں فرا ئض حج کے لیےروانہ ہو جا ئے ۔

فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ۝۰ۙ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ۝۰ۭ

تو اس کو چا ہئیے کہ(زمانہ حج میں یعنی احرام کی حالت میں) اپنی عورتوں سے اختلاط نہ کرے کسی قسم کی فحش گفتگو یا کوئی گناہ اور کسی قسم کا جھگڑا نہ کرے۔
(عام اجتما عات میں ایسی ایسی ہی برا ئیاں کی جاتی ہیں جن سے منع کیا گیا ہے۔)

وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْہُ اللہُ۝۰ۭؔ

اور تم جو بھی نیک کام کرتے رہو گے اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں۔

وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى۝۰ۡ
وَاتَّقُوْنِ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ۝۱۹۷

اور سفر حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جا ئو اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے۔
اور ائے عقل والو(سمجھ بوجھ سے کام لینے والو) مجھ ہی ڈرتے رہو (میرے احکام کی خلاف ورزی نہ کرو)

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۭ

اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرتے جا ئو تو کوئی مضائقہ نہیں ۔

توضیح : حج کے ایام میں قبل اسلام کچھ اسباب ِ تجارت بھی ساتھ رکھ لیے جا تے تھے۔ اسلام کے بعد شبہ ہوا کہ شاید یہ گناہ ہو۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فر ما یا اپنے رب کی رضا کے لیے سفر حج کرتے ہوئے تلاشِ معاش میں تم پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ اگر یہ نیت ہو کہ تجارت کے نفع سے حج میں اعانت ہوگی تو اس کا بھی ثواب ملے گا۔

فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۝۰۠

پھر جب میدانِ عرفات سے واپس ہو نے لگو تو مشعر الحرام( مزدلفہ میں) اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو(یعنی نمازِ مغرب و عشاء ملا کر پڑھو)

وَاذْكُرُوْہُ كَـمَا ھَدٰىكُمْ۝۰ۚ

وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۝۱۹۸

اور اس کو ( اللہ تعالیٰ کو) اس طرح یاد کرو۔ جیسا کہ تم کو (نبیٔ محترم ﷺ) ہدایت دی۔
اور تم اس سے قبل(مناسکِ حج کے تعلق سے) کھلی گمراہی میں تھے (یعنی غلط طریقہ سے ادا کیا کر تے تھے)

توضیح : یہاں ذکر سے مراد نمازہے۔ پھر اس آیت میں ایک اجمالی حکم ہے جس کی عملی شکل متعین نہیں۔ اس کے بجائے حکم ہو رہا ہے کہ جس طرح تم کو ہدایت دی گئی ہے ظاہر ہےکہ یہ ہدایت دینے والے سوا ئے نبیؐ کے اور کون ہوسکتےہیں، اہلِ قرآن کی رد کے لیے یہ آیت کریمہ ایک علمی دلیل ہے۔

ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ

پھر جہاں سے اورلوگ واپس ہو تے ہوں وہیں سےتم بھی واپس ہواکرو۔

توضیح : حا جیوں کے لیے حکم ہے کہ بعد مغرب میدانِ عرفات سے نکل جا ئیں اور نمازِ مغرب و عشاء مقام مشعر الحرام میں ایک ساتھ پڑھیں۔ مشعر الحرام عرفات و منیٰ کے در میان ایک مقام ہے ۔

وَاسْتَغْفِرُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۹۹

اور اللہ تعالیٰ سے بخشش چا ہو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے اور رحم فرمانے والے ہیں۔

توضیح : توبہ واستغفار کے بعد اللہ تعالیٰ کی بخشش ورحمت متعلق ہو تی ہے۔

فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ

پھر جب تم منا سکِ حج سے فارغ ہو جا ئو۔

فَاذْكُرُوا اللہَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا۝۰ۭ

تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو جس طرح تم اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے ہو۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

توضیح : زمانہ ٔ جا ہلیت میں طریقہ تھا کہ جب منا سکِ حج سے فارغ ہو جا تےتو مقامِ منٰی میں ہر قبیلہ اپنے آباء واجداد کے خصوصی کار نامے بیان کرتا تا کہ لوگ اس سے متاثر ہوں اور قبائل کے شرف و بزرگی کا اعتراف کرلیں۔اب یہاں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت واکرام کو بیان کرو تاکہ سننے والوں کے قلوب میں خوفِ الٰہی و حُبّ الٰہی پیدا ہو۔

فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا
وَمَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ۝۲۰۰

لو گوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ائے ہما رے پر ور دگار ہمیں دنیا ہی میں (سب کچھ) دے دیجئے۔
اور ایسے شخص کو آ خرت میں کوئی حصہ نہ ملے گا۔ (کیونکہ یہ آخرت کا منکر ہے )

توضیح : حج سے فارغ ہونے کے بعد جہالت کے زمانے میں لوگ اللہ تعالیٰ سے صرف دنیا ہی کے فوائد مانگتے تھے اور دنیا ہی کے مصائب سے محفوظ رہنے کی دعا ئیں کرتے تھے۔ ایسے طالبانِ دنیا کیلئےسنتِ الٰہی یہ ہے کہ آخرت میں کوئی حصہ نہ پائیں۔

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً
وَّفِي الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝۲۰۱

اوران میں بعض ایسے بھی ہیں جن کی دعا یہ ہوتی ہے ’’ ائے ہمارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نعمت و عافیت عطا کیجئے۔
اور آخرت میں رحمت واحسان سے سر فرازی بخشئے اور ہم کو دوزخ کی آگ سے بچائے رکھیئے۔

اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ نَصِيْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا
وَاللہُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝۲۰۲

یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے نیک اعمال کا بھر پوبدل ملے گا۔
اور اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والے ہیں۔

وَاذْكُرُوا اللہَ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ۝۰ۭ

اور گنتی کے ان چنددنوں میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کرو۔
(یعنی مشعر الحرام سے واپسی پر مقامِ منٰی میں بقیہ منا سکِ حج کے لیے ٹھہر ے رہو۔)

فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۚ
وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۙ لِمَنِ اتَّقٰى۝۰ۭ

وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ۝۲۰۳

پھر جو شخص دو ہی دن میں(مکّہ واپس آنے میں) جلدی کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔

اور جو شخص تاخیر کرے(یعنی دو دن سے زیادہ منٰی میں ٹھہرار ہے( اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ (یہ رعایت( اس شخص کے لیے جو) احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کے انجام سے( ڈرتا ہو ۔(اصل چیز خوفِ الٰہی ہے)
اور اللہ تعالیٰ سےڈر تے رہو( یعنی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی سے بچتے رہو) اور اچھی طرح جان لو کہ تم) اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے( اس کی طرف جمع کیے جائو گے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُہٗ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا

اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جس کی گفتگو(دنیوی اعتبار سے) آپؐ کو بہت ہی بھلی لگتی ہے ۔

وَيُشْہِدُ اللہَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِہٖ۝۰ۙ

اور اپنی نیک نیتی پروہ بار بار اللہ تعالیٰ کوگواہ ٹھہراتا ہے۔
(یعنی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شاہد ہیں۔ مجھے حق وصداقت پسند ہے اس لیے میں مسلمانوں کا بڑا ہی ہمدرد وخیر خواہ ہوں۔ )

وَھُوَاَلَدُّ الْخِصَامِ۝۲۰۴

حالانکہ وہ بڑا ہی جھگڑالو اور آپؐ کا شدید مخالف ہے۔

توضیح :اخنس بن شریق نامی ایک بڑا ہی فصیح اللسان شخص تھا حضوراکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر قسمیں کھا کھا کر اپنا مسلمان ہونا بیان کرتا ۔ اس کی گفتگو محض دنیوی غرض سے ہوتی کہ اپنے اظہار اسلام سے مسلمانوں کی طرح قرب حاصل کرے۔ اس کی فصاحت وبلاغت آمیز باتیں آپؐ کوبھلی معلوم ہوتیں۔ اسی کا ذکر ہے۔

وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ

اورجب یہ (منافق) آپؐ کی مجلس سے پیٹھ پھیر کرچلا جاتا (یا حکمران

لِيُفْسِدَ فِيْہَا

ہوتا ہے( توشہر میں فتنہ وفساد مچاتا پھرتا ہے (لوگوں کی ایذارسانی میں لگ جاتا ہے)

وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۝۰ۭ
وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۝۲۰۵

اورکھیتی ونسل انسانی وحیوانی کی تباہی وبربادی کا باعث بنتا ہے۔
اوراللہ تعالیٰ فساد کوپسند نہیں فرماتے (دین حق کے خلاف جدوجہد فساد فی الارض ہے)

وَاِذَا قِيْلَ لَہُ اتَّقِ اللہَ

اورجب اس سے کہاجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو
(ان مفسدانہ اعمال سے باز آمخلوق خدا کی تباہی کا باعث نہ بن)

اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ

تو وہ گناہ کے ذریعہ عزت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
(یعنی غرور وقار اس کومزید گناہوں میں پھنسا دیتا ہے برائیوں پراور زیادہ جری ہوجاتا ہے اور اپنی مفسدانہ مغرورانہ روش ہی پرقائم رہتا ہے۔

فَحَسْـبُہٗ جَہَنَّمُ۝۰ۭ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ۝۲۰۶

پھر اس کے لئے جہنم کافی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

توضیح : جو لوگ اقتدار کے نشے میں مذہب کی پابندیوں سے بچنے کے لئے لامذہبیت کواپناتے ہیں، مذہب کوتنگ نظری قراردیتے ہیں۔ بے روک ٹوک شہوانی زندگی ہی ان کا مقصد حیات ہوتا ہے۔ ضبط تولید کے دل خوش کن الفاظ سے نسل انسانی کوتباہ کرنا ان کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ اپنے ان نظریات کی حمایت میں یک جہتی یگانگت ایک قومی نظریہ کے بے معنیٰ الفاظ گھڑکر فساد فی الارض کا باعث بنتے ہیں۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَہُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ۝۰ۭ

وَاللہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ۝۲۰۷

اورلوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کوراضی کرنے کے لئے اپنی جان تک قربان کردیتا ہو۔
(رضائے الٰہی کے لئے مفاد دنیا اورضرر دنیا کی پروا نہیں کرتا)
اوراللہ تعالیٰ اپنے بندوں پربڑے ہی مہربان ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠

ائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ

(یعنی مفادِ دنیا کی خاطر احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی نہ کرو۔ تمہارے طوروطریق معاملات ِزندگی سب کے سب اسلام کے تابع ہونے چاہئیں۔)

وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ

اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو یعنی شیطان کی اتباع نہ کرو ۔

(شیطان تمہارے سامنے مفاد دنیا رکھ کر احکام الٰہی کی خلاف ورزی پرتم کوآمادہ کرتا ہے)

اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۲۰۸

بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (اس سے ہر وقت باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔) (کافروں کوبھی شیطان کی طرح مسلمانوں کا کھلادشمن کہا گیا ہے)

فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْكُمُ الْبَيِّنٰتُ
فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۰۹

تمہارے پاس (اس طرح) واضح اورتاکیدی احکام آجانے کے بعد اگر تم لڑکھڑا جاؤ۔
توجان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکمت والے ہیں۔
(یعنی حکیمانہ تجاویز کی خلاف ورزی کے جو نتائج الحکیم نے مقرر کررکھے ہیں وہ اٹل ہیں یقیناً وہ واقع ہوکر رہیں گے)

ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَہُمُ اللہُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ
وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ۝۰ۭ
وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝۲۱۰ۧ

کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ اورفرشتے ان کے پاس بادلوں کے سایہ میں (قطعی فیصلے کے لئے)
آموجود ہوں اوران کا کام تمام کردیں۔
اورسارے معاملات( تصفیہ کے لئے )اللہ تعالیٰ ہی کے پاس پیش کئے جانے والے ہیں۔

توضیح : اگر دنیا میں فوری طورپر عذاب نہ آئے بھی توعذاب ِآخرت سے دو چار ہونا یقینی ہے۔ موت کے ساتھ ہی کسی نہ کسی مقرب ِالٰہی کی سفارش وکوشش سے بخش دیئے جانے کا عقیدہ بے بنیاد ہے۔ قیامت ہوگی اس دن حق تعالیٰ اپنے بندوں کے عقائد واعمال کامحاسبہ فرمائیں گے اور عقائد واعمال کے لحاظ سے جزا وسزا مل کررہے گی۔

سَلْ بَـنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ كَمْ اٰتَيْنٰھُمْ مِّنْ اٰيَۃٍؚبَيِّنَۃٍ۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ) پوچھئے کہ ہم نے ان کوکتنے واضح احکام دیئے تھے(مگر انہوں نے اس کی تعمیل نہیں کی اور ان میں ردوبدل کردیا اورواقعہ یہ ہے کہ)

وَمَنْ يُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُ فَاِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲۱۱

جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نعمت( نعمت ِدین )کوپالینے کے بعد اس میں (اپنی طرف سے) ردو بدل کردے تویقیناً اللہ تعالیٰ ایسے مجرمین کوسخت ترین سزادیتے ہیں۔

زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا
وَيَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۘ

کافروں کیلئے دنیا کی زندگی بڑی ہی دلکش وخوشنما بنادی گئی ہے۔
وہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جوایمان لاتے ہیں۔
(جیسے حضرت بلا لؓ وعمارؓوغیرہ کا)

توضیح :اہلِ باطل دنیا ہی کے طالب وحریص ہوتے ہیں۔ اہلِ حق جب ان دنیا پرستانہ رجحانات کے خلاف اہلِ کفر شرک کو آخرت کی طرف بلاتے ہیں، ان کے سامنے دین حق کوپیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ اس کے سوا جتنے ادیان ہیں باطل ہیں۔ یہ بات ان کے باطل نظریات پرضرب لگاتی ہے تو تلملا جاتے ہیں اور تو کچھ بن نہیں پڑتا اپنے احساس کمتری کو نبھانے اور دین اسلام کی کشش کودبانے ناواقف لوگوں کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں دولت واقتدار کے نشہ میں حقائق سے چشم پوشی کرتے اور حق پرستوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔

وَالَّذِيْنَ اتَّقَوْا فَوْقَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ

اور جو لوگ کفر وشرک سے بچتے ہیں قیامت کے دن ان کافروں پربرتری حاصل کریں گے۔

یعنی اعلی مدارج پرہوںگے اور اونچے اونچے مرصع تختوں پرشاہانہ اعزاز کے ساتھ بیٹھے ہوئے کافروں کے بارے میں پوچھیں گے ھَلْ ثُوِّبَ الْکُفَّارُ مَاکَانُوا یَفْعَلُوْن (سورۃ المطففین)کیا کافروں کوان کے کیے کا بدلہ مل گیا ؟

وَاللہُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝۲۱۲

اوراللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں بے حدوحساب رزق عطا کرتے ہیں۔
(یہاں نیک وبدمومن وکافر کی تخصیص نہیں)

كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۝۰ۣ

)ابتداء میں( سب لوگ ایک ہی مذہب پر تھے (یعنی سب ایک ہی دین کے پیروتھے۔(

توضیح : جوں جوں الٰہی ونبوی تعلیم کوفراموش کرتے گئے گمراہ ہوتے گئے۔ عقائد میں اختلاف پیدا ہوتا گیا مختلف گروہوں وفرقوں میں بٹ گئے۔ خود ساختہ ادیان میں بٹ کریہ عقیدہ پیدا کرلیا گیا کہ ہرطریقہ عبادت میں نجات ہے موجودہ اصطلاح وحدتِ ادیان اسی عقیدے کی پیداوار ہے یعنی سب مذاہب برحق ہیں۔ اسی طرح کے اختلافات دور کرنے کے لیے انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے گئے۔

فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۝۰۠

پس اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کوبھیجا جو (دین حق کے قبول کرنے والوں کو) مغفرت وجنت کی خوشخبری سناتے ہیں اور (منکرین حق کو) غضب الٰہی اورعذاب جہنم سے ڈراتے ہیں۔

توضیح:۔ آخرت ہی کے نفع ونقصان کو سامنے رکھ کر دین کی طرف بلانا انبیائی طریقہ ہے۔

وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ

اور ان کے ساتھ کتابیں نازل کیں جومبنی پر حقائق تھیں۔
(جن میں خالص الٰہی تعلیم تھی)

لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا
اخْتَلَفُوْا فِيْہِ۝۰ۭ
وَمَا اخْتَلَفَ فِيْہِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْہُ

تاکہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے تھے ان میں فیصلہ کردے۔

اوراس میں اختلاف بھی انھیں لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی۔(یہودو نصاریٰ)

مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَہُمْ۝۰ۚ

فَہَدَى اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِہٖ۝۰ۭ

ان کے پاس صاف وصریح احکام آجانے کے بعد اپنی ضد وہٹ دھرمی سے (اوراپنی مذہبی پیشوائی وبرتری کوبرقرار رکھنے کے لیے دین حق سے) اختلاف کیا۔
تو وہ جس امر حق میں اختلاف کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اہل ایمان کوصحیح راہ دکھائی۔

توضیح : جس امر حق میں پچھلے انبیاء کی امتیں یعنی اہل کتاب اختلاف کرتے تھے تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مومنین یعنی (حضراتِ صحابہ کرام) کوبہ واسطۂ نبی محترمﷺ صراط مستقیم دکھائی یعنی اختلاف کوسامنے رکھ کربتایا گیا کہ حق کیا ہے اورباطل کیا ہے۔ آیت کریمہ فَھَدَی اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا….. سے ثابت ہے کہ اختلاف اورگمراہی کے دورمیں جن حضرات کوہدایت دی گئی اورجنہیں سیدھی راہ دکھائی وہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔
اب جہالت اوراختلاف کے ہر دور میں یہ معلوم کرنے کیلئے کہ حق کیا ہے ؟ صحیح ایمان کیا ہے؟ راہِ عدل وصواب کیا ہے؟ سنت کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہی کے عقائد و روش کودیکھنا ہوگا۔ بالفاظ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حق کا نمونہ ہیں۔

وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۲۱۳

اوراللہ تعالیٰ جس کوچاہے ہیں سیدھی راہ دکھاتے ہیں۔

توضیح : جوطالب ہدایت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت کی توفیق بخشتے ہیں اور جوضلالت وگمراہی کوحق سمجھتا ہے، اس کو اسی حال میں چھوڑدیتے ہیں۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ

کیا تم خیال کرتے ہو کہ یوں ہی (بلامشقت) جنت میں داخل کیے جاؤگے۔

وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۝۰ۭ
مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا

تم سے پہلے ایمان لانے والوں پرجومصائب آئے تھے تم ابھی ان حالات سے نہیں گزرے۔
ان پر بڑی مصیبتیں آئیں اورمصائب کے ایسے سخت سے سخت دور آئے کہ انھیں بری طرح ہلا کر رکھ دیا۔

حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللہِ۝۰ۭ
اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِيْبٌ۝۲۱۴

یہاں تک کہ (اس زمانے کے) پیغمبر اور ان کے ساتھی اہل ایمان چِلا اٹھے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد (موعود) کب آئے گی۔
(اس وقت انھیں تسلی دی گئی) ہاں ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔

توضیح : اہل ایمان کوتاکید کی جاتی ہے کہ باطل کے ہنگاموں میں اہل کفر کے غلبے واقتدار کے دور میں حق کی آواز اٹھانے والوں پر بڑی بڑی مصیبتیں آتی رہتی ہیں۔ اہل باطل ان پرہر طرح کا ظلم ڈھاتے ہیں۔ تمہیں بھی ان مصائب سے سابقہ پڑے گا۔ اس امتحان کے دورسے گزرے بغیر تم نہ جنت کے مستحق ہوسکتے ہو اور نہ تائید ونصرت الٰہی تم سے متعلق ہوسکتی ہے۔ حق کی آواز لے کر اٹھنے سرفروشانہ بازی لگانے، جان پر کھیل جانے اورباطل سے ٹکرانے کا بدل جنت ہے۔
بے معرکہ کرتی ہے کیا جینے کی تلافی ائے پیرحرم تیری مناجاتِ سحر کیا (اقبالؔ)

يَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ

قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۭ
وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝۲۱۵

(ائے نبیﷺ) لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ (راہِ حق میں) کس طرح کا مال خرچ کرنا چاہئے ؟
کہئے جو مال تم خرچ کرنا چاہو، اس کے مستحق والدین ہیں اور قریبی رشتہ دار اور یتیم اورمحتاج اور مسافر ہیں۔

اور تم جو بھی بھلائی کروگے بے شک اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں۔ (کہ کس نیت سے خرچ کیے ہو؟)

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَكُرْہٌ لَّكُمْ
وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ۝۰ۚ

(اب) تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تم پہ گراں گزرے گا۔
اورہوسکتا ہے کہ تمہیں ایک چیز ناگوار ہواور وہی تمہارے لیے بہترہو۔

وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـيْـــــًٔـا وَّھُوَشَرٌّ لَّكُمْ
وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۝۲۱۶ۧ

اورہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے مضرہو۔
اوراللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے( کہ تمہارے لیے مفید کیا

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْہِ۝۰ۭ

ہے اور مضر کیا ہے اس لئے اپنی پسند کومعیار نہ بناؤ۔
لوگ آپؐ سے احترام کے مہینے (یعنی حج کے مہینوں میں)
جدال وقتال کی نسبت دریافت کرتے ہیں۔(کہ ان مہینوں میں لڑنا کیسا ہے)

قُلْ قِتَالٌ فِيْہِ كَبِيْرٌ۝۰ۭ
وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَكُفْرٌۢ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۤ

وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۚ
وَالْفِتْنَۃُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۝۰ۭ

کہئے۔ ان مہینوں میں لڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکنا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد الحرام) خانۂ کعبۃ اللہ )میں جانے سے لوگوں کوروکنا، مانع ومزاحم ہونا (یہ سب عظیم گناہ ہیں۔(
اوروہاں کے رہنے والوں کووہاں سے نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قتال سے بھی بڑا سنگین جرم ہے۔
اورفتنہ انگیزی قتل وخون سے بھی بڑھ کر ہے۔

توضیح : اس طرح کے فتنوں کو مٹانے کیلئے حدود حرم میں بھی قتال کی اجازت ہے جب کہ اہل فتن شرارت پر تلے ہوں۔

وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا۝۰ۭ
وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ
فَيَمُتْ وَھُوَكَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ
وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۱۷

اوریہ (اہل کفر اہل باطل) تم سے اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک کہ وہ تم کو دین سے نہ پھیردیں۔ اگر ان کا بس چلے۔

اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے نہ پھرجائے (یعنی پھر کافر ہوجائے)
پھر وہ کفر ہی کی حالت میں مرے توایسے لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت میں ضائع ہوجائیں گے۔

 

اور ایسے لوگ جہنمی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

توضیح:آیات ۲۱۶ اور ۲۱۷ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی نظامِ تہذیب ، نظامِ تعلیم، نظم ونسق، نظام عدل وانصاف کو بدل دینا اہل باطل کے خلاف جدوجہد ترک کردینا انکے زیرسایہ چین واطمینان کی زندگی بسر کرنے پرقانع ہوجانا ارتداد ہی کی شکل ہے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ
ھَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ

(بخلاف اس کے) جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں نے الٰہی تعلیم قبول کرلی) اورجنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں گھر بار چھوڑا یعنی ہجرت

اللہِ۝۰ۙ

اُولٰۗىِٕكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۲۱۸

کی (دین حق کی بقا واشاعت کے لیے گھر سے بے گھر ہوئے) اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جان ومال سے) جدو جہد کی۔
ایسے ہی لوگ رحمت ِالٰہی کے امیدوار ہیں (ان سے دانستہ یا نادانستہ کوئی گناہ ہو بھی جائے تو) اللہ تعالیٰ بڑے ہی معاف کرنے والے اورنہایت رحم کرنے والے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کی نظرمیں ہجرت وجہاد وہ خوبی ہے کہ تمام نقائص کو دور کردیتی ہے اور بندے کوہر خوبی سے آراستہ کردیتی ہے اور ہجرت وجہاد سے گریز وہ خامی ہے جسے کوئی نیکی پُر نہیں کرسکتی۔
نوٹ: جاہل انسان کے مشاغل تفریحی اوران کے ذرائع معاش میں دو چیزیں نمایاں رہتی ہیں ایک شراب دوسرے جوا۔ چنانچہ اہلِ عرب کے یہی خصوصی مشاغل تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺ سے اس کے بارے میں سوال کیا۔

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ۝۰ۭ

قُلْ فِيْہِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۝۰ۡ
وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ) لوگ شراب اورجوے کے بارے میں آپ سے دریافت کرتے ہیں۔
کہئے ان دونوں چیزوں میں بڑی مضرتیں ہیں اگر چہ کہ لوگوں کے لیے (ان میں کچھ دنیاوی) فائدے بھی ہیں۔
مگر ان کی مضرت ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔

توضیح :ابتداء صرف کراہیت پیدا کی گئی تا کہ ذہن ان کی حرمت قبول کرنے تیار ہوجائے۔

وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۝۰ۭ

اورآپؐ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔ کہئے۔ جو ضرورت سے زیادہ ہو (یعنی حقیقی ضروریات زندگی سے جو بچ رہے وہ خرچ کیا جاسکتا ہے۔)

كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ۝۲۱۹ۙ فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۭ 

اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے وضاحت کے ساتھ اپنے احکام بیان فرماتے ہیں تا کہ تم دنیا وآخرت کے معاملے میں غور وفکر سے کام لو۔

توضیح : دنیا کے امور اس طرح انجام دو کہ آخرت کا نقصان نہ ہو اور آخرت کے بارے میں اتنا غلو نہ کروکہ دنیا کے فرائض اور واجبات چھوٹ جائیں۔

وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي۝۰ۭ

قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ۝۰ۭ

اور لوگ آپؐ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ ان سے کس طرح کا معاملہ کیا جانا چاہئے۔)
کہئے ان کی اصلاح (ان کی تعلیم وتربیت) میں (تمہارے لئے) خیر ہی خیر ہے۔

توضیح : جہالت کے دنوں میں انسان اپنے بے سہارا لوگوں اوریتیم بچوں سے بے اعتنائی برتتا تھا، شرافت وانسانیت کی تعلیم پانے کے بعد ان کے متعلق بھی سوال کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ چنانچہ اس سوال کے جواب میں مذکورہ حکم دیا گیا۔

وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ۝۰ۭ

 

وَاللہُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ۝۰ۭ

وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَاَعْنَتَكُمْ۝۰ۭ

اور اگر تم ان سے مل جل کر رہنا چاہو تو(ایسا کرسکتے ہو)
بہر حال وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔
(تم کواختیار ہے کہ کھانے پینے میں انکو اپنے سے علیحدہ رکھو، یا مل جل کر کھاؤ)
اور اللہ تعالیٰ مفسد اورمصلح کو خوب جانتے ہیں۔
( کہ کون بد نیتی سے کام لیتا ہے اور کون یتیموں کا خیر خواہ ہے)
اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو تم مشکل میں پڑجاتے۔

توضیح : یتیموں کوعلیحدہ رکھنے کے بارے میں تم کوحکم دیا جاتا تو یہ حکم تم پرشاق گزرتا۔

اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۲۰

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکیم ہیں (یعنی تجاویز الٰہی بہت حکیمانہ ہوتی ہیں)

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۝۰ۭ

(اصلاح معاشرے کے لیے اہل ایمان کوحکم دیا گیا ہے) تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ (یعنی اپنے عقائد کی اصلاح نہ کرلیں۔)

وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۝۰ۚ

مسلمان باندی مشرک (شریف زادیوں سے کہیں)سے زیادہ بہتر ہے۔ اگر چہ کہ وہ تمہیں (حسن ودولت کے اعتبار سے) کتنی ہی بھلی کیوں نہ معلوم ہوتی ہوں۔

وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا۝۰ۭ
وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ۝۰ۭ
اُولٰۗىِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ۝۰ۚۖ

اور (اسی طرح) مشرکانہ عقیدہ رکھنے والے مردوں سے مومنہ عورتوں کا نکاح نہ کرو۔ جب تک کہ وہ صحیح معنوں میں ایمان نہ لے آئیں۔
اور مومن غلام بہتر ہے مشرک مال دار سے اگر چہ کہ مشرک (کئی لحاظ سے) تمہیں اچھا ہی کیوں نہ معلوم ہوتا ہو یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں۔

توضیح : وہ اپنی طرح تم کوبھی اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور آگ کی طرف بلاتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کوشریک حیات بنانے سے منع کیا گیا ہے۔

وَاللہُ يَدْعُوْٓا اِلَى الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِـاِذْنِہٖ۝۰ۚ
وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَــتَذَكَّرُوْنَ۝۲۲۱ۧ

اوراللہ تعالیٰ (مشرکین سے نکاح نہ کرنے کی تجویز فرماکر) اپنی مہربانی سے جنت ومغفرت کی طرف بلاتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ اپنے احکام لوگوں کی ہدایت کے لیے نہایت ہی وضاحت کے ساتھ بیان فرماتے ہیں تا کہ وہ نصیحت پذیر ہوں (اور الٰہی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کریں)

توضیح : اللہ تعالیٰ کی دعوت اصلاح اورتعلیم کا تمام تر مقصد یہ ہے کہ تمام انسان مغفرت جنت ودرجاتِ جنت کے مستحق بنیں۔

وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ۝۰ۭ قُلْ ھُوَاَذًى۝۰ۙ

اورلوگ آپؐ سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہئے وہ ایک گندگی کی حالت ہے۔
(کہ زمانہ حیض میں عورتوں کے ساتھ کس طرح رہنا چاہئیے)

فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْضِ۝۰ۙ

لہٰذا زمانہ حیض میں ان سے الگ رہو۔

وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَطْہُرْنَ۝۰ۚ

اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت (مباشرت )نہ کرو۔

فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللہُ۝۰ۭ

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِيْنَ۝۲۲۲

پھر جب وہ پاک ہوجائیں توحکم الٰہی کے مطابق ان سے مقاربت کرو(یعنی وضع فطری کے مطابق جوانسان وحیوان کی جبلت (فطرت) ہیں ودیعت کردیا گیا ہے جس سے ہرمتنفس با لطبع واقف ہے۔)
بے شک اللہ تعالیٰ(گناہوں سے) توبہ کرنے والوں کوپسند فرماتے ہیں اور پاک وصاف رہنے والوں کودوست رکھتےہیں۔

توضیح:۔ اتفاقا ًبے احتیاطی میں کسی نے اس حالت میں قربت کی ہو توواقف ہونے پر توبہ کرلے۔

نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ۝۰۠ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ۝۰ۡ

تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں (تمہیں اختیار ہے) اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ۔
(یعنی کھیتی میں جس طرح چاہو تخم ریزی کرو۔ مگر مقصد تخم ریزی ہی ہو)

توضیح : عورت ومرد کے درمیان کھیت اورکسان کا سا تعلق ہے کسان کا مقصد پیداوار حاصل کرنا ہوتا ہے ایسے کسان کو کیا کہیں گے جو اپنی کھیتی کو اپنے ہی ہاتھوں تلف کردے۔ شایداس سے بڑھ کر بے وقوفی نہیں ہوسکتی۔ آج ضبط تولید کے نام سے یہی کچھ ہورہا ہے۔ بے دین کوآخرت کی سوجھ بوجھ (عقل) نہیں ہوتی۔ اگر چہ کہ وہ ستاروں کی گزرگاہوں کا پتہ چلانے والا ہی کیوں نہ ہو۔ ابدی عیش وسکھ کی جگہ چھوڑکر ابدی دکھ جہنم کی سوز وتپش والی زندگی بے دین کے سوا کون چاہتا ہے۔

وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ

اور اپنے لئے (نیک عمل ) آگے بھیجو(اور اپنے مستقبل کی فکرکرو۔ یعنی اپنی ذات کے لیے جوبھی نیک کام کرنا ہے، اپنی زندگی میں کرلو یعنی آخرت کے لیے)

توضیح : اپنی نسل کواپنی جگہ برقرار رکھنا اور اس کو دیندار بنانے کی کوشش بھی اسی میں داخل ہے۔

وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْہُ۝۰ۭ

اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو(یعنی اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بچتے رہو) اور اچھی طرح جان لو کہ تم سب اس سے ملنے والے ہو (یعنی تم سب کو ایک دن محاسبہ اعمال کے لیے اسی کے روبروحاضر ہونا ہے۔)

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۲۲۳

اور(ائے نبیﷺ) ایمان والوں کوخوشخبری سنادیجئے۔
(کہ جنت ودرجاتِ جنت آخرت کی سعادت انھیں کے لئے ہے)
(مغفرت وجنت مشروط بہ طاعت الٰہی ہے)

وَلَا تَجْعَلُوا اللہَ عُرْضَۃً لِّاَيْمَانِكُمْ

اَنْ تَبَرُّوْا وَتَـتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۭ

اور تم اللہ تعالیٰ کواپنی قسموں کے ذریعہ نیک کاموں کوترک کرنے کا حیلہ نہ بناؤ۔(یعنی اچھے کاموں کوچھوڑدینے کے لیے اللہ تعالیٰ کی قسمیں نہ کھایا کرو)
کہ احسان کرنے سے اور پرہیزگاری سے اور لوگوں میں صلح کرانے سے رک جاؤ۔

وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۲۴

)یہ قسم کہ تم کسی پر احسان نہ کروگے اور پرہیزگاری نہ اختیار کروگے۔ اورلوگوں کے درمیان صلح وآشتی بھی نہ کرواؤگے۔(
اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتے اور جانتے ہیں۔

توضیح :بعض وقت انسان غصہ میں کوئی نیک کام نہ کرنے کی قسم کھاتا ہے اس سے منع کیا گیا ہے۔ ایسی قسم توڑدینی چاہئے اورکفارہ دینا چاہئے۔

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ

اللہ تعالیٰ تمہاری بیہودہ قسموں پر مواخذہ نہیں فرماتے (یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہی توہے)

توضیح : لغو اور بیہودہ قسم وہ ہے جو بے مقصد بے ارادہ تکیۂ کلام کے طورپر زبان سے نکل جائے۔ جیسے بعض لوگ واللہ باللہ وغیرہ کہتے رہتے ہیں۔

وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ۝۰ۭ
وَاللہُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝۲۲۵
لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ۝۰ۚ

لیکن تم پر گرفت (ان قسموں پر) ہوگی جو قلبی ارادے کے ساتھ کھائی جائے (کسب کا تعلق میلان سے ہے)
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے ہیں، حلیم ہیں۔تحمل کرنے والے ہیں۔
ان لوگوں کے لیے جواپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھالیں تو ان کو چارمہینوں تک انتظار کرنا چاہئے۔

توضیح : چار ماہ سے زیادہ بیوی سے علیحدہ نہ رہنا چاہئے۔ یا تواس اثناء میں ازدواجی تعلقات درست کرلیے جائیں یا بدرجہ مجبوری منقطع بھی کیے جاسکتے ہیں۔

فَاِنْ فَاۗءُوْ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۲۲۶

پھر اگر (قسم توڑکرچار ماہ کے اندر )رجوع کرلیں تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں۔ مہربانی فرمانے والے ہیں۔

عفوودرگزراللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضہ ہے۔ ترکِ تعلقات کے درمیان جوزیادتی دونوں نے ایک دوسرے پر کی ہے، معاف ودرگزرفرمائیں گے لیکن قسم توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا۔

وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۲۷

اگر طلاق کا ارادہ کرلیں تو(چار ماہ کے بعد طلاق ہوجائے گی) چنانچہ اللہ تعالیٰ سننے والے اورجاننے والے ہیں (لہٰذا جو بھی کام کروسوچ سمجھ کر کرو۔ کہ پرسش اعمال ضرور ہے)

وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْۗءٍ۝۰ۭ
وَلَا يَحِلُّ لَہُنَّ اَنْ يَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللہُ فِيْٓ اَرْحَامِہِنَّ
اِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ

اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کوروکے رکھیں(یعنی اس مدت میں نکاح ثانی نہ کریں)
اور انھیں جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان کے پیٹ میں پیدا کیا ہے اس کوچھپائے رکھیں۔
اگر وہ اللہ تعالیٰ اورآخرت پرایمان رکھتی ہوں۔

توضیح : اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ ورسول کے احکامات کی خلاف ورزی دراصل ایمان باللہ اورایمان بالآخرت میں نقص کی علامت ہے۔

وَبُعُوْلَــتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِيْ ذٰلِكَ

اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا۝۰ۭ
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰۠
وَلِلرِّجَالِ عَلَيْہِنَّ دَرَجَۃٌ۝۰ۭ

اوران کے شوہر(ایک یا دو طلاق کے بعد)اندرون مدت پھر انھیں اپنی زوجیت میں لینے کے حق دار ہیں۔
اگر انھیں آپس کے تعلقات کی اصلاح مقصود ہو۔
اوران عورتوں کا حق مردوں پر ایسا ہی ہے جیسا معروف طریقے پر مردوں کا حق عورتوں پر ہے۔
اورمرد کو عورتوں پرایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔

(اس لحاظ سے کہ مرد اپنے اختیار سے علیحدہ ہوسکتا ہے اور عورت قاضی سے اجازت لیے بغیر علیحدہ نہیں ہوسکتی۔)

وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۲۸ۧ

اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکمت والے ہیں۔
(یعنی یہ کہ یہ ایک حکیم کا حکیمانہ حکم ہے)

توضیح : مرد کو یہ جو درجہ دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک حکیمانہ تجویز ہے جس میں چوں چرا کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ الحکیم ہیں اور ساری مخلوق غیر حکیم۔ غیر حکیم کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ تجاویز پر اعتراض کرے۔