☰ Surah
☰ Parah

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۝۰۠

طلاق صرف دوبار ہے۔

توضیح : جو شخص اپنی منکوحہ کودومرتبہ طلاق دے کر اس کو رجوع کیا ہو، وہ اپنی عمر بھر میں جب کبھی تیسری بار طلاق دے گا تو وہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائے گی۔

فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۭ

لہٰذا (دوطلاقوں کے بعد) یا توبیوی کومعروف طریقے پر اپنی زوجیت میں رکھے یا بہتر یا احسن طریقے سے (اذیت رسانی کے بغیر) علیحدہ کردے۔

وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا
اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ۝۰ۭ

اور (بوقت علیحدگی) تمہارے لیے قطعاً حلال نہیں ہے کہ تم عورتوں کو جو کچھ مال واسباب دے چکے ہو، وہ ان سے واپس لو۔
سوائے اس کے کہ زن وشوکو یہ اندیشہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے (یعنی مفروضہ احکام کی پابندی نہ کرسکیں گے)

فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ۝۰ۙ
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِہٖ۝۰ۭ

لہٰذا اگر تم کو اندیشہ غالب ہو کہ حدود اللہ کی پابندی نہ کرسکوگے۔
توان دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ عورت شوہر کوکچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرے۔(اس کو شریعت میں خلع کہتے ہیں لیکن مرد کے دل میں قطعی ایسا خیال نہ پیدا ہونا چاہئے کہ اس کی بیوی کچھ دے کر علیحدگی حاصل کرے بلکہ اس کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ وہ خود مہر دے کر معروف طریقے پرعلیحدگی اختیار کرے گا)

تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا۝۰ۚ

یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حدود ہیں۔ خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا۔

وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۲۹

اور جو کوئی حدود اللہ سے باہر نکل جائے ایسے ہی لوگ ظالم ہیں (یعنی اپنا آپ نقصان کرتے ہیں)

توضیح : احکام الٰہی کی خلاف ورزی بھی ظلم ہے اورایمان کی خرابی کی علامت ہے۔

فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَہٗ۝۰ۭ

فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ
اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ۝۰ۭ
وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝۲۳۰

پھر اگر شوہر دو طلاقوں کے بعد اس کو تیسری طلاق دے دے تواس کے بعد جب تک کہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس کے پہلے شوہر پرحلال نہ ہوگی۔
ہاں اگر دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے تواب (یہ عورت شرعی اصطلاح میں حلالہ کہلاتی ہے) یہ عورت اورپہلا شوہر پھرایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں توان پر کچھ گناہ نہیں۔
بہ شرطیکہ طرفین کویقین ہو کہ حدود اللہ کی حفاظت کرسکیں گے۔
اور یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ سمجھ داروں کے لیے بیان فرماتے ہیں۔ (سمجھ دار وہ ہیں جو حدود الٰہی کوتوڑے کا انجام جانتے ہیں)

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ
فَاَمْسِكُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ
اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ۝۰۠
وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا۝۰ۚ
وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۝۰ۭ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اللہِ ھُزُوًا۝۰ۡ

اور جب تم عورتوں کودو دفعہ طلاق دے چکو پھر وہ اپنی عدت پوری کرچکیں (تودوگواہوں کے سامنے رجوع کروایا )۔
توانھیں حسن سلوک کے ساتھ نکاح میں رہنے دو۔
یا پھر انھیں معروف طریقے پر (کچھ دے دلا کر) رخصت کردو۔
اورنہ اس نیت سے انھیں نکاح میں روک رکھو کہ انھیں تکلیف دو اوران پر زیادتی کرو۔
اورجو کوئی ایسا کرے گا وہ اپنا نقصان آپ کرے گا۔
اور احکامات الٰہی کومذاق نہ بناؤ(یعنی ناقدری نہ کرو)

توضیح : کوئی شخص اپنی بیوی کوطلاق دے اور عدت گزرنے سے پہلے محض اس لیے رجوع کرے کہ پھر ستانے دکھ دینے کا موقع ہاتھ لگے اس طرح کا عمل احکام الٰہی کو خاطر میں نہ لانے اور بے وقعت سمجھنے کے مصداق ہے جس سے احتیاط ضروری ہے۔

وَّاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَۃِ يَعِظُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۲۳۱ۧ
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ
فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ
اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ
ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِہٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ

اوراللہ تعالیٰ نے تم کو جونعمتیں بخشی ہیں انھیں مستحضر رکھو۔
اور تم پر جو کتاب اوردانائی کی تعلیم نازل کی ہے جس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے(اس کے مطابق عمل پیرا رہو)
اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ اورجان لو کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز سے واقف ہیں۔
اور جب تم اپنی عورتوں کوطلاق دے چکو پھر وہ اپنی مدت پوری کرلیں۔
پھر (اپنی پسند کے مردوں یا بعد حلالہ) سابقہ شوہروں سے نکاح کرنا چاہیں توانھیں نہ روکو۔
جب کہ وہ معروف طریقے پرآپس میں رضا مند ہوجائیں۔
اس طرح اس شخص کونصیحت کی جاتی ہے تم میں سے ایمان باللہ اور ایمان

يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ
ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْہَرُ۝۰ۭ

وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۲۳۲

بالآخرت پر (الٰہی ونبوی تعلیم کے مطابق) یقین رکھتا ہو۔
ان ہدایات الٰہی کی تعمیل میں تمہارے لیے تزکیۂ نفس وتطہیر قلب کا سامان ہے۔
اوراللہ تعالیٰ علیم ہیں(معاشرے کی خوبیوں کو) جانتے ہیں اورتم نہیں جانتے ( کہ حسن معاشرت کیا ہے)

توضیح : یہاں عورتوں کے اولیاء کوحکم ہے کہ عورتوں کے نکاح میں ان کی مرضیات کوملحوظ رکھیں۔

وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ

اورمائیں اپنے بچوں کوپورے دو سال دودھ پلائیں۔

حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ

(کامل دو سال سے یہ مراد نہیں ہے کہ یہ مدت دوسال سے کم نہیں کی جاسکتی بلکہ دو سال سے زیادہ نہ ہو)

لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَۃَ۝۰ۭ
وَعَلَي الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَكِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ
لَاتُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَہَا۝۰

لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ۝۰ۤۚ

یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔
اور جس کا بچہ ہے یعنی باپ اس پر لازم ہے کہ رضاعت کے دوران ان عورتوں کودستور کے مطابق کھانا کپڑا دے کسی شخص کواس کی برداشت سے زیادہ تکلیف دہ حکم نہیں دیاجاتا (یعنی کوئی شخص اپنی برداشت سے زیادہ مکلف نہیں ہے)
نہ توماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے۔
اورنہ باپ کواس کی اولاد کی وجہ۔

توضیح : ماں کو نہ چاہئے کہ بچہ کے باپ پردباؤ ڈالے کہ حیثیت سے زیادہ نان ونفقہ کا انتظام کرے۔

وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ۝۰ۚ
فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِمَا۝۰ۭ
وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ

اوراسی طرح(نان ونفقہ) بچے کے وارث کے ذمہ ہے۔
اگر دونوں ماں باپ آپس کی رضامندی سےبچے کا دودھ( اندرونِ مدت) چھڑانا چاہیں توچھڑا سکتے ہیں۔
تودونوں پر کسی قسم کا گناہ نہیں ہے۔
اگر تم اپنے بچوں کودوسری عورتوں( اناؤں کا) دودھ پلوانا چاہو۔

فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ

تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ طے شدہ معاوضہ ٹھیک ٹھیک ادا کیا کرو۔

وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۲۳۳

اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس بات کواچھی طرح جان لو کہ تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں (یعنی تمہارے سب اعمال اللہ تعالیٰ کی نظروں میں ہیں)

وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ
وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا

اور تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور اپنی بیویاں چھوڑجائیں۔

يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا۝۰ۚ
فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝۲۳۴

تو وہ عورتیں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو روکے رکھیں (یعنی اس مدت میں نکاح نہ کریں)
پھر جب یہ اپنی مدت پوری کرچکیں۔
تو کچھ گناہ نہیں ہے کہ وہ عورتیں اپنے نفس کے معاملے میں معروف طریقے سے (نکاح کرلیں)کام لے۔(تم پراس کی کوئی ذمہ داری نہیں)
اوراللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہیں۔

توضیح :یہ عدت اس بیوہ کی ہے جس کو حمل نہ ہو۔ اور اگر حمل ہو تووضع حمل اس کی عدت ہے۔ یہ مسئلہ سورۂ طلاق میں ہے۔ جس کا شوہر مرجائے اس کو عدت کے اندر خوشبو لگانا، سنگھارکرنا، سرمہ اور تیل لگانا، مہندی لگانا، رنگین کپڑے پہننا ،رات میں دوسرے کے گھر رہنا درست نہیں۔

وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِـيْمَا عَرَّضْتُمْ بِہٖ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَاۗءِ

اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ
عَلِمَ اللہُ اَنَّكُمْ سَتَذْكُرُوْنَہُنَّ

اور(اگر کوئی عورت بیوہ ہوجائے) تم اشارۃً یا کنایتاً اس کو نکاح کا پیام دینا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔

یا (نکاح کی خواہش کو) اپنے دلوں میں (ختم عدت تک)چھپائے رکھو۔
اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ تم ان عورتوں سے نکاح کا تذکرہ کیے بغیر نہ رہ سکوگے (یعنی ختم عدت تک اس ارادے کوچھپانہ سکوگے)

وَلٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا

لیکن (ایام عدت میں) پوشیدہ طورپر ان سے کوئی قول وقرار نہ کرنا۔

اِلَّآ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝۰ۥۭ وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّكَاحِ حَتّٰي يَبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَہٗ۝۰ۭ

البتہ احسن طریقہ سے (ان پر) اپنا ارادہ ظاہر کرسکتے ہو۔
اورجب تک عدت پوری نہ ہوجائے عقد نکاح کا ارادہ نہ کرو۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِىْٓ اَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوْہُ۝۰ۚ

اور اچھی طرح جان لوکہ جو کچھ تمہارے دلو ںمیں ہے اللہ تعالیٰ جانتے ہیں (تمہارے قلبی احوال سے با خبر ہیں)

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝۲۳۵ۧ

لہٰذا اس سے ڈرتے رہو۔ (مرضیات الٰہی کی خلاف ورزی کے انجام بد سے ڈرتے رہو)
اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے حلیم ہیں۔

توضیح : اپنے نیک بندوں کی بعض معمولی وبیجا باتوں کواپنی مہربانی سے گوارہ بھی فرمالیتے ہیں، فوری گرفت نہیں فرماتے۔

لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْھُنَّ
اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِيْضَۃً۝۰ۚۖ
وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۝۰ۚ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ

وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۝۰ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ

(عقد نکاح کے بعد) عورتوں کو ہاتھ لگانے سے قبل اگر طلاق دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔
یا تم نے ان کیلئے کوئی مہر مقرر نہ کیا ہو تو( تم پر مہر کا مواخذہ نہیں ہے)
اور احسن طریق پر انھیں کسی قدر مال ومنال سے بھی فائدہ پہنچاؤ۔
صاحب استطاعت کو اپنی مقدور کے مطابق
اور تنگ دست کواپنی حیثیت کے لحاظ سے۔

توضیح : رشتہ جوڑنے کے بعد توڑدینے سے عورت کا کچھ نہ کچھ نقصان ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حسب مقدور اس کی تلافی کردینے کا حکم فرمایا۔

حَقًّا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ۝۲۳۶

نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے۔

وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ
وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِيْضَۃً

اور اگر تم انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دو۔
(یعنی خلوت صحیحہ سے قبل)
اور تم نے ان کا مہر مقرر کیا ہو تو(اصل صورت میں) نصف مہردینا ہوگا۔

فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ يَّعْفُوْنَ
اَوْ يَعْفُوَا الَّذِيْ بِيَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّكَاحِ۝۰ۭ

ہاں اگر عورتیں اپنا مہر بخش دیں۔
یا مرد جن کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے۔
(نکاح توڑنے یا باقی رکھنے کا اختیار ہے) )اپنا حق( چھوڑدیں (یا پورا مہردے دیں، انھیں اختیار ہے۔)

وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۭ
وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ

اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۲۳۷

اور اگر تم اپنا حق چھوڑدو تو تمہارا(یہ عمل) تقوے سے زیادہ قریب ہے۔
اور آپس میں ایک دوسرے پر فضل واحسان کرنا نہ بھولو۔ (فیاضی سے کام لو)
جو کچھ تم کررہے ہو یقیناً اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں۔
(جیسے اعمال ہوں گے ویسی جزا ملے گی)

توضیح : آیاتِ ما سبق میں معاشرے کی خوشگوار زندگی کے لیے جن فطری اصطلاحات کی ضرورت تھی خالق فطرت نے اس کی تکمیل فرمادی جس کی تعمیل اہل ایمان پر فرض ہے۔ ان فرائض کی بجا آوری کیلئے ایک ایسا اہم اور بنیادی فریضہ تجویز فرمایا گیا ہے جس سے معاشرے کی ساری برائیاں دور ہوسکتی ہیں۔ بندگی کا شعور اوریوم الدین کا استحضار قائم رکھنے کے لیے حکم دیا گیا۔

حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰى۝۰ۤ

نمازوں کی حفاظت کرو با لخصوص (اس نماز کی جو تمہارے کاروبار کے درمیان آجائے)بیچ کی نماز۔

توضیح : صلوۃ الوسطیٰ کا اطلاق ہر اس نماز پرہوتا ہے جو مصروفیات کی وجہ بروقت پڑھی نہ جاسکے۔ یا وقت کی تنگی کی وجہ خضوع وخشوع کے ساتھ ادا نہ کی جاسکے یا وقت گزرنے سے قضا ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ ان نمازوں کی ادائی کیلئے یہ خصوصی ہدایت ہے۔

وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِيْنَ۝۲۳۸

اوراللہ تعالیٰ کے آگے عاجزانہ انداز میں کھڑے رہو۔
(یعنی ادب واحترام کے ساتھ نماز پڑھا کرو)

فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا۝۰ۚ

پھر اگر تم کو کسی طرح کا اندیشہ لاحق ہو تو پیدل، کھڑے کھڑے یا سواری پرنماز پڑھ لیا کرو(خوف یا بدامنی کی حالت میں)

فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللہَ كَـمَا

پھر جب تم مطمئن ہوجاؤ (یعنی خوف کی حالت جاتی رہے) تو اللہ تعالیٰ کو

عَلَّمَكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۝۲۳۹

اس طرح یاد کروجیسا کہ تم کوسکھایا گیا ہے جس کو تم جانتے نہ تھے۔

توضیح : ذکر اللہ کا جہاں جہاں بیان آیا ہے وہاں اکثر نماز ہی مراد ہے۔

وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ

اور جو لوگ تم سے وفات پا جاتے ہیں۔

اَزْوَاجًا۝۰ۚۖ

اوراپنی بیویاں چھوڑجاتے ہیں۔

وَّصِيَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ۝۰ۚ
فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْ مَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ۝۰ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۴۰

وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کرجائیں کہ انھیں گھر سے نکالے بغیر ایک سال تک نان ونفقہ دیا جائے۔

پھر ایک سال کے اندر وہ عورتیں خود چلی جائیں اوراپنے نکاح کا موزوں طریقے پر انتظام کرلیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔
اور اللہ تعالیٰ زبردست حکیم ہیں۔

توضیح : زبردست حکیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے نتائج کا وقوع بالکل اٹل ہے۔ یعنی تعمیل حکم کا جوثمرہ ہے وہ مل کررہے گا اور عدم تعمیل کی صورت میں جونقصان مقررہ ہے وہ پہنچ کررہے گا۔ نیز معاشرے میں بیوہ یا مطلقہ کا نکاح نزولِ قرآن سے قبل مذموم سمجھاجاتا تھا۔سمجھایا گیا کہ یہ طریقہ معیوب نہیں ہے بلکہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔

وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ

حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ۝۲۴۱

اورمطلقہ عورتوں کوبھی دستور کے مطابق بہ طریق احسن کچھ دے دلا کر رخصت کرنا چاہئے۔
متقین پریہ ایک اخلاقی فریضہ ہے۔

توضیح :متقین کا اطلاق انھیں پر ہوتا ہے جن کے عقیدے میں شرک نہ ہو اور جن کاموں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اس سے بچتے ہوں۔

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۲۴۲ۧ

اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے احکام تمہارے لیے نہایت ہی وضاحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے تا کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو(اور نافرمانی کے انجام بد سے بچو)
جدال قتال فرض کیا گیا تویہ حکم بعض اہل ایمان پرگراں گزرا اس لیے اسی مناسبت سے ایک واقعہ بیان فرمایا گیا۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ

کیا آپؐ نے ان لوگوں کے حال پر غور نہیں کیا جو (شہر میں وبا پھیلنے کی وجہ) موت کے خوف سے (موت سے بچنے کے لیے) اپنے گھروں سے نکل گئے ( اور جنگل میں جا ٹھہرے)

وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۝۰۠
فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوْتُوْا۝۰ۣ ثُمَّ اَحْيَاھُمْ۝۰ۭ

 

اِنَّ اللہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ۝۲۴۳

حالانکہ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں فرمایا مرجاؤ (مرگئے)
کچھ دنوں بعد پھر انھیں زندہ کردیا گیا۔
یہ دکھانے کے لیے کہ موت اپنے وقت پر آکر رہے گی۔گھروں میں چھپے بیٹھے رہو یا کہیں بھاگ نکلو۔ پھر تم موت سے کیوں گھبراتے ہو۔ جہاد سے کیوں جی چراتے ہو؟
بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی فضل فرماتے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ کا ہرحکم بندوں کے لیے نہایت حکیمانہ اور موجب رحمت ہوتا ہے) لیکن اکثر لوگ (نہیں سمجھتے) ناشکری کرتے ہیں۔

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۴۴

اوراللہ تعالیٰ کی راہ میں (مخالفین اسلام سے) لڑو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں تمہاری مدد کریں گے)

مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا

کون شخص ہے جواللہ تعالیٰ کوقرض دے۔قرض حسنہ (ایسا قرض جوخالص نیکی کے جذبے کے تحت راہ خدا میں دیا جائے)

فَيُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَۃً۝۰ۭ

 

وَاللہُ يَـقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ۝۰۠

پھر اللہ تعالیٰ اس کے اجروثواب کوکئی گناہ بڑھا کرعطا کریں گے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک خرما (کھجور) اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا جائے تواللہ تعالیٰ اس کواتنا بڑھاتے ہیں کہ وہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے (کوہ احد مدینہ میں ہے)
اوراللہ تعالیٰ ہی کمی کرتے ہیں یا فراخی بخشتے ہیں۔
(یعنی گھٹانا بڑھانا، تنگی وفراخی اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تم بہت کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے فراخی ہی رکھیں اور لاکھ بچا بچا کررکھو کوئی آفت آجائے۔ اور کوڑی کوڑی کومحتاج ہوجاؤ۔ لہٰذا انفاق فی سبیل اللہ کے موقع پر تم اپنا ہاتھ کشادہ رکھو۔ خرچ کرنے کے موقع پریہ نہ سمجھو کہ مفلس ہوجاؤگے(تنگی وفراخی کا یہ خیال عبث ہے)

وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۴۵

اورتم (جزائے اعمال کے لیے) اسی کی طرف لوٹ کرجاؤگے۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى۝۰ۘ

(ائے نبیﷺ) کیا آپؐ نے (اس معرکۂ حق وباطل پر) غور نہیں کیا جو موسیٰ ؑ کے بعد سرداران بنی اسرائیل کوپیش آیا۔

اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ قَالَ ھَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا۝۰ۭ قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ
وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَاۗىِٕنَا۝۰ۭ
فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقِتَالُ

جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے تا کہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔
پیغمبر نے کہا۔ اگر تم پر قتال(جہاد) فرض کردیا جائے تواس بات کا احتمال ہے کہ تم لڑنے سے انکار کردو۔
انہوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں کیوں نہ لڑیں گے۔

جب کہ ہم اپنی بستیوں سے نکالے گئے اور اپنے بال بچوں سے جدا کیے گئے۔
پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گا توچند اشخاص کے سوا سب پھر گئے۔

تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْہُمْ۝۰ۭ
وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِـمِيْنَ۝۲۴۶

اوراللہ تعالیٰ ظالموں کوخوب جانتے ہیں۔(جوفریضۂ قتال سے جی چراتے ہیں)

وَقَالَ لَہُمْ نَبِيُّہُمْ

اور( جولوگ قتال کے لیے تیار ہوئے) ان سے انکے نبی نے کہا۔

اِنَّ اللہَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا۝۰ۭ
قَالُوْٓا اَنّٰى يَكُوْنُ لَہُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا

اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے طالوت کوبادشاہ مقرر فرمایا ہے۔
توان لوگوں نے (بڑے ہی تعجب سے) کہا( کہ طالوت کوامیر فوج کس لیے مقرر کیا گیا)کیوں کر اس کی ہم پر حکومت ہوسکتی ہے۔
انھیں حکمرانی کا حق کیوں کرحاصل ہوسکتا ہے۔

وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْہُ
وَلَمْ يُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ۝۰ۭ

اور ہم حکمرانی میں ان سے زیادہ اہل ہیں۔
اور طالوت صاحب ثروت بھی نہیں ہیں۔

قَالَ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىہُ عَلَيْكُمْ

وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ۝۰ۭ

پیغمبر نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس کو تم پرفضیلت بخشی ہے (یہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے)
اور اس کوعلمی فضیلت بخشی اورجسمانی لحاظ سے توانا وتندرست رکھا۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے نزدیک سرداری کیلئےسب سے اہم صفت صاحب علم ہونا اور توانا وتندرست ہونا ہے طالوت میں یہ صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ کسی کوامیر یا سردار بنانا ہو تو اس کی علمی ودماغی اورجسمانی صلاحیتوں کوبھی دیکھنا ہے۔

وَاللہُ يُؤْتِيْ مُلْكَہٗ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۲۴۷
وَقَالَ لَہُمْ نَبِيُّہُمْ اِنَّ اٰيَۃَ مُلْكِہٖٓ

اَنْ يَّاْتِــيَكُمُ التَّابُوْتُ فِيْہِ سَكِيْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ
وَبَقِيَّۃٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَاٰلُ ھٰرُوْنَ
تَحْمِلُہُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ جس کو قابل سمجھتے ہیں بادشاہت عطا کرتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی واسع العلم ہیں (جانتے ہیں کہ کون کس قابل ہے)
اوران کے نبی نے ان سے کہا ان کے (منجانب اللہ) فرمانروا ہونے کی نشانی یہ ہے کہ
تمہارے پاس ایک صندوق آئیگا۔ جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے سکون قلب کا سامان ہوگا۔ (صندوق التوراۃ)
اور کچھ بچی ہوئی چیزیں بھی ہوں گی جن کو موسیٰ وہارون علیہم السلام چھوڑگئے تھے۔
وہ صندوق فرشتے اٹھائے لائیں گے۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۲۴۸ۧ

اس میں تمہارے لیے نشانی ہے کہ (طالوت منجانب اللہ سردار مقرر کیے گئے ہیں) اگر تم یقین( لانے والے ہو)رکھتے ہو۔

توضیح : یہ صندوق جس میں توراۃ او رکچھ تبرکات تھے۔ جالوت جب بنی اسرائیل پرغالب آیا تویہ صندوق بھی لے گا جس کوبنی اسرائیل اپنے لیے فتح ونصرت کا ذریعہ سمجھتے تھے جب وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا توپوری قوم کی ہمت ٹوٹ گئی ان میں ہرشخص یہ سمجھتا رہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان سے چھین لی گئی ہے۔ اور اب ان کے برے دن آگئے ہیں پھر اس صندوق کا فرشتوں کے ذریعہ آنا ان کیلئےبڑی ہی تقویت، تسکین ومسرت کا باعث بنا اور طالوت مسلمہ فرمانروا ہوگئے۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُـنُوْدِ۝۰ۙ

پھر جب طالوت فوجی لشکر لے کر(بیت المقدس سےقوم عمالقہ کی طرف

قَالَ اِنَّ اللہَ مُبْتَلِيْكُمْ بِنَہَرٍ۝۰ۚ

چلے)باہر نکلا۔
توانہوں نے کہا ایک دریا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے (یہ جانتے ہوئے بھی کہ تم کس حد تک احکام الٰہی کی تعمیل کرتے ہو)

فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَيْسَ مِنِّىْ۝۰ۚ وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمْہُ فَاِنَّہٗ مِنِّىْٓ
اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃًۢ بِيَدِہٖ۝۰ۚ فَشَرِبُوْا مِنْہُ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْہُمْ۝۰ۭ

لہٰذا جو کوئی اس کا پانی پئے گا وہ میرا ساتھی نہیں۔
اور جو کوئی نہ پئے گا وہ میرا ساتھی ہے۔
البتہ ہاتھ سے چلو بھرپانی کوئی پی لے تومضائقہ نہیں۔
(جب نہر پرپہنچے) چند اشخاص کے سوا سب نے اس سے سیر ہوکر پانی پیا۔

توضیح : یہاں اطاعت امیر کا امتحان تھا۔ لوگ عموما ًباتیں توبہت کرتے ہیں کہ ہم امیر کی اطاعت یوں کریں گے اور یوں کریں گے مگر جب عمل کا وقت آتا ہے توحیلے حوالے کرنے لگتے ہیں۔
کسی کو امیر مقرر کرنے کے بعد اس کی اطاعت ضروری ہے چاہے اس کا تعلق اموردینیہ سے ہو۔
یا نظم ونسق سے الغرض اس امتحان میں بہت کم لوگ کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کوایسے لوگوں کا علیحدہ کرنا منظور تھا۔

فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ھُوَوَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ۝۰ۙ

پھر جب طالوت اور ان کے ساتھی مسلمان نہر کے پارہوگئے (اور جالوت کی فوج کے مقابل ہوئے تواس کی ظاہری شان وشوکت وکثرت کودیکھ کر پست ہمت ہوگئے)

قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ۝۰ۭ
قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللہِ۝۰ۙ
كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ

توکہنے لگے آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ۔
جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے روبرو (جواب دہی کے لیے) حاضر ہونا ہے۔(اپنے پست ہمت ساتھیوں سے) کہا
اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ تھوڑی سی جماعت اللہ تعالیٰ کے حکم سے کثیر جماعت پرغالب آئی ہے۔

وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۲۴۹

اوراللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔(یہ سنت الٰہی ہے)

توضیح : قلت کثرت پر اس وقت غالب آتی ہے جب وہ کثرت کے مظالم پرصبر کرتی ہے۔

وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا
وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا

اور جب وہ جالوت اوراس کی فوج کے مقابل ہوگئے۔
توانہوں نے دعا کی ائے ہمارے پروردگار ہم پرصبر آسان کردیجئے (یعنی جدال وقتال کی ہرتکلیف سہنے کی توفیق بخشئے اور (اس معرکۂ حق وباطل میں) ہم کوثابت قدم رکھئے ۔)

وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۵۰ۭ

اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کیجئے۔(فتح ونصرت بخشئے)

توضیح : اس میں یہ سبق ہے کہ صبر کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنی چاہئے اور ہر چھوٹی بڑی تکلیف میں اللہ تعالیٰ ہی کوپکارنا چاہئے۔

فَہَزَمُوْھُمْ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۣۙ
وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ

وَاٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا يَشَاۗءُ۝۰ۭ

پس طالوت کی فوج نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو شکست دی۔
اور داؤدؑ نے جالوت کوقتل کردیا ( جو فوج میں اچھے لڑنے والوں میں سے تھے)
اوراللہ تعالیٰ نے ان کو (داؤدؑ کو) بادشاہت اور عقل ودانائی اورعلم وہنر کی وہ تمام باتیں سکھائیں (جو بادشاہت کے لیے ضروری تھیں)جو اس نے (اللہ)چاہی۔

وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ۝۰ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ

اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالموں کے غلبہ وتسلط کوبعض لوگوں کے ذریعہ دفع نہ کیا کرتے توزمین میں ایک فساد عظیم برپا ہوجاتا۔

وَلٰكِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝۲۵۱
تِلْكَ اٰيٰتُ اللہِ نَتْلُوْھَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ

وَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۲۵۲

لیکن اللہ تعالیٰ اہل عالم پر بڑے ہی مہربان ہیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جو صحیح صحیح طور پر ہم آپؐ کو پڑھ کر سناتے ہیں ۔
(جن میں گزشتہ اہل ایمان کے واقعات جدال وقتال ہیں۔)
اورائے محمدﷺ آپ بلاشبہ پیغمبروں میں سے ہیں۔

(لہٰذا آپؐ کواورآپ کے متبعین کو بھی جدال وقتال کے دور سے گزرنا ہے۔ احکام قتال سے قلوب میں گرانی پیدا نہ ہونی چاہئے)

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ۝۰ۘ
مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللہُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ۝۰ۭ 

ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پرفضیلت بخشی۔

ان میں ایک وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا اور بعض کے درجات بلند کیے۔

توضیح :حضرت موسیٰ علیہ السلام مراد ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے (فرشتے کے بغیر) راست کلام فرمایا۔

وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۝۰ۭ

اورہم نے عیسیٰؑ ابن مریم کوواضح معجزات عطا کیے اور جبرئیل امین سے ان کی مدد کی۔

توضیح : یہود عیسیٰؑ کے دشمن تھے جبرئیلؑ کے ذریعہ ان کی مدد فرمائی (واضح معجزات سے مراد، مردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کواچھا اور مادرزاد اندھوں کوبینا کرنا وغیرہ)

وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِھِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْھُمُ الْبَيِّنٰتُ
وَلٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ مَّنْ كَفَرَ۝۰ۭ

اور اگر اللہ تعالیٰ کومنظور ہوتا تو وہ لوگ واضح احکام آجانے کے بعد آپس کی خوں ریزی میں مبتلا نہ ہوتے۔

لیکن انہوں نے (نبیﷺ کی تعلیم سے) اختلاف کیا ان میں بعض ایمان لائے اور بعض کافر ہی رہے۔

توضیح : اس آیت سے اور دوسری آیات سے ایمان لانے یا نہ لانے کا انسانی اختیار ثابت ہوتا ہے۔ جیسے: فَمَنْ شِآءَ فَلْیُوْمِنْ وَمَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ لہٰذا جو چاہے ایمان لائے یا انکار کرے اسی پر جزاوسزا کا مدار ہے۔

وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا اقْتَتَلُوْا۝۰ۣ

اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تویہ خوں ریزی نہ کرتے۔

توضیح : خونریزی سے روکنا۔ گویا ان کے اختیار کوسلب کرنا ہے جو ایک طرح کا جبر ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کسی کی آزادی واختیار کو چھین کرجبر نہیں فرماتے۔

وَلٰكِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ۝۲۵۳ۧ

لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔

توضیح : کوئی امت دین الٰہی کوچھوڑکر باطل عقائد میں مبتلا ہوتی ہے اور امت ِواحدہ کی بجائے مختلف فرقوں میں بٹ جاتی ہے تو ان پر عذاب الٰہی کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا

اے ایمان والو جو کچھ مال ومتاع ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے (اللہ

رَزَقْنٰكُمْ
مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ۝۰ۭ

تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرتے رہو۔
قبل اس کے کہ( عمل کرنے کی یہ مہلت ختم ہوجائے اور )وہ دن آجائے جس دن نہ کوئی خرید وفروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی شفاعت۔

توضیح : خرید وفروخت اس طرح کہ کوئی صاحب خیر جس نے بہت ساری نیکیاں کی ہوں وہ اپنی فاضل نیکیاں دے کر اپنے گنہگار عزیز ورشتہ دار دوست یا مرید کوبخشوا نہیں سکتا۔

وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۵۴

اور کافر(حقائق کا انکار کرنے والے) ہی ظالم ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

توضیح :یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے غیراللہ کی خوشنودی کے لیے مال خرچ کرتے ہیں۔ ان کی نذرومنت کرتے اور ان سے مدد مانگتے ہیں۔ اہل ایمان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ موت سے پہلے اپنی آخرت بہتربنالیں۔ یعنی عقیدہ وعمل کی اصلاح کرلیں جس کے بغیر کوئی نیکی عنداللہ قبول نہیں ہوتی۔
موجودہ دور میں ایصال ثواب کا جو تصور امت میں پیدا ہوگیا ہے اور یہ جوسمجھا جاتا ہے کہ مرنے والا دین سے خواہ کتنا ہی منحرف اوربے عمل رہا ہواگر اس کی اولاد اعزہ واقارب میں سے کوئی زیارت، چہلم، برسی، ختم قرآن اورمولود وغیرہ جیسے مبتدعانہ رسوم ادا کردے، غریبوں کوکھلا پلادے، خیرخیرات کردے اور اس کا ثواب بخش دے تومرنے والے کے لیے نجات ومغفرت کا ذریعہ ہوجاتا ہے، یہ سب بے اصل ہے۔

اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ

(اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہیں) اللہ کے سوا کوئی بھی عبادت (واستعانت) کے لائق نہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی خواہ وہ انبیاء علیہم السلام ہوں یا ملائکہ یا اجنہ وغیرہ سب اسی کے مملوک ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت واستعانت کے لائق نہیں۔

اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ۝۰ۥۚ لَا تَاْخُذُہٗ سِـنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ۝۰ۭ

اللہ ہی زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے اورنہ نیند (ہم انسانوں کوطمانیت کے لیے ارشاد ہورہا ہے کہ ہماری حاجت براری کے لیے ہی حق تعالیٰ الحی ہیں القیوم ہیں)

توضیح : وہ نیند، اونگھ اور بھول جیسے نقائص سے پاک ہے۔ایک بادشاہ کے لوازم شان وشوکت میں اس کے آرام کے اوقات بھی ہوتے ہیں، وہ سوتا بھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ان کمزوریوں سے پاک وبرتر ہے کیونکہ سونا بھی ایک کمزوری ہے جس کی وجہ بے خبری اوربھول پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ قیوم ہے ساری مخلوقات کے نظام دنیا وآخرت کا وہی بلاشرکت غیرے قائم کرنے والا ہے۔

لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ
مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۝۰ۭ
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ۝۰ۚ

زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔

کون ہے جس کی اتنی ہمت ہو کہ) اس کے پاس سفارش کرسکے۔ سوائے اس کے کہ وہی کسی کے لیے سفارش کی اجازت دے۔
وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جوکچھ ان کے پیچھے ہے(یعنی وہ ان کےا گلے اور پچھلے احوال سے واقف ہے)

تشریح: یہاں حق تعالیٰ نے اپنے اسماء ’’اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم‘‘ کا تعارف فرمایا ہے۔ آج امت کے عوام وخواص اسمائے حسنیٰ کے معنی ومفہوم ہی سے لا علم ہیں (الا ماشاء اللہ) حضرت نبی کریمﷺ کی صحبت نے صحابہ کرام کو حق تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا عرفان عطا فرمایا تھا، اسی کا ثمرہ تھا کہ جب بھی احکام الٰہی نازل ہوتے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم والہانہ ان احکام کی بجاآوری فرماتے۔
اسم ’’الحی‘‘ کے تعارف میں بتایا گیا کہ انسانوں کی حاجت روائی، مشکل کشائی اورنظام ارض وسماء کی ربوبیت کے لیے جس حیات کی ضرورت ہے وہ حیات توصرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ لہٰذا انسانوں کو چاہئے کہ ہر چھوٹی بڑی، حاجت اور مشکل میں اللہ تعالیٰ ہی کو مدد کے لیے پکارے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔
هُوَ الْحَيُّ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۔ وہی زندہ ہے (کوئی مقرب سے مقرب بندہ تمہاری فریاد رسانی کے لیے زندہ نہیں ہے) پورے جذبہ اطاعت گزاری کے ساتھ ہر مشکل وحاجت میں مدد کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کواس طرح پکارو کہ شرک کا شائبہ بھی نہ رہے۔ آدمی اپنے جہل کی وجہ سے یہ بھی سمجھتا ہے کہ دنیوی بادشاہوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی حکمرانی میں بھی انبیاء علیہم السلام صالحین۔ امت ملائکہ وغیرہ معاون ومددگار ہیں، شریک ودخیل ہیں۔ جن کے مشورے سے نظام الٰہی وسماوی جاری ہے۔ اسم حسن’’القیوم‘‘ سے اس باطل خیال کی تردید فرمائی گئی ہے اور یہ حقیقت واضح کردی گئی کہ یہ سارا نظام ارضی وسماوی کسی کی رائے مشورہ کے بغیر اور کسی کواپنے اختیارات کا کوئی جزوعطا کیے بغیر اللہ تعالیٰ ہی بذاتہٖ قائم کیے ہوئے ہیں۔ اس نظم عالم کے قیام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک وسہیم نہیں ہے۔

وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۝۰ۚ

اور کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتی مگر اسی قدر جتنا کہ اللہ تعالیٰ علم دینا چاہیں۔

وَسِعَ كُرْسِـيُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۝۰ۚ
وَلَا يَـــــُٔـــوْدُہٗ حِفْظُہُمَا۝۰ۚ وَھُوَالْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ۝۲۵۵

اس کی کرسی زمین وآسمان کواحاطہ کیے ہوئے ہے۔
(کرسی سے مراد اللہ تعالیٰ کی حکومت وفرمانروائی ہے)
زمین وآسمان کی حفاظت اسے نہیں تھکاتی اور وہ بڑا عالی مرتبت بڑی ہی شان وعظمت والا ہے۔( اتنی وسیع وعریض کائنات کا بلاشرکت غیرے بہ نفس نفیس حکمران ہے)

لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ

دین (اسلام) میں جبر نہیں ہے۔

فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۔ یعنی چاہے کوئی ایمان لائے چاہے کوئی کفر کرے۔
(مگر انسان کی عقل وفطرت کا تقاضہ ہے کہ دنیا میں بے خوف وخطرزندگی گزارنے اور آخرت کی خیروابقیٰ زندگی کے حصول کے لیے رغبت قلبی کے ساتھ دین الٰہی قبول کرلے)

قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ

یقیناً ’’ہدایت‘‘ گمراہی سے ممیز ہوچکی ہے۔
(یعنی دین اسلام کی خوبی اورکفر کا انجام بد واضح ہوچکا ہے)

فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ
فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ

لہٰذا جس نے بطیب خاطر معبودانِ باطل سے منہ موڑااور اللہ تعالیٰ ہی کو معبود ومستعان کارساز جانا
تو گویا اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جوکبھی ٹوٹنے والا نہیں (یعنی ایک ایسا مستحکم عقیدہ اختیار کیا جس کے حق ہونے کی وہ سندِ علمی رکھتا ہے)

وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۵۶

اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی سننے والے اور بڑے ہی جاننے والے ہیں)

تشریح : یہاں اسمائے حسنیٰ ’’السمیع ‘‘ اور ’’العلیم ‘‘ کا ربط یہ ہے کہ انسان اپنے جہل کے سبب یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی دعا اور اپنے قلبی کیفیات کواللہ تعالیٰ تک راست نہیں پہنچاسکتا بلکہ اس کے اوراللہ تعالیٰ کے درمیان بزرگانِ دین، صالحین قوم انبیاء علیہم السلام ملائکہ اور اجنہ واسطہ وسیلہ ہیں۔ حق تعالیٰ نے اس شرک کی تردید اپنے ’’اسماء احسن‘‘، ’’السمیع اورالعلیم‘‘ سے فرمادی کہ تمہاری دعاؤں کوسننے والے ’’السمیع‘‘ اور تمہارے قلبی کیفیات اوراحوال کوجاننے والے ’’العلیم‘‘ اللہ تعالیٰ ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی فرد خلق ان اوصاف سے متصف نہیں بندوں کی دعا سننے کے لیے اور بندوں کے احوال جاننے کے لیے اللہ تعالیٰ کوکسی واسطہ اور وسیلے کی حاجت نہیں ہے۔

اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ

اللہ تعالیٰ اُن ہی لوگوں کے دوست ہیں جوایمان لائے ۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے بندے غیراللہ کی الوہیت سے اپنے قلب کو پاک کرکے اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا معبود ومستعان مان لیتے ہیں یعنی ایمان لے آتے ہیں تواللہ تعالیٰ ان مومن بندوں کے حامی دوست ومددگار بن جاتے ہیں۔

يُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۥۭ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ۝۰ۙ
يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۝۰ۭ
اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۵۷ۧ

انھیں (جہل وکفر کی) تاریکیوں سے نکال کر( علم وہدایت کی) روشنی میں لے آتے ہیں۔
اور جو لوگ کافر ہوئے (یعنی کفر کی راہ اختیار کی۔ اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں غیراللہ کوشریک قرار دیا)ان کے دوست شیاطین ہیں۔
وہ انھیں (علم وہدایت کی) روشنی سے نکال کر(جہل کی) تاریکیوں میں ڈھکیل دیتے ہیں۔
وہ سب جہنمی ہیں وہ اسی میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّہٖٓ

ائے نبی (ﷺ) کیا آپؐ نے اس شخص کی حالت پرغور نہیں کیا جو ابراہیمؑ سے ا س کے رب کے بارے میں جھگڑتا تھا۔

اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ۝۰ۘ

(اس احسان کے بدلے) کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بادشاہت دی تھی۔

اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۝۰ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ۝۰ۭ

اس وقت ابراہیمؑ نے کہا میرا پروردگار تو وہی ہے جو، جلاتا اور مارتا ہے۔
تو( بہ زعم حکومت بادشاہ )اس نے کہا میں بھی مارتا وجلاتا ہوں۔

توضیح 🙂 اس طرح کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں بھی جسے چاہوں مارڈالوں یا مارڈالنے سے بچالوں۔ اس طرح اپنے مالک ومختار بننے کا ادعا کیا۔(

قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللہَ يَاْتِيْ
بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِيْ كَفَرَ۝۰ۭ
وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۲۵۸ۚ
اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَۃٍ

ابراہیمؑ نے کہا اللہ تعالیٰ توروزآنہ سورج کومشرق سے نکالتے ہیں۔

تواس کومغرب سے نکال، تو وہ کافر اپنی بے بسی پر بوکھلا گیا۔
اوراللہ تعالیٰ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتے۔
یا اس طرح ان صاحب کے حال پربھی نظرڈالیے۔

وَّہِيَ خَاوِيَۃٌ عَلٰي عُرُوْشِہَا۝۰ۚ
قَالَ اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۚ

جن کا گزرایک اجڑی ہوئی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر الٹ گئی تھی۔
(جسے دیکھ کرانہوں نے) کہا بستی کے (باشندوں کی) اس طرح کی ہلاکت کے بعد اللہ تعالیٰ پھر انھیں کس طرح زندہ کریں گے؟

فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَـۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ۝۰ۭ

تواللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض کرلی اور سوسال تک مردہ رکھا۔ پھر انھیں زندہ کیا۔

قَالَ كَمْ لَبِثْتَ۝۰ۭ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ۝۰ۭ
قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ
فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَـنَّہْ۝۰ۚ
وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ

پوچھا تم کتنے عرصے تک( اس حالت مردنی میں) رہے کہا ایک دن یا ایک پہردن (یعنی دن کا کچھ حصہ)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلکہ تم سو برس( اسی حالت مردنی میں) رہے ہو۔
پھر اپنے کھانے پینے کی چیزوں کودیکھو (اتنی مدت گزرجانے کے باوجود) سڑی گلی نہیں ہیں۔
اوراپنے گدھے کی طرف بھی دیکھو (جومرا پڑا ہے یعنی بکھری ہوئی ہڈیوں کا ادھورا ڈھانچہ رہ گیا ہے۔)

وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَۃً لِّلنَّاسِ

اوراس سے مقصود یہ ہے کہ ہم تم کولوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں۔

وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ

اور تم (اس کی) ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم ان کوکس طرح جوڑتے

نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا۝۰ۭ
فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَہٗ۝۰ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۵۹

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ
تُـحْيِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ
قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ۝۰ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ۝۰ۭ

ہیں۔ پھر اس ڈھانچے پرگوشت وپوست چڑھاتے ہیں۔
جب یہ سب کچھ کھل کرمشاہدہ میں آچکا توکہا میں نے جان لیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پرقادر ہیں۔ گل سڑ جانے کے بعد بھی مردے کودفعتہً زندہ کرسکتے ہیں۔
اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے ابراہیمؑ نے کہا ائے میرے پروردگار مجھے دکھائیے کہ آپ مردوں کوکس طرح زندہ کرتے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تمہیں اس کا یقین نہیں ہے کہا۔ ہاں ہے، لیکن قلب مزید طمانیت چاہتا ہے۔

قَالَ فَخُـذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّيْرِ
فَصُرْھُنَّ اِلَيْكَ
ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰي كُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءًا
ثُمَّ ادْعُہُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا۝۰ۭ وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۶۰ۧ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا چار پرندے لو اور انھیں اپنے سے مانوس کرلو۔

پھر ان کی بوٹیاں بنا کر ہر ایک پہاڑ پر رکھ دو۔
پھر انھیں آواز دو وہ تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔
اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکمت والے ہیں۔

توضیح : یہاں اللہ تعالیٰ کے اسم حسن ’’اَلْحَکِیْم‘‘ کا حکیمانہ تعارف کردیا گیا ہے۔انبیاء علیہم السلام کوبعض امور غیبیہ کا علم دیا جاتا ہے اورمشاہدہ بھی کرایا جاتا ہے۔ دنیاوی امور میں بھی تو یہی ہوتا ہے کہ چند ہی محققین ہوتے ہیں اورباقی سب انسان ان کی تحقیق سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہر شخص کوامور غیبیہ کا مشاہدہ نہ کروانا اللہ تعالیٰ کا ایک حکیمانہ نظام ہے۔

مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ان کے خرچ کی مثال۔

كَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ
فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ۝۰ۭ

اس دانہ کی سی ہے کہ (جب بودیا جائے تو) اس سے سات بالیں نکلتی ہیں۔
پھر ہر بالی (بھٹے) میں سودانے ہوں ( یعنی ان کے انفاق کا اجر ایک کے عوض سات سوگنا دیا جائے گا۔)

وَاللہُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ
وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۲۶۱

اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جس کیلئےچاہتے ہیں کئی گنا اجر بڑھادیتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے جاننے والے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے والے کی نیت اور جو مال دیا جاتا ہے اس کے حسن وقبح سے خوب واقف ہیں۔ اور اسی وسعت علمی کی بناپر اجر کوکئی گناہ بڑھادیتے ہیں ہوسکتا ہے کہ سات سوکے بجائے سات ہزار، سات لاکھ، سات کروڑ دیں اس سے بھی زیادہ بڑھادیں۔ انفاق کی کچھ شرائط بھی ہیں۔ ان شرائط کی تکمیل کے بعد ہی ایک مومن انفاق کے موجودہ بدل کا مستحق ہوسکتا ہے۔

اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ
ثُمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا

جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔

پھر وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس پر احسان نہیں جتاتے اورنہ احسان جتا

وَّلَآ اَذًى۝۰ۙ
لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ
وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۲۶۲

کرتکلیف پہنچاتے ہیں۔
ان کے لیے (ان کے اعمال کا) بدل ان کے پروردگار کے پاس ہے۔
اور (قیامت کے دن) نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اورنہ وہ حزن وملال میں مبتلا ہوں گے۔

توضیح : کسی پر احسان کرکے احسان جتانا، اسکوذلیل کرنا، معاوضہ کی توقع کرنا،تکلیف پہنچانا، ان سب کا شمار من اذٰی میں ہے۔

قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ يَّتْبَعُہَآ اَذًى۝۰ۭ

(اگر دینے کی قدرت نہ ہو تو سائل کو) اچھی بات کہہ کر ٹال دینا (خوبی سے درگزرکرنا) کچھ دے کر اسے اذیت پہنچانے سے بہتر ہے۔

وَاللہُ غَنِىٌّ حَلِيْمٌ۝۲۶۳

اللہ تعالیٰ( تمہارے انفاق کرنے یا نہ کرنے سے) بے نیاز ہیں (بے پرواہ ہیں تمہارے انفاق کا فائدہ تمہیں کو ہوگا) اوراللہ تعالیٰ الحلیم ہیں۔ (تمہاری نافرمانیوں پرفوری گرفت نہیں فرماتے ہیں۔ اس سے یہ نہ سمجھو کہ تمہارا احتساب ہی نہیں ہوگا۔)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۝۰ۙ
كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ
وَلَا يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ فَمَثَلُہٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْہِ تُرَابٌ
فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَكَہٗ صَلْدًا۝۰ۭ

ائے ایمان والو! تم اپنے صدقات احسان جتا کر تکلیف پہنچا کر ضائع نہ کرو۔
اس شخص کی طرح جو لوگوں کودکھانے نام ونمود وشہرت کے لیے خرچ کرتا ہے (ریا بھی شرک ہے ایسا شخص دراصل)
اور نہ اللہ تعالیٰ پرایمان رکھتا ہے اورنہ یوم آخرت پر
اس کے مال کی مثال ایک چٹان کی سی ہے جس پرمٹی کی تھوڑی سی تہہ جمی ہو۔
(اس میں دانہ بویا جائے) پھر اس پرزور دار بارش بر سے جواس کوصاف ہی کردے۔

توضیح : مٹی کی ہلکی سی تہہ سے مراد نیکی کی ظاہری شکل ہے جس کے پیچھے نیت کی خرابی چھپی ہوئی ہو۔

لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا۝۰ۭ
وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۶۴

اس طرح وہ (ریاکار) جو کچھ نیک عمل کریں گے اس کا صلہ حاصل نہ کرسکیں گے۔
اللہ تعالیٰ کافروں کو(کفر پراڑے رہنے کی وجہ) صحیح راہ نہیں دکھاتے۔

وَمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ وَتَثْبِيْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ

كَمَثَلِ جَنَّۃٍؚبِرَبْوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَہَا ضِعْفَيْنِ۝۰ۚ
فَاِنْ لَّمْ يُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ

ان لوگوں کی مثال جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیےاپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اوراس تصدیق ویقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں کہ اس کا بدل آخرت میں انھیں ملنے والا ہے۔
ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچے ٹیلے پر واقع ہو۔ جب اس پر مینہ برسے تودگنا پھل لائے۔
پھر اگر بارش نہ بھی ہو تو پھوار ہی کافی ہوجائے۔

توضیح :بارش کے موٹے موٹے قطروں کی زور دار بارش کو وابل اور ہلکی سی پھوار کوطَلّ کہتے ہیں۔

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۲۶۵

اوراللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں جو کچھ تم کررہے ہو (کہ کس نیت سے خرچ کرتے ہو)

اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ
مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۰ۙ
لَہٗ فِيْہَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۙ
وَاَصَابَہُ الْكِبَرُ وَلَہٗ ذُرِّيَّۃٌ ضُعَفَاۗءُ ۝۰۠ۖ
فَاَصَابَہَآ اِعْصَارٌ فِيْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ

کیا تم میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ(اس کا انجام اس شخص کی طرح ہوجائے) جس کے پاس کھجور اور انگور کے باغ ہوں، اس کے نیچے نہریں بہتی ہوں۔
اس میں اس کے لیے ہر قسم کے میوے موجود ہوں۔
اس کو بڑھاپا آگیا ہو۔ اس کی کمزور اورناتواں اولاد بھی ہو (جن کی زندگی کا انحصار اسی سرمایہ پر ہو)
پھر (دفعتہً) اس پر طوفانی ہوا چلے جس میں دہکتی ہوئی آگ ہو اس کو جلا کر خاکستر کردے۔

توضیح : غور تو کرو ایسی صورت میں اس بوڑھے کی حسرت کا کیا عالم ہوگا؟ لوگ دنیا میں مال دار بنے رہے۔ انفاق بھی خوب کیا لیکن ان کی نیت شہرت ونمود کی تھی توان کی مثال اس بوڑھے کی سی ہے جو مذکور ہوئی۔ آخرت میں ان کی حسرت ویاس کا عالم ناقابل بیان ہوگا کیونکہ ان کی وہ مہلت عمل ختم ہوچکی ہوگی کہ پھر سے عمل کرکے اپنے نقصان کی تلافی کرسکیں۔

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ۝۲۶۶ۧ

اس طرح تمہارے لیے اللہ تعالیٰ اپنے احکام نہایت ہی وضاحت کے ساتھ بیان فرماتے ہیں تا کہ تم صاحب فکر انسان بنو۔