☰ Surah
☰ Parah

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ
مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۝۰۠
وَلَا تَـيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ

(سوچو سمجھو غورو فکر سے کام لو)
ائے ایمان والو اپنی حلال کمائی میں سے عمدہ چیز خرچ کیا کرو۔
اور جو چیزیں ہم تمہارے لیے زمین سے پیدا کرتے ہیں ان میں (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کیا کرو( از قسم ثمرات وپیداوار ارضی وغیرہ)
ناپاک اورخبیث چیزوں کی خیرات کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ۔

وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِيْہِ۝۰ۭ
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَنِىٌّ حَمِيْدٌ۝۲۶۷

اورتم خود بھی اپنے لیے ناقص وناکارہ مال پسند نہیں کرتے بجز اس کے کہ مجبوری ہو۔
اوراچھی طرح جان لو کہ اللہ تعالیٰ غنی ہیں بڑی خوبیوں والے ہیں (ناکارہ وناپاک مال قبول نہیں فرماتے)

اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ۝۰ۚ

شیطان تم سے مفلسی کا وعدہ کرتا ہے اور بے حیائی میں خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ (شیطان تم کو ڈراتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کروگے تومفلس ہوجاؤ گے مگر تم کوبے حیائی (بے ہودہ کاموں) میں خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔(

لیکن افسوس کہ: آج امت کی اکثریت فواحشات ومنکرات شادی بیاہ کے جاہلانہ رسومات،سانچق، مہندی، سہرا، باجا، گیارہویں، بارہویں کے پکوان، شب برات کے چراغاں، عرسوں کے ہنگامے، کھیل تماشے، سینما بینی،فیشن پرستی میں مبتلا ہے جس پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ بس ہاتھ رکتا ہے توان معاملات میں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔

وَاللہُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا۝۰

اوراللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور رحمت کا وعدہ فرماتے ہیں۔

توضیح:۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں انفاق کرتے رہوگے تو وہ تمہاری مغفرت فرمائے گا اوراپنی مہربانی سے بہت زیادہ عطا کریگا۔

وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۲۶۸ۖۙ

کیوں کہ اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے اور خوب جاننے والے ہیں ۔

کہ ( کون کس نیت سے مال خرچ کرتا ہے۔ نام نمود شہرت کی خاطر یا اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لیے)

يُؤْتِي الْحِكْمَۃَ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۚ
وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا

وہ جسے چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔
اور جسے دانائی دی گئی یقیناً وہ خیرکثیر پاگیا۔

توضیح:۔ دانائی یہ ہے کہ مفاد دنیا کے مقابلے میں نفع آخرت کا طالب وحریص بنارہے اوراپنے مال کو زیادہ سے زیادہ ذخیرۂ آخرت کرے۔

وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۶۹

اور جو سمجھ دار ہیں (یعنی سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں) وہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔

وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللہَ يَعْلَمُہٗ۝۰ۭ

اور تم جو کچھ مال خرچ کرتے ہو یا کوئی نیاز ونذر مانتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں (کہ کس نیت سے نذرمانی ہے اور کس نیت سے مال خرچ کیا ہے ) کتنا تعلق من واذٰی نمود و شہرت کا تھا کیونکہ یہ شرک ہی کے اجزاء ہیں۔

وَمَا لِلظّٰلِـمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۲۷۰

اور ظالموں کا (قیامت کے دن) کوئی حمایتی ومددگار نہ ہوگا۔)

توضیح : ظالموں سے مراد کافر ومشرک ہیں۔ جوغیر اللہ کی نذر ونیاز مانتے اور ان سے اپنی امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ کارخانہ قدرت میں غیراللہ کودخیل وشریک وبااختیار سمجھتے ہیں۔

اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِىَ۝۰ۚ

اگرتم صدقات کوظاہر کرو (اس نیت سے کہ دوسروں کوترغیب ہو) تواچھا ہے۔

وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝۰ۭ
وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ۝۰ۭ

اوراگر (ریاونمود کے خوف سے) چھپا کر دو تو یہ بھی تمہارے لیے بہتر ہے۔
وہ تم سے تمہاری برائیوں کوبھی دور کردیتا ہے۔

توضیح : سیِّاٰت سے مراد چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جومومن سے نادانستہ غیرشعور طورپر سرزد ہوجاتے ہیں۔

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝۲۷۱

اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ ان سے با خبر ہیں (کہ کس نے ارادۃً معصیت اختیار کی اور کس نے مرضیات الٰہی کو پیش نظررکھا۔)

لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

(ائے محمدﷺ) آپ پر ان لوگوں کوہدایت پرلے آنے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں۔

توضیح : سنت الٰہی یہ ہے کہ طالب ہدایت کوہدایت دی جاتی ہے اور جوکوئی گمراہی وبداعتقادی کواختیار کرتا ہے اس کو اسی حالت میں چھوڑدیا جاتا ہے۔

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍۭ فَلِاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ

اور تم جو کچھ مال خرچ کروگے اس کا فائدہ تمہیں کوہوگا۔

وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ اللہِ۝۰

اور جو کچھ مال تم خرچ کروگے۔ اللہ تعالیٰ ہی کی خوشنودی کے لئے کروگے۔

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۝۲۷۲

اور جو مال تم خرچ کروگے اس کا تمہیں پورا پورا بدل دیا جائے گا اور تم پرظلم نہ کیا جائے گا۔

لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ

(تمہارا انفاق) ان حاجت مندوں کے لیے ہے(جو دین کے لیے وقف ہوچکے ہیں) جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلنے سے رکے ہوئے ہیں۔

لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ

(اشاعت ِحق کے لیے) سفر خرچ کی استطاعت نہیں رکھتے۔

يَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ۝۰ۚ

ان لوگوں کے اس استغناء کودیکھ کر(یعنی ان کے نہ مانگنے کی وجہ) نادان لوگ انھیں مال دار سمجھتے ہیں۔

تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ۝۰ۚ

لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا۝۰ۭ

تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان لوگے ( کہ وہ حاجت مند ہیں شرم کی وجہ کسی کے آگے اظہار حاجت نہیں کرتے۔)
وہ لوگوں سے لاگ لپیٹ (الحاح وزاری کے ساتھ )سوال نہیں کرتے ۔

(اور بدرجہ مجبوری اگر اظہار حاجت کبھی ناگزیر ہو تو صرف حاجت کا اظہار اشارۃً کردیتے ہیں گلے کا ہار نہیں ہوجاتے۔ ایسے کتنے اصحاب رسول تھے جنہیں اصحاب صفہ کہتے ہیں)

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝۲۷۳ۧ

اور تم جو کچھ مال (راہِ خدا میں) خرچ کروگے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتے ہیں (اس کا پورا پورا بدل دیں گے)

اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ
وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۲۷۴ؔ
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا
لَايَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَـمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ

وہ لوگ جو اپنا مال رات دن پوشیدہ اور علانیہ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان کا صلہ ان کے پروردگارکے پاس ہے۔

اورنہ ان (قیامت کے دن) کوئی خوف ہوگا اورنہ وہ حزن وملال میں مبتلا ہوں گے۔
جو لوگ سود کھاتے ہیں (اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے بلکہ روپیہ سودی کاروبار میں لگاتے ہیں) وہ کھڑے نہ رہ سکیں گے لیکن اس شخص

يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۝۰ۭ

کی طرح کھڑے ہوں گے جس کوشیطان نے چھو کر مدہوش (ومخبوط الحواس )کردیا ہو۔
(ان کی یہ حالت قیامت کے دن ہوگی جب کہ وہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے)

ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا۝۰ۘ

اس طرح کی سزائیں انھیں اس لیے دی جائیں گی، وہ کہتے ہیں تجارت (بیع) بھی تو(نفع کے لحاظ سے) سود کی طرح ہے (کیوں کہ دونوں کا مقصد ان کے اپنے خیال میں نفع حاصل کرنا ہے حالانکہ دونوں میں کافی فرق موجود ہے)

وَاَحَلَّ اللہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا۝۰ۭ فَمَنْ جَاۗءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْــتَہٰى فَلَہٗ مَا سَلَـفَ۝۰ۭ

اوراللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام
لہٰذا جس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے سود کی حرمت کا حکم پہنچ گیا پھر وہ سود لینے سےباز آگیا تواس حکم سے پہلے جو کچھ سود لے چکا ہے وہ اس کا ہے (یعنی لیا ہوا مال اس کی ملک ہے)

وَاَمْرُہٗٓ اِلَى اللہِ۝۰ۭ

اور(قیامت کے دن) اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر منحصر ہے (کہ وہ دل سے باز آیا تھا یا منافقانہ توبہ کرلی تھی)

وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ

اور جو کوئی (سود کی حرمت کے بعد بھی) سودی کاروبار کرے گاتو ایسے سب لوگ دوزخی ہیں۔

ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۷۵

جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي
الصَّدَقٰتِ۝۰ۭ

وَاللہُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ۝۲۷۶

اللہ تعالیٰ سود کومٹاتے ہیں اور صدقات وخیرات کوبڑھاتے ہیں۔
تشریح:۔ اللہ تعالیٰ معاشرہ میں کسی شکل میںبھی سود کوباقی رکھنا نہیں چاہتے۔ کیونکہ جس مال میں سود شامل ہوتا ہے۔ دنیا وآخرت میں اس کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ (سود خوار جیسے) ناشکرے گنہگار کوپسند نہیں کرتے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا

جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور نمازیں قائم کیں اور زکوۃ

الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ
وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۲۷۷
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۲۷۸

دیتے رہے ان کے لیے ان کے اعمال کا بدل ان کے پروردگار کے پاس ہے (جو آخرت میں انھیں ملے گا)

اور (قیامت کے دن) ان پر کسی طرح کا خوف نہیں طاری ہوگا اور نہ وہ حزن وملال میں مبتلا ہونگے۔
ائے ایمان والو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام بد سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اس کوچھوڑدو اگر واقعی تم مومن ہو۔

توضیح : اس وقت مسلمان بے حد تنگ دست تھے۔ ہوسکتا تھا کہ سود لے کر ان میں تقسیم کرنے کا حکم دیا جاتا۔ مگرایسا نہیں کیا گیا اورماباقی سود لینے سے قطعاً روک دیا گیا (لہٰذا دور ِحاضر میں سود لے کر غریبوں میں تقسیم کردینے کی جو تجویز ہے وہ ہرآئینہ غلط ہے)

فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۝۰ۚ

پھر اگر تم (اس حکم پر) عمل نہ کروگے یعنی بقیہ سود نہ چھوڑوگے تو اللہ اوررسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔

وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۝۰ۚ

اور اگر تم توبہ کرلو( اور بقیہ سود چھوڑدو) تو تم کواصل رقم لینے کا حق ہے۔

لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ۝۲۷۹

نہ تم کسی پر ظلم کر پاؤگے اورنہ کوئی تم پر ظلم کر پائے گا۔

توضیح : تم سود لے کر دوسروں کا نقصان کرواورنہ اصل کوچھوڑکر اپنا نقصان کرو۔

وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ۝۰ۭ
وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۸۰

اوراگر مقروض تنگدست ہو(قرض ادا کرنے کے موقف میں نہ ہو) تومیسر ہونے تک مہلت دو (یعنی ادائی کے قابل ہونے تک مطالبہ نہ کرو)
اوراگر (قرض) معاف کردو توتمہارے لیے اور بھی بہتر ہے۔ اگر تم سمجھو (کہ تمہارے لیے اس میں کتنا خیر ہے)

توضیح :سود کے امتناعی احکام آجانے کے بعد تمہارے قلوب میں سودی کاروبار کا شائبہ نہ آنا چاہئے۔ چاہے تمہاری حالت کتنی ہی سقیم ہو۔

وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْہِ اِلَى اللہِ۝۰ۣۤ

ڈرو اس دن (کے نقصان) سے جس دن تم اللہ تعالیٰ کے پاس (محاسبہ اعمال کے لیے) لوٹائے جاؤگے۔

ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝۲۸۱ۧ

پھر ہر شخص کو اس کا کیا ہوا پورا پورا بدل ملے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائےگا۔
(کسی حاجت مند کو قرض دینا بھی انفاق فی سبیل اللہ کی ایک شکل ہے)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْہُ۝۰ۭ
وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ۝۰۠
وَلَا يَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ يَّكْتُبَ كَـمَا عَلَّمَہُ اللہُ فَلْيَكْتُبْ۝۰ۚ
وَلْيُمْلِلِ الَّذِيْ عَلَيْہِ الْحَـقُّ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ وَلَا يَبْخَسْ مِنْہُ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ

ائے ایمان والو یہ سلسلۂ قرض جب تم ایک مقررہ میعاد تک کے لیے کسی سے معاملہ کروتواس کو لکھ لیا کرو۔

اورکاتب کوچاہئے کہ تمہارے درمیان عدل وانصاف کیساتھ لکھے۔
اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھایا ہے اس کوچاہئے کہ(بلاعذر) لکھ دیا کرے۔
اور وہ شخص لکھوادے جس پر حق ہے (یعنی دستاویز کا لکھا دینا قرض دار کے ذمہ ہے) اور اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اوراس میں ذرہ برابر کمی نہ کرے (یعنی الفاظ معاہد میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرے۔)

فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْہِ الْحَـقُّ سَفِيْہًا
اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّـمِلَّ ھُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِــيُّہٗ بِالْعَدْلِ۝۰ۭ
وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ۝۰ۚ

پھر اگر وہ شخص جس پر حق ہے (یعنی قرض لینے والا) کم عقل ہو (اور ادائے مطلب پرقادر نہ ہو۔)
یاناتوان (ونحیف) ہو۔ یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تواس کا ولی( یا کارپرداز) ٹھیک طورپرانصاف سے لکھے۔

اوردستاویز لکھتے وقت تم میں سے دوافراد گواہ کرلیے جائیں۔

توضیح :یہ گواہ مسلمانوں میں سے ہوں کافروں میں سے نہ ہوں۔

فَاِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ
فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَاۗءِ

پھراگر گواہی کے لیے دومرد نہ ملیں۔
توایک مرد اوردو عورتیں جن پر فریقین کواعتماد ہو گواہ کرلیے جائیں۔

اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىہُمَا الْاُخْرٰى۝۰ۭ
وَلَا يَاْبَ الشُّہَدَاۗءُ اِذَا مَا دُعُوْا۝۰ۭ وَلَا تَسْــَٔـــمُوْٓا اَنْ تَكْتُبُوْہُ صَغِيْرًا اَوْ كَبِيْرًا اِلٰٓى اَجَلِہٖ۝۰ۭ
ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ وَاَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ
وَاَدْنٰٓى اَلَّاتَرْتَابُوْٓا
اِلَّآ اَنْ تَكُـوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِيْرُوْنَہَا بَيْنَكُمْ
فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا

تاکہ(کیونکہ) ان دونوں میں سے اگر ایک بھول جائے تودوسری یاد دلائے۔
اور گواہ بھی انکار نہ کریں، جب وہ بلائے جائیں ۔
اور تم اس (دستاویز) کے لکھنے میں جومعیاری ہوکاہلی نہ کرو۔ خواہ وہ (قرض) تھوڑا ہو یا بہت۔
اس طرح لکھ لینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک منصفانہ روش ہے اور صفائی معاملہ کے لیے درست طریقہ ہے۔
اور (شرائط ادائی میں) شک وشبہات کے پیدا ہونے کا بہت کم امکان ہے۔
الاّ اس کے کہ جو معاملت نقد اور ہاتھوں ہاتھ ہو۔

ایسی معاملت کے نہ لکھنے پر تم پر کوئی گناہ نہیں۔

وَاَشْہِدُوْٓا اِذَا تَبَايَعْتُمْ۝۰۠
وَلَايُضَاۗرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَہِيْدٌ۝۰ۥۭ

وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ۝۰ۭ

اور (تجارتی) معاملہ طے کرتے وقت گواہ کرلیا کرو۔
اور (اہل معاملہ کو چاہئے کہ) کاتب وگواہ کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائے ( کہ وہ ان کے مفادات کے خلاف صحیح شہادت دیتے ہیں۔
اور اگر تم ایسا کروگے (یعنی انھیں اذیت پہنچاؤگے) توتمہارے لیے یہ گناہ کی بات ہے۔

توضیح :یہاں فسق کی تعریف متعین ہوتی ہے یعنی جو لوگ پابند شریعت ہیں معاشرتی احکام میں کسی جز کی بھی نافرمانی کریں تواطاعت سے انحراف کی تعریف میں آئے گا اسی کو حق تعالیٰ فسق کہتے ہیں۔

وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ وَيُعَلِّمُكُمُ اللہُ۝۰ۭ

اوراللہ تعالیٰ سے ڈرو (یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام بد کو پیش نظر رکھو) اوراللہ تعالیٰ ہی تم کویہ تعلیم دیتے ہیں۔

وَاللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۲۸۲

وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ وَّلَمْ

اوراللہ تعالیٰ ہر شئے کی اصل وحقیقت کوجانتے ہیں۔(جانتے ہیں کہ تمہارے معاملات کی صفائی کن طریقوں سے ہوتی ہے۔)
اور اگر تم سفر پرہو(اورتم کوقرض کی ضرورت پیش آئے) اور تمہیں کاتب

تَجِدُوْا كَاتِبًا
فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ۝۰ۭ
فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا
فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ

وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ۝۰ۭ
وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ۝۰ۭ
وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝۲۸۳ۧ

بھی نہ مل سکے۔
تواپنی کوئی مملوکہ چیزقبضے کے ساتھ رہن رکھ کر قرض لو۔
پھر اگر تم ایک دوسرے پراعتماد کرلو۔
توجس پربھروسہ کیا گیا ہے (یعنی جن کے پاس امانت رکھی گئی) اس کوچاہئے کہ امانت بجنسہ لوٹادے۔
اوراللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے۔
اور شہادت کونہ چھپاؤ۔
جو اس کوچھپائے گا توبیشک اس کا دل گنہگار ہے۔
اللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔

لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ

جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے(اوربلاشرکت غیرے اسی کے قبضے وتصرف میں ہے۔)

وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ يُحَاسِبْكُمْ بِہِ اللہُ۝۰ۭ
فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

اورجوباتیں تمہارے دلوں میں ہیں تم اگر ان کوظاہر کرویا چھپائے رکھو اللہ تعالیٰ تم سے اس کا حساب لیں گے۔
پھر وہ جس کوچاہیں بخش دیں اور جس کو چاہیں عذاب دیں۔

توضیح : حق سبحانہ تعالیٰ کے قانون جزاء اور سزاء میں کوئی فرد خلق رائے ومشورہ دینے کا مجاز نہیں ہے۔

وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۸۴

اوراللہ تعالیٰ ہرچیز پرقادر ہیں۔

توضیح : کسی کی سفارش ومشورہ کے بغیر اپنے ذاتی علم کی بناء پر بندوں کی جزا وسزا کا فیصلہ کرنے پر پوری طرح قادر ہیں۔

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ
كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۝۰ۣ

(اصلاحِ عقیدہ وعمل کی) جو تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولؐ پرنازل کی گئی اس کو رسول بھی مانتے ہیں اور اہل ایمان بھی۔
سب کے سب اللہ تعالیٰ پراوراس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اوراس کے پیغمبروں پرایمان رکھتے ہیں۔

لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۝۰ۣ

(اورکہتے ہیں) ہم اسکے رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے۔

توضیح : سب پیغمبر ایک ہی دین لے کر تشریف لائے ہر رسول نے عقائد کی ایک ہی تعلیم دی۔ مختلف مذاہب جو رسولوں سے منسوب کردیئے گئے ہیں، غلط ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس کتاب میں عقائد کی وہی تعلیم ہے جو سابق سے رسول پیش کرتے آئے ہیں۔

وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۤۡ

غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ۝۲۸۵

اوران سب نے کہا ہم نے (احکام الٰہی کو)توجہ سے سنا اور ہم نے اطاعت قبول کرلی۔
ائے ہمارے پروردگار ہم آپ سے مغفرت مانگتے ہیں اورآپ ہی کی طرف لوٹ کرآنا ہے۔

توضیح : ایمان و عمل صالح کا مقصد نجات ومغفرت ہے۔مومن کا نصب العین رضائے الٰہی ہونا چاہئے۔

لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔

توضیح :ہرانسان میں حصول منفعت اور دفع مضرت کے لیے جدوجہد کرنے کا فطری ملکہ ہے۔ اس جدوجہدمیں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ اس کوبہ خوشی برغبت قلبی برداشت کرتا ہے۔ اور یہ صلاحیت ہرانسان میں ہے اسی کا نام وسعت نفسی ہے۔

لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۝۰ۭ

اس کو ثواب بھی اسی کا ملتا ہے جوارادے سے کرے اور اس پر عذاب بھی اسی کا ہوگا جو وہ ارادہ سے کرے۔

توضیح : جس نے کتاب وسنت کے مطابق اچھے کام کیے اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جس نے برے کام کئے اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔

یعنی 

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا۝۰ۚ
رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَـمَا حَمَلْتَہٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا۝۰ۚ

رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ۝۰ۚ 

ائے ہمارے پروردگار ہماری بھول چوک اورہماری خطاؤں پرمواخذہ نہ کیجئے۔
ائے ہمارے پروردگار ہم پرایسے سخت احکام کا بار نہ ڈالیے جیسا کہ ہم سے پہلے کے لوگوں پر(ان کی سرکشی اورگناہوں کی پاداش میں) آپ نے ان پر ڈالا تھا۔
ائے ہمارے پروردگار ہم پرکوئی ایسا بار نہ ڈالیے جوہمارے لئے ناقابل برداشت ہو۔

وَاعْفُ عَنَّا۝۰۪ وَاغْفِرْ لَنَا۝۰۪ وَارْحَمْنَا۝۰۪
اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۸۶ۧ

اورہم سے (ہماری خطائیں) درگزرکیجئے اورہمیں بخش دیجئے اورہم پر رحم کیجئے۔
آپ ہی ہمارے کارساز ہیں لہٰذا کافروں کی قوم پر ہم کو نصرت عطا فرمائیے (غالب رکھئے)