☰ Surah
☰ Parah

سورۃ التوبہ
اس سورۃ کے ابتدائی حصّہ کو سمجھنے کے لیے صلح حدیبیہ کے واقعہ کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ قریش مکّہ اپنی پیہم نا کا میوں اور اہلِ ایمان کی بڑھتی ہوئی جمعیت وقوت کو دیکھ کر کچھ سہمے ہوئے بھی تھے ماہ ذیقعدہ ۶ ھ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے خواب کی بناء پر طواف ِ کعبہ کے لیے مدینہ سے چل کر مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو آپ کو اطلاع ملی کہ مشرکین مکہ نے مزاحمت کرنے اور لڑنے کی تیاری کر رکھی ہے۔ مگر دوسری طرف مسلمانوں کے جوش و خروش اور جذبہ جاں نثار ی کو دیکھ کر وہ خائف بھی تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ جِدال وقتال کی کوئی صورت پیدا ہو۔ اس لیے وہ فوراً ہی مسلمانوں سے صلح کے لیے آمادہ ہوگئے۔ چند شرائط پر صلح ہوئی یہ واقعہ ’’ صلح حدیبیہ‘‘ کہلا تاہے۔ اس صلح نامہ کے دو فقرے حسب ذیل ہیں:
۱ ۔ فریقین دس سال تک باہم صلح و آشتی سے رہیں گے اور مکّہ و مدینہ آنے جانے میں کسی فریق کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہ ہوگی۔
۲۔ جو قبائل چاہیں قریش کے طرف داررہیں، اور جو قبائل چاہیں مسلمانوں کے دوست بن کرر ہیں۔ ان دوست قبائل کے بھی یہی حقوق رہیں گے۔
قریش مکّہ ان شرائط کی پابندی نہ کرسکے۔ چند مہینوں کے بعد قریش کے ایک طرفدار قبیلہ نے مسلمانوں کے ایک دوست قبیلہ کو لوٹ لیا۔ یہ لوگ حضرت رسول اللہﷺ کے پاس فریاد لے کر آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کو لکھا کہ تم نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہٰذا تین شرطیں تمہارے سامنے رکھی جا تی ہیں۔
۱۔ مقتولین کا خوں بہا دیا جائے۔
۲۔ اپنے طرفدار قبیلے سے قطع تعلق کیا جائے۔
۳ ۔یا یہ اعلان کر دیا جائے کہ حُدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا گیا۔
قریش نے صرف تیسری شرط قبول کی۔ سورئہ توبہ کا آغاز معاہدہ حُدیبیہ کی پابندیوں سے دست بر داری کے اعلان سے کیا گیا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

بَرَاۗءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۱ۭ

اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس معاہدہ کے شرائط کی ذمہ داریوں سے سبکد وشی کا اعلان ہے جو تم نے (ائے مسلمانو) مُشرکین سے کر رکھا تھا۔

فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ

لہٰذا (ائے مشرکو) تم اب ملک میں چار مہینے چل پھرلو۔

وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللہِ۝۰ۙ

اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔

وَاَنَّ اللہَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ۝۲

(اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے) اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ کافروں کو رسوا کریں گے۔

توضیح : یہ اعلان حج کے موقع پر ہوا تھا اس لیے ۱۰ ؍ذوالحجہ سے ۱۰ ؍ربیع الآخر چار مہینوں کی مہلت انھیں دی گئی ۔(ابن جریر)

وَاَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ

اور اللہ ورسول کی طرف سے حج اکبر کے دن عام لو گوں کے سامنے اعلان کیا جا تا ہے کہ

اَنَّ اللہَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۰ۥۙ وَرَسُوْلُہٗ۝۰ۭ

اللہ اور اس کے رسول بری الذمہ ہیں اِن شرائط معا ہدہ سے جو مشرکین سے طے پائے تھے۔

فَاِنْ تُبْتُمْ فَہُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝۰ۚ

تمہارے

وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللہِ۝۰ۭ

اور گر تم نے رو گردانی کی تو پھر جان لو کہ تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے (اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے)

وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ۝۳ۙ

اور (ائے نبی ﷺ ) ان کا فروں کو درد ناک عذاب کی خبردیجئے۔

اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ

البتہ وہ مشرکین مستثنیٰ ہیں جن کے ساتھ تم نے (چار ماہ سے زیا دہ کا ) عہد کیا ہو

ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا

اور کیے ہوئے عہد میں انھوں نے کسی طرح کی کوتا ہی نہ کی ہو۔

وَّلَمْ يُظَاہِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْہِمْ عَہْدَہُمْ اِلٰى مُدَّتِہِمْ۝۰ۭ

اور تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد نہ کی ہو تو ان سے کیے ہوئے معا ہدہ کی مُدت پوری کرو۔

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝۴

بیشک اللہ تعالیٰ پر ہیز گاروں(احتیاط کرنیوالوں کو) پسند کرتے ہیں۔

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ

پھر جب معا ہدے کے مہینے گزر جائیں تو

فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْہُمْ

ان مشر کین کو جہاں پائو قتل کردو۔

وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ۝۰ۚ

اور انھیں پکڑو گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ اُن کی تاک میں بیٹھو۔

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ

پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کی پابندی کریں

وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَہُمْ۝۰ۭ

اور زکوٰۃ دیتے رہیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو

اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۵

بلاشبہ اللہ تعالیٰ (توبہ کے بعد) بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں

وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ

اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے

فَاَجِرْہُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ

تواس کو پناہ دیجئے (اپنے پاس رکھیئے) تاکہ وہ آپ کی مجلسوں میں بیٹھ کر کلامِ الٰہی سنے

ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ۝۰ۭ

پھر اس کو اس کے امن کی جگہ (اس کے گھر ) پہنچا دیجئے۔

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُوْنَ۝۶ۧ

یہ حکم اس لیے ہے کہ وہ (علم الٰہی سے) بے خبر قوم ہے۔

كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ

ان مشرکین کیلئے(جنھوں نے بد عہد ی کی) اللہ اور رسول کے نزدیک ان سے کیا ہوا عہد کس طرح بر قرار رہ سکتا ہے؟ (یعنی انھیں کس طرح امان مل سکتی ہے)

اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۚ

سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے کعبۃ اللہ کے قریب عہد لیا ہے۔

فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَہُمْ۝۰ۭ

اگر وہ تم سے کیے ہوے عہد پر قائم رہیں تو تم بھی اُن سے کئے ہوئے اپنے قول و قرار پر قائم رہو

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝۷ كَيْفَ 

بے شک اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو دوست رکھتے ہیں۔ بھلا کس طرح ان لو گوں کا پاس ولحاظ کیا جا سکتا ہے جن کا حال یہ ہو کہ 

وَاِنْ يَّظْہَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً۝۰ۭ

اگر وہ تم پر قابو پائیں تو نہ تمہاری قرابت ہی کا پاس و لحاظ رکھیں اور نہ کسی قول وقرار کا

يُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ

یہ لوگ تم کو اپنی زبانی باتوں سے راضی کرتے ہیں۔

وَتَاْبٰي قُلُوْبُہُمْ۝۰ۚ وَاَكْثَرُہُمْ

اور ان کے دِل(معاہدات کی پابندی سے) گریز کرتے ہیں اور ان کی

فٰسِقُوْنَ۝۸ۚ

اکثر یت بد عہد ہے۔

اِشْتَرَوْا بِاٰيٰتِ اللہِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰ۭ

وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے عوض تھوڑا سا فائدہ حاصل کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں
(یعنی دنیا کے فائدے کے لیے دین فروشی کرتے ہیں)

اِنَّہُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۹

وہ کیا ہی بُرے کام کرتے ہیں ۔

لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً۝۰ۭ

یہ لوگ کسی مسلمان کے بار ے میں نہ کسی قرابت داری کا پاس ولحاظ کرتے ہیں اور نہ اپنے قول و قرار کی ذمہ داری کا انھیں احساس ہے۔

وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُعْتَدُوْنَ۝۱۰

یہ سب حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۝۰ۭ

لیکن اگر وہ ا(اپنی کافرانہ اور مخالِفانہ روش سے)توبہ کرلیںاور نماز کا التزام رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔

وَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝۱۱

اور ہم سمجھ سے کام لینے والوں کیلئے اپنے احکام تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَہْدِہِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ

اور اگر وہ عہد کرنے کے بعداپنی قسموں کو توڑدیں اور تمہارے دین پر طعن کر نے لگیں

فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّۃَ الْكُفْرِ۝۰ۙ

تو کُفر کے ان پیشوائوں سے جنگ کرو۔

اِنَّہُمْ لَآ اَيْمَانَ لَہُمْ

کیونکہ اب ان قسموں کا اعتبار نہیں،یہ بے ایمان ہیں

لَعَلَّہُمْ يَنْتَہُوْنَ۝۱۲

شاید کہ وہ (جہادہی کے خوف سے اپنی شرارتوںسے)بازآئیں۔

اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَہُمْ

(خبردار) کیا تم ایسی قوم سے نہیں لڑوگے جس نے اپنی قسموں کو توڑڈالا

وَہَمُّوْا بِـاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَہُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۝۰ۭ

اور وہ پیغمبر کو جلاوطن کرنے کے درپے ہوئے۔ انھوں نے تم سے عہدشکنی کی ابتداء کی تھی

اَتَخْشَوْنَہُمْ۝۰ۚ فَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۳

کیا تم ان کی اکثریت سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنا تو اللہ سے چاہئے (وہی ڈرنے کے لائق ہے)اگر تم مومن ہو۔
(ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی سے ڈریں غیر اللہ سے

قَاتِلُوْہُمْ يُعَذِّبْہُمُ اللہُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِہِمْ

نے ڈریں)
(بِلا خوف ضررجان ومال) اِن سے لڑو(جنگ کرو) اللہ تعالیٰ تمہارے ہی ہاتھوںانھیں عذاب دیں گے اور انھیں ذلیل وخوار کریں گے

وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْہِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۴ۙ

اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کریں گے(ان پر غلبہ دیں گے) اور اہلِ ایمان کے دِلوں کو تسکین عطا کریں گے

وَيُذْہِبْ غَيْظَ قُلُوْبِہِمْ۝۰ۭ

اور اُن کے دِلوں سے غیـض و غضب دُور کردیں گے

وَيَتُوْبُ اللہُ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ جس پر چاہتے ہیں خاص توجہ مبذول فرماتے ہیں۔

وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۱۵

اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے اور حکمت والے ہیں۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا

کیا تم خیال کرتے ہوکہ(امتحان وآزمائش کے دورسے گزرے بغیر یعنی راہِ حق میں جان مال کی بازی لگائے بغیر یوں ہی چھوڑ دئیے جائوگے؟

وَلَمَّا يَعْلَمِ اللہُ الَّذِيْنَ جٰہَدُوْا مِنْكُمْ

حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے آزمایاہی نہیں کہ کو ن تم میں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے؟

وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلَا رَسُوْلِہٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَۃً۝۰ۭ

اور (کون ہے جو) اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے سواکسی اور کو (اپناخصوصی) دوست نہیں بنایا؟

وَاللہُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۱۶ۧ

اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے جو کچھ تم کیا کرتے ہو باخبر ہیں۔

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللہِ

مشرکین کے لیے سزاوارنہیں ہے کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں

شٰہِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ بِالْكُفْرِ۝۰ۭ

اس حال میں کہ خود ہی اپنے کفر کی گواہی دے رہے ہوں (شرک اور کفر کی حالت میں اِن کا کوئی عمل قابلِ قبول نہ ہوگا)

اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ۝۰ۚۖ

یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے سارے اعمال ضـائع جائیں گے (یعنی ان کے نیک اعمال کا انھیں کوئی اجر نہ ملے گا)

وَفِي النَّارِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ۝۱۷

اور وہ ہمیشہ ہمیشہ دوخ میں رہیں گے۔

اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

بیشک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو وہی لو گ آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن (قیامت) پر (الٰہی ونبوی تعلیم کے مطابق)ایمان رکھتے ہیں۔

وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ

اور نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں

وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللہَ

اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔
یعنی ان کے قلوب مخلوق کے خوف سے بے پرواہ اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے معمور ہوتے ہیں

فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَ۝۱۸

اُمید ہے کے ایسے ہی لوگ ہدایت کے منازل طے کریں گے۔

اَجَعَلْتُمْ سِقَايَۃَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

(کُفر اور شرک کی حالت میں) حجاج کو پانی پلانے والے مسجدِحرام کے خدمت گارکو تم نے اس شخص کے برابر کا قراردے لیا ہےجو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے

وَجٰہَدَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ

اور جو اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دونوں کا درجہ ایک نہیں ہو سکتا۔ (ایمان کے بغیربیت اللہ اور حجاج کی خدمت کوئی حیثیت نہیں رکھتی)

وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۹ۘ

اور اللہ تعالیٰ ظالموں(مشرکوں) کو اصلاحِ عقائد کی سمجھ نہیں دیتے۔

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ

جولوگ ایمان لائے(جنھوں نے الٰہی تعلیم قبول کی) ترکِ وطن کیا اور اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کیے(جان ومال کی پرواہ کیے بغیرہجرت وجہاد کی منزلیں طے کیں۔ گھر سے بے گھرو بے سروسامان ہوئے)

اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ

اللہ تعالی کے پاس ان کے بڑے درجات ہیں

وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰

یہی لوگ با مُراد زندگی پانے والے ہیں ۔

يُبَشِّرُہُمْ رَبُّہُمْ بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَرِضْوَانٍ

ان کا پروردگار انھیں اپنی رحمت بے پایاں اور رضامندی کی خوشخبری سناتاہے۔

وَّجَنّٰتٍ لَّہُمْ فِيْہَا نَعِيْمٌ مُّقِيْمٌ۝۲۱ۙ

اور ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں جن میں بے شمار دائمی نعمتیں ہوں گی۔

خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝۰ۭ

جہاں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝۲۲

بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس (مہاجرین و مجاھدین کےلئے)اجر عظیم ہے۔ایسا اجر کہ یہاں اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ۝۰ۭ

ائے ایمان والو! اپنے باپ دادا اور بھائی بند کو دوست نہ بنائو(یعنی ان سے دِلی لگائو نہ رکھو) اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کرتے ہوں۔

توضیح : ہجرت کی جب اجازت ملی تو بعض حضرات بخوشی مدینے گئے اور بعض کو اپنے مال و اسباب اور اہل وعیال کے سبب پس وپیش ہوا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۳

اور تم میں سے کوئی اُن سے دوستی کرے گا تو ایسے ہی لوگ نا فرمان ہیں

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ

ائے نبی ﷺ (اہل ایمان سے) کہئے اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے

وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ

اور تمہارے بھائی بند اور تمہاری بیبیاں

وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا

اور تمہارا کُنبہ خاندان اور وہ مال جس کو تم نے کما یا ہے

وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا

اور وہ تجارت جس کی نکاسی نہ ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے

وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ

اور وہ مکا نا ت جن کو تم پسند کرتے ہو تمہیں اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں

فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ

تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (اپنے عذاب کا) حکم بھیج دیں۔

وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝۲۴ۧ

اور اللہ نا فرمانوں کو ہدایت نہیں دیتے ۔

توضیح : دین الٰہی کو قبول کرنے کا تقاضہ یہ ہے کہ کُنبہ برادری کے تعلقات اور دنیا کی محبوب چیز کی محبت دین الٰہی کی بقاء اور اشاعتِ حق کی جد و جہد میں مانع ومزاحم نہ ہو۔
۸ھ ہجری میں فتح مکّہ کے بعد ہی جنگ حنین پیش آئی۔ عرب کے دو بڑے قبیلے جن کے نام ہوازن اور ثقیف تھے انھیں اپنی بہادری کا بڑا زعم تھا۔ فتح مکّہ کے بعد انھوں نے خیال کیا کہ اگر مسلمان ہم پر حملہ کریں تو ہمارا مقابلہ نہ کر سکیں گے بلکہ ہم مسلمانوں کو شکست دے کر اہلِ مکّہ کی تمام جائداد پر قابض ہو جائیں گے اور مسلمانوں سے اپنے آبائی دین کی بے حرمتی کا انتقام بھی لیں گے۔ فتح مکّہ کے بعد دیگر قبائل تو اسلام کی طرف مائل ہوتے جا رہے تھے مگر قبیلہ ہوازن او ر ثقیف پر الٹا اثر ہوا۔ اُنھوں نے چند اور قبائل کو ہموار کیا اور چار ہزار منتخب بہادروں کو لے کر مکّہ کی طرف بڑھے اور وادئی حُنین میں جو مکّہ اور طائف کے درمیان واقع ہے، پڑائو کیا۔ اپنے سر دار قبیلہ کے مشورہ سے اپنے بیوی بچّے اور تمام مال وزراور مویشی کو بھی ساتھ لیا تاکہ کوئی ان کی محبت میں میدان جنگ سے فرار نہ ہونے پائے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملتے ہی آپؐ بھی پوری تیار ی کے ساتھ فوج لے کر مقابلے کے لئے نکلے۔اہل ایمان کی تعداد کم وبیش بارہ ہزارتھی اور دشمن صرف چار ہزار تھے ۔اس سے پہلے جتنی لڑائیاں ہوئیں ان میں صحابۂ کرام کی تعداد دشمنوں کے مقابلہ میں کم رہی تھی۔ یہ پہلی جنگ تھی جس میں صحابہ کرام کی تعداد بہت زیادہ اور دشمنوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ان حالات میں غیر شعوری طور پر جو بشری کمزوری پیدا ہوجا تی ہے اگلی آیتوں میں اسی کا ذکر ہے۔

 

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَۃٍ۝۰ۙ

یقیناً اللہ تعالیٰ نے جنگ کے کئی ایک مو قعوں پر تمہاری مدد کی ہے۔

وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ۝۰ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ

اور اسی طرح جنگ ِ حنین میں بھی جبکہ تم کو اپنی کثرت پر بھروسہ ہو گیا تھا۔
(تم یہ خیال کرنے لگے تھے کہ ہم تعداد میں زیادہ ہیں یقیناً دشمنوں پرغالب رہیں گے۔ اس طرح اعتماد علی اللہ وانا بت اِلیٰ اللہ کی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوئی جو پچھلی لڑائیوں میں ہوا کر تی تھی۔ظاہری اسباب پر بھروسہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کے طور پر کچھ دیر کے لیے تمہاری طرف سے اپنی توجہ ہٹا لی اور تم نے دیکھ لیا)

فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا

پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی۔

وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ۝۲۵ۚ

زمین اپنی وسعت کے با وجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کا بھاگ کھڑے ہوئے۔

ثُمَّ اَنْزَلَ اللہُ سَكِيْنَتَہٗ عَلٰي رَسُوْلِہٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ

پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مو منین پر تسکین نازل فرمائی

وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا وَعَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ وَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۶

اور فرشتوں کے ایسے لشکر اُتار ے جنھیںتم نے نہیں دیکھا اور کافروں (انکار حق کرنے والوں)کو سزا دی اور کافروں کی(دنیوی زندگی میں) یہی سزا ہے۔

توضیح : واقعہ یہ ہے کہ جب اسلامی فوجیں حنین کے قریب پہنچیں تو دشمن کے منتخب تیر انداز راستے کی گھاٹیوں میں چھپے بیٹھے تھے ۔ اسلامی فوج کا اگلا دستہ ان کی زد میں آتے ہی دشمن نےتیر برسانے شروع کر دیئے۔ اسلامی فوج میں انتشار پیدا ہوگیا اور فوج پلٹ کر ادھر اُدھر بھاگنے لگی۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ حال دیکھ کر پیچھے سے للکارا آئو میری طرف میں اللہ کا رسول ہوں۔ اسلامی فوج آپ کی آواز سن کر آپ کی طرف لوٹ آئی اور ایک جگہ جمع ہو کر دشمن پر حملہ کر دیا۔ پہلے ہی حملہ میں دشمن شکست کھا گئے۔

ثُمَّ يَتُوْبُ اللہُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ

پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جس پر چا ہا مہر بانی فر مائی

عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۲۷

اور اللہ بڑے ہی بخشنے رحم کرنے والے ہیں۔
(اب سر زمین عرب شرک و کفر کی گند گی سے پاک ہو چکی تھی، حکم دیا گیا)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ

ائے ایمان والو ! یقیناً مشرک نجس و نا پاک ہیں

فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا۝۰ۚ

لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔

توضیح : حج کے مہینے تجارت کے لیے مخصوص تھے۔ حج کے زمانے میں شہر مکّہ تجارت کی ایک بڑی منڈی بن جا تا ہے اطراف سے لو گ حج کے لیے مکّہ سے مختلف سا مان خرید لیتے اور اپنا سامان ان کو بیچتے اس کے علاوہ اس زمانے میں اہل مکّہ کے لیے آمدنی کے اور بھی ذرائع پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً سواری اور مکا نات کا کرایہ، اشیا ئے خورد ونوش کی خریدی وغیرہ اس امتناعی حکم کے بعد کہ آئندہ سے مشرکین مسجد حرام کے قریب بھی نہ آئیں، مکّہ کے مسلمانوں کے لیے تشویش ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس آیت کے ذریعہ تسلی فر مائی۔

وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَۃً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَاۗءَ۝۰ۭ

اور اگر تم کو مفلسی (یا تجا رت کے منقطع ہو جا نے ) کا اندیشہ پیدا ہواہے تو اللہ تعالیٰ عنقریب اپنے فضل سے تمہیں غنی کردے گا اگر چاہے

اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۲۸

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔
(تم سے زیادہ تمہارے مستقبل کو جانتے ہیں اور تمہارے نفع وضرر کو تم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔پھر تم کیوں اپنے مستقبل کے تعلق سے فکر مند ہو)

قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

(ائے ایمان والو) اُن لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ تعا لیٰ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ قیا مت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔

وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ

اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو اللہ رسول نے حرام بتلا یا ہے

وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ 

اورنہ دین حق کو قبول کرتے ہیں جو اہل کتاب میں سے ہیں،

حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ۝۲۹ۧ

یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جز یہ دینا قبول کرلیں اور مطیع ہو جائیں۔

وَقَالَتِ الْيَہُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللہِ

اور یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کے بیٹے ہیں۔

وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللہِ۝۰ۭ

اور عیسائی کہتے ہیں مسیح (ابن مریم ) اللہ کے بیٹے ہیں۔

ذٰلِكَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ۝۰ۚ

یہ ان کا من گھڑت قول ہے۔

يُضَاہِـــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ

ان کی یہ باتیں اُن کافروں کے قول کے مشابہ ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔

توضیح :مشرکین کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکومت چلانے کے لیے افرادِ خلق میں سے مقرب بندوں کو اپنا بیٹا بیٹی بنا لیتے ہیں اور اپنے اختیارات انھیں عطا کرتے ہوئے مختلف اُمور ان کے تفویض کرتے ہیں۔ یہ مقرب بندے اپنے اختیاراتِ حاصلہ کے تحت دنیا و آخرت کا نظام چلاتے ہیں۔یعنی بندوں کا رزق ۔ موت ، حیات، خوش حالی وبدحالی کا انتظام کسی کے جنّتی و دوزخی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مذہبی پیشوا ایسی مشر کا نہ تعلیم دیتے اور مُتبعین اس کو صحیح سمجھتے تھے۔ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ ان کے پیشوائوں سے نسبت و عقیدت ہی ان کی نجات کا ذریعہ ہے۔

قٰتَلَہُمُ اللہُ۝۰ۚۡاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۝۳۰

اللہ ان کو غارت کرے یہ کد ھر بہکائے جا رہے ہیں۔
(اسی عقیدے کے حامل لو گوں پر اللہ تعالیٰ پھٹکار فرماتے ہیں)

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ۝۰ۚ

انھوں نے اپنے علماء و مشائخ اور مسیح ابنِ مریم کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا۝۰ۚ

اور انھیں تو یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ اِلٰہ واحد کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں۔

لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۳۱

اس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مشرکا نہ باتوں سے پاک ومنزہ ہیں۔ جو وہ اللہ سے منسوب کرتے ہیں۔

توضیح :مآیات کریمہ۰۳ و۳۱سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ملائکہ وانبیاء علیہم السلام،بزرگان دین،صالحین اُمت اور مشائخین وغیرہ کو نا فع وضارقراردینا اور نافع وضـارقرار دینے کے لیے انھیں خدا کا بیٹا وغیرہ کہنا یہ سب اعمال شرک ہیں۔

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور(دین ِاسلام)کو اپنے منہ سے پھونک مارکر بجھادیں۔ (اس غرض سے اعتراض کرتے ہیںکہ دین کو فروغ نہ ہو)

وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۳۲

اور اللہ تعالیٰ تو اپنے دین کی روشنی پھیلاکر رہیں گے،چاہے کافروں (انکارِحق کرنے والوں) کو کتنا ہی بُرالگے۔

ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ

اللہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا۔

لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۳۳

تاکہ تمام افترائی ادیان پر دینِ حق کو غالب کر دے چاہے مشرک کتنے ہی نا خوش ہوں۔
(مقصدیہ ہے کے بنی آدم کی اکثریت اپنے من گھڑت اور افترائی ادیان کو چھوڑکردین ِحق کی پیروہوجائے)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ

ائے ایمان والو (ان) اہلِ کتاب کے اکثر علماء ومشائخ اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ

لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ

لوگوں کا مال نا جائزطریقوں سے کھاجاتے ہیں اور اُن کو راہ حق سے روکتے ہیں۔
(جو باتیں دین کی نہیں ہیں اُنھیں دینِ حق باور کراتے ہیں)

وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ

اور (جن کی دنیا پر ستانہ ذہنیت کا یہ حال ہے کہ) وہ ہر وقت چاندی سونے کے ذخائر جمع کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔

وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۙ

اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔

فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۳۴ۙ

(ائے نبیﷺ)انھیں دردناک عذاب کی خبر سُنادیجئے۔

يَّوْمَ يُحْمٰي عَلَيْہَا فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ

جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا

فَتُكْوٰي بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ۝۰ۭ

پھر اس سے ان کی پیشانیوں اور اُن کے بازوئوں اور اُن کی پشت کو داغا جائے گا

ہٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ

(پھر ان سے کہا جائے گا)یہ وہی خزانہ ہے جس کو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھاتھا۔

فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ۝۳۵

اب اس کا مزہ چکھو جس کو تم جمع کرتے رہے تھے۔

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِيْ كِتٰبِ اللہِ

یقیناً اللہ تعالیٰ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ مہینے ہے(یعنی اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ میں سال کے بارہ مہینے یہی مقرر فرمائے ہیں)

يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۝۰ۭ

(اس وقت سے)جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان بنائے۔ ان بارہ مہینوں میں چار مہینے حُرمت کے قرار دئے گئے۔

ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ۝۰ۥۙ

یہی دینِ مستقیم(دین کا سیدھا راستہ) ہے

فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْہِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّۃً كَـمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّۃً۝۰ۭ

لہٰذااِن مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم(قتال) مت کرو۔ اور مشرکین سے اپنی پوری اجتماعی قوت کے ساتھ لڑو۔ جس طرح وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ۝۳۶

اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہیں(یعنی ان کی مد د کرتے ہیں)

اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَۃٌ فِي الْكُفْرِ

یقیناً نسی(امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کرنا) منجملہ اور کافرانہ طریقوں کی ایک کا فرانہ روِش ہے۔
(نسی حُرمت کے مہینے کوغیرحرمت کا قرار دیتے ہوئے، غیر حرمت کے مہینے کو حرمت کا مہینہ قراردینا ہے)

يُضَلُّ بِہِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

اس سے کافر گمراہی میںپڑے رہتے ہیں۔

يُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّيُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا

کسی سال اس کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور کسی سال حرام کر لیتے ہیں۔

لِّيُوَاطِــــُٔــوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللہُ فَيُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللہُ۝۰ۭ

تا کہ اللہ تعالیٰ نے جو مہینے حرام کیے ہیں، ان کی موافقت ہو جائے اوراللہ تعالیٰ کا حرام کیا ہوا حلال ہوجائے۔

زُيِّنَ لَہُمْ سُوْۗءُ اَعْمَالِـہِمْ۝۰ۭ

(کفر کی پاداش میں) ان کے برے اعمال ان کی نظروں میں خوشنما بنا دئیے گئے ہیں۔

وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝۳۷ۧ

اللہ تعالیٰ(ایسے) کافروں کو ہدایت نہیں دیتے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ۝۰ۭ

ائے ایمان والو تمہیں کیا ہو گیا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں(جہاد کے لیے) نکلو تو تم زمین کی طرف جھکے جاتے ہو(تمہارے قدم بوجھل ہو جاتے ہیں)

اَرَضِيْتُمْ بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ

کیا تم آخرت(کی خیروابقٰی زندگی) کے مقابلہ میں دنیا(کی عارضی وقلیل زندگی)پر راضی ہو گئے ہو۔

فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِيْلٌ۝۳۸

دنیا کی زندگی کے فائدے آخرت کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہیں(کوئی حقیقت نہیں رکھتے)

اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝۰ۥۙ

اگر تم جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو درد ناک عذاب دیںگے

وَّيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ

اور تمہاری جگہ کوئی اور قوم پیداکریں گے(جو نہایت ہی فرمانبردار ہوگی اور تم اس کا کچھ بگاڑ نہ سکو گے۔)

وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۳۹

اور اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہیں۔

توضیح :جہاد فی سبیل اللہ سے جی چرانا اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کی محبت دل میں بسی ہوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے۔

اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَــصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

اگر تم(جہاد میں جان ومال سے) محمد ﷺ کی مدد نہ کروگے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس وقت مدد کی ہے جبکہ کافروں نے انھیں اپنے گھر سے نکل جانے پر مجبور کردیا تھا۔

ثَانِيَ اثْـنَيْنِ اِذْ ہُمَا فِي الْغَارِ

جبکہ دونوں میں سے ایک آپﷺ تھے جس وقت دونوں غارِ(ثور) میں تھے۔

اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا۝۰ۚ

اس وقت حضرت محمدﷺ نے اپنے ساتھی سے کہا، گھبرائو نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہیں۔

فَاَنْزَلَ اللہُ سَكِيْـنَتَہٗ عَلَيْہِ

پھر اللہ تعالیٰ نے اُن پر تسکین نازل فرمائی۔

وَاَيَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ كَلِمَۃَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى۝۰ۭ

اور اُن کے لیے ایسے لشکر سے مدد کی جنھیں تم دیکھ نہیں سکتے اور کافروں کی بات نیچی کردی۔

وَكَلِمَۃُ اللہِ ہِىَ الْعُلْيَا۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہی بلند بالا و برتر رہا

وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۴۰

اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکمت والے ہیں۔ (یعنی تجاویزِالٰہی نہایت ہی حکیمانہ اور اٹل ہیں)

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا

(ائے ایمان والو غزوئہ تبوک کے لیے) تم جس حال میں ہو نکلو(خواہ ہتھیار کم ہی کیوں نہ ہوں۔ کمی وزیادتی کا خیال نہ کرو)

وَّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرو

ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۴۱

یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ کاش تم اس کی افادیت کو جانتے

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ

اگر مالِ غنیمت سہل الحصول اور سفر ہلکا سا ہوتا(دُورکانہ ہوتا) تو یہ لوگ آپﷺ کا ساتھ دیتے۔

وَلٰكِنْۢ بَعُدَتْ عَلَيْہِمُ الشُّقَّۃُ۝۰ۭ

لیکن دُورکی مسافت اِن پر شاق گزرتی ہے۔

وَسَيَحْلِفُوْنَ بِاللہِ لَوِ اسْـتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ۝۰ۚ

اور وہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے اگر ہم طاقت رکھتے توآپﷺ کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے

يُہْلِكُوْنَ اَنْفُسَہُمْ۝۰ۚ وَاللہُ يَعْلَمُ اِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۴۲ۧ

وہ ایسے عـذر کر کے اپنے آپ کو ہلاک کرر ہے ہیں اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ یہ جھوٹے ہیں۔

عَفَا اللہُ عَنْكَ۝۰ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ

پیغمبر(ﷺ) اللہ آپ کو معاف کرے۔ آپ نے اُنھیں جہاد میں نہ چلنے کی اجازت کیوں دی؟

حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَ۝۴۳

تاآنکہ وہ لوگ آپ پر ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور آپ جھوٹوں کو بھی جان لیتے۔

لَا يَسْـتَاْذِنُكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی آپﷺ سے اس بات کی اجازت نہ چاہیں گے

اَنْ يُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِـہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۝۰ۭ

کہ انھیں اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنے مال سے جہادکرنے سے معاف رکھا جائے

وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالْمُتَّقِيْنَ۝۴۴

اور اللہ تعالیٰ متقین کو خوب جانتے ہیں۔

اِنَّمَا يَسْـتَاْذِنُكَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

یقیناً جو لوگ حقیقی معنوں میں اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہی جنگ میں نہ چلنے کی آپﷺ سے اجازت چاہتے ہیں۔

وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ فَہُمْ فِيْ رَيْبِہِمْ يَتَرَدَّدُوْنَ۝۴۵

اُن کے دل شک و شبہات میں پڑے ہوے ہیں پھر وہ اپنے اسی شک کی وجہ ڈانواڈول ہیں۔

وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً

اور اگر وہ جنگ میں چلنے کا ارادہ کرتے تو اس کیلئے کچھ تیاری بھی کر لیتے۔

وَّلٰكِنْ كَرِہَ اللہُ انْۢبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ

لیکن ان لوگوں کاآپﷺ کے ساتھ چلنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ تھا اس لیے انھیں اور بھی پست ہمت کردیا(چلنے کی تو فیق نہ دی)

وَقِيْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِيْنَ۝۴۶

اور کہہ دیا گیا بیٹھ رہنے والے(کاہل) لوگوں کے ساتھ بیٹھ رہیں۔

لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا

اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو وہ تمہارے لیے خرابی کے سِوا کسی چیز کا اضافہ نہ کر تے

وَّلَا۟اَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ يَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَۃَ۝۰ۚ

اگر وہ تمہارے ساتھ جنگ میں شریک بھی ہوتے تو وہ تمہارے لیے شروفسادہی برپا کرنے کے لیے دوڑے دوڑے پھر تے۔

وَفِيْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِـمِيْنَ۝۴۷

اور تم میں ان کے جاسو س بھی ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتے ہیں(اس لیے اللہ تعالیٰـ کو پسند نہیں کہ ایسے لوگ آپﷺ کے ساتھ چلیں)

لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَۃَ مِنْ قَبْلُ

اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے فتنہ پردازی کی ہے

وَقَلَّبُوْا لَكَ الْاُمُوْرَ

اور آپﷺ کو نقصان پہنچانے کیلئے بہت کچھ مکر و فریب اور اُلٹ پھیر کرتے رہے۔

حَتّٰي جَاۗءَ الْحَقُّ وَظَہَرَ اَمْرُ اللہِ وَہُمْ كٰرِہُوْنَ۝۴۸

یہاں تک کہ حق آپہنچا یعنی حق کی فتح ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا حکم غالب ہو کر رہا اور وہ (حق کو) بُراہی سمجھتے رہے۔

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَلَا تَفْتِنِّىْ۝۰ۭ

اور اُن منافقین میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو کہتا ہے مجھے اجازت دیجئے اور مجھے آفت میں نہ ڈالیئے۔

اَلَا فِي الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا۝۰ۭ وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِيْطَۃٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ۝۴۹

خوب سمجھ لو یہ لوگ آفت و خرابی میں پڑہی چکے ہیں اور یقیناً دوزخ اُن کافروں کو گھیرے ہو ئے ہے

توضیح : جدبن قیس آنحضرتﷺ سے کہا تھا اس لڑائی میں میراچلنا مشکل ہے لیکن مال سے آپ کے لشکر کی مدد کروںگا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

اِنْ تُصِبْكَ حَسَـنَۃٌ تَسُؤْہُمْ۝۰ۚ

اگر آپ کو کوئی اچھی حالت پیش آتی ہے تو اِنھیں بڑا دُکھ ہوتا ہے۔

وَاِنْ تُصِبْكَ مُصِيْبَۃٌ يَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ

اگر آپ کو مُصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم نے پہلے ہی سے اپنی حفاظت کا سامان کررکھا تھا

وَيَتَوَلَّوْا وَّہُمْ فَرِحُوْنَ۝۵۰

اور وہ خوش خوش لوٹ جاتے ہیں

قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللہُ لَنَا۝۰ۚ

کہئے ہمیں کوئی مُصیبت نہیں پہنچ سکتی سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ہمارے لیے لکھ دی ہو۔ (اپنے اپنے وقت پر نوشتۂ تقدیر کے مطابق تمام امورانجام پاتے ہیں)

ہُوَمَوْلٰىنَا۝۰ۚ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۵۱

وہی ہمارادوست وکارساز ہے اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے

قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ۝۰ۭ

(محمدﷺ)ان منافقین سے کہئے تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ایک کے منتظرر ہو (فتح یا شہادت)

وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ

اور ہم توتمہاراایک ہی انجام دیکھنا چاہتے ہیں

اَنْ يُّصِيْبَكُمُ اللہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْ بِاَيْدِيْنَا۝۰ۡۖ

یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے عذاب نازل کر دے یا ہمارے ہاتھوں سے پہنچا دے۔

فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ۝۵۲

پھر اس لحاظ سے تم انجام کار کے منتظر رہو ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں۔

قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْہًا لَّنْ يُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ۝۰ۭ

(محمدﷺ) کہئے کہ تم اللہ کی راہ میں رغبتِ قلبی کے ساتھ خرچ کرویا کر اہیت کے ساتھ۔ تم سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا۔

اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ۝۵۳

کیوں کہ تم عدول حکمی کرنے والے ہو۔

وَمَا مَنَعَہُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ

ان کا انفاق قبول نہ کرنے کی وجہ اس کے سوااور کچھ نہیں کہ انھوں نے

نَفَقٰتُہُمْ اِلَّآ اَنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَبِرَسُوْلِہٖ

اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا۔

وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَہُمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَہُمْ كٰرِہُوْنَ۝۵۴

اور نماز کے لیے آتے بھی ہیں تو بڑی ہی سُستی اور کاہلی کے ساتھ اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے مگر بڑی ہی نا گواری کے ساتھ

فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلَادُہُمْ۝۰ۭ

پس ائے نبی ﷺ آپ ان کے مال اور کثرتِ اولاد پر تعجب نہ کیجئے۔

اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا

اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اسی کثرتِ مال اور اولاد کے ذریعہ انھیں دنیا میں بھی مبتلائے عذاب رکھے

وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ كٰفِرُوْنَ۝۵۵

اور جب اُنکی جان نکلے تو (اُس وقت بھی)وہ کُفر ہی کی حالت میں ہوں۔

وَيَحْلِفُوْنَ بِاللہِ اِنَّہُمْ لَمِنْكُمْ۝۰ۭ

اور اللہ کی قسمیں کھا تے ہیں کہ وہ تمہیں میں سے ہیں(تمہاری ہی جماعت کے ایک فرد ہیں)

وَمَا ہُمْ مِّنْكُمْ وَلٰكِنَّہُمْ قَوْمٌ يَّفْرَقُوْنَ۝۵۶

اور(واقعہ ہے کہ) وہ تم میں سے نہیں ہیں۔( تم سے ڈر کر اپنے نفاق کو چُھپاتے ہیں) وہ ایک تفریق و جدائی ڈالنے والی قوم ہے

لَوْ يَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَيْہِ وَہُمْ يَجْمَحُوْنَ۝۵۷

اگر وہ کوئی بچائو کی جگہ (جیسے قلعے) یا غار یا زمین میں کوئی سُرنگ (زمین کے اندر گھس بیٹھنے کی جگہ) پائیں تو (بھاگ کر جلدی سے) اُس میں جاچھپیںگے

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ۝۰ۚ

اور اُن میں بعض ایسے بھی ہیں جو صد قات کی تقسیم میں آپﷺ کو الزام دیتے ہیں۔

فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا

اگر اُس میں سے اُنھیں (حسب خواہش) دیا جاتا ہے تو خوش ہو جاتے ہیں

وَاِنْ لَّمْ يُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ يَسْخَطُوْنَ۝۵۸

اگر اُس میں سے اُنھیں (حسبِ منشاء) نہ دیا جا ئے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔

وَلَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰىہُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ۝۰ۙ

اللہ اور اُس کے رسول نے جو کچھ انھیں دیا تھا۔اس پر اگر وہ راضی رہتے تو کیاہی اچھا ہوتا۔

وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ سَـيُؤْتِيْنَا اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہٗٓ۝۰ۙ اِنَّآ اِلَى اللہِ رٰغِبُوْنَ۝۵۹ۧ

اور وہ کہتے ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کافی ہیں آئندہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اور دیں گے اور اُس کے رسول بھی، ہم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف راغب ہیں۔(ہماری ساری اُمیدیں اللہ تعالیٰ ہی سے وابستہ ہیں)

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا

صدقات (زکوٰۃ خیرات)فقیروں اور مسکینوں کا حق ہے اور ان لوگوں کے لیے بھی جو اس کے وصول کرنے پر مامور ہوں۔

وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ

اور ان کے لیے جن کی تالیف قلوب مطلوب ہو اور غلاموں کو (غلامی سے) آزاد کرانے کے لیے

وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۭ

اور قرض داروں کے قرض کی ادائی میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔

فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۶۰

یہ حقوق ، اللہ کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے اور بڑی حکمت والے ہیں (زکوٰۃ کی مذکورہ تقسیم نہایت ہی عالمانہ و حکیمانہ ہے)

وَمِنْہُمُ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ النَّبِيَّ وَيَقُوْلُوْنَ ہُوَاُذُنٌ۝۰ۭ

اور اُن میں ایسے بھی ہیں جو نبی کریمﷺ کو ایذا دیتے ہیں، کہتے ہیں وہ تو مجسم کان ہیں۔

(سمجھ بوجھ نہیں رکھتے جو کوئی ہمارے تعلق سے کچھ کہہ دیتا ہے تو صحیح سمجھ لیتے ہیں اور جب ہم قسم کھا کر اُس بات کی تردید کرتے ہیں تو ہمیں سچاجانتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بات نہیں ہے کہ وہ حق وباطل میں تمیز نہیں کرتے ہیں بلکہ سچے اور جھوٹے کو خوب جانتے ہیں)

قُلْ اُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ

ان سے کہئے وہ تمہارے لیے اچھی اور خیر کی باتوں کو سنتے ہیں اللہ تعالیٰ اور مومنین(کی باتوں) پر یقین رکھتے ہیں(یعنی اہلِ ایمان کو قابلِ بھروسہ سمجھتے ہیں)

وَرَحْمَۃٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ۝۰ۭ

اور جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں ان کے لیے رحمت ہیں۔

وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللہِ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۶۱

اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اَذیت پہنچاتے ہیں اُن کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔

يَحْلِفُوْنَ بِاللہِ لَكُمْ لِيُرْضُوْكُمْ۝۰ۚ

یہ لوگ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو راضی کر لیں (کہ وہ تمہارے مخالف نہیں ہیں)

وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ يُّرْضُوْہُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝۶۲

حالانکہ اللہ اور اُس کے رسول زیادہ حقدار ہیں کہ وہ انھیں راضی رکھتے اگر واقعی مو من ہوتے۔

اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّہٗ مَنْ يُّحَادِدِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ

کیا یہ لو گ نہیں جانتے کہ جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے

فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِيْہَا۝۰ۭ

تو اُس کے لیے جہنّم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔

ذٰلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيْمُ۝۶۳

یہ بڑی ہی ذلّت اور رسوائی ہے ۔

يَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْہِمْ سُوْرَۃٌ

مُنافقین ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی ایسی سورۃ نازل نہ ہوجائے

تُنَبِّئُہُمْ بِمَا فِيْ قُلُوْبِہِمْ۝۰ۭ

کہ اُن کے دل کی باتوںکو ان (مسلمانوں) پر ظاہر کردے۔

قُلِ اسْتَہْزِءُوْا۝۰ۚ اِنَّ اللہَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ۝۶۴

کہیئے کہ تم استہزا کیے جائو۔ جس بات سے تم ڈرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور ظاہر کریں گے۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ۝۰ۭ

اور اگر آپﷺ ان سے (اس بارے میں)پوچھ گچھ کریں تو کہیں گے ہم یوں ہی دل لگی کی باتیں کر رہے تھے۔

قُلْ اَبِاللہِ وَاٰيٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ كُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُوْنَ۝۶۵

کہئے کیا تم اللہ اور اس کے احکام اور اس کے رسول کے ساتھ ہنسی کرتے ہو؟

لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ۝۰ۭ

بہانے نہ بنائو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔

اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَاۗىِٕفَۃٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَاۗىِٕفَۃًۢ بِاَنَّہُمْ كَانُوْا مُجْرِمِيْنَ۝۶۶ۧ

اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف بھی کردیں تو دوسری جماعت کو ان کے مجرمانہ اعمال کی وجہ عذاب دیں گے۔

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝۰ۘ 

منافق مرداور منافق عورتیں سب ایک طرح کے ہیں

يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ

برائی کا حکم دیتے ہیں(یعنی اسلام کی مخالفت پر اُبھارتے ہیں) اور اچھے کاموں سے منع کرتے ہیں(ایمان لانے سے روکتے ہیں)

وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَہُمْ۝۰ۭ

اور راہِ حق میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھوں کو بندرکھتے ہیں۔

نَسُوا اللہَ فَنَسِيَہُمْ۝۰ۭ

انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایتوں کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اُن سے اپنی نظر رحمت ہٹالی(انھیں ہدایت و توفیق نہ دی)

اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۶۷

بلاشبہ یہ منافق بڑے ہی سرکش ہیں۔

وَعَدَ اللہُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۭ

منافق مرد اور مُنافق عورتوں اور کُفّار سے اللہ تعالیٰ نے آتشِ جہنّم کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ جلتے رہیں گے۔

ھِىَ حَسْبُہُمْ۝۰ۚ وَلَعَنَہُمُ اللہُ۝۰ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ۝۶۸ۙ

وہ ان کیلئے کافی ہے (اُن کے کفرکی سزا ہے) اور ان پر اللہ کی لعنت ہے (وہ اللہ کی رحمت سے دور کردیئے گئے) ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔

كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّۃً وَّاَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا۝۰ۭ

(ائے مُنافقو) تمہاری حالت اُن لوگوں کی سی ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں جو تم سے زیادہ طاقت ورتھے اور رتم سے زیادہ مال واولاد رکھتے تھے۔

فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِہِمْ

انھوں نے(دنیامیں) اپنے حصّہ سے خوب فائدہ اٹھایا

فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ

تو تم نے بھی اپنے حصّے سے خوب فائدہ اُٹھایا۔

كَـمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِہِمْ

جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اپنے حصّے سے فائدہ اُٹھایا تھا

وَخُضْتُمْ كَالَّذِيْ خَاضُوْا۝۰ۭ

اور باطل کے تعلق سے تم ایسی ہی بکواس کرتے ہو جیسی کہ وہ کیا کرتے تھے۔

اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۶۹

یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیاو آخرت میں ـضائع ہو گئے اور وہ نقصان میں رہے۔

اَلَمْ يَاْتِہِمْ نَبَاُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ

کیا ان کے پاس ان سے پہلے کے لوگوں کی خبریں نہیں پہنچی ہیں(جو عذاب الٰہی سے ہلاک کیے گئے)

قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ۝۰ۥۙ وَقَوْمِ اِبْرٰہِيْمَ وَاَصْحٰبِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكٰتِ۝۰ۭ

قوم نوحـ اور قوم عاد اور قوم ابراہیم اوراہلِ مدین اور دوسری اُلٹی ہوئی تباہ شدہ بستیاں

اَتَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ۝۰ۚ

جن کے پاس اُن کے پیغمبر نہایت ہی واضح نشانیاں لے کر آئے(مگر وہ ظلم ہی کرتے رہے)

فَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَ۝۷۰

لہٰذااللہ تعالیٰ نے اُن پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خودہی اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے۔

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۘ

اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔

يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ

وہ بھلائی کی تعلیم دیتے ہیںاور برائیوں سے روکتے ہیں اور وہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔

وَيُطِيْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ

اور وہ اللہ رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔

اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُہُمُ اللہُ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۷۱

یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ضروراپنی رحمت فرمائیںگے بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکیم ہیں۔

وَعَدَ اللہُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا

اللہ تعالیٰ نے مو من مردوں مومن عورتوںسے ایسے باغوں کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

وَمَسٰكِنَ طَيِّبَۃً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ۝۰ۭ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ اَكْبَرُ۝۰ۭ

اور نفیس ترین مکانات جو ہمیشگی کے باغوں میں ہوں گے۔ اور رــضائے الٰہی سب سے بڑی نعمت ہے(کیونکہ اس کے بغیر کوئی شخص مغفرت وجنّت کا مستحق نہیں ہو سکتا)

ذٰلِكَ ہُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۷۲ۧ

در اصل یہی بڑی کامیابی ہے۔

توضیح :م بعض کہتے ہیں کہ عبادت کا مقصود مغفرت و جنّت نہ ہو نا چاہئے بلکہ صرف رضائے الٰہی مطلوب ہو۔اور استدلال میں یہ آیت کریمہ پیش کی جاتی ہے۔ حالانکہ جنّت ومغفرت تو بفہواے آیت کریمہ مقصود ہے ہی اس کے علاوہ یہ مقصد ہے کہ رضائے الٰہی پیشِ نظر ہو،رضائے خلق نہ ہو ۔

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ جَاہِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ

ائے نبی ﷺ کافروں اور منافقوں سے جہاد کیجئے

وَاغْلُظْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ وَمَاْوٰىہُمْ

اور ان پر سختی سے پیش آئیے(رعایت نہ کیجئے)

جَہَنَّمُ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝۷۳

(ایمان کے مقابلے میں نہ بھائی کی محبت حائل ہو نہ اولاد کی)ان کے رہنے کی جگہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی بُری جگہ ہے۔

يَحْلِفُوْنَ بِاللہِ مَا قَالُوْا۝۰ۭ

یہ لوگ قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ انھوں نے کُفر کی کوئی بات نہیں کہی۔

وَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَۃَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِہِمْ

حالانکہ انھوں نے کُفر کی بات کہی تھی۔ قبولِ اسلام کے بعد وہ کافر ہوگئے (اور مسلمانوں کو مغالطہ میں رکھا)

توضیح :م تبوک سے واپسی میں چند منافقین نے جن کی تعداد بارہ تھی ایک شب مشورہ کیا کہ فلاں گھاٹی سے آپ کی سواری گزرے گی۔سب مل کر آپﷺ کو ڈھکیل دیں اور پھر قتل کردیں وحی کے ذریعہ آپ کو معلوم ہوا۔ آپ نے سب کو بُلوایا اور ڈانٹ ڈپٹ کی۔ ان میں سے صرف ایک شخص جلاس نامی صدق دل سے اسلام قبول کیا۔

وَہَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا۝۰ۚ

اور وہ ایسے اُمور کا قصد کر چکے تھے جس پر قدرت نہ پاسکے

توضیح :منافقوں نے مہاجرین وانصار میں پھوٹ ڈالنے کا قصد کیا تھا۔ یا وہ واقعہ بھی ہوسکتا ہے کہ بارہ اشخاص حالتِ سفر میں آدھی رات گئے جمع ہو کر آنحضرتﷺ پر ہاتھ چلانا چاہا۔

وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰىہُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۚ

اُن کو مسلمانوں سے عنادکی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فــضل سے اور رسولﷺ نے اپنی مہربانی سے انھیں مالا مال کردیا۔

فَاِنْ يَّـتُوْبُوْا يَكُ خَيْرًا لَّہُمْ۝۰ۚ

پھر اگر وہ توبہ کر لیں تو ان کے لیے بہتر ہے۔

وَاِنْ يَّـتَوَلَّوْا يُعَذِّبْہُمُ اللہُ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝۰ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ

اور اگر اُنھوں نے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ انھیں دُنیاوآخرت میں دردناک عذاب دیں گے۔

وَمَا لَہُمْ فِي الْاَرْضِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۝۷۴

اور دنیا میں ان کا کوئی دوست و مددگار نہ ہوگا۔

وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللہَ لَىِٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِہٖ

اور اُن میں بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ اپنے فضل سے (انھیں)خوشحالی عطا کریں۔

لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۷۵

(تووہ) ـضرور خیر خیرات کریں گے اور نیکیوں پر نیکیاںکرتے رہیں گے۔

فَلَمَّآ اٰتٰىہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ

پھر جب ہم نے اپنے فضل سے انھیں خوشحال کر دیا تو وہ اس (عطاء میں) بخل کرنے لگے۔

وَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝۷۶

اور اپنے عہد سے پھر گئے(یعنی اپنی منافقانہ روِش پر اُتر آئے)اور وہ تو روگردانی کے عادی ہیں۔

فَاَعْقَبَہُمْ نِفَاقًا فِيْ قُلُوْبِہِمْ

تو اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا میں ان کے دلوں میں نفاق پیدا کردیا۔

اِلٰى يَوْمِ يَلْقَوْنَہٗ

اُس دن تک کے لیے جس دن وہ(محاسبۂ اعمال کے لیے) اللہ تعالیٰ کے سامنے لائے جائیں گے۔

بِمَآ اَخْلَفُوا اللہَ مَا وَعَدُوْہُ

اس سبب سے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کئے ہوے عہد کی خلاف ورزی کی

وَبِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۝۷۷

اور اس وجہ سے بھی کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔

اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ سِرَّہُمْ وَنَجْوٰىہُمْ

کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کے پوشیدہ رازوں خُفیہ سر گوشیوں، مشوروں سے تک واقف ہیں۔

توضیح :مان آیات کے نازل ہونے کی خبر سن کر ثعلبہ زکوٰۃ لے کر رسول اللہ ﷺکے پاس حاضر ہوا آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ کوتیری زکوٰۃ لینے سے منع فر مایا ہے۔ اس نے بہت ہائے وائے کی۔پھر حضرت صدیق اکبرــؓ کی خدمت میں زکوٰۃ لایا،آپ نے بھی قبول نہ کی۔ اس طرح حضرت عمرؓ وحضرت عثمانؓ نے بھی قبول نہیں کیا۔ یہاں تک کہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں مرگیا۔

وَاَنَّ اللہَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۝۷۸ۚ

اور یہ کہ اللہ تعالیٰ غیب کی تمام چیزوں کو بذاتہ جانتے ہیں۔

اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي الصَّدَقٰتِ

وہ لوگ(جو منافق ہیں) صدقات کے بارے میں اُن اہلِ ایمان کو جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں طعنہ دیتے ہیں(کہ یہ لوگ محض اپنی تعریف و تحسین شہرت و نمود کے لیے خرچ کرتے ہیں)

وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُہْدَہُمْ

اور وہ لوگ جو محنت ومزدوری کے سوا کچھ نہیں پاتے (یعنی محنت و مشقت سے کمائی ہوئی تھوڑی سی مزدوری ہی اٹھالے آتے ہیں تو منافق انھیں بھی الزام دیتے ہیں کہ سیر دوسیر اٹھالائے اور نام خیرات کرنے والوں میں۔)

فَيَسْخَرُوْنَ مِنْہُمْ۝۰ۭ سَخِرَ اللہُ مِنْہُمْ۝۰ۡوَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۷۹

پس وہ(منافق) اُن (اہلِ ایمان) کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی ان کواس تمسخرکا بدلہ دیں گے اور (آخرت میں)اُن کیلئے دردناک عذاب ہے۔

اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَہُمْ۝۰ۭ

ائے نبی(ﷺ) آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں

اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّۃً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَہُمْ۝۰ۭ

آپ اگر ستّر مرتبہ بھی ان کے لیے دُعائے مغفرت کریں تو اللہ تعالیٰ انھیں ہرگزمعاف نہیں کریں گے۔

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ۝۰ۭ

یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کُفر کیا(اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو نہ مانا)

وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝۸۰ۧ

اور اللہ تعالیٰ ایسے سرکش لوگوں کو ہدایت نہیں دیاکرتے۔

فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللہِ

جو لوگ جنگ(تبوک) میں پیچھے رہ گئے تھے وہ پیغمبر کی مرضی کے خلاف (عورتوں کی طرح) گھر بیٹھ رہنے پر خوش ہورہے تھے۔

وَكَرِہُوْٓا اَنْ يُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ 

اور اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرنا انھیں گوارہ نہ ہوا۔

وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ۝۰ۭ

اور دوسروں سے بھی کہتے رہے اس قدر گرمی میں(جہاد کے لیے) نہ نکلو (ہماری طری اجازت لے کر بیٹھ رہو)

قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا۝۰ۭ لَوْ كَانُوْا يَفْقَہُوْنَ۝۸۱

کہئے جہنّم کی آگ اس سے زیادہ سخت ہے ۔کاش وہ اس بات کو سمجھتے۔

فَلْيَضْحَكُوْا قَلِيْلًا وَّلْيَبْكُوْا كَثِيْرًا۝۰ۚ

پس(دنیا میں)تھوڑاساہنس لو تاکہ(آخرت میں) کثرت سے روتے رہو

جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۸۲

ان بداعمالیوں کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔

فَاِنْ رَّجَعَكَ اللہُ اِلٰى طَاۗىِٕفَۃٍ مِّنْہُمْ

ائے نبی ﷺجب بھی آپ کو ان لوگو ں کے کسی گروہ کے پاس واپس لے جائیں

فَاسْـتَاْذَنُوْكَ لِلْخُرُوْجِ

تو وہ آپﷺ سے آئندہ جہاد میں شرکت کی درخواست کریں گے۔

فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِيَ اَبَدًا

تو آپ صاف کہہ دیجئے کہ تم میرے ساتھ کبھی شریک جہاد نہیں ہوسکتے

وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِيَ عَدُوًّا۝۰ۭ

اور نہ میرے ساتھ ہو کر دشمن سے لڑوگے

اِنَّكُمْ رَضِيْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ

تم نے پہلی دفعہ گھروں میں بیٹھے رہنا پسند کیا تھا

فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِيْنَ۝۸۳

لہٰذا اب بھی گھر بیٹھ رہنے والی عورتوں کے ساتھ بیٹھ رہو

وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا

اور ائے نبیﷺ ان میں سے کوئی مرجائے تو کبھی اس پر نمازِجنازہ نہ پڑھئے۔

وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِہٖ۝۰ۭ

اور نہ اُس کی قبر پر کھڑے رہئے

اِنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ

(کیونکہ)انھوں نے اللہ اور اُس کے رسول ساتھ کُفر کیا

وَمَاتُوْا وَہُمْ فٰسِقُوْنَ۝۸۴

اور وہ مرے بھی تو کُفر ہی کی حالت میں مرے

وَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُہُمْ وَاَوْلَادُہُمْ۝۰ۭ

ان کے مال اولاد کی کثرت آپﷺ کو تعجب میں نہ ڈالے

اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّعَذِّبَہُمْ بِہَا فِي الدُّنْيَا

اللہ تعالیٰ تو چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ دنیا میں انھیں گرفتار عذاب رکھے۔

وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ كٰفِرُوْنَ۝۸۵

اور ان کا دَم بھی کفر ہی کی حالت میں نکلے۔

توضیح :ماولاد ومال ودولت کی فراوانی،خوشحال زندگی دیکھ کر سمجھنے لگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہیں اس طرح مرتے دم تک انھیں دین حق کو قبول کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔

وَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاللہِ وَجَاہِدُوْا مَعَ رَسُوْلِہِ

اور جب کوئی سورۃ نازل ہوتی ہے کہ اللہ پر ایمان لائو اوررسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو

اسْـتَاْذَنَكَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْہُمْ

تو اِن میں ذی استطاعت لوگ آپﷺ سے اجازت چاہتے ہیں۔

وَقَالُوْا ذَرْنَا نَكُنْ مَّعَ الْقٰعِدِيْنَ۝۸۶

اور کہتے ہیں ہمیں چھوڑ دیجئے ہم گھروں میں بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھ رہتے ہیں

رَضُوْا بِاَنْ يَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَـوَالِفِ

گھروں میں بیٹھ رہنے والی عورتوں کے ساتھ بیٹھ رہنا انھیں پسند آیا

وَطُبِـــعَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا يَفْقَہُوْنَ۝۸۷

اور ان کے دلوں پر مہر لگ گئی لہٰذااب وہ دین کو سمجھ نہیں سکتے

لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ جٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۝۰ۭ

لیکن رسول اور جولوگ رسول کے ساتھ ایمان لائے ہر مو قع پر اپنی جان ومال سے جہاد کرتے رہے۔

وَاُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْخَيْرٰتُ۝۰ۡ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸۸

انھیں کے لیے بھلائیاں ہیں(دنیامیں بھی آخرت میں بھی) اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں(آخرت کی کامیاب زندگی انھیں کے لیے ہے)

اَعَدَّ اللہُ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۸۹ۧ

اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی(اور جس کا نہایت ہی خوشنمامنظر ہوگا) یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

توضیح : جہاد ہی وہ خوبی ہے جس کے بعد کوئی گناہ باقی نہیں رہتااور جہاد نہ کرنا ایسا بڑا خلا ہے جس کو کوئی نیکی پُر نہیں کر سکتی۔

وَجَاۗءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَہُمْ

دیہاتیوں صحرانشینوں میں سے بھی کچھ لوگ عُذر کرتے ہوے آپ ﷺ کےپاس آئے کہ اُنھیں بھی رخصت دی جائے۔

وَقَعَدَ الَّذِيْنَ كَذَبُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ

یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ رسول سے جھوٹے عذرات کر کے بیٹھ رہے۔

سَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۹۰

اُن میں سے جن جن لوگوں نے اس طرح کی کافرانہ روش اختیار کی تھی اُنھیں دردناک عذاب پہنچ کر رہے گا۔

لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ

ضعیف و بیمار اور وہ لوگ بھی جو جنگ کے لیے کوئی ساز وسامان اپنے پاس نہیں رکھتے(نہ ہتھیار نہ سواری نہ سرمایہ) وہ جہاد میں شرکت نہ کریں تو کوئی ہرج نہیں

اِذَا نَصَحُوْا لِلہِ وَرَسُوْلِہٖ۝۰ۭ

بشرطیکہ اپنے دل میں اللہ ورسول سے خیر خواہی رکھتے ہوں۔

مَا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ۝۰ۭ

ایسے نیکو کاروں پر کوئی الزام نہیں

وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۹۱ۙ

اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم کرنے والے ہیں۔

وَّلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَآ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَہُمْ

اور نہ ان لوگوں پر کوئی الزام ہے جو جہاد میں شریک ہونے کے لیے آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں کہ ان کو سواری دو۔

قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُكُمْ عَلَيْہِ۝۰۠

آپ نے کہا تھا میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر تمہیں سوار کرائوں (سواری فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی)

تَوَلَّوْا وَّاَعْيُنُہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا يَجِدُوْا مَا يُنْفِقُوْنَ۝۹۲ۭ

تو وہ بڑی ہی آزر دگی کے ساتھ واپس ہو گئے اور اُن کی آنکھوں سے رنج کے مارے آنسورواں تھے

اِنَّمَا السَّبِيْلُ عَلَي الَّذِيْنَ يَسْـتَاْذِنُوْنَكَ وَہُمْ اَغْنِيَاۗءُ۝۰ۚ

بے شک الزام تو اُن لوگوں پر ہے جو دولتمند ہیں اور آپﷺ سے اجازت چاہتے ہیں۔

رَضُوْا بِاَنْ يَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ۝۰ۙ

انھوں نے( گھر میں بیٹھ رہنے والی) عورتوں کے ساتھ بیٹھے رہنا پسند کیا۔

وَطَبَعَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۹۳

اور اس پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اُن کے قلوب پر مہر کردی۔
(یعنی اُن کے دلوں سے قبولیتِ حق کی صلاحیت سلب کرلی)

يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَيْہِمْ۝۰ۭ

(جنگ کے بعد) جب تم ان لوگوں کے پاس واپس جاؤگے (جو جنگ میں شریک نہیں ہوئےتھے) تو وہ (شریکِ جنگ نہ ہونے سے متعلق) عذر پیش کریں گے۔

قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللہُ مِنْ اَخْبَارِكُمْ۝۰ۭ

وَسَيَرَى اللہُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُہٗ

ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ
فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۹۴

آپؐ (صاف صاف) کہہ دیجئے۔ تم کوئی عذر پیش نہ کرو ہم تمہارے کسی عذر کو صحیح نہ مانیںگے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے ہم کو تمہارے بارےمیں خبر دے دی ہے۔
اب اور آئندہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال دیکھتے رہیںگے اور اس کے رسول بھی۔
پھر تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤگے جو ظاہر و غائب کا پورا پورا علم رکھتے ہیں

پھر وہ تم کو تمہارے تمام اعمال کی حقیقت بتلادیں گے کہ تم نے کیا کیا کارگزاری کی تھی۔

توضیح :غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے منافقوں کا بیان ہے۔ ایسے منافق جو حیلے بہانے کرکے گھروں میں بیٹھ رہے تھے تعداد میں اسّی سے کچھ زیادہ تھے۔

سَيَحْلِفُوْنَ بِاللہِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَيْہِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْھُمْ۝۰ۭ فَاَعْرِضُوْا عَنْھُمْ۝۰ۭ
اِنَّھُمْ رِجْسٌ۝۰ۡوَّمَاْوٰىھُمْ جَہَنَّمُ۝۰ۚ
جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۹۵

جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤگے تو تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھائیںگے تاکہ (تمہارے دل) ان کی طرف سے صاف ہوجائیں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ان سے دور ہی رہو (انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو)
یہ بڑے ہی گندے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
یہ ان اعمال کی جزاء ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔

يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ۝۰ۚ

وہ تمہیں یقین دلانے کیلئے قسمیں کھائیںگے تاکہ تم ان سے راضی ہوجاؤ۔

فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْھُمْ فَاِنَّ اللہَ لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ۝۹۶

اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤگے تو اللہ تعالی نافرمان قوم سے راضی نہ ہوںگے۔

توضیح : کافرانہ ذہنیت۔ منافقانہ روش رکھنے والوں سے اور فاسقانہ زندگی گزارنے والوں سے اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے اگر کسی وجہ سے راضی ہوبھی جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہ ہوںگے بزرگوں سے خالی عقیدت رکھنے والوں کے لئےیہاں بڑی عبرت کا سامان ہے۔

اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّنِفَاقًا
وَّاَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ۝۰ۭ
وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۹۷

دیہاتی لوگ کفر و نفاق میں بہت ہی سخت ہیں۔

اور اس قابل ہیں کہ جو احکامِ (شریعت) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں وہ ان سے واقف ہی نہ ہوں۔
اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں (یعنی ہر تجویز الٰہی عالمانہ اور حکیمانہ ہے)

توضیح :حکیم ِحاذق کسی مریض کو دیکھ کر کہے کہ اس کا مرض اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اب اس کے صحت یاب ہونے کی کوئی توقع نہیں۔ دوا اور علاج اس کے لئے غیر مفید ہے تو حکیم کی اس تجویز پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ اللہ علیم و حکیم نے بھی اس آیت میں یہی بات فرمائی ہے۔

وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يَّتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَاۗىِٕرَ۝۰ۭ
عَلَيْہِمْ دَاۗىِٕرَۃُ السَّوْءِ۝۰ۭ

وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۹۸
وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يُّؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

اور ان دیہاتیوں میں بعض ایسے بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے ہی، اس کو تاوان (جرمانہ) سمجھتے ہیں۔ اور تمہارے حق میں حوادث زمانہ کے منتظر ہیں۔

انھیں پر برا وقت آنے والا ہے (اللہ تعالیٰ ایسے بدخواہوں کو کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا کرتے ہی رہتے ہیں)
اور اللہ تعالیٰ (ان کےاحوال بذاتہ) سننے اور جاننے والے ہیں۔
اور ان دیہاتیوں میں بعض ایسے (سلیم الطبع) بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔

وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ۝۰ۭ

اور وہ راہِ حق میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں، اس کو قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور رسول اللہ ﷺکی دعا کے خواستگار ہوتے ہیں۔

اَلَآ اِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّھُمْ۝۰ۭ

بے شک وہ ان کے لئے قرب الٰہی کاذریعہ ہے۔

سَـيُدْخِلُھُمُ اللہُ فِيْ رَحْمَتِہٖ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۹۹ۧ
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۙ
رَّضِيَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ
وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝۰ۭ
ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۰۰

عنقریب اللہ تعالیٰ انھیں اپنی رحمت میں داخل کریںگے۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔
مہاجرین اور انصار میں سے جنہوں نے ایمان لانے میں سبقت کی اور جن لوگوں نے اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کی

اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوئے اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے۔
اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی۔ جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیںگے

اور یہی دراصل بڑی کامیابی ہے۔

توضیح : اس آیت کریمہ میں قیامت تک ان تمام انسانوں کے لئے جو دین اسلام قبول کرتے ہیں، صحابہ کرام مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم کو معیار قرار دیا گیا ہے جنگ بدر تک جو مسلمان ہوئے وہ سابقون ہیں۔
جو لوگ صحابہ کرام کو دین میں معیار نہیں مانتے ان کے لئے یہ آیت قابلِ غور ہے۔ اسی آیت میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے، جو السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کو چھوڑ کر کسی ایسے صحابیؓ کے عمل سے استدلال کرتے ہیں جو السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے زمرہ میں شامل نہیں ہیں۔ اس آیت میں ان احادیث کی بھی تائید و تشریح ہوتی ہے جن میں صحابہ کرام کو دین و ایمان میں معیار قرار دیا گیا ہے۔ جیسے خلفائے راشدین والمہدین اور ما انا علیہ و اصحابی۔ اور یہ آیت ان لوگوں کے لئے بھی قابل غور ہے، جو مجرو رضائے الٰہی کو مقصود بناتے ہیں۔ مذکورہ آیت سے ثابت ہے کہ رضائے الٰہی کی تلاش بہ شکلِ دین اسلام وبہ اتباع صحابہ کرام مقصود ہے۔ رضائے الٰہی کا بدل جنت اور نعمائے جنت ہے اسی کے حصول کو ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ فرمایا گیا ہے۔

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ۝۰ۭۛ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَۃِ۝۰ۣۛؔ

اور تمہارے گرد و نواح (مدینہ کے قرب و جوار میں) دیہاتیوں میں سے (ایسے) منافق ہیں اور اہل مدینہ میں سے بھی

مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ۝۰ۣ لَاتَعْلَمُھُمْ۝۰ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ۝۰ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ

جو نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔ آپؐ ان کو نہیں جانتے ہم ان کو جانتے ہیں۔ عنقریب ہم ان کو (دنیا میں) دہری سزا دیںگے۔

ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ۝۱۰۱ۚ

پھر وہ (موت کے بعد) ایک بڑے بھاری عذاب کی طرف لوٹائے جائینگے۔

وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّــئًا۝۰ۭ

اور (ان کے علاوہ) کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں جنہوں نے (کچھ اچھے اور برے) ملے جلے عمل کئے تھے۔

عَسَى اللہُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۰۲

امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انکے حال پر توجہ فرمائیں (انکے گناہ معاف فرمادیں) بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی معاف کرنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔

توضیح : جب ابولبابہؓ کو معلوم ہوا کہ مُتَخَلِّفِیْن کے حق میں وعید نازل ہوئی ہے تو وہ نادم ہوکر اپنےآپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا اور قسم کھائی کہ کوئی ہم کو نہ کھولے اگر ہماری توبہ قبول ہوجائے تو آنحضرت ﷺہی اپنے دست مبارک سے ہم کو کھولیںگے ورنہ موت بہتر ہے۔ آنحضرت ﷺنے ہی کھولا (اس آیہ کریمہ کا شان نزول یہی ہے) (طبرانی)

خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ

ائے نبی ﷺان کے مال میں انھیں پاک و صاف کرنے کے لئے صدقہ (بطور کفارہ) لیا کیجئے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کیجئے۔

اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ۝۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۱۰۳

یقیناً آپ کی دعائیں ان کے لئے موجب تسکین ہیں اور اللہ تعالیٰ دعاؤں کے سننے والے (دلوں کے احوال) جاننے والے ہیں۔

اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ ھُوَيَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَيَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ

کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہی (کسی کی سعی و سفارش کے بغیر) اپنے بندوں کی دعا قبول فرمالیتے ہیں اور ان کے صدقات بھی۔

وَاَنَّ اللہَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۱۰۴

اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی توبہ قبول کرنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔

وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَرَى اللہُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُہٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ

اور ان سے کہئے عمل کئے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اہلِ ایمان تمہارے اعمال دیکھا کریںگے۔

وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ

غائب و حاضر کے جاننے والے (اللہ) کے سامنے (محاسبہ اعمال کےلئے) تم سب لائے جاؤگے۔

فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۱۰۵ۚ

پھر جو کچھ تم (بداعمالیاں) کیا کرتے تھے ان سب کی تمہیں خبر دی جائیگی۔

وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللہِ

کچھ اور لوگ ہیں جو حکم الٰہی کے منتظر ہیں۔

اِمَّا يُعَذِّبُھُمْ وَاِمَّا يَتُوْبُ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ

چاہے اللہ انھیں عذاب دے اور اگر چاہے انھیں معاف کردے۔

وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۱۰۶

اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔ (جو کچھ بھی تجویز ہوگی وہ نہایت ہی عالمانہ اور حکیمانہ ہی ہوگی)

توضیح : یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسجد ’’ضرار‘‘ جس کا ذکر مابعد کی آیات میں آرہا ہے اس کا پس منظر واضح کردیا جائے۔ رسول اللہ ﷺنے مدینہ تشریف لاتے ہی بیرون آبادی ایک مسجد تعمیر فرمائی جس کا نام قبا ہے۔ مدینہ کےمنافقوں نے اس کے قریب اپنے لئے ایک علیحدہ مسجد بنائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مدینہ میں ایک عیسائی ابوعامر جو عالم بھی تھا اور درویش بھی رسول اللہ ﷺکے مدینہ تشریف لانے کے بعد اس کی مذہبی پیشوائی جاتی رہی۔ ابوعامر اسے برداشت نہ کرسکا اور رسول اللہ ﷺکا سخت مخالف اور دشمن ہوگیا۔ وہ روم کے عیسائی بادشاہ کے پاس گیا اور شاہ روم کو رسول اللہ ﷺسے جنگ کرنے کیلئے آمادہ کیا۔ اور ادھر مدینہ کے منافقین کو خط لکھا کہ میں روم کے بادشاہ کو لیکر مدینہ پر حملہ کردوںگا تاکہ مسلمانوں کو مٹادیا جائے۔ وقتاً فوقتاً حالات سے مطلع کرنے کیلئے میرے آدمی تمہارے پاس آتے رہیںگے۔ تم ایک محفوظ جگہ بنا رکھو تاکہ میرے فرستادے وہاں آکر ٹھہرا کریں اور تم سب اسی محفوظ جگہ بیٹھ کر محمدﷺکے خلاف سازش کرتے رہو اور کسی کو اسکی خبر نہ ہونے پائے۔ مخالفین نے محفوظ جگہ کا انتخاب مسجد کی شکل میں کیا۔ جب مسجد تیار ہوگئی تو منافقین نے رسول اللہ ﷺسے کہا مسجد نبوی ہمارے مقام سے دور ہے ہم میں جوبیمار ضعیف ہیں۔ ان کے آنے جانے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس لیے ہم نے ان ضعیفوں بیماروں کی سہولت کیلئے ایک مسجد بنائی ہے۔ آپؐ مسجد میں تشریف لا کر ایک دفعہ نماز پڑھادیں توبہتر ہے۔ اس وقت تک بادشاہ روم کے حملہ کی خبرمل چکی تھی۔ اورآپؐ اس کے مقابلے کیلئے پوری جنگی تیاری کرچکے تھے اوریہ اطلاع بھی ملی تھی کہ مقام تبوک جوسلطنت روم کے قریب ہے، روم کے بادشاہ نے زبردست فوج جمع کررکھی ہے۔آپ نے مناسب جانا کہ شاہ روم کومدینہ آنے نہ دیا جائے تبوک پہنچ کرہی مقابلہ کیا جانا چاہئے جب منافقوں نے اپنی مسجد میں آپؐ سے نماز پڑھنے کی خواہش کی توآپؐ نے فرمایا اب تومیں جنگ کیلئے جارہا ہوں۔ چنانچہ آپ تشریف لے گئے۔ جنگ تبوک واقع نہیں ہوئی۔ رومی آپؐ کی آمد اورآپؐ کی جنگی تیاریوں کا حال سن کرتبوک سے بھاگ گئے۔ اس سورۃ میں جدال وقتال کا ذکر ہے اورجہاد میں شریک نہ ہونے والوں کو منافق کہا گیاہے۔ اورشرکت میں تامل کرنے والوں کی تنبیہ کی گئی ہے اس کا تعلق جنگ تبوک ہی سے ہے۔ یہ واقعہ موسم گرما میں پیش آیا تھا۔ کچھ لوگوں نے گرمی کی شدت کا عذر کیا تھا، انھیں نارجہنم کی وعید سنائی گئی۔ تبوک سے واپس ہوتے ہوئے جب آپؐ مسجد ضرار کے قریب پہنچے تواس مسجد کے تعلق سے یہ احکام نازل ہوئے اورآپؐ نے نماز نہیں پڑھائی۔

وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا

اورجن لوگوں نے مسجد اس غرض سے بنائی کہ نبیٔ محترمﷺ اوردین حق کونقصان پہنچائیں اور

وَّكُفْرًا وَّتَفْرِيْقًۢا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ

کفر( کا بازار گرم) کریں اوراہل ایمان میں تفرقہ ڈالیں

وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ

اوراس شخص کے لیے پناہ گاہ بنائیں جوپہلے سے رسول اللہﷺ کے خلاف برسرپیکار ہے۔

وَلَيَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰى۝۰ۭ

پھر( مسجد بنانے والے تو) ضرور قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ سوائے بھلائی کے اور کچھ نہ تھا۔

وَاللہُ يَشْہَدُ اِنَّھُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۱۰۷

مگراللہ تعالیٰ گواہی دیتے ہیں، وہ قطعا ًجھوٹے ہیں۔

لَا تَقُمْ فِيْہِ اَبَدًا۝۰ۭ

ائے نبی(ﷺ) آپؐ کبھی اس (مسجد ضرار) میں کھڑے نہ ہونا۔

لَمَسْجِدٌ اُسِّــسَ عَلَي التَّقْوٰى

البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے سے تقویٰ وپرہیزگاری

مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْہِ۝۰ۭ

پررکھی گئی ہے، اس بات کی مستحق ہے کہ آپؐ اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوں۔

فِيْہِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَہَّرُوْا۝۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُطَّہِّرِيْنَ۝۱۰۸

اس میں ایسے لوگ ہیں جو(فتنہ فساد سے) پاک رہنے کوپسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (ہرقسم کے فتنے فساد سے) پاک رہنے والوں کوپسند کرتے ہیں۔

اَفَمَنْ اَسَّـسَ بُنْيَانَہٗ عَلٰي تَقْوٰى مِنَ اللہِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ

کیا وہ شخص جس نے اس کی بنیاد تقویٰ اوررضائے الٰہی پررکھی ہو۔ بہتر ہے؟

اَمْ مَّنْ اَسَّـسَ بُنْيَانَہٗ عَلٰي شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ

یا وہ شخص جس نے اس عمارت کی بنیاد ایک ایسے گہرے غار کے کنارے( پتھرکی بندش کے بغیر) رکھی ہوجوگراہی چاہتی ہو؟

فَانْہَارَ بِہٖ فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ۝۰ۭ

پھر وہ بنیاد رکھنے والے کولے کر جہنم کی آگ میں گرے۔

وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ۝۱۰۹

اوراللہ تعالیٰ ظالموں کوسیدھی راہ نہیں دکھاتے۔

توضیح : رسول اللہ ﷺ نے مسجد ضرار کو مسمار کروادیا۔

لَا يَزَالُ بُنْيَانُھُمُ الَّذِيْ بَنَوْا رِيْبَۃً

ان کی یہ عمارت جوانہوں نے بنائی( اس کی بربادی) ہمیشہ ان کے دلوں میں(کانٹے کی طرح) کھٹکتی رہے گی۔

فِيْ قُلُوْبِہِمْ اِلَّآ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُھُمْ۝۰ۭ

سوائے اس کے کہ ان کے دل اس صدمے سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں (یا ان کی موت واقع ہو)

وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ۝۰ۭ

اوراللہ تعالیٰ کے حدود کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۱۲

اور(ائے نبیﷺ) مومنین کو(جنت کی) خوشخبری سنادیجئے۔

توضیح :مذکورہ آیات سے ثابت ہے کہ ایمان لاتے ہی مومن کی جان ومال بہ معاوضۂ جنت اللہ تعالیٰ خرید لیتے ہیں۔ اس کے بعد مومن کا مال اورجان اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اب اگرمومن جان ومال کوغیراللہ کے لیے قربان کرے گا توعنداللہ خائن ہوگا اورجنت کا مستحق نہ رہے گا۔ غیراللہ کے لیے جان ومال قربان کرنے کا ایک مطلب تویہ ہے کہ غیراسلامی مملکتوں کی لڑائیوں میں شریک ہونا او ران کی فوجی ملازمتوں کا اختیار کرنا۔

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ

مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کرنا نبی کے لیے درست ہے اورنہ اہل ایمان کے لیے۔

وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۝۱۱۳

اگرچہ کہ وہ قرابت قریبہ ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔ یہ ظاہر ہوجانے کہ بعد کے وہ سب جہنمی ہیں۔

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاہُ۝۰ۚ

اور ابراہیمؑ کا اپنے (مشرک) باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اس وعدہ کے سبب تھا جووہ اس سے کرچکے تھے

فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ۝۰ۭ

لیکن جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے تواس سے اپنی بیزاری اوربرات کا اظہار کیا۔ (اہل کفرکے لیے جودنیا سے چلے گئے بخشش کی دعا کرنا منع ہے چاہے والدین واقربا ہی کیوں نہ ہوں)

اِنَّ اِبْرٰہِيْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِيْمٌ۝۱۱۴

بے شک ابراہیمؑ بڑے ہی خداترس نرم دل اوربردبار تھے۔

وَمَا كَانَ اللہُ لِيُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ ہَدٰىھُمْ

اوراللہ تعالیٰ ایسے نہیں ہیں کہ کسی قوم کوہدایت کا سامان آنے کے بعد گمراہ کردیں۔

حَتّٰي يُبَيِّنَ لَھُمْ مَّا يَتَّقُوْنَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۱۱۵

جب تک کہ انھیں یہ نہ بتلادے کہ کن کن باتوں سے بچنا چاہئے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہرچیز سے واقف ہے۔

اِنَّ اللہَ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۝۰ۭ

بے شک آسمانوں اورزمین کی فرمانروائی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے وہی زندگی بخشتا اوروہی موت دیتا ہے(موت وحیات اسی کے اختیار میں ہے)

وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۝۱۱۶

اوراللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی کارساز ہے اورنہ مددگار ۔

لَقَدْ تَّابَ اللہُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ فِيْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ

بے شک اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پرمہربانی کی اوران مہاجرین وانصار کے حال پربھی توجہ فرمائی جنہوں نے سخت مشکل اورکٹھن حالات میں نبی(ﷺ) کا ساتھ دیا۔

مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ

اس مرحلہ کے بعد کہ ان میں سے ایک فریق کے دلوں میں کجی آئی تھی(مگرایمان کی چنگاری موجودتھی اس لیے ان حالات میں بھی نبیٔ محترمﷺ کا ساتھ دیا۔

ثُمَّ تَابَ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ بِہِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۱۷ۙ

پھراللہ تعالیٰ نے پرمہربانی فرمائی بے شک وہ ان پرنہایت ہی شفقت کرنے والا رحم فرمانے والا ہے ۔

وَّعَلَي الثَّلٰثَۃِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا۝۰ۭ

اوران تین افراد کے حال پربھی توجہ فرمائی(جوجنگ تبوک میں) پیچھے رہ گئے(جن کا معاملہ زیرتصفیہ تھا)

توضیح : رسول اللہﷺ جب جنگ تبوک سے مدینہ واپس تشریک لائے تومنافقین جوشریک جہاد نہیں ہوئے تھے مختلف عذرات کرتے رہے تھے۔ ان میں تین سچے ایماندار بھی تھے۔ انہوں نے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کیا(حضرت کعب بن مالک۔ برارہ بن ربیع۔ ہلال بن امیہؓ) رسول اللہﷺ نے ان تینوں حضرات کے تعلق سے کوئی تصفیہ نہیں فرمایا۔ بلکہ وحی کا انتظار فرمایا اورتمام اہل ایمان کوحکم دیا گیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کاکوئی حکم نہ آئے ان تینوں سے میل جول نہ رکھیں۔ صحابہ کرام نے حکم نبوی کی تعمیل میں ان تینوں سے تعلقات منقطع کرلیے حتی کہ سلام بھی ترک کردیا۔

حَتّٰٓي اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ

زمین اپنی وسعت کے باوجود انھیں تنگ نظرآرہی تھی(یعنی ان کوکوئی اپنا نظرنہیں آتا تھا)

وَضَاقَتْ عَلَيْہِمْ اَنْفُسُھُمْ

اورزندگی ان پروبال ہوچکی تھی

وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللہِ اِلَّآ اِلَيْہِ۝۰ۭ

انہوں نے جان لیا کہ(اللہ تعالیٰ کے عتاب سے بچنے کے لیے) اللہ ہی کے دامن رحمت میں پناہ لیے بغیر چارہ نہیں

ثُمَّ تَابَ عَلَيْہِمْ لِيَتُوْبُوْا۝۰ۭ اِنَّ

پھراللہ تعالیٰ نے ان کے حال پرتوجہ فرمائی تا کہ وہ رجوع الی اللہ ہوں۔

اللہَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۱۱۸ۧ

بے شک اللہ تعالیٰ ہی توبہ قبول کرنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔

توضیح : اس واقعہ میں ہمارے لئے بڑا سبق ہے۔ کہاں وہ حضرات جوشرفِ صحابیت سے مشرف ہیں۔ آغوش نبوت میں تربیت پائے ہیں۔ مگرجنگ کے موقع پراک ذراسی سستی کرجاتے ہیں تواللہ ورسول کی خفگی سے بچ نہیں سکتے اور تمام اہل ایمان کوحکم دیا گیا تھا کہ ان سے قطع تعلق کرلیا جائے۔ ایک ہم ہیں کہ دوست عزیز احباب سرتاپاخدا کے نافرمان بنے ہوئے ہیں اورہم انھیں گلے لگائے گھل مل کررہتے ہیں۔ ہماری اولاد گودوں پل رہی ہے اوراللہ رسول کی سرکش بنی ہوئی ہے، پھر بھی ہم انھیں سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ حالانکہ روزانہ نماز میں اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ اقرار کرتے ہیں نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَن یَّفْجُرُکْ مگر کبھی ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں نہ ترکِ تعلق وائے برحالِ ما۔
امام احمدبن حنبلؒ سے منقول ہے کہ قرآن کی کوئی آیت انھیں اس قدر نہیں رلاتی تھی جس قدریہ آیت ۔اس سے معلوم ہوا کہ خدمت حق سے تساہل ایک مومن کے لیے کیسا سخت جرم ہے کہ حضرت کعب بن مالک جیسے مخلص ومقبول صحابی بھی جوان تہترسابقین انصار میں سے ہیں جنہوں نے عقبہ ثانیہ میں بیعت کی تھی، اس درجہ سرزنش کے مستحق ہوئے۔ پھرائے مسلمانو! ہمارا شمار کن میں ہوگا؟
اس واقعہ سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ راہ حق میں ایسے سخت مقام بھی آتے ہیں جن سے گزرنے میں ذرا سی غفلت تمام دینداری پرپانی پھیردیتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جولوگ پوری طرح صادق الایمان نہیں ہوتے ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے دین کا کچھ نہ کچھ نقصان ہوہی جاتا ہے اس لیے ارشاد فرمایا گیا۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ۝۱۱۹

ائے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرواورراست بازوں کے ساتھ رہو۔

مَا كَانَ لِاَھْلِ الْمَدِيْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ يَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللہِ

مدینہ کے باشندوں اوراطراف کے رہنے والے دیہاتیوں کے لیے جنگ میں رسول اللہﷺ کا ساتھ نہ دینا قطعاً درست نہ تھا۔

وَلَا يَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِہِمْ عَنْ نَّفْسِہٖ۝۰ۭ

اوراپنی جان کوان کی جان سے عزیز رکھنا ان کے لیے درست نہ تھا۔

ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا يُصِيْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَۃٌ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ

یہ تنبیہ اس لیے کی جاتی ہے کہ راہ خدا میں بھوک پیاس یا جسمانی آزار کی جوبھی تکلیفیں پہنچتی ہیں۔ (اس کا اجرتواللہ کے پاس ہے)

وَلَا يَطَــــُٔـــوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيْظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا

اوروہ ایسے مقام سے چلیں جوکفار کے لیے موجب غیض وغضب ہوں اوردشمنوں سے کوئی چیز مال غنیمت لینے یا انھیں قتل وقید کرنے بھی نہیں پاتے۔

اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ بِہٖ عَمَلٌ صَالِحٌ۝۰ۭ

مگران سب کے بدلے میں، ان کے لیے نیک عمل لکھے جاتے ہیں۔

اِنَّ اللہَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۲۰ۙ

یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا اجرضائع نہیں کرتے۔

وَلَا يُنْفِقُوْنَ نَفَقَۃً صَغِيْرَۃً وَّلَا كَبِيْرَۃً وَّلَا يَـقْطَعُوْنَ وَادِيًا

اور(اسی طرح) وہ جوکچھ خرچ کرتے ہیں تھوڑا ہویا بہت یا کوئی میدان طے کرنے نہیں پاتے۔

اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ لِيَجْزِيَھُمُ اللہُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۱۲۱

مگران کے اعمال نامہ میں لکھا جاتا ہےتا کہ اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اچھے کارناموں کا بہترین بدلہ عطا کردیں۔

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّۃً۝۰ۭ

(اورمسلمانوں کویہ بھی چاہئے تھا کہ جہاد کے لیے سب کے سب ہی نکل کھڑے ہوں)اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔

فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ

پھر ایسا کیوں نہ کیا کہ ہرجماعت میں سے چندافراد (شہر مدینہ میں جو مرکز علم وہدایت ہے) آتے رہتے اوردین کا علم سیکھتے اوردین کی سمجھ پیدا کرتے۔

وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۝۱۲۲ۧ

اورجب اپنی قوم کی طرف واپس آتے توانھیں (اسلام نہ لانے کے انجام سے) ڈراتے وہ بھی سوچنے پرمجبورہوتے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَۃً۝۰ۭ

ائے ایمان والو جوکفار تم میں گھلے ملے ہیں ان سے بھی قتال کرو(کفار سے مراد منافقین ہیں یہ بھی دراصل کافر ہی ہوتے ہیں) اورچاہئے کہ وہ تم میں بڑی سختی پائیں۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ۝۱۲۳

اور(یقین کے ساتھ) جان لوکہ اللہ تعالیٰ متقین کا ساتھ دیتے ہیں۔

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ

اورجب بھی کوئی سورۃ نازل ہوتی ہے(جس سے اہل ایمان کوان کے کارناموں پربشارت دی گئی ہو، فتح ونصرت کا وعدہ کیا گیا ہو)

فَمِنْھُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہٖٓ اِيْمَانًا۝۰ۚ

توان میں بعض پوچھتے ہیں اس سورۃ نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کیا تو

فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۝۱۲۴

وہ لوگ جوایمان لائے ہیں ان کا ایمان اوربڑھ جاتا ہے اوران کے دل مسرت سے لبریز ہوجاتے ہیں۔

وَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِہِمْ

اورجن کے دلوں میں مرض نفاق ہوتا ہے توان کی گندگی میں اضافہ پراضافہ ہوتا رہتا ہے(یعنی نفاق وکفر میں زیادتی ہوتی رہتی ہے)

وَمَاتُوْا وَھُمْ كٰفِرُوْنَ۝۱۲۵

وہ مرتے بھی ہیں توکفرکی حالت میں مرتے ہیں۔

اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَيْنِ

اورکیا یہ لوگ(منافق) غور نہیں کرتے کہ ہرسال ایک یا دومرتبہ یہ کسی نہ کسی آفت ومصیبت میں مبتلا کیے جاتے ہیں۔

ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝۱۲۶

مگر پھر بھی کفرونفاق سے نہ توبہ ہی کرتے ہیں اور نہ نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہیں۔

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ۝۰ۭ

اورجب بھی قرآن کی کوئی سورۃ نازل ہوتی ہے تووہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ

ہَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا۝۰ۭ

(ان میں سے) کوئی تمہیں دیکھ تونہیں رہا ہے پھروہ (دین الٰہی سے) منحرف ہوجاتے ہیں۔

صَرَفَ اللہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۝۱۲۷

(حق کی ناقدری کی پاداش میں) اللہ تعالیٰ نے بھی انکے دلوں کو حق کی طرف سے پھیردیا ہے (کیونکہ) یہ ایسے لوگ ہیں جوسمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے۔

لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْہِ مَا عَنِتُّمْ

ائے لوگو یقیناً تم میں سے تمہارے پاس رسول آچکے تمہارا نقصان (آخرت کا) ان پرشاق گزرتا ہے۔

حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۲۸

تمہاری فلاح آخرت کے وہ بڑے ہی مشتاق ہیں اوررسول اللہﷺ مومنین پربڑے ہی مہربان ہیں۔

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللہُ۝۰ۤۡۖ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۭ

پھراگراس اعلان عام کے بعد بھی یہ لوگ دین حق سے روگردانی کریں تو آپؐ کہہ دیجئے میرے لیے تواللہ تعالیٰ کافی ہیں، اس کے سوا کوئی الہ (معبود مستعان حاجت روا کارساز) نہیں۔

عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝۱۲۹ۧ

میں اسی پربھروسہ رکھتا ہوں اوروہی عرش عظیم کا مالک ہے(عرش عظیم سے احکام صادرفرمائے جاتے ہیں)

توضیح :سورۂ نساء میں ہجرت کے سلسلہ میں منافقین کا ذکر ہے اورسورۂ توبہ میں یہ سلسلہ جہاد منافقین کی منافقانہ روش کا تفصیلی بیان ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ ہجرت وجہاد سے گریز نفاق کی علامت ہے۔ رسول اللہﷺ کے ایک ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منہیات سے بچے اوراپنے قلوب کا جائزہ لے کہ کہیں مرض نفاق کے جراثیم توپرورش نہیں پارہے ہیں؟