☰ Surah
☰ Parah

قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَہُوْا يُغْفَرْ لَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ۝۰ۚ

کافروں سے کہہ دیجئے اگروہ(کفروشرک اور) اپنی شرارتوں سے باز آجائیں تو جو کچھ گُناہ اُن سے ہوچکے تھے معاف کیے جائیںگے۔

وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُـنَّۃُ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۸

اور اگروہ پھر ایسی ہی حرکات کرنے لگیںتواگلے لوگوںکے لیے جو طریقہ جاری ہو چکا ہے وہی اُن کے حق میں بر تاجائے گا۔
یعنی ا للہ تعالیٰ کے رسولوںکوجھٹلانے پر اللہ تعالیٰ کی جو سنّت ہے وہ اُن سے متعلق ہو جائے گی ان پر عذاب آکر رہے گا۔

وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ۝۰ۚ

اور اُن لوگوںسے لڑ تے رہو یہاں تک کہ کفر وشرک اور فتنہ کا غلبہ باقی نہ رہے اور اللہ کا دین غالب ہو کر رہے۔

فَاِنِ انْتَہَـوْا فَاِنَّ اللہَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۳۹

پھر اگر وہ (کفروشرک سے) باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔

یعنی 

وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَوْلٰىكُمْ۝۰ۭ نِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ۝۴۰

اور اگر وہ روگردانی کریں(یعنی تم سے لڑنے کو تیار ہو جائیں) تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دوست ہیں(کارساز ہیں) بڑے اچھے دوست اور بڑے ہی اچھے کار ساز و مدد گار ہیں ہر حال میں تمہاری مدد کریں گے۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ 

اور اس بات کو جان لو کچھ مالِ غنیمت تم نے حاصل کیا ہے، اس کاپانچواں حصّہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے۔

وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ

اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے(رسول اللہ ﷺ کے قرابت دار مُراد ہیں۔)

اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ۝۰ۭ

اگر تم اللہ پر ایمان و یقین رکھتے ہو اورنصرت پر جو اللہ تعالیٰ نے حق وباطل کے فیصلہ کے دن(جنگ بدر میں جب کہ دونوںفوجیںباہم مقابل ہوئی تھیں)اپنے بندہ محمد ﷺ پرنازل کی۔

وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۴۱

اور اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہیں(اللہ تعالیٰ کو اختیار رہے جو چاہیں فیصلہ کریں)

توضیح : تقسیم میں اللہ ورسول کا ایک حصہ ہے۔جس سے مقصود یہ ہے کہ یہ پانچواں حصہ اعلیٰ کلمۃ الحق اور اقامت دین کے کام میں صرف کیا جائے۔ بقیہ چار حصے لڑنے والی فوج میں تقسیم ہوںگے۔

اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰي وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ۝۰ۭ

جس وقت تم (مدینہ کی)وادی سے قریب تھے اور (کفّار) مدینہ کے دوسری طرف (کچھ فاصلے پر) تھے اور قافلہ(قریش اپنے کثیر مالِ تجارت کہ ساتھ) تمہارے نچلے (نشیبی) حصّہ کی طرف سمندر کے کنارے کنارے تھا۔

وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ۝۰ۙ

اگر تم پہلے سے جنگ کی نسبت کوئی دن تاریخ مقرر کرتے تو تم وقتِ معینہ میں اختلاف کر جاتے۔

وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللہُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا۝۰ۥۙ

لیکن اللہ تعالیٰ جس بات کا فیصلہ کرچکے تھے وہ ہوکر رہا۔
(اللہ تعالی کو منظور تھا کہ حق و باطل کا ایک معر کہ ہو جائے اس لیے دفعتہ جنگ کا واقعہ پیش آگیا)

لِّـيَہْلِكَ مَنْ ہَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَۃٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَۃٍ۝۰ۭ

تاکہ(دین حق کی)واضح دلیل آنے کے بعد جس کو ہلاک ہونا ہے، ہلاک ہوجائے اور دین حق ظاہر ہو جا نے کے بعد جس کو زندہ رہنا ہے، وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے۔

وَاِنَّ اللہَ لَسَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۴۲ۙ

اور یقینا اللہ تعالی سننے والے جاننے والے ہیں۔
(کہ ان مذکورہ حقائق کو دیکھنے کے بعد کون کُفر پر اڑا رہتا ہے اور کون ایمان لا تا ہے)

اِذْ يُرِيْكَہُمُ اللہُ فِيْ مَنَامِكَ قَلِيْلًا۝۰ۭ

(وہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے) جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے خواب میں دشمنوں کی تعداد کم دکھائی۔

وَلَوْ اَرٰىكَہُمْ كَثِيْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ

اور اگر آپ کو ان کی تعداد زیادہ دکھا تے تو تم لوگ ہمت ہار جاتے اور عین لڑائی کے وقت جھگڑا شروع کر دیتے۔

وَلٰكِنَّ اللہَ سَلَّمَ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۴۳

لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو (ایسی باتوں سے) بچا لیا بے شک وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔

وَاِذْ يُرِيْكُمُوْہُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا

اور(اس واقعہ کو ذہن میں رکھو) جب تم ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو ان کا فروں کو تمہا ری نظر میں بہت کم دکھا یا۔

وَّيُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِہِمْ

اور اُن کافروں کی نظر وں میں تم کو کم دکھا یا۔
(تاکہ دو نوں فریق اس خیال سے کہ مقابل کے لوگ ایک دوسرے سے تعداد میں کم ہیں۔ پوری قوت سے جنگ شروع کر دیں)

لِيَقْضِيَ اللہُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا۝۰ۭ

تاکہ اللہ تعالیٰ جس بات کا فیصلہ کر چکے تھے پورا ہو کر ہے۔

وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝۴۴ۧ

اور تمام اُمور وفیصلے کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔
(کہ کون کس قسم کی سزاوجزا ء کا مستحق ہے)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا

ائے ایمان والو جب تم دشمن کی فوج کے مقابل ہو جائو تو ثابت قدم رہو۔

وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۴۵ۚ

اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتے رہو (اللہ تعالیٰ سے لو لگائے رکھو) تاکہ تم فلاح پاؤ (کامیاب ہوجاؤ)

وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ

اور اللہ رسول کی اطاعت کرو۔
(یعنی جنگ کے تعلق سے اللہ رسول کا جو بھی حکم ہواُس کی پوری پوری تعمیل کرو)

وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا

اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تم بُز دل ہو جائو گے

وَتَذْہَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا۝۰ۭ

اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی(یک جہتی باقی نہ رہے گی، اِنتشار پیدا ہوگا) صبر سے کام لو (جنگ میں جو بھی تکلیف پہنچے برداشت کر لو)

اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۴۶ۚ

بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں(صبر کرنے والوں کی مدد کرتے ہیں)

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بَطَرًا وَّرِئَاۗءَ النَّاسِ

اور اُن لو گوں کی طرح نہ ہو جا نا جواکڑتے اِتراتے لو گوں کو اپنی شان دکھا تے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں

وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ

اور جن کی روش یہ ہے کہ لو گوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں

وَاللہُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ۝۴۷

اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن پر احاطہ کیے ہوئے ہیں(یعنی اِن کے اعمال اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہیں۔ انھیں پوری پوری سزا مل کر رہے گی)

وَاِذْ زَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ

اور جب شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظر میں خوشنما کر دکھا یا۔

وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ۝۰ۚ

اور (انھیں دلا سہ دیتے ہوئے) کہا آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور میں تمہارا رفیق ہوں( ہر طرح کی مدد کے لیے تیار ہوں)

فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْہِ

پھر جب اس نے دو نوں فو جوں کو ایک دوسرے سے مقابل ہوتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر چل دیا۔

وَقَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ

اور کہا مجھے تم سے کچھ تعلق نہیں میں تم سے بری الزمہ ہوں۔

اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ۝۰ۭ

میں ایسی چیزیں دیکھتا ہوں جسے تم نہیں دیکھ سکتے میں اللہ سے ڈر تا ہوں۔

وَاللہُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۴۸ۧ

اور اللہ تعا لیٰ بڑا ہی سخت عذاب دینے والے ہیں۔

توضیح : اللہ رسول کی نا فرمانی پر اُکسا نا ، پھر کہنا میں اللہ سے ڈر تاہوں، یہ شیطانی چالیں ہیں۔

اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ 

جب (مدینہ کے) منافق اور وہ کافر جن کے دِلوں میں شک و شبہات کی بیمار ی تھی، کہہ رہے تھے 

غَرَّ ھٰٓؤُلَاۗءِ دِيْنُہُمْ۝۰ۭ

اِن (مسلما نوں) کے دین نے انھیں دھو کہ میں ڈال رکھا ہے۔
(مٹھی بھر بے سرو سامان مسلمان قریش جیسی بڑی طاقت نے ٹکرانے جارہے ہیں۔ اپنے دینی جوش میں دیوانے ہو گئے ہیں۔ اس معر کہ میں ان کی تباہی یقینی ہے۔ یہ جان بوجھ کر موت کہ منہ میں جار ہے ہیں وغیرہ)

وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ

اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے (تو اَسباب ظاہری کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے ہیں۔)

فَاِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۴۹

بے شک اللہ تعالیٰ زبر دست حکیم ہیں( حکیمانہ طریقے پر فتح و نصرت بخشتے ہیں)

وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ يَتَوَفَّى الَّذِيْنَ كَفَرُوا۝۰ۙ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ

(محمد ﷺ) آپ اگر وہ منظر دیکھتے جب فرشتے کا فروں کی جانیں نکالنے لگتے ہیں۔

يَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ۝۰ۚ

وہ اُن کے چہروں اور اُن کی پیٹھوں پر(کوڑوں اور ہتھو ڑوں سے ) مارتے جا تے ہیں اور کہتے جا تے ہیں

وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ۝۵۰

آگ میں جلنے کامزہ چکھو( کس قدر سخت عذاب ہے)

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْكُمْ

یہ تمہا ری بد اعمالیوں کی سزا ہے۔ وہ اعمال جن کو تم نے اپنے ہا تھوں پہلے ہی بھیج رکھا تھا۔

وَاَنَّ اللہَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ۝۵۱ۙ

اور(واقعہ یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتے۔

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ۝۰ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ

فرعونیوں اور ان سے پہلے کے لو گوں کی طرح انھوں نے الٰہی تعلیمات کا انکار کیا۔

فَاَخَذَہُمُ اللہُ بِذُنُوْبِہِمْ۝۰ۭ

تو اللہ تعالیٰ نے (کفر وشرک جیسے سنگین ) گناہوں کی پاداش میں انھیں پکڑ لیا

اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۵۲

بے شک اللہ تعالیٰ بڑی ہی قوت والے اور سخت ترین عذاب دینے والے ہیں۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ

یہ سزا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو اس وقت تک نہیں بدلتے

حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ

جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو بدل نہ ڈالے (یعنی اپنا نا اہل ہونا ثابت نہ کر دے)

وَاَنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۵۳ۙ

بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ (بلا واسطہ ووسیلہ) سننے اور جاننے والے ہیں۔

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ۝۰ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ فَاَہْلَكْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ

فر عو نیوں اور ان سے پہلے کے لوگوں کی طرح انھوں نے بھی اپنے رب کی تعلیمات کو جھٹلا یا تو ان کے گناہوں کی پاداش میں ہم نے انھیں ہلاک کر دیا۔

وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ۝۰ۚ وَكُلٌّ كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ۝۵۴

اور ہم نے فر عو نیوں کو در یا میں ڈبو دیا کیونکہ وہ سب بڑے ظالم تھے۔

اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللہِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۵۵ۖۚ

اللہ تعالیٰ کے نزدیک جانوروں سے بھی بد تر وہ لوگ ہیںجوکافرہیں (یعنی جو دین حق کا انکارکرتے ہیں)وہ کسی طرح ایمان نہیں لاتے ۔

اَلَّذِيْنَ عٰہَدْتَّ مِنْہُمْ

جن لوگوں سے آپﷺ نے صلح کا عہد کیا ہے

ثُمَّ يَنْقُضُوْنَ عَہْدَہُمْ فِيْ

پھر وہ ہر باراپنے کیے ہوئے کو توڑ ڈالتے ہیں

كُلِّ مَرَّۃٍ وَّہُمْ لَا يَتَّقُوْنَ۝۵۶

اور وہ (عہد شکنی کے نتائج سے) نہیں ڈرتے۔

فَاِمَّا تَثْقَفَنَّہُمْ فِي الْحَرْبِ

اگروہ لڑائی میں تمہارے ہاتھ آجائیں

فَشَرِّدْ بِہِمْ مَّنْ خَلْفَہُمْ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝۵۷

اِن کی خوب خبر لیجئے(انھیں سزا دیجیے)جولوگ اِن کی پُشت پناہی کرتے ہیںاُن کے حال کو دیکھ کر بھاگ جائیں۔شایدکہ وہ اس سے عبرت لیں۔

وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَۃً

اوراگر تم کو کسی قوم سے دغا باز ی کااندیشہ ہو تو

فَانْۢبِذْ اِلَيْہِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۝۰ۭ

ان کاعہدانھیںکی طرف پھینک دو(برابرکاجواب دو)

اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۝۵۸ۧ

یقیناً اللہ تعالیٰ دغا بازوں کوپسندنہیں فرماتے
(عہد واقرار ایک امانت ہے۔ اس کیخلاف ورزی خیانت ہے)

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا۝۰ۭ اِنَّہُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ۝۵۹

اورکافر ہر گزیہ خیال نہ کریں کہ وہ ہماری گرفت سے بچ نکلیں گے وہ (اپنی چال بازیوں سے) ہمیں عاجز و مجبور نہیں کر سکتے۔

وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ

اور اُن (کافروں سے مقابلہ کے لیے)جتنا بھی تم سے ممکن ہوسکے (ہتھیاروں سمیت) قوتمہیارکھو۔

وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللہِ وَعَدُوَّكُمْ

اور جنگی گھوڑوں سے تیارر ہو تاکہ اس کے ذریعہ تم اپنا رعب اپنے اور اللہ کے دشمنوں پر جمائے رکھو۔

وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ۝۰ۚ لَاتَعْلَمُوْنَہُمْ۝۰ۚ اَللہُ يَعْلَمُہُمْ۝۰ۭ

اور اُن کے علاوہ دوسروں پر بھی جن کو تم بالیقین نہیں جانتے ۔ اللہ تعالیٰ اُن کو خوب جانتے ہیں۔

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۝۶۰

اور جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے(اس کا بدل) پورا پورا تمہیں دیا جائے گااورتم پر ذرابھی ظلم نہ کیا جائے گا(تمہاری حق تلفی نہیں کی جائے گی)

وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ

اور اگر وہ صلح چاہیں تو آپؐ بھی صلح کی طرف مائل ہوجائیے اورا للہ پر بھروسہ کیجئے۔

اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۶۱

یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والے ہیں۔

وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۝۰ۭ

اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تواللہ تعالیٰ آپ کے لیے کافی ہیں(اُن کی دھوکہ دہی بے اثر ہو گی)

ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۲ۙ

وہی تو ہے جس نے آپؐ کو اپنے فرشتوں اور مو منوں کے ذریعہ نُصرت بخشی۔

وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۝۰ۭ

اور اُن (اہل ایمان)کے دلوں میں باہم محبت پیدا کردی۔

لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ

اگرآپؐزمین کے پورے خزانے بھی خرچ کر ڈالتے۔ آپؐ اُن کے دِلوں میں محبت پیدانہ کرسکتے۔

وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۶۳

لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کے دِلوں میں محبت پیدا کردی۔(انھیں متحد کردیا) بے شک وہ بڑے ہی زبر دست حکیم ہیں،(یعنی ساری تجاویز حکیمانہ اوراٹل ہیں)

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللہُ وَمَنِ

ائے نبی اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کافی ہے اور ان تمام اہل ایمان

اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۴ۧ

کے لئے بھی جو آپ ﷺ کی اتباع کرتے ہیں

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۝۰ۭ

ائے نبی ﷺ ! مو منین کو جہادکی رغبت دلائیے(مارنے اورمرنے کا والہانہ جذبہ پیدا کیجئے)

اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۝۰ۚ

اور اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہوں تو دو سوپر غالب آئیںگے۔

وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

اور اگر تم میں ایسے (پختہ ایمان والے) ایک سوہوںتوایک ہزار کافروںپرغالب آئیںگے۔

بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۝۶۵

کیو نکہ وہ کافر ایک ایسی قوم ہے جو دین کی سمجھ نہیں رکھتی۔

اَلْـــٰٔـنَ خَفَّفَ اللہُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا۝۰ۭ

اب اللہ تعالیٰ نے تمہارے حق میں آسانی فرمادی ہے اورجان لیا کہ تم میںکتنی کمزوری ہے۔

فَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ۝۰ۚ

پس اگر تم میں سے ایک سو ثابت قدم ہوں گے تو دوسو پر غالب آئو گے۔

وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفَيْنِ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ

اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں گے تواللہ کے حکم سے دوہزار پر غالب رہیںگے۔

وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۶۶

اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔
(یعنی راہِ حق میں جان ومال کی تکلیف بہ طیب خاطر برداشت کرنے والوںکاساتھ دیتے ہیں)

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ

کسی نبی کے شایان شان نہیںکہ اس کے پاس قیدی ہوں تاآنکہ زمین میں کُفر کی طاقت اچھی طرح کچل دی جائے (کُفر کا زور توڑ دیا جائے)

تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا۝۰ۤۖ

تم لوگ دنیا کا مال واسباب چاہتے ہو

وَاللہُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ

اور اللہ تعا لیٰ تو آخرت کی بھلائی چاہتے ہیں

وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۶۷

اور اللہ تعالیٰ زبر دست حکیم ہیں(ایسی تجاویز فرماتے ہیں۔ جن میں تمہاری بھلائی ہو تی ہے)

توضیح : اہل تاویل کی روایت یہ ہے کہ جنگ بدر میں قریش کے جو لوگ گرفتار ہوئے ان کے بارے میں مشورہ ہوا کہ آیا انھیں فد یہ لے کر چھوڑ دیں یا قتل کردیں۔ پہلی رائے پر عمل ہوا یعنی فدیہ لے کر چھوڑ دیئے گئے۔جنگ بدر سے پہلے سورئہ محمدؐ (آیت ۴) میں جنگ کے متعلق جوا بتدائی ہدایات دی گئی تھیں۔ ان میں جنگی قید یوںسے فدیہ وصول کرنے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل دیا جائے۔ پھر قیدی پکڑ نے کی فکر کی جائے۔اس فرمانِ الٰہی کی روسے مسلمانوں نے بدر میں جو قیدی گرفتار کیے پھر فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ وہ تھا تو اجازت کے مطابق مگر غلطی یہ ہوئی کہ دشمن کی طاقت کوکچل دینے کی جو شرط مقدم رکھی گئی تھی، اُسے پورا کرنے میں کو تاہی کی گئی۔ جنگ میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کاایک بڑ اگروہ مالِ غنیمت لوٹنے اور کفّار کو پکڑ پکڑ باندھنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمن کا کچھ دور تک تعاقب کیا۔
حالانکہ اگر مسلمان پوری طاقت سے ان کا تعاقب کرتے تو قریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہو گیا ہو تا اِسی پر حق تعالیٰ عتاب فرما رہے ہیں۔اور یہ عتاب نبئی محترم ﷺ پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں پرہے۔ فرمانِ مبارک کا منشاء یہ ہے کہ ’’تم لوگ ابھی نبیؐکے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجھے ہو‘‘۔ نبی کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ فدیے اور غنائم وصول کرکے خزانے بھر ے بلکہ منصب ِ نبوت سے راست تعلق رکھنے والی بات یہ ہے کہ کُفر کی طاقت ٹوٹ جائے۔ اِسی کی تائید سیرتِ ابن ہشام کی اس روایت سے ہو تی ہے کہ’’مجاہدین اسلام جس وقت مالِ غنیمت لوٹنے اور کُفّار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگے ہوئے تھے، نبی ﷺ نے دیکھا کہ حضرت سعد بن مُعاذ کے چہرے پر کچھ کراہت کے آثار ہیںحضور نے اِن سے دریافت فرمایا: ائے سعد معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی یہ کاروائی تمہیں پسند نہیں آرہی ہے۔ انھوں نے عرض کیا ’’ہاں یا رسول اللہ‘‘۔ یہ پہلا معرکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دِلوائی ہے۔ اس مو قع پر انھیں قیدی بنا کر ان کی جانیں بچالینے سے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان کو خوب کچل ڈالا جاتا۔‘‘

لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِــيْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۶۸

اگر اللہ تعالیٰ کا حکم پہلے سے نہ ہو چکا ہو تا تو جو (فدیہ) تم نے لیا ہے ،اس کی وجہ تم پر بڑا عذاب نازل ہو تا ۔

توضیح : اگر چہ کہ فیصلہ کا اختیار تمہیں دیا گیا تھا مگر تم نے اپنے اختیارِ تمیزی کا استعمال مرضئی حق کے مطابق نہ کیا۔ اس لیے اب آئندہ کے لیے تمہیں مُتنبہ کیا جا تا ہے۔ اس تنبیہ کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جو فد یہ قیدیوں سے لیا ہے،وہ حرام ہو گیا۔

فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰ۡۖ وَّاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ

لہٰذا حلال و پاک (مال) جو تمہارے ہاتھ آیاہے۔ اس کو تو کھالو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو (کہ کوئی بات مرضی رب کیخلاف نہ ہونے پائے)

اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۶۹ۧ

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم وعفو ودرگزر فرمانے والے ہیں۔

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ قُلْ لِّمَنْ فِيْٓ اَيْدِيْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓي۝۰ۙ

ائے نبیﷺ ان قیدیوں سے کہہ دیجئے جو آپؐ کے ہاتھ میں گرفتار ہیں

اِنْ يَّعْلَمِ اللہُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ خَيْرًا

اگر اللہ تعالیٰ یہ جان لیں کہ تمہارے دلوں کے اندر نیکی قبولیتِ حق کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے

يُّؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۷۰

(اور تم نے دین حق کی مخالفت ترک کردی تو) جو کچھ تم سے (فدیہ) لیا گیا ہے اس سے بہتر اسی دنیا میں تمہیں دیا جائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کیے جائیں گے ۔اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔

وَاِنْ يُّرِيْدُوْا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللہَ مِنْ قَبْلُ

اور اگر یہ لوگ آپ ؐ سے دغا کرنا چا ہیں تو یہ پہلے ہی اللہ تعالیٰ سے دغا کرچکے ہیں۔

فَاَمْكَنَ مِنْہُمْ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۷۱

پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کو آپؐ کے قبضہ میں دے دیا۔ اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ

یقیناً جو لوگ ایمان لائے(جنھوں نے الٰہی تعلیم قبول کرلی) اور اللہ کی راہ میں ہجرت کی (ترکِ وطن کیا) اور اپنی جان ومال سے جہاد کیا۔

وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا

اور جنھوں نے ہجرت کرنے والوں کو پناہ دی اور اُن کی ہر طرح مدد کی

اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ

وہی دراصل ایک دوسرے کے دوست و ہمدرد ہیں۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا

اور جو لوگ ایمان لائے مگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت نہ کی

مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا۝۰ۚ

تو وہ جب تک ہجرت نہ کریں کسی طرح تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔

وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ

اور اگر وہ (دین کے معاملے میں) تم سے کسی قسم کی مدد کے طالب ہوں

فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ

تو تم پران کی مدد کرنی لازم ہے۔

اِلَّا عَلٰي قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَہُمْ مِّيْثَاقٌ۝۰ۭ

لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معا ہدہ ہو

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۷۲

اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہے ہیں (تم کو اس کی جزاء دیں گے)

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ

اور جو لوگ کافر ہیں وہ باہم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔(یعنی ایک دوسرے کی مدد کرنے میں کسی عہد و پیمان کا لحاظ نہیں کرتے بے تکلّف عہد شکنی کرڈالتے ہیں)

اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَكُنْ فِتْنَۃٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ۝۷۳ۭ

اگر تم(مذکورہ حکم پر) عمل نہ کرو گے (یعنی وقت پر اپنے لوگوں کی مدد نہ کرو گے) تو ملک میں فتنہ پیدا ہو گا اور فساد عظیم پھیلے گا۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ

اور جو لوگ ایمان لائے ہجرت کی ، راہ خدامیں جان ومال سے جہاد کرتے رہے۔

وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۝۰ۭ

اور جنھوں نے مہاجرین کو پناہ دی اور ہر طرح اُن کی مدد کی (دراصل ) یہی لوگ سچّے مو من ہیں۔

لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۝۷۴

ان کے لیے مغفرت ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس اعلیٰ ترین روزی ہے۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ۝۰ۭ

اورجولوگ بعد میں ایمان لائے لیکن تمہارے ساتھ ہجرت و جہاد کی منزلیں طے کیں وہ بھی تم ہی میں سے ہیں۔

توضیح : لوگ مکّہ سے ہجرت کر آئے تو ان مہا جرین کا بھائی چارہ اہل مدینہ سے قائم کیا گیا ، جنھیں انصار کہتے ہیں۔ یہی رشتۂ اخوت بعد کو ہجرت کرنے والوں کے لیے بھی قائم رہے گا۔

وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللہِ۝۰ۭ

(مگر یہ بات ذہن نشین رہے کہ میراث کے تعلق سے) نسلی رشتہ دار ہی حسب ِ حکم الٰہی ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔

اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۷۵ۧ

بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہیں۔جانتے ہیں کہ تمہارے لیے مفید کیا ہے اور مضر کیاہے۔

توضیح : رکوع ۸ و ۹ میںایک خصوصی تعلیم یہ دی گئی ہے کہ دشمنانِ حق سے مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فنِ حرب وضرب سے واقف رہیں اور ضروری اسلحہ سے لیس رہیں تاکہ حربی و فوجی قوت اِن کے دشمنوں کے لیے حوصلہ شکن رہے۔لیکن افسوس ہے کہ اس تعلیم کو مسلمان صدیوں سے بھولے ہوئے ہیں۔
والدین اپنے بچّوں کو یہ حدیث تو بہت یاد دلاتے ہیں کہ جنت ماں باپ کے قدموں کے نیچے ہے مگر یہ تعلیم انھیں کبھی نہیں دیتے کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔ آج مذہبی پیشوا یہ تعلیم تو دیتے ہیںکہ دعوت قبول کرنا سنت ہے۔ مگر یہ تعلیم نہیں دیتے کہ ہتھیار چلا نا سیکھنا ، آلات حرب سے آراستہ رہنا بھی ایک ایسی سنت ہے جس کے بھول جانے پر لَیْسَ مِنَّا (ہم میں سے نہیں) کی وعید ہے۔ نجات کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ وہ کتاب اللہ کے ذریعہ ایمان باللہ۔ ایمان بالاخرت اور اعمال صالحہ کی تعلیم حاصل کرے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ حیات ملی کی بقاء کے لیے فن سپہ گری سے بھی واقف ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیقن یہ بھی ہے کہ اگر دشمن کی تعداد دُگنی ہو تب بھی مسلمان مقابلہ سے ہمت نہ ہاریں۔ اہل باطل سے بے جگری کے ساتھ مقابلہ کریں۔کیونکہ وعدئہ الٰہی کے مطابق فتح اہل ایمان ہی کی ہوگی۔ یہ بھی پیشِ نظر رکھیں کہ آخرت کا طالب و حریص بنے بغیر فی سبیل اللہ جدال وقتال کامردانہ وارجذبہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ جان بچی لا کھوں پائے کے بجائے تعلیم یہ ہونی چاہیئے کہ جان دی اور لاکھوں پائے اگر مسلمانوں کے قائد مسلمانوں کو الٰہی تعلیم سے آگاہ کرتے تو مسلمان تباہ نہ ہوتے ۔ آخرت کی مرد آفریں تعلیم دیئے بغیر حربی تعلیم کا ہونانہ ہونا برابر ہے۔ بقول اقبال :
تیغ و تفنگ دست مسلماں میں اب کہاں

ہوں بھی تو دل ہے موت کی لذت سے بے خبر
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل

کہتا ہے کون اس کو مسلماں کی موت مر
ایک سبق یہاں یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے سامنے بہ یک وقت مفادِ دنیا اور مفادِ آخرت دو نوں ہی ہوں تو مفادِ دنیا نظر انداز کردے۔اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کی اُخروی زندگی بہتر سے بہتر ہو جائے ۔ مگر ہم چاہتے ہیںکہ دنیا وی زندگی بہتر سے بہتر ہو۔ مسلمان اُس راہ پر گا مزن نہیں ہیں۔ جس کی منزل مغفرت و جنت ہے۔ نادانی اور غلط رہنمائی کی وجہ جہنم کے راستے کو جنّت کا راستہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ مسلمانوں کا عمل اگر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو گا تو اشاعت اسلام میں بڑی رُکا وٹ ہو گی اور جب اسلام کی اشاعت رکے گی تو دنیا فتنہ و فساد سے بھر جائے گی، جس کے ذمّہ دار مسلمان ہی ہوں گے۔ مزید تفصیل سورئہ نحل میں آئی ہے۔