☰ Surah
☰ Parah

سورۂ عبس مکی ہے اس میں بیالیس آیتیں اور ایک رکوع ہے۔
توضیح :مفسریں، محدثین نے بالاتفاق اس سورۃ کے شان نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں مکہ معظمہ کے چند بڑے سردار بیٹھے ہوئے تھے اور حضورﷺ ان کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش فرمارہے تھے۔ اتنے میں ابن ام مکتوم نامی ایک نابینا صحابیؓ حضورﷺ میں حاضر ہوئے اورآپؐ سے اسلام کے متعلق کچھ پوچھنا چاہا۔ حضورﷺ کواس وقت ان کی یہ آمد ناگوار ہوئی سوآپؐ نے ان سے بے رخی برتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سورۃ نازل ہوئی کہ آپؐ کی توجہ کے مستحق وہ لوگ ہیں، جن میں قبولیت حق کی آمادگی پائی جائے اور جو لوگ اپنے تکبر اورہٹ دھرمی سے حق وصداقت سے بے نیازی برتتے ہیں وہ غیراہم ہیں، خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی بڑا مقام رکھتے ہوں۔ جو لوگ اس وقت آپؐ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے مختلف روایات میں ان کے ناموں کی صراحت کی گئی ہے کہ وہ عتبہ، شیبہ، ابوجہل، اورامیہ بن خلف جیسے دشمنان اسلام تھے، اور ان کو اپنی موجودگی میں غریبوں کا آنا پسند نہ تھا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی۝۱ۙ
اَنْ جَاۗءَہُ الْاَعْمٰى۝۲ۭ
وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی۝۳ۙ

ترش روی اختیار کی اوربے رخی برتی
جب ان کے پاس اندھا آگیا۔
اورآپؐ کو کیا خبر، شائد کہ وہ (آپؐ کی تعلیم سے) سدھر جائے۔
(فکر وعمل کی گندگیوں سے پاک ہوجائے)

اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰى۝۴ۭ
اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى۝۵ۙ

یا نصیحت پردھیان دے آپ کی نصیحت اس کے لئے مفید ثابت ہو۔
لیکن جو شخص بے پروائی برتتا ہے۔

یعنی الٰہی تعلیمات پرتوجہ دینے کے لئے آمادہ نہیں اور اس لئے آتا ہے کہ آپ کی مجلس میں اپنا تفوق وبرتری ظاہر کرے۔

فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰى۝۶ۭ
وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰى۝۷ۭ

وَاَمَّا مَنْ جَاۗءَکَ یَسْعٰى۝۸ۙ

توآپؐ اس کی طرف توجہ کرتے ہیں۔
اگر وہ نہ سدھرے (اوراپنے آپ کوپاک نہ کرے) توآپؐ پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟
اور جو خود طلب حق میں دوڑا دوڑا آپؐ کی خدمت میں آئے۔

وَہُوَیَخْشٰى۝۹ۙ
فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَہّٰى۝۱۰ۚ

اور وہ ڈر بھی
رہا ہو۔توآپؐ اس سے بے رخی برتتے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کواپنے ایک غریب مومن بندہ کی دل شکنی منظور نہیں۔ خواہ یہ دل شکنی اپنے محبوب ترین بندہ ورسول ہی کی جانب سے کیوںنہ ہو۔

کَلَّآ اِنَّہَا تَذْکِرَۃٌ۝۱۱ۚ
فَمَنْ شَاۗءَ ذَکَرَہٗ۝۱۲ۘ
فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ۝۱۳ۙ
مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍؚ۝۱۴ۙ

ہرگز ایسا نہ کیجئے یہ (قرآن توسارے جہان کے لئے) نصیحت ہے
پس جس کا جی چاہے اسے قبول کرے(اوراس کی نصیحتوں کویاد رکھے)
(یہ قرآنی الٰہی تعلیم) اعلیٰ ترین مضامین پرمشتمل ہے۔
نہایت ہی قابل قدر ہر قسم کی آمیزشوں سے پاک ہے۔

بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ۝۱۵ۙ

کِرَامٍؚبَرَرَۃٍ۝۱۶ۭ
قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہٗ۝۱۷ۭ

یہ کلام ان فرشتوں کے ہاتھوں (رسول اللہﷺ تک) جوں کا توں پہنچایا گیا ہے۔
جونہایت ہی سچے اوراللہ تعالیٰ کے مطیع وفرماںبردار ہیں۔
لعنت ہو کافر انسان پر وہ کیا ہی ناشکرا ہے۔

مِنْ اَیِّ شَیْءٍ خَلَقَہٗ۝۱۸ۭ
مِنْ نُّطْفَۃٍ۝۰ۭ

(اپنے ہی خالق، مالک، رازق اور محسن کے مقابلے میں باغیانہ روش اختیار کرتا ہے)
کس چیز سے اللہ نے اس کوپیدا کیا۔
(قطرۂ آب) نطفہ کی ایک بوند سے۔

خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ۝۱۹ۙ
ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ۝۲۰ۙ

اللہ تعالیٰ نے اس کو(صحیح وسالم اعضاء وجوارح کے ساتھ) پیدا فرمایا پھر اسکی ہر چیز اندازے سے بنائی(کہ اس کو کن کن حالات سے گزرنا ہے)

توضیح :دنیا میںوہ تمام اسباب ووسائل فراہم کئے، جن سے یہ کام لے کر بہ آسانی زندگی گزارسکتا ہے ورنہ اس کے جسم وذہن کی ساری قوتیں بے کارثابت ہوتیں۔ پھر حق وباطل کی دونوں راہیں اس کے سامنے کھول کررکھ دیں، رہنمائی کے لئے رسول بھیجے۔ اپنی کتاب نازل فرمائی اور عقل وتمیز عطا کی کہ وہ اپنے اختیار سے جس راہ کوچاہے اختیار کرے۔

ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ۝۲۱ۙ
ثُمَّ اِذَا شَاۗءَ اَنْشَرَہٗ۝۲۲ۭ
کَلَّا

پھر اسے موت دی اوراس کوقبر میں پہنچایا۔
پھرجب چاہے وہ اسے( دوبارہ زندہ) اٹھا کر کھڑا کرے گا ۔
ہرگز نہیں( اس کی مجال نہیں)

توضیح : موت کے بعد جب اسے دوبارہ زندہ کرکے اٹھانا چاہے تویہ اٹھنے سے انکار کرسکے۔پہلے جب اس کوپیدا کیا گیا تھا توپوچھ کرپیدا نہیں کیا گیا تھا، جواب اسے اٹھاتے ہوئے اس سے پوچھنا ضروری ہو۔

لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ۝۲۳ۭ

فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِہٖٓ۝۲۴ۙ
اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا۝۲۵ۙ

اللہ نے اسے جوحکم دیا( اور جوفرائض عائد کئے تھے) اس نے ان کو پورا نہیں کیا۔
پھر ذرا انسان اپنے معاشی نظام کھانے پینے پربھی تو غور کرے۔
ہم نے ہی توخوب پانی برسایا۔

ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا۝۲۶ۙ
فَاَنْۢبَتْنَا فِیْہَا حَبًّا۝۲۷ۙ
وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا۝۲۸ۙ
وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا۝۲۹ۙ
وَّحَدَاۗىِٕقَ غُلْبًا۝۳۰ۙ

پھر ہم نے زمین کوکھیتی پودوں اوردرختوں کونشونما کے قابل بنایا۔
ہم نے اس میں طرح طرح کے اناج اگائے۔
انگور اورترکاریاں اگائیں۔
زیتوں اور کھجوریں پیدا کیں۔
گھنے باغ بھی

وَّفَاکِہَۃً وَّاَبًّا۝۳۱ۙ
مَّتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ۝۳۲ۭ
فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّۃُ۝۳۳ۡ

طرح طرح کے میوے اور(جانوروں کے لئے) چارہ نکالا ۔
یہ سب سامان زیست تمہارے اور تمہارے مویشیوں کیلئے پیدا کئے۔
پھر جب وہ کان بہرے کردینے والی (ہولناک قیامت خیز)آواز بلند ہوگی(تب مردے جی اٹھیں گے)

یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ۝۳۴ۙ
وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ۝۳۵ۙ
وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ۝۳۶ۭ

اس روز انسان اپنے بھائی سے
اوراپنی ماں سے اور اپنے باپ سے۔
اور ( حد یہ کہ) اپنی بیوی اوراپنی اولاد تک سے بھی بھاگے گا۔

یہ انتہائی قریبی رشتے بھی اس دن کچھ کام نہ آئیں گے۔

لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۝۳۷ۭ
وُجُوْہٌ یَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَۃٌ۝۳۸ۙ
ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ۝۳۹ۚ

ان میں کا ہر شخص اس دن حیران وپریشان رہے گا کہ اپنے سوا کسی کا ہوش نہیں رہے گا
اس روز بعض چہرے مسرورو روشن ہوں گے۔
ہشاش وبشاش، شاداں، خنداں۔

یہ وہ لوگ ہوںگے جنہوں نے الٰہی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کی ہوگی۔

وَوُجُوْہٌ یَّوْمَىِٕذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ۝۴۰ۙ
تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ۝۴۱ۭ

اور بعض چہروں پر(رنج وغم کے مارے) ہوائیاں اڑرہی ہوںگی۔
ان پر ذلت کی سیاہی چھارہی ہوگی۔

توضیح : یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے الٰہی ونبوی تعلیم سے اپنے کومستغنی رکھا اور حرص وہوس کی پیروی میں لگے رہے۔

اُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ۝۴۲ۧ

یہی کافر اورفاجر ہوں گے(جنہوں نے دین حق سے روگردانی کی تھی)

توضیح : اس سورۃ میں ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ مومن کتنا ہی غریب ومفلس کیوں نہ ہو وہ غیردین دار صاحب دولت واقتدار کے مقابلے میں بہرحال قابل احترام واکرام ہے۔ دنیا داروں کی، خوشنودی یا دل جوئی کے لئے غریب سے غریب مومن سے بے اعتنائی کرنے والا خواہ وہ کتنا ہی بڑا مقرب بارگاہ الٰہی کیوں نہ ہو، اس کا ایسا عمل حق تعالیٰ کوپسند نہیں۔ پھر اہل جاہ وثروت کے لئے بھی سبق ہے کہ وہ اپنی وثروت کے گھمنڈ میں علم دین کے حصول میں بے نیازی نہ برتیں اگر علم دین غریب سے غریب اورنادارمسلمانوں کی مجلسوں میںنظرآتا ہے توبے تکلف وہاں جائیں۔ اور اس شرف سے مستفید ہوں۔