سورۂ عبس مکی ہے اس میں بیالیس آیتیں اور ایک رکوع ہے۔
توضیح :مفسریں، محدثین نے بالاتفاق اس سورۃ کے شان نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں مکہ معظمہ کے چند بڑے سردار بیٹھے ہوئے تھے اور حضورﷺ ان کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش فرمارہے تھے۔ اتنے میں ابن ام مکتوم نامی ایک نابینا صحابیؓ حضورﷺ میں حاضر ہوئے اورآپؐ سے اسلام کے متعلق کچھ پوچھنا چاہا۔ حضورﷺ کواس وقت ان کی یہ آمد ناگوار ہوئی سوآپؐ نے ان سے بے رخی برتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سورۃ نازل ہوئی کہ آپؐ کی توجہ کے مستحق وہ لوگ ہیں، جن میں قبولیت حق کی آمادگی پائی جائے اور جو لوگ اپنے تکبر اورہٹ دھرمی سے حق وصداقت سے بے نیازی برتتے ہیں وہ غیراہم ہیں، خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی بڑا مقام رکھتے ہوں۔ جو لوگ اس وقت آپؐ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے مختلف روایات میں ان کے ناموں کی صراحت کی گئی ہے کہ وہ عتبہ، شیبہ، ابوجہل، اورامیہ بن خلف جیسے دشمنان اسلام تھے، اور ان کو اپنی موجودگی میں غریبوں کا آنا پسند نہ تھا۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی۱ۙ
اَنْ جَاۗءَہُ الْاَعْمٰى۲ۭ
وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی۳ۙ
ترش روی اختیار کی اوربے رخی برتی
جب ان کے پاس اندھا آگیا۔
اورآپؐ کو کیا خبر، شائد کہ وہ (آپؐ کی تعلیم سے) سدھر جائے۔
(فکر وعمل کی گندگیوں سے پاک ہوجائے)
اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰى۴ۭ
اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى۵ۙ
یا نصیحت پردھیان دے آپ کی نصیحت اس کے لئے مفید ثابت ہو۔
لیکن جو شخص بے پروائی برتتا ہے۔
یعنی الٰہی تعلیمات پرتوجہ دینے کے لئے آمادہ نہیں اور اس لئے آتا ہے کہ آپ کی مجلس میں اپنا تفوق وبرتری ظاہر کرے۔
فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰى۶ۭ
وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰى۷ۭ
وَاَمَّا مَنْ جَاۗءَکَ یَسْعٰى۸ۙ
توآپؐ اس کی طرف توجہ کرتے ہیں۔
اگر وہ نہ سدھرے (اوراپنے آپ کوپاک نہ کرے) توآپؐ پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟
اور جو خود طلب حق میں دوڑا دوڑا آپؐ کی خدمت میں آئے۔
وَہُوَیَخْشٰى۹ۙ
فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَہّٰى۱۰ۚ
اور وہ ڈر بھی
رہا ہو۔توآپؐ اس سے بے رخی برتتے ہیں۔
کَلَّآ اِنَّہَا تَذْکِرَۃٌ۱۱ۚ
فَمَنْ شَاۗءَ ذَکَرَہٗ۱۲ۘ
فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ۱۳ۙ
مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍؚ۱۴ۙ
ہرگز ایسا نہ کیجئے یہ (قرآن توسارے جہان کے لئے) نصیحت ہے
پس جس کا جی چاہے اسے قبول کرے(اوراس کی نصیحتوں کویاد رکھے)
(یہ قرآنی الٰہی تعلیم) اعلیٰ ترین مضامین پرمشتمل ہے۔
نہایت ہی قابل قدر ہر قسم کی آمیزشوں سے پاک ہے۔
بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ۱۵ۙ
کِرَامٍؚبَرَرَۃٍ۱۶ۭ
قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہٗ۱۷ۭ
یہ کلام ان فرشتوں کے ہاتھوں (رسول اللہﷺ تک) جوں کا توں پہنچایا گیا ہے۔
جونہایت ہی سچے اوراللہ تعالیٰ کے مطیع وفرماںبردار ہیں۔
لعنت ہو کافر انسان پر وہ کیا ہی ناشکرا ہے۔
مِنْ اَیِّ شَیْءٍ خَلَقَہٗ۱۸ۭ
مِنْ نُّطْفَۃٍ۰ۭ
(اپنے ہی خالق، مالک، رازق اور محسن کے مقابلے میں باغیانہ روش اختیار کرتا ہے)
کس چیز سے اللہ نے اس کوپیدا کیا۔
(قطرۂ آب) نطفہ کی ایک بوند سے۔
خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ۱۹ۙ
ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ۲۰ۙ
اللہ تعالیٰ نے اس کو(صحیح وسالم اعضاء وجوارح کے ساتھ) پیدا فرمایا پھر اسکی ہر چیز اندازے سے بنائی(کہ اس کو کن کن حالات سے گزرنا ہے)
ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ۲۱ۙ
ثُمَّ اِذَا شَاۗءَ اَنْشَرَہٗ۲۲ۭ
کَلَّا
پھر اسے موت دی اوراس کوقبر میں پہنچایا۔
پھرجب چاہے وہ اسے( دوبارہ زندہ) اٹھا کر کھڑا کرے گا ۔
ہرگز نہیں( اس کی مجال نہیں)
لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ۲۳ۭ
فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِہٖٓ۲۴ۙ
اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا۲۵ۙ
اللہ نے اسے جوحکم دیا( اور جوفرائض عائد کئے تھے) اس نے ان کو پورا نہیں کیا۔
پھر ذرا انسان اپنے معاشی نظام کھانے پینے پربھی تو غور کرے۔
ہم نے ہی توخوب پانی برسایا۔
ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا۲۶ۙ
فَاَنْۢبَتْنَا فِیْہَا حَبًّا۲۷ۙ
وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا۲۸ۙ
وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا۲۹ۙ
وَّحَدَاۗىِٕقَ غُلْبًا۳۰ۙ
پھر ہم نے زمین کوکھیتی پودوں اوردرختوں کونشونما کے قابل بنایا۔
ہم نے اس میں طرح طرح کے اناج اگائے۔
انگور اورترکاریاں اگائیں۔
زیتوں اور کھجوریں پیدا کیں۔
گھنے باغ بھی
وَّفَاکِہَۃً وَّاَبًّا۳۱ۙ
مَّتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ۳۲ۭ
فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّۃُ۳۳ۡ
طرح طرح کے میوے اور(جانوروں کے لئے) چارہ نکالا ۔
یہ سب سامان زیست تمہارے اور تمہارے مویشیوں کیلئے پیدا کئے۔
پھر جب وہ کان بہرے کردینے والی (ہولناک قیامت خیز)آواز بلند ہوگی(تب مردے جی اٹھیں گے)
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ۳۴ۙ
وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ۳۵ۙ
وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ۳۶ۭ
اس روز انسان اپنے بھائی سے
اوراپنی ماں سے اور اپنے باپ سے۔
اور ( حد یہ کہ) اپنی بیوی اوراپنی اولاد تک سے بھی بھاگے گا۔
یہ انتہائی قریبی رشتے بھی اس دن کچھ کام نہ آئیں گے۔
لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۳۷ۭ
وُجُوْہٌ یَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَۃٌ۳۸ۙ
ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ۳۹ۚ
ان میں کا ہر شخص اس دن حیران وپریشان رہے گا کہ اپنے سوا کسی کا ہوش نہیں رہے گا
اس روز بعض چہرے مسرورو روشن ہوں گے۔
ہشاش وبشاش، شاداں، خنداں۔
یہ وہ لوگ ہوںگے جنہوں نے الٰہی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کی ہوگی۔
وَوُجُوْہٌ یَّوْمَىِٕذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ۴۰ۙ
تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ۴۱ۭ
اور بعض چہروں پر(رنج وغم کے مارے) ہوائیاں اڑرہی ہوںگی۔
ان پر ذلت کی سیاہی چھارہی ہوگی۔
اُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ۴۲ۧ
یہی کافر اورفاجر ہوں گے(جنہوں نے دین حق سے روگردانی کی تھی)