☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللہَ

ائے نبی(ﷺ) اللہ سے ڈرتے رہئے۔

(اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کے انجام کوپیش نظررکھتے ہوئے تقویٰ پرقائم رہئے)

وَلَا تُطِـــعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ۝۰ۭ

اور کافروں ومنافقوں کا کہنا نہ مانئیے (یعنی ان کے خیالات ونظریات کو قبول نہ کیجئے)

اِنَّ اللہَ كَانَ عَلِــيْمًا حَكِــيْمًا۝۱ۙ

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں( یعنی مذکورہ تجاویز نہایت ہی عالمانہ وحکیمانہ ہیں)

وَاتَّبِعْ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ

آپکے رب کی طرف سے آپ پر جو وحی کی جاتی ہے اسکے مطابق عمل کیجئے۔

اِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝۲ۙ

بلاشبہ تم جو کچھ عمل کرتے ہو، اللہ اس سے با خبر ہیں ۔

وَّتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ

اور اللہ ہی پر بھروسہ رکھئے۔

احکام الٰہی کی تعمیل میں کسی قسم کا اندیشہ نہ کیجئے اللہ تعالیٰ چاہے بغیر کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

وَكَفٰي بِاللہِ وَكِيْلًا۝۳

اور کارسازی کے لئے اللہ کافی ہیں۔

مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ

اللہ نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے۔

فِيْ جَوْفِہٖ۝۰ۚ

کہ ایک میں اخلاص ہو، دوسرے میں نفاق یا وقت واحد میں وہ مومن بھی ہو کافر بھی۔

وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ اڿ

اور تمہاری ان بیبیوں کو جن سے تم نے ظہار کیا ہے۔

تُظٰہِرُوْنَ مِنْہُنَّ اُمَّہٰتِكُمْ۝۰ۚ

(یعنی ماں یا بہن ان کے مثل کہہ دیا ہے) تمہاری مائیں نہیں بنایا۔

وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ۝۰ۭ

اور نہ تمہارے لے پالک منہ بولے بیٹوں کوتمہارا حقیقی بیٹا قرار دیا۔

ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاہِكُمْ۝۰ۭ

یہ تمہاری منہ بولی باتیں ہیں۔

توضیح : مطلب یہ ہے کہ بیویوں کو ماں کہہ دینے سے بی بیاں مائیں نہیں ہوجاتیں اور لے پالک متبنیٰ کو بیٹا کہنے سے بیٹا نہیں ہوجاتا۔

وَاللہُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ وَہُوَيَہْدِي السَّبِيْلَ۝۴

اللہ تعالیٰ وہی بات کہتے ہیں جو حق ہے اور وہی سیدھا راستہ دکھاتے ہیں۔

اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَاۗىِٕہِمْ ہُوَاَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۚ

لہٰذا اپنے لے پالک منہ بولے بیٹوں کوان کے اصلی باپ ہی کے نام سے پکارو اللہ کے پاس یہی بات درست ہے

فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ۝۰ۭ

اگر تم نہیں جانتے کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست توہیں۔

وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ۝۰ۙ

اور جو بات بھولے سے یا نا دانستہ کہی جائے تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔

وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا۝۵

لیکن ان باتوں پرضرور مواخذہ ہوگا جو ارادۃً کہی جائیں (اس صورت میں اللہ تعالیٰ سے معافی چاہو) اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے، رحم فرمانے والے ہیں۔

اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ۝۰ۭ

نبی کا حق مومنوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ ہے اور نبی کی بیویاں حقیقی ماؤں کی طرح حرام ہیں۔

وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُہٰجِرِيْنَ

اور قریبی قرابت دار عام مومنین ومہاجرین کے مقابلہ میں بروئے کتاب اللہ بہتر سلوک کے زیادہ حق دار ہیں۔

اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا۝۰ۭ

مگر تم اپنے دوستوں کے ساتھ کچھ احسان کرنا چاہو تو اور بات ہے۔

كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا۝۶

یہی بات کتاب اللہ میں لکھی جاچکی ہے۔

وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَہُمْ وَمِنْكَ

اور جب ہم نے سب پیغمبروں سے عہد لیا اور آپ سے بھی،

وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۝۰۠

اور نوحؑ سے اور ابراہیمؑ سے اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ بن مریم علیہم الصلوۃ والسلام سے،

وَاَخَذْنَا مِنْہُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا۝۷ۙ

اورہم نے ان سب سے پختہ عہد لیا (کہ جوبات بھی کہنی ہو وحی کے مطابق کہی جائے)

لِّيَسْـَٔـلَ الصّٰدِقِيْنَ عَنْ صِدْقِہِمْ۝۰ۚ

تا کہ سچ کہنے والوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت کیا جائے کہ کیا تم نے وحی کے مطابق تعلیم پہنچادی۔

وَاَعَدَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝۸ۧ

اور الٰہی تعلیمات کا انکار کرنے والے کافروں کے لئے اللہ نے درد ناک عذاب تیار رکھا ہے۔

توضیح : یہاں سے جنگ احزاب کا آغاز ہے۔ یہ سورۃ اسی نام سے منسوب ہے۔ یہود اور قریش نے ایک متحدہ محاذ قائم کیا۔ یہودیوں کے ایک قبیلہ بنو قریظہ نے ابھی تک معاہدہ امن کی خلاف ورزی نہیں کی تھی مگر بنو نضیر کی ترغیب سے وہ بھی مخالف ہوگئے، غرض یہود اور عرب کے تمام قبائل نے متحد ہو کر ایک بھاری لشکر تیار کیا۔ اور مدینہ کی طرف بڑھے مورخین کا بیان ہے کہ ان کی تعداد بارہ ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ ابوسفیان اس فوج کا سپہ سالار تھا۔
رسول اللہﷺ کو جب اس کی خبر پہنچی توآپ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسی ایرانی ہونے کی وجہ سے خندق کے طریقہ سے واقف تھے۔ انہوں نے رائے دی کہ کھلے میدان میں نکل کر مقابلہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایک محفوظ مقام پر فوج جمع کی جائے اور اس کے اطراف خندق کھود کر مقابلہ کیا جائے۔ سب لوگوں نے اس رائے سے اتفاق کیا۔اور خندق کھودنے کے لئے آلات مہیا کئے گئے۔ مدینہ میں تین طرف مکانات اورنخلستان کا سلسلہ تھا جو شہر پناہ کا کام دیتا تھا۔ صرف ایک رخ کھلا ہوا تھا۔ رسول اللہﷺ نے تین ہزار صحابہؓ کے ساتھ مدینہ سے نکل کر اسی مقام پرخندق کھودنی شروع کی۔ دس دس گز زمین کی کھدائی دس دس حضرات پرتقسیم کی، جس کی گہرائی پانچ گز تھی، بیس دن تین ہزار صحابہؓ کے متبرک ہاتھوں سے یہ کام پورا ہوا۔ زمین کھودنے میں پتھر کی ایک سخت چٹان آگئی۔ کسی کی ضرب کارگر نہیں ہورہی تھی۔ رسول اللہﷺ فاقے سے تھے۔ مگر آپ کی تین ضربوں سے چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی۔ صحابہ کرامؓ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور آپؐ نے فرمایا۔ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ وَرَسُوْلَہٗ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ جب کبھی رسول اللہ ﷺ سے کسی کمال کا ظہور ہوتا تو آپ فوراً اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ وَرَسُوْلَہٗ فرماتے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ سابقہ امتوں کی طرح آپ کی امت بھی پیغمبروں میں الوہیت ثابت کرکے گمراہ نہ ہوجائے اور شرک سے محفوظ رہے۔ افسوس کہ الٰہی ونبوی تعلیم سے عام ناواقفیت اور رہنما یان قوم کی غلط رہنمائی کی وجہ سابقہ امتوں کی طرح امت محمدیہ بھی رسول اللہﷺ کے تعلق سے مشرکانہ عقائد میں مبتلا ہوگئی ہے۔ الا ماشاء اللہ۔
کوئی تعلیم دیتا ہے کہ محمد عین خدا ہیں۔ ؎ ’’ظاہر میں محمدؐ ہیں توباطن میں خدا ہیں‘‘
کوئی تعلیم دیتا ہے کہ نوری بشر ہیں، ماورائے انسانیت ہیں۔ یہ بھی عقیدت ہے کہ جہاں آپ پر سلام پڑھایا جاتا ہے آپ بہ نفس نفیس وہاں تشریف فرما ہوتے ہیں، اس لئے کھڑے ہو کر سلام پڑھتے ہیں۔ حیاۃ النبی اور علم غیب وغیرہ کے تصورات مذکورہ غلط عقائد کی شاخیں ہیں۔ حضرات صحابہ کرامؓ کے پاس ایسے عقائد کا شائبہ بھی نہ تھا۔
آپؐ کی محبت اور عقیدت ایمان کا ایک ایسا اہم اور بنیادی جزو ہے کہ اس میں اگر کوئی خامی یا نقص ہو تو ایمان ہی معتبر نہیں مگر محبت وعقیدت بھی آپ کی تعلیم کے مطابق ہونی چاہئے مذکورہ اعتقادات کے علاوہ معراج ومیلاد وآثار مبارک کے مروجہ جلسے وغیرہ ان میں کوئی بات بھی نبوی تعلیم کے مطابق نہیں ہے۔
غرض کہ سلعؔ کی پہاڑی کوپشت پر رکھ کرصف آرائی کی گئی۔ مستورات شہر کے محفوظ قلعوں میں بھیج دی گئیں اور سلمہ بن اسلمؓ صحابی دو سو حضرات کے ساتھ ان کی حفاظت کے لئے متعین کردیئے گئے۔ قریش ویہود دیگر قبائل عرب اپنی بارہ ہزار فوج تین حصوں میں تقسیم کرکے اس زور وشور سے حملہ آور ہوئے کہ مدینہ کی زمین دہل گئی۔ اب اسی جنگ کا ذکر ہے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَاۗءَتْكُمْ جُنُوْدٌ

ائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کے اس احسان کویاد کرو جو اس نے تم پر کئے جب تم پرفوجیں حملہ آور ہوئیں

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْہِمْ رِيْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا۝۰ۭ

توہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیجی اور فرشتوں کے ایسے لشکر نازل کئے جنہیں تم دیکھ نہ سکتے تھے،

وَكَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا۝۹ۚ

اور اللہ تعالیٰ تمہاری اس جدوجہد کودیکھ رہے تھے ۔

اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ

جب (تمہارے دشمن متحدہ محاذ بنا کر فوج درفوج) تمہارے اوپر اور نیچے کی طرف سے حملہ آور ہوئے۔

وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللہِ الظُّنُوْنَا۝۱۰

اور جب خوف ودہشت کے مارے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے۔

ہُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا۝۱۱

اس وقت ایمان لانے والے آزمائے گئے اور خوف ودہشت کے ساتھ خوب جھنجھوڑے گئے۔

وَاِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا۝۱۲

اور اس وقت منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری تھی کہنے لگے، اللہ ورسول نے ہم سے (ہماری حفاظت کے) جو وعدے کئے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔

وَاِذْ قَالَتْ طَّاۗىِٕفَۃٌ مِّنْہُمْ يٰٓاَہْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا۝۰ۚ

اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا ائے یثرب (مدینہ) کے لوگو، تمہارے لئے اب ٹھیرنے کا کوئی موقعہ نہیں ہے( محمدؐ کا ساتھ چھوڑکر) واپس لوٹ جاؤ،

وَيَسْتَاْذِنُ فَرِيْقٌ مِّنْہُمُ النَّبِيَّ يَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَۃٌ۝۰ۭۛ

اوران میں سے ایک فریق نے نبیؐ سے اجازت چاہی کہنے لگے ہمارے گھرغیر محفوظ ہیں (ہمیں بال بچوں کی حفاظت کا موقع دیجئے)

وَمَا ہِىَ بِعَوْرَۃٍ۝۰ۚۛ

حالانکہ وہ غیر محفوظ نہ تھے، کوئی خطرہ نہ تھا،

اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا۝۱۳

بلکہ وہ(حیلہ بازی سے) بھاگنا چاہتے تھے۔

وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْہِمْ مِّنْ اَقْطَارِہَا ثُمَّ سُىِٕلُوا الْفِتْنَۃَ لَاٰتَوْہَا

اور اگر شہر کی اطراف سے دشمن گھس آئے ہوتے اور پھر انھیں خانہ جنگی کے لئے بلایا جاتا تو وہ ان کا ساتھ دیتے

وَمَا تَلَبَّثُوْا بِہَآ اِلَّا يَسِيْرًا۝۱۴

اور اس فتنے میں شامل ہوجانے میں بہت ہی کم توقف کرتے،

وَلَقَدْ كَانُوْا عَاہَدُوا اللہَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ۝۰ۭ

حالانکہ وہ اس سے پہلے اللہ سے وعدہ کرچکے ہیں کہ پیٹھ نہ پھیریں گے۔

وَكَانَ عَہْدُ اللہِ مَسْـُٔــوْلًا۝۱۵

یقیناً اللہ سے کئے ہوئے اقرار کی ضرور پرسش ہوگی۔

توضیح :جنگ احد میں انہوں نے جو کمزوری دکھائی تھی اور اس سے مسلمانوں کوجونقصان پہنچا توشرمندگی وندامت کے اظہار کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اب اگر آزمائش کا کوئی موقع پیش آئے تو وہ اپنی اس کو تاہی کی تلافی کریں گے مگر آزمائش کے موقع پرناکام ہوگئے۔

قُلْ لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ

(ائے نبیﷺ) کہئے اگر تم مرنے یا مارے جانے کے خوف سے بھاگنا چاہو تو بھاگنا تمھیں نفع نہ دے گا۔

وَاِذًا لَّا تُمَـتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۱۶

اور اس صورت میں تم بہت ہی کم فائدہ اٹھائے ہوتے۔

توضیح : جن کے مقدر میں موت ہے وہ بھاگ کربچ نہیں سکتے اور کچھ تا خیر ہے توبھاگ کر کتنے دن زندہ رہ سکیں گے۔

قُلْ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَعْصِمُكُمْ مِّنَ اللہِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوْۗءًا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَۃً۝۰ۭ

ائے نبیﷺ، ان سے کہئے اللہ کی گرفت سے کون تم کوبچا سکتا ہے۔ اگر وہ تمہیں کسی مصیبت میں مبتلا کرنا چاہے، اور کون اس کی رحمت کو روک سکتا ہے اگر وہ تم پرمہربانی کرنا چاہئے ؟

وَلَا يَجِدُوْنَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا۝۱۷

اور وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں( اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے) اپنا کوئی حمایتی اور مددگار نہ پائیں گے ۔

قَدْ يَعْلَمُ اللہُ الْمُعَوِّقِيْنَ مِنْكُمْ

تم میں سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتے ہیں جو (جنگ میں) رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں،

وَالْقَاۗىِٕلِيْنَ لِاِخْوَانِہِمْ ہَلُمَّ اِلَيْنَا۝۰ۚ

اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس واپس چلے آؤ (کہاں کا دین، کہاں کا ایمان، خواہ مخواہ حق و باطل کی چکر میں پڑے ہوئے ہو)

وَلَا يَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۱۸ۙ

اور جنگ وجدال میں بہت ہی کم حصہ لیتے ہیں (اور وہ بھی نام ونمود کیلئے)

اَشِحَّۃً عَلَيْكُمْ۝۰ۚۖ

تمہارا ساتھ دینے میں بڑے ہی بخیل ہیں۔

(راہ خدا میں تمہاری طرح جان ومال کی قربانیاں ان پر شاق گزرتی ہیں)

فَاِذَا جَاۗءَ الْخَوْفُ رَاَيْتَہُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ

پھر جب (جان کا) خطرہ نظرآتا یہ تو تم انہیں دیکھوگے کہ وہ تمہاری طرف (بڑی ہی گھبراہٹ سے) دیکھتے ہیں۔

تَدُوْرُ اَعْيُنُہُمْ كَالَّذِيْ يُغْشٰى عَلَيْہِ مِنَ الْمَوْتِ۝۰ۚ

ان کی آنکھیں اس طرح پھرتی ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہوتی ہو۔

فَاِذَا ذَہَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِـنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَي الْخَــيْرِ۝۰ۭ

پھر جب خوف وخطرہ ٹل جاتا ہے تو تم پر زبان درازی کرتے (طعنے دیتے) تکلیف پہنچاتے اور مال غنیمت پر بڑے ہی حریص ہوتے ہیں۔

اُولٰۗىِٕكَ لَمْ يُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللہُ اَعْمَالَہُمْ۝۰ۭ

واقعہ یہ ہے کہ وہ لوگ ایمان لائے ہی نہ تھے۔ اس لئے اللہ نے ان کے اعمال برباد کردیئے۔

وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرًا۝۱۹

اور یہ اللہ کے لئے آسان ہے۔

يَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ يَذْہَبُوْا۝۰ۚ

(خوف کے سبب) سمجھتے ہیں کہ حملہ آور ابھی واپس نہیں ہوئے ہیں۔

ان کی واپسی کا انہیں یقین نہیں آتا سمجھتے ہیں کہ کہیں گھات لگائے بیٹھے ہوںگے۔

وَاِنْ يَّاْتِ الْاَحْزَابُ يَوَدُّوْا لَوْ اَنَّہُمْ بَادُوْنَ فِي الْاَعْرَابِ

اور اگر لشکر آجائے تو تمنا کریں کاش کہ وہ کہیں صحرا میں بدوؤں کے ساتھ جارہتے۔

يَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْۢبَاۗىِٕكُمْ۝۰ۭ

اور تمہاری خبریں پوچھا کرتے۔

وَلَوْ كَانُوْا فِيْكُمْ مَّا قٰتَلُوْٓا اِلَّا قَلِيْلًا۝۲۰ۧ

اور اگر وہ تم میں رہتے بھی تو جنگ وجدال میں حصہ نہ لیتے مگر بہت ہی کم

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ

بے شک رسول اللہﷺ کی زندگی میں تمہارے لئے ایک بہترین نمونہ ہے۔

(کہ کس طرح اللہ کے رسول اللہ کی راہ میں جان ومال کی بازی لگانے کے لئے ہر وقت کمربستہ رہتے ہیں)

لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۝۲۱ۭ

ہر اس شخص کے لئے (نمونہ ہیں) جو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر کئے جانے کی امید اور قیامت کے دن (وقوع پذیر ہونے والے واقعات ) کا یقین رکھتا اور کثرت سے ذکر کرتا ہو۔

وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ۝۰ۙ

اور جب اہل ایمان نے حملہ آور لشکروں کودیکھا۔

قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ۝۰ۡ

توکہنے لگے، اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا یہ وہی ہے کہ تمہیں سخت ترین آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا۔

وَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِــيْمًا۝۲۲ۭ

(اس واقعہ سے ) ان کے ایمان اور اطاعت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔

توضیح : راہِ حق میں دین حق کی بقاء واشاعت میں اپنا سب کچھ قربان کردینے کا والہانہ (تسلیم ورضا کا) جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۝۰ۚ 

ایمان والوں میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے اپنے عہدو اقرار کوسچا کردکھایا۔

فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ

ان میں بعض ایسے ہیں۔ جنہوں نے اپنی نذر پوری کردی۔
(یعنی اللہ کی راہ میں جان کی بازی لگادی)

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۝۰ۡۖ

اور ان میں بعض ایفائے عہد (شہادت ) کے منتظرہیں۔

وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۝۲۳ۙ

اورانہوں نے اپنے قول وقرار میں ذرا بھی تبدیلی نہ کی۔

لِّيَجْزِيَ اللہُ الصّٰدِقِيْنَ بِصِدْقِہِمْ

( یہ سارے واقعات اس لئے بھی پیش آئے) تا کہ اللہ سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے۔

وَيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ اِنْ شَاۗءَ

اور منافقین کواگر چاہے توسزا دے یا ان پر توجہ کرے

اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ

( اصلاح کی توفیق دے، توبہ قبول کرے)

اِنَّ اللہَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝۲۴ۚ

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے، رحم کرنے والے ہیں۔

وَرَدَّ اللہُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِغَيْظِہِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًا۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ نے حملہ آور کافروں کو(جو بڑی تیاریوں کے ساتھ) آئے تھے (بے نیل ومرام، انتہائی شکستگی) غیض وغضب اور غم خوردگی کے ساتھ واپس فرمایا۔ وہ کوئی بھلائی حاصل نہ کرسکے۔

وَكَفَى اللہُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ۝۰ۭ

اور (میدان جنگ میں) اہل ایمان کی حفاظت کیلئے اللہ تعالیٰ کافی ہیں۔

وَكَانَ اللہُ قَوِيًّا عَزِيْزًا۝۲۵ۚ

اور اللہ تعالیٰ زبردست طاقت کے مالک ہیں۔

توضیح : جنگ احزاب ختم ہوتے ہی رسول اللہﷺ نے یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ فرمالیا چند ہی روز میں یہودی محاصرہ کی تاب نہ لاسکے اور اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔

وَاَنْزَلَ الَّذِيْنَ ظَاہَرُوْہُمْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَيَاصِيْہِمْ

اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا (یہودی بنی قریظہ) اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی پناہ گاہوں اور قلعوں سے اتاردیا۔

وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِيْقًا۝۲۶ۚ

اوران کے دلوں میں رعب (سخت خوف) ڈال دیا تم (آج) ان کے ایک گروہ کو قتل اور دوسرے گروہ کو قید کررہے ہو۔

وَاَوْرَثَكُمْ اَرْضَہُمْ وَدِيَارَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ

اور تم کوان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا وارث بنایا،

وَاَرْضًا لَّمْ تَطَـــــُٔـوْہَا۝۰ۭ

اور اس زمین کا بھی مالک بنایا جس پر تم نے قدم بھی نہ رکھا تھا۔ ( یہ زمین مدینہ سے قریب تھی)

( رسول اللہﷺ نے یہ زمین مہاجرین پرتقسیم فرمائی اور انصار کا بار ہلکا فرمایا)

وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا۝۲۷ۧ

اوراللہ تعالیٰ ہر چیز پرقادر ہیں۔

توضیح : یہودیوں کے باغ، گھر بار، مال ودولت آجانے سے مسلمانوں اور رسول اللہﷺ کی معاشی تنگی دورہوئی۔ امہات المومنین نے اپنے نفقے میں کچھ اضافہ کرنے کی خواہش کی جس پر ان الفاظ میں وحی نازل ہوئی۔

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ

ائے نبیﷺ اپنی بی بیوں سے کہئے،

اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَہَا

اگر تمہیں دنیا اور اس کی زیب وزینت پسند ہے۔

فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا۝۲۸

توآؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر اچھے طریقہ سے رخصت کردوں۔

توضیح : کسی قسم کی تکلیف دیئے بغیر طلاق دے کراپنے سے جدا کردوں۔

وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ

اور اگر تم کواللہ اور اس کے رسول اورآخرت کے گھر پسند ہیں،

فَاِنَّ اللہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا۝۲۹

تو سن لو، تم میں سے جو نیکو کار ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم مہیا کررکھا ہے۔

يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَيِّنَۃٍ يُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ۝۰ۭ

ائے نبی کی بی بیو، اگر تم میں سے کوئی کھلے طورپر کسی فحش (بڑی معصیت) کا ارتکاب کرے تو اس کو دگنی سزادی جائے گی۔

وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرًا۝۳۰

اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے۔

توضیح :اس خوش فہمی میں مبتلانہ ہونا کہ نبی کی بیوی ہونے کے ناطے سزا دینے میں اللہ کو کچھ تامل ہوگا۔
نوٹ: جن حالات کے تحت جنگ احزاب کا اختتام عمل میں آیا، اس کی مختصر تشریح اس طرح ہے۔ دشمن نے ایک ماہ تک اس سختی سے محاصرہ قائم کر رکھا کہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ پر تین تین دن کے فاقے گزر گئے۔ محاصرین نے خندق کوعبور کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی مگر ہر مرتبہ ناکام رہے، دور ہی سے تیرو پتھر برساتے رہے۔ عرب کے مشہور بہادروں ضراؔ وجبیراؔ ونوفلؔ وعمروبن عبدود نے بڑی جرأت کرکے خندق کوعبور کیا۔ مگر سیدنا علیؓ اور سیدنا عمرؓ نے ان کو آگے بڑھنے نہ دیا۔ عمروبن عبدود اور نوفل کوسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ اور جبیراؔ اور ضرارؔ بے نیل ومرام لوٹ گئے۔ محاصرہ جس قدر طویل ہوتا جارہا تھا۔ محاصرہ کرنے والے ہمت ہارتے جاتے تھے بارہ ہزار کی رسد کا انتظام کوئی آسان کام نہ تھا۔ ادھریہود قریش میں کشیدگی کی کچھ صورتیں پیدا ہوتی جارہی تھیں۔ ایک رات یہ قرار پایا کہ صبح ایک فیصلہ کن حملہ کردینا چاہئے، مگر کارکنان قضاء وقدر کو بارگاہ رب العزت سے کچھ اورہی حکم مل چکا تھا۔ رات کو ایسی شدت کی ہوائیں چلیں کہ دشمنوں کے خیموں کی طنابیں اکھڑ گئیں۔ کھانے کے برتن چولھوں پرالٹ گئے، آنکھیں خاک آلود ہوئیں۔ دشمنوں کے پائے ثبات میں لغزش پیدا ہوگئی۔ ابوسفیان گھبراکر اپنی جمعیت کے ساتھ واپس ہوگیا کچھ قبائل بھی اس کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ بنوقریضہ محاصرہ اٹھا کر اپنے قلعہ میں چلے آئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے بیس یا بائیس دن غبار آلود رہ کر مدینہ کا افق صاف ہوگیا۔ اس جنگ میں رسول اللہﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے ایک نمایاں کام کیا خواتین اسلام جس قلعہ میں تھیں وہ بنو قریضہ کی آبادی سے متصل تھا۔ یہودیوں نے اس قلعہ پر یلغار کردی اور ایک یہودی قلعہ کی پھاٹک تک پہنچ گیا، حضرت صفیہؓ نے دیکھ لیا، اور خیمہ کی ایک بھاری لکڑی نکال کر اس زور سے یہودی کے سرپرماری کہ اس کا سرپھٹ گیا۔ حضرت صفیہؓ نے اس کا سرکاٹ کر قلعہ کے باہر پھینک دیا۔ یہودیوں نے خیال کیا کہ قلعہ میں یقیناً کچھ فوج متعین ہے، پھر انہوں نے حملہ کرنے کی جرأت نہیں کی۔ اس جنگ میں حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ قبیلہ اوس کے سردار تھے زخمی ہوئے اور بنوقریضہ کی ہلاکت کے بعد وفات پائی۔
بنو قریضہ نے معاہدہ شکنی کی تھی۔ جنگ احزاب میں علانیہ شرکت کی اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ان کا بھی آخری فیصلہ کردیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے احزاب سے فارغ ہوکر حکم دیا کہ ابھی مجاہدین ہتھیار نہ کھولیں۔ اور بنو قریضہ کی طرف بڑھیں۔ چنانچہ ان کا محاصرہ کرلیا گیا۔ ایک ماہ تک محصور رہ کر بنو قریضہ نے درخواست کی کہ سعد بن معاذؓ جو فیصلہ کریں ہم کومنظور ہے۔ حضرت سعد بن معاذؓ اوران کا قبیلہ اوس، بنو قریضہ کا حلیف تھا۔
وَمَنْ يَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلہِ وَرَسُوْلِہٖ
بنو قریضہ نے معاہدہ شکنی کی تھی۔ جنگ احزاب میں علانیہ شرکت کی اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ان کا بھی آخری فیصلہ کردیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے احزاب سے فارغ ہوکر حکم دیا کہ ابھی مجاہدین ہتھیار نہ کھولیں۔ اور بنو قریضہ کی طرف بڑھیں۔ چنانچہ ان کا محاصرہ کرلیا گیا۔ ایک ماہ تک محصور رہ کر بنو قریضہ نے درخواست کی کہ سعد بن معاذؓ جو فیصلہ کریں ہم کومنظور ہے۔ حضرت سعد بن معاذؓ اوران کا قبیلہ اوس، بنو قریضہ کا حلیف تھا۔
اس لئے بنو قریضہ کی درخواست منظور کرلی گئی۔ حضرت سعد بن معاذؓنے توریت کے مطابق فیصلہ کیا کہ جنگجو مرد قتل کردیئے جائیں، عورتیں اور بچے قیدی ہوں، اور مال واسباب غنیمت قرار دیا جائے۔ حی بن اخطب جو ان تمام شورشوں کا بانی تھا قتل کردیا گیاتھا۔ دیگر مقتولین کی تعداد ۴۰۰ تا ۶۰۰ھ بتلائی جاتی ہے۔

وَمَنْ يَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتَعْمَلْ صَالِحًا

اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اختیار کرے گی اور صالحانہ زندگی بسر کرے گی

نُّــؤْتِہَآ اَجْرَہَا مَرَّتَيْنِ۝۰ۙ

تو ہم اس کودوہرا اجردیں گے۔

وَاَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا كَرِيْمًا۝۳۱

اور ہم نے اس کے لئے (آخرت میں) باعزت رزق مہیا کررکھا ہے۔

توضیح : بلند مرتبہ شخصیتوں کیلئے نیکی کا اجر بھی دوگنا ہے اور برائی کا عذاب بھی دوگنا نبی محترمﷺ کوبھی فرمایا گیا: وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا (بنی اسرائیل آیت ۷۴) اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے توآپ ان کافروں کی طرف (ان کے بہکاوے میں آکر) کسی قدر مائل ہونے ہی کو تھے۔ إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا (بنی اسرائیل آیت ۷۵) اس صورت میں ہم آپ کو زندگی میں بھی دوگنا عذاب چکھاتے اور مرنے کے بعد بھی۔ پھر آپ ہمارے مقابلہ میں اپنا کوئی حمایتی نہ پاتے۔
مقام نبوت پر انسان کی ثابت قدمی بھی منجانب اللہ ہے اس لئے مرد مومن کوبھی استقامت فی الدین کی دعا کرتے رہنا چاہئے۔

يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ

ائے نبی کی بی بیو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ (یعنی تمہیں سارے عالم کی عورتوں کے لئے ایک اچھا نمونہ بننا ہے)

اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ

اگر تمہارے دل میں اللہ کا خوف ہے اور تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو نامحرم یا اجنبی شخص سے گفتگو کے موقع پر اپنی آواز میں نرمی نہ پیدا کرو۔

فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ

تا کہ ایسا شخص جس کے دل میں بیماری ہے وہ کسی لالچ میں نہ پڑجائے۔

وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝۳۲ۚ

اور انھیں صاف اور سیدھی بات کہو (بات میں روکھا پن ہو۔ لوچ یا لگاوٹ نہ ہو)

وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ

اور اپنے گھروں میں (چین سے) بیٹھی رہو۔

وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى

زمانہ جاہلیت کی طرح اپنا بناؤسنگار دکھاتی نہ پھرو۔

توضیح : زمانۂ جاہلیت میں عورتیں باہر نکلتیں توعموماً خوب بناؤ سنگار کرکے نکلتی تھیں جس سے منع کردیا گیا تھا۔ فرمایا نبیﷺ نے اِنَّ الْمَرْاَۃَ فَاِذَا خَرَجَتْ اِسْتَثْرَفَھَا الشَّیْطَان۔
ترجمہ:۔ یقیناً عورت پردے میں رکھنے کے قابل ہے۔ جب وہ باہر نکلتی ہے توشیطان اس کو تاکتا ہے۔ وَاَقْرَبُ مَا تَکُوْنُ بِرَوْحَۃِ رَبِّھَا وَھُوَ فِیْ قَعْرِبَیْتِھَا اور اللہ کی رحمت سے قریب تر اس وقت ہوتی ہے، جب وہ اپنے گھر میں ہوتی ہے۔( بزاز، ترمذی بہ روایت عبداللہ بن مسعود)

وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوۃَ

نماز پڑھتی رہو اور زکوۃ دیتی رہو

وَاَطِعْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ

اور اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں لگی رہو

اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَيْتِ

ائے اہل بیت (پیغمبر کے گھرانے والو) اللہ تعالیٰ تمہیں ہر طرح کی برائی سے پاک وصاف رکھنا چاہتے ہیں۔

وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا۝۳۳ۚ

اور چاہتے ہیں کہ) تمہاری کامل تطہیر ہوجائے (تمہارے ذریعہ ساری دنیا میں نیکیاں پھیلیں )

وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ وَالْحِكْمَۃِ۝۰ۭ

اور تمہارے گھروں میں اللہ تعالیٰ کی جونشانیاں اور حکمت کی باتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں، اس کو مستحضر رکھو۔

اِنَّ اللہَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا۝۳۴ۧ

بے شک اللہ تعالیٰ نہایت ہی باریک بیں اور تمہارے احوال سے پوری طرح با خبر ہیں۔

اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ

بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں

وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ

اور مومن مرد اور مومن عورتیں،

وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ

اور (خوش دلی سے) اطاعت کرنے والے مرد اور عورتیں

وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ

اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں،

وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ

اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں (جو دین کی خاطر ہر طرح کی تکلیف بہ طیب خاطر برداشت کرتے ہیں)

وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ

اور (اللہ کے آگے عاجزی وانکساری سے) جھکے رہنے والے مرد اور عورتیں۔

وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ

اور (راہ حق میں) خیرات کرنے والے مرد اور خیرات وصدقات دینے والی عورتیں،

وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالصّٰۗىِٕمٰتِ

اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں،

وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَہُمْ

اور مرد جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں،

وَالْحٰفِظٰتِ

اور وہ عورتیں ( جواپنی عصمت کی) حفاظت کرتی ہیں،

وَالذّٰكِرِيْنَ اللہَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ۝۰ۙ

اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں،

اَعَدَّ اللہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً

ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا وعدہ کررکھا ہے،

وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۝۳۵

اور ان کے لئے اجر عظیم بھی تیار کر رکھا ہے۔

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا

کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو

اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ

اس سے روگردانی کرے۔

وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا۝۳۶ۭ

اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی گمراہی میں جاپڑا۔

توضیح :یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کہ نبیﷺ نے اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ سے کرنا چاہا تا کہ نسبی اور خاندانی امتیاز کا خاتمہ ہوجائے، لیکن آپ کی یہ تجویز حضرت زینبؓ کی برادری کوپسند نہ آئی۔ کیونکہ حضرت زیدؓ نبیﷺ کے آزاد کردہ غلام مشہور تھے اور حضرت زینبؓ حضوراکرمﷺ کی پھوپھی امیہ بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیں۔ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی کا نکاح ایک آزاد کردہ غلام سے کیسے ہوسکتا تھا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس حکم کے سنتے ہی حضرت زینبؓ اوران کے تمام افراد خاندان نے بلا تامل اللہ کے حکم کے آگے سرتسلیم جھکادیا، دیگر معترضین نے بھی خاموشی اختیار کی۔ نبیﷺ نے خطبہ نکاح پڑھا اور اپنی طرف سے دس دینار اور ساٹھ درہم مہرادا فرمایا۔ چڑھاوے کے کپڑے اور کچھ سامان خوردو نوش بھی بھجوایا۔
یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ و رسول کے احکام میں کسی کورتی برابر تصرف کا اختیار نہیں ہے مسلمان کہتے ہی اسے ہیں جواللہ کے احکام پرسراطاعت جھکادے۔ اور جو کوئی احکام الٰہی کی مخالفت کرے گا، وہ عند اللہ مسلمان ہی نہیں ہے، چاہے وہ اپنے مسلمان ہونے کے کتنے ہی دعوے کرے۔

وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِيْٓ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِ

ائے نبیﷺ وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جب آپؐ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے احسان فرمایا ہے،

وَاَنْعَمْتَ عَلَيْہِ

اور آپؐ نے بھی اس پراحسان کیا ہے۔

توضیح : اس سے حضرت زیدؓمراد ہیں۔ آٹھ سال کی عمر میں طائف کے قریب عکاظ کے میلے میں غلام کی حیثیت سے فروخت ہوئے تھے۔ ان کے خریدار حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حزام تھے مکہ لا کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کی نذر کردیا تھا۔ نبیﷺ سے جب حضرت خدیجہؓ کا نکاح ہواتو حضورؐ نے زید کے اخلاق واطوار دیکھ کر حضرت خدیجہؓ سے انھیں مانگ لیا اور نبوت سے پہلے انھیں آزاد فرما کر اعلان فرمادیا کہ یہ میرا بیٹا ہے، یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے اسی وجہ سے لوگ انھیں زید بن محمدؐ کہتے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انھیں حضوراکرمﷺ کی خدمت میں بھیج کر ان پر احسان فرمایا۔ اور حضورؐ نے اپنے بیٹے کی طرح ان کی پرورش فرمائی اور حضرت زینبؓ سے نکاح کروادیا۔ اورآپؐ نے اپنی طرف سے مہر کی رقم اور ضروری سامان عنایت فرمایا

اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللہَ

کہ اپنی بیوی کواپنی زوجیت میں رہنے دے، (طلاق نہ دے) اور اللہ سے ڈر۔

توضیح :نکاح کے بعد حضرت زیدؓ سے حضرت زینبؓ کے تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے۔ حضرت زیدؓ بار بار رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیوی کی شکایت کرتے اور آپؐ انھیں صبر کی تلقین فرماتے۔ ایک سال سے کچھ زیادہ مدت گزری تھی کہ طلاق کی نوبت آگئی اور حضرت زیدؓ نے اپنے اس ارادہ کا آپؐ سے اظہار فرمایا توآپؐ نے اس پر اللہ کا خوف دلایا۔

وَتُخْفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللہُ مُبْدِيْہِ

اور آپؐ اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے ظاہر کرنا اللہ تعالیٰ کومنظور تھا۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو اس بات کا اشارہ مل چکا تھا کہ زیدؓ اپنی بیوی کوطلاق دے دیں تو ان کی مطلقہ سے آپ کونکاح کرنا ہوگا۔ آپؐ اسی بات سے ڈر رہے تھے کہ لوگ کیا کہیں گے ؟
سارا عرب مخالف ہوجائے گا کہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے آپؐ نے نکاح کیا۔ اسی لئے آپؐ نے حضرت زیدؓ سے فرمایا کہ اللہ سے ڈر، طلاق نہ دے، کیونکہ طلاق کی صورت میں آپؐ کولامحالہ نکاح کرنا پڑے گا آپؐ بڑی الجھن اور کشمکش میں پڑگئے تھے کہ اس صورت میں آپؐ کی بڑی بدنامی ہوگی۔ لیکن اس میں اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی مصلحت تھی۔

وَتَخْشَى النَّاسَ۝۰ۚ وَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىہُ۝۰ۭ

اور تم لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اسی سے ڈرو۔

فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَہَا

پھر جب زید ؓ نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی ( اس عورت سے کوئی حاجت متعلق نہ رکھی اور طلاق دے دی) تو ہم نے اس (مطلقہ) کا آپؐ سے نکاح کردیا۔

لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِيْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِيَاۗىِٕہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا۝۰ۭ

تا کہ اہل ایمان کو اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی تردد نہ ہو، جب کہ منہ بولے بیٹے ان عورتوں سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اپنی بی بیوںکو طلاق دے چکے ہوں۔

وَكَانَ اَمْرُ اللہِ مَفْعُوْلًا۝۳۷

اور اللہ کا حکم عملا نافذ ہونے ہی کے لئے ہوتا ہے ۔

مَا كَانَ عَلَي النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيْمَا فَرَضَ اللہُ لَہٗ۝۰ۭ

نبی پرکسی ایسے کام میں کوئی حرج نہیں ہے جو اللہ نے اس کیلئے مقرر کردیا ہو (یعنی اللہ کے مقرر کئے ہوئے کام کی انجام دہی میں نبی کو کسی طرح کا ضیق محسوس نہ کرنا چاہئے، اور نہ اللہ کے حکم کی تعمیل کوئی گناہ کی بات ہوسکتی ہے)

سُـنَّۃَ اللہِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ

یہ سنت الٰہی ان سب انبیاء علیہم السلام کے ساتھ رہی ہے جوپہلے گزرچکے ہیں۔

وَكَانَ اَمْرُ اللہِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَۨا۝۳۸ۡۙ

اور تقدیر الٰہی میں اللہ کا یہ فیصلہ مقدر ہوچکا تھا۔

الَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللہِ

(اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ان لوگوں کے لئے ہے جو) اللہ تعالیٰ کے احکام جوںکے توں پہنچاتے ہیں۔

وَيَخْشَوْنَہٗ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللہَ۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ حَسِيْبًا۝۳۹

اور وہ اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، حساب کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہیں (کسی اورکی حاجت نہیں)

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا۝۴۰ۧ

ائے لوگو محمد(ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والے ہیں۔

توضیح : لوگوں کا اعتراض یہ تھا کہ آپ نے بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپ کی شریعت میں بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے جواب دیا گیا کہ محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ جس شخص کی مطلقہ عورت سے نکاح کئے ہیں وہ آپ کا حقیقی بیٹا نہیں ہے۔ رسول ہونے کی حیثیت سے آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ رسم ورواج کے تحت جن جائز وحلال چیزوں کوحرام قرار دے دیا گیا ہے اس کی اصلاح فرمائیں اور آپ خاتم النبین ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ اگر آپ اصلاح نہ کرتے توکون کرتا۔ شرعی احکام نا تمام رہ جاتے اورلے پالک بیٹوں کی مطلقہ بیویوں سے نکاح نہ کرنے کی جاہلانہ رسم امت میں جاری رہتی چونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کے سارے احکام نہایت ہی عالمانہ عادلانہ وحکیمانہ ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللہَ ذِكْرًا كَثِيْرًا۝۴۱ۙ

ائے ایمان والو اللہ تعالیٰ کوکثرت سے یاد کیا کرو۔

وَّسَبِّحُــوْہُ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۝۴۲

اورصبح وشام اس کی تسبیح کیا کرو( اس بات کا چرچا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود ومستعان ہیں اوراپنی فرماں روائی میں کسی) فرد خلق کوشریک کرلینے کے نقص وکمزوری سے پاک ہیں۔

ہُوَالَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْكُمْ وَمَلٰۗىِٕكَتُہٗ

اللہ ہی توہے جو تم پراپنی رحمت نازل فرماتا ہے، اور اس کے فرشتے تمہارے لئے نزول رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔

لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۭ

تا کہ تم کو(جہل وکفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (نور ہدایت یعنی اسلام کی) روشنی کی طرف لے آئیں۔

وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا۝۴۳

اور وہ مومنوں پربڑے ہی رحیم ہیں۔

تَحِيَّتُہُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ۝۰ۖۚ

جس روز وہ اللہ تعالیٰ سے ملیں گے، مبارکبادی کیساتھ انکی پیشوائی ہوگی۔

وَاَعَدَّ لَہُمْ اَجْرًا كَرِيْمًا۝۴۴

اوران کے لئے بڑا ہی باعزت اجرتیار رکھا گیا ہے۔

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۝۴۵ۙ

ائے نبیؐ ہم نے آپ کو(حق بات کی) گواہی دینے والااور (اہل ایمان کی جنت کی) خوشخبری سنانے والا اور (نافرمانی کے انجام سے) ڈرانے والا

وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا۝۴۶

اور اس کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والا اور (آپ کو امت کے لئے) روشن چراغ یعنی مینار نور بنا کر بھیجا۔

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِاَنَّ لَہُمْ مِّنَ اللہِ فَضْلًا كَبِيْرًا۝۴۷

اور مومنین کو خوشخبری سنادیجئے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑا فضل ہونے والا ہے۔

وَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَدَعْ اَذٰىہُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ

اور کافروں اور منافقوں کے نظریات کی آپ پیروی نہ کیجئے اور ان کی اذیت رسانیوں کوخاطر میںنہ لائیے۔

وَكَفٰى بِاللہِ وَكِيْلًا۝۴۸

اللہ پربھروسہ کیجئے اللہ آپ کے لئے کافی ہے (اپنا کام کئے جائیے)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ

ائے ایمان والو جب تم ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو، پھر انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو

فَمَا لَكُمْ عَلَيْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَہَا۝۰ۚ

تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں آتی اور نہ تم اس عدت کے پورا ہونے کا مطالبہ کرسکتے ہو۔

فَمَتِّعُوْہُنَّ وَسَرِّحُوْہُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا۝۴۹

پس انھیں کچھ مال دے دو اور بھلے طریقہ سے رخصت کردو۔

توضیح : خلوت سے قبل طلاق دینے کی صورت میں مرد کا حق رجوع باقی نہیں رہتا اور عورت کوحق ہوجاتا ہے کہ طلاق کے فوراً بعد جس سے چاہے نکاح کرلے لیکن اگر خلوت سے پہلے شوہر مرجائے توچار مہینے دس دن عدت پوری کرنی لازم ہے۔

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِيْٓ اٰتَيْتَ اُجُوْرَہُنَّ

ائے نبی ہم نے آپ کے لئے آپ کی وہ بیویاں حلال کردیں جن کے مہر آپ ادا کرچکے ہیں(زینبؓ پانچویں بیوی تھیں۔ عام حکم چار عورتوں کے لئے تھا نبی کواس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا)

وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلَيْكَ

اور آپؐ کی لونڈیاں جو اللہ تعالیٰ نے (کفار مکہ سے) مال غنیمت کے طور پر دلوائیں۔ آپؐ کے لئے حلال ہیں۔

وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ

اور (ان کے علاوہ) آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپؐ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں۔

وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِيْ ہَاجَرْنَ مَعَكَ۝۰ۡ

اور آپؐ کے ماموؤں کی بیٹیاں اور آپؐ کی خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو۔

وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِيِّ

اور وہ مومن عورت جو بلا مہرنبی سے نکاح کرنا چاہتی ہو۔

اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَہَا۝۰ ۤ

بشرطیکہ نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں (حلال ہیں)

خَالِصَۃً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۰ۭ

یہ رعایت آپ ہی کے لئے مخصوص ہے دیگر مسلمانوں کے لئے نہیں۔

قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْہِمْ فِيْٓ اَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ

ہم جانتے ہیں کہ عام مسلمانوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے ان پر کیا حدود عائد کئے ہیں۔

لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ۝۰ۭ

(اور تمہیں ان حدود سے اس لئے مستثنیٰ کیا ہے) تا کہ آپ کسی تشویش میں مبتلاد نہ ہوں۔

وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝۵۰

اور اللہ تعالیٰ توبڑے ہی رحم فرمانے والے بخشنے والے ہیں ۔

تُرْجِيْ مَنْ تَشَاۗءُ مِنْہُنَّ

ائے نبی آپؐ اپنی بی بییوں میں سے جسکوچاہیں اپنے سے الگ رکھیں۔

وَتُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ

اور جسے چاہیں ساتھ رکھیں۔

وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ۝۰ۭ

اور جسے چاہیں الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلالیں توآپؐ پر کوئی گناہ نہیں (باری بدلنے کا آپ کواختیار ہے)

ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُہُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَہُنَّ كُلُّہُنَّ۝۰ۭ

بی بیوں کے خوش رہنے اور رنجیدہ خاطر نہ ہونے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے اور اسی طریقہ سے وہ سب آپؐ سے خوش رہیں گی اور جو کچھ بھی آپؐ انھیں دیں گے اس پر وہ سب راضی رہیں گی۔

وَاللہُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ۝۰ۭ

اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتے ہیں (تمہارے قلبی کیفیات سے واقف ہیں)

وَكَانَ اللہُ عَلِــيْمًا حَلِــيْمًا۝۵۱

اور اللہ بڑے ہی جاننے والے بڑے ہی برد بار ہیں۔

توضیح : ازواج مطہرات کے لئے ایک لطیف اشارہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے ذرا سی بھی ناراضگی مواخذہ کا موجب ہوگی اور یوں بھی اللہ تعالیٰ بہت ساری باتوں کونظرانداز فرماتے ہیں اور بعض باتوں کوگوارا بھی فرمالیتے ہیں کیونکہ وہ بڑے ہی حلیم ہیں۔

لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَــبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ

اسکے بعد ان کے سوا اور عورتیں آپ کیلئے حلال نہیں ہیں اور ان کی جگہ (انھیں طلاق دے کر) کسی اور کونکاح میں لانے کی اجازت نہیں ہے،

وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُہُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ۝۰ۭ

اگر چہ کہ ان کا حسن تمہیں کتنا ہی کیوں نہ پسند آئے البتہ باندیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيْبًا۝۵۲ۧ

اور اللہ تعالیٰ ہر شئے پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ ( کون الٰہی احکام کی کسی حد تک پابندی کرتا ہے)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّآ اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىہُ۝۰ۙ

ائے وہ لوگو جوایمان لائے ہو نبی کے گھروں میں (بلااجازت) چلے نہ آیا کرو۔ سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لئے بلایا جائے۔ اور اگر بلایا بھی جائے تواس کے پکنے سے پہلے نبی کے گھر جا کر انتظار میں بیٹھے نہ رہو۔

وَلٰكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا

لیکن (کھانا تیار ہونے کے بعد) جب تمہیں بلایا جائے توگھرمیں داخل ہوں۔

فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا

پھر جب تم کھانا کھا چکوتومنتشر ہوجاؤ۔

وَلَا مُسْـتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ۝۰ۭ

اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے نہ بیٹھو۔

اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ

ایسی باتوں سے نبی کوتکلیف پہنچتی ہے۔

فَيَسْتَحْيٖ مِنْكُمْ۝۰ۡ

اور وہ تم سے شرما کر کچھ نہیں کہتے۔

وَاللہُ لَا يَسْتَحْيٖ مِنَ الْحَقِّ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ حق بات کہنے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔

وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ۝۰ۭ

پیغمبر کی بی بیوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردہ کے پیچھے سے مانگا کرو۔

ذٰلِكُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ۝۰ۭ

یہ حکم تمہارے اور ان کے دلوں کوپاک کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔

توضیح : جس مذہب میں عورتوں کوگھر میں بیٹھے رہنے کا حکم دیا گیا ہے نا محرم کے سامنے بے پردہ ہونے اور محرم کے بغیر سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس مذہب کی ماننے والی عورتوں کے لئے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ زیب وزینت کے ساتھ بازاروں میں بے تکلف گھومتی پھریں مخلوط تعلیم پائیں۔ مردوں کے دوش بہ دوش دفاتر میں خدمات انجام دیتی رہیں۔ اس کے باوجود ان کے دلوں کی پاکیزگی میں فرق نہ آئے اور وہ مسلمان بھی رہیں۔ آگ کے پاس بیٹھیں بھاپ بھی نہ لگے۔ غلاظت میں گرپڑیں اور آلودہ نہ ہوں۔

وَلَآ اَنْ تَنْكِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا۝۰ۭ

اور یہ بھی جائز نہیں کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو۔

اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللہِ عَظِيْمًا۝۵۳

اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

اِنْ تُبْدُوْا شَـيْـــــًٔا اَوْ تُخْفُوْہُ

چاہے تم اپنی کوئی بات ظاہر کرویا اس کے چھپائے رکھو۔

فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا۝۵۴

اللہ تعالیٰ ہرشئے کوجانتے ہیں۔

لَا جُنَاحَ عَلَيْہِنَّ فِيْٓ اٰبَاۗىِٕـہِنَّ

عورتوں پراپنے باپوں سے پردہ نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں،

وَلَآ اَبْنَاۗىِٕہِنَّ وَلَآ اِخْوَانِہِنَّ

اور ان کے بیٹوں اور ان کے بھائیوں۔

وَلَآ اَبْنَاۗءِ اِخْوَانِہِنَّ

اور ان کے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں)

وَلَآ اَبْنَاۗءِ اَخَوٰتِہِنَّ

اوربہنوں کے بیٹوں (بھانجوں)

وَلَا نِسَاۗىِٕـہِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُنَّ۝۰ۚ

اور ان سے ملنے جلنے والی عورتوں اوران کے مملوک باندی غلام اگر یہ لوگ انکے گھروں میں داخل ہوں توان عورتوں پرکوئی الزام نہیں ہے۔

وَمَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُــؤْذُوْا رَسُوْلَ اللہِ

اورتمہارے لئے یہ ہرگزجائز نہیں ہے کہ اللہ کے رسول کوتکلیف پہنچاؤ (یعنی ایسی باتیں نہ کیا کرو جس سے رسولؐ کوتکلیف پہنچے)

(اس سے ازواج مطہرات اور عام عورتیں مراد ہیں، مذکورہ لوگوں سے پردہ نہیں یہ گھروں میں آجاسکتے ہیں)

وَاتَّـقِيْنَ اللہَ۝۰ۭ

اور تمہیں اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرتے رہنا چاہئے (کہ احکام الٰہی کی کسی صورت میں خلاف ورزی ہونے نہ پائے)

اِنَّ اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدًا۝۵۵

بے شک اللہ تعالیٰ ہرچیز پرنظررکھے ہوئے ہیں(کہ کس نے کس حد تک احکام الٰہی کی پابندی اپنے پرلازم کرلی ہے)

اِنَّ اللہَ وَمَلٰۗىِٕكَتَہٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ۝۰ۭ

یقیناً اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں(یعنی اللہ تعالیٰ نبیؐ پر رحمتوں کی بارش فرماتے ہیں اور فرشتے آپ کے درجات بلند کرنے کی دعائیں کرتے ہیں۔)

توضیح : اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوۃ کا مطلب رحمتوں کا نازل کرنا اور فرشتوں کی طرف سے دعا کرنا ہوتا ہے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا۝۵۶

ائے وہ لوگو جوایمان لائے ہو ! تم بھی آپؐ پردرود وسلام بھیجو (یعنی ان کے حق میں وہی دعا کرو جو فرشتے کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرو کہ آپ پر بے حد وحساب رحمتیں فرمائے، اس کیلئے معروف درود بہتر ہے)

اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ

جو لوگ اللہ تعالیٰ اور رسول کواذیتیں پہنچاتے ہیں، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں ان پر لعنت فرماتے ہیں

وَاَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِيْنًا۝۵۷

(اللہ تعالیٰ نے) ان کے لئے رسوا کن عذاب تیار کررکھا ہے ۔

وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا

اور جو لوگ مومن مرد اور مومن عورتوں کوایسے کاموں کی تہمت لگا کر انھیں اذیتیں پہنچاتے ہیں جوانہوں نے نہیں کئے۔

فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا۝۵۸ۧ

توانہوں نے ایک صریح گناہ اور ایک بڑے بہتان کا وبال اپنے سرلیا۔

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ۝۰ۭ

ائے نبیؐ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہئے (کہ جب گھر سے باہر نکلیں تو) اپنی چادروں سے اپنے چہرے چھپالیا کریں۔

ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ

اس طریقہ سے وہ جلد پہچان لی جائیں گی ( کہ یہ شریف گھرانے کی عورتیں ہیں)

فَلَا يُؤْذَيْنَ۝۰ۭ

پھر وہ ستائی نہ جائیں گی (کوئی ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے گا)

وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝۵۹

(اگر ان عورتوں سے) اس حکم کی تعمیل میں کوئی بے احتیاطی ہوجائے تواللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے بڑے ہی مہربان ہیں۔

لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ

اگریہ منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض یعنی شرارت ہے(آوارگی ہے)

وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِي الْمَدِيْنَۃِ

اور وہ جو مدینہ میں شرانگیز جھوٹی خبریں افواہیں اڑاتے رہتے ہیں( جس سے مسلمانوں کے اندرایک ہیجان اور پست ہمتی پیدا ہوسکتی ہے) اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئیں تو

لَــنُغْرِيَنَّكَ بِہِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْہَآ اِلَّا قَلِيْلًا۝۶۰ۚۖۛ

ہم تم کوان پر مسلط کردیں گے(یعنی ان کو مدینہ سے نکال باہر کردینے کی اجازت دے دیں گے) پھر وہ مدینہ میں چند دنوں کے سوا آپ کے ساتھ رہ نہ سکیں گے۔

مَّلْعُوْنِيْنَ۝۰ۚۛ

یہ بڑے ملعون ہیں (پھٹکارے ہوئے ہیں)

اَيْنَـمَا ثُــقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَــقْتِيْلًا۝۶۱

جہاں کہیں پائے جائیں گے، پکڑےجائیں گے اور بری طرح مارے جائیں گے۔

سُـنَّۃَ اللہِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ

یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جوایسے لوگوں کے بارے میں پہلے سے چلی آرہی ہے

وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۶۲

اور تم سنت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہ پاؤگے۔

يَسْـَٔـــلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ۝۰ۭ

ائے نبی (ﷺ) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب واقع ہوگی ؟

قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ

کہہ دیجئے اس کا علم تواللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔

وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَكُوْنُ قَرِيْبًا۝۶۳

تمہیں کیا خبر ہے کہ قیامت شائد قریب ہی آلگی ہو۔

اِنَّ اللہَ لَعَنَ الْكٰفِرِيْنَ

بے شک اللہ تعالیٰ نے کافروں (دین حق کا انکار کرنے والوں)پرلعنت کررکھی ہے۔

وَاَعَدَّ لَہُمْ سَعِيْرًا۝۶۴ۙ

اور ان کے لئے آگ تیار کررکھی ہے۔

خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝۰ۚ

جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،

لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا۝۶۵ۚ

وہ (وہاں) اپنا کوئی حامی ومددگار نہ پائیں گے۔ (ان کا عقیدہ تھا کہ وہاں کوئی بچالے گا۔ انھیں کہا جارہا ہے کہ ایسا نہ ہوگا)

يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِي النَّارِ

جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے

يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا۝۶۶

اس وقت وہ کہیں گے کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم نے اللہ رسولؐ کی اطاعت کی ہوتی۔

وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا۝۶۷

اور کہیں گے کہ ائے ہمارے پروردگار! ہم نے دنیا میں اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی جنہوں نے ہم کوراہ حق سے بھٹکادیا۔

رَبَّنَآ اٰتِہِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ

ائے ہمارے رب انھیں دوہرا عذاب دیجئے۔

وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا۝۶۸ۧ

اور ان پر بڑی سے بڑی (سخت) لعنت کیجئے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى

ائے ایمان والو تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسیٰ کواذیتیں پہنچائیں۔

فَبَرَّاَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوْا۝۰ۭ

پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی گھڑی ہوئی باتوں سے ان کوبری کردیا

وَكَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِيْہًا۝۶۹ۭ

اور وہ اللہ تعالیٰ کے پاس صاحب عزت انسان ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا۝۷۰ۙ

ائے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرو (اورنبی کے تعلق سے یا دیگر معاملات میں) جو بات بھی کہو، ٹھیک ٹھیک صحیح صحیح طورپر کہو(ان میں کوئی کجی تلاش نہ کرو)

يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ

اللہ تعالیٰ تمارے اعمال درست کریں گے۔

وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ

اور تمہارے گناہ بھی معاف کریں گے۔

وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا۝۷۱

اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کی تواس نے بڑی کامیابی وسرخروئی حاصل کی۔

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ

ہم نے آسمانوں اورزمین اورپہاڑوں کے سامنے بار امانت رکھا (کیا تم بار امانت اٹھاؤگے ؟)

توضیح : علم الٰہی کی روشنی میں اوامرو نواہی یعنی مرضیات الٰہی پرچلنے اور دوسروں کوبھی چلانے اور نامرضیات سے بچنے اور دوسروں کوبھی بچانے کی ذمہ داری سونپی چاہی۔

فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا

وہ اس کے اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئے(اپنا عجزظاہر کیا)

وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا

(کیونکہ وہ) اس بارامانت کے اٹھانے سے ڈرگئے

وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۝۰ۭ

اورانسان نے اس کواٹھالیا (ذمہ داری قبول کرلی)

اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا۝۷۲ۙ

یقیناً وہ جہل کی تاریکیوں میں تھا (اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے علم کی روشنی بخشی۔ بار امانت کے اٹھانے کی صلاحیت عطا کی کہ وہ امانت کا صحیح استعمال علم حق کی روشنی میں کرتا رہے اور لوگوں کودعوتی کلمہ لاالہ الا اللہ کی دعوت دیتا رہے)

لِّيُعَذِّبَ اللہُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ

(یہ تعلیم اس وجہ سے دی جارہی کہ) منافق مرد اور منافق عورتوں، مشرک مرد اور مشرکانہ عقیدہ رکھنے والی عورتوں کوعذاب دے۔

وَيَتُوْبَ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ ان مومنین اور مومنات کی توبہ قبول کرتے ہیں

وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝۷۳ۧ

اور(احکام وفرائض کی ادائی میں کچھ کوتاہیاں ہوجائیں تو) اللہ تعالیٰ بڑے ہی معاف فرمانے والے رحیم ہیں۔ (چاہتے ہیں کہ اس کے بندے بے پایاں رحمت الٰہی کے مستحق بنیں)