☰ Surah
☰ Parah

سورۂ علق مکی ہے اور اس میں انیس آیتیں ہیں۔
تمہید :بعثت نبوی سے پہلے سارا عرب شرک وبت پرستی کی لعنتوں میں گرفتار تھاشراب نوشی ، جوا، زنا، چوری وغیرہ کوئی عیب نہیں تھے۔ مظلوموں، غلاموں، عورتوں یتیموں اور بیکسوں کی کوئی دادر سی نہیں تھی۔ عشق و عاشقی عام تھی اور اس کو شاعری کے ذریعہ بڑھاوا دیا جا تا تھا۔ ہر قبیلہ خود کو عزّت دار اور دوسرے کو حقیر جانتا تھا۔ معاشرہ کا یہ سارا بگاڑ اتنا جڑ پکڑ چکا تھا کہ کسی کو اصلاح کی جانب توجہ دینے کا خیال بھی نہ آتا تھا۔ ایسے ماحول میںحضور متفکر رہتے تھے کہ قوم کو کس طرح سدھارا جاسکتا ہے، اسی غور و فکر کے لئے آپ نے غار حرا کی تنہائی مہینوں اختیار کی اوربالآخر اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنے عظیم الشان فرشتے جبرئیل کے ذریعہ وحی بھیجی۔ اللہ کی طرف سے نبی بنائے جانے والی ہستی سے کہاجارہاہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۝۱ۚ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۝۲ۚ

پڑھئے(ائے محمد ﷺ)اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیداکیا
پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے۔

توضیح :یہ وہ ابتدائی حالت ہے جو استقرار حمل کے بعد ہوتی ہے پھر وہ گوشت کی شکل اختیار کرتی ہےبتدریج اس میں انسانی صورت اور اس کے اعضا وجوارح بننے کاسلسلہ شروع ہوتا ہے۔پہلے نطفہ پھر مضغہ(بوٹی) ، پھر عظام، ہڈی بنانے کے بعد جب ساخت مکمل ہو جاتی ہے تب اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے کائنات ارضی وسماوی کے پیدا کرنے کے بعد انسان کو پیدافرمایا۔گو یامربوب کی ضرورتوںکاپوراسامان اس کی پیدائش کے قبل ہی مکمل کردیا اور اس پریہ حقیقت واضح کردی گئی کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کے ساری مخلوقات کے خالق ورب ہیں۔بلا شرکت غیرے وہی اس کے حاجت روا اور مشکل کشا ہیں۔ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی واسط وسیلہ نہیں۔ اس کے لئے سعادت یہی ہے بندہ اپنی ہر مشکل اور حاجت کے موقع پر اللہ تعالیٰ ہی کو پکارے یہی تقاضائے ایمان ہے۔

اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ۝۳ۙ
الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۝۴ۙ

پڑھئے اور آپؐ کا رب بڑا ہی کریم ہے اور احسان کرنے والا ہے
جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھا یا۔

توضیح :قلم کے ذریعہ لکھنے پڑھنے کافن سکھا یا جس کا وہ محتاج تھا۔ علم معاش وعلم معاد، علم دین۔ دین کی اشاعت بالّلسان وبالقلم ہی عمل میں آیا کرتی ہے اور اس کونسلاً بعد نسل بقاء وتحفظ کا ذریعہ بنا یا۔

عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۝۵ۭ
کَلَّآ
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓى۝۶ۙ
اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰى۝۷ۭ

انسان کو وہ علم دیا جسے وہ جانتا نہ تھا۔
ہر گز نہیں
یقیناً انسان سرکشی کرتا ہے
جب وہ اپنے آپ کو مستغنی اور بے نیاز دیکھتا ہے
(حالانکہ) اس کو(اپنے اعمال کی سزا یا جزا پانے کے لئے)

اِنَّ اِلٰى رَبِّکَ الرُّجْعٰى۝۸ۭ
اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْہٰى۝۹ۙ
عَبْدًا اِذَا صَلّٰى۝۱۰ۭ

آپؐ کے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
کیا تم نے اس شخص کودیکھا جومنع کرتا ہے۔
ایک بندہ کو جب وہ نماز پڑھتا ہو۔

توضیح :ہر انصاف پسند شخص سے سوال کیا جا رہا ہے کہ تم ایک ایسے شخص کو بھی دیکھتے ہو جو حق تعالیٰ کی خالص بندگی کرنے سے ایک بندے کو روکتا ہے، مفسرین نے لکھاہے کہ وہ ابو جہل تھا جو نبی کریمؐ کو حرم کعبہ میں نماز پڑھنے سے روکتا تھا۔

اَرَءَیْتَ اِنْ کَانَ عَلَی الْہُدٰٓى۝۱۱ۙ
اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰى۝۱۲ۭ

تمہارا کیا خیال ہے اگر وہ (بندہ) راہ راست پر ہو
یاپرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو؟

اَرَءَیْتَ اِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰى۝۱۳ۭ

اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللہَ یَرٰى۝۱۴ۭ
کَلَّا

تمہارا کیا خیال ہے اگر یہ (منع کرنے والا شخص) حق کو جھٹلا تا اور اس سے منہ موڑتا ہو؟
کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ (اس کی یہ حر کات) دیکھ رہے ہیں
ہر گز نہیں

لَىِٕنْ لَّمْ یَنْتَہِ۝۰ۥۙ

اگر وہ (اپنے ارادہ سے ) باز نہ آیا

لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ۝۱۵ۙ
نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ۝۱۶ۭ
فَلْیَدْعُ نَادِیَہٗ۝۱۷ۙ

تو ہم اس کی پیشانی کے بل پکڑ کر اسے گھسیٹیں گے
وہ پیشانی جو جھوٹی اور سخت خطاکارہے
وہ بلالے اپنے حامیوں کی ٹولی کو

سَـنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ۝۱۸ۙ
کَلَّا۝۰ۭ
لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ۝۱۹ۧ ۞

ہم بھی عذاب کے فرشتوںکو بلالیںگے
ہرگز نہیں
آپؐ اس کا کہنا نہ مانیئے اور سجدے کئے جائیے اور اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیئے

توضیح :مومن بندہ جب سجدہ کی حالت میں ہوتاہے تو اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ قریب ہوتاہےرسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حالت سجدہ میں اللہ تعالیٰ سے دعاکیا کرو کہ تم اس وقت اللہ تعالیٰ سے زیادہ قریب ہوجاتے ہو۔نفل نمازوں میں سجدہ کی حالت میں تسبیح کے بعددعائیں مانگی جاسکتی ہیں ۔