بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ۰ۥۭ
تمام تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا اور اندھیرا (تاریکی) اور روشنی بنائی یعنی دن رات (تا کہ اچھے برے صحیح وغلط حق وباطل کی تمیز ہوسکے۔ )
توضیح : کائنات خود بخود پیدا نہیں ہوگئی جیسا کہ ملحدین کا عقیدہ ہے۔ نظام سماوی وارضی اور نظام آخرت بلا شرکت غیرے اللہ تعالیٰ ہی کا بنایا ہوا ہے۔ اس لیے ساری تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔
جن مشرکین کا یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی مقرب بندوں کی رائے ومشوروں سے ہو رہی ہے۔ انھیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے کہ زمین وآسمان پیدا کرتے وقت کون موجود تھا ؟
کس کے مشورہ سے یہ زمین وآسمان وجود میں آئے ؟
نیز دنیا کی کوئی چیز بنائے بغیر از خود نہیں بنتی تو کائنات کی بے شمار مخلوق ان گنت موجودات، انسان، حیوان، دریا،پہاڑ، درخت، پودے پیدا کئے بغیر کس طرح وجود میں آسکتے ہیں؟
اس ناقابل انکار حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے۔
ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ يَعْدِلُوْنَ۱
پھر بھی کافر( مخلو قات۔ مقر بانِ الٰہی، ملا ئکہ، اجنّہ، پیغمبروں، بزر گوں کو) اپنے پر وردگار کے برابر قرار دیتے ہیں۔
توضیح : ان معنوں میں کہ ان کی رائے مشورے اور سفارشات سے حق تعا لیٰ فر ما نر وائی کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کے عجز ونقص سے پاک اور تنہاکائنات ِ ارضی و سما وی کی فر ما نروائی پر پوری طرح قادر ہیں ۔ سبحان اللہ کا یہی مفہوم ہے ۔ خالق ومخلوق میں رتی برابر ، برابری کا تصوّر بھی شرک ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہیں اور باقی سب مخلوق، چا ہے وہ ملا ئکہ ہوں کہ انبیاء یا اور کوئی مخلوق۔
ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا۰ۭ
(اللہ ) دہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ پھر زندگی کی ایک مدّت مقرر کی ۔
وَاَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَہٗ
اور(اسکے سوا) ایک اور مدّت مقرر کی جو اُس(اللہ) کے پاس طے شدہ ہے۔
ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ۲
پھر بھی تم اللہ تعالیٰ کے اٰلٰہِ واحد ہو نے کے بارے میں شک و شبہات میں پڑے ہوئے ہے۔
وَہُوَاللہُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْاَرْضِ۰ۭ
وہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین میں موجود ہے۔
توضیح : یہاں اِلٰہ مخدوف ہے۔ اس کی وضاحت سورئہ زخرف پا رہ ۲۵ کے آخری رکوع سے ہوتی ہے۔
وَہُوَالَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ۰ۭ
يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَہْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ۳
وہ تمہاری پو شیدہ باتوں اور ظا ہر حالات کو جانتا ہے جو کچھ تم کر تے ہو۔
وَمَا تَاْتِيْہِمْ مِّنْ اٰيَۃٍ مِّنْ اٰيٰتِ رَبِّہِمْ
اور اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ واحد ہونے کی نشانیوں میں سے ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی نشانی آتی ہے۔
اِلَّا كَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِيْنَ۴
مگر وہ اس سے اعراض ہی کر جا تے ہیں(نہیں مانتے پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں)
فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَہُمْ۰ۭ
جب بھی ان کے پاس حق آیا تو انھوں نے اس کو جھٹلا دیا۔
فَسَوْفَ يَاْتِيْہِمْ اَنْۢبٰۗـؤُا مَا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہْزِءُوْنَ۵
لہٰذا جن چیزوں کا یہ مذاق اڑاتے ہیں عنقریب اس کا انجام ان کے سامنے آئے گا(عذاب آئے گا یا مسلمان غالب ہوں گے)
اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَہْلَكْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَّكُمْ
کیاان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے کتنی، ہی قوموں کو ہم نے ہلاک کردیا۔ ان کو ملک میں بڑا اقتدار بخشا تھا، ویسا اقتدار تم کو نہیں دیا گیا۔
وَاَرْسَلْنَا السَّمَاۗءَ عَلَيْہِمْ مِّدْرَارًا۰۠
اور ہم نے اُن پر آسمان سے لگا تار مینہ بر سا یا(روزی کا ذریعہ بنا یا)
وَّجَعَلْنَا الْاَنْھٰرَ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہِمْ
اور نہریں جاری کیں جو اُن کے (مکانوں سے) نیچے کی طرف بہہ رہی تھیں
فَاَہْلَكْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ
پھر ہم نے اُن کو اُن کے گنا ہوں کے سبب ہلاک کردیا۔
وَاَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ۶
اور ہم نے ان کے بعد(ان کی جگہ) دوسری قوموں کو آباد کیا۔
وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا فِيْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بِاَيْدِيْہِمْ
اور اگر ہم کا غذ پر لکھی ہوئی کتاب آپؐ پر نا زل کر تے پھر وہ اُس کو اپنے ہا تھوں میں لے کر دیکھ بھی لیتے۔
لَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ۷
(تب بھی) کا فریہی کہتے یہ تو ایک کھلا جا دو ہے ۔
توضیح :کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ کاغذ پر لکھی لکھائی کتاب آپؐ پر کیوں نا زل نہیں کی گئی اس کا جواب مذ کورہ آیت میں دیا گیا ہے۔
وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ مَلَكٌ۰ۭ
اور انھوں نے(یہ بھی کہا) اس نبی پر کوئی فرشتہ (آسمان سے ) کیوں اُتارا نہ گیا( جس سے اُس کے رسول ہو نے کی تصدیق ہوتی۔)
وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ۸
اور اگر ہم فرشتہ نازل کرتے تو پھر کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہو تا۔ پھر وہ ذرا بھی مہلت نہ پاتے(یعنی عذاب نازل ہو جا تا)
وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا
اور اگر ہم اُسکو(فرشتے کو) رسول بنا کر بھیجتے تو اسکو بھی انسان ہی بنا کر بھیجتے
وَّلَـلَبَسْـنَا عَلَيْہِمْ مَّا
يَلْبِسُوْنَ۹
اور انھیں اُسی شبہ میں ڈالے رکھتے جس شبہ میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔
توضیح : انسانوں کو انسانیت کی تعلیم دینے کے لیے رسول بھیجے جا تے ہیں ۔ رسول صرف پیغمبر ہی نہیں ہو تے بلکہ انسانیت کا ایک نمونہ ہوتے ہیں ۔ انسان کی فطرت ہے کہ انسان کو دیکھ کر ہی انسان بنتا ہے اس لیے برگزیدہ انسانوں کو بھیجنا فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے ۔
وَلَقَدِ اسْتُہْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِيْنَ سَخِرُوْا مِنْہُمْ مَّا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہْزِءُوْنَ۱۰ۧ
اور ائے نبیؐ آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اُڑا یا گیا ہے ۔ پھر جس عذاب کے آنے کا انھوں نے مذاق اڑایا تھا، وہ اُن پر واقع ہوکر رہا۔
قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُكَذِّبِيْنَ۱۱
(ائے نبیؐ) ان سےکہیئے زمین پر چل پھر کر تو دیکھو جھٹلا نے والوں کا کیا انجام ہوا ۔ (کس طرح تباہ و برباد کیے گئے)
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ قُلْ لِّلہِ۰ۭ
(ائے نبیؐ ) ان سے پو چھیئے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ(مخلوق) ہے وہ کس کی مِلک ہے؟ کہیئےسب کچھ اللہ ہی کا ہے (جس کو تم بھی جانتے ہو)
كَتَبَ عَلٰي نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ۰ۭ
(اللہ تعالیٰ نے) اپنے آپ پر رحمت لا زم کر لی ہے ۔
لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ لَارَيْبَ فِيْہِ۰ۭ
(رحم وعدل کا تقا ضہ ہی یہ ہے) کہ تم کو محا سبۂ اعمال لے لیے قیامت کے دن جمع کرے جس کے واقع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۱۲
جو لوگ اپنی ہی تبا ہی کا باعث بنتے ہیں، ایمان نہیں لاتے ہیں۔
توضیح : جن کے پیش ِنظر آخرت کی زندگی نہیں ہو تی وہ انتہا ئی نقصان میں رہتے ہیں ۔ ایسا نقصان جس کی تلا فی ممکن نہیں۔
وَلَہٗ مَا سَكَنَ فِي الَّيْلِ وَالنَّہَار۰ۭ وَہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۱۳
اور جو مخلوق رات( کی تا ریکیوں) اور دن( کے اُجا لے) میں بستی ہے، اُسی کی ہے(اسی کے تابع فر مان ہے ) اور وہی(ہر ایک کی فریاد) سننے والا(اور سب کے احوال) جاننے والا ہے۔
یعنی
قُلْ اَغَيْرَ اللہِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَيُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ۰ۭ
(جب یہ حقیقت ہے تو اے نبیؐ) کہیئے کیا میں( اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر) غیر اللہ کو اپنا کار ساز(حاجت روا) بنائوں (اور اس اللہ تعالیٰ کو کار سا ز وحاجت روا نہ سمجھوں جو)وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کر نے والا ہے۔ اور وہی(سب کو) کھلا تا پلا تا ہے۔ وہ خود کھا نے سے بے نیاز ہے۔
قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۱۴
کہیئے مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لا نے والوں میں سے ہو جا ئوں(یعنی اسی کا اطاعت گزار بندہ بنا رہوں) اور مشرکین میں سے نہ ہو جائوں۔
توضیح :انبیاء علیہم السلام سے شرک جیسے قبیح فعل کا صدور بعید از قیاس ہے۔ یہاں دراصل امّت کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ایسی حرکت کے بعد نبی بھی نہیں بچ سکتے تو اُمت کیسے بچ سکتی ہے؟
قُلْ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۱۵
(ائے نبیؐ) کہہ دیجئے اگر میں اپنے رب کی نا فرمانی کروں تو اس دن کے سخت ترین عذاب سے ڈر تا ہوں(جو قیامت کے دن لاحق ہوگا۔)
مَنْ يُّصْرَفْ عَنْہُ يَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمَہٗ۰ۭ
اس روز جس شخص سے عذاب ٹال دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر بڑی مہربانی کی۔
وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ۱۶
اور یہ بڑی ہی نمایاں کامیابی ہے۔
وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ۰ۭ
اور اگر اللہ تمہیں کو ئی تکلیف یا نقصان پہنچائیں تو اس کے سوا اس کو کوئی دور کر نے والا نہیں۔
وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۱۷
اور اگر وہ تمہیں بھلا ئی پہنچا ئے(توکوئی اس کاروکنے والا نہیں ) پس وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
وَہُوَالْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ۰ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ۱۸
اور وہ اپنے بندوں پر (پُورا پُورا اختیار رکھتا ہے)غالب ہے اور وہ بڑا ہی دانا(ہر چیز سے) باخبر ہے۔
قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَہَادَۃً۰ۭ قُلِ اللہُ۰ۣۙ
ان سے پو چھئے کہ سب سے بڑھ کر (قرینِ انصاف) کس کی شہادت معتبر ہو سکتی ہے؟ کہہ دیجئے اللہ تعالیٰ کی۔
شَہِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ۰ۣ
وہ میرے اور تمہارے در میان گواہ ہے(اس سے بڑھ کر بڑی گوا ہی کونسی ہو سکتی ہے؟)
وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ
اور( یہ بھی کہیئے) یہ قر آن مجھ پر وحی کیا گیا ہے تا کہ میں اس (قر آن) کے ذریعہ تم کو ڈرا ئوں۔
توضیح : ڈرا نا یہ کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو اِ لٰہ قرار دو گے، حاجت روا اور کار ساز سمجھو گے ان سے نذرو منّت مانگو گے ، قربانی و چچڑھاوے ڑ ھاؤگے تو دائمی عذاب سے دو چار ہو جا ئو گے۔
وَمَنْۢ بَلَغَ۰ۭ
اور جس شخص تک وہ پہنچ سکے اس کو آگا ہ کردوں(و نیز جس شخص تک یہ تعلیم پہنچے اُس کے بھی یہی فرا ئض ہوں گے۔ )
اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْہَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللہِ اٰلِہَۃً اُخْرٰي۰ۭ
کیا تم اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ (اللہ تعالیٰ کے سوا) اور بھی معبود ہیں۔
قُلْ لَّآ اَشْہَدُ۰ۚ قُلْ اِنَّمَا ہُوَاِلٰہٌ وَّاحِدٌ
(ائے محمد ﷺ) کہہ دیجئے میں تو ایسی غلط شہادت نہیں دے سکتا۔ کہہ دیجئے صرف وہی ایک معبود ہے ۔ (قابلِ عبادت، لائق استعانت)
وَّاِنَّنِيْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۱۹ۘ
اور میں تمہا رے اُن مشر کانہ اعمال سے بے تعلق ہوں جنھیں تم کیا کرتے ہو۔
اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَہٗ كَـمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَہُمْ۰ۘ
جن لوگوں کو(تم سے پہلے) ہم نے کتابیں دی تھیں وہ انھیں (ہمارے ان پیغمبرکو) اسی طرح جانتے ، ہیں جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو پہچا نتے ہیں
اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۲۰ۧ
جو لوگ اپنی آپ تبا ہی کا باعث بنتے ہیں وہی ایمان نہیں لاتے۔
توضیح : جن کے پیشِ نظر آخرت اورمحا سبۂ اعمال کا یقین نہیں ہو تا وہی ناقابل ِ تلا فی نقصان اُٹھا تے ہیں۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا
اوراس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے تعلق سے جھوٹی باتیں بنا ئے۔
توضیح :کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں کو اپنی فر ما نروائی میں شریک کر رکھا ہے ۔ ان سےمدد مانگنا گو یا اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگنا ہے وغیرہ
اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۰ۭ
یا احکام ِ الٰہی کو جھٹلا دے یعنی جو حقائق اللہ تعالیٰ نے بیان فر ما ئے ہیں ، ان کی تکذیب کرے۔
اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۲۱
یقیناً(ایسے) ظا لم فلاح نہیں پاتے۔
وَيَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَيْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۲۲
اور جس دن ہم اُن سب کو جمع کریں گے ۔ پھر ہم شرک کرنے والوں سے پو چھیں گے ۔ کہاں ہیں وہ تمہارے شریک ؟ جن کے بارے میں تمہارا اِدّعا تھا (کہ وہ تمہیں مصا ئب سے بچا ئیں گے ۔)
یعنی
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُہُمْ اِلَّآ
اَنْ قَالُوْا وَاللہِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ۲۳
پھر تو اُن سے کوئی عذر نہ بن پڑے گا۔ سوائے اس کے کہ
کہیں گے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی جو ہمارا پر ور دگار ہے ہم مشرکین میں سے نہ تھے ۔
اُنْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ
وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۲۴
دیکھئے اپنے آپ پر وہ کس دروغ بیانی سے کام لیں گے۔
اور (اللہ تعالیٰ کے تعلق سے) جو مشرکانہ عقائد انھوں نے (بطور خود ) گھڑ رکھے تھے وہ سب اُن کے ذہنوں سے نکل جا ئیں گے۔
وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّسْتَمِــعُ اِلَيْكَ۰ۚ
اور اُن میں بعض ایسے بھی ہیں جو ( بظاہر بڑی توجہ سے ) آپ کی طرف کان لگا ئے رکھتے ہیں (حالانکہ وہ سنتے سمجھتے کچھ نہیں)
وَجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ
اور ہم نے (انکار ِ حق کی پاداش میں) ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ، ہیں تا کہ ہ سمجھ ہی نہ سکیں۔
یعنی
وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۰ۭ
اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کر دیا( کہ حق بات سُن ہی نہ سکیں)
وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَۃٍ
اور اگر یہ صدا قت کے تمام آثار(ونشا نیاں) دیکھ بھی لیں۔
لَّا يُؤْمِنُوْا بِہَا۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءُوْكَ يُجَادِلُوْنَكَ
تو ایمان نہ لائیں۔ تا آنکہ جب وہ آپؐ کے پاس آتے ہیں تو جھگڑ نے کے لیے ہی آتے ہیں(حق کو سمجھنے کے لیے نہیں آتے)
يَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۲۵
کافر(کلامِ الٰہی سن کر) کہتے ہیں یہ تو پہلے کے لوگوں کی کہا نیا ں ہیں۔
وَہُمْ يَنْہَوْنَ عَنْہُ وَيَنْــــَٔـوْنَ عَنْہُ۰ۚ
اور وہ اس سے ( اور وں کو بھی) روکتے ہیں اور خود بھی اس سے رُکتے ہیں۔
وَاِنْ يُّہْلِكُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۲۶
اوروہ ٰ (اس طرح کی حرکتوں سے) اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہیں۔ اورانھیں اس کا شعورتک نہیں۔
وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ
اور کاش آپؐان کو اُس وقت دیکھتے جبکہ وہ دوزخ کے کنا رے لا کھڑا کیے جائیں گے( انھیں اُمیدپیداہوگی شاید کہ وہ پھر دنیا میں بھیجے جائیں (اس وقت) وہ کہیں گے کیا ہی اچھا ہو تا کہ ہم (دنیا میں) واپس لوٹا ئے جاتے۔
وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۲۷
تو اپنے پرور دگار کے احکام کو نہ جھٹلا تے اور ایمان لانے والوں میں شامل ہو جا تے۔
بَلْ بَدَا لَہُمْ مَّا كَانُوْا يُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ۰ۭ
بلکہ جس حقیقت کو وہ اس سے قبل چھپائے رکھے تھے وہ ان پر ظا ہر ہوجائے گی(ان کا مشر ک ہو نا ثابت ہو جائے گا)
وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ
اور اگر وہ دنیا میں لوٹا ئے بھی جاتے تو جن(مشر کانہ اعمال) سے انھیں منع کیا گیا تھا پھر وہی کرنے لگتے۔
وَاِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۲۸
اور یہ بڑے ہی جھوٹے ہیں۔
وَقَالُوْٓا اِنْ ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا
اور(منکرانِ حق) کہتے ہیں ، زندگی تو بس اِسی دنیا کی ہے۔
وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ۲۹
اور ہم ( مرنے کے بعد) دوبارہ( زندہ) نہیں اُٹھا ئے جا ئیں گے۔
وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلٰي رَبِّہِمْ۰ۭ
اورکاش آپؐ اُن کو اس وقت دیکھتے جب وہ اپنے پر ور دگار کے سامنے (محا سبۂ اعمال کے لیے ) لاکھڑا کئے جا ئیں گے۔
قَالَ اَلَيْسَ ہٰذَا بِالْحَقِّ۰ۭ
(اللہ تعالیٰ) فر مائیں گے کیا یہ ( دوبارہ زندہ ہونا ) ایک حقیقت نہیں ہے؟
قَالُوْا بَلٰى وَرَبِّنَا۰ۭ
تو وہ کہیں گے۔ ہاں ہمارے پر ور دگار کی قسم بجا و بر حق ہے۔
قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۳۰ۧ
اللہ تعالیٰ فر ما ئیں گے تم اپنے کفر کے بدلے( جو دنیا میں کیا کرتے تھے) عذاب کے مزے چکھو۔
قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللہِ۰ۭ
یقیناً تباہ و بر باد ہو گئے وہ لوگ جنھوں نے (محاسبۂ اعمال کے لیے ) اللہ تعالیٰ کے آگے حا ضری ہو نے کو جھٹلا یا ۔
حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَتْہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً قَالُوْا يٰحَسْرَتَنَا عَلٰي مَا فَرَّطْنَا فِيْہَا۰ۙ
یہاں تک کہ جب اُن پر قیامت اچانک آموجود ہو گی(اس وقت) وہ کہیں گے ۔ افسوس ہم پر۔ اس معاملہ میں ہم سے کس قدر کو تاہی ہوگئی(ہم نے کتنی بڑی غلطی کی)
وَہُمْ يَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَہُمْ عَلٰي ظُہُوْرِہِمْ۰ۭ
اور وہ اپنے اعمال کے بو جھ( گناہ) اپنی پیٹھوں پر اُٹھا ئے ہو ںگے۔
اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ۳۱
کیا ہی بُرا بوجھ ہوگا، جسے وہ اُٹھائے ہوںگے۔
یعنی
وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ۰ۭ
اور دنیا کی زندگی(آخرت کی حقیقی ابدی سر ورو شاد مانی کی زندگی کے مقابلہ میں) ایک کھیل تما شہ سے زیادہ نہیں۔
وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۳۲
اور آخرت کا گھر نہایت ہی اچھا ہے اُن لوگوں کے لیے جو(اللہ تعالیٰ) سےڈرتے ہیں( اور مر ضیاتِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کر تے ہیں) کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔
قَدْنَعْلَمُ اِنَّہٗ لَيَحْزُنُكَ الَّذِيْ يَقُوْلُوْنَ
(ائے نبیؐ) یہ لوگ آپ کے تعلق سے جو باتیں کہتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ آپ کو تکلیف پہنچتی ہے۔
فَاِنَّہُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ يَجْحَدُوْنَ۳۳
دراصل وہ آپ کو نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ یہ ظا لم اللہ تعالیٰ کے احکام (الٰہی تعلیمات کا) انکار کیے جا رہے ہیں۔
توضیح : نبیٔ محترم ﷺ کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل تھا ۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اس نے خود نبیٔ کریم ﷺ سے گفتگو کر تے ہوے کہا۔ اِنَّا لَا نُکَذِّ بُکَ وَلٰکِنْ نَکَذِّ بَ مَا جِئْتَ بِہٖ ترجمہ: ہم آپ کو جھو ٹا نہیں سمجھتے مگر جو کچھ آپ پیش کرتے ہیں ، اُسے جھوٹ قرار دیتے ہیں ۔
جنگِ بدر کے موقع پر اَخنس بن شریق نے تخلیہ میں ابو جہل سے کہا۔ یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا موجود نہیں ہے۔ سچ بتا ئو تم محمدﷺ کو سچاّ سمجھتے ہو یا جھوٹا۔ اس نے جواب دیا۔ خدا کی قسم محمدﷺ ایک سچاّ آدمی ہے۔ عمر بھر کبھی جھوٹ نہیں کہا ۔ ان کی پیغمبر ی کا اقرار کرنا ہما رے لیے باعث ِعار ہے۔
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا
اور آپؐ سے پہلے بہت سے رسول جھٹلا ئے جا چکے ہیں، مگر وہ اس تکذیب اور اُن اذیتوں پر جو انھیں پہنچا ئی گئی تھی، صبر کرتے رہے ۔
حَتّٰٓي اَتٰىہُمْ نَصْرُنَا۰ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللہِ۰ۚ
یہاں تک کہ ہماری مدد ان کو آ پہنچی اور (رسولوں سے کیا ہوا وعدۂ نصرت بدل نہیں سکتا) خدا تعالیٰ کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔
وَلَقَدْ جَاۗءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ۳۴
اور ان رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، اس کی خبر یں آپ تک پہنچ چکی ہیں( کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کی وقتاً فوقتاً مدد کی تھی۔)
وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُہُمْ
اور اگر اُن کی رو گر دانی آپؐ پر شاق گزر تی ہے۔
فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْاَرْضِ
اگر آپ میں اتنی طاقت ہے تو زمین میں کوئی سر نگ ڈھونڈ ھ نکالیے۔
اَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاۗءِ فَتَاْتِيَہُمْ بِاٰيَۃٍ۰ۭ
یا آسمان میں( چڑ ھنے کے لیے ) کوئی سیڑھی بنا لیجئے۔ پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لے آئیے۔
توضیح : کفّارِ مکّہ آپ سے معجزات کا مطالبہ کیا کرتے تھے اور آپ کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کوئی معجزہ دیا جاتا جس کو دیکھ کر یہ سارے لوگ ایمان لا تے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَي الْہُدٰي
اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو ان سب کو( جبراً) ہدایت پر جمع کر دیتے (مگر با لجبر حق کو مان لینا خود انسان کے لیے مفید نہیں ہوتا)
فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰہِلِيْنَ۳۵
لہٰذا آپؐ بے علم لوگوں کی طرح نہ ہو جائیے۔
اِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ
يَسْمَعُوْنَ۰ۭؔ
واقعہ یہ ہے کہ دعوتِ حق وہی لوگ قبول کر تے ہیں، جو غور(گوشِ دل) سے سنتے ہیں۔
وَالْمَوْتٰى يَبْعَثُہُمُ اللہُ ثُمَّ اِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَ۳۶۬
اور مُردوں کو اللہ تعالیٰ(قیامت کے دن اجسام کے ساتھ دوبارہ قبروں سے) اُ ٹھا ئیں گے۔ پھر وہ سب محا سبۂ اعمال کے لیے اُسی کی عدالت میں لائے جا ئیں گے۔
توضیح : بعض کا فر قومیں عا لمِ آخرت کو ایک رو حانی عالم سمجھتے ہیں ۔
وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْہِ اٰيَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۰ۭ
اور (کافروں کا ایک اعتراض یہ تھا) کہتے تھے اس (نبی) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی معجزہ کیوں، نہیں نا زل کیا گیا۔
قُلْ اِنَّ اللہَ قَادِرٌ عَلٰٓي اَنْ يُّنَزِّلَ اٰيَۃً
(ائے نبیؐ) کہئیے اللہ تعالیٰ معجزہ عطاء کر نے پر پوری طرح قادر ہیں۔
وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۳۷
لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے (کہ معجزہ نہ دینے میں کیا حکمتِ الٰہی ہے)
توضیح : اللہ تعالیٰ کا یہ کلام جو انسانوں کی عقل و فطرت کے مطابق ہے۔ اس کو معجزہ کے زور سے منوا کر حق تعالیٰ نہیں چاہتے کہ انسان کی فطرتی اور عقلی صلا حیتوں کو اور ان کی فراست اور ذہانت کو معطل کردیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ معجزہ کی بناء پر جو بات مانی جاتی ہے ۔ اس میں استحکام اور پا ئیدار ی نہیں ہوتی کیو نکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اہل باطل سے جب کوئی بات خرقِ عادت ظاہر ہوتی ہے تولوگ اس کے آگے بھی جھک جاتے ہیں ۔ لہٰذا حق و باطل کا وہی امتیاز حقیقی و پا ئیدار ہوتا ہے جو عقل کی روشنی میں حاصل ہو تا ہے اسی لیے ارشادِ الٰہی ہے کہ ائے لوگو معجزات کا مطالبہ نہ کرو بلکہ دعوتِ حق پر غور کرو۔ یقیناً تم اس حقیقت کو تسلیم کر و گے جو تمہاری سامنے پیش کی گئی ہے۔ ار جس کے حق ہونے کی بے شمار نشا نیاں تمہارے اندر اور تمہارے اطراف موجود ہیں ۔
وَمَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ۰ۭ
اور زمین پر چلنے پھر نے والے جانور اور اپنے دونوںبا زو ئوں پر(فضا ء میں) اڑنے والے پرند ے سب تمہاری طرح گرو ہوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔
توضیح :اُن کی زند گی بھی ایک با قا عدہ منصوبہ کے تحت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کا دخل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا نظامِ حیات اور ہر چیز کی تقدیر کتابِ الٰہی (لوحِ محفوظ )میں لکھی ہے۔ اس سورۃ کی آیت ۵۹ ـ وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ میں اس کی تفصیل ہے۔
مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ ہم نے اُن کے نوشتۂ تقدیر میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔
ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ يُحْشَرُوْنَ۳۸
پھر وہ سب ( اپنے اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے) اپنے پر ور دگار کے سامنے حاضر کیے جا ئیں گے۔
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا صُمٌّ وَّبُكْمٌ فِي الظُّلُمٰتِ۰ۭ
اور جن لوگوں نے ہماری تعلیمات کوجھٹلا یا بہرے اور گونگے ہیں( جہل کی) تا ریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔
مَنْ يَّشَاِ اللہُ يُضْلِلْہُ۰ۭ
اللہ تعالیٰ جسے چا ہتے ہیں گمرا ہی میں پڑا رہنے دیتے ہیں( یعنی جو شخص طالبِ ہدایت نہیں ہوتا گمرا ہی میں پڑا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اسی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔)
وَمَنْ يَّشَاْ يَجْعَلْہُ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۳۹
اور جسے چاہتے ہیں سید ھی راہ دکھا تے ہیں۔ یعنی جو طالبِ ہدایت ہوتا ہے اس کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشتے ہیں۔
قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللہِ
کہیئے(ائے لوگو) کیاتم نے کبھی اس بات پر غور کیاہے اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجا ئے
اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَۃُ اَغَيْرَ اللہِ تَدْعُوْنَ۰ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۴۰
یاتم پر قیامت کی گھڑی آ جا ئے تو کیا تم اس وقت بھی مدد کے لیے کسی غیر اللہ( ملا ئکہ انبیاء علیہم السلام اور بزر گوں) کو پکارو گے؟ اگر تم سچّے ہو۔
بَلْ اِيَّاہُ تَدْعُوْنَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَيْہِ اِنْ شَاۗءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ۴۱ۧ
بلکہ تم (ایسی مصیبت کے وقت ) اللہ تعالیٰ ہی کو پکاروگے تو جس مصیبت کو دفع کرنے کے لیے اس کو پکار تے ہو وہ چا ہے تو دور کردے۔ اور جن کو تم نے (اللہ تعالیٰ کی نا فرمانروائی میں) شریک بنا ئے رکھا تھا اس وقت انھیں بھول جا تے ہو۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ
اور ہم نے آپؐ سے پہلے بہت سی اُمتوں کی طرف اپنے رسول بھیجے۔
فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّہُمْ يَتَضَرَّعُوْنَ۴۲
پھر ہم نے ( ان کی نا فر ما نیوں کی وجہ) انھیں سختیوں اور تکلیفوں میں مبتلاء کیا تا کہ وہ (خشیت الٰہی کے ساتھ) تائب ہوں۔
فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُـنَا تَضَرَّعُوْا
پھر جب ہما ری طرف سے ان پر مصیبتیں آئیں تو (تو بہ و خشیت الٰہی کے ساتھ) رجوعِ الی اللہ کیوں نہ ہوئے۔
وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ
لیکن ان کے دل (نرم پڑنے کے بجا ئے) اور بھی سخت ہو گئے۔
وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۴۳
اور شیطان نے اُن کی بداعمالیوں کو( اُن کی نظر میں) آراستہ کر دکھا یا۔
توضیح : یعنی شیطان نے اُن کو یہ سمجھا یا کہ اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے نیک بندے بھی بڑی بڑی مصیبتوں میں مبتلاء رہے ہیں۔ اسی طرح تم پر بھی مصیبتیں آرہی ہیں تو یہ مت سمجھو کہ اللہ تعالیٰ تم سے نا راض ہیں بلکہ بندوں پر مصیبتوں کا آتے رہنا بھی بندوں کے نیک ہو نےکی علامت ہے۔ لہٰذاتمہارا عقیدہ وعمل برا نہیں ہے۔ اس طرح شیطان نے انھیں بہکا کر ان کے مشر کا نہ عقا ئد واعمال میں اور بھی پختگی پیدا کردی۔
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِہٖ
پھر جب انھوں نے اُن نصیحتوں کو بھلا دیا جو(کتاب اللہ کے ذریعہ) انھیں دی گئی تھیں۔
فَتَحْنَا عَلَيْہِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ۰ۭ
تو آز مائش کے طور پر(ہر طرح کی خوشحالی کے دروازے کھول دئیے۔
حَتّٰٓي اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا
یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں سے خوش ہو گئے جو انھیں دی گئی تھیں۔
توضیح : اپنی اس دنیاوی ترقی و کا مرانی کو دیکھ کر جو انھیں دی گئی تھی اترانے لگے اور سمجھتے رہے کہ انھیں یہ ساری خو شحالی واسطے وسیلوں کے سبب حاصل ہوئی ہے، جنھیں وہ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ہُمْ
تو ہم نے انھیں اچا نک اپنی گرفت میں لیا دفعتہً عذاب نا زل کیا ۔ پھر
مُّبْلِسُوْنَ۴۴
وہ اسی وقت ما یوس ہو کر رہ گئے۔( یعنی ان کی ساری تو قعات پر پانی پھر گیا۔ واسطے وسیلے کام نہ آئے۔)
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا۰ۭ
پھر ظالم قوموں کی جڑیں کاٹ دی گئیں یعنی انکا نام و نشان بھی باقی نہیں رکھا
وَالْحَـمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۴۵
اور ساری تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو سارے عا لمین کے رب ( سب کے حاجت روا، کار ساز خالق ورزاق) ہیں ۔
توضیح : اللہ تعالیٰ کی فرما نروائی میں اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے و ملا ئکہ، انبیاء علیہم السلام بھی شریک ہو تے تو وہ بھی تعریف کے مستحق ہو تے۔ ساری تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہو نا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ تنہا بلا شرکتِ غیرے فر ما نروا ہیں۔
قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللہُ سَمْعَكُمْ وَاَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ يَاْتِيْكُمْ بِہٖ۰ۭ
(ان کافروں سے) کہئے۔ کیا تم نے اس بات پر غور کیا ہے اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سماعت اور تمہاری بصارت چھین لیں اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دیں تو اللہ تعالیٰ کے سوا کون ایسا ہے؟ جو تمہیں سمع و بصر کی قوتیں لوٹا دے۔
اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ ثُمَّ ہُمْ يَصْدِفُوْنَ۴۶
ائے نبی(ﷺ) دیکھئے ہم کس طرح بار بار اپنے دلا ئل بیان کرتے ہیں پھر بھی وہ ( حقائق سے) رو گردانی کرتے ہیں۔
قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللہِ بَغْتَۃً اَوْ جَہْرَۃً
کہئیے کیا تم نے کبھی اس بات پربھی غور کیا ہے۔ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب دفعتاً حالتِ بے خبری یا باخبری میں آجاے۔
ہَلْ يُہْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ۴۷
تو کیا ظا لم قوم کے سوا کوئی اور بھی ہلاک ہو سکتا ہے؟
توضیح : وہ سب مبتلا ئے عذاب ہونگے جنکا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے اُنھیں اللہ تعالیٰ عذاب سے بچا لینگے۔
وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۰ۚ
اور ہم(اپنے) رسولوں کو محض اس لیے بھیجتے رہے ہیں کہ وہ (دعوتِ حق قبول کرنے والوں کوجنّت ودر جاتِ جنّت کی) خوشخبری سنائیں۔ اور(انکار کرنے والوں کو عذابِ الٰہی سے ) ڈرا ئیں۔
فَمَنْ اٰمَنَ وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ۴۸
لہٰذا جو کوئی ایمان لائےاور( اپنے عقائد کی) اصلاح کرلے( نیکوں کار بن جائے) تو ا ایسے لوگوں کو کچھ خوف نہ ہوگا اور نہ وہ (کسی طرح کے) حزن و ملال میں مبتلا ہوں گے۔
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا يَمَسُّہُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ۴۹
اور جن لوگوں نے ہما ری آیتوں کو جھٹلا یا، اُن کی نا فر ما نیوں کی وجہ انھیں عذاب ہوگا۔
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ
کہئے میں تم سے یہ تو نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ کے غیبی خزانے میرے پاس ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب کا جاننے والا ہوں۔
وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ۰ۚ
اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔
اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۰ۭ
میں تو اُس حکم کی اتّباع کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے۔
قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ۰ۭ
کہئے کیا اند ھا اور آنکھ والا برابر ہو سکتا ہے؟
اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ۵۰ۧ
کیا تم اتنا بھی نہیں سوچتے؟(غورو فکر سے کام ، نہیں لیتے؟)
وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْ يُّحْشَرُوْٓا اِلٰى رَبِّہِمْ
اور(ائے نبیﷺ) اس قرآن کے ذریعہ اُن لوگوں کو ڈرا تے رہیئے جو یہ خوف رکھتے ہیں کہ (محا سبۂ اعمال کے لیے) وہ اپنے پر ور دگار کے سامنے حاضر کیے جا ئیں گے۔
لَيْسَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِيٌّ وَّلَا شَفِيْعٌ
(اور وہ جانتے ہیں کہ) اللہ کے سوا نہ تو اُن کا کوئی دوست ہے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا۔
لَّعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۵۱
(یہ تعلیم انھیں اس لیے دی گئی ہے کہ) تاکہ وہ پار سا وپر ہیزگار بنے رہیں۔
وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَہٗ۰ۭ
ائے نبی ﷺ ان لوگوں کو (جو غریب ونادار ہیں، دعوت حق قبول کرچکے ہیں اور) جو صبح و شام (ہرحاجت و مشکلات میں) اپنے ہی رب کو (مدد کے لئے) پکارتے ہیں، رضائے الٰہی کے جو یا ہیں (روسائے قریش کی خاطر) انھیں اپنے سے دور نہ کیجئے۔
توضیح : رو سائے قریش دعوتِ حق سننے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس نہیں آتے تھے عذر یہ کرتے تھے کہ معمولی قسم کے لوگ آپؐ کے پاس جمع رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھنا ہماری رئیسا نہ شان کے خلاف ہے۔ اِد ھر رسول اللہ ﷺ کے قلب ِ مبارک میں یہ خیال آتا رہتا کہ اگر رو سائے قریش ایمان لے آئیں تو عوام بھی بے جھجک ایمان لے آئیں گے۔
لہٰذا اس تعلق سے آپؐ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ غریب لوگ اس وقت نہ آئیں جس وقت رو سائے قریش آپؐ کے پاس بیٹھے ہوں یا رو سا ئے قریش کے آنے کا وقت ہو۔ رو سائے قریش کی دراصل یہ ایک چال تھی۔ اللہ تعالیٰ نےآپؐ کو اُن کی چال سے با خبر کردیا اور نصیحت فر ما ئی کہ آپؐ رو سا ئے قریش کی خاطر غریب اہل ایمان کو اپنے پاس سے نہ اُٹھا ئیں۔
مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ
ان کے حساب( اِن کی بداعمالیوں) کی آپؐ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
وَّمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْہِمْ مِّنْ شَيْءٍ
اور نہ آپؐ کے حساب کی جواب دہی ان پر ہے۔
فَتَطْرُدَہُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِـمِيْنَ۵۲
اگر آپ انھیں اپنے سے دور کردیں تو ظالموں میں ہوجاؤگے (آپ کا شمار بھی نا منا سب کام کرنے والوں میں ہو جا ئے گا۔)
یعنی