☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

۞ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ۝۰ۭ

(ائے نبی ﷺ اہلِ ایمان) آپ سے مال غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔

قُلِ الْاَنْفَالُ لِلہِ وَالرَّسُوْلِ۝۰ۚ

کہئے غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی ہیں۔
(ان معنوں میں کہ اللہ تعالیٰ کی مِلک ہیں وہ جس طرح چاہیں رسول کے ذریعہ تقسیم کا حکم دیں)

فَاتَّقُوا اللہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ۝۰۠

لہٰذااللہ تعالیٰ سے ڈرو (مالِ غنیمت کے تعلق سے آپس میں نزاع پیدا نہ کرو) اور باہمی تعلقات کو درست رکھو۔

وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱

اور (مالِ غنیمت کے بارے میں بہ ذوق و شوق) اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اگر تم مو من ہو (کیونکہ اطاعت شعارِ مو من ہے اور تقا ضۂ ایمان ہے)

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ

بے شک مو من وہ ہیں جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جا تا ہے تو ان کے دل

اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ

لرز جا تے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے سامنے محا سبۂ اعمال کے لیے حاضر کیا جا نا بیان کیا جا تا ہے تو لرز جا تے ہیں۔

وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا

اور جب انھیں اس (قرآن ) کی آیتیں پڑھ کر سنائی جا تی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جا تاہے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے بے حساب بخششوں اور ابدی نعمتوں کی تفصیلات سنائی جا تی ہیں تو ان کے ایمان و قوتِ یقین میں اضافہ ہو جا تا ہے۔

وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝۲ۚۖ

اور اپنے پر ور دگار کی بات کا یقین رکھتے ہیں۔
(اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی تعمیل میں انھیں کا فائدہ ہے)

الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳ۭ

یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور ہم نے جو کچھ انھیں دیا ہے اس میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں(کمیٔ رزق کو انفاق نہ کرنے کا بہا نہ نہیں بنا تے )

اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۝۰ۭ لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۝۴ۚ

یہی سچّے مو من ہیں ان کے رب کے پاس (ایمان و عمل کے لحاظ سے) ان کے بڑے بڑے درجات ہیں مغفرت ہے اور با عزت رزق ہے۔

كَـمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ۝۰۠

اللہ تعالیٰ کی راہ میں اہلِ باطل سے لڑنے کے لئے اُن لو گوں کو اپنے گھروں سے اُسی طرح نکلنا چاہیئے تھا۔ جس طرح تمہارے پر و ردگار نے تم کو تدبیر کے ساتھ نکا لا تھا(یہ جنگ بدر کا ذکر ہے)

وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِہُوْنَ۝۵ۙ

اور یقیناً مسلما نوں کی ایک جماعت فی الحال جدال و قتال کونا پسند اور خلافِ مصلحت سمجھتی تھی۔

توضیح : یہ مشاورت اس وقت ہوئی تھی کہ قافلہ اور لشکر میں سے کس کا مقابلہ کرنا چا ہیئے؟

يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ

پیغمبر ﷺ ! یہ لوگ راہِ حق میں ( جدال و قتال کے بارے میں) آپؐ سے اختلاف کرتے ہیں۔ اس وضاحت کے بعد بھی کہ انھیں کافروں کے لشکر سے لڑنا ہے۔

كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَہُمْ يَنْظُرُوْنَ۝۶ۭ

گو یا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جاتے ہیں اور وہ اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔

وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللہُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّہَا لَكُمْ

اور جب اللہ تعالیٰ نے تم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ( قریش کے) دو گرو ہوں میں سے ایک گروہ تمہارے ہاتھ آئے گا۔

وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَۃِ تَكُوْنُ لَكُمْ

اور تم چاہتے تھے کہ کمزور اورغیر فوجی قافلہ تمہارے ہاتھ آئے ۔ (تاکہ بہت سا را مال اور سامانِ تجارت جنگ و جدال کے بغیر آسانی کے ساتھ تمہارےہاتھ آجائے)

وَيُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ

اور اللہ تعا لیٰ چاہتے ہیں کہ اپنے کلمات سے حق کا حق ہو نا ثابت کر دکھائیں۔

وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ۝۷ۙ

اور(شکست کے ذریعہ) کا فروں کی جڑ ہی کاٹ دے۔

لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ۝۸ۚ

تا کہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت ہو جائے اگر چہ کہ یہ مجرمین کے لیے نا گوار ہی کیوں نہ ہو۔

توضیح :جنگ بدر کا تا ریخی پس منظر یہ ہے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد اہلِ ایمان کے ساتھ مشر کینِ مکّہ کی چھو ٹی چھوٹی جھڑپیںہوا کر تی تھیں جن کو اصطلاح میں سرا یہ کہتے ہیں۔یہ سلسلہ جاری تھا کہ ماہ شعبان۲ ھ میں قریش کا ایک قافلہ کم و بیش پچاس ہزار اشرفیوں کا مال لیے ہوئے اس راہ پر پہنچا جو مدینہ سے قریب تھا جس کی حفاظت کے لیے قافلہ کے ساتھ تیس چالیس سے زیادہ مسلّح سپا ہی نہ تھے۔ جھڑپیں جو ہو تی رہتی تھیں اس کی بناء پر قافلہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مسلمانوں کا کوئی بڑا دستہ کہیں ہم کو لوٹ نہ لے۔ اس لیے سر دار قافلہ ابو سفیان نے ایک آدمی مکّہ کی طرف بھیجا تا کہ وہاں سے کافی مدد مل سکے۔ اس لیے بہت بڑھا چڑھا کر اور بڑی ہی گر یہ وزاری کے ساتھ اپنا معاملہ پیش کیا کہ ائے قریش اپنے اس قافلۂ تجارت کی خبر لو جو ابو سفیان کی سر کر د گی میں آرہا ہے۔
محمدﷺ اپنے آدمیوں کو لے کر قافلہ کو لوٹنے کی تیار ی کر چکے ہیں۔ یہ سُنتے ہی سارے مکّہ میں ہیجان بر پا ہو گیا کیو نکہ اہل مکہ کی اکثریت کا مالِ تجارت اس قافلہ میں تھا۔ قریش کے بڑے بڑے سر دار جنگ کے لیے تیار ہو گئے اور تقریباً ایک ہزار آزمودہ کار اشخاص جن میں سے چھ سو ذرہ پوش اور سو سواروں کا رسالہ اپنی جنگی شان و شوکت کے ساتھ مدینہ کی جانب روا نہ ہو گیا ان کے پیشِ نظر صرف قافلہ کی حفاظت ہی نہیں بلکہ اس ارادے سے نکلے تھے کہ لگے ہا تھوں محمد ﷺ اور اُن کے مٹھی بھر ساتھیوں کو نیست و نا بود کردیں گے تاکہ آئے دن کے جھگڑوں سے نجات مل جائے۔ قریش پوری جنگی تیار یوں کے ساتھ مکّہ سے شبانہ روز چل کر مدینہ کے قریب پہنچ گئے اس طرح بہ یک وقت مدینہ کے نشیبی جانب قریش کا قافلۂ تجارت تھا اور مدینہ کے بالائی جانب مکّہ کے جنگ آز مو دہ ایک ہزار فراد لڑنے کے لیے شمشیر بہ کف تھے۔ رسول اللہ ﷺ ان دو نوں گروہوں کے آموجود ہو نے کی اطلاع پا گئے تھے اور حضرات مہا جرین اور انصار کو جمع کر کے مشورہ کیا۔ بعض حضرات جو لڑنے سے گھبراتے تھے ان کا مشورہ تھا کہ قافلہ تجا رت ہی کو گھیر لینا چاہیئے اور ابھی جدال و قتال مناسب نہیں ہے۔ بعض حضرات نے یہ مشورہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہوا اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
رسول اللہ ﷺبہ ایمائے الٰہی قریش کی فوج سے لڑنے کا ارادہ کر چکے تھے۔ مگر آپ نے اپنا ارادہ ظاہر نہیں فرما یا اور مہاجرین وانصار کی ایک جماعت کو جس کی تعداد (۳۱۳) سے زیادہ نہ تھی اپنے ساتھ لے کر مدینہ سے نکل پڑے ان کی بے سرو سامانی کا حال یہ تھا کہ ان میں چند سوار تھے اور بہت ہی کم لوگوں کے پاس با قاعدہ نیز ے تیر و کمان اور تلواریں تھیں باقی اکثریت کے ہا تھوں میں کچی لکڑیوں کے تیر و کمان تھے۔ صحابۂ کرامؓ اس سونچ میں تھے کہ دیکھیں ! ہمارے سپہ سا لار ہادی برحق کس سمت لے چلتے ہیں۔ قافلۂ تجارت کی طرف یا مکہ کے نبر دآزمائوں کی جانب۔ مدینہ کی بستی سے باہر ہوتے ہی آپﷺ نے اپنا رُخ مکہ کی فوج کی طرف کر دیا اور قریش کی فوج کے آنے سے پہلے ہی ایک مقام پر جس کا نام بدر ہے، اپنی مور چہ بندی کر دی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا مجا ہدین روزہ دار بھی تھے۔ کھا نے پینے کا بہت سا مان تھا، ادھر قریش کی فوج بھی مقابل آگئی۔ مذکورئہ صدر آیات اور ما بعد کی آیتوں میں اس واقعہ کی تفصیل اور اسی جنگ کے تعلق سے ہدا یات ہیں۔

اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ

وہ وقت بھی قابلِ ذکر ہے جب تم اپنے رب سے مدد کے لیے اضطراب کے ساتھ دست بہ دُعا تھے۔

فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَ۝۹

چنا نچہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دُعا قبول کر لی اور بشارت دی کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو لگا تار آتے رہیں گے۔

وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِہٖ قُلُوْبُكُمْ۝۰ۚ

مدد کا یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے کیا کہ تم خوش ہو جائو اور تمہارے قلوب مطمئن ہو جائیں۔

وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ

(یہ بات سمجھ لوکہ) فتح و نصرت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۱۰ۧ

بے شک اللہ تعالیٰ زبر دست حکمت والے ہیں۔

توضیح : نصرت کا انحصار اسبابِ ظاہری پر نہیں ہے۔ بلا اسبابِ ظاہری بھی اللہ تعالیٰ اہل باطل کے مقابلے میں فتح و نصرت عطاء فرماتے ہیں۔

اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہُ

وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جب اللہ تعالیٰ نے تمہاری تسکین کیلئے اپنی طرف سے تم پر اُونگھ طاری کردی ۔( تسکین بخش اونگھ تاکہ تمہیں تقویت حاصل ہو۔)

توضیح : اس مو قع پر اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی اس طرح مدد کی کہ آنے والی صبح کی جنگ کے تردُّد سے انھیں محفوظ کر دیا۔ ساری رات سُکون کی نیند سُلا دی تاکہ صبح تازہ دم ہو کر اہلِ باطل کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کر سکیں۔

وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لِّيُطَہِّرَكُمْ بِہٖ

اور تم پر آسمان سے پانی بر سا یا تاکہ اس سے نہلا کر تمہیں پاک و صاف کردے۔

وَيُذْہِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ

اور شیطان نے جو نا پا کی کی حالت پیدا کردی تھی اُس کو دُور کرے۔

وَلِيَرْبِطَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ۝۱۱ۭ

اور اس لیے بھی کہ تمہارے دِلوں کو مضبوط کردے(یعنی قوتِ یقین سے بھرد ے) اس طرح تمہارے قدم جمائے رکھے۔

توضیح : پانی بر سانے کا مقصد یہ بھی تھا کہ میدان کی ریت بھیگ جائے اور قدم بھیگی ہوئی ریت پر اچھی طرح جمے رہیں۔ جو بارش اہل ایمان کے لیے مدد و نصرت کا ذریعہ بنی، وہی بارش اہلِ باطل کے لیے نا ساز گار ہوئی۔ کیو نکہ کُفّار نرم زمین پر تھے بارش سے وہاں کیچڑ ہوگئی جس سے نقل و حرکت میں رکاوٹ ہوئی۔

اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَۃِ اَنِّىْ مَعَكُمْ

(بدرکا )یہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ آپؐ کے پر ور دگار نے فرشتوں سے فرما یا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔

فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۭ

تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو۔

سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ

اور میں کا فروں کے دِلوں میں ابھی اہلِ ایمان کا رعب پیدا کیے دیتا ہوں۔

فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ كُلَّ بَنَانٍ۝۱۲ۭ

لہٰذا اہلِ باطل کی گر دنوں پر ضرب لگائو اور اُن کے ہرہرجوڑپرمارو۔

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ شَاۗقُّوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۚ

یہ سزا انھیں اسلئے دی گئی کہ انھوں نے اللہ کے رسول کی بڑی مخالفت کی تھی

وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۱۳

اور جو شخص اللہ اور اُس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے تو (دنیا میں بھی) اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔

ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْہُ وَاَنَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابَ النَّارِ۝۱۴

(کہا جائے گا) یہ مزہ تو یہاں چکھو پھر آخرت میں تو کا فروں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا

ائے ایمان والو جب تم جہاد کے لیے کا فروں کے مقابل ہو جائو تو

فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَ۝۱۵ۚ

تو پھر پیٹھ نہ پھیرو(یعنی جم کر مقابلہ کرو) جہاد سے بھا گنا حرام ہے۔

وَمَنْ يُّوَلِّہِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ

اور جو شخص اس موقع پر پیٹھ پھیر ے گا، سوائے اس کے کہ جنگی چال کے طور پر ہو (یعنی پلٹ کر حملہ کرنے کی غرض سے ایسا کرے)

اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَۃٍ

یا دشمن کی فوج سے لڑ تے ہوئے پھر اپنی فوج میں آملنے کے لیے پلٹے(تو ایسی حالت میں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا)

فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَمَاْوٰىہُ جَہَنَّمُ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝۱۶

ورنہ جو ایسا نہ کرے گا غضبِ الٰہی کا مستحق ہوگا اور اُس کا ٹھکا نا جہنّم ہے اور وہ بہت ہی براا نجام ہے۔

فَلَمْ تَقْتُلُوْہُمْ

اِن کُفّار کو تم نے قتل نہیں کیا ۔
(یعنی تمہارے ہا تھوں جو دشمن مارے گئے ہیں یہ نہ سمجھو کہ تم نے ان کو قتل کیا یا یہ تمہا را کوئی ذاتی کار نا مہ ہے)

وَلٰكِنَّ اللہَ قَتَلَہُمْ۝۰۠

لیکن (دراصل) اللہ تعالیٰ نے انھیں قتل کیا۔

وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ رَمٰى۝۰ۚ

اور جس وقت آپؐ نے کنکریاں پھینکی تو وہ آپ نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکیں۔

توضیح : معمو لی مٹھی بھر ریت ایک مسلح لشکر کے لیے اس وقت تک نقصان دِہ نہیں ہو سکتی جب تک کہ اللہ تعالیٰ خود اس کو نقصان کا با عث نہ بنائیں۔ اس لیے فرما یا گیا کہ وہ ریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی ۔

وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِيْنَ مِنْہُ بَلَاۗءً حَسَـنًا۝۰ۭ

اور اس سے یہ بھی غرض تھی کہ اہلِ ایمان کو اپنے احسا نات (نصرت ومدد) کے ساتھ آز ما لے۔
(وہ جان لیں کہ بے سرو سا مانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ ہی نے ان کی مدد کی ہے۔ اس میں ان کا کوئی ذاتی کا ر نامہ نہ تھا)

توضیح : بلحاظ تعداد و سامانِ حرب اپنے سے سہ گنا جنگ آزما قوی تر دشمن سے مقابلہ تھا۔ اسبابِ ظاہری اس قدر کم تھے کہ ان کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ ایسی حالت میں جنگ کرنا گو یا جان بوجھ کر موت کے مُنہ میں جا نا تھا۔ مگر اہلِ ایمان نے محض اللہ اور رسول کی اطاعت میں جان و مال کے نقصان کو خاطر میں لائے بغیر یہ جنگ لڑی تھی۔ تو کل و بھروسہ بالکلیہ اللہ تعالیٰ ہی پر تھا کیو نکہ اسبابِ ظاہری کی عدم مو جود گی میں تعلق باللہ قوی سے قوی تر ہو جا تا ہے۔ آ غاز و دورانِ جنگ میں اِنابت اِلیٰ اللہ اور دُعا ہر ایک کا ہتھیار تھے دشمن کی شکست کو اپنا ذاتی کمال نہ سمجھا۔ فتح و نصرت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جا نا ۔ قلوب شکر الٰہی سے معمور رہے۔

اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۱۷

واقعی اللہ تعالیٰ دُعائوں کے سننُے والے دِلوں کا حال جاننے والے ہیں۔

ذٰلِكُمْ وَاَنَّ اللہَ مُوْہِنُ كَيْدِ الْكٰفِرِيْنَ۝۱۸

اس طرح (اہلِ ایمان کی مدد کی گئی اور کافروں کے تعلق سے) یہ معاملہ اس لیے پیش آیا کہ ان کُفّار کی چال با زیوںکوناکام اور ہمتوں کو پست کرنا اللہ کو منظور تھا۔

اِنْ تَسْـتَفْتِحُوْا

(مشرکین مکّہ سے کہا جا رہا ہے) اگر تم دو نوں جما عتوں میں سے کسی ایک کی فتح و نصرت چاہتے تھے (تاکہ آئے دن کے جھگڑوں سے نجات ملے)

فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ۝۰ۚ

تو فیصلہ تمہارے سامنے آگیا۔
(تم نے اپنی آنکھوں سے اپنا انجام دیکھ لیا کہ تمہا ری کثرت جو اہلِ ایمان کے مقابلہ میں تھی کام نہ آئی)

وَاِنْ تَنْتَہُوْا فَہُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝۰ۚ

اگر تم اپنے ان افعال سے باز آجائو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔

وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ۝۰ۚ

اور اگر تم پھر ایسے ہی کام کرو گے تو ہم بھی تمہیں ذلیل و خوار کریں گے۔

وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَـيْــــًٔـا وَّلَوْ كَثُرَتْ۝۰ۙ

اور تمہاری فوجی کثرت تمہارے کسی کام نہ آسکی۔

وَاَنَّ اللہَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۹ۧ

یقیناً اللہ تعالیٰ مو منین کے ساتھ ہیں۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ

ائے ایمان والو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو(خصو صاً بہ سلسلہ جہاد)

وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ۝۲۰ۚۖ

حکم سن لینے کے بعد اس سے روگردانی نہ کرو۔
(اس کی تعمیل میں جان و مال کا بظاہر کتنا ہی نقصان نظر آئے)

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَہُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ۝۲۱

اور ان لو گوں کی طرح نہ ہو جائو جنھوں نے کہا تھا ہم نے سُن لیا۔ حالانکہ اُنھوں نے نہیں سُنا( یعنی اُن کا سننا تعمیل حکم کی نیت سے نہ تھا۔)

اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللہِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ۝۲۲

یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر وہ لوگ ہیں جو قبول حق کے معاملہ میں بہر ے گونگے ہیں عقل سے کام نہیں لیتے۔

توضیح : جو لوگ احکامِ الٰہی توجہ سے نہیں سنتے اور نہ حق گو ہیں اور اس بات پر غور ہی نہیں کر تے کہ الٰہی احکامِ کی تعمیل میں ان کے لیے فوائد ہیں تو وہ حسبِ ارشاد الٰہی جانوروں سے بھی بدتر ہیں ۔ عقل ایک اعلیٰ درجہ کی توانائی ہے جو اللہ تعا لیٰ کی طرف سے انسان کو عطاء کی گئی ہے۔ اگر اس توا نائی سے کام لے کر آخرت کی خیر وابقٰی زندگی پر غور نہ کرے توایسا شخص بے عقل ہی سمجھائے گا۔

وَلَوْ عَلِمَ اللہُ فِيْہِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ۝۰ۭ

اگر اللہ تعالیٰ جانتے کہ ان میں خیر کی طلب ہے تو ضرور انھیں گوشِ دل سے سننے کی توفیق بخشےگا۔

وَلَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝۲۳

طلبِ حق کے داعیہ کے بغیر اگر ہم انھیں سننے کی توفیق بخشتے تو وہ بے رخی کے ساتھ منہ پھیر لیتے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ

ائے ایمان والو اللہ اور رسول کے احکام کی بہ ذوق و شوق تعمیل کرو۔

اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ۝۰ۚ

خصو صاً جب تمہیں تمہاری زندگی (جہاد) کی طرف بلا یا جائے۔

توضیح : دراصل جہاد ہی حیاتِ مِلّی کا ضامن ہے۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ

اور جان لوکہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے قلب درمیان حائل ہیں۔

توضیح : نقصانِ دنیا کے اندیشے سے کوئی احکامِ الٰہی کی بجا آوری سے گُریز کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے ایمان و اطاعت کی تو فیق نہیں دیتے۔

وَاَنَّہٗٓ اِلَيْہِ تُحْشَــرُوْنَ۝۲۴

اور بالا خر(محاسبۂ اعمال کیلئے) تم سب اللہ تعالیٰ کے رو برو جمع کیے جائوگے۔

توضیح : مسلمانوں کی زندگی یعنی ملی اور حیاتِ ایمانی کی بقاء جہاد ہی سے وابستہ ہے۔ جہادِ باللسان اور جہادِ بالنفس کا ترک کردینا گو یا دین و ایمان کی تباہی کا سامان کرنا ہے۔ جہاد باللّسان یہ کہ قرآنی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر باطل افکار پر ضرب لگائے۔ امت ہی اگر قرآنی تعلیم سے بے بہرہ ہو تو جہاد کیوں کر ہوگا؟ اہلِ ایمان کا وصف ہے’’ وَجَا ہِدْ ہُمْ بِہٖ جِہَا داً کَبِیْراً ‘‘ بہٖ کا ارشارہ قرآن مجید کی طرف ہے۔ اس طرح جہادِ باللسان ہی جہا دِکبیرہے۔

وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّۃً۝۰ۚ

اور ڈرو اس فتنہ سے جس کا وبال صرف گنہ گاروں پر ہی نہ پڑے گا (متقی بھی اِس کی زد سے نہ بچ سکیں گے)

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲۵

اور جان لوکہ اللہ تعالیٰ سخت ترین عذاب دینے والے ہیں۔(یہاں فتنہ سے مُراد غلبۂ کفر اور گنہگار سے مُراد تارکِ جہاد ہے)

وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ

(ائے ایمان والو) وہ وقت یاد کرو جب تم تعداد میں بہت کم تھے سرزمین مکّہ میں تم نہایت ضعیف و کمزور سمجھے جا تے تھے۔

تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ

تم ڈر تے تھے (یعنی یہ اندیشہ لا حق تھا) کہ کہیں دشمن تمہیں نیست و نا بود نہ کر دیں۔

فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِہٖ

پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو (مدینہ میں) جگہ دی اور اپنی مدد سے تمہیں تقویت بخشی (انصار کے ذریعہ تمہاری مدد کی گئی ۔)

وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۲۶

(یعنی ہر حکم الٰہی کی سر فرو شانہ تعمیل کے لیے تیار رہو ایک وقت وہ بھی تھا کہ تم اہل باطل کے مقابلہ میں کسی شمار و قطار میں نہ تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے تمہاری حفاظت و مدد کی اب جبکہ تم نسبتاً ہر حیثیت سے بہتر موقف میں ہو اللہ تعالیٰ کی راہ میں سرفروشانہ جوہر دکھاؤ تو کیا آج اللہ تعالیٰ تمہا ری ویسی ہی مدد نہیں کریں گے ؟ ضرور کریں گے۔ اس حقیقت کے با وجود ضرور جان ومال کا اندیشہ جہاد سے جی چُرا نا یہ سب اللہ تعالیٰ کی سخت نا شکری ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ

ائے ایمان والو! اللہ و رسول کے معاملہ میں خیانت نہ کرو (یعنی احکامِ الٰہی کی تعمیل میں کو تا ہی یا احکام کی خلاف ور زی نہ کرو۔)

وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ
تَعْلَمُوْنَ۝۲۷

اور نہ اپنی اما نتوں میں خیا نت کرو حالانکہ تم (اس کے انجام کو ) جانتے بھی ہو۔

توضیح : اما نتوں میں خیانت مال و اولاد کی محبت میں ہو تی ہے۔ اس لیے ارشاد ہے۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ
وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ۝۰ۙ

اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقتاً آزمائش کا سامان ہیں (انکی محبت میں ہدایاتِ الٰہی کی خلاف ور زی نہ کرو۔ نہ جہاد سے جی چرائو)

وَّاَنَّ اللہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝۲۸ۧ

اور اللہ تعالیٰ کے پاس (نیکیوں کا ) بڑا اجر ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللہَ

ائے ایمان والو اگر تم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرو تو ( نا فرما نی کے انجام سے ڈر کر ہر معا ملہ میں اللہ تعالیٰ کی ہدایتوں پر عمل کرتے رہو گے تو )

يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا

اللہ تعالیٰ تم میں حق و باطل ( نیکی بدی ہدایت و گمراہی ، اچھائی و برائی) کی تمیز پیدا کریں گے۔

وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَـيِّاٰتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ۝۰ۭ

اور تمہاری برائیوں کو تم سے دُور کریں گے اور تمہارے گناہوں کو معاف کریں گے۔

وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۝۲۹

اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل کرنے والے ہیں۔

یعنی 

وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

(ائے نبیﷺ) وہ واقعہ بھی نا قابلِ ذکر ہے جب کہ آپ کے دشمن آپ کے خلاف بڑی بڑی تدبیریں سونچ رہے تھے۔

لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ
اَوْيُخْرِجُوْكَ۝۰ۭ

تاکہ آپ کو قید کردیں یا جان سے مار ڈالیںیا جلا وطن کردیں۔

وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۝۰ۭ

وہ (پُر فریب) چال چل رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اُنکی چال نا کام بنا دی۔

وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِـرِيْنَ۝۳۰

اور اللہ تعالیٰ چال بازوں کی چال با زیوں کا بہترین سدِ باب کرنے والے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ چال بازوں میں بہترین چال باز ہیں۔

یعنی 

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا

اور جب منکرین حق کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ہم نے سنا

لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآ۝۰ۙ

اگر چاہیں تو ہم بھی اس کے مثلِ کلام کہہ سکتے ہیں

اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۱

یہ ویسی ہی کہا نیاں ہیں جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آئے ہیں۔

وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ كَانَ ہٰذَا ہُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ

اور اس وقت منکرینِ حق نے کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ یہ کتاب اگر واقعی آپ ہی کے پاس سے آئی ہے

فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ

تو ہم پر آسمان سے پتھر برسائیے۔

اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۳۲

یاکو ئی دردناک عذاب ہم پربھیجئے۔

وَمَا كَانَ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِيْہِمْ۝۰ۭ

محمد ﷺ جب تک آپ ان میں مو جود ہیں اللہ تعالیٰ انھیں عذاب میں مبتلا نہیں کرتے۔

وَمَا كَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۝۳۳

نہ یہ سنّت الٰہی ہے کہ لوگ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں اور اللہ تعالیٰ اُن پر عذاب بھیجیں۔

وَمَا لَہُمْ اَلَّا يُعَذِّبَہُمُ اللہُ

اب کوئی وجہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں عذاب نہ دیں

وَہُمْ يَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ

جبکہ وہ مسلمانوں کو مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں۔

وَمَا كَانُوْٓا اَوْلِيَاۗءَہٗ۝۰ۭ

اور وہ اُس کے جائز مُتولّی بھی نہیں (مُتولی بننے کے لائق نہیں)

اِنْ اَوْلِيَاۗؤُہٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ

واقعہ یہ ہے کہ مسجد حرام کے جائز مُتولی متقین ہی ہیں۔

وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۳۴

لیکن یہ بات ان کی اکثریت نہیں جانتی

وَمَا كَانَ صَلَاتُہُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَۃً۝۰ۭ

اورکعبۃ اللہ میں ان منکرین حق کی عبادت تالیاں اور سیٹیاں بجانے کے سوا اور کچھ نہ تھی۔

فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۝۳۵

(محاسبۂ اعمال کے بعد ان سے کہا جائے گا) اِنکار حق کی پاداش میں عذابِ الٰہی کامزہ چکھو۔

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ لِيَصُدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ

منکرین کا شعار ہے کہ وہ اپنا مال لو گوں کو راہِ حق سے روکنے کے لیے خرچ کر تے ہیں(اوربڑا کارِ ثواب سمجھتے ہیں)

فَسَيُنْفِقُوْنَہَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَيْہِمْ حَسْــرَۃً ثُمَّ يُغْلَبُوْنَ۝۰ۥۭ

وہ اپنا مال (اس نیت سے ) خرچ کرتے ہیں کہ حق کا غلبہ نہ ہو۔ نتیجتاً ان کا اس طرح مال خرچ کرنا ان کے لیے مو جبِ حسرت وندامت ہوگا۔ پھر وہ مغلوب ہو کر رہیں گے۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَہَنَّمَ يُحْشَــرُوْنَ۝۳۶ۙ

اور وہ لوگ کافر ہیں،اِکھٹے جہنم میں داخل کیے جائیں گے ۔

لِيَمِيْزَ اللہُ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيْثَ بَعْضَہٗ عَلٰي بَعْضٍ

تا کہ اللہ تعالیٰ ناپاک لوگوں کوپاک لوگوں سے علیحدہ کردے اور ناپاک لوگوں کو ایک دوسرے سے ملادے۔

فَيَرْكُمَہٗ جَمِيْعًا

ہر قسم کی ناپاکی کو ایک جگہ جمع کردے۔

فَيَجْعَلَہٗ فِيْ جَہَنَّمَ۝۰ۭ

پھرانجامِ کارایسے تمام ناپاک لوگوں کوجہنّم میں ڈال دے۔

اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِــرُوْنَ۝۳۷ۧ

ایسے ہی لوگ انتہائی خسارہ میں ہوںگے۔

قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَہُوْا يُغْفَرْ لَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ۝۰ۚ

کافروں سے کہہ دیجئے اگروہ(کفروشرک اور) اپنی شرارتوں سے باز آجائیں تو جو کچھ گُناہ اُن سے ہوچکے تھے معاف کیے جائیںگے۔

وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُـنَّۃُ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۸

اور اگروہ پھر ایسی ہی حرکات کرنے لگیںتواگلے لوگوںکے لیے جو طریقہ جاری ہو چکا ہے وہی اُن کے حق میں بر تاجائے گا۔
یعنی ا للہ تعالیٰ کے رسولوںکوجھٹلانے پر اللہ تعالیٰ کی جو سنّت ہے وہ اُن سے متعلق ہو جائے گی ان پر عذاب آکر رہے گا۔

وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ۝۰ۚ

اور اُن لوگوںسے لڑ تے رہو یہاں تک کہ کفر وشرک اور فتنہ کا غلبہ باقی نہ رہے اور اللہ کا دین غالب ہو کر رہے۔

فَاِنِ انْتَہَـوْا فَاِنَّ اللہَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۳۹

پھر اگر وہ (کفروشرک سے) باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔

یعنی 

وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَوْلٰىكُمْ۝۰ۭ نِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ۝۴۰

اور اگر وہ روگردانی کریں(یعنی تم سے لڑنے کو تیار ہو جائیں) تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دوست ہیں(کارساز ہیں) بڑے اچھے دوست اور بڑے ہی اچھے کار ساز و مدد گار ہیں ہر حال میں تمہاری مدد کریں گے۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ 

اور اس بات کو جان لو کچھ مالِ غنیمت تم نے حاصل کیا ہے، اس کاپانچواں حصّہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے۔

وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ

اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے(رسول اللہ ﷺ کے قرابت دار مُراد ہیں۔)

اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ۝۰ۭ

اگر تم اللہ پر ایمان و یقین رکھتے ہو اورنصرت پر جو اللہ تعالیٰ نے حق وباطل کے فیصلہ کے دن(جنگ بدر میں جب کہ دونوںفوجیںباہم مقابل ہوئی تھیں)اپنے بندہ محمد ﷺ پرنازل کی۔

وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۴۱

اور اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہیں(اللہ تعالیٰ کو اختیار رہے جو چاہیں فیصلہ کریں)

توضیح : تقسیم میں اللہ ورسول کا ایک حصہ ہے۔جس سے مقصود یہ ہے کہ یہ پانچواں حصہ اعلیٰ کلمۃ الحق اور اقامت دین کے کام میں صرف کیا جائے۔ بقیہ چار حصے لڑنے والی فوج میں تقسیم ہوںگے۔

اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰي وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ۝۰ۭ

جس وقت تم (مدینہ کی)وادی سے قریب تھے اور (کفّار) مدینہ کے دوسری طرف (کچھ فاصلے پر) تھے اور قافلہ(قریش اپنے کثیر مالِ تجارت کہ ساتھ) تمہارے نچلے (نشیبی) حصّہ کی طرف سمندر کے کنارے کنارے تھا۔

وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ۝۰ۙ

اگر تم پہلے سے جنگ کی نسبت کوئی دن تاریخ مقرر کرتے تو تم وقتِ معینہ میں اختلاف کر جاتے۔

وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللہُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا۝۰ۥۙ

لیکن اللہ تعالیٰ جس بات کا فیصلہ کرچکے تھے وہ ہوکر رہا۔
(اللہ تعالی کو منظور تھا کہ حق و باطل کا ایک معر کہ ہو جائے اس لیے دفعتہ جنگ کا واقعہ پیش آگیا)

لِّـيَہْلِكَ مَنْ ہَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَۃٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَۃٍ۝۰ۭ

تاکہ(دین حق کی)واضح دلیل آنے کے بعد جس کو ہلاک ہونا ہے، ہلاک ہوجائے اور دین حق ظاہر ہو جا نے کے بعد جس کو زندہ رہنا ہے، وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے۔

وَاِنَّ اللہَ لَسَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۴۲ۙ

اور یقینا اللہ تعالی سننے والے جاننے والے ہیں۔
(کہ ان مذکورہ حقائق کو دیکھنے کے بعد کون کُفر پر اڑا رہتا ہے اور کون ایمان لا تا ہے)

اِذْ يُرِيْكَہُمُ اللہُ فِيْ مَنَامِكَ قَلِيْلًا۝۰ۭ

(وہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے) جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے خواب میں دشمنوں کی تعداد کم دکھائی۔

وَلَوْ اَرٰىكَہُمْ كَثِيْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ

اور اگر آپ کو ان کی تعداد زیادہ دکھا تے تو تم لوگ ہمت ہار جاتے اور عین لڑائی کے وقت جھگڑا شروع کر دیتے۔

وَلٰكِنَّ اللہَ سَلَّمَ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۴۳

لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو (ایسی باتوں سے) بچا لیا بے شک وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔

وَاِذْ يُرِيْكُمُوْہُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا

اور(اس واقعہ کو ذہن میں رکھو) جب تم ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو ان کا فروں کو تمہا ری نظر میں بہت کم دکھا یا۔

وَّيُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِہِمْ

اور اُن کافروں کی نظر وں میں تم کو کم دکھا یا۔
(تاکہ دو نوں فریق اس خیال سے کہ مقابل کے لوگ ایک دوسرے سے تعداد میں کم ہیں۔ پوری قوت سے جنگ شروع کر دیں)

لِيَقْضِيَ اللہُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا۝۰ۭ

تاکہ اللہ تعالیٰ جس بات کا فیصلہ کر چکے تھے پورا ہو کر ہے۔

وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝۴۴ۧ

اور تمام اُمور وفیصلے کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔
(کہ کون کس قسم کی سزاوجزا ء کا مستحق ہے)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا

ائے ایمان والو جب تم دشمن کی فوج کے مقابل ہو جائو تو ثابت قدم رہو۔

وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۴۵ۚ

اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتے رہو (اللہ تعالیٰ سے لو لگائے رکھو) تاکہ تم فلاح پاؤ (کامیاب ہوجاؤ)

وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ

اور اللہ رسول کی اطاعت کرو۔
(یعنی جنگ کے تعلق سے اللہ رسول کا جو بھی حکم ہواُس کی پوری پوری تعمیل کرو)

وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا

اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تم بُز دل ہو جائو گے

وَتَذْہَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا۝۰ۭ

اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی(یک جہتی باقی نہ رہے گی، اِنتشار پیدا ہوگا) صبر سے کام لو (جنگ میں جو بھی تکلیف پہنچے برداشت کر لو)

اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۴۶ۚ

بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں(صبر کرنے والوں کی مدد کرتے ہیں)

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بَطَرًا وَّرِئَاۗءَ النَّاسِ

اور اُن لو گوں کی طرح نہ ہو جا نا جواکڑتے اِتراتے لو گوں کو اپنی شان دکھا تے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں

وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ

اور جن کی روش یہ ہے کہ لو گوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں

وَاللہُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ۝۴۷

اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن پر احاطہ کیے ہوئے ہیں(یعنی اِن کے اعمال اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہیں۔ انھیں پوری پوری سزا مل کر رہے گی)

وَاِذْ زَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ

اور جب شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظر میں خوشنما کر دکھا یا۔

وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ۝۰ۚ

اور (انھیں دلا سہ دیتے ہوئے) کہا آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور میں تمہارا رفیق ہوں( ہر طرح کی مدد کے لیے تیار ہوں)

فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْہِ

پھر جب اس نے دو نوں فو جوں کو ایک دوسرے سے مقابل ہوتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر چل دیا۔

وَقَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ

اور کہا مجھے تم سے کچھ تعلق نہیں میں تم سے بری الزمہ ہوں۔

اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ۝۰ۭ

میں ایسی چیزیں دیکھتا ہوں جسے تم نہیں دیکھ سکتے میں اللہ سے ڈر تا ہوں۔

وَاللہُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۴۸ۧ

اور اللہ تعا لیٰ بڑا ہی سخت عذاب دینے والے ہیں۔

توضیح : اللہ رسول کی نا فرمانی پر اُکسا نا ، پھر کہنا میں اللہ سے ڈر تاہوں، یہ شیطانی چالیں ہیں۔

اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ 

جب (مدینہ کے) منافق اور وہ کافر جن کے دِلوں میں شک و شبہات کی بیمار ی تھی، کہہ رہے تھے 

غَرَّ ھٰٓؤُلَاۗءِ دِيْنُہُمْ۝۰ۭ

اِن (مسلما نوں) کے دین نے انھیں دھو کہ میں ڈال رکھا ہے۔
(مٹھی بھر بے سرو سامان مسلمان قریش جیسی بڑی طاقت نے ٹکرانے جارہے ہیں۔ اپنے دینی جوش میں دیوانے ہو گئے ہیں۔ اس معر کہ میں ان کی تباہی یقینی ہے۔ یہ جان بوجھ کر موت کہ منہ میں جار ہے ہیں وغیرہ)

وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ

اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے (تو اَسباب ظاہری کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے ہیں۔)

فَاِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۴۹

بے شک اللہ تعالیٰ زبر دست حکیم ہیں( حکیمانہ طریقے پر فتح و نصرت بخشتے ہیں)

وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ يَتَوَفَّى الَّذِيْنَ كَفَرُوا۝۰ۙ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ

(محمد ﷺ) آپ اگر وہ منظر دیکھتے جب فرشتے کا فروں کی جانیں نکالنے لگتے ہیں۔

يَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ۝۰ۚ

وہ اُن کے چہروں اور اُن کی پیٹھوں پر(کوڑوں اور ہتھو ڑوں سے ) مارتے جا تے ہیں اور کہتے جا تے ہیں

وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ۝۵۰

آگ میں جلنے کامزہ چکھو( کس قدر سخت عذاب ہے)

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْكُمْ

یہ تمہا ری بد اعمالیوں کی سزا ہے۔ وہ اعمال جن کو تم نے اپنے ہا تھوں پہلے ہی بھیج رکھا تھا۔

وَاَنَّ اللہَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ۝۵۱ۙ

اور(واقعہ یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتے۔

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ۝۰ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ

فرعونیوں اور ان سے پہلے کے لو گوں کی طرح انھوں نے الٰہی تعلیمات کا انکار کیا۔

فَاَخَذَہُمُ اللہُ بِذُنُوْبِہِمْ۝۰ۭ

تو اللہ تعالیٰ نے (کفر وشرک جیسے سنگین ) گناہوں کی پاداش میں انھیں پکڑ لیا

اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۵۲

بے شک اللہ تعالیٰ بڑی ہی قوت والے اور سخت ترین عذاب دینے والے ہیں۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ

یہ سزا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو اس وقت تک نہیں بدلتے

حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ

جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو بدل نہ ڈالے (یعنی اپنا نا اہل ہونا ثابت نہ کر دے)

وَاَنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۵۳ۙ

بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ (بلا واسطہ ووسیلہ) سننے اور جاننے والے ہیں۔

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ۝۰ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ فَاَہْلَكْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ

فر عو نیوں اور ان سے پہلے کے لوگوں کی طرح انھوں نے بھی اپنے رب کی تعلیمات کو جھٹلا یا تو ان کے گناہوں کی پاداش میں ہم نے انھیں ہلاک کر دیا۔

وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ۝۰ۚ وَكُلٌّ كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ۝۵۴

اور ہم نے فر عو نیوں کو در یا میں ڈبو دیا کیونکہ وہ سب بڑے ظالم تھے۔

اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللہِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۵۵ۖۚ

اللہ تعالیٰ کے نزدیک جانوروں سے بھی بد تر وہ لوگ ہیںجوکافرہیں (یعنی جو دین حق کا انکارکرتے ہیں)وہ کسی طرح ایمان نہیں لاتے ۔

اَلَّذِيْنَ عٰہَدْتَّ مِنْہُمْ

جن لوگوں سے آپﷺ نے صلح کا عہد کیا ہے

ثُمَّ يَنْقُضُوْنَ عَہْدَہُمْ فِيْ

پھر وہ ہر باراپنے کیے ہوئے کو توڑ ڈالتے ہیں

كُلِّ مَرَّۃٍ وَّہُمْ لَا يَتَّقُوْنَ۝۵۶

اور وہ (عہد شکنی کے نتائج سے) نہیں ڈرتے۔

فَاِمَّا تَثْقَفَنَّہُمْ فِي الْحَرْبِ

اگروہ لڑائی میں تمہارے ہاتھ آجائیں

فَشَرِّدْ بِہِمْ مَّنْ خَلْفَہُمْ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝۵۷

اِن کی خوب خبر لیجئے(انھیں سزا دیجیے)جولوگ اِن کی پُشت پناہی کرتے ہیںاُن کے حال کو دیکھ کر بھاگ جائیں۔شایدکہ وہ اس سے عبرت لیں۔

وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَۃً

اوراگر تم کو کسی قوم سے دغا باز ی کااندیشہ ہو تو

فَانْۢبِذْ اِلَيْہِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۝۰ۭ

ان کاعہدانھیںکی طرف پھینک دو(برابرکاجواب دو)

اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۝۵۸ۧ

یقیناً اللہ تعالیٰ دغا بازوں کوپسندنہیں فرماتے
(عہد واقرار ایک امانت ہے۔ اس کیخلاف ورزی خیانت ہے)

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا۝۰ۭ اِنَّہُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ۝۵۹

اورکافر ہر گزیہ خیال نہ کریں کہ وہ ہماری گرفت سے بچ نکلیں گے وہ (اپنی چال بازیوں سے) ہمیں عاجز و مجبور نہیں کر سکتے۔

وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ

اور اُن (کافروں سے مقابلہ کے لیے)جتنا بھی تم سے ممکن ہوسکے (ہتھیاروں سمیت) قوتمہیارکھو۔

وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللہِ وَعَدُوَّكُمْ

اور جنگی گھوڑوں سے تیارر ہو تاکہ اس کے ذریعہ تم اپنا رعب اپنے اور اللہ کے دشمنوں پر جمائے رکھو۔

وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ۝۰ۚ لَاتَعْلَمُوْنَہُمْ۝۰ۚ اَللہُ يَعْلَمُہُمْ۝۰ۭ

اور اُن کے علاوہ دوسروں پر بھی جن کو تم بالیقین نہیں جانتے ۔ اللہ تعالیٰ اُن کو خوب جانتے ہیں۔

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۝۶۰

اور جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے(اس کا بدل) پورا پورا تمہیں دیا جائے گااورتم پر ذرابھی ظلم نہ کیا جائے گا(تمہاری حق تلفی نہیں کی جائے گی)

وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ

اور اگر وہ صلح چاہیں تو آپؐ بھی صلح کی طرف مائل ہوجائیے اورا للہ پر بھروسہ کیجئے۔

اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۶۱

یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والے ہیں۔

وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۝۰ۭ

اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تواللہ تعالیٰ آپ کے لیے کافی ہیں(اُن کی دھوکہ دہی بے اثر ہو گی)

ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۲ۙ

وہی تو ہے جس نے آپؐ کو اپنے فرشتوں اور مو منوں کے ذریعہ نُصرت بخشی۔

وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۝۰ۭ

اور اُن (اہل ایمان)کے دلوں میں باہم محبت پیدا کردی۔

لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ

اگرآپؐزمین کے پورے خزانے بھی خرچ کر ڈالتے۔ آپؐ اُن کے دِلوں میں محبت پیدانہ کرسکتے۔

وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۶۳

لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کے دِلوں میں محبت پیدا کردی۔(انھیں متحد کردیا) بے شک وہ بڑے ہی زبر دست حکیم ہیں،(یعنی ساری تجاویز حکیمانہ اوراٹل ہیں)

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللہُ وَمَنِ

ائے نبی اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کافی ہے اور ان تمام اہل ایمان

اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۴ۧ

کے لئے بھی جو آپ ﷺ کی اتباع کرتے ہیں

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۝۰ۭ

ائے نبی ﷺ ! مو منین کو جہادکی رغبت دلائیے(مارنے اورمرنے کا والہانہ جذبہ پیدا کیجئے)

اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۝۰ۚ

اور اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہوں تو دو سوپر غالب آئیںگے۔

وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

اور اگر تم میں ایسے (پختہ ایمان والے) ایک سوہوںتوایک ہزار کافروںپرغالب آئیںگے۔

بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۝۶۵

کیو نکہ وہ کافر ایک ایسی قوم ہے جو دین کی سمجھ نہیں رکھتی۔

اَلْـــٰٔـنَ خَفَّفَ اللہُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا۝۰ۭ

اب اللہ تعالیٰ نے تمہارے حق میں آسانی فرمادی ہے اورجان لیا کہ تم میںکتنی کمزوری ہے۔

فَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ۝۰ۚ

پس اگر تم میں سے ایک سو ثابت قدم ہوں گے تو دوسو پر غالب آئو گے۔

وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفَيْنِ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ

اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں گے تواللہ کے حکم سے دوہزار پر غالب رہیںگے۔

وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۶۶

اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔
(یعنی راہِ حق میں جان ومال کی تکلیف بہ طیب خاطر برداشت کرنے والوںکاساتھ دیتے ہیں)

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ

کسی نبی کے شایان شان نہیںکہ اس کے پاس قیدی ہوں تاآنکہ زمین میں کُفر کی طاقت اچھی طرح کچل دی جائے (کُفر کا زور توڑ دیا جائے)

تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا۝۰ۤۖ

تم لوگ دنیا کا مال واسباب چاہتے ہو

وَاللہُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ

اور اللہ تعا لیٰ تو آخرت کی بھلائی چاہتے ہیں

وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۶۷

اور اللہ تعالیٰ زبر دست حکیم ہیں(ایسی تجاویز فرماتے ہیں۔ جن میں تمہاری بھلائی ہو تی ہے)

توضیح : اہل تاویل کی روایت یہ ہے کہ جنگ بدر میں قریش کے جو لوگ گرفتار ہوئے ان کے بارے میں مشورہ ہوا کہ آیا انھیں فد یہ لے کر چھوڑ دیں یا قتل کردیں۔ پہلی رائے پر عمل ہوا یعنی فدیہ لے کر چھوڑ دیئے گئے۔جنگ بدر سے پہلے سورئہ محمدؐ (آیت ۴) میں جنگ کے متعلق جوا بتدائی ہدایات دی گئی تھیں۔ ان میں جنگی قید یوںسے فدیہ وصول کرنے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل دیا جائے۔ پھر قیدی پکڑ نے کی فکر کی جائے۔اس فرمانِ الٰہی کی روسے مسلمانوں نے بدر میں جو قیدی گرفتار کیے پھر فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ وہ تھا تو اجازت کے مطابق مگر غلطی یہ ہوئی کہ دشمن کی طاقت کوکچل دینے کی جو شرط مقدم رکھی گئی تھی، اُسے پورا کرنے میں کو تاہی کی گئی۔ جنگ میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کاایک بڑ اگروہ مالِ غنیمت لوٹنے اور کفّار کو پکڑ پکڑ باندھنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمن کا کچھ دور تک تعاقب کیا۔
حالانکہ اگر مسلمان پوری طاقت سے ان کا تعاقب کرتے تو قریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہو گیا ہو تا اِسی پر حق تعالیٰ عتاب فرما رہے ہیں۔اور یہ عتاب نبئی محترم ﷺ پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں پرہے۔ فرمانِ مبارک کا منشاء یہ ہے کہ ’’تم لوگ ابھی نبیؐکے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجھے ہو‘‘۔ نبی کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ فدیے اور غنائم وصول کرکے خزانے بھر ے بلکہ منصب ِ نبوت سے راست تعلق رکھنے والی بات یہ ہے کہ کُفر کی طاقت ٹوٹ جائے۔ اِسی کی تائید سیرتِ ابن ہشام کی اس روایت سے ہو تی ہے کہ’’مجاہدین اسلام جس وقت مالِ غنیمت لوٹنے اور کُفّار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگے ہوئے تھے، نبی ﷺ نے دیکھا کہ حضرت سعد بن مُعاذ کے چہرے پر کچھ کراہت کے آثار ہیںحضور نے اِن سے دریافت فرمایا: ائے سعد معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی یہ کاروائی تمہیں پسند نہیں آرہی ہے۔ انھوں نے عرض کیا ’’ہاں یا رسول اللہ‘‘۔ یہ پہلا معرکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دِلوائی ہے۔ اس مو قع پر انھیں قیدی بنا کر ان کی جانیں بچالینے سے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان کو خوب کچل ڈالا جاتا۔‘‘

لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِــيْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۶۸

اگر اللہ تعالیٰ کا حکم پہلے سے نہ ہو چکا ہو تا تو جو (فدیہ) تم نے لیا ہے ،اس کی وجہ تم پر بڑا عذاب نازل ہو تا ۔

توضیح : اگر چہ کہ فیصلہ کا اختیار تمہیں دیا گیا تھا مگر تم نے اپنے اختیارِ تمیزی کا استعمال مرضئی حق کے مطابق نہ کیا۔ اس لیے اب آئندہ کے لیے تمہیں مُتنبہ کیا جا تا ہے۔ اس تنبیہ کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جو فد یہ قیدیوں سے لیا ہے،وہ حرام ہو گیا۔

فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰ۡۖ وَّاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ

لہٰذا حلال و پاک (مال) جو تمہارے ہاتھ آیاہے۔ اس کو تو کھالو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو (کہ کوئی بات مرضی رب کیخلاف نہ ہونے پائے)

اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۶۹ۧ

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم وعفو ودرگزر فرمانے والے ہیں۔

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ قُلْ لِّمَنْ فِيْٓ اَيْدِيْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓي۝۰ۙ

ائے نبیﷺ ان قیدیوں سے کہہ دیجئے جو آپؐ کے ہاتھ میں گرفتار ہیں

اِنْ يَّعْلَمِ اللہُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ خَيْرًا

اگر اللہ تعالیٰ یہ جان لیں کہ تمہارے دلوں کے اندر نیکی قبولیتِ حق کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے

يُّؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۷۰

(اور تم نے دین حق کی مخالفت ترک کردی تو) جو کچھ تم سے (فدیہ) لیا گیا ہے اس سے بہتر اسی دنیا میں تمہیں دیا جائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کیے جائیں گے ۔اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔

وَاِنْ يُّرِيْدُوْا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللہَ مِنْ قَبْلُ

اور اگر یہ لوگ آپ ؐ سے دغا کرنا چا ہیں تو یہ پہلے ہی اللہ تعالیٰ سے دغا کرچکے ہیں۔

فَاَمْكَنَ مِنْہُمْ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۷۱

پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کو آپؐ کے قبضہ میں دے دیا۔ اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ

یقیناً جو لوگ ایمان لائے(جنھوں نے الٰہی تعلیم قبول کرلی) اور اللہ کی راہ میں ہجرت کی (ترکِ وطن کیا) اور اپنی جان ومال سے جہاد کیا۔

وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا

اور جنھوں نے ہجرت کرنے والوں کو پناہ دی اور اُن کی ہر طرح مدد کی

اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ

وہی دراصل ایک دوسرے کے دوست و ہمدرد ہیں۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا

اور جو لوگ ایمان لائے مگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت نہ کی

مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا۝۰ۚ

تو وہ جب تک ہجرت نہ کریں کسی طرح تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔

وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ

اور اگر وہ (دین کے معاملے میں) تم سے کسی قسم کی مدد کے طالب ہوں

فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ

تو تم پران کی مدد کرنی لازم ہے۔

اِلَّا عَلٰي قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَہُمْ مِّيْثَاقٌ۝۰ۭ

لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معا ہدہ ہو

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۷۲

اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہے ہیں (تم کو اس کی جزاء دیں گے)

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ

اور جو لوگ کافر ہیں وہ باہم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔(یعنی ایک دوسرے کی مدد کرنے میں کسی عہد و پیمان کا لحاظ نہیں کرتے بے تکلّف عہد شکنی کرڈالتے ہیں)

اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَكُنْ فِتْنَۃٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ۝۷۳ۭ

اگر تم(مذکورہ حکم پر) عمل نہ کرو گے (یعنی وقت پر اپنے لوگوں کی مدد نہ کرو گے) تو ملک میں فتنہ پیدا ہو گا اور فساد عظیم پھیلے گا۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ

اور جو لوگ ایمان لائے ہجرت کی ، راہ خدامیں جان ومال سے جہاد کرتے رہے۔

وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۝۰ۭ

اور جنھوں نے مہاجرین کو پناہ دی اور ہر طرح اُن کی مدد کی (دراصل ) یہی لوگ سچّے مو من ہیں۔

لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۝۷۴

ان کے لیے مغفرت ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس اعلیٰ ترین روزی ہے۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ۝۰ۭ

اورجولوگ بعد میں ایمان لائے لیکن تمہارے ساتھ ہجرت و جہاد کی منزلیں طے کیں وہ بھی تم ہی میں سے ہیں۔

توضیح : لوگ مکّہ سے ہجرت کر آئے تو ان مہا جرین کا بھائی چارہ اہل مدینہ سے قائم کیا گیا ، جنھیں انصار کہتے ہیں۔ یہی رشتۂ اخوت بعد کو ہجرت کرنے والوں کے لیے بھی قائم رہے گا۔

وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللہِ۝۰ۭ

(مگر یہ بات ذہن نشین رہے کہ میراث کے تعلق سے) نسلی رشتہ دار ہی حسب ِ حکم الٰہی ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔

اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۷۵ۧ

بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہیں۔جانتے ہیں کہ تمہارے لیے مفید کیا ہے اور مضر کیاہے۔

توضیح : رکوع ۸ و ۹ میںایک خصوصی تعلیم یہ دی گئی ہے کہ دشمنانِ حق سے مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فنِ حرب وضرب سے واقف رہیں اور ضروری اسلحہ سے لیس رہیں تاکہ حربی و فوجی قوت اِن کے دشمنوں کے لیے حوصلہ شکن رہے۔لیکن افسوس ہے کہ اس تعلیم کو مسلمان صدیوں سے بھولے ہوئے ہیں۔
والدین اپنے بچّوں کو یہ حدیث تو بہت یاد دلاتے ہیں کہ جنت ماں باپ کے قدموں کے نیچے ہے مگر یہ تعلیم انھیں کبھی نہیں دیتے کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔ آج مذہبی پیشوا یہ تعلیم تو دیتے ہیںکہ دعوت قبول کرنا سنت ہے۔ مگر یہ تعلیم نہیں دیتے کہ ہتھیار چلا نا سیکھنا ، آلات حرب سے آراستہ رہنا بھی ایک ایسی سنت ہے جس کے بھول جانے پر لَیْسَ مِنَّا (ہم میں سے نہیں) کی وعید ہے۔ نجات کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ وہ کتاب اللہ کے ذریعہ ایمان باللہ۔ ایمان بالاخرت اور اعمال صالحہ کی تعلیم حاصل کرے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ حیات ملی کی بقاء کے لیے فن سپہ گری سے بھی واقف ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیقن یہ بھی ہے کہ اگر دشمن کی تعداد دُگنی ہو تب بھی مسلمان مقابلہ سے ہمت نہ ہاریں۔ اہل باطل سے بے جگری کے ساتھ مقابلہ کریں۔کیونکہ وعدئہ الٰہی کے مطابق فتح اہل ایمان ہی کی ہوگی۔ یہ بھی پیشِ نظر رکھیں کہ آخرت کا طالب و حریص بنے بغیر فی سبیل اللہ جدال وقتال کامردانہ وارجذبہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ جان بچی لا کھوں پائے کے بجائے تعلیم یہ ہونی چاہیئے کہ جان دی اور لاکھوں پائے اگر مسلمانوں کے قائد مسلمانوں کو الٰہی تعلیم سے آگاہ کرتے تو مسلمان تباہ نہ ہوتے ۔ آخرت کی مرد آفریں تعلیم دیئے بغیر حربی تعلیم کا ہونانہ ہونا برابر ہے۔ بقول اقبال :
تیغ و تفنگ دست مسلماں میں اب کہاں

ہوں بھی تو دل ہے موت کی لذت سے بے خبر
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل

کہتا ہے کون اس کو مسلماں کی موت مر
ایک سبق یہاں یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے سامنے بہ یک وقت مفادِ دنیا اور مفادِ آخرت دو نوں ہی ہوں تو مفادِ دنیا نظر انداز کردے۔اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کی اُخروی زندگی بہتر سے بہتر ہو جائے ۔ مگر ہم چاہتے ہیںکہ دنیا وی زندگی بہتر سے بہتر ہو۔ مسلمان اُس راہ پر گا مزن نہیں ہیں۔ جس کی منزل مغفرت و جنت ہے۔ نادانی اور غلط رہنمائی کی وجہ جہنم کے راستے کو جنّت کا راستہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ مسلمانوں کا عمل اگر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو گا تو اشاعت اسلام میں بڑی رُکا وٹ ہو گی اور جب اسلام کی اشاعت رکے گی تو دنیا فتنہ و فساد سے بھر جائے گی، جس کے ذمّہ دار مسلمان ہی ہوں گے۔ مزید تفصیل سورئہ نحل میں آئی ہے۔