بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
الۗمّۗ۱ۚ
ا۔ل۔ م۔ یہ حروف مقطعات ہیں، ان کا ذکر پہلے آچکا ہے ۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ۲
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑدیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جائیں گے۔
( حق وباطل کی کشمکش میں ضرور مبتلا کئے جائیں گے)
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ
ہم ان سب کی آزمائش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرچکے ہیں۔
فَلَيَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ۳
اللہ انھیں بھی جانتے ہیں جو اپنے ایمان میں سچے ہیں، اور انھیں بھی جوجھوٹے ہیں۔
اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ
جو لوگ سیاہ کا رانہ زندگی بسر کررہے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ
اَنْ يَّسْبِقُوْنَا۰ۭ
ہماری گرفت سے بچ جائیں گے؟
سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ۴
یہ ان کا بہت ہی بے ہودہ پندار ہے۔
مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ اللہِ
جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید رکھتا ہے (یعنی یہ سمجھتا ہے کہ ایک دن اللہ کے پاس حاضر ہونا اور اپنے اعمال کی جزا یا سزا پانا ہے)
فَاِنَّ اَجَلَ اللہِ لَاٰتٍ۰ۭ
تواللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا وہ وقت آنے والا ہے( اس لئے جوبھی نیکیاں ممکن ہوں پہلی فرصت میں کرلیں کہیں ایسا نہ ہو کہ عمل کی یہ مہلت ختم ہوجائے)
وَہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۵
اوروہی سننے جاننے والا ہے۔
وَمَنْ جَاہَدَ فَاِنَّمَا يُجَاہِدُ لِنَفْسِہٖ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۶
اور جوکوئی راہ حق میں جدوجہد کرتا ہے تواپنے ہی (فائدے کے لئے) کرتا ہے، اللہ توسارے جہاں سے بے نیاز ہیں۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے، ہم ان سے ان کی برائیاں دور
لَنُكَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَـيِّاٰتِہِمْ
کردیں گے( یہ ایمان وتقویٰ کا پہلا فائدہ ہے)
وَلَنَجْزِيَنَّہُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۷
اور( دوسرا فائدہ یہ ہے کہ) ہم ان کو ان کے نیک اعمال کا نہایت اچھا بدل دیں گے( یعنی امید سے زیادہ عطا کریں گے)
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ حُسْـنًا۰ۭ
اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہنے کا حکم دیا ہے۔
وَاِنْ جَاہَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا۰ۭ
اور اگر ماں باپ تجھ پر زور ڈالیں کہ میرے ساتھ کسی اور کوبھی شریک فرماں روائی قراردے لے جس کا تجھے علم نہیں توان کا کہنا نہ مان۔
اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۸
تم سب کومیری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ پھر میں بتادوں گا کہ تم کیا کیا (ظلم) کرتے رہے تھے۔
اس آیت کے متعلق مسلم، ترمذی اور ابوداؤد، نسائی کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ ۱۸، ۱۹ سال کے تھے، جب انہوں نے اسلام قبول کیا، ان کی ماں حمنہ بنت سفیان بن امیہ (ابوسفیان کی بھتیجی) کو جب معلوم ہوا کہ بیٹا مسلمان ہوگیاہے تواس نے کہا، جب تک محمدؐ کا انکار نہ کرے گا، میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، نہ سائے میں بیٹھوں گی۔ ماں کا حق ادا کرنا تواللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ تومیری بات نہ مانے گا تواللہ تعالیٰ کی بھی نافرمانی کرے گا۔ حضرت سعد اس پر سخت پریشان ہوئے۔ اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر ماجرا عرض کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس مضمون کوسورہ لقمان میں بھی پورے زور کے ساتھ دہرایا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن)
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
اور جو لوگ ایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے (یعنی جنہوں نے الٰہی تعلیمات قبول کرلئے او راپنے کردار کودرست کیا تو)
لَــنُدْخِلَنَّہُمْ فِي الصّٰلِحِيْنَ۹
ہم انھیں صالحین میں شمار کریں گے( دنیا میں بھی آخرت میں بھی)
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ
اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لے آئے۔
فَاِذَآ اُوْذِيَ فِي اللہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللہِ۰ۭ
پھر جب انھیں راہ خدا میں تکلیف دی جاتی ہے تو (اہل باطل کی طرف سے تکلیف پہنچتی ہے) تولوگوں کی اذیتوں کواللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتے ہیں (یہ منافق ہیں اس طرح ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں)
وَلَىِٕنْ جَاۗءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ۰ۭ
اگرآپ کے رب کی طرف سے فتح ونصرت نصیب ہوجائے توکہتے ہیں کہ ہم توتمہارے ساتھ تھے۔
اَوَلَيْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ۱۰
کیا اللہ تعالیٰ دنیا والوں کے دلوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہیں ہیں؟ (بے شک اللہ تعالیٰ سب کے احوال سے باخبر ہیں)
وَلَيَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ۱۱
اوراللہ تعالیٰ ایمان والوں کوجان کر رہیں گے اور منافقین کوبھی ( ان کا بار بار امتحان ہوتا رہے گا)۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا
اور کافر ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں۔
اتَّبِعُوْا سَبِيْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰيٰكُمْ۰ۭ
تم ہمارے طریقہ کی اتباع کرو ( اپنے آبائی دین کونہ چھوڑو، اگر ہمارے عقائد غلط ہیں توکل قیامت میں) ہم تمہاری خطاؤں کے بوجھ کواٹھالیں گے
وَمَا ہُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰہُمْ مِّنْ شَيْءٍ۰ۭ اِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۱۲
حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا کوئی جزوبھی اٹھانے والے نہیں، وہ بالکل جھوٹے ہیں۔
وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَہُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ۰ۡ
وہ ضرور اپنے (گناہوں کے) بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھ کے ساتھ دوسروں کے بوجھ بھی اٹھائیں گے۔
لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ(النحل آیت ۲۵) تا کہ وہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے پورے اٹھائیں اور ان لوگوں کا بوجھ کا بھی ایک حصہ اٹھائیں جن کو وہ کچھ جانے بغیر بھٹکاتے رہے ہیں۔
وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۱۳ۧ
اور ان سے قیامت کے دن اس تمام بہتان طرازی کا جواب لیا جائے گا جسے یہ گھڑا کرتے تھے۔
توضیح : کشمکش حق وباطل کے کچھ گزرے ہوئے واقعات اس لئے لائے گئے ہیں کہ اہل ایمان پریہ واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اہل ایمان کی مدد فرماتے ہیں اور کافر متنبہ ہوجائیں کہ کفر کا کیا انجام ہوتا ہے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِہٖ
اورہم نے نوحؑ کوان کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا۔
فَلَبِثَ فِيْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا۰ۭ
اور وہ اپنی قوم میں ساڑھے نوسو برس (اشاعت حق کا کام انجام دیتے) رہے۔
فَاَخَذَہُمُ الطُّوْفَانُ وَہُمْ ظٰلِمُوْنَ۱۴
پھر طوفان نے انھیں آگھیرا اور وہ بڑے ہی ظالم تھے۔
فَاَنْجَيْنٰہُ وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَۃِ وَجَعَلْنٰہَآ اٰيَۃً لِّــلْعٰلَمِيْنَ۱۵
پھر ہم نے نوحؑ کواور جو لوگ ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے غرق ہونے سے بچالیا۔ اور کشتی کودنیا والوںکیلئے نشانی (اور اس واقعہ کو درس عبرت) بنایا۔
وَاِبْرٰہِيْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللہَ وَاتَّــقُوْہُ۰ۭ
اور ابراہیمؑ (کا وہ واقعہ بھی پیش نظر رکھو) جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا (بزرگوں کوواسطہ وسیلہ بنائے بغیر بلاشرکت غیرے) اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو (اس کے عذاب کوپیش نظررکھو)
ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۶
اگر تم سمجھو تو یہی بات تمہارے لئے بہتر ہے۔
اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًا۰ۭ
یقیناً تم اللہ تعالیٰ کے سوا (اپنے بزرگوں کی) جن مورتیوں وبتوں کی پرستش کررہے ہو) وہ تو تمہارے ہی گھڑے ہوئے ہیں اور تم ایسی جھوٹی باتیں بناتے ہو۔
اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا
اللہ تعالیٰ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو وہ تم کو رزق دینے کا اختیارنہیں رکھتے ( اور نہ ان کے واسطہ وسیلہ سے تم کورزق دیا جاتا ہے)
فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْہُ
لہٰذا (کسی کوواسطہ وسیلہ بنائے بغیر) اللہ تعالیٰ ہی سے رزق مانگو اور اسی کی عبادت کرو۔
وَاشْكُرُوْا لَہٗ۰ۭ اِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۱۷
اوراسی کا شکر ادا کرتے رہو (یعنی رزق کوبزرگوں کا فیضان نہ سمجھو) تم اسی کی طرف لوٹ کرجاؤگے (اوراپنے مشرکانہ عقائد کی جزا پاؤگے)
وَاِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ۰ۭ
اور اگر تم (محاسبہ اعمال کے دن کو) جھٹلاؤگے تو تم سے پہلے بھی کئی ایک امتیں جھٹلا چکی ہیں۔
وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۱۸
اور رسول کے ذمہ توصاف صاف طور پر احکام الٰہی کوپہنچادینا ہے (یعنی جنت کی خوشخبری دینا، عذاب جہنم سے ڈرانا ہے)
اَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللہُ الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ۰ۭ
کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ (اپنی قدرت کاملہ سے) ہر ایک چیز کے پیدا کرنے کی ابتداء فرماتے ہیں پھر اس کو بار بار پیدا فرماتے رہتے ہیں۔
اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ۱۹
ایسا کرنا اللہ تعالیٰ پرآسان ہے۔(کوئی مشکل نہیں)
قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ بَدَاَ الْخَــلْقَ ثُمَّ اللہُ يُنْشِئُ النَّشْاَۃَ الْاٰخِرَۃَ۰ۭ
( ائے نبیﷺ ان لوگوں سے کہئے) تم زمین پر چل پھر کر تودیکھو اللہ تعالیٰ (تخلیق کی) پیدا کرنے کی کس طرح ابتداء کی پھر اللہ تعالیٰ دوسری بار بھی پیدا کریں گے۔
اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۲۰ۚ
بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پرقادر ہیں (یعنی ہر طرح کی قدرت رکھتے ہیں)
يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَرْحَمُ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۚ
جس (گنہگار) کوچاہیں عذاب دیں، اور جس پرچاہیں رحم کریں۔
وَاِلَيْہِ تُقْلَبُوْنَ۲۱
اور تم سب (محاسبۂ اعمال کے لئے) اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے ۔
وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ۰ۡ
اور تم زمین وآسمان میں کہیں بھی جا کر اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے (یعنی اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے)
وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۲۲ۧ
اور اللہ کے مقابلے میں (اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے) نہ تمہارا کوئی دوست (کام آسکے گا) اور نہ کوئی کسی طرح کی مدد کرے گا۔
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ وَلِقَاۗىِٕہٖٓ
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور (قیامت کے دن زندہ ہوکر محاسبہ اعمال کیلئے) اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کے منکر ہیں۔
اُولٰۗىِٕكَ يَىِٕسُوْا مِنْ رَّحْمَتِيْ
وہ میری رحمت سے نا امید ہوگئے ہیں۔
(کفر وانکار کے نتیجے میں اب وہ کسی مقرب سے مقرب بندے کی سعی وسفارش سے بھی رحمت الٰہی کے مستحق نہیں ہوسکتے)
وَاُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۲۳
اوران کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْہُ اَوْ حَرِّقُوْہُ
توان کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انھیں مارڈالو یا جلادو (چنانچہ قوم نے جلانے کا سامان مہیا کردیا، اور انھیں آگ کے الاؤ میں ڈال دیا)
فَاَنْجٰىہُ اللہُ مِنَ النَّارِ۰ۭ
پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں آگ سے بچالیا۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۲۴
بے شک اس واقعہ میں ایمان لانے والوں کے لئے (اللہ تعالیٰ کی قدرت کی) کئی ایک نشانیاں ہیں۔
وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اَوْثَانًا۰ۙ مَّوَدَّۃَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ
اور (ابراہیمؑ نے قوم سے یہ بھی) کہا تھا کہ تم نے دنیوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں کواپنا معبود بنائے رکھا ہے۔ ان سے بڑی عقیدت پیدا کر رکھی ہے۔
ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ
پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کے مخالف ہوجاؤگے (تمہاری ساری عقیدت مندیاں ختم ہوجائیں گی)
وَّيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۰ۡ وَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ
اور ایک دوسرے پرلعنت کروگے اورتمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ۲۵ۤۙ
اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہوگا۔ (ساری محبت عداوت میں تبدیل ہوجائے گی جیسا کہ متعدد سورتوں میں ارشاد الٰہی ہے) (الزخرف آیت ۶۷، احزاب ۲۷، ۶۸)
فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ۰ۘ
پس ان پر لوطؑ ہی ایمان لے آئے (آپ کے نبی ہونے کی تصدیق کی)
وَقَالَ اِنِّىْ مُہَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ۰ۭ
اورابراہیمؑ نے کہا (میں اپنا گھر بار چھوڑکر) اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں (یعنی اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی جگہ جا کر رہوں گا)
اِنَّہٗ ہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۲۶
بے شک وہ زبردست حکمت والا ہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی ہر تجویز نہایت ہی حکیمانہ ہے، وہ میرے لئے بہتر ٹھکانہ تجویز فرمائے گا)
وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ
اور (ہجرت کے بعد) ہم نے انھیں اسحاق نامی (بیٹا) اوریعقوب نامی (پوتا) عطا کیا۔
وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰہُ اَجْرَہٗ فِي الدُّنْيَا۰ۚ
اور ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اورکتاب کے سلسلہ کوجاری رکھا اور ہم نے دنیا میں بھی انھیں اچھا صلہ عطا کیا
وَاِنَّہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ۲۷
اور آخرت میں بھی وہ نیک لوگوں میں ہوں گے ۔
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ۰ۡمَا سَبَقَكُمْ
اور ہم نے لوطؑ کو(پیغمبری دی) توانہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسے خواہش کا ارتکاب کررہے ہو کہ تم سے پہلے دنیا میں کسی نے ایسا
بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۲۸
نہیں کیا۔
اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ۰ۥۙ
کیا تم( وضع فطری کے خلاف) مردوں سے شہوت کی تکمیل کرتے ہو اور (اس غرض کے لئے) مسافروں کی رہزنی کرتے ہو( یعنی خوبصورت نوعمر مردوں کی تلاش میں راستوں پربیٹھے رہتے ہو)
وَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ۰ۭ
اورکلبوں میں اپنے ساتھیوں سمیت جمع ہو کر ایسے برے کام علانیہ کرتے ہو( اس سے بڑھ کربھی کوئی بے حیائی ہوسکتی ہے)
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ
پس قوم کے پاس اس کے سوا کوئی اور جواب نہ تھا۔
اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللہِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۲۹
کہنے لگے کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آؤ۔
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ عَلَي الْقَوْمِ الْمُفْسِدِيْنَ۳۰ۧ
لوطؑ نے دعا کی ائے میرے پروردگار ان مفسد لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد کیجئے۔ (چنانچہ ان پر عذاب آیا، اور وہ سب کے سب ہلاک کردیئے گئے)
وَلَمَّا جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰہِيْمَ بِالْبُشْرٰى۰ۙ
اور جب ہمارے بھیجے ہوئے یعنی فرشتے آئے ابراہیمؑ کے پاس (خوش خبری دینے کے لئے)
قَالُوْٓا اِنَّا مُہْلِكُوْٓا اَہْلِ ہٰذِہِ الْقَرْيَۃِ۰ۚ
توکہا ہم نے (لوطؑ کی) اس بستی کوہلاک کرنے والے ہیں۔
اِنَّ اَہْلَہَا كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ۳۱ۚۖ
کیونکہ وہاں کے رہنے والے بڑے ہی ظالم ہیں۔
قَالَ اِنَّ فِيْہَا لُوْطًا۰ۭ
(ابراہیمؑ نے) کہا، اس بستی میں لوطؑ بھی رہتے ہیں۔
قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِيْہَا۰۪ۡ لَنُنَجِّيَنَّہٗ وَاَہْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ۰ۤۡ
فرشتوں نے کہا جولوگ وہاں ہیں ہم انھیں خوب جانتے ہیں ان کی بیوی کے سوا ہم انھیں اوران کے ساتھیوں کوضرور بچالیں گے۔
كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ۳۲
کہ وہ رہ جانے والوں میں سے ہوگی۔
وَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْۗءَ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا
اور جب ہمارے فرشتے لوطؑ کے پاس پہنچے تولوطؑ ان کے آنے کی وجہ سے نہایت ہی مغموم ہوئے( کہ ان مہمانوں کوبے عزت نہ کردیا جائے) اور وہ ان کے دفع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔
وَّقَالُوْا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ۰ۣ
(فرشتوں نے لوطؑ کی گھبراہٹ محسوس کی) اور کہا آپ نہ گھبرائیے اور نہ رنج کیجئے( ہم اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں بستی کے بدکردار لوگوں کوہلاک کرنے کے لئے آئے ہیں)
اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَاَہْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ۳۳
ہم آپ کواورآپ کے ان ساتھیوں کوجو ایمان لائے ہیں، بچالیں گے، سوائے آپ کی بیوی کے کہ وہ مستحق عذاب ہوچکی ہے، عذاب پانے والوں کے ساتھ عذاب پائے گی۔
اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰٓي اَہْلِ ہٰذِہِ الْقَرْيَۃِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ۳۴
یقیناً ہم اس بستی کے رہنے والوں پران کی بدکاریوں کی وجہ آسمان سے آفتیں (مصیبتیں) نازل کیں(چنانچہ وہ بستی الٹ دی گئی اور پتھروں کی بارش برسائی گئی)
وَلَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْہَآ اٰيَۃًۢ بَيِّنَۃً
اور ہم نے اس بستی کے کچھ نشاں (کھنڈرکی شکل میں اب بھی)
لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۳۵
باقی رکھے ہیںایسے لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں۔
وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاہُمْ شُعَيْبًا۰ۙ
اورمدین والوں کے پاس انھیں کی برادری کے ایک فرد شعیبؑ کوپیغمبر بنا کر بھیجا۔
فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ
توانہوں نے کہا ائے میری قوم کے لوگو (بلا شرکت غیرے) اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو۔
وَارْجُوا الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ۳۶
اور آخرت (روزقیامت) کے آنے کا یقین رکھو،اور ملک میں فساد نہ پھیلاؤ۔
فَكَذَّبُوْہُ فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ
تو قوم نے انھیں جھٹلایا (پیغمبر نہ مانا) توایک سخت زلزلہ نے انھیں اپنی گرفت میں لے لیا۔
فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِہِمْ جٰثِمِيْنَ۳۷ۡ
پس صبح کے وقت وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ گرپڑے ۔
وَعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَقَدْ تَّبَيَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِہِمْ۰ۣ
اور عاد ثمود کوبھی ہم نے ہلاک کیا (اور ان کی اجڑی ہوئی بستیوں کے) آثار تمہاری عبرت کے لئے رکھ چھوڑے۔
وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ
اورشیطان نے ان کے اعمال(نجات کے غلط طریقوں کو) کو ان کی نظرں میں مزین کردیا تھا۔
فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ۳۸ۙ
وہ انھیں صحیح راستہ سے روکے رکھا تھا (حالانکہ) وہ بڑی بصیرت، سوجھ بوجھ رکھنے والے پختہ تدبیر کاروں میں سے تھے۔ (مگر شیطان کے دام فریب میں آگئے)
وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ۰ۣ
اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی ہلاک کیا۔
وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ مُّوْسٰي بِالْبَيِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ وَمَا كَانُوْا سٰبِقِيْنَ۳۹ۚۖ
اورجب موسیٰؑ ان کے پاس کھلی نشانیوں کے ساتھ آئے تو قوم نے زمین میں تکبر کیا اور وہ بھاگ نہ سکتے تھے۔
فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِہٖ۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْہِ حَاصِبًا۰ۚ
تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہوں کی پاداش میں پکڑلیا پس ان میں بعض ایسے بھی تھے جن پر ہم نےپتھر برسائے(قوم عاد مراد ہے)
وَمِنْہُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّيْحَۃُ۰ۚ
اوران میں سے بعض کوسخت آسمانی آواز نے پکڑلیا (قوم ثمود مراد ہیں)
وَمِنْہُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ۰ۚ
اور ان میں سے بعض کوزمین میں دھنسا دیا گیا (قارون مراد ہے)
وَمِنْہُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا۰ۚ
اوران میں سے بعض کوہم نے غرق کردیا
وَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَہُمْ
اللہ تعالیٰ تو ان پر ظلم کرنے والے نہ تھے
وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَ۴۰
مگر وہ خود ہی اپنے آپ پرظلم کرتے تھے۔
مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ۰ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا۰ۭ
جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں (غیراللہ) کوکارساز (حاجت روا) بنا رکھا ہے، ان کی مثال ایک مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک طرح کا گھر بنائے رکھتی ہے۔
وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ۰ۘ
اور تمام گھروں سے مکڑی کا گھر نہایت ہی بودا(کمزور ) ہوتا ہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ اتنے کمزور ہیں کہ مکڑی کے جالے سے
انھیں تشبیہ دی جارہی ہے، اس سے ظاہرہے کہ ان سے کسی مدد کی امید رکھنا بڑی غلطی اورنادانی ہے۔
لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۴۱
کاش وہ (اس حقیقت کو) جان لیتے (سمجھنے کی کوشش کرتے)
اِنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَيْءٍ۰ۭ
اللہ کے سوا جس جس چیز کی وہ پرستش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ وہ سب جانتے ہیں۔
وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۴۲
اوراللہ ہی نہایت زبردست بے پایاں طاقت وقدرت کا مالک ہے (بھلا ایک ایسا زبردست الحکیم ایک غیرحکیم کوجو عاجز ہے، اپنا اختیار کیسے دے سکتا ہے)
وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ۰ۚ وَمَا يَعْقِلُہَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ۴۳
اور ہم یہ مثالیں لوگوں( کوسمجھانے) کے لئے بیان کرتے ہیں اور اس بات کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو دین کا علم اور دینی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
خَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَـقِّ۰ۭ
اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اورزمین کومناسب انداز میں پیدا فرمایا ہے۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّــلْمُؤْمِنِيْنَ۴۴ۧ
بے شک ان آیتوں میں اہل ایمان کے لئے( اللہ ہی کہ الٰہ واحد، معبود ومستعان ملجا وماویٰ، مالک ومختار حاجت روا کارساز ہونے کے) زبردست دلائل ہیں۔
اُتْلُ مَآاُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوۃَ۰ۭ
(ائے نبیﷺ) جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے، اس کوپڑھا کیجئے (پڑھ کرسنائیے) اور نماز کی پابندی رکھئے
بظاہر خطاب نبی محترمﷺ سے ہے، لیکن اس میں تمام اہل ایمان بھی مخاطب ہیں۔
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۰ۭ وَلَذِكْرُ اللہِ اَكْبَرُ۰ۭ
بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اللہ کا ذکر، اللہ کی یاد (بصورت نماز) بہت بڑی چیز ہے۔
وَاللہُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ۴۵
اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے۔
وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْكِتٰبِ
اور اہل کتاب سے(دینی بحث ومباحثہ میں) جھگڑا نہ کرو۔
اِلَّا بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ۰ۤۖ
سوائے اس کے کہ احسن طریقہ پرافہام وتفہیم کرو
اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ
ہاں، اگر وہ ظلم وزیادتی پراترآئیں تو
وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ
(بلاخوف وخطر) کہہ دو کہ ہم ایمان لائے اس کتاب پر جو ہماری طرف نازل کی گئی۔ اور اس کتاب پر بھی جوتمہاری طرف نازل کی گئی تھی۔
وَاِلٰـہُنَا وَاِلٰــہُكُمْ وَاحِدٌ وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۴۶
اورہمارا معبود اورتمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔
وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ۰ۭ
اور اسی طرح ہم نے آپ پرکتاب نازل کی ہے۔
فَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ
پس اس سے پہلے جن لوگوں کوہم نے کتابیں دی تھیں،
يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ۰ۚ
وہ اس قرآن پربھی ایمان لاتے ہیں۔
وَمِنْ ہٰٓؤُلَاۗءِ مَنْ يُّؤْمِنُ بِہٖ۰ۭ
اور ان لوگوں (مشرکین عرب) میں سے بھی (جو انصاف پسند ہیں) اس قرآن پر ایمان لارہے ہیں۔
وَمَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ۴۷
اورہماری آیتوں کا انکار (ہٹ دھرم) کافر ہی کرتے ہیں۔
وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ۴۸
اور(محمدﷺ) اس کتاب سے پہلے آپ نہ کوئی کتاب پڑھے ہوئے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے اگر ایسا ہوتا توباطل پرستوں کے لئے شک وشبہ کی گنجائش نکل آتی (کہ آپؐ نے اگلی کتابوں سے یہ باتیں معلوم کی ہوں گی۔)
(آپ کا اُمِّی ہونا۔ اُمِّی ہوتے ہوئے قرآن جیسی کتاب کا پیش کرنا آپؐ کے نبی ہونے کی کھلی دلیل ہے)
بَلْ ہُوَاٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ۰ۭ
بلکہ یہ قرآن واضح نشانیوں (صحیح مفہوم کے ساتھ) ان کے سینوں میں محفوظ ہے جنہیں علم دیا گیا ہے۔
وَمَا يَجْـحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ۴۹
ہماری آیتوں کا انکار ظالم (ضدی ہٹ دھرم) ہی کرتے ہیں ۔
وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۰ۭ
اورکہتے ہیں اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے (نبی ہونے کی) نشانیاں کیوں نازل نہیں کی گئیں (جنہیں دیکھ کر یقین ہوتا کہ آپؐ پیغمبر ہیں)
قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللہِ۰ۭ
ائے (نبیﷺ) کہئے، نشانیاں (معجزات کا) دینااللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۵۰
اور میں تو( اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے نتائج سے) بلا رورعایت خبردار کرنے والا ہوں۔
اَوَلَمْ يَكْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْہِمْ۰ۭ
کیا ان کے لئے یہ (نشانی ) کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپؐ پر کتاب نازل کی جوانہیں پڑھ کرسنائی جاتی ہے۔
یعنی
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَۃً وَّذِكْرٰي لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۵۱ۧ
بے شک اس کتاب میں ایمان لانے والوں کے لئے نصیحت ورحمت ہے (رحمت الٰہی ایمان وعمل والوں کے لئے ہے)
قُلْ كَفٰي بِاللہِ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ شَہِيْدًا۰ۚ
(ائے نبیﷺ) کہئے، میری صداقت پرمیرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔
يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ
اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کیا کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا بِاللہِ۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۵۲
جولوگ اپنے باطل اورمشرکانہ عقائد ہی کوصحیح سمجھتے اور اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد ہونے کا انکار کرتے ہیں، وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ۰ۭ وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاۗءَہُمُ الْعَذَابُ۰ۭ
اور یہ لوگ آپؐ سے عذاب کے لئے جلدی مچارہے ہیں۔ اگر عذاب کا وقت مقرر کیا گیا نہ ہوتا توان پرعذاب آہی چکا ہوتا۔
وَلَيَاْتِيَنَّہُمْ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۵۳
اور وہ ضرور اچانک ان پر واقع ہوکر رہے گا اور وہ اس سے بے خبر ہی رہیں گے۔
يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ۰ۭ وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِيْطَۃٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ۵۴ۙ
یہ لوگ آپؐ سے (بار بار) عذاب کیلئے جلدی کرتے ہیں حالانکہ جہنم کافروں کواپنے گھیرے میں لے چکی ہے۔(وہ اس کے مستحق ہوچکے ہیں)
يَوْمَ يَغْشٰـىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ
اس دن عذاب ان کے اوپر سے اوران کے پاؤں کے نیچے سے (زلزلہ وغیرہ کی صورت میں) پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
وَيَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۵۵
اوراللہ تعالیٰ فرمائیں گے اپنی ان بداعمالیوںکا مزہ چکھو جو تم کرتے تھے۔
يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَۃٌ فَاِيَّايَ فَاعْبُدُوْنِ۵۶
ائے میرے ایمان والے بندو (سرزمین مکہ میں اللہ کی عبادت سے روکا اور ستایا جارہا توترک وطن کرو) بے شک میری زمین کافی وسیع ہے، پس میری ہی عبادت کرو(کافروں کا دباؤ قبول نہ کرو)
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۰ۣ
ہرشخص کوموت کا مزہ چکھنا ہے۔
ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۵۷
پھر تم سب ہمارے ہی پاس لائے جاؤ گے۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
جو لوگ ایمان لائے(یعنی جنہوں نے الٰہی تعلیمات کوقبول کیا) اوراس کے مطابق اعمال صالحہ کرتے رہے۔
لَنُبَوِّئَنَّہُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ
ہم انہیں جنت کے اعلیٰ ترین بالاخانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔
خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۰ۭ
جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ۵۸ۤۖ
نیک عمل کرنے والوں کوکیا ہی اچھا بدلہ ملے گا۔
الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۵۹
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین حق کے لئے ہرقسم کی اذیتیں (بہ طیب خاطر) برداشت کیں۔ (بدلِ آخرت پیش نظررہا) اور اپنے پروردگار ہی پربھروسہ کیا۔
وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَا۰ۖۤ
کتنے ہی جانور ایسے ہیں جواپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے (لیکن وہ جہاں بھی جاتے ہیں، اپنا رزق پاتے ہیں)
اَللہُ يَرْزُقُہَا وَاِيَّاكُمْ۰ۡۖ
اللہ تعالیٰ انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔
بے سروسامان اور زاد راہ کے بغیر ہجرت کرنا سخت دشوار اور پریشان کن تھا۔ ان آیات کے ذریعہ اہل ایمان کی طمانیت قلب کا انتظام فرمایا۔
وَہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۶۰
اور وہی (تمہاری دعاؤں کو) سننے والا اور (تمہاری ضروریات کو) جاننے والا ہے۔
وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ
اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟
وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللہُ۰ۚ
اور چاند وسورج کوکس نے( تمہارے لئے) مسخر کیا ؟ تویہ ضرور کہیں گے، اللہ نے
(اللہ تعالیٰ کا خالق ارض وسمآء ہونا۔ شمس وقمر کوان کے لئے مسخر کرنا۔ ان منکرین کے نزدیک مسلمہ ہے)
فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۶۱
پھر یہ کدھر بہکے جارہے ہیں۔
اَللہُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَيَقْدِرُ لَہٗ۰ۭ
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے جس کوچاہتے ہیں رزق وافر عطا کرتے ہیں اور جس کے لئے چاہتے ہیں تنگ کردیتے ہیں۔(اس میں بھی حکمت ہوتی ہے)
اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۶۲
بے شک اللہ تعالیٰ ہرچیز سے واقف ہیں (جانتے ہیں کہ کس کو کس قدر رزق دینا چاہئے)
وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً
اور اگر آپؐ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے کون پانی برساتا ہے ؟
فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِہَا لَيَقُوْلُنَّ اللہُ۰ۭ
پھر اس پانی کے ذریعہ حالت مردنی میں پڑی ہوئی (خشک) زمین کو کون زندگی بخشتا ہے ؟ تووہ ضرور کہیں گے، اللہ
قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ۰ۭ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۶۳ۧ
کہئے ساری تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، بلکہ ان میں اکثر لوگ سمجھ سے کام نہیں لیتے۔
وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ۰ۭ
اوریہ دنیا کی زندگی کھیل تماشے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی (یعنی چند روزہ امتحانی زندگی ہے)
وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ۰ۘ
اور یقیناً آخرت کی زندگی ہی اصلی وحقیقی زندگی ہے۔
لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۶۴
کاش لوگ جانتے (دنیا وآخرت کی حقیقت سے واقف ہوتے)
فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۚ
جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں (اور کشتی طوفان وتلاطم میں گھرجاتی ہے تو) بڑے ہی اخلاص اورجذبۂ اطاعت گزاری کے ساتھ مدد کے لئے اللہ ہی کوپکارتے ہیں۔
فَلَمَّا نَجّٰىہُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا ہُمْ يُشْرِكُوْنَ۶۵ۙ
پھر جب ہم انہیں (اس مصیبت سے) نجات دیتے اور خشکی پر پہنچا دیتے ہیں تواسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں۔
لِـيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰہُمْ۰ۚۙ وَلِيَتَمَتَّعُوْا۰۪ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ۶۶
تا کہ ہم نے انہیں جو کچھ نعمتیں دی ہیں کفروناشکری کے ساتھ اس کا فائدہ اٹھاتے رہیں۔ عنقریب وہ جان لیں گے (کہ شرک کا ابدی انجام کتنا برا ہے)
اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ۰ۭ
کیا انہوں نے غور نہیں کیا ہم نے حرم (شہر مکہ) کوامن واحترام کا مقام بنایا۔ جب کہ اس کے قرب وجوار میں لوگ لٹتے پٹتے قید وقتل کئے جاتے تھے( انتہائی بدامنی پھیلی ہوئی تھی)
اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَۃِ اللہِ يَكْفُرُوْنَ۶۷
توکیا یہ لوگ معبودان باطل پرایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ؟
(اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں پرورش پاتے ہوئے اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کا احسان مانتے ہیں)
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا
اوراس سے بڑھ کرظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پرجھوٹی باتیں بنائے( بہتان باندھے)
اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَہٗ۰ۭ
یا جب حق بات اس کے پاس آئے تواس کوجھٹلائے۔
اَلَيْسَ فِيْ جَہَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِيْنَ۶۸
کیا کافروں کا ٹھکانہ جہنم نہیں ہے۔
وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۰ۭ
جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں(دین کی خاطر اہل باطل سے خطرات مول لیتے ہیں مزاحمت کے ایسے موقعوں پر ہم انہیں اپنی راہیں دکھاتے ہیں۔)
وَاِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِـنِيْنَ۶۹ۧ
بے شک اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے ساتھ ہیں۔
(یعنی ہر طرح ان کی مدد کرتے اور دین الٰہی پرثابت قدم رکھتے ہیں۔ تائید الٰہی ان کے شامل حال رہتی ہے)