بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
الۗمّۗصۗ۱ۚ
الف ۔ لام ۔ میم ۔ صاد(یہ حروفِ مقطعات ہیں۔ ان کے کوئی معنی صحیح اسناد کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے منقول نہیں ہیں)
كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْہُ
یہ ایک کتاب ہے جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے۔ (ائے محمدﷺ) آپ کے دل میں اس تعلق سے کسی قسم کی گر انی پیدا نہ ہونی چا ہیئے۔
لِتُنْذِرَ بِہٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ۲
(کتاب کے نزول کا مقصد یہ ہے) کہ آپ اسکے ذریعہ (لوگوں کو نقصانِ آخرت سے) ڈرا ئیں اور(اس میں) ایمان والوں کیلئے نصیحت ہے۔
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ
(ائے لوگو) جو کتاب تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے( علماًو عملاً) اس کی اِتباع کرو۔
وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭ
اور اس کے سوا کسی اور کی اتباع نہ کرو ۔
قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۳
تم بہت ہی کم نصیحت پذیر ہوتے ہو۔
توضیح :(اس حکم میں قرآن و سنّت دونوں کی اتباع داخل ہے۔صرف قرآن وحدیث ہی کی اِتبا ع فرض اور واجب ہے۔ اس کے علاوہ کسی کی اتباع فرض نہیں ہے)
وَكَمْ مِّنْ قَرْيَۃٍ اَہْلَكْنٰہَا
اور کتنی ہی بستیاں تھیں جنھیں ہم نے تباہ کردیا۔
فَجَاۗءَہَا بَاْسُـنَا بَيَاتًا اَوْ ہُمْ قَاۗىِٕلُوْنَ۴
تو اُن بستوں پر ہما را عذاب( اچانک) رات کے وقت آیا۔ یا(دن کوجب وہ اپنے گھروں میں)وہ جب قیلو لہ(آرام) کررہے تھے۔
فَمَا كَانَ دَعْوٰىہُمْ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُـنَآ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اِنَّا كُنَّا ظٰلِـمِيْنَ۵
جب ان پر ہما را عذاب آیا تو انھوں نے اس کے سوا اور کچھ نہ کہا کہ واقعی ہم ہی ظالم تھے۔
فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْہِمْ
پھر جن لوگوں کی طرف پیغمبر بھیجے گئے تھے ہم ان سے ضرور پو چھیں گے(یعنی ان کا جواب لیں گے۔)
وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ۶ۙ
اور ہم رسولوں سے بھی پو چھیں گے کہ( تم نے کس حدتک اپنے فرائض رسالت کی تکمیل کی۔)
فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْہِمْ بِعِلْمٍ وَّمَا كُنَّا غَاۗىِٕبِيْنَ۷
پھر ہم (اپنے ذاتی) علم کی بناء پر ان کے حالاتِ( زندگی) بیان کردیں گے کہ ہم بے خبر نہ تھے۔
وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۰ۚ
اس دن (لوگوں کے ) اعمال کا وزن کیا جانا حق ہے۔
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۸
لہٰذا جس کا نامۂ اعمال ( میزان میں) وزنی ہو گا۔ پس وہی کامیاب وبامُراد ہوں گے(انھیں کی نجات ہوگی۔)
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَ۹
اور جس کا پلّہ ہلکاہوگا ، ایسے ہی لوگ اپنا نقصان اٹھا نے والے ہوں گے۔ اس سبب سے کہ وہ ہما رے احکام خاطر میں نہ لاتےتھے۔
وَلَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِي الْاَرْضِ
اور ہم نے تم کو زمین پر بسایا۔
وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْہَا مَعَايِشَ۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۱۰ۧ
اور اس میں تمہارے لیے زندگی کا سامان مہیّاکیا لیکن تم بہت ہی کم شکر گزار ہو(کم ہی ہیں جو اطاعت کرتے ہیں)
وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ
اور ہم ہی نے تم کو پیدا کیا پھر ہم ہی نے تمہاری صورت بنائی۔
ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ۰ۤۖ
پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم (علیہ السلام ) کو سجدہ کریں۔
فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۰ۭ لَمْ يَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ۱۱
تو ابلیس کے سوا سبھوں نے سجدہ کیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔
قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ۰ۭ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ میرے حکم کے باوجود کس چیزنے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا ۔
قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْہُ۰ۚ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِيْنٍ۱۲
ابلیس نے کہا میں اُس سے( آدم سے) بہتر ہوں۔ کیونکہ آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اُس کو مٹی سے بنایا ۔
قَالَ فَاہْبِطْ مِنْہَا
(اس گستاخانہ جواب پر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ تو (آسمان سے )نیچے اُتر جا۔
فَمَا يَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِيْہَا
تجھے کوئی حق نہیں کہ یہا ں رہ کر تکبر کرے ۔ اپنی بڑائی جتائے۔
فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِيْنَ۱۳
پس تو یہاں سے نکل جا۔ بے شک توذلیلوں میں سے ایک ذلیل ہے۔
توضیح :امرِ حق کو حقیر جاننا اور تسلیم نہ کرنا تکبّرہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ہر نا فرمان، سرکش بد زبان تکبر وغرور کرنے والا اہلِ نار سے ہے۔(بخاری ومسلم)
قَالَ اَنْظِرْنِيْٓ اِلٰي يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۱۴
(شیطان نے) کہا مجھے اُٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک مہلت دیجئے۔ (یعنی میں جتنی بھی شرراتیں کر سکوں گرفت نہ کی جائے)
قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ۱۵
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تجھے مہلت دی گئی(جتنی شرراتیں چا ہے کرلے)
قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ
شیطان نے کہا جس طرح آپ نے میری گمرا ہی کاسامان کیا۔
لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ۱۶ۙ
میں بھی ان (کو گمراہ کرنے) کے لئے آپ (اللہ تعالی)کےسیدھے راستے پر بیٹھا رہوںگا۔
ثُمَّ لَاٰتِيَنَّہُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَيْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِہِمْ۰ۭ
پھر میں ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور اُن کی داہنی جانب سے اور اُن کی بائیں جا نب سے یعنی جس طرح بھی بن پڑے گا چاروں طرف سے آتا رہوں گا ۔ (انھیں بہکا نے میں کوئی دقیقہ ا ٹھا نہ رکھوں گا)
وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَہُمْ شٰكِرِيْنَ۱۷
اور (اللہ تعالیٰ) آپ اُن میں سے اکثر کو( اطاعت گزارو) احسان مند نہ پائو گے۔
قَالَ اخْرُجْ مِنْہَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا۰ۭ
(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا۔ تو یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل۔
لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ لَاَمْلَــــَٔـنَّ جَہَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ۱۸
ان میں سے جو تیرا کہنا مانے گا میں ضروران سب سے جہنّم کو بھر دوں گا۔
وَيٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّۃَ
اور(اللہ تعالیٰ نے فرمایا) ائے آدم تم اور تمہاری بیوی جنّت میں رہو۔
فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِـئْتُمَا
پھر دونوں(جنّت میں ) جہاں سے چا ہو کھا ئو(پیو)
وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِـمِيْنَ۱۹
مگر (اتنی بات یاد رکھو) اس درخت کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ ایسا کرو گے تو ظالمین میں شامل ہو جائو گے۔
فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَہُمَا
پھر شیطان نے ان کے دلوں میں وسو سہ ڈالا تاکہ اُن پر ظا ہر کردے
مَا وٗرِيَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا
اُن کے وہ پوشیدہ اعضاء جو ایک دوسرے سے چھپا ئے گئے تھے۔
وَقَالَ مَا نَہٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ
اور (شیطان نے ان سے) کہا تمہا رے رب نے اس درخت کے نہ کھانے سے محض اس لیے منع کیا ہے
اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ۲۰
کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ ہو جا ئو یا ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہوجائو۔
وَقَاسَمَہُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ۲۱ۙ
اور قسم کھا کرا نھیں با ور کرا یا کہ میں تمہارے خیر خواہوں میں سے ہوں۔
فَدَلّٰىہُمَا بِغُرُوْرٍ۰ۚ
غرض۔ انھیں دھوکہ سے معصیت کی طرف لے آیا(اعلیٰ مقام سے اسفل) زمین پر اتارے گئے۔
فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا
پھر جب ان دونوں نے اس درخت کو چکّھا تو ان کے پوشیدہ اعضاء ایک دوسرے پر کھل گئے (اس درخت کی یہ تا ثیر تھی یا مما نعت کی وجہ ایسا ہوا)
وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ۰ۭ
اور وہ دونوں اپنے ستر بہشت کے(درختوں کے) پتّوں سے ڈھانکنے لگے۔
وَنَادٰىہُمَا رَبُّہُمَآ اَلَمْ اَنْہَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَۃِ
اور ان کے رب نے انھیں پکارا ۔ کیا میں نے تم کو اس درخت(کے پاس جانے) سےمنع نہ کیا تھا۔
وَاَقُلْ لَّكُمَآ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۲۲
اور تمہیں جتا نہ دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا ۰۫
دونوں نے کہا ائے ہما رے پروردگار ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔
وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۲۳
اور اگر آپ نے ہمیں بخش نہ دیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو یقیناً ہم بڑے ہی خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔
قَالَ اہْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۰ۚ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم سب (بہشت سے) نیچے زمین پر اتر جائو تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔
وَلَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰي حِيْنٍ۲۴
اور تمہارے لیے زمین پرایک مقرر ہ مدّت تک) رہنا سہنا ہے۔ اور ایک مقررہ مدت تک اس سے فائدہ اُٹھانا ہے۔
قَالَ فِيْہَا تَحْيَوْنَ وَفِيْہَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْہَا تُخْرَجُوْنَ۲۵ۧ
اور فرمایا تم کو اسی زمین میں زندگی بسر کرنی ہے۔ اور اسی میں مرنا ہے۔ اور اسی میں سے نکالے جائو گے یعنی زندہ کرکے اُٹھائے جاوگے۔
توضیح : روزِ ازل ہی سے تجربہ کر ایا گیا کہ شیطان بنی آدم کادشمن ہے۔ وہ اُنھیں جنّت سے محروم رکھنے کے لیے ہر بُرائی کو بھلائی کی شکل میں پیش کرتا رہے گا۔
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ
ائے بنی آدم ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا۔
لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۰ۭ
جو تمہارے ستر(قابل ِ شرم حصوں ) کو چھپا تا ہے۔(جاڑے اور گرمی سے جسم کو بچاتا ہے)باعث زینت بھی ہے۔
وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۰ۭ
اور پر ہیز گاری کالباس اس سے بہتر ہے(ایمان اور اس کے ثمرات)
ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۲۶
یہ (آدم اور ابلیس کا واقعہ) اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ اس واقعہ سے نصیحت حاصل کریں(اور اپنے ازلی دشمن شیطان کے شرسے ہو شیار اور اس کی چالوں سے باخبر رہیں)
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَـمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ
ائے اولادِ آدم ؑ کہیں شیطان تم کو اپنی شرارتوں کا تختۂ مشق نہ بنا دے۔
توضیح : جیسا کہ تمہارے والدین(آدم وحوا) کو دھوکا دے کر جنّت سے باہر کروایا۔
يَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِيُرِيَہُمَا سَوْاٰتِہِمَا۰ۭ
ان سے ان کالباس بھی اُتر وادیا تاکہ ان کے مخصوص اعضا انھیں دکھا دے۔
اِنَّہٗ يَرٰىكُمْ ہُوَوَقَبِيْلُہٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَہُمْ۰ۭ
یقیناً وہ اور اس کا قبیلہ(ایک لشکر کا لشکر) تم کو اس طرح دیکھتا ہے کہ تم ان کودیکھ نہیں سکتے۔
توضیح :مطلب یہ ہے کہ شیطان تمہارا چھپا ہوا دشمن ہے۔ ایسے دشمن سے بہت زیادہ ہو شیار رہنے کی ضرورت ہے۔
اِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ۲۷
ان لوگوں کے لیے جو (باطل عقائد میں مبتلا ء ہیں) الٰہی تعلیم کو قبول کرنا نہیں چاہتے ہم شیا طین کو ان کا دوست بنا دیتے ہیں ۔
(جیسا کہ ارشاد اِلٰہی ہے۔ وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَہٗ شَيْطٰنًا فَہُوَلَہٗ قَرِيْنٌ۳۶(الزخرف)
ترجمہ : اور جو کوئی اللہ رحمٰن کی یاد سے آنکھیں بند کرلے ہم اُس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی ہو جاتا ہے
وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْہَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللہُ اَمَرَنَا بِہَا۰ۭ
اور جب یہ لوگ بے حیا ئی کاکام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پر پا یا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ہم کو ایسا ہی حکم دیا ہے۔
توضیح : یہاں پر فاحشہ سے مُراد ننگے ہوکر طواف کرنا ہے جیسا کہ جہلائے عرب میں دستور تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم اس طرح کرتے ہیں جیسے ہما ری مائوں نے ہم کو جنا ۔ یہ بات شیطان کے وسوسے سے انھوں نے ایجاد کی تھی(ابن کثیر)
قُلْ اِنَّ اللہَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ۰ۭ
کہئے۔ اللہ تعالیٰ بے حیائی کے کا موں کا حکم نہیں دیتے۔
اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۲۸
کیا تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جس کو تم نہیں جانتے۔
قُلْ اَمَرَ رَبِّيْ بِالْقِسْطِ۰ۣ
پیغمبر(ﷺ) کہئیے میرے رب نے (تہذیب و شائستگی)عدل وانصاف کا حکم دیا ہے۔
وَاَقِيْمُوْا وُجُوْہَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ
اور ہر عبادت کے موقع پر جذ بۂ اطا عت گزاری کے ساتھ اپنا رُخ سیدھا رکھو
وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۭ
اور شرک کی آمیز ش کے بغیر (ہر چھوٹی بڑی حاجت و مصیبت میں مدد کے لیے) اُسی(اللہ تعالیٰ ) کو پکارو( عبادت اُسی کے لیے مختص ہے)
كَـمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ۲۹ۭ
تم کو اللہ تعالیٰ نےابتداًء جس طرح(جسم کے ساتھ) پیدا کیا تھا اسی طرح دوسری باربھی(جسم کے ساتھ) پیدا کیے جائو گے۔
فَرِيْقًا ہَدٰي وَفَرِيْقًا حَقَّ عَلَيْہِمُ الضَّلٰلَۃُ۰ۭ
بعض کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمرا ہی ثابت ہوئی۔
اِنَّہُمُ اتَّخَذُوا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ اللہِ
انھوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا حامی و مشیر بنا لیا۔
وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۳۰
وہ سمجھتے رہے کہ وہ ہدایت پر ہیں۔
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ
اے اولادِ آدم عبادت کے ہر موقع پر لباس سے آراستہ رہو۔
توضیح : جا ہلیت کے دور میں لوگ بر ہنہ یا نیم برہنہ حالت میں کعبۃ اللہ کا طواف کر نا ضروری سمجھتے ۔تھے ان کا عقیدہ تھا کہ عبادت کے وقت دنیا جو ایک ناپاک مقام ہے اس کاکم سے کم سا مان جسم پر رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا۔
وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۰ۚ
اور کھا ئو پیو۔ مگر کھا نے پینے کی چیزوں کو ضائع نہ کرو۔ یہ اسراف ہے۔
اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۳۱ۧ
یقیناً اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔
توضیح : عمو ماً مشرکین کسی دُور مقام اِستھا نوں پر جاتے تو کھا نے پینے کا جو سامان بچ جاتا اس کو گھر لانا معیوب سمجھتے۔ جانوروں کو کھلا دیتے یا تالاب ونہروں میں ڈال دیتے ان کا دیکھا دیکھی مسلمان بھی حج کے موسم میں ایسا ہی کرتے جس سےمنع کیا گیا۔