☰ Surah
☰ Parah

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰ؗۖ

ائے لوگو جوچیزیں زمین میں موجود ہیں ان میں سے حلا ل و پاک چیزیں کھا ئو۔

وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ
اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۱۶۸

اور تم شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو۔
وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

توضیح : غیر اللہ کی ربوبیت کے باطل عقیدہ میں مبتلا کرنا شیطان کا ایک اہم کام ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حلال چیز کو حرام کرلینا بھی امرِ شیطانی ہے۔وہ ایسے عقائد کی تعلیم دیتا ہے جس کے جو از میں کوئی دلیل علمی نہیں۔

اِنَّمَا يَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْۗءِ وَالْفَحْشَاۗءِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا

یقیناً وہ تم کو برائی و بے حیائی کے کاموں پر اکسا تا ہے۔
اور یہ (بات بھی دل میں ڈالتا ہے) کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی باتیں

تَعْلَمُوْنَ۝۱۶۹
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ

قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ
اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۝۱۷۰

گھڑا کرو جس کی تم سند نہیں رکھتے۔
اورجب ان (مشرکین) سے کہا جا تا ہے کہ جو کتاب اللہ تعالیٰ نے نا زل کی ہے، اس کے مطابق عمل پیرا ہوجائو(تو ضد وہٹ دھرمی کی وجہ اتباعِ حق سے گریز کرتے ہیں)
(جواب میں) کہتے ہیں کہ ( نہیں) ہم تو اسی طریقہ پر چلیں گے جس طریقہ پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔
اگر چہ کہ ان کے باپ دادا( دین کی) کچھ سمجھ بوجھ ہی نہ رکھتے ہوں اور نہ(کسی آسمانی کتاب کی) ہدایت رکھتے ہوں۔ (پھر بھی یہ انھیں کی اتباع کرتے ہیں اقوامِ عالم کا یہی کچھ حال ہے۔) حالانکہ الٰہی ونبوی تعلیم کے خلاف جو آبا ئی روایات خاندانی طور و طریق ورسو مات ہیں سب قابلِ ترک ہیں ۔

وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً۝۰ۭ

اور جو لوگ کا فرہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایسی چیز(ایسے جانور) کو آواز دے جو پکار نے کی آواز کے سوا کچھ نہ سنے۔

صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۝۱۷۱

(یہ کفّار دین کے معاملہ میں گو یا) بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہیں سکتے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ

ائے لوگو جو ایمان لائے حلال و پاکیزہ چیزیں کھائو جو ہم نے تم کو عطا کی ہیں۔ (رزقِ طیب محض اللہ تعالیٰ کی شان ِربوبیت سے مل رہا ہے۔ نہ وہ کسی کے واسطے وسیلے سے ہے اور نہ زورِ با زو سےہے)

وَاشْكُرُوْا لِلہِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَ۝۱۷۲

اور اللہ تعالیٰ ہی کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کے عبادت گزار بندے ہو(یعنی اگر تم بندۂ حق ہو تو ر سماً وروا یتاًحرمت و حلّت کے جو تصورات کام کررہے ہیں انھیں ترک کردو۔ اصل شکر گزاری یہ ہے کہ جو رزق تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہا ہے۔وہ محض اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت سے مل رہا ہے۔

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ
وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ۝۰

یقیناً تم پراس نے مرا ہوا جا نور اور(بہتا ہوا) خون اور سوّر کا گوشت حرام کیاہے۔
اور وہ تمام چیزیں جو غیر اللہ کے لیے نا مزد کی گئی ہوں ۔

تشریح: جو جانور غیر اللہ کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ اس پر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا ئے یا غیر اللہ کا ۔ حرمت کے لحاظ سے برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے وہ حلال نہ ہوگا۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کیا ہو تو وہ اسلام سے خارج ہو گیا اور وہ جانور ایسا ہو گا جیسا مر تد کا ذبح کیا ہوا۔
غیر اللہ کی خوشنو دی کے لیے نذر۔ نیاز۔ منت وغیرہ سب حرام ہے۔ اگر چہ کہ وہ ملا ئکہ انبیاء علیہم السلام صالحین امت اور دیگر بزرگانِ دین ہی کیوں نہ ہوں ان کے نام پر جانور ذبح کر نا یا مساکین و غیرہ کو کھلا نا لغیر اللہ کے حکم میں داخل ہے ۔

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۭ

(یہاں ایک استثنیٰ ہے کہ) جوکوئی بھوک سے بہت زیادہ بے قرار ہوجائے بہ شر طیکہ اس کی نیت نا فر ما نی اور مزہ حاصل کرنے کی نہ ہو تو

اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۷۳

(شدتِ اضطراب میں) مذکورہ حرام چیزیں بقدرِ قوتِ لا یموت کھالے تاکہ جان بچ جا ئے۔ اس پر کچھ گناہ نہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فر ما نے والے ہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ الْكِتٰبِ

وَيَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝۰ۙ

اُولٰۗىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِہِمْ اِلَّا النَّارَ
وَلَا يُكَلِّمُہُمُ اللہُ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَلَا يُزَكِّيْہِمْ۝۰ۚۖ

جو لوگ کتاب سے(حر متِ اشیاء کے) ان مذ کورہ احکام کو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فر ما ئے ہیں، چھپا تے ہیں (اور اس کے حلال ہو نے کا فتوی دیتے ہیں۔)
اور ان کے بدلے تھو ڑی سی قیمت (یعنی دنیا وی منفعت) حاصل کرتے ہیں۔
وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر تے ہیں۔

اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُن سے بات نہیں کریں گے۔ اور نہ ان کو (گنا ہوں کی آلا ئشوں سے) پاک کریں گے(یعنی تزکیۂ نفس کے لیے

وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۷۴

وہ کتنے ہی طریقے ایجاد کریں ان سے ان کا تزکیہ نہ ہوگا)
اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰى
وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ۝۰ۚ
فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَي النَّارِ۝۱۷۵

یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمرا ہی خریدلی۔

اور بخشش و مغفرت کے بدلے عذاب ۔
پھر وہ آتش جہنّم کے لیے کیسے با ہمت ہیں( یہ ایک محا ورہ ہے)

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَـقِّ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ نے کتاب کو سچائی کے ساتھ نازل فرمایا۔
(ان کے باطل عقائد کی تردید کردی اور ان کے تقدس اور پار سائی کا پر دہ چاک کردیا)

وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِي الْكِتٰبِ لَفِيْ شِقَاقٍؚبَعِيْدٍ۝۱۷۶ۧ

اور جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا ( کتمانِ حق ۔تحریف ونزع پیدا کی) وہ آپسی مخالفت میں پڑ گئے جس نے ان کو (راہ) حق سے دور کر دیا(یہو دو نصا رٰ ی مراد ہیں)

لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ
وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۝۰ۚ
وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى

نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف کرلو۔

بلکہ اصلی نیکی یہ ہے کہ جو کوئی(الٰہی و نبوی تعلیم کے مطابق) اللہ تعالیٰ پر اور آخرت پر

اور فرشتوں اور اللہ تعالیٰ کی کتاب اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان لائے
اور اپنا مال اللہ تعالیٰ کی خوشنو دی کے لیے قریبی رشتہ داروں کو دے (نمود و شہرت اور کسی قسم کی غر ض مقصود نہ ہو)

وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ
وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ۝۰ۚ

اور یتیموں اور مسکینوں اور مسا فروں کو دے۔
اور سا ئل(مانگنے والوں) کو دے اور گر دن چھڑا نے میں خرچ کرے۔

وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ۝۰ۚ

(یعنی غلاموں کو غلامی سے آزاد کرا نے میں خرچ کرے)
اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔

توضیح : نماز اصلاحِ اعمال کا ذریعہ ہے۔ اگر نماز وں سے اعمال کی اصلاح نہیںہورہی ہے۔ اور ایمان و عقائد میں خرابی ہے۔ ایمان و عقیدہ کی اصلاح کتاب و سنّت سے ہو تی ہے۔ الٰہی و نبوی تعلیم سے صرفِ نظر و بے نیازی ہو تو اس کالازمی نتیجہ بے راہ روی ہے۔ محض عمل سے عقائد درست نہیں ہو تے جہل علم سے دور ہو تا ہے اور علم کتاب اللہ میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے احکام نبیٔ محترم ﷺ کی اتباع میں بجا لا نا ہی دین ہے۔ طبع زاد آبا ئی طریقوں سے من ما نی اللہ تعالیٰ کی عبادت کر نا نیکی نہیں ہے اور ایمان بالآخرت کی خرابی یعنی دنیا کو دین پر تر جیح دینا آخرت سے غفلت برتنا ہے۔ انجام آخرت کا انحصار بزر گوں کی سعی وسفارش پر کر نا اور اس امانی و خوش، فہمی میں مبتلا ر ہنا کہ نجات بہر حال ہوجا ئے گی، فریب نفس اور شیطانی دھو کا ہے۔

وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۝۰

اور جب عہد کریں تو اپنے عہد و پیمان( قول و قرار) کو پورا کر نے والے ہوں۔

وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ۝۰ۭ
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۝۰ۭ
وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۝۱۷۷

اور سختی و تکلیف( تنگد ستی و بیماری) میں صبر کر نے والے اور میدانِ کارزار میں ثابت قدم رہنے والے
یہی وہ لوگ ہیں جو ( اپنے ادعا ئے ایمان میں) سچے ہیں۔
اور یہی لوگ متقی ہیں( یعنی احکامِ الٰہی کی خلاف ور زی کے انجامِ بد سے ڈرنے والے اور احکام ِ الٰہی کی سر فروشا نہ تعمیل کر نے والے ہیں۔ یہاں متقی کی تعریف متعین ہو تی ہے)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي۝۰ۭ

اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بِالْاُنْـثٰى۝۰ۭ
فَمَنْ عُفِيَ لَہٗ مِنْ اَخِيْہِ شَيْءٌ

ائے ایمان والو(عمداً قتل کیے جا نے والوں کے بارے میں) تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص کا حکم دیا جاتا ہے۔
(یعنی خون کا بدلہ خون سے لیا جا سکتا ہے )
آزا دشخص کے بدلے آزاداور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت(قتل کیے جائیں)
ہاں جس کو اس کے فریق کی طرف سے کچھ معافی ہو جا ئے (یعنی پوری معافی نہ ہو)

فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْہِ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۭ
ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَـۃٌ۝۰ۭ

فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۷۸

تو(اس صورت میں) بہ طریق احسن( خوں بہا) کا مطالبہ کرنا اور خوش خوئی کے ساتھ( خو ں بہا) ادا کر نا چاہئے۔
یہ(قا نو نِ دیت و عفو) سزامیں تخفیف(کمی) تمہارے پر ور دگار کی طرف سے( ایک شا ہا نہ ر عایت و) مہر با نی ہے۔
اس کے بعد جو کوئی زیادتی کرے گا تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے(یعنی مقتول کے ور ثا معا فی سےپھر جا ئیں یاقتل خوں بہا نہ دے)

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۷۹

اور قصاص کے حکم میں تمہاری زندگی( حیات ِاجتماعی کے تحفظ کا سامان) ہے۔ ائے سمجھ بوجھ سے کام لینے والو( تمہیں یہ احکام اس لیے دیئے گئے ہیں کہ) تم (خوں ریزی سے) بچو۔

كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا۝۰ۚۖ

الْوَصِيَّۃُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ

(اور یہ بھی مقصد ہے کہ خون خرابہ کا انسداد ہو) تم پر (یہ وصیت) فرض کیا جاتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے۔ اگر ترکہ میں کچھ مال چھوڑ جا نے والا ہو۔ تو
ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کر جائے۔

حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ۝۱۸۰ۭ

متّقین پر(والدین و قریبی رشتہ داروں کا) یہ حق ہے۔

توضیح : وصیت کے مسئلہ میں آئمہ فقہا میں اختلاف ہے کہ وصیت کرے اور نہ کرے۔ اس اختلاف کو نزا عی نہیں بنانا چاہیئے بلکہ اس میں راحج اور مر جوح کا فرق ہے۔

فَمَنْۢ بَدَّلَہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ
فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَي الَّذِيْنَ يُبَدِّلُوْنَہٗ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۱۸۱ۭ

لہٰذا جو کوئی وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے۔
تو اس کہ بدلنے کا گناہ انھیں لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ سننے والے ہیں(یعنی ہر عمل سے باخبر رہتے ہیں)

فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْاِثْمًـا

لہٰذاجو کو ئی وصیت کرنے والے کی طرف سے (کسی وارث کی) طرف داری یا حق تلفی کا اندیشہ رکھے۔
(یعنی عمداً ظلم کا ارتکاب کرے۔ کسی کو حق سے محروم کردے)

فَاَصْلَحَ بَيْنَہُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۸۲ۧ

تو (وصیت کو بدل کر) ورثاء میں صلح کرادے تو اس پر کو ئی گناہ نہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فر ما نے والے ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ

ائے لوگو جو ایمان لا ئے ہو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کی اُمتوں پر فرض کیے گئے تھے۔

 

تا کہ تم پر ہیزگار بنو۔

تشریح : روزہ میں کھا نے پینے کے اوقات بدلے گئے ہیں۔ طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک کھا نے پینے کے بجائے غروبِ آفتاب سے صبح صادق تک کھا نے پینے کی اجازت ہے۔اس طرح جائز خواہشات کو بھی قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ اور تزکیہ ہے۔ روزے کی بدولت انسان میں رفتہ رفتہ پر ہیز گاری پیدا ہو تی ہے۔نیز مومن مردِ مجا ہد ہو تا ہے اور مجا ہد کیلئےضروری ہے کہ کھا نے پینے کے اوقات کا ایسا پا بند نہ رہے کہ اس کی مجا ہدا نہ مساعی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو۔

اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۝۰ۭ
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ
فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ

(یہ روزے) گنتی کے چنددن ہیں(اس میں بھی استثنیٰ یہ ہے کہ)
لہٰذا تم میں جو شخص بیمار ہو یا سفر کی حالت ہو تو
دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کرے( یعنی قضا ء روزے رکھے)

وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَہٗ فِدْيَۃٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ۝۰ۭ

اور ان لوگوں پر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں روزے کے بدلے مسکین و محتاج کو کھا نا کھلائے۔

توضیح :سفر یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو فو راً فدیہ دے دے ۔ اگر چہ قضاء روزہ رکھنے کی نیت ہو۔

فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ۝۰ۭ

لہٰذا جو کوئی خو شد لی کے ساتھ نیک کام کرے وہ اسی کیلئےبہترہے۔

توضیح :صحت یاب ہونے یا سفر سے واپسی پر روزہ رکھ لے تو یہ شکل تطوع کی ہے۔

وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۴

اور اگر تم روزے رکھ لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ اگر تم سمجھو۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ۚ

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نا زل کیا گیا۔

ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰

جس میں لوگوں کے لیےہدایتیں ہیں اور ہدایتیں نہا یت ہی واضح ہیں اور (قرآن) حق و باطل کو الگ الگ کر نے والا ہے( صحیح اور غلط کو پرکھنے کا معیار ہے)

توضیح : قرآن کا بنیادی وصف ھُدًى لِّلنَّاسِ ۔ فر قان۔ بتیان ہے ۔یعنی قرآنِ مجید میں ہدایتِ عامّہ کا سامان ہے۔ اس کی تعلیم فہم عامّہ کے مطابق ہے۔ جس کے ذریعہ حق و باطل میں پوری پوری تمیز کی جا سکتی ہے۔
تزکیہ و تطہیر کا ہر حکم و ہدایت واضح اور صاف صاف ہے۔ کوئی پیچیدگی یا مشکل نہیں ہے۔

فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ
وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ
يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۝۰ۡ
وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّۃَ
وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ
وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۸۵

لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کے روزے رکھے۔
اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں اس کی قضاء کرے۔
(یہ سہولت اس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ تعالیٰ تم پر آسانیاں چا ہتے ہیں اور تم پر سختی کر نا نہیں چاہتے۔
اور (یہ آسان حکم اس لیے دیا گیاہے) تا کہ تم ایک ماہ کی مدّت پوری کرسکو۔
اور اس احسان کے بدلے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو (قرآن کے ذریعہ) ہدایتیں بخشیں(اور عذر کی صورت میں قضاء کر نے کی سہولت عطا فرمائی) اور تا کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر کرو ۔

توضیح : روزوں کی تکمیل پر عید کے دن اللہ تعالیٰ کی کبر یا ئی حمدوثنا کرنے اورشکر بجالانے کا جومسنون طریقہ ہے وہ اسی حکم کی عملی شکل ہے جس میں تکبیر بھی ہے اوردعائیں بھی۔

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ

اور جب میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (آپ کہہ دیجئے) میں قریب ہی ہوں۔

توضیح :قریب ہونے کا علم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہر حاجت و ضرورت میں ہر وقت اپنے ربِّ اعلیٰ و عظیم ہی کو پکار یں۔

اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ

جب کو ئی پکار نے والا مجھے پکار تا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔

فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶

لہٰذا نھیں چا ہئے کہ میرے احکام کو مانیں( تعلیماتِ الٰہی کو قبول کریں) اور مجھ ہی پر اعتماد ویقین رکھیں تا کہ وہ راہِ راست پاسکیں۔

توضیح :احکامِ الٰہی کو قبول کر نے کے بعد تعمیل احکام میں کوئی تکلیف پہنچے یا عدم قبولیت دعا پر انقباض پیدا ہو جا ئے تو ہرصورت کو اپنے لیے مفید سمجھے کیونکہ اللہ کی ہر تجویز حکیما نہ ہے لہٰذا اعتماد علی اللہ کے بغیر کوئی راہِ رشد حا صل نہیں کر سکتا ۔

اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَۃَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ۝۰ۭ

 

ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۝۰ۭ

(رمضان کے) روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی بیویوں سے مقاربت جا ئز کر دی گئی ہے۔
(اس سے قبل دوسری قوموں کی طرح تم بھی رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں سے الگ رکھے جا تے تھے)
وہ تمہا رے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے (یعنی وہ تمہارے لیے حرام کاری سے بچنے کا ذریعہ ہیں اور تم ان کے لیے)

توضیح : زن و شوہر کا تعلق جسم و لباس کا سا ہے جس طرح لباس سے جسم کو راحت ملتی ہے اسی طرح زن و شو کا قرب بھی ایک دوسرے کی تسکین وراحت اور حرام کاری سے بچنے کا ذریعہ ہے۔

عَلِمَ اللہُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ

فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ۝۰ۚ

اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ تم اپنے نفس کے حق میں خیانت کے مرتکب ہوا کرتے تھے(یعنی اجازت سے قبل رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے خواہش نفس کی تکمیل کیا کر تے تھے ۔)
(ندامت و معذرت پر) اللہ تعالیٰ نے تم پر مہر بانی کی اور تم سے درگزر فرما یا(یعنی تمہاری اس حرکت کو معاف کر دیا)

فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللہُ لَكُمْ۝۰۠

اب تم (رمضان کی راتوں میں) اس سے مباشرت کر سکتے ہو اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہارے لیے مقرر کیا ہے اس کا سامان کرو۔
(یعنی مطلب یہ کہ یہی مقا ربت تمہارے لیے صاحبِ اولاد ہو نے کا ذریعہ ہے)

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ
لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۝۰۠

اور کھا ئو اور پیو یہاں تک کہ تم پر صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے نمودار ہو نے لگے ۔

ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ۝۰ۚ

وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ۝۰ۙ فِي الْمَسٰجِدِ۝۰ۭ

تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۝۰ۭ

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۝۱۸۷

پھر( سپیدئی سحر نمو دار ہو نے کے بعد سے) غروبِ آفتاب تک روزہ پورا کرو۔
اور جب تم مسجدوں میں معتکف رہو تو بیویوں سے مبا شرت نہ کرو۔( اس سے ظاہر ہے کہ کسی خاص ضرورت سے گھر جاسکتے ہیں۔ مثلاً حاجت ِ ضروری وغیرہ، لیکن اعتکاف کی حالت میں بی بیوں کے ساتھ صحبت وبوس و کنار سب حرام ہے)
یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حدود ہیں۔
(یعنی اللہ تعالیٰ کی منع اور حرام کی ہوئی چیزیں ہیں)ان کے قریب بھی جانے کا خیال دل میں نہ آنا چا ہیئے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے اپنے احکام صاف صاف بیان فر ما تے ہیں تا کہ وہ پر ہیزگار بنیں( ایسی منع کی ہوئی چیزوں سے بچیں دینی احکام تزکیہ و تطہیر کے لیے ہیں اس لیے روزے میں تقوے کی نیت ضروری ہے)

وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ

اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھا ئو۔
اور نہ اس کو ( رشوت کے ذریعہ ے) حُکّام کے پاس پہنچا ئو۔
تاکہ( نا جائز اور غیر منصفا نہ طریقہ سے فیصلہ کرائو اور) لوگوں کے مال کا کچھ حصہ نا حق کھا جائو ۔

بِالْاِثْمِ
وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۸ۧ

(اس آیت سے رشوت وظلم و زیادتی کی حر مت ثابت ہو تی ہے)
اور تم جانتے ہو کہ (یہ سب کا م حرام ہیں)

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ۝۰ۭ

قُلْ ہِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۝۰ۭ

ائے نبی(ﷺ) لوگ آپ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں (کہ یہ بڑھتا اور گھٹتا کیوں ہے)
کہیئے کہ وہ لوگوں کیلئے دن تاریخ اور اوقاتِ حج معلوم کر نے کا ذریعہ ہے۔

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِھَا

اور نیکی اس بات میں نہیں ہے کہ ( احرام کی حالت میں)تم اپنے گھروں میں اس کی پچھلی دیوار سے پھا ند کر آئو۔

توضیح : جب لوگ حج کے لیے گھر سے نکل جاتے اور پھر کسی ضرورت سے گھر واپس آنا پڑ تاتو وہ گھر کے دروازے سے داخل ہو نے کے بجا ئے گھر کی پچھلی دیوار پھا ند کر آنے کو نیکی سمجھتے تھے۔ یہ ان کے اپنے من گھڑت طریقہ تھے۔اور افترائی باتیں تھیں۔ ان میں نیکی کا تصور ہی غلط تھا۔

وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى۝۰ۚ

اصل نیکی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نا راضی سے بچے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے اوامر ونوا ہی پر عمل پیرا ہو نا ہی بہت بڑی نیکی ہے۔ جس معاملے میں اللہ رسول کا کوئی حکم نہ ہواس کو اپنی طرف سے ایجاد کرنا اور نیکی سمجھنا بڑی غلطی ہے۔

وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا۝۰۠

وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۸۹

اور گھر واپس ہو نا پڑے تو( سیدھے سا دے طریقہ پر) گھر کے دروازے سے آیا کرو۔
اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تے رہو۔ تا کہ تم فلاحِ آخرت پا سکو۔
(جتنا خوفِ الٰہی دل میں ہوگا اتنا ہی اللہ رسول کے احکام کا پابند ہوگا)

توضیح :اس آیت سے بدعت کا امتناع ثابت ہوتا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی کام نیکی سمجھ کر اختیار کر نا نیکی نہیں ہے نیکی دراصل اللہ تعالیٰ سے ڈر نے اور احکامِ الٰہی کی خلاف ور زی سے بچنے کا نام ہے۔ احکامِ الٰہی کی تعلیم ہی سے ہم کو معلوم ہوسکے گا کہ ہم میں کتنا خوف اور کتنی اطاعت ہے۔

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ

اور تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑتے رہو جو تم سے لڑ تے ہیں۔( اور عہد شکنی کر تے ہیں)
اور تم حد سے نہ نکلو یعنی زیاد تی نہ کرو۔( معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل بھی زیاد تی کی تعریف میں آتی ہے)

اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝۱۹۰

اللہ تعالیٰ زیادتی کر نے والوں کو پسند نہیں فر ما تے۔

وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ
وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ
اَخْرَجُوْكُمْ

اور (جب قتال شروع ہو جا ئے تو) ان کافروں کو جہاں پائو قتل کرو۔
اور جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے(یعنی مکہ سے) وہاں سے تم بھی انکو نکال دو(یعنی انکو اتنا مارو کہ (مکہ سے ) بھاگ جا نے پر مجبور ہوجائیں)

وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۝۰ۚ

اور(دین سے گمراہ کر نے کا) فتنہ قتل وخوں ریز ی سے کہیں بڑھ کرہے۔

توضیح :قتل اگر چہ کہ کوئی اچھی چیز نہیںہے کہ اس میں انسانوں کی خوں ریزی ہے مگر شہر مکہ میں دینِ اسلام کے خلاف کفّار مشرکینِ مکہ کی سر گر میاں دینِ اسلام کو مٹا نے کی کوشش قتل سے بھی زیادہ انسانوں کے لیے مو جبِ بر بادی تھی، اس لیے اس فتنۂ عظیم سے بچنے کے لیے ان کا قتل مستحسن قرار دیا گیا ۔ کفّار مکّہ کے لیے دو ہی صوتیں تھیں یا تو وہ مسلمان ہو جا ئیں یا انھیں قتل کر دیا جا ئے۔ ان سے جز یہ قبول نہ کیا جا ئے گا۔

وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْہِ۝۰ۚ
فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ۝۰ۭ كَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ۝۱۹۱

اور جب تک وہ تم سے مسجد محترم( خا نۂ کعبہ کے پاس) لڑنے کی ابتدا نہ کریں تم بھی وہاں ان سے نہ لڑو۔
پھر اگر وہ (اپنے کفر سے ) باز آجائیں (اسلام قبول کرلیں) تو کفار (وہاں) تم سے لڑنے کی ابتدا کریں تو تم انھیں قتل کرو۔ کافروں کی یہی سزا ہے۔

فَاِنِ انْــتَہَوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۹۲

پھر اگر وہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فر ما نے والے ہیں (انھیں معاف کردیں گے)

وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ۝۰ۭ
فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۹۳

اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو کہ کفر مغلوب ہو جا ئے اور دین خالص اللہ ہی کا ہو جائے ۔
پھر اگر وہ کفر سے با ز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیاد تی نہ کر نی چاہیئے۔

توضیح : اسلام میں قتل کی اجازت اس لیے ہے کہ فتنہ یعنی غلبۂ کفر ختم ہو جا ئے۔

اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ

احترام کے مہینہ کا بدل احترام ہی کا مہینہ ہے۔

وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ۝۰ۭ

اور ادب واحترام کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں۔

توضیح : ادب واحترام کے بھی مہینے ہیں۔ ان کا احترام اسی وقت تک ہے۔ جب تک کہ دوسرا فریق بھی ان کا احترام کرے۔ کفار ان مہینوں کا احترام نہ کریںتو مسلمان بھی ان مہینوں میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں۔

فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ۝۰۠
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ۝۱۹۴

لہٰذا (ادب واحترام کے مہینوں میں ) جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پرویسی ہی زیادتی کرو۔ جیسی کہ اس نے تم پر کی ہے۔
تم پر جو ہتھیارا ٹھائے تم بھی اس پر ہتھیار چلا ئو دوسروں پر ہتھیار نہ اٹھائو۔
اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تے رہو( اللہ تعالیٰ کی نا فر ما نی کے انجامِ بد کو مستحضر رکھو) اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہیں (ان کی ہر طرح مدد کرتے ہیں)

توضیح : بار بار وَاتَّقُوا اللہَ کی تاکید سے ظاہر ہے کہ خوفِ الٰہی ایمان کا ایک لازمی جزوہے۔ دراصل ایمان میں اقرار اطاعت ہے اور خوفِ الٰہی سے اطاعت کا سر فر و شا نہ جذ بہ پیدا ہو تا ہے۔ اس لیے بعض مفکرین نے اطاعت کے نہ ہونے پر ایمان کی نفی کا حکم لگا یا ہے اور یہی بات قرآنی تعلیم و تفہیم کے بہت قریب و مطابق ہے۔اطاعت میں نقص دراصل ایمان ہی کا نقص ہے ۔

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ۝۰ۚۖۛ
وَاَحْسِنُوْا۝۰ۚۛ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ ۝۱۹۵

اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان نہ کرو(جہاد فی سبیل اللہ میں بخل سے کام نہ لو۔)
اور نیکی کرو( جہا دو انفاق فی سبیل اللہ کیے جائو)
یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے ہی نیکو کاروں کو پسند فرماتے ہیں:

وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ کی خوشنو دی کے لیے حج و عمرہ کو پورا کرو۔ (اس طرح تکمیل کیے بغیر واپس نہ آئو)

فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْيِ۝۰ۚ

وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى يَبْلُغَ

پھر اگر تم راہ میں روک لیے جائو یا کسی مصیبت میں گھر جائو تو قربانی کے جانور جو بھی میسّر ہوں(اونٹ گائے بکری) مقامِ مذبح( ذبح ہو نے کی جگہ) پر بھجوادو۔
اور اپنے سروں کو نہ منڈ ھوا ئوجب تک کہ قربانی کے جانور اپنی جگہ پہنچ نہ

الْہَدْيُ مَحِلَّہٗ۝۰ۭ

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًى مِّنْ رَّاْسِہٖ

جائیں( حالتِ احرام ہی میں رہو)حالتِ احرام میں بال نکلوا نے کی
ممانعت ہے۔
لہٰذا تم میں سے کوئی بیمار ہو جائے یا اس کے سرمیں کسی قسم کی تکلیف ہو (اور حالتِ احرام میں سر منڈ ھوا ئے تو)

فَفِدْيَۃٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُكٍ۝۰ۚ

فَاِذَآ اَمِنْتُمْ۝۰۪ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْي

اس کے بدلے روزے رکھےیا صدقہ دے یا قربانی کرے
اس سلسلہ میں نبیٔ محترم ﷺ نے فر ما یا کہ تین دن کے روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھا نا کھلا ئے یا کم ازکم ایک بکری ذبح کی جا ئے
پھر جب تمہیں امن نصیب ہو جا ئے(اور تم حج کے لیے بہت پہلے مکہ پہنچ جائو) تو جو کوئی حج کے وقت تک عمرہ سے فائدہ اٹھا ئے یعنی حج و عمرہ کا ایک ہی احرام باندھے تو وہ قربانی کے جانور وں میں سے جو بھی قر بانی میسّر ہو کرے۔

توضیح : اگر احرام عمرہ اور حج کا الگ الگ ہو تو حاجی پر قر بانی ضروری نہیں، سوائے کفّارہ کے۔

فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَۃِ اَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ۝۰ۭ

تِلْكَ عَشَرَۃٌ كَامِلَۃٌ۝۰ۭ
ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۱۹۶ۧ

پھر جس کسی کو قر بانی نہ ملے( یا قربانی کی استطا عت نہ ہو)تو اسی وقت (دورانِ حج) تین روزے رکھے اور سات (روزے) جب تم اپنے گھر(وطن) واپس آجا ئو ( تو رکھو)
(اس طرح) یہ پو رے دس ہوئے۔
یہ دس روزے ایک ساتھ نہ رکھنے کی اجازت اُن کے لیے ہے جن کے اہل و عیال مکّہ میں نہ رہتے ہوں۔
اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تے رہو( کہ شرائط حج یا کسی امر کی خلاف ورزی ہونے نہ پا ئے) اور خوب جان لو کہ (خلاف ورزی کی صورت میں) اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔

اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ۝۰ۚ
فَمَنْ فَرَضَ فِيْہِنَّ الْحَجَّ

حج کے مہینے مخصوص و معروف ہیں( شوال، ذیقعدہ اور عشرہ ٔ ذی الحجہ۔ محرم رجب) احترام
تو جو کوئی ان مہینوں میں فرا ئض حج کے لیےروانہ ہو جا ئے ۔

فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ۝۰ۙ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ۝۰ۭ

تو اس کو چا ہئیے کہ(زمانہ حج میں یعنی احرام کی حالت میں) اپنی عورتوں سے اختلاط نہ کرے کسی قسم کی فحش گفتگو یا کوئی گناہ اور کسی قسم کا جھگڑا نہ کرے۔
(عام اجتما عات میں ایسی ایسی ہی برا ئیاں کی جاتی ہیں جن سے منع کیا گیا ہے۔)

وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْہُ اللہُ۝۰ۭؔ

اور تم جو بھی نیک کام کرتے رہو گے اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں۔

وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى۝۰ۡ
وَاتَّقُوْنِ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ۝۱۹۷

اور سفر حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جا ئو اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے۔
اور ائے عقل والو(سمجھ بوجھ سے کام لینے والو) مجھ ہی ڈرتے رہو (میرے احکام کی خلاف ورزی نہ کرو)

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۭ

اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرتے جا ئو تو کوئی مضائقہ نہیں ۔

توضیح : حج کے ایام میں قبل اسلام کچھ اسباب ِ تجارت بھی ساتھ رکھ لیے جا تے تھے۔ اسلام کے بعد شبہ ہوا کہ شاید یہ گناہ ہو۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فر ما یا اپنے رب کی رضا کے لیے سفر حج کرتے ہوئے تلاشِ معاش میں تم پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ اگر یہ نیت ہو کہ تجارت کے نفع سے حج میں اعانت ہوگی تو اس کا بھی ثواب ملے گا۔

فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۝۰۠

پھر جب میدانِ عرفات سے واپس ہو نے لگو تو مشعر الحرام( مزدلفہ میں) اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو(یعنی نمازِ مغرب و عشاء ملا کر پڑھو)

وَاذْكُرُوْہُ كَـمَا ھَدٰىكُمْ۝۰ۚ

وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۝۱۹۸

اور اس کو ( اللہ تعالیٰ کو) اس طرح یاد کرو۔ جیسا کہ تم کو (نبیٔ محترم ﷺ) ہدایت دی۔
اور تم اس سے قبل(مناسکِ حج کے تعلق سے) کھلی گمراہی میں تھے (یعنی غلط طریقہ سے ادا کیا کر تے تھے)

توضیح : یہاں ذکر سے مراد نمازہے۔ پھر اس آیت میں ایک اجمالی حکم ہے جس کی عملی شکل متعین نہیں۔ اس کے بجائے حکم ہو رہا ہے کہ جس طرح تم کو ہدایت دی گئی ہے ظاہر ہےکہ یہ ہدایت دینے والے سوا ئے نبیؐ کے اور کون ہوسکتےہیں، اہلِ قرآن کی رد کے لیے یہ آیت کریمہ ایک علمی دلیل ہے۔

ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ

پھر جہاں سے اورلوگ واپس ہو تے ہوں وہیں سےتم بھی واپس ہواکرو۔

توضیح :حا جیوں کے لیے حکم ہے کہ بعد مغرب میدانِ عرفات سے نکل جا ئیں اور نمازِ مغرب و عشاء مقام مشعر الحرام میں ایک ساتھ پڑھیں۔ مشعر الحرام عرفات و منیٰ کے در میان ایک مقام ہے ۔

وَاسْتَغْفِرُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۹۹

اور اللہ تعالیٰ سے بخشش چا ہو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے اور رحم فرمانے والے ہیں۔

توضیح : توبہ واستغفار کے بعد اللہ تعالیٰ کی بخشش ورحمت متعلق ہو تی ہے۔

فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ

پھر جب تم منا سکِ حج سے فارغ ہو جا ئو۔

فَاذْكُرُوا اللہَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا۝۰ۭ

تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو جس طرح تم اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے ہو۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

توضیح : زمانہ ٔ جا ہلیت میں طریقہ تھا کہ جب منا سکِ حج سے فارغ ہو جا تےتو مقامِ منٰی میں ہر قبیلہ اپنے آباء واجداد کے خصوصی کار نامے بیان کرتا تا کہ لوگ اس سے متاثر ہوں اور قبائل کے شرف و بزرگی کا اعتراف کرلیں۔اب یہاں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت واکرام کو بیان کرو تاکہ سننے والوں کے قلوب میں خوفِ الٰہی و حُبّ الٰہی پیدا ہو۔

فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا
وَمَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ۝۲۰۰

لو گوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ائے ہما رے پر ور دگار ہمیں دنیا ہی میں (سب کچھ) دے دیجئے۔
اور ایسے شخص کو آ خرت میں کوئی حصہ نہ ملے گا۔ (کیونکہ یہ آخرت کا منکر ہے )

توضیح : حج سے فارغ ہونے کے بعد جہالت کے زمانے میں لوگ اللہ تعالیٰ سے صرف دنیا ہی کے فوائد مانگتے تھے اور دنیا ہی کے مصائب سے محفوظ رہنے کی دعا ئیں کرتے تھے۔ ایسے طالبانِ دنیا کیلئےسنتِ الٰہی یہ ہے کہ آخرت میں کوئی حصہ نہ پائیں۔

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً
وَّفِي الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝۲۰۱

اوران میں بعض ایسے بھی ہیں جن کی دعا یہ ہوتی ہے ’’ ائے ہمارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نعمت و عافیت عطا کیجئے۔
اور آخرت میں رحمت واحسان سے سر فرازی بخشئے اور ہم کو دوزخ کی آگ سے بچائے رکھیئے۔

اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ نَصِيْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا
وَاللہُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝۲۰۲

یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے نیک اعمال کا بھر پوبدل ملے گا۔
اور اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والے ہیں۔

وَاذْكُرُوا اللہَ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ۝۰ۭ

اور گنتی کے ان چنددنوں میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کرو۔
(یعنی مشعر الحرام سے واپسی پر مقامِ منٰی میں بقیہ منا سکِ حج کے لیے ٹھہر ے رہو۔)

فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۚ
وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۙ لِمَنِ اتَّقٰى۝۰ۭ

وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ۝۲۰۳

پھر جو شخص دو ہی دن میں(مکّہ واپس آنے میں) جلدی کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔

اور جو شخص تاخیر کرے(یعنی دو دن سے زیادہ منٰی میں ٹھہرار ہے( اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ (یہ رعایت( اس شخص کے لیے جو) احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کے انجام سے( ڈرتا ہو ۔(اصل چیز خوفِ الٰہی ہے)
اور اللہ تعالیٰ سےڈر تے رہو( یعنی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی سے بچتے رہو) اور اچھی طرح جان لو کہ تم) اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے( اس کی طرف جمع کیے جائو گے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُہٗ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا

اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جس کی گفتگو(دنیوی اعتبار سے) آپؐ کو بہت ہی بھلی لگتی ہے ۔

وَيُشْہِدُ اللہَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِہٖ۝۰ۙ

اور اپنی نیک نیتی پروہ بار بار اللہ تعالیٰ کوگواہ ٹھہراتا ہے۔
(یعنی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شاہد ہیں۔ مجھے حق وصداقت پسند ہے اس لیے میں مسلمانوں کا بڑا ہی ہمدرد وخیر خواہ ہوں۔ )

وَھُوَاَلَدُّ الْخِصَامِ۝۲۰۴

حالانکہ وہ بڑا ہی جھگڑالو اور آپؐ کا شدید مخالف ہے۔

توضیح :اخنس بن شریق نامی ایک بڑا ہی فصیح اللسان شخص تھا حضوراکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر قسمیں کھا کھا کر اپنا مسلمان ہونا بیان کرتا ۔ اس کی گفتگو محض دنیوی غرض سے ہوتی کہ اپنے اظہار اسلام سے مسلمانوں کی طرح قرب حاصل کرے۔ اس کی فصاحت وبلاغت آمیز باتیں آپؐ کوبھلی معلوم ہوتیں۔ اسی کا ذکر ہے۔

وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ

اورجب یہ (منافق) آپؐ کی مجلس سے پیٹھ پھیر کرچلا جاتا (یا حکمران

لِيُفْسِدَ فِيْہَا

ہوتا ہے( توشہر میں فتنہ وفساد مچاتا پھرتا ہے (لوگوں کی ایذارسانی میں لگ جاتا ہے)

وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۝۰ۭ
وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۝۲۰۵

اورکھیتی ونسل انسانی وحیوانی کی تباہی وبربادی کا باعث بنتا ہے۔
اوراللہ تعالیٰ فساد کوپسند نہیں فرماتے (دین حق کے خلاف جدوجہد فساد فی الارض ہے)

وَاِذَا قِيْلَ لَہُ اتَّقِ اللہَ

اورجب اس سے کہاجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو
(ان مفسدانہ اعمال سے باز آمخلوق خدا کی تباہی کا باعث نہ بن)

اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ

تو وہ گناہ کے ذریعہ عزت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
(یعنی غرور وقار اس کومزید گناہوں میں پھنسا دیتا ہے برائیوں پراور زیادہ جری ہوجاتا ہے اور اپنی مفسدانہ مغرورانہ روش ہی پرقائم رہتا ہے۔

فَحَسْـبُہٗ جَہَنَّمُ۝۰ۭ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ۝۲۰۶

پھر اس کے لئے جہنم کافی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

توضیح : جو لوگ اقتدار کے نشے میں مذہب کی پابندیوں سے بچنے کے لئے لامذہبیت کواپناتے ہیں، مذہب کوتنگ نظری قراردیتے ہیں۔ بے روک ٹوک شہوانی زندگی ہی ان کا مقصد حیات ہوتا ہے۔ ضبط تولید کے دل خوش کن الفاظ سے نسل انسانی کوتباہ کرنا ان کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ اپنے ان نظریات کی حمایت میں یک جہتی یگانگت ایک قومی نظریہ کے بے معنیٰ الفاظ گھڑکر فساد فی الارض کا باعث بنتے ہیں۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَہُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ۝۰ۭ

وَاللہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ۝۲۰۷

اورلوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کوراضی کرنے کے لئے اپنی جان تک قربان کردیتا ہو۔
(رضائے الٰہی کے لئے مفاد دنیا اورضرر دنیا کی پروا نہیں کرتا)
اوراللہ تعالیٰ اپنے بندوں پربڑے ہی مہربان ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠

ائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ

(یعنی مفادِ دنیا کی خاطر احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی نہ کرو۔ تمہارے طوروطریق معاملات ِزندگی سب کے سب اسلام کے تابع ہونے چاہئیں۔)

وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ

اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو یعنی شیطان کی اتباع نہ کرو ۔

(شیطان تمہارے سامنے مفاد دنیا رکھ کر احکام الٰہی کی خلاف ورزی پرتم کوآمادہ کرتا ہے)

اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۲۰۸

بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (اس سے ہر وقت باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔) (کافروں کوبھی شیطان کی طرح مسلمانوں کا کھلادشمن کہا گیا ہے)

فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْكُمُ الْبَيِّنٰتُ
فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۰۹

تمہارے پاس (اس طرح) واضح اورتاکیدی احکام آجانے کے بعد اگر تم لڑکھڑا جاؤ۔
توجان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکمت والے ہیں۔
(یعنی حکیمانہ تجاویز کی خلاف ورزی کے جو نتائج الحکیم نے مقرر کررکھے ہیں وہ اٹل ہیں یقیناً وہ واقع ہوکر رہیں گے)

ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَہُمُ اللہُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ
وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ۝۰ۭ
وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝۲۱۰ۧ

کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ اورفرشتے ان کے پاس بادلوں کے سایہ میں (قطعی فیصلے کے لئے)
آموجود ہوں اوران کا کام تمام کردیں۔
اورسارے معاملات( تصفیہ کے لئے )اللہ تعالیٰ ہی کے پاس پیش کئے جانے والے ہیں۔

توضیح : اگر دنیا میں فوری طورپر عذاب نہ آئے بھی توعذاب ِآخرت سے دو چار ہونا یقینی ہے۔ موت کے ساتھ ہی کسی نہ کسی مقرب ِالٰہی کی سفارش وکوشش سے بخش دیئے جانے کا عقیدہ بے بنیاد ہے۔ قیامت ہوگی اس دن حق تعالیٰ اپنے بندوں کے عقائد واعمال کامحاسبہ فرمائیں گے اور عقائد واعمال کے لحاظ سے جزا وسزا مل کررہے گی۔

سَلْ بَـنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ كَمْ اٰتَيْنٰھُمْ مِّنْ اٰيَۃٍؚبَيِّنَۃٍ۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ) پوچھئے کہ ہم نے ان کوکتنے واضح احکام دیئے تھے(مگر انہوں نے اس کی تعمیل نہیں کی اور ان میں ردوبدل کردیا اورواقعہ یہ ہے کہ)

وَمَنْ يُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُ فَاِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲۱۱

جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نعمت( نعمت ِدین )کوپالینے کے بعد اس میں (اپنی طرف سے) ردو بدل کردے تویقیناً اللہ تعالیٰ ایسے مجرمین کوسخت ترین سزادیتے ہیں۔

زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا
وَيَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۘ

کافروں کیلئے دنیا کی زندگی بڑی ہی دلکش وخوشنما بنادی گئی ہے۔
وہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جوایمان لاتے ہیں۔
(جیسے حضرت بلا لؓ وعمارؓوغیرہ کا)

توضیح :اہلِ باطل دنیا ہی کے طالب وحریص ہوتے ہیں۔ اہلِ حق جب ان دنیا پرستانہ رجحانات کے خلاف اہلِ کفر شرک کو آخرت کی طرف بلاتے ہیں، ان کے سامنے دین حق کوپیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ اس کے سوا جتنے ادیان ہیں باطل ہیں۔ یہ بات ان کے باطل نظریات پرضرب لگاتی ہے تو تلملا جاتے ہیں اور تو کچھ بن نہیں پڑتا اپنے احساس کمتری کو نبھانے اور دین اسلام کی کشش کودبانے ناواقف لوگوں کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں دولت واقتدار کے نشہ میں حقائق سے چشم پوشی کرتے اور حق پرستوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔

وَالَّذِيْنَ اتَّقَوْا فَوْقَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ

اور جو لوگ کفر وشرک سے بچتے ہیں قیامت کے دن ان کافروں پربرتری حاصل کریں گے۔

یعنی اعلی مدارج پرہوںگے اور اونچے اونچے مرصع تختوں پرشاہانہ اعزاز کے ساتھ بیٹھے ہوئے کافروں کے بارے میں پوچھیں گے ھَلْ ثُوِّبَ الْکُفَّارُ مَاکَانُوا یَفْعَلُوْن (سورۃ المطففین)کیا کافروں کوان کے کیے کا بدلہ مل گیا ؟

وَاللہُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝۲۱۲

اوراللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں بے حدوحساب رزق عطا کرتے ہیں۔
(یہاں نیک وبدمومن وکافر کی تخصیص نہیں)

كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۝۰ۣ

)ابتداء میں( سب لوگ ایک ہی مذہب پر تھے (یعنی سب ایک ہی دین کے پیروتھے۔(

توضیح : جوں جوں الٰہی ونبوی تعلیم کوفراموش کرتے گئے گمراہ ہوتے گئے۔ عقائد میں اختلاف پیدا ہوتا گیا مختلف گروہوں وفرقوں میں بٹ گئے۔ خود ساختہ ادیان میں بٹ کریہ عقیدہ پیدا کرلیا گیا کہ ہرطریقہ عبادت میں نجات ہے موجودہ اصطلاح وحدتِ ادیان اسی عقیدے کی پیداوار ہے یعنی سب مذاہب برحق ہیں۔ اسی طرح کے اختلافات دور کرنے کے لیے انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے گئے۔

فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۝۰۠

پس اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کوبھیجا جو (دین حق کے قبول کرنے والوں کو) مغفرت وجنت کی خوشخبری سناتے ہیں اور (منکرین حق کو) غضب الٰہی اورعذاب جہنم سے ڈراتے ہیں۔

توضیح : آخرت ہی کے نفع ونقصان کو سامنے رکھ کر دین کی طرف بلانا انبیائی طریقہ ہے۔

وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ

اور ان کے ساتھ کتابیں نازل کیں جومبنی پر حقائق تھیں۔
(جن میں خالص الٰہی تعلیم تھی)

لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا
اخْتَلَفُوْا فِيْہِ۝۰ۭ
وَمَا اخْتَلَفَ فِيْہِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْہُ

تاکہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے تھے ان میں فیصلہ کردے۔

اوراس میں اختلاف بھی انھیں لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی۔(یہودو نصاریٰ)

مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَہُمْ۝۰ۚ

فَہَدَى اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِہٖ۝۰ۭ

ان کے پاس صاف وصریح احکام آجانے کے بعد اپنی ضد وہٹ دھرمی سے (اوراپنی مذہبی پیشوائی وبرتری کوبرقرار رکھنے کے لیے دین حق سے) اختلاف کیا۔
تو وہ جس امر حق میں اختلاف کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اہل ایمان کوصحیح راہ دکھائی۔

توضیح :توضیح : جس امر حق میں پچھلے انبیاء کی امتیں یعنی اہل کتاب اختلاف کرتے تھے تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مومنین یعنی (حضراتِ صحابہ کرام) کوبہ واسطۂ نبی محترمﷺ صراط مستقیم دکھائی یعنی اختلاف کوسامنے رکھ کربتایا گیا کہ حق کیا ہے اورباطل کیا ہے۔ آیت کریمہ فَھَدَی اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا….. سے ثابت ہے کہ اختلاف اورگمراہی کے دورمیں جن حضرات کوہدایت دی گئی اورجنہیں سیدھی راہ دکھائی وہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔
اب جہالت اوراختلاف کے ہر دور میں یہ معلوم کرنے کیلئے کہ حق کیا ہے ؟ صحیح ایمان کیا ہے؟ راہِ عدل وصواب کیا ہے؟ سنت کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہی کے عقائد و روش کودیکھنا ہوگا۔ بالفاظ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حق کا نمونہ ہیں۔

وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۲۱۳

اوراللہ تعالیٰ جس کوچاہے ہیں سیدھی راہ دکھاتے ہیں۔

توضیح : جوطالب ہدایت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت کی توفیق بخشتے ہیں اور جوضلالت وگمراہی کوحق سمجھتا ہے، اس کو اسی حال میں چھوڑدیتے ہیں۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ

کیا تم خیال کرتے ہو کہ یوں ہی (بلامشقت) جنت میں داخل کیے جاؤگے۔

وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۝۰ۭ
مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا

تم سے پہلے ایمان لانے والوں پرجومصائب آئے تھے تم ابھی ان حالات سے نہیں گزرے۔
ان پر بڑی مصیبتیں آئیں اورمصائب کے ایسے سخت سے سخت دور آئے کہ انھیں بری طرح ہلا کر رکھ دیا۔

حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللہِ۝۰ۭ
اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِيْبٌ۝۲۱۴

یہاں تک کہ (اس زمانے کے) پیغمبر اور ان کے ساتھی اہل ایمان چِلا اٹھے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد (موعود) کب آئے گی۔
(اس وقت انھیں تسلی دی گئی) ہاں ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔

توضیح : اہل ایمان کوتاکید کی جاتی ہے کہ باطل کے ہنگاموں میں اہل کفر کے غلبے واقتدار کے دور میں حق کی آواز اٹھانے والوں پر بڑی بڑی مصیبتیں آتی رہتی ہیں۔ اہل باطل ان پرہر طرح کا ظلم ڈھاتے ہیں۔ تمہیں بھی ان مصائب سے سابقہ پڑے گا۔ اس امتحان کے دورسے گزرے بغیر تم نہ جنت کے مستحق ہوسکتے ہو اور نہ تائید ونصرت الٰہی تم سے متعلق ہوسکتی ہے۔ حق کی آواز لے کر اٹھنے سرفروشانہ بازی لگانے، جان پر کھیل جانے اورباطل سے ٹکرانے کا بدل جنت ہے۔
بے معرکہ کرتی ہے کیا جینے کی تلافی ائے پیرحرم تیری مناجاتِ سحر کیا (اقبالؔ)

يَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ

قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۭ
وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝۲۱۵

(ائے نبیﷺ) لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ (راہِ حق میں) کس طرح کا مال خرچ کرنا چاہئے ؟
کہئے جو مال تم خرچ کرنا چاہو، اس کے مستحق والدین ہیں اور قریبی رشتہ دار اور یتیم اورمحتاج اور مسافر ہیں۔

اور تم جو بھی بھلائی کروگے بے شک اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں۔ (کہ کس نیت سے خرچ کیے ہو؟)

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَكُرْہٌ لَّكُمْ
وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ۝۰ۚ

(اب) تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تم پہ گراں گزرے گا۔
اورہوسکتا ہے کہ تمہیں ایک چیز ناگوار ہواور وہی تمہارے لیے بہترہو۔

وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـيْـــــًٔـا وَّھُوَشَرٌّ لَّكُمْ
وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۝۲۱۶ۧ

اورہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے مضرہو۔
اوراللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے( کہ تمہارے لیے مفید کیا

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْہِ۝۰ۭ

ہے اور مضر کیا ہے اس لئے اپنی پسند کومعیار نہ بناؤ۔
لوگ آپؐ سے احترام کے مہینے (یعنی حج کے مہینوں میں)
جدال وقتال کی نسبت دریافت کرتے ہیں۔(کہ ان مہینوں میں لڑنا کیسا ہے)

قُلْ قِتَالٌ فِيْہِ كَبِيْرٌ۝۰ۭ
وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَكُفْرٌۢ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۤ

وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۚ
وَالْفِتْنَۃُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۝۰ۭ

کہئے۔ ان مہینوں میں لڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکنا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد الحرام) خانۂ کعبۃ اللہ )میں جانے سے لوگوں کوروکنا، مانع ومزاحم ہونا (یہ سب عظیم گناہ ہیں۔(
اوروہاں کے رہنے والوں کووہاں سے نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قتال سے بھی بڑا سنگین جرم ہے۔
اورفتنہ انگیزی قتل وخون سے بھی بڑھ کر ہے۔

توضیح : اس طرح کے فتنوں کو مٹانے کیلئے حدود حرم میں بھی قتال کی اجازت ہے جب کہ اہل فتن شرارت پر تلے ہوں۔

وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا۝۰ۭ
وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ
فَيَمُتْ وَھُوَكَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ
وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۱۷

اوریہ (اہل کفر اہل باطل) تم سے اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک کہ وہ تم کو دین سے نہ پھیردیں۔ اگر ان کا بس چلے۔

اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے نہ پھرجائے (یعنی پھر کافر ہوجائے)
پھر وہ کفر ہی کی حالت میں مرے توایسے لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت میں ضائع ہوجائیں گے۔

 

اور ایسے لوگ جہنمی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

توضیح :آیات ۲۱۶ اور ۲۱۷ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی نظامِ تہذیب ، نظامِ تعلیم، نظم ونسق، نظام عدل وانصاف کو بدل دینا اہل باطل کے خلاف جدوجہد ترک کردینا انکے زیرسایہ چین واطمینان کی زندگی بسر کرنے پرقانع ہوجانا ارتداد ہی کی شکل ہے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ
ھَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ

(بخلاف اس کے) جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں نے الٰہی تعلیم قبول کرلی) اورجنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں گھر بار چھوڑا یعنی ہجرت

اللہِ۝۰ۙ

اُولٰۗىِٕكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۲۱۸

کی (دین حق کی بقا واشاعت کے لیے گھر سے بے گھر ہوئے) اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جان ومال سے) جدو جہد کی۔
ایسے ہی لوگ رحمت ِالٰہی کے امیدوار ہیں (ان سے دانستہ یا نادانستہ کوئی گناہ ہو بھی جائے تو) اللہ تعالیٰ بڑے ہی معاف کرنے والے اورنہایت رحم کرنے والے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کی نظرمیں ہجرت وجہاد وہ خوبی ہے کہ تمام نقائص کو دور کردیتی ہے اور بندے کوہر خوبی سے آراستہ کردیتی ہے اور ہجرت وجہاد سے گریز وہ خامی ہے جسے کوئی نیکی پُر نہیں کرسکتی۔
نوٹ: جاہل انسان کے مشاغل تفریحی اوران کے ذرائع معاش میں دو چیزیں نمایاں رہتی ہیں ایک شراب دوسرے جوا۔ چنانچہ اہلِ عرب کے یہی خصوصی مشاغل تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺ سے اس کے بارے میں سوال کیا۔

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ۝۰ۭ

قُلْ فِيْہِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۝۰ۡ
وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ) لوگ شراب اورجوے کے بارے میں آپ سے دریافت کرتے ہیں۔
کہئے ان دونوں چیزوں میں بڑی مضرتیں ہیں اگر چہ کہ لوگوں کے لیے (ان میں کچھ دنیاوی) فائدے بھی ہیں۔
مگر ان کی مضرت ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔

توضیح :ابتداء صرف کراہیت پیدا کی گئی تا کہ ذہن ان کی حرمت قبول کرنے تیار ہوجائے۔

وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۝۰ۭ

اورآپؐ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔ کہئے۔ جو ضرورت سے زیادہ ہو (یعنی حقیقی ضروریات زندگی سے جو بچ رہے وہ خرچ کیا جاسکتا ہے۔)

كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ۝۲۱۹ۙ فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۭ 

اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے وضاحت کے ساتھ اپنے احکام بیان فرماتے ہیں تا کہ تم دنیا وآخرت کے معاملے میں غور وفکر سے کام لو۔

توضیح : دنیا کے امور اس طرح انجام دو کہ آخرت کا نقصان نہ ہو اور آخرت کے بارے میں اتنا غلو نہ کروکہ دنیا کے فرائض اور واجبات چھوٹ جائیں۔

وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي۝۰ۭ

قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ۝۰ۭ

اور لوگ آپؐ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ ان سے کس طرح کا معاملہ کیا جانا چاہئے۔)
کہئے ان کی اصلاح (ان کی تعلیم وتربیت) میں (تمہارے لئے) خیر ہی خیر ہے۔

توضیح : جہالت کے دنوں میں انسان اپنے بے سہارا لوگوں اوریتیم بچوں سے بے اعتنائی برتتا تھا، شرافت وانسانیت کی تعلیم پانے کے بعد ان کے متعلق بھی سوال کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ چنانچہ اس سوال کے جواب میں مذکورہ حکم دیا گیا۔

وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ۝۰ۭ

 

وَاللہُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ۝۰ۭ

وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَاَعْنَتَكُمْ۝۰ۭ

اور اگر تم ان سے مل جل کر رہنا چاہو تو(ایسا کرسکتے ہو)
بہر حال وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔
(تم کواختیار ہے کہ کھانے پینے میں انکو اپنے سے علیحدہ رکھو، یا مل جل کر کھاؤ)
اور اللہ تعالیٰ مفسد اورمصلح کو خوب جانتے ہیں۔
( کہ کون بد نیتی سے کام لیتا ہے اور کون یتیموں کا خیر خواہ ہے)
اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو تم مشکل میں پڑجاتے۔

توضیح : یتیموں کوعلیحدہ رکھنے کے بارے میں تم کوحکم دیا جاتا تو یہ حکم تم پرشاق گزرتا۔

اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۲۰

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکیم ہیں (یعنی تجاویز الٰہی بہت حکیمانہ ہوتی ہیں)

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۝۰ۭ

(اصلاح معاشرے کے لیے اہل ایمان کوحکم دیا گیا ہے) تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ (یعنی اپنے عقائد کی اصلاح نہ کرلیں۔)

وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۝۰ۚ

مسلمان باندی مشرک (شریف زادیوں سے کہیں)سے زیادہ بہتر ہے۔ اگر چہ کہ وہ تمہیں (حسن ودولت کے اعتبار سے) کتنی ہی بھلی کیوں نہ معلوم ہوتی ہوں۔

وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا۝۰ۭ
وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ۝۰ۭ
اُولٰۗىِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ۝۰ۚۖ

اور (اسی طرح) مشرکانہ عقیدہ رکھنے والے مردوں سے مومنہ عورتوں کا نکاح نہ کرو۔ جب تک کہ وہ صحیح معنوں میں ایمان نہ لے آئیں۔
اور مومن غلام بہتر ہے مشرک مال دار سے اگر چہ کہ مشرک (کئی لحاظ سے) تمہیں اچھا ہی کیوں نہ معلوم ہوتا ہو یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں۔

توضیح : وہ اپنی طرح تم کوبھی اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور آگ کی طرف بلاتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کوشریک حیات بنانے سے منع کیا گیا ہے۔

وَاللہُ يَدْعُوْٓا اِلَى الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِـاِذْنِہٖ۝۰ۚ
وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَــتَذَكَّرُوْنَ۝۲۲۱ۧ

اوراللہ تعالیٰ (مشرکین سے نکاح نہ کرنے کی تجویز فرماکر) اپنی مہربانی سے جنت ومغفرت کی طرف بلاتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ اپنے احکام لوگوں کی ہدایت کے لیے نہایت ہی وضاحت کے ساتھ بیان فرماتے ہیں تا کہ وہ نصیحت پذیر ہوں (اور الٰہی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کریں)

توضیح : اللہ تعالیٰ کی دعوت اصلاح اورتعلیم کا تمام تر مقصد یہ ہے کہ تمام انسان مغفرت جنت ودرجاتِ جنت کے مستحق بنیں۔

وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ۝۰ۭ قُلْ ھُوَاَذًى۝۰ۙ

اورلوگ آپؐ سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہئے وہ ایک گندگی کی حالت ہے۔
(کہ زمانہ حیض میں عورتوں کے ساتھ کس طرح رہنا چاہئیے)

فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْضِ۝۰ۙ

لہٰذا زمانہ حیض میں ان سے الگ رہو۔

وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَطْہُرْنَ۝۰ۚ

اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت (مباشرت )نہ کرو۔

فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللہُ۝۰ۭ

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِيْنَ۝۲۲۲

پھر جب وہ پاک ہوجائیں توحکم الٰہی کے مطابق ان سے مقاربت کرو(یعنی وضع فطری کے مطابق جوانسان وحیوان کی جبلت (فطرت) ہیں ودیعت کردیا گیا ہے جس سے ہرمتنفس با لطبع واقف ہے۔)
بے شک اللہ تعالیٰ(گناہوں سے) توبہ کرنے والوں کوپسند فرماتے ہیں اور پاک وصاف رہنے والوں کودوست رکھتےہیں۔

توضیح:۔ اتفاقا ًبے احتیاطی میں کسی نے اس حالت میں قربت کی ہو توواقف ہونے پر توبہ کرلے۔

نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ۝۰۠ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ۝۰ۡ

تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں (تمہیں اختیار ہے) اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ۔
(یعنی کھیتی میں جس طرح چاہو تخم ریزی کرو۔ مگر مقصد تخم ریزی ہی ہو)

توضیح : عورت ومرد کے درمیان کھیت اورکسان کا سا تعلق ہے کسان کا مقصد پیداوار حاصل کرنا ہوتا ہے ایسے کسان کو کیا کہیں گے جو اپنی کھیتی کو اپنے ہی ہاتھوں تلف کردے۔ شایداس سے بڑھ کر بے وقوفی نہیں ہوسکتی۔ آج ضبط تولید کے نام سے یہی کچھ ہورہا ہے۔ بے دین کوآخرت کی سوجھ بوجھ (عقل) نہیں ہوتی۔ اگر چہ کہ وہ ستاروں کی گزرگاہوں کا پتہ چلانے والا ہی کیوں نہ ہو۔ ابدی عیش وسکھ کی جگہ چھوڑکر ابدی دکھ جہنم کی سوز وتپش والی زندگی بے دین کے سوا کون چاہتا ہے۔

وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ

اور اپنے لئے (نیک عمل ) آگے بھیجو(اور اپنے مستقبل کی فکرکرو۔ یعنی اپنی ذات کے لیے جوبھی نیک کام کرنا ہے، اپنی زندگی میں کرلو یعنی آخرت کے لیے)

توضیح : اپنی نسل کواپنی جگہ برقرار رکھنا اور اس کو دیندار بنانے کی کوشش بھی اسی میں داخل ہے۔

وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْہُ۝۰ۭ

اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو(یعنی اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بچتے رہو) اور اچھی طرح جان لو کہ تم سب اس سے ملنے والے ہو (یعنی تم سب کو ایک دن محاسبہ اعمال کے لیے اسی کے روبروحاضر ہونا ہے۔)

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۲۲۳

اور(ائے نبیﷺ) ایمان والوں کوخوشخبری سنادیجئے۔
(کہ جنت ودرجاتِ جنت آخرت کی سعادت انھیں کے لئے ہے)
(مغفرت وجنت مشروط بہ طاعت الٰہی ہے)

وَلَا تَجْعَلُوا اللہَ عُرْضَۃً لِّاَيْمَانِكُمْ

اَنْ تَبَرُّوْا وَتَـتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۭ

اور تم اللہ تعالیٰ کواپنی قسموں کے ذریعہ نیک کاموں کوترک کرنے کا حیلہ نہ بناؤ۔(یعنی اچھے کاموں کوچھوڑدینے کے لیے اللہ تعالیٰ کی قسمیں نہ کھایا کرو)
کہ احسان کرنے سے اور پرہیزگاری سے اور لوگوں میں صلح کرانے سے رک جاؤ۔

وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۲۴

)یہ قسم کہ تم کسی پر احسان نہ کروگے اور پرہیزگاری نہ اختیار کروگے۔ اورلوگوں کے درمیان صلح وآشتی بھی نہ کرواؤگے۔(
اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتے اور جانتے ہیں۔

توضیح :بعض وقت انسان غصہ میں کوئی نیک کام نہ کرنے کی قسم کھاتا ہے اس سے منع کیا گیا ہے۔ ایسی قسم توڑدینی چاہئے اورکفارہ دینا چاہئے۔

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ

اللہ تعالیٰ تمہاری بیہودہ قسموں پر مواخذہ نہیں فرماتے (یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہی توہے)

توضیح : لغو اور بیہودہ قسم وہ ہے جو بے مقصد بے ارادہ تکیۂ کلام کے طورپر زبان سے نکل جائے۔ جیسے بعض لوگ واللہ باللہ وغیرہ کہتے رہتے ہیں۔

وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ۝۰ۭ
وَاللہُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝۲۲۵
لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ۝۰ۚ

لیکن تم پر گرفت (ان قسموں پر) ہوگی جو قلبی ارادے کے ساتھ کھائی جائے (کسب کا تعلق میلان سے ہے)
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے ہیں، حلیم ہیں۔تحمل کرنے والے ہیں۔
ان لوگوں کے لیے جواپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھالیں تو ان کو چارمہینوں تک انتظار کرنا چاہئے۔

توضیح : چار ماہ سے زیادہ بیوی سے علیحدہ نہ رہنا چاہئے۔ یا تواس اثناء میں ازدواجی تعلقات درست کرلیے جائیں یا بدرجہ مجبوری منقطع بھی کیے جاسکتے ہیں۔

فَاِنْ فَاۗءُوْ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۲۲۶

پھر اگر (قسم توڑکرچار ماہ کے اندر )رجوع کرلیں تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں۔ مہربانی فرمانے والے ہیں۔

عفوودرگزراللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضہ ہے۔ ترکِ تعلقات کے درمیان جوزیادتی دونوں نے ایک دوسرے پر کی ہے، معاف ودرگزرفرمائیں گے لیکن قسم توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا۔

وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۲۷

اگر طلاق کا ارادہ کرلیں تو(چار ماہ کے بعد طلاق ہوجائے گی) چنانچہ اللہ تعالیٰ سننے والے اورجاننے والے ہیں (لہٰذا جو بھی کام کروسوچ سمجھ کر کرو۔ کہ پرسش اعمال ضرور ہے)

وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْۗءٍ۝۰ۭ
وَلَا يَحِلُّ لَہُنَّ اَنْ يَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللہُ فِيْٓ اَرْحَامِہِنَّ
اِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ

اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کوروکے رکھیں(یعنی اس مدت میں نکاح ثانی نہ کریں)
اور انھیں جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان کے پیٹ میں پیدا کیا ہے اس کوچھپائے رکھیں۔
اگر وہ اللہ تعالیٰ اورآخرت پرایمان رکھتی ہوں۔

توضیح : اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ ورسول کے احکامات کی خلاف ورزی دراصل ایمان باللہ اورایمان بالآخرت میں نقص کی علامت ہے۔

وَبُعُوْلَــتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِيْ ذٰلِكَ

اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا۝۰ۭ
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰۠
وَلِلرِّجَالِ عَلَيْہِنَّ دَرَجَۃٌ۝۰ۭ

اوران کے شوہر(ایک یا دو طلاق کے بعد)اندرون مدت پھر انھیں اپنی زوجیت میں لینے کے حق دار ہیں۔
اگر انھیں آپس کے تعلقات کی اصلاح مقصود ہو۔
اوران عورتوں کا حق مردوں پر ایسا ہی ہے جیسا معروف طریقے پر مردوں کا حق عورتوں پر ہے۔
اورمرد کو عورتوں پرایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔

(اس لحاظ سے کہ مرد اپنے اختیار سے علیحدہ ہوسکتا ہے اور عورت قاضی سے اجازت لیے بغیر علیحدہ نہیں ہوسکتی۔)

وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۲۸ۧ

اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکمت والے ہیں۔
(یعنی یہ کہ یہ ایک حکیم کا حکیمانہ حکم ہے)

توضیح : مرد کو یہ جو درجہ دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک حکیمانہ تجویز ہے جس میں چوں چرا کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ الحکیم ہیں اور ساری مخلوق غیر حکیم۔ غیر حکیم کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ تجاویز پر اعتراض کرے۔

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۝۰۠

طلاق صرف دوبار ہے۔

توضیح : جو شخص اپنی منکوحہ کودومرتبہ طلاق دے کر اس کو رجوع کیا ہو، وہ اپنی عمر بھر میں جب کبھی تیسری بار طلاق دے گا تو وہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائے گی۔

فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۭ

لہٰذا (دوطلاقوں کے بعد) یا توبیوی کومعروف طریقے پر اپنی زوجیت میں رکھے یا بہتر یا احسن طریقے سے (اذیت رسانی کے بغیر) علیحدہ کردے۔

وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا
اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ۝۰ۭ

اور (بوقت علیحدگی) تمہارے لیے قطعاً حلال نہیں ہے کہ تم عورتوں کو جو کچھ مال واسباب دے چکے ہو، وہ ان سے واپس لو۔
سوائے اس کے کہ زن وشوکو یہ اندیشہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے (یعنی مفروضہ احکام کی پابندی نہ کرسکیں گے)

فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ۝۰ۙ
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِہٖ۝۰ۭ

لہٰذا اگر تم کو اندیشہ غالب ہو کہ حدود اللہ کی پابندی نہ کرسکوگے۔
توان دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ عورت شوہر کوکچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرے۔(اس کو شریعت میں خلع کہتے ہیں لیکن مرد کے دل میں قطعی ایسا خیال نہ پیدا ہونا چاہئے کہ اس کی بیوی کچھ دے کر علیحدگی حاصل کرے بلکہ اس کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ وہ خود مہر دے کر معروف طریقے پرعلیحدگی اختیار کرے گا)

تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا۝۰ۚ

یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حدود ہیں۔ خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا۔

وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۲۹

اور جو کوئی حدود اللہ سے باہر نکل جائے ایسے ہی لوگ ظالم ہیں (یعنی اپنا آپ نقصان کرتے ہیں)

توضیح : احکام الٰہی کی خلاف ورزی بھی ظلم ہے اورایمان کی خرابی کی علامت ہے۔

فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَہٗ۝۰ۭ

فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ
اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ۝۰ۭ
وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝۲۳۰

پھر اگر شوہر دو طلاقوں کے بعد اس کو تیسری طلاق دے دے تواس کے بعد جب تک کہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس کے پہلے شوہر پرحلال نہ ہوگی۔
ہاں اگر دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے تواب (یہ عورت شرعی اصطلاح میں حلالہ کہلاتی ہے) یہ عورت اورپہلا شوہر پھرایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں توان پر کچھ گناہ نہیں۔
بہ شرطیکہ طرفین کویقین ہو کہ حدود اللہ کی حفاظت کرسکیں گے۔
اور یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ سمجھ داروں کے لیے بیان فرماتے ہیں۔ (سمجھ دار وہ ہیں جو حدود الٰہی کوتوڑے کا انجام جانتے ہیں)

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ
فَاَمْسِكُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ
اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ۝۰۠
وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا۝۰ۚ
وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۝۰ۭ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اللہِ ھُزُوًا۝۰ۡ

اور جب تم عورتوں کودو دفعہ طلاق دے چکو پھر وہ اپنی عدت پوری کرچکیں (تودوگواہوں کے سامنے رجوع کروایا )۔
توانھیں حسن سلوک کے ساتھ نکاح میں رہنے دو۔
یا پھر انھیں معروف طریقے پر (کچھ دے دلا کر) رخصت کردو۔
اورنہ اس نیت سے انھیں نکاح میں روک رکھو کہ انھیں تکلیف دو اوران پر زیادتی کرو۔
اورجو کوئی ایسا کرے گا وہ اپنا نقصان آپ کرے گا۔
اور احکامات الٰہی کومذاق نہ بناؤ(یعنی ناقدری نہ کرو)

توضیح : کوئی شخص اپنی بیوی کوطلاق دے اور عدت گزرنے سے پہلے محض اس لیے رجوع کرے کہ پھر ستانے دکھ دینے کا موقع ہاتھ لگے اس طرح کا عمل احکام الٰہی کو خاطر میں نہ لانے اور بے وقعت سمجھنے کے مصداق ہے جس سے احتیاط ضروری ہے۔

وَّاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَۃِ يَعِظُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۲۳۱ۧ
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ
فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ
اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ
ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِہٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ

اوراللہ تعالیٰ نے تم کو جونعمتیں بخشی ہیں انھیں مستحضر رکھو۔
اور تم پر جو کتاب اوردانائی کی تعلیم نازل کی ہے جس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے(اس کے مطابق عمل پیرا رہو)
اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ اورجان لو کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز سے واقف ہیں۔
اور جب تم اپنی عورتوں کوطلاق دے چکو پھر وہ اپنی مدت پوری کرلیں۔
پھر (اپنی پسند کے مردوں یا بعد حلالہ) سابقہ شوہروں سے نکاح کرنا چاہیں توانھیں نہ روکو۔
جب کہ وہ معروف طریقے پرآپس میں رضا مند ہوجائیں۔
اس طرح اس شخص کونصیحت کی جاتی ہے تم میں سے ایمان باللہ اور ایمان

يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ
ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْہَرُ۝۰ۭ

وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۲۳۲

بالآخرت پر (الٰہی ونبوی تعلیم کے مطابق) یقین رکھتا ہو۔
ان ہدایات الٰہی کی تعمیل میں تمہارے لیے تزکیۂ نفس وتطہیر قلب کا سامان ہے۔
اوراللہ تعالیٰ علیم ہیں(معاشرے کی خوبیوں کو) جانتے ہیں اورتم نہیں جانتے ( کہ حسن معاشرت کیا ہے)

توضیح : یہاں عورتوں کے اولیاء کوحکم ہے کہ عورتوں کے نکاح میں ان کی مرضیات کوملحوظ رکھیں۔

وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ

اورمائیں اپنے بچوں کوپورے دو سال دودھ پلائیں۔

حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ

(کامل دو سال سے یہ مراد نہیں ہے کہ یہ مدت دوسال سے کم نہیں کی جاسکتی بلکہ دو سال سے زیادہ نہ ہو)

لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَۃَ۝۰ۭ
وَعَلَي الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَكِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ
لَاتُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَہَا۝۰

لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ۝۰ۤۚ

یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔
اور جس کا بچہ ہے یعنی باپ اس پر لازم ہے کہ رضاعت کے دوران ان عورتوں کودستور کے مطابق کھانا کپڑا دے کسی شخص کواس کی برداشت سے زیادہ تکلیف دہ حکم نہیں دیاجاتا (یعنی کوئی شخص اپنی برداشت سے زیادہ مکلف نہیں ہے)
نہ توماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے۔
اورنہ باپ کواس کی اولاد کی وجہ۔

توضیح : ماں کو نہ چاہئے کہ بچہ کے باپ پردباؤ ڈالے کہ حیثیت سے زیادہ نان ونفقہ کا انتظام کرے۔

وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ۝۰ۚ
فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِمَا۝۰ۭ
وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ

اوراسی طرح(نان ونفقہ) بچے کے وارث کے ذمہ ہے۔
اگر دونوں ماں باپ آپس کی رضامندی سےبچے کا دودھ( اندرونِ مدت) چھڑانا چاہیں توچھڑا سکتے ہیں۔
تودونوں پر کسی قسم کا گناہ نہیں ہے۔
اگر تم اپنے بچوں کودوسری عورتوں( اناؤں کا) دودھ پلوانا چاہو۔

فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ

تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ طے شدہ معاوضہ ٹھیک ٹھیک ادا کیا کرو۔

وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۲۳۳

اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس بات کواچھی طرح جان لو کہ تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں (یعنی تمہارے سب اعمال اللہ تعالیٰ کی نظروں میں ہیں)

وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ
وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا

اور تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور اپنی بیویاں چھوڑجائیں۔

يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا۝۰ۚ
فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝۲۳۴

تو وہ عورتیں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو روکے رکھیں (یعنی اس مدت میں نکاح نہ کریں)
پھر جب یہ اپنی مدت پوری کرچکیں۔
تو کچھ گناہ نہیں ہے کہ وہ عورتیں اپنے نفس کے معاملے میں معروف طریقے سے (نکاح کرلیں)کام لے۔(تم پراس کی کوئی ذمہ داری نہیں)
اوراللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہیں۔

توضیح :یہ عدت اس بیوہ کی ہے جس کو حمل نہ ہو۔ اور اگر حمل ہو تووضع حمل اس کی عدت ہے۔ یہ مسئلہ سورۂ طلاق میں ہے۔ جس کا شوہر مرجائے اس کو عدت کے اندر خوشبو لگانا، سنگھارکرنا، سرمہ اور تیل لگانا، مہندی لگانا، رنگین کپڑے پہننا ،رات میں دوسرے کے گھر رہنا درست نہیں۔

وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِـيْمَا عَرَّضْتُمْ بِہٖ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَاۗءِ

اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ
عَلِمَ اللہُ اَنَّكُمْ سَتَذْكُرُوْنَہُنَّ

اور(اگر کوئی عورت بیوہ ہوجائے) تم اشارۃً یا کنایتاً اس کو نکاح کا پیام دینا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔

یا (نکاح کی خواہش کو) اپنے دلوں میں (ختم عدت تک)چھپائے رکھو۔
اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ تم ان عورتوں سے نکاح کا تذکرہ کیے بغیر نہ رہ سکوگے (یعنی ختم عدت تک اس ارادے کوچھپانہ سکوگے)

وَلٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا

لیکن (ایام عدت میں) پوشیدہ طورپر ان سے کوئی قول وقرار نہ کرنا۔

اِلَّآ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝۰ۥۭ وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّكَاحِ حَتّٰي يَبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَہٗ۝۰ۭ

البتہ احسن طریقہ سے (ان پر) اپنا ارادہ ظاہر کرسکتے ہو۔
اورجب تک عدت پوری نہ ہوجائے عقد نکاح کا ارادہ نہ کرو۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِىْٓ اَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوْہُ۝۰ۚ

اور اچھی طرح جان لوکہ جو کچھ تمہارے دلو ںمیں ہے اللہ تعالیٰ جانتے ہیں (تمہارے قلبی احوال سے با خبر ہیں)

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝۲۳۵ۧ

لہٰذا اس سے ڈرتے رہو۔ (مرضیات الٰہی کی خلاف ورزی کے انجام بد سے ڈرتے رہو)
اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے حلیم ہیں۔

توضیح : اپنے نیک بندوں کی بعض معمولی وبیجا باتوں کواپنی مہربانی سے گوارہ بھی فرمالیتے ہیں، فوری گرفت نہیں فرماتے۔

لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْھُنَّ
اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِيْضَۃً۝۰ۚۖ
وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۝۰ۚ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ

وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۝۰ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ

(عقد نکاح کے بعد) عورتوں کو ہاتھ لگانے سے قبل اگر طلاق دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔
یا تم نے ان کیلئے کوئی مہر مقرر نہ کیا ہو تو( تم پر مہر کا مواخذہ نہیں ہے)
اور احسن طریق پر انھیں کسی قدر مال ومنال سے بھی فائدہ پہنچاؤ۔
صاحب استطاعت کو اپنی مقدور کے مطابق
اور تنگ دست کواپنی حیثیت کے لحاظ سے۔

توضیح : رشتہ جوڑنے کے بعد توڑدینے سے عورت کا کچھ نہ کچھ نقصان ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حسب مقدور اس کی تلافی کردینے کا حکم فرمایا۔

حَقًّا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ۝۲۳۶

نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے۔

وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ
وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِيْضَۃً

اور اگر تم انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دو۔
(یعنی خلوت صحیحہ سے قبل)
اور تم نے ان کا مہر مقرر کیا ہو تو(اصل صورت میں) نصف مہردینا ہوگا۔

فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ يَّعْفُوْنَ
اَوْ يَعْفُوَا الَّذِيْ بِيَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّكَاحِ۝۰ۭ

ہاں اگر عورتیں اپنا مہر بخش دیں۔
یا مرد جن کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے۔
(نکاح توڑنے یا باقی رکھنے کا اختیار ہے) )اپنا حق( چھوڑدیں (یا پورا مہردے دیں، انھیں اختیار ہے۔)

وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۭ
وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ

اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۲۳۷

اور اگر تم اپنا حق چھوڑدو تو تمہارا(یہ عمل) تقوے سے زیادہ قریب ہے۔
اور آپس میں ایک دوسرے پر فضل واحسان کرنا نہ بھولو۔ (فیاضی سے کام لو)
جو کچھ تم کررہے ہو یقیناً اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں۔
(جیسے اعمال ہوں گے ویسی جزا ملے گی)

توضیح : آیاتِ ما سبق میں معاشرے کی خوشگوار زندگی کے لیے جن فطری اصطلاحات کی ضرورت تھی خالق فطرت نے اس کی تکمیل فرمادی جس کی تعمیل اہل ایمان پر فرض ہے۔ ان فرائض کی بجا آوری کیلئے ایک ایسا اہم اور بنیادی فریضہ تجویز فرمایا گیا ہے جس سے معاشرے کی ساری برائیاں دور ہوسکتی ہیں۔ بندگی کا شعور اوریوم الدین کا استحضار قائم رکھنے کے لیے حکم دیا گیا۔

حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰى۝۰ۤ

نمازوں کی حفاظت کرو با لخصوص (اس نماز کی جو تمہارے کاروبار کے درمیان آجائے)بیچ کی نماز۔

توضیح : صلوۃ الوسطیٰ کا اطلاق ہر اس نماز پرہوتا ہے جو مصروفیات کی وجہ بروقت پڑھی نہ جاسکے۔ یا وقت کی تنگی کی وجہ خضوع وخشوع کے ساتھ ادا نہ کی جاسکے یا وقت گزرنے سے قضا ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ ان نمازوں کی ادائی کیلئے یہ خصوصی ہدایت ہے۔

وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِيْنَ۝۲۳۸

اوراللہ تعالیٰ کے آگے عاجزانہ انداز میں کھڑے رہو۔
(یعنی ادب واحترام کے ساتھ نماز پڑھا کرو)

فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا۝۰ۚ

پھر اگر تم کو کسی طرح کا اندیشہ لاحق ہو تو پیدل، کھڑے کھڑے یا سواری پرنماز پڑھ لیا کرو(خوف یا بدامنی کی حالت میں)

فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللہَ كَـمَا

پھر جب تم مطمئن ہوجاؤ (یعنی خوف کی حالت جاتی رہے) تو اللہ تعالیٰ کو

عَلَّمَكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۝۲۳۹

اس طرح یاد کروجیسا کہ تم کوسکھایا گیا ہے جس کو تم جانتے نہ تھے۔

توضیح : ذکر اللہ کا جہاں جہاں بیان آیا ہے وہاں اکثر نماز ہی مراد ہے۔

وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ

اور جو لوگ تم سے وفات پا جاتے ہیں۔

اَزْوَاجًا۝۰ۚۖ

اوراپنی بیویاں چھوڑجاتے ہیں۔

وَّصِيَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ۝۰ۚ
فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْ مَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ۝۰ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۴۰

وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کرجائیں کہ انھیں گھر سے نکالے بغیر ایک سال تک نان ونفقہ دیا جائے۔

پھر ایک سال کے اندر وہ عورتیں خود چلی جائیں اوراپنے نکاح کا موزوں طریقے پر انتظام کرلیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔
اور اللہ تعالیٰ زبردست حکیم ہیں۔

توضیح : زبردست حکیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے نتائج کا وقوع بالکل اٹل ہے۔ یعنی تعمیل حکم کا جوثمرہ ہے وہ مل کررہے گا اور عدم تعمیل کی صورت میں جونقصان مقررہ ہے وہ پہنچ کررہے گا۔ نیز معاشرے میں بیوہ یا مطلقہ کا نکاح نزولِ قرآن سے قبل مذموم سمجھاجاتا تھا۔سمجھایا گیا کہ یہ طریقہ معیوب نہیں ہے بلکہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔

وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ

حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ۝۲۴۱

اورمطلقہ عورتوں کوبھی دستور کے مطابق بہ طریق احسن کچھ دے دلا کر رخصت کرنا چاہئے۔
متقین پریہ ایک اخلاقی فریضہ ہے۔

توضیح :متقین کا اطلاق انھیں پر ہوتا ہے جن کے عقیدے میں شرک نہ ہو اور جن کاموں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اس سے بچتے ہوں۔

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۲۴۲ۧ

اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے احکام تمہارے لیے نہایت ہی وضاحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے تا کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو(اور نافرمانی کے انجام بد سے بچو)
جدال قتال فرض کیا گیا تویہ حکم بعض اہل ایمان پرگراں گزرا اس لیے اسی مناسبت سے ایک واقعہ بیان فرمایا گیا۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ

کیا آپؐ نے ان لوگوں کے حال پر غور نہیں کیا جو (شہر میں وبا پھیلنے کی وجہ) موت کے خوف سے (موت سے بچنے کے لیے) اپنے گھروں سے نکل گئے ( اور جنگل میں جا ٹھہرے)

وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۝۰۠
فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوْتُوْا۝۰ۣ ثُمَّ اَحْيَاھُمْ۝۰ۭ

 

اِنَّ اللہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ۝۲۴۳

حالانکہ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں فرمایا مرجاؤ (مرگئے)
کچھ دنوں بعد پھر انھیں زندہ کردیا گیا۔
یہ دکھانے کے لیے کہ موت اپنے وقت پر آکر رہے گی۔گھروں میں چھپے بیٹھے رہو یا کہیں بھاگ نکلو۔ پھر تم موت سے کیوں گھبراتے ہو۔ جہاد سے کیوں جی چراتے ہو؟
بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی فضل فرماتے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ کا ہرحکم بندوں کے لیے نہایت حکیمانہ اور موجب رحمت ہوتا ہے) لیکن اکثر لوگ (نہیں سمجھتے) ناشکری کرتے ہیں۔

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۴۴

اوراللہ تعالیٰ کی راہ میں (مخالفین اسلام سے) لڑو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں تمہاری مدد کریں گے)

مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا

کون شخص ہے جواللہ تعالیٰ کوقرض دے۔قرض حسنہ (ایسا قرض جوخالص نیکی کے جذبے کے تحت راہ خدا میں دیا جائے)

فَيُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَۃً۝۰ۭ

 

وَاللہُ يَـقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ۝۰۠

پھر اللہ تعالیٰ اس کے اجروثواب کوکئی گناہ بڑھا کرعطا کریں گے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک خرما (کھجور) اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا جائے تواللہ تعالیٰ اس کواتنا بڑھاتے ہیں کہ وہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے (کوہ احد مدینہ میں ہے)
اوراللہ تعالیٰ ہی کمی کرتے ہیں یا فراخی بخشتے ہیں۔
(یعنی گھٹانا بڑھانا، تنگی وفراخی اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تم بہت کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے فراخی ہی رکھیں اور لاکھ بچا بچا کررکھو کوئی آفت آجائے۔ اور کوڑی کوڑی کومحتاج ہوجاؤ۔ لہٰذا انفاق فی سبیل اللہ کے موقع پر تم اپنا ہاتھ کشادہ رکھو۔ خرچ کرنے کے موقع پریہ نہ سمجھو کہ مفلس ہوجاؤگے(تنگی وفراخی کا یہ خیال عبث ہے)

وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۴۵

اورتم (جزائے اعمال کے لیے) اسی کی طرف لوٹ کرجاؤگے۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى۝۰ۘ

(ائے نبیﷺ) کیا آپؐ نے (اس معرکۂ حق وباطل پر) غور نہیں کیا جو موسیٰ ؑ کے بعد سرداران بنی اسرائیل کوپیش آیا۔

اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ قَالَ ھَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا۝۰ۭ قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ
وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَاۗىِٕنَا۝۰ۭ
فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقِتَالُ

جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے تا کہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔
پیغمبر نے کہا۔ اگر تم پر قتال(جہاد) فرض کردیا جائے تواس بات کا احتمال ہے کہ تم لڑنے سے انکار کردو۔
انہوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں کیوں نہ لڑیں گے۔

جب کہ ہم اپنی بستیوں سے نکالے گئے اور اپنے بال بچوں سے جدا کیے گئے۔
پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گا توچند اشخاص کے سوا سب پھر گئے۔

تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْہُمْ۝۰ۭ
وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِـمِيْنَ۝۲۴۶

اوراللہ تعالیٰ ظالموں کوخوب جانتے ہیں۔(جوفریضۂ قتال سے جی چراتے ہیں)

وَقَالَ لَہُمْ نَبِيُّہُمْ

اور( جولوگ قتال کے لیے تیار ہوئے) ان سے انکے نبی نے کہا۔

اِنَّ اللہَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا۝۰ۭ
قَالُوْٓا اَنّٰى يَكُوْنُ لَہُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا

اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے طالوت کوبادشاہ مقرر فرمایا ہے۔
توان لوگوں نے (بڑے ہی تعجب سے) کہا( کہ طالوت کوامیر فوج کس لیے مقرر کیا گیا)کیوں کر اس کی ہم پر حکومت ہوسکتی ہے۔
انھیں حکمرانی کا حق کیوں کرحاصل ہوسکتا ہے۔

وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْہُ
وَلَمْ يُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ۝۰ۭ

اور ہم حکمرانی میں ان سے زیادہ اہل ہیں۔
اور طالوت صاحب ثروت بھی نہیں ہیں۔

قَالَ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىہُ عَلَيْكُمْ

وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ۝۰ۭ

پیغمبر نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس کو تم پرفضیلت بخشی ہے (یہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے)
اور اس کوعلمی فضیلت بخشی اورجسمانی لحاظ سے توانا وتندرست رکھا۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے نزدیک سرداری کیلئےسب سے اہم صفت صاحب علم ہونا اور توانا وتندرست ہونا ہے طالوت میں یہ صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ کسی کوامیر یا سردار بنانا ہو تو اس کی علمی ودماغی اورجسمانی صلاحیتوں کوبھی دیکھنا ہے۔

وَاللہُ يُؤْتِيْ مُلْكَہٗ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۲۴۷
وَقَالَ لَہُمْ نَبِيُّہُمْ اِنَّ اٰيَۃَ مُلْكِہٖٓ

اَنْ يَّاْتِــيَكُمُ التَّابُوْتُ فِيْہِ سَكِيْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ
وَبَقِيَّۃٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَاٰلُ ھٰرُوْنَ
تَحْمِلُہُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ جس کو قابل سمجھتے ہیں بادشاہت عطا کرتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی واسع العلم ہیں (جانتے ہیں کہ کون کس قابل ہے)
اوران کے نبی نے ان سے کہا ان کے (منجانب اللہ) فرمانروا ہونے کی نشانی یہ ہے کہ
تمہارے پاس ایک صندوق آئیگا۔ جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے سکون قلب کا سامان ہوگا۔ (صندوق التوراۃ)
اور کچھ بچی ہوئی چیزیں بھی ہوں گی جن کو موسیٰ وہارون علیہم السلام چھوڑگئے تھے۔
وہ صندوق فرشتے اٹھائے لائیں گے۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۲۴۸ۧ

اس میں تمہارے لیے نشانی ہے کہ (طالوت منجانب اللہ سردار مقرر کیے گئے ہیں) اگر تم یقین( لانے والے ہو)رکھتے ہو۔

توضیح : یہ صندوق جس میں توراۃ او رکچھ تبرکات تھے۔ جالوت جب بنی اسرائیل پرغالب آیا تویہ صندوق بھی لے گا جس کوبنی اسرائیل اپنے لیے فتح ونصرت کا ذریعہ سمجھتے تھے جب وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا توپوری قوم کی ہمت ٹوٹ گئی ان میں ہرشخص یہ سمجھتا رہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان سے چھین لی گئی ہے۔ اور اب ان کے برے دن آگئے ہیں پھر اس صندوق کا فرشتوں کے ذریعہ آنا ان کیلئےبڑی ہی تقویت، تسکین ومسرت کا باعث بنا اور طالوت مسلمہ فرمانروا ہوگئے۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُـنُوْدِ۝۰ۙ

پھر جب طالوت فوجی لشکر لے کر(بیت المقدس سےقوم عمالقہ کی طرف

قَالَ اِنَّ اللہَ مُبْتَلِيْكُمْ بِنَہَرٍ۝۰ۚ

چلے)باہر نکلا۔
توانہوں نے کہا ایک دریا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے (یہ جانتے ہوئے بھی کہ تم کس حد تک احکام الٰہی کی تعمیل کرتے ہو)

فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَيْسَ مِنِّىْ۝۰ۚ وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمْہُ فَاِنَّہٗ مِنِّىْٓ
اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃًۢ بِيَدِہٖ۝۰ۚ فَشَرِبُوْا مِنْہُ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْہُمْ۝۰ۭ

لہٰذا جو کوئی اس کا پانی پئے گا وہ میرا ساتھی نہیں۔
اور جو کوئی نہ پئے گا وہ میرا ساتھی ہے۔
البتہ ہاتھ سے چلو بھرپانی کوئی پی لے تومضائقہ نہیں۔
(جب نہر پرپہنچے) چند اشخاص کے سوا سب نے اس سے سیر ہوکر پانی پیا۔

توضیح : یہاں اطاعت امیر کا امتحان تھا۔ لوگ عموما ًباتیں توبہت کرتے ہیں کہ ہم امیر کی اطاعت یوں کریں گے اور یوں کریں گے مگر جب عمل کا وقت آتا ہے توحیلے حوالے کرنے لگتے ہیں۔
کسی کو امیر مقرر کرنے کے بعد اس کی اطاعت ضروری ہے چاہے اس کا تعلق اموردینیہ سے ہو۔
یا نظم ونسق سے الغرض اس امتحان میں بہت کم لوگ کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کوایسے لوگوں کا علیحدہ کرنا منظور تھا۔

فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ھُوَوَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ۝۰ۙ

پھر جب طالوت اور ان کے ساتھی مسلمان نہر کے پارہوگئے (اور جالوت کی فوج کے مقابل ہوئے تواس کی ظاہری شان وشوکت وکثرت کودیکھ کر پست ہمت ہوگئے)

قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ۝۰ۭ
قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللہِ۝۰ۙ
كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ

توکہنے لگے آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ۔
جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے روبرو (جواب دہی کے لیے) حاضر ہونا ہے۔(اپنے پست ہمت ساتھیوں سے) کہا
اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ تھوڑی سی جماعت اللہ تعالیٰ کے حکم سے کثیر جماعت پرغالب آئی ہے۔

وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۲۴۹

اوراللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔(یہ سنت الٰہی ہے)

توضیح : قلت کثرت پر اس وقت غالب آتی ہے جب وہ کثرت کے مظالم پرصبر کرتی ہے۔

وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا
وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا

اور جب وہ جالوت اوراس کی فوج کے مقابل ہوگئے۔
توانہوں نے دعا کی ائے ہمارے پروردگار ہم پرصبر آسان کردیجئے (یعنی جدال وقتال کی ہرتکلیف سہنے کی توفیق بخشئے اور (اس معرکۂ حق وباطل میں) ہم کوثابت قدم رکھئے ۔)

وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۵۰ۭ

اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کیجئے۔(فتح ونصرت بخشئے)

توضیح : اس میں یہ سبق ہے کہ صبر کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنی چاہئے اور ہر چھوٹی بڑی تکلیف میں اللہ تعالیٰ ہی کوپکارنا چاہئے۔

فَہَزَمُوْھُمْ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۣۙ
وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ

وَاٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا يَشَاۗءُ۝۰ۭ

پس طالوت کی فوج نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو شکست دی۔
اور داؤدؑ نے جالوت کوقتل کردیا ( جو فوج میں اچھے لڑنے والوں میں سے تھے)
اوراللہ تعالیٰ نے ان کو (داؤدؑ کو) بادشاہت اور عقل ودانائی اورعلم وہنر کی وہ تمام باتیں سکھائیں (جو بادشاہت کے لیے ضروری تھیں)جو اس نے (اللہ)چاہی۔

وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ۝۰ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ

اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالموں کے غلبہ وتسلط کوبعض لوگوں کے ذریعہ دفع نہ کیا کرتے توزمین میں ایک فساد عظیم برپا ہوجاتا۔

وَلٰكِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝۲۵۱
تِلْكَ اٰيٰتُ اللہِ نَتْلُوْھَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ

وَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۲۵۲

لیکن اللہ تعالیٰ اہل عالم پر بڑے ہی مہربان ہیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جو صحیح صحیح طور پر ہم آپؐ کو پڑھ کر سناتے ہیں ۔
(جن میں گزشتہ اہل ایمان کے واقعات جدال وقتال ہیں۔)
اورائے محمدﷺ آپ بلاشبہ پیغمبروں میں سے ہیں۔

(لہٰذا آپؐ کواورآپ کے متبعین کو بھی جدال وقتال کے دور سے گزرنا ہے۔ احکام قتال سے قلوب میں گرانی پیدا نہ ہونی چاہئے)

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ۝۰ۘ
مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللہُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ۝۰ۭ

ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پرفضیلت بخشی۔

ان میں ایک وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا اور بعض کے درجات بلند کیے۔

توضیح :حضرت موسیٰ علیہ السلام مراد ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے (فرشتے کے بغیر) راست کلام فرمایا۔

وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۝۰ۭ

اورہم نے عیسیٰؑ ابن مریم کوواضح معجزات عطا کیے اور جبرئیل امین سے ان کی مدد کی۔

توضیح :یہود عیسیٰؑ کے دشمن تھے جبرئیلؑ کے ذریعہ ان کی مدد فرمائی (واضح معجزات سے مراد، مردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کواچھا اور مادرزاد اندھوں کوبینا کرنا وغیرہ)

وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِھِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْھُمُ الْبَيِّنٰتُ
وَلٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ مَّنْ كَفَرَ۝۰ۭ

اور اگر اللہ تعالیٰ کومنظور ہوتا تو وہ لوگ واضح احکام آجانے کے بعد آپس کی خوں ریزی میں مبتلا نہ ہوتے۔

لیکن انہوں نے (نبیﷺ کی تعلیم سے) اختلاف کیا ان میں بعض ایمان لائے اور بعض کافر ہی رہے۔

توضیح : اس آیت سے اور دوسری آیات سے ایمان لانے یا نہ لانے کا انسانی اختیار ثابت ہوتا ہے۔ جیسے: فَمَنْ شِآءَ فَلْیُوْمِنْ وَمَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ لہٰذا جو چاہے ایمان لائے یا انکار کرے اسی پر جزاوسزا کا مدار ہے۔

وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا اقْتَتَلُوْا۝۰ۣ

اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تویہ خوں ریزی نہ کرتے۔

توضیح : خونریزی سے روکنا۔ گویا ان کے اختیار کوسلب کرنا ہے جو ایک طرح کا جبر ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کسی کی آزادی واختیار کو چھین کرجبر نہیں فرماتے۔

وَلٰكِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ۝۲۵۳ۧ

لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔

توضیح : کوئی امت دین الٰہی کوچھوڑکر باطل عقائد میں مبتلا ہوتی ہے اور امت ِواحدہ کی بجائے مختلف فرقوں میں بٹ جاتی ہے تو ان پر عذاب الٰہی کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا

اے ایمان والو جو کچھ مال ومتاع ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے (اللہ

رَزَقْنٰكُمْ
مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ۝۰ۭ

تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرتے رہو۔
قبل اس کے کہ( عمل کرنے کی یہ مہلت ختم ہوجائے اور )وہ دن آجائے جس دن نہ کوئی خرید وفروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی شفاعت۔

توضیح : خرید وفروخت اس طرح کہ کوئی صاحب خیر جس نے بہت ساری نیکیاں کی ہوں وہ اپنی فاضل نیکیاں دے کر اپنے گنہگار عزیز ورشتہ دار دوست یا مرید کوبخشوا نہیں سکتا۔

وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۵۴

اور کافر(حقائق کا انکار کرنے والے) ہی ظالم ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

توضیح :یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے غیراللہ کی خوشنودی کے لیے مال خرچ کرتے ہیں۔ ان کی نذرومنت کرتے اور ان سے مدد مانگتے ہیں۔ اہل ایمان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ موت سے پہلے اپنی آخرت بہتربنالیں۔ یعنی عقیدہ وعمل کی اصلاح کرلیں جس کے بغیر کوئی نیکی عنداللہ قبول نہیں ہوتی۔
موجودہ دور میں ایصال ثواب کا جو تصور امت میں پیدا ہوگیا ہے اور یہ جوسمجھا جاتا ہے کہ مرنے والا دین سے خواہ کتنا ہی منحرف اوربے عمل رہا ہواگر اس کی اولاد اعزہ واقارب میں سے کوئی زیارت، چہلم، برسی، ختم قرآن اورمولود وغیرہ جیسے مبتدعانہ رسوم ادا کردے، غریبوں کوکھلا پلادے، خیرخیرات کردے اور اس کا ثواب بخش دے تومرنے والے کے لیے نجات ومغفرت کا ذریعہ ہوجاتا ہے، یہ سب بے اصل ہے۔

اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ

(اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہیں) اللہ کے سوا کوئی بھی عبادت (واستعانت) کے لائق نہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی خواہ وہ انبیاء علیہم السلام ہوں یا ملائکہ یا اجنہ وغیرہ سب اسی کے مملوک ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت واستعانت کے لائق نہیں۔

اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ۝۰ۥۚ لَا تَاْخُذُہٗ سِـنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ۝۰ۭ

اللہ ہی زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے اورنہ نیند (ہم انسانوں کوطمانیت کے لیے ارشاد ہورہا ہے کہ ہماری حاجت براری کے لیے ہی حق تعالیٰ الحی ہیں القیوم ہیں)

توضیح : وہ نیند، اونگھ اور بھول جیسے نقائص سے پاک ہے۔ایک بادشاہ کے لوازم شان وشوکت میں اس کے آرام کے اوقات بھی ہوتے ہیں، وہ سوتا بھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ان کمزوریوں سے پاک وبرتر ہے کیونکہ سونا بھی ایک کمزوری ہے جس کی وجہ بے خبری اوربھول پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ قیوم ہے ساری مخلوقات کے نظام دنیا وآخرت کا وہی بلاشرکت غیرے قائم کرنے والا ہے۔

لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ
مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۝۰ۭ
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ۝۰ۚ

زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔

کون ہے جس کی اتنی ہمت ہو کہ) اس کے پاس سفارش کرسکے۔ سوائے اس کے کہ وہی کسی کے لیے سفارش کی اجازت دے۔
وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جوکچھ ان کے پیچھے ہے(یعنی وہ ان کےا گلے اور پچھلے احوال سے واقف ہے)

تشریح: یہاں حق تعالیٰ نے اپنے اسماء ’’اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم‘‘ کا تعارف فرمایا ہے۔ آج امت کے عوام وخواص اسمائے حسنیٰ کے معنی ومفہوم ہی سے لا علم ہیں (الا ماشاء اللہ) حضرت نبی کریمﷺ کی صحبت نے صحابہ کرام کو حق تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا عرفان عطا فرمایا تھا، اسی کا ثمرہ تھا کہ جب بھی احکام الٰہی نازل ہوتے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم والہانہ ان احکام کی بجاآوری فرماتے۔
اسم ’’الحی‘‘ کے تعارف میں بتایا گیا کہ انسانوں کی حاجت روائی، مشکل کشائی اورنظام ارض وسماء کی ربوبیت کے لیے جس حیات کی ضرورت ہے وہ حیات توصرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ لہٰذا انسانوں کو چاہئے کہ ہر چھوٹی بڑی، حاجت اور مشکل میں اللہ تعالیٰ ہی کو مدد کے لیے پکارے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔
هُوَ الْحَيُّ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۔ وہی زندہ ہے (کوئی مقرب سے مقرب بندہ تمہاری فریاد رسانی کے لیے زندہ نہیں ہے) پورے جذبہ اطاعت گزاری کے ساتھ ہر مشکل وحاجت میں مدد کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کواس طرح پکارو کہ شرک کا شائبہ بھی نہ رہے۔ آدمی اپنے جہل کی وجہ سے یہ بھی سمجھتا ہے کہ دنیوی بادشاہوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی حکمرانی میں بھی انبیاء علیہم السلام صالحین۔ امت ملائکہ وغیرہ معاون ومددگار ہیں، شریک ودخیل ہیں۔ جن کے مشورے سے نظام الٰہی وسماوی جاری ہے۔ اسم حسن’’القیوم‘‘ سے اس باطل خیال کی تردید فرمائی گئی ہے اور یہ حقیقت واضح کردی گئی کہ یہ سارا نظام ارضی وسماوی کسی کی رائے مشورہ کے بغیر اور کسی کواپنے اختیارات کا کوئی جزوعطا کیے بغیر اللہ تعالیٰ ہی بذاتہٖ قائم کیے ہوئے ہیں۔ اس نظم عالم کے قیام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک وسہیم نہیں ہے۔

وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۝۰ۚ

اور کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتی مگر اسی قدر جتنا کہ اللہ تعالیٰ علم دینا چاہیں۔

وَسِعَ كُرْسِـيُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۝۰ۚ
وَلَا يَـــــُٔـــوْدُہٗ حِفْظُہُمَا۝۰ۚ وَھُوَالْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ۝۲۵۵

اس کی کرسی زمین وآسمان کواحاطہ کیے ہوئے ہے۔
(کرسی سے مراد اللہ تعالیٰ کی حکومت وفرمانروائی ہے)
زمین وآسمان کی حفاظت اسے نہیں تھکاتی اور وہ بڑا عالی مرتبت بڑی ہی شان وعظمت والا ہے۔( اتنی وسیع وعریض کائنات کا بلاشرکت غیرے بہ نفس نفیس حکمران ہے)

لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ

دین (اسلام) میں جبر نہیں ہے۔

فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۔ یعنی چاہے کوئی ایمان لائے چاہے کوئی کفر کرے۔
(مگر انسان کی عقل وفطرت کا تقاضہ ہے کہ دنیا میں بے خوف وخطرزندگی گزارنے اور آخرت کی خیروابقیٰ زندگی کے حصول کے لیے رغبت قلبی کے ساتھ دین الٰہی قبول کرلے)

قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ

یقیناً ’’ہدایت‘‘ گمراہی سے ممیز ہوچکی ہے۔
(یعنی دین اسلام کی خوبی اورکفر کا انجام بد واضح ہوچکا ہے)

فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ
فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ

لہٰذا جس نے بطیب خاطر معبودانِ باطل سے منہ موڑااور اللہ تعالیٰ ہی کو معبود ومستعان کارساز جانا
تو گویا اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جوکبھی ٹوٹنے والا نہیں (یعنی ایک ایسا مستحکم عقیدہ اختیار کیا جس کے حق ہونے کی وہ سندِ علمی رکھتا ہے)

وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۵۶

اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی سننے والے اور بڑے ہی جاننے والے ہیں)

تشریح : یہاں اسمائے حسنیٰ ’’السمیع ‘‘ اور ’’العلیم ‘‘ کا ربط یہ ہے کہ انسان اپنے جہل کے سبب یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی دعا اور اپنے قلبی کیفیات کواللہ تعالیٰ تک راست نہیں پہنچاسکتا بلکہ اس کے اوراللہ تعالیٰ کے درمیان بزرگانِ دین، صالحین قوم انبیاء علیہم السلام ملائکہ اور اجنہ واسطہ وسیلہ ہیں۔ حق تعالیٰ نے اس شرک کی تردید اپنے ’’اسماء احسن‘‘، ’’السمیع اورالعلیم‘‘ سے فرمادی کہ تمہاری دعاؤں کوسننے والے ’’السمیع‘‘ اور تمہارے قلبی کیفیات اوراحوال کوجاننے والے ’’العلیم‘‘ اللہ تعالیٰ ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی فرد خلق ان اوصاف سے متصف نہیں بندوں کی دعا سننے کے لیے اور بندوں کے احوال جاننے کے لیے اللہ تعالیٰ کوکسی واسطہ اور وسیلے کی حاجت نہیں ہے۔

اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ

اللہ تعالیٰ اُن ہی لوگوں کے دوست ہیں جوایمان لائے ۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے بندے غیراللہ کی الوہیت سے اپنے قلب کو پاک کرکے اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا معبود ومستعان مان لیتے ہیں یعنی ایمان لے آتے ہیں تواللہ تعالیٰ ان مومن بندوں کے حامی دوست ومددگار بن جاتے ہیں۔

يُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۥۭ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ۝۰ۙ
يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۝۰ۭ
اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۵۷ۧ

انھیں (جہل وکفر کی) تاریکیوں سے نکال کر( علم وہدایت کی) روشنی میں لے آتے ہیں۔
اور جو لوگ کافر ہوئے (یعنی کفر کی راہ اختیار کی۔ اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں غیراللہ کوشریک قرار دیا)ان کے دوست شیاطین ہیں۔
وہ انھیں (علم وہدایت کی) روشنی سے نکال کر(جہل کی) تاریکیوں میں ڈھکیل دیتے ہیں۔
وہ سب جہنمی ہیں وہ اسی میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّہٖٓ

ائے نبی (ﷺ) کیا آپؐ نے اس شخص کی حالت پرغور نہیں کیا جو ابراہیمؑ سے ا س کے رب کے بارے میں جھگڑتا تھا۔

اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ۝۰ۘ

(اس احسان کے بدلے) کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بادشاہت دی تھی۔

اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۝۰ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ۝۰ۭ

اس وقت ابراہیمؑ نے کہا میرا پروردگار تو وہی ہے جو، جلاتا اور مارتا ہے۔
تو( بہ زعم حکومت بادشاہ )اس نے کہا میں بھی مارتا وجلاتا ہوں۔

توضیح :) اس طرح کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں بھی جسے چاہوں مارڈالوں یا مارڈالنے سے بچالوں۔ اس طرح اپنے مالک ومختار بننے کا ادعا کیا۔(

قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللہَ يَاْتِيْ
بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِيْ كَفَرَ۝۰ۭ
وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۲۵۸ۚ
اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَۃٍ

ابراہیمؑ نے کہا اللہ تعالیٰ توروزآنہ سورج کومشرق سے نکالتے ہیں۔

تواس کومغرب سے نکال، تو وہ کافر اپنی بے بسی پر بوکھلا گیا۔
اوراللہ تعالیٰ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتے۔
یا اس طرح ان صاحب کے حال پربھی نظرڈالیے۔

وَّہِيَ خَاوِيَۃٌ عَلٰي عُرُوْشِہَا۝۰ۚ
قَالَ اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۚ

جن کا گزرایک اجڑی ہوئی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر الٹ گئی تھی۔
(جسے دیکھ کرانہوں نے) کہا بستی کے (باشندوں کی) اس طرح کی ہلاکت کے بعد اللہ تعالیٰ پھر انھیں کس طرح زندہ کریں گے؟

فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَـۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ۝۰ۭ

تواللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض کرلی اور سوسال تک مردہ رکھا۔ پھر انھیں زندہ کیا۔

قَالَ كَمْ لَبِثْتَ۝۰ۭ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ۝۰ۭ
قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ
فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَـنَّہْ۝۰ۚ
وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ

پوچھا تم کتنے عرصے تک( اس حالت مردنی میں) رہے کہا ایک دن یا ایک پہردن (یعنی دن کا کچھ حصہ)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلکہ تم سو برس( اسی حالت مردنی میں) رہے ہو۔
پھر اپنے کھانے پینے کی چیزوں کودیکھو (اتنی مدت گزرجانے کے باوجود) سڑی گلی نہیں ہیں۔
اوراپنے گدھے کی طرف بھی دیکھو (جومرا پڑا ہے یعنی بکھری ہوئی ہڈیوں کا ادھورا ڈھانچہ رہ گیا ہے۔)

وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَۃً لِّلنَّاسِ

اوراس سے مقصود یہ ہے کہ ہم تم کولوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں۔

وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ

اور تم (اس کی) ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم ان کوکس طرح جوڑتے

نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا۝۰ۭ
فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَہٗ۝۰ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۵۹

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ
تُـحْيِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ
قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ۝۰ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ۝۰ۭ

ہیں۔ پھر اس ڈھانچے پرگوشت وپوست چڑھاتے ہیں۔
جب یہ سب کچھ کھل کرمشاہدہ میں آچکا توکہا میں نے جان لیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پرقادر ہیں۔ گل سڑ جانے کے بعد بھی مردے کودفعتہً زندہ کرسکتے ہیں۔
اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے ابراہیمؑ نے کہا ائے میرے پروردگار مجھے دکھائیے کہ آپ مردوں کوکس طرح زندہ کرتے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تمہیں اس کا یقین نہیں ہے کہا۔ ہاں ہے، لیکن قلب مزید طمانیت چاہتا ہے۔

قَالَ فَخُـذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّيْرِ
فَصُرْھُنَّ اِلَيْكَ
ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰي كُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءًا
ثُمَّ ادْعُہُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا۝۰ۭ وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۶۰ۧ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا چار پرندے لو اور انھیں اپنے سے مانوس کرلو۔

پھر ان کی بوٹیاں بنا کر ہر ایک پہاڑ پر رکھ دو۔
پھر انھیں آواز دو وہ تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔
اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکمت والے ہیں۔

توضیح : یہاں اللہ تعالیٰ کے اسم حسن ’’اَلْحَکِیْم‘‘ کا حکیمانہ تعارف کردیا گیا ہے۔انبیاء علیہم السلام کوبعض امور غیبیہ کا علم دیا جاتا ہے اورمشاہدہ بھی کرایا جاتا ہے۔ دنیاوی امور میں بھی تو یہی ہوتا ہے کہ چند ہی محققین ہوتے ہیں اورباقی سب انسان ان کی تحقیق سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہر شخص کوامور غیبیہ کا مشاہدہ نہ کروانا اللہ تعالیٰ کا ایک حکیمانہ نظام ہے۔

مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ان کے خرچ کی مثال۔

كَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ
فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ۝۰ۭ

اس دانہ کی سی ہے کہ (جب بودیا جائے تو) اس سے سات بالیں نکلتی ہیں۔
پھر ہر بالی (بھٹے) میں سودانے ہوں ( یعنی ان کے انفاق کا اجر ایک کے عوض سات سوگنا دیا جائے گا۔)

وَاللہُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ
وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۲۶۱

اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جس کیلئےچاہتے ہیں کئی گنا اجر بڑھادیتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے جاننے والے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے والے کی نیت اور جو مال دیا جاتا ہے اس کے حسن وقبح سے خوب واقف ہیں۔ اور اسی وسعت علمی کی بناپر اجر کوکئی گناہ بڑھادیتے ہیں ہوسکتا ہے کہ سات سوکے بجائے سات ہزار، سات لاکھ، سات کروڑ دیں اس سے بھی زیادہ بڑھادیں۔ انفاق کی کچھ شرائط بھی ہیں۔ ان شرائط کی تکمیل کے بعد ہی ایک مومن انفاق کے موجودہ بدل کا مستحق ہوسکتا ہے۔

اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ
ثُمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا

جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔

پھر وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس پر احسان نہیں جتاتے اورنہ احسان جتا

وَّلَآ اَذًى۝۰ۙ
لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ
وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۲۶۲

کرتکلیف پہنچاتے ہیں۔
ان کے لیے (ان کے اعمال کا) بدل ان کے پروردگار کے پاس ہے۔
اور (قیامت کے دن) نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اورنہ وہ حزن وملال میں مبتلا ہوں گے۔

توضیح : کسی پر احسان کرکے احسان جتانا، اسکوذلیل کرنا، معاوضہ کی توقع کرنا،تکلیف پہنچانا، ان سب کا شمار من اذٰی میں ہے۔

قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ يَّتْبَعُہَآ اَذًى۝۰ۭ

(اگر دینے کی قدرت نہ ہو تو سائل کو) اچھی بات کہہ کر ٹال دینا (خوبی سے درگزرکرنا) کچھ دے کر اسے اذیت پہنچانے سے بہتر ہے۔

وَاللہُ غَنِىٌّ حَلِيْمٌ۝۲۶۳

اللہ تعالیٰ( تمہارے انفاق کرنے یا نہ کرنے سے) بے نیاز ہیں (بے پرواہ ہیں تمہارے انفاق کا فائدہ تمہیں کو ہوگا) اوراللہ تعالیٰ الحلیم ہیں۔ (تمہاری نافرمانیوں پرفوری گرفت نہیں فرماتے ہیں۔ اس سے یہ نہ سمجھو کہ تمہارا احتساب ہی نہیں ہوگا۔)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۝۰ۙ
كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ
وَلَا يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ فَمَثَلُہٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْہِ تُرَابٌ
فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَكَہٗ صَلْدًا۝۰ۭ

ائے ایمان والو! تم اپنے صدقات احسان جتا کر تکلیف پہنچا کر ضائع نہ کرو۔
اس شخص کی طرح جو لوگوں کودکھانے نام ونمود وشہرت کے لیے خرچ کرتا ہے (ریا بھی شرک ہے ایسا شخص دراصل)
اور نہ اللہ تعالیٰ پرایمان رکھتا ہے اورنہ یوم آخرت پر
اس کے مال کی مثال ایک چٹان کی سی ہے جس پرمٹی کی تھوڑی سی تہہ جمی ہو۔
(اس میں دانہ بویا جائے) پھر اس پرزور دار بارش بر سے جواس کوصاف ہی کردے۔

توضیح : مٹی کی ہلکی سی تہہ سے مراد نیکی کی ظاہری شکل ہے جس کے پیچھے نیت کی خرابی چھپی ہوئی ہو۔

لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا۝۰ۭ
وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۶۴

اس طرح وہ (ریاکار) جو کچھ نیک عمل کریں گے اس کا صلہ حاصل نہ کرسکیں گے۔
اللہ تعالیٰ کافروں کو(کفر پراڑے رہنے کی وجہ) صحیح راہ نہیں دکھاتے۔

وَمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ وَتَثْبِيْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ

كَمَثَلِ جَنَّۃٍؚبِرَبْوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَہَا ضِعْفَيْنِ۝۰ۚ
فَاِنْ لَّمْ يُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ

ان لوگوں کی مثال جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیےاپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اوراس تصدیق ویقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں کہ اس کا بدل آخرت میں انھیں ملنے والا ہے۔
ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچے ٹیلے پر واقع ہو۔ جب اس پر مینہ برسے تودگنا پھل لائے۔
پھر اگر بارش نہ بھی ہو تو پھوار ہی کافی ہوجائے۔

توضیح :بارش کے موٹے موٹے قطروں کی زور دار بارش کو وابل اور ہلکی سی پھوار کوطَلّ کہتے ہیں۔

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۲۶۵

اوراللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں جو کچھ تم کررہے ہو (کہ کس نیت سے خرچ کرتے ہو)

اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ
مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۰ۙ
لَہٗ فِيْہَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۙ
وَاَصَابَہُ الْكِبَرُ وَلَہٗ ذُرِّيَّۃٌ ضُعَفَاۗءُ ۝۰۠ۖ
فَاَصَابَہَآ اِعْصَارٌ فِيْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ

کیا تم میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ(اس کا انجام اس شخص کی طرح ہوجائے) جس کے پاس کھجور اور انگور کے باغ ہوں، اس کے نیچے نہریں بہتی ہوں۔
اس میں اس کے لیے ہر قسم کے میوے موجود ہوں۔
اس کو بڑھاپا آگیا ہو۔ اس کی کمزور اورناتواں اولاد بھی ہو (جن کی زندگی کا انحصار اسی سرمایہ پر ہو)
پھر (دفعتہً) اس پر طوفانی ہوا چلے جس میں دہکتی ہوئی آگ ہو اس کو جلا کر خاکستر کردے۔

توضیح : غور تو کرو ایسی صورت میں اس بوڑھے کی حسرت کا کیا عالم ہوگا؟ لوگ دنیا میں مال دار بنے رہے۔ انفاق بھی خوب کیا لیکن ان کی نیت شہرت ونمود کی تھی توان کی مثال اس بوڑھے کی سی ہے جو مذکور ہوئی۔ آخرت میں ان کی حسرت ویاس کا عالم ناقابل بیان ہوگا کیونکہ ان کی وہ مہلت عمل ختم ہوچکی ہوگی کہ پھر سے عمل کرکے اپنے نقصان کی تلافی کرسکیں۔

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ۝۲۶۶ۧ

اس طرح تمہارے لیے اللہ تعالیٰ اپنے احکام نہایت ہی وضاحت کے ساتھ بیان فرماتے ہیں تا کہ تم صاحب فکر انسان بنو۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ
مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۝۰۠
وَلَا تَـيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ

(سوچو سمجھو غورو فکر سے کام لو)
ائے ایمان والو اپنی حلال کمائی میں سے عمدہ چیز خرچ کیا کرو۔
اور جو چیزیں ہم تمہارے لیے زمین سے پیدا کرتے ہیں ان میں (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کیا کرو( از قسم ثمرات وپیداوار ارضی وغیرہ)
ناپاک اورخبیث چیزوں کی خیرات کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ۔

وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِيْہِ۝۰ۭ
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَنِىٌّ حَمِيْدٌ۝۲۶۷

اورتم خود بھی اپنے لیے ناقص وناکارہ مال پسند نہیں کرتے بجز اس کے کہ مجبوری ہو۔
اوراچھی طرح جان لو کہ اللہ تعالیٰ غنی ہیں بڑی خوبیوں والے ہیں (ناکارہ وناپاک مال قبول نہیں فرماتے)

اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ۝۰ۚ

شیطان تم سے مفلسی کا وعدہ کرتا ہے اور بے حیائی میں خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ (شیطان تم کو ڈراتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کروگے تومفلس ہوجاؤ گے مگر تم کوبے حیائی (بے ہودہ کاموں) میں خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔(

لیکن افسوس کہ: آج امت کی اکثریت فواحشات ومنکرات شادی بیاہ کے جاہلانہ رسومات،سانچق، مہندی، سہرا، باجا، گیارہویں، بارہویں کے پکوان، شب برات کے چراغاں، عرسوں کے ہنگامے، کھیل تماشے، سینما بینی،فیشن پرستی میں مبتلا ہے جس پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ بس ہاتھ رکتا ہے توان معاملات میں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔

وَاللہُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا۝۰

اوراللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور رحمت کا وعدہ فرماتے ہیں۔

توضیح : اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں انفاق کرتے رہوگے تو وہ تمہاری مغفرت فرمائے گا اوراپنی مہربانی سے بہت زیادہ عطا کریگا۔

وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۲۶۸ۖۙ

کیوں کہ اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے اور خوب جاننے والے ہیں ۔

کہ ( کون کس نیت سے مال خرچ کرتا ہے۔ نام نمود شہرت کی خاطر یا اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لیے)

يُؤْتِي الْحِكْمَۃَ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۚ
وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا

وہ جسے چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔
اور جسے دانائی دی گئی یقیناً وہ خیرکثیر پاگیا۔

توضیح : دانائی یہ ہے کہ مفاد دنیا کے مقابلے میں نفع آخرت کا طالب وحریص بنارہے اوراپنے مال کو زیادہ سے زیادہ ذخیرۂ آخرت کرے۔

وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۶۹

اور جو سمجھ دار ہیں (یعنی سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں) وہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔

وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللہَ يَعْلَمُہٗ۝۰ۭ

اور تم جو کچھ مال خرچ کرتے ہو یا کوئی نیاز ونذر مانتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں (کہ کس نیت سے نذرمانی ہے اور کس نیت سے مال خرچ کیا ہے ) کتنا تعلق من واذٰی نمود و شہرت کا تھا کیونکہ یہ شرک ہی کے اجزاء ہیں۔

وَمَا لِلظّٰلِـمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۲۷۰

اور ظالموں کا (قیامت کے دن) کوئی حمایتی ومددگار نہ ہوگا۔)

توضیح : ظالموں سے مراد کافر ومشرک ہیں۔ جوغیر اللہ کی نذر ونیاز مانتے اور ان سے اپنی امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ کارخانہ قدرت میں غیراللہ کودخیل وشریک وبااختیار سمجھتے ہیں۔

اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِىَ۝۰ۚ

اگرتم صدقات کوظاہر کرو (اس نیت سے کہ دوسروں کوترغیب ہو) تواچھا ہے۔

وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝۰ۭ
وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ۝۰ۭ

اوراگر (ریاونمود کے خوف سے) چھپا کر دو تو یہ بھی تمہارے لیے بہتر ہے۔
وہ تم سے تمہاری برائیوں کوبھی دور کردیتا ہے۔

توضیح : سیِّاٰت سے مراد چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جومومن سے نادانستہ غیرشعور طورپر سرزد ہوجاتے ہیں۔

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝۲۷۱

اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ ان سے با خبر ہیں (کہ کس نے ارادۃً معصیت اختیار کی اور کس نے مرضیات الٰہی کو پیش نظررکھا۔)

لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

(ائے محمدﷺ) آپ پر ان لوگوں کوہدایت پرلے آنے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں۔

توضیح : سنت الٰہی یہ ہے کہ طالب ہدایت کوہدایت دی جاتی ہے اور جوکوئی گمراہی وبداعتقادی کواختیار کرتا ہے اس کو اسی حالت میں چھوڑدیا جاتا ہے۔

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍۭ فَلِاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ

اور تم جو کچھ مال خرچ کروگے اس کا فائدہ تمہیں کوہوگا۔

وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ اللہِ۝۰

اور جو کچھ مال تم خرچ کروگے۔ اللہ تعالیٰ ہی کی خوشنودی کے لئے کروگے۔

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۝۲۷۲

اور جو مال تم خرچ کروگے اس کا تمہیں پورا پورا بدل دیا جائے گا اور تم پرظلم نہ کیا جائے گا۔

لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ

(تمہارا انفاق) ان حاجت مندوں کے لیے ہے(جو دین کے لیے وقف ہوچکے ہیں) جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلنے سے رکے ہوئے ہیں۔

لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ

(اشاعت ِحق کے لیے) سفر خرچ کی استطاعت نہیں رکھتے۔

يَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ۝۰ۚ

ان لوگوں کے اس استغناء کودیکھ کر(یعنی ان کے نہ مانگنے کی وجہ) نادان لوگ انھیں مال دار سمجھتے ہیں۔

تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ۝۰ۚ

لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا۝۰ۭ

تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان لوگے ( کہ وہ حاجت مند ہیں شرم کی وجہ کسی کے آگے اظہار حاجت نہیں کرتے۔)
وہ لوگوں سے لاگ لپیٹ (الحاح وزاری کے ساتھ )سوال نہیں کرتے ۔

(اور بدرجہ مجبوری اگر اظہار حاجت کبھی ناگزیر ہو تو صرف حاجت کا اظہار اشارۃً کردیتے ہیں گلے کا ہار نہیں ہوجاتے۔ ایسے کتنے اصحاب رسول تھے جنہیں اصحاب صفہ کہتے ہیں)

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝۲۷۳ۧ

اور تم جو کچھ مال (راہِ خدا میں) خرچ کروگے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتے ہیں (اس کا پورا پورا بدل دیں گے)

اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ
وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۲۷۴ؔ
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا
لَايَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَـمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ

وہ لوگ جو اپنا مال رات دن پوشیدہ اور علانیہ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان کا صلہ ان کے پروردگارکے پاس ہے۔

اورنہ ان (قیامت کے دن) کوئی خوف ہوگا اورنہ وہ حزن وملال میں مبتلا ہوں گے۔
جو لوگ سود کھاتے ہیں (اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے بلکہ روپیہ سودی کاروبار میں لگاتے ہیں) وہ کھڑے نہ رہ سکیں گے لیکن اس شخص

يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۝۰ۭ

کی طرح کھڑے ہوں گے جس کوشیطان نے چھو کر مدہوش (ومخبوط الحواس )کردیا ہو۔
(ان کی یہ حالت قیامت کے دن ہوگی جب کہ وہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے)

ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا۝۰ۘ

اس طرح کی سزائیں انھیں اس لیے دی جائیں گی، وہ کہتے ہیں تجارت (بیع) بھی تو(نفع کے لحاظ سے) سود کی طرح ہے (کیوں کہ دونوں کا مقصد ان کے اپنے خیال میں نفع حاصل کرنا ہے حالانکہ دونوں میں کافی فرق موجود ہے)

وَاَحَلَّ اللہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا۝۰ۭ فَمَنْ جَاۗءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْــتَہٰى فَلَہٗ مَا سَلَـفَ۝۰ۭ

اوراللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام
لہٰذا جس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے سود کی حرمت کا حکم پہنچ گیا پھر وہ سود لینے سےباز آگیا تواس حکم سے پہلے جو کچھ سود لے چکا ہے وہ اس کا ہے (یعنی لیا ہوا مال اس کی ملک ہے)

وَاَمْرُہٗٓ اِلَى اللہِ۝۰ۭ

اور(قیامت کے دن) اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر منحصر ہے (کہ وہ دل سے باز آیا تھا یا منافقانہ توبہ کرلی تھی)

وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ

اور جو کوئی (سود کی حرمت کے بعد بھی) سودی کاروبار کرے گاتو ایسے سب لوگ دوزخی ہیں۔

ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۷۵

جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي
الصَّدَقٰتِ۝۰ۭ

وَاللہُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ۝۲۷۶

اللہ تعالیٰ سود کومٹاتے ہیں اور صدقات وخیرات کوبڑھاتے ہیں۔
تشریح:۔ اللہ تعالیٰ معاشرہ میں کسی شکل میںبھی سود کوباقی رکھنا نہیں چاہتے۔ کیونکہ جس مال میں سود شامل ہوتا ہے۔ دنیا وآخرت میں اس کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ (سود خوار جیسے) ناشکرے گنہگار کوپسند نہیں کرتے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا

جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور نمازیں قائم کیں اور زکوۃ

الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ
وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۲۷۷
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۲۷۸

دیتے رہے ان کے لیے ان کے اعمال کا بدل ان کے پروردگار کے پاس ہے (جو آخرت میں انھیں ملے گا)

اور (قیامت کے دن) ان پر کسی طرح کا خوف نہیں طاری ہوگا اور نہ وہ حزن وملال میں مبتلا ہونگے۔
ائے ایمان والو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام بد سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اس کوچھوڑدو اگر واقعی تم مومن ہو۔

توضیح : اس وقت مسلمان بے حد تنگ دست تھے۔ ہوسکتا تھا کہ سود لے کر ان میں تقسیم کرنے کا حکم دیا جاتا۔ مگرایسا نہیں کیا گیا اورماباقی سود لینے سے قطعاً روک دیا گیا (لہٰذا دور ِحاضر میں سود لے کر غریبوں میں تقسیم کردینے کی جو تجویز ہے وہ ہرآئینہ غلط ہے)

فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۝۰ۚ

پھر اگر تم (اس حکم پر) عمل نہ کروگے یعنی بقیہ سود نہ چھوڑوگے تو اللہ اوررسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔

وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۝۰ۚ

اور اگر تم توبہ کرلو( اور بقیہ سود چھوڑدو) تو تم کواصل رقم لینے کا حق ہے۔

لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ۝۲۷۹

نہ تم کسی پر ظلم کر پاؤگے اورنہ کوئی تم پر ظلم کر پائے گا۔

توضیح : تم سود لے کر دوسروں کا نقصان کرواورنہ اصل کوچھوڑکر اپنا نقصان کرو۔

وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ۝۰ۭ
وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۸۰

اوراگر مقروض تنگدست ہو(قرض ادا کرنے کے موقف میں نہ ہو) تومیسر ہونے تک مہلت دو (یعنی ادائی کے قابل ہونے تک مطالبہ نہ کرو)
اوراگر (قرض) معاف کردو توتمہارے لیے اور بھی بہتر ہے۔ اگر تم سمجھو (کہ تمہارے لیے اس میں کتنا خیر ہے)

توضیح :سود کے امتناعی احکام آجانے کے بعد تمہارے قلوب میں سودی کاروبار کا شائبہ نہ آنا چاہئے۔ چاہے تمہاری حالت کتنی ہی سقیم ہو۔

وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْہِ اِلَى اللہِ۝۰ۣۤ

ڈرو اس دن (کے نقصان) سے جس دن تم اللہ تعالیٰ کے پاس (محاسبہ اعمال کے لیے) لوٹائے جاؤگے۔

ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝۲۸۱ۧ

پھر ہر شخص کو اس کا کیا ہوا پورا پورا بدل ملے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائےگا۔
(کسی حاجت مند کو قرض دینا بھی انفاق فی سبیل اللہ کی ایک شکل ہے)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْہُ۝۰ۭ
وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ۝۰۠
وَلَا يَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ يَّكْتُبَ كَـمَا عَلَّمَہُ اللہُ فَلْيَكْتُبْ۝۰ۚ
وَلْيُمْلِلِ الَّذِيْ عَلَيْہِ الْحَـقُّ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ وَلَا يَبْخَسْ مِنْہُ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ

ائے ایمان والو یہ سلسلۂ قرض جب تم ایک مقررہ میعاد تک کے لیے کسی سے معاملہ کروتواس کو لکھ لیا کرو۔

اورکاتب کوچاہئے کہ تمہارے درمیان عدل وانصاف کیساتھ لکھے۔
اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھایا ہے اس کوچاہئے کہ(بلاعذر) لکھ دیا کرے۔
اور وہ شخص لکھوادے جس پر حق ہے (یعنی دستاویز کا لکھا دینا قرض دار کے ذمہ ہے) اور اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اوراس میں ذرہ برابر کمی نہ کرے (یعنی الفاظ معاہد میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرے۔)

فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْہِ الْحَـقُّ سَفِيْہًا
اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّـمِلَّ ھُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِــيُّہٗ بِالْعَدْلِ۝۰ۭ
وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ۝۰ۚ

پھر اگر وہ شخص جس پر حق ہے (یعنی قرض لینے والا) کم عقل ہو (اور ادائے مطلب پرقادر نہ ہو۔)
یاناتوان (ونحیف) ہو۔ یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تواس کا ولی( یا کارپرداز) ٹھیک طورپرانصاف سے لکھے۔

اوردستاویز لکھتے وقت تم میں سے دوافراد گواہ کرلیے جائیں۔

توضیح :یہ گواہ مسلمانوں میں سے ہوں کافروں میں سے نہ ہوں۔

فَاِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ
فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَاۗءِ

پھراگر گواہی کے لیے دومرد نہ ملیں۔
توایک مرد اوردو عورتیں جن پر فریقین کواعتماد ہو گواہ کرلیے جائیں۔

اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىہُمَا الْاُخْرٰى۝۰ۭ
وَلَا يَاْبَ الشُّہَدَاۗءُ اِذَا مَا دُعُوْا۝۰ۭ وَلَا تَسْــَٔـــمُوْٓا اَنْ تَكْتُبُوْہُ صَغِيْرًا اَوْ كَبِيْرًا اِلٰٓى اَجَلِہٖ۝۰ۭ
ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ وَاَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ
وَاَدْنٰٓى اَلَّاتَرْتَابُوْٓا
اِلَّآ اَنْ تَكُـوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِيْرُوْنَہَا بَيْنَكُمْ
فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا

تاکہ(کیونکہ) ان دونوں میں سے اگر ایک بھول جائے تودوسری یاد دلائے۔
اور گواہ بھی انکار نہ کریں، جب وہ بلائے جائیں ۔
اور تم اس (دستاویز) کے لکھنے میں جومعیاری ہوکاہلی نہ کرو۔ خواہ وہ (قرض) تھوڑا ہو یا بہت۔
اس طرح لکھ لینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک منصفانہ روش ہے اور صفائی معاملہ کے لیے درست طریقہ ہے۔
اور (شرائط ادائی میں) شک وشبہات کے پیدا ہونے کا بہت کم امکان ہے۔
الاّ اس کے کہ جو معاملت نقد اور ہاتھوں ہاتھ ہو۔

ایسی معاملت کے نہ لکھنے پر تم پر کوئی گناہ نہیں۔

وَاَشْہِدُوْٓا اِذَا تَبَايَعْتُمْ۝۰۠
وَلَايُضَاۗرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَہِيْدٌ۝۰ۥۭ

وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ۝۰ۭ

اور (تجارتی) معاملہ طے کرتے وقت گواہ کرلیا کرو۔
اور (اہل معاملہ کو چاہئے کہ) کاتب وگواہ کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائے ( کہ وہ ان کے مفادات کے خلاف صحیح شہادت دیتے ہیں۔
اور اگر تم ایسا کروگے (یعنی انھیں اذیت پہنچاؤگے) توتمہارے لیے یہ گناہ کی بات ہے۔

توضیح :یہاں فسق کی تعریف متعین ہوتی ہے یعنی جو لوگ پابند شریعت ہیں معاشرتی احکام میں کسی جز کی بھی نافرمانی کریں تواطاعت سے انحراف کی تعریف میں آئے گا اسی کو حق تعالیٰ فسق کہتے ہیں۔

وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ وَيُعَلِّمُكُمُ اللہُ۝۰ۭ

اوراللہ تعالیٰ سے ڈرو (یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام بد کو پیش نظر رکھو) اوراللہ تعالیٰ ہی تم کویہ تعلیم دیتے ہیں۔

وَاللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۲۸۲

وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ وَّلَمْ

اوراللہ تعالیٰ ہر شئے کی اصل وحقیقت کوجانتے ہیں۔(جانتے ہیں کہ تمہارے معاملات کی صفائی کن طریقوں سے ہوتی ہے۔)
اور اگر تم سفر پرہو(اورتم کوقرض کی ضرورت پیش آئے) اور تمہیں کاتب

تَجِدُوْا كَاتِبًا
فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ۝۰ۭ
فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا
فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ

وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ۝۰ۭ
وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ۝۰ۭ
وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝۲۸۳ۧ

بھی نہ مل سکے۔
تواپنی کوئی مملوکہ چیزقبضے کے ساتھ رہن رکھ کر قرض لو۔
پھر اگر تم ایک دوسرے پراعتماد کرلو۔
توجس پربھروسہ کیا گیا ہے (یعنی جن کے پاس امانت رکھی گئی) اس کوچاہئے کہ امانت بجنسہ لوٹادے۔
اوراللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے۔
اور شہادت کونہ چھپاؤ۔
جو اس کوچھپائے گا توبیشک اس کا دل گنہگار ہے۔
اللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔

لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ

جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے(اوربلاشرکت غیرے اسی کے قبضے وتصرف میں ہے۔)

وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ يُحَاسِبْكُمْ بِہِ اللہُ۝۰ۭ
فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

اورجوباتیں تمہارے دلوں میں ہیں تم اگر ان کوظاہر کرویا چھپائے رکھو اللہ تعالیٰ تم سے اس کا حساب لیں گے۔
پھر وہ جس کوچاہیں بخش دیں اور جس کو چاہیں عذاب دیں۔

توضیح :حق سبحانہ تعالیٰ کے قانون جزاء اور سزاء میں کوئی فرد خلق رائے ومشورہ دینے کا مجاز نہیں ہے۔

وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۸۴

اوراللہ تعالیٰ ہرچیز پرقادر ہیں۔

توضیح :کسی کی سفارش ومشورہ کے بغیر اپنے ذاتی علم کی بناء پر بندوں کی جزا وسزا کا فیصلہ کرنے پر پوری طرح قادر ہیں۔

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ
كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۝۰ۣ

(اصلاحِ عقیدہ وعمل کی) جو تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولؐ پرنازل کی گئی اس کو رسول بھی مانتے ہیں اور اہل ایمان بھی۔
سب کے سب اللہ تعالیٰ پراوراس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اوراس کے پیغمبروں پرایمان رکھتے ہیں۔

لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۝۰ۣ

(اورکہتے ہیں) ہم اسکے رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے۔

توضیح : سب پیغمبر ایک ہی دین لے کر تشریف لائے ہر رسول نے عقائد کی ایک ہی تعلیم دی۔ مختلف مذاہب جو رسولوں سے منسوب کردیئے گئے ہیں، غلط ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس کتاب میں عقائد کی وہی تعلیم ہے جو سابق سے رسول پیش کرتے آئے ہیں۔

وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۤۡ

غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ۝۲۸۵

اوران سب نے کہا ہم نے (احکام الٰہی کو)توجہ سے سنا اور ہم نے اطاعت قبول کرلی۔
ائے ہمارے پروردگار ہم آپ سے مغفرت مانگتے ہیں اورآپ ہی کی طرف لوٹ کرآنا ہے۔

توضیح : ایمان و عمل صالح کا مقصد نجات ومغفرت ہے۔مومن کا نصب العین رضائے الٰہی ہونا چاہئے۔

لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔

توضیح :ہرانسان میں حصول منفعت اور دفع مضرت کے لیے جدوجہد کرنے کا فطری ملکہ ہے۔ اس جدوجہدمیں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ اس کوبہ خوشی برغبت قلبی برداشت کرتا ہے۔ اور یہ صلاحیت ہرانسان میں ہے اسی کا نام وسعت نفسی ہے۔

لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۝۰ۭ

اس کو ثواب بھی اسی کا ملتا ہے جوارادے سے کرے اور اس پر عذاب بھی اسی کا ہوگا جو وہ ارادہ سے کرے۔

توضیح : جس نے کتاب وسنت کے مطابق اچھے کام کیے اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جس نے برے کام کئے اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا۝۰ۚ
رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَـمَا حَمَلْتَہٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا۝۰ۚ

رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ۝۰ۚ 

ائے ہمارے پروردگار ہماری بھول چوک اورہماری خطاؤں پرمواخذہ نہ کیجئے۔
ائے ہمارے پروردگار ہم پرایسے سخت احکام کا بار نہ ڈالیے جیسا کہ ہم سے پہلے کے لوگوں پر(ان کی سرکشی اورگناہوں کی پاداش میں) آپ نے ان پر ڈالا تھا۔
ائے ہمارے پروردگار ہم پرکوئی ایسا بار نہ ڈالیے جوہمارے لئے ناقابل برداشت ہو۔

وَاعْفُ عَنَّا۝۰۪ وَاغْفِرْ لَنَا۝۰۪ وَارْحَمْنَا۝۰۪
اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۸۶ۧ

اورہم سے (ہماری خطائیں) درگزرکیجئے اورہمیں بخش دیجئے اورہم پر رحم کیجئے۔
آپ ہی ہمارے کارساز ہیں لہٰذا کافروں کی قوم پر ہم کو نصرت عطا فرمائیے (غالب رکھئے)