☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الۗمّۗ۝۱ۚ

اللہ تعالیٰ کے نام (اسی کی مدد) سے جو رحمن ورحیم ہے ۔
ہم اس کام کا آغاز کرتے ہیں۔
ا،ل،م۔ یہ حروفِ مقطعات ہیں۔

اس طرح کے حروف قرآنِ مجید کی بعض سورتوں کے آغازمیں آئے ہیں۔ ان کا کوئی مفہوم رسول اللہ ﷺسے بواسطہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بہ اسناد صحیح منقول نہیں ہے۔ اپنے کشف کی بنا پر جن لوگوں نے ان حروف کے معنی بتلائے ہیں وہ ان کا ذاتی کشف اور رائے تو ہے لیکن اور وں کے لیے نہ حجت ہے نہ دلیل۔

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۝۰ۚۖۛ فِيْہِ۝۰ۚۛ

یہ وہ کتاب ہے (جس کے مُنَزِّل من اللہ ہو نے میں یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے نازل کئے جا نےمیں) کوئی شک وہ شبہ نہیں۔ (بےشک یہ اللہ تعالیٰ ہی کی کتاب ہے)

ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۲ۙ

(یہ کتاب) اللہ تعالیٰ سےڈر نے والو ں کے لیے رہنما ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اس میں جو سامانِ ہدایت ہے وہ تمام بنی آدم کے لیے ہے۔لیکن مُتَّقِیْن یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف درزی کے انجامِ بدسے ڈرنے والے ہی اس سے ہدایت پاسکتے ہیں ۔

الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ

( یہ متقین وہ لوگ ہیں) جو تمام اُمور غیبیہ پرمشاہد ہ کی طرح یقین رکھتے ہیں۔ (یعنی جوچیزیں ان کے حواس و عقل سے پو شیدہ ہیں ان کو اللہ ورسول کے فرمانے سےصحیح مان لیتے ہیں ۔ )

وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ

اور وہ نماز قائم رکھتے ہیں۔

بنیادی دعوتی کلمہ لاا لہٰ الااللہ کے مطابق جس میں اللہ تعالیٰ ہی کے الٰہ واحد معبود ومستعان، کا رساز و ہ حاجت روا ہونے کا ایک بندۂ مومن یقین واقرار کر تا ہے۔ اس اقرار کو مستحضـر رکھنے کے لیے بہ پابندیٔ اوقات بہ حالت ِنماز’’اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْن‘‘کے تحت مومن مشق بند گی کرتاہے۔ کلمہ اقرارِ بندگی ہے۔ نماز مشقِ بندگی ہے۔ کلامِ الٰہی دستورِ بندگی ہے ۔ محمدرسول اللہ ﷺ نمونۂ بندگی ہیں۔ صدیقیت۔ شہادت اور صالحیت مدارج بندگی ہیں۔جنت جزائے بندگی ہے اور نعمائے جنت انعاماتِ بندگی ہیں۔ اپنے ربِ اعلیٰ و عظیم کی طرف سے۔

وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳ۙ

اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، اسی میں سے (فی سبیل اللہ ) خرچ کر تے ہیں ( تنگیٔ معاش کو انفاق نہ کر نے کا بہا نہ نہیںبناتے )

وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ

اورجو کتاب آپﷺ کی طرف اتاری ہے اس پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتاب سمجھتے ہیں)۔

وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ

اور آپ ﷺسے پہلے جو کتابیں اتاری گیٔ تھیں اُن پر بھی یقین رکھتے ہیں۔

یعنی اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ آدم ؑ سے لے کر آخری رسولﷺ تک بندوں کی اصلاح کے لیے ایک ہی دین ۔ دینِ اسلام کی تعلیم نازل کی جاتی رہی ہے۔

وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۝۴ۭ

اوروہ آخرت پریقین رکھتے ہیں۔ (کہ اصلی زندگی آخرت کی زندگی ہے) یعنی وہ آخرت کے نفع ہی کو اصلی نفع اور وہاں کے ضرر ہی کو اصلی ضرر سمجھتے ہیں۔

وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۝۴ۭ

اوروہ آخرت پریقین رکھتے ہیں۔ (کہ اصلی زندگی آخرت کی زندگی ہے) یعنی وہ آخرت کے نفع ہی کو اصلی نفع اور وہاں کے ضرر ہی کو اصلی ضرر سمجھتے ہیں۔

اس یقین کا ثمرہ یہ ہے کہ ہر وہ کام جس میں نفع آخرت ہووالہانہ انجام دیتے ہیں اور جس کام میں ضرر آخرت ہے اس سے باز رہنے کے لیے پوری طرح کو شش کرتے ہیں۔

اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ ۝۰ۤ
وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں،
اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
جو لوگ کا فر ہیں (یعنی جن لو گوں نے مذکورہ با توں کا انکار کیا اور حضرت محمدﷺ کو اللہ تعالیٰ کا رسول نہ ما نا اور اپنی ضد پر اڑے رہے۔)

سَوَاۗءٌ عَلَيْہِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ
اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۶

آپ ﷺ کاانھیں نصیحت کر نا یا نہ کرنابرابرہے
وہ ایمان لانے والے نہیں(ان کے بارے میں حق تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ مرتے دم تک ایمان نہیں لائیں گے۔)

خَتَمَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ

(انکارِحق کی پاداش میں) اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب پر مُہر کردی ہے۔ (یعنی قبولیت ِ حق کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔)

وَعَلٰي سَمْعِہِمْ۝۰ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ۝۰ۡ

اور اُن کی سماعت پر اور ان کی بصارت پر پر دہ پڑا ہوا ہے ۔

وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۷ۧ

اور اُن کیے لیے سخت عذاب ہے۔

توضیح : اس کا اشارہ ان رؤ سائے قریش کی طرف ہے جن کے با رے میں رسالت مآب ﷺ کی تمنا تھی’’ کاش کہ یہ لوگ ایمان لے آتے‘‘ انکارِ حق کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُن کی سوجھ بوجھ پرمہر لگادی اور وہ عذابِ الٰہی کے مستحق ہوگئے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ۝۸ۘ

اُن لو گوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو (بظاہر) کہتے ہیں ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔

اور واقعہ ہے کہ حقیقت میں یہ لوگ مومن ہی نہیں ہیں۔
(مزید تشریح کے لیے سورۂ نور کی آیت پیشِ نظررکھی جا سکتی ہے۔ )

وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۝۰ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۴۷ (سورۂ نورآیت:۴۷ )
اور( یہ منافق) زبان سے دعویٰ کر تے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لے آئے اور اللہ رسول کا حکم (دل سے) مانا۔ پھر اس کے بعد اپنے ایمان کا عملی ثبوت پیش کر نے کا موقع آتا ہے یہ تو ان میںکا ایک گروہ عہدِ اطاعت سے سرتابی کر تا ہے یہ لوگ (دل میں) اصلاً ایمان نہیں رکھتے۔ یہ آیت اگر چہ کہ منافقین سے متعلق ہے۔ مگر ایمان کو پرکھنے کی اچھی کسوٹی بھی ہے)۔

يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۚ

یہ لوگ (اپنے زعم میں) اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھو کا دیتے ہیں۔

وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۹ۭ
فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۝۰ۙ

فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۝۰ۚ وَلَھُمْ
عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۰ۥۙ بِمَاكَانُوْايَكْذِبُوْنَ ۝۱۰
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى

مگر وہ اپنے سوا کسی کو دھو کا نہیں دیتے وہ خود ہی فریب میں مبتلا ہیں اور انھیں اس کا شعور تک نہیں۔
ان کے دلوں میں بیماری ہے (نہ تو انہوں نے اپنا بیمار ہو نا تسلیم کیا اور نہ علاج کی طرف توجہ دی جس کے نتیجہ میں)
اللہ تعالیٰ نے ان کے مرض کو اور بڑ ھا دیا اُن کے لیے درد ناک عذاب ہے ، اُس جھوٹ کی پا داش میں جو دہ بولتے تھے ۔
اور جب ان سے کہا جا تا ہے کہ زمین میں فساد مت کرو۔

الْاَرْضِۙ
قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۝۱۱

تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کر نے والے ہیں۔
(بہ زعم اصلاح فتنہ و فساد پھیلا تے رہتے ہیں ۔)

اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْ نَ
وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۝۱۲
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ

انھیں اس بات سے واقف ہو نا چاہئے کہ یقیناً وہی لوگ مفسد ہیں۔ لیکن انھیں( اپنے مفسد ہو نے کا ) شعور وادراک تک نہیں ہے۔
اور جب ان سے کہا جا تا ہے جس طرح اور لوگ (صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم) ایمان لائے ہیں ، تم بھی اسی طرح ایمان لاؤ۔

قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَہَاۗءُ۝۰

تو وہ کہتے ہیں کیا ہم اُن بےوقوفوں کی طرح ایمان لائیں۔
مطلب یہ کہ وہ اپنی دانست میں آ خرت کے نفع کی خاطر دنیوی نفع سے دست بردار ہو نے کو بے و قوفی سمجھتے تھے۔

صحابہ کرام کا یہ حال تھا کہ ایمان لا تے ہی دنیوی نفع وضرر سے بےنیاز ہو جا تے تھے اور آخرت کے ضرر سے بچنے کے لیے دنیا کا بڑا نقصان بہ طیبِ خا طر برداشت کر لیتےتھے۔

اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَہَاۗءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ۝۱۳

انھیں آگاہ ہونا چاہئے کہ یہی (کفار ومنافقین) بے وقوف ہیں لیکن یہ سمجھتے نہیں۔ آخرت کے نفع ونقصان کی انھیںتمیز نہیں۔

( اس سے ثابت ہو ر ہا ہے کہ جس کےپیشِ نظراُخروی زندگی کا اصلی نفع و ضرر نہ ہو وہی دراصل سب سے بڑا بے وقوف ہے) (یہ لوگ اپنی منافقانہ روش کو اہلِ ایمان سے چھپا نا چا ہتے ہیں چنانچہ)

وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا۝۰ۚۖ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِہِمْ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ۝۰ۙ
اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُوْنَ۝۱۴

اورجب یہ لوگ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب تنہائی میں (اپنے جیسے) شیطانوں، منافق سرداروں میں جا تے ہیں انھیں کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ہی ساتھ ہیں۔
ہم تو ان (اہلِ یمان ) سے مذاق کر تے ہیں (اہل ایمان کے سامنے ہم نے اپنے مومن ہو نے کا جو قرار کیا ہے وہ تو ایک مذاق ہے ۔ ایمان ظاہرکر کے ہم انھیں بے وقوف بنارہے ہیں)

اَللہُ يَسْتَہْزِئُ بِہِمْ وَيَمُدُّھُمْ فِىْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَھُوْنَ۝۱۵

اللہ تعالیٰ بھی انکے ساتھ ویساہی برتاؤ کر رہے ہیں اور انھیں انکی سرکشی میں ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ وہ (اندھوں کی طرح ) بھٹکتے پھریں۔

مطلب یہ کہ جس طرح وہ بظاہر ایمان کا اظہار کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ دنیامیں اہلِ ایمان کے ہا تھوں ان کی جان ومال کی حفاظت کر تے رہتے ہیں ۔ اور ان کے یہ افعال انھیں نقصان نہیں پہنچا تے لیکن قیامت میں ان کانا مسلمان ہو نا ظاہر ہوجائے گا اور انھیں عذاب دیا جا ئے گا۔ جیسی کر نی ویسی بھرنی۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰى۝۰۠ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ
وَمَا كَانُوْا مُہْتَدِيْنَ۝۱۶
مَثَلُھُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًاۚ

فَلَمَّآ اَضَاۗءَتْ مَا حَوْلَہٗ

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمر اہی خریدلی ۔ یہ تجارت ان کے لیے سود مند نہ ہوئی

نہ وہ ہدایت یاب ہوئے ہیں۔
ان کی حا لت ایسے شخص کی سی ہے جس نے ( راہ معلوم کر نے کیلئے ) آگ جلائی۔ پھر جب اطراف واکناف کا حصہ روشن ہو گیا اور اس کی روشنی میں آگے بڑ ھنا چا ہا تو)

ذَھَبَ اللہُ بِنُوْرِہِمْ وَتَرَكَھُمْ فِىْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ۝۱۷

اللہ تعالیٰ نے اُن کی روشنی بجھادی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا۔(انھیں کچھ سجھائی نہیں دیتا )کہ کچھ نہیں دیکھتے۔

مطلب یہ کہ نفع دنیا دیکھ کر دین اسلام قبول کیا۔ ایمان لا کر روشنی حاصل کی پھر منافق بن کر روشنی کھو دی۔ دین کی ابتدائی مشقتیں بر داشت نہ کیں پھر کفر کی تا ریکیوں میں پھنس گئے اب اُن کے راہ یاب ہو نے کی توقع نہ ر ہی۔

صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَھُمْ لَايَرْجِعُوْنَ۝۱۸ۙ

(دینی اعتبار سے) یہ لوگ بہرے ہیں گونکے ہیں اند ھے ہیں اب وہ (کفرسے) نہیں لوٹیں گے۔

مطلب یہ ہے کہ سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کی جو صلا حیتیں انھیں دی گئی تھیں، انھوں نے ان سے کام نہ لیا اور نفاق پر اڑے رہے۔ اب ان کے ایمان لا نے کی امید نہ رہی۔

اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ

فِيْہِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ۝۰ۚ

یا( ان منا فقین کی مثال ایسی ہے) جیسے آسمان سے مو سلا دھار با رش ہور ہی ہو۔
اس میں اند ھیرے بھی ہیں اور گر ج وچمک بھی

يَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھُمْ فِىْٓ اٰذَانِہِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ۝۰ۭ

بجلی کے کڑا کے سے سہم کر موت کے خوف سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔

 بارش کی ابتدائی زحمتیں گوارہ کر لی جا تیں تواس سے ہو نے والے فائدے ازخود ظا ہر ہو جا تے لیکن منافقین ، اسلام کی ابتدائی زحمتوں سے اس طرح خوف کھا نے لگے جیسا کہ گرج اور بجلیوں سے لوگ خوف زدہ ہو تے ہیں۔

 وَاللہُ مُحِيْطٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ۝۱۹

ِِ اور اللہ تعالی کافروںکوہرطرف سے گھیرے ہو ئے ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ اپنے اعمال کی پادش میں حق تعالیٰ کے قانون انتقام کی گرفت میںجکڑے ہوئےہیں۔ عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکتے۔

يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ۝۰ۭ كُلَّمَآ اَضَاۗءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِيْہِ۝۰ۤۙ

 قریب ہے کہ بجلیا ں ( جو کوندر ہی ہیں ) ان کی بینائی چھین لی جائے۔ جب ان کے لیے روشنی ہوتی ہے یعنی اسلام سے ان کو فائدہ ہو نے لگتا ہے تو اس پر چلنے لگتے ہیں۔

وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَيْہِمْ قَامُوْا۝۰ۭ

اور جب ان پر اندھیرا چھا جا تا ہے (کسی حکم میں سختی محسوس کر تے ہیں) تو کھڑے ہو جا تے ہیں ۔

(یعنی تعمیل حکم سے گریز کر تے ہیں ، سمجھتے ہیں کہ ایک بلائے نا گہا نی نازل ہوئی) اسلام کی ابتدائی زحمتیں وہ بر داشت نہ کر سکے۔ اُس دور میں ایمان لا نا کچھ آسان نہ تھا۔ ان صورتوں میں ان کا نفاق کے ساتھ اسلام لا نا ہی مفید سمجھا گیا کہ کھلم کھلا مقابلے کے لیے میدانِ کا رزار میں آنے کی ہمت نہ کر سکتےتھے۔

وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِہِمْ وَاَبْصَارِہِمْ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۰ۧ

اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو ان کی سماعت و بصارت بالکل ہی سلب کر لیتے……..
بیشک اللہ تعالیٰ ہر با ت پر قادر ہیں۔

یعنی بڑے سے بڑا کام کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ عا جز یا بے بس ومجبور ہو نے کے نقص وعجزسے پاک ہیں۔
توضیح : یہاں تک بنی آدم کے تین گروہ متقین، منکرین ،منافقین کا ذکر تھا اس کے بعد عام خطاب شروع ہو رہا ہے جب بھی حق کی آوز بلند ہو تی ہے تو بنی آدم کے تین گروہ پیدا ہو تےہیں ۔ ایک حق کے مان لینے والے ،دوسرے حق کے منکر، تیسرے منافق۔ مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِک (سورۂ نساء آیت نمبر ۱۴۳) اہل ِایمان غالب آئے تو ان کا ساتھ دیا۔ اور اہلِ کفر کی ہوا چلی تو ان کے ساتھ ہو گئے۔

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۲۱ۙ

ائے لو گو! اپنے پر وردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے( یہ تعلیم اس لیے دی جا تی ہے ) تاکہ تم متقی بنو( عبادت برائے تقویٰ۔ بدلِ تقویٰ جنت۔ یہ نکتہ بھلا دیا گیا۔ آج عبادت برائے ثواب ہو گئی ہے چونکہ عبادت میں تقوے کا عنصر ہی نہیں ہے۔ اس لیے عبادت تو ہو رہی ہے مگر اصلاح نہیں ہو ر ہی ہے)

وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا

فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۝۰۠

وَادْعُوْا شُہَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ

اور اگر تم کو یہ شبہ ہو کہ جو کتاب ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ) پر نازل کی ہے وہ کلامِ الٰہی نہیں ہے (یعنی تم اس کتاب کو کسی انسان کی گھڑی ہوئی باتیں سمجھتے ہو ؟ )
تو تم اس کے مثل کوئی سورۃ بنالاؤ ( کیوں کہ تم فصحا ئے عرب ہو نے کا زعم رکھتے ہو، اور فصاحت وبلاغت میں کمال رکھتے ہو)
اگر تم سچے ہو تو اللہ تعالیٰ کے سوا(مدد کے لیے ) اپنے اُن لو گوں

اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۲۳
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ۝۰ۚۖ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ۝۲۴

کو(بھی) بلالو(جنھیںتم نے اپنا مستعان بنا رکھا ہے۔)
پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہر گز ہر گزتم (ایسا کلا م پیش) نہ کر سکو گے تو اس آگ سےڈرو جس کا ایندھن انسان ہوں گے۔ اور پتھر (یہ آگ حقیقت کا) انکار کر نے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے (وہ ایندھن پتھر کی طرح سخت ہوگا یا ہوسکتا ہے کہ وہ آگ پتھر ہی کی ہو)

ف۱: ف۱: سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۸۸ میں اس طرح وضاحت ہے: قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِيْرًا۝۸۸ ترجمہ: کہہ دیجئے اگر انسان اور جن جمع ہو کر اس قرآن جیسا بنا لا نا چاہیں تو اس کے مثل نہ لا سکیں گے خواہ وہ ایک دوسرے کے کتنے ہی مدد گار ہوں۔

وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

اور ائے پیغمبر! (محمدﷺ) ان لو گوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو ایمان لائے ( جنھوں نے اس کو کلامِ الٰہی ما نا، اور اس کی ہدایتوں کے مطابق) اعما لِ صالحہ انجام دیئے۔

اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۰ۭ

 اُن کیلئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ( وہ نہریں شہد، دودھ، شفاف پانی، لذیذوخوش ذائقہ رسیلے میوؤں کے رس کی ہونگی۔

یا وہاں تم جو چا ہو جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے۔ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَشْتَہِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَدَّعُوْنَ (سورہ حم سجدہ آیت ۳۱)اور وہاں جس نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گی۔ اور جو چیز طلب کروگے تمہارے لیے موجود ہوگی۔
وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ (سورۃ المطففین آیت ۲۶)ایسی ہی مسرور وشادماں زندگی کی حرص کرنی چاہئے۔

كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْہَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا۝۰ۙ قَالُوْا ھٰذَا الَّذِىْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ۝۰ۙ وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِہًا۝۰ۭ

اور اس کے علا وہ وہاں اُن کے لیے طاہر وطیب بیبیاں ہوں گی ( طاہر وطیب سے مراد ایام ما ہواری و بول وبراز سے پاک ہوں گی۔ اور ان کے پسینے میں بو نہ ہوگی) اور وہ اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔

وَلَھُمْ فِيْہَآ اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ۝۰ۤۙ وَّھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۵

اور اس کے علا وہ وہاں اُن کے لیے طاہر وطیب بیبیاں ہوں گی ( طاہر وطیب سے مراد ایام ما ہواری و بول وبراز سے پاک ہوں گی۔ اور ان کے پسینے میں بو نہ ہوگی) اور وہ اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔

اِنَّ اللہَ لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَـمَا فَوْقَہَا۝۰ۭ

(تمہارے سمجھا نے کے لیے ) ایک مچھر یا اس سے بھی کمتر چیز کا بیان کر نا اللہ تعالیٰ کے لیے نہ عار ہے اور نہ شانِ الٰہی کے منافی۔

فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ

لہٰذا اہلِ ایمان جانتے ہیں کہ ( نصیحت کے لیے ہر قسم کی چھو ٹی بڑی) جو بات بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کی جا تی ہے حق ہے (اس سے ان کے دلوں میں کوئی شک وشبہ پیدانھیں ہوتا)

وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا۝۰ۘ

اور جو منکرین حق ہیں( حق تعالیٰ کی شانِ ہدایت سے واقف نہیں ہیں) وہ کہتے ہیں ایسی حقیر مثالیں بیان کر نے سے اللہ تعالیٰ کا کیا منشا ہے؟

توضیح : مذکورہ آیت اِنَّ اللہَ لَا يَسْتَحْىٖٓ ___ الخ کی شانِ نزول کے تعلق سے علامہ سیوطی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب میں کئی مستند اقوال نقل کئے ہیں۔ اور آخر میں اس قول کو سب سے زیادہ مستند اور قابل ترجیح قراردئیے ہیں ۔ جس کو توضیح : مذکورہ آیت اِنَّ اللہَ لَا يَسْتَحْىٖٓ ___ الخ کی شانِ نزول کے تعلق سے علامہ سیوطی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب میں کئی مستند اقوال نقل کئے ہیں۔ اور آخر میں اس قول کو سب سے زیادہ مستند اور قابل ترجیح قراردئیے ہیں ۔ جس کو ’جریر ‘ نے نقل کیا ہے ۔ فرما تے ہیں ۔ جب مَثَلُھُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا۔الی آخرہ۔ (سورہ بقرہ آیت ۲۷)اور اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيْہِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ (سورہ بقرہ آیت ۱۹) یہ دو نو ں آیتیں نازل ہوئیں تو منافقین نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کی حقیر مثالیں دینے سے بے نیاز ہے۔ ایسی مثالیں دینا اس کے لیے زیب نہیں دیتا ۔ لہٰذا یہ مثالیں جس میں ہوں وہ کلام الٰہی نہیں ہو سکتا۔ اس پر یہ آیت اور اس کے بعد کی آیت یعنی سورہ بقرہ کی ۲۶ و۲۷ کی دو آیتوں کا نزول ہوا( حوالہ کتاب النقول فی اسباب النزول)

يُضِلُّ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۙ وَّيَہْدِىْ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۭ

وَمَا يُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ۝۲۶ۙ

الَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِہٖ

اس ( مثال) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بہت سے لو گوں کو ( جو خود پسند ہو تے ہیں) گمراہی میں مبتلا رکھتے ہیں۔ یعنی ان کو ان کی اپنی گمراہی کی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اور بہت سےلوگوں کو راہ ِہدایت دکھا تے ہیں۔
ان مثالوں سے وہی گمراہ ہو تے ہیں جو نا فر ما ن ہیں (یعنی جنھیں حکم وہدایت الٰہی کی پابندی پسند نہیں اور جو الٰہی تعلیم کے مطابق زندگی گزارنی نہیں چاہتے۔)
جو لوگ اللہ تعالیٰ سے اقرار کر نے کے بعد عہد(بندگی) کو تو ڑدیتے ہیں۔

وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ
وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ

اور ان باہمی تعلقات کو بگاڑ لیتے ہیں جن کو قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
اور زمین پر فساد مچاتے ہیں یہ لوگ انتہائی خسارہ اٹھانے والے ہیں

ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۲۷

(ایسا خسارہ جس کی تلافی ممکن نہیں )

كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا
فَاَحْيَاكُمْ۝۰ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ
ثُمَّ اِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۸

آخر تم کس طرح (کس دلیل کی بنیاد پر ) اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہو ۔ حالانکہ تم مرُدہ تھے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو زندہ کیا پھر وہ تم کو مردہ کر دے گا۔ اور پھر وہی تم کو دوبارہ زندہ کرے گا۔
پھر(محاسبۂ اعمال کیلئے) تم سب اللہ تعالیٰ ہی کے حضور پیش کیے جاؤگے۔

ھُوَالَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۝۰ۤ

اُسی نے زمین کی ساری چیزیں تمہاری ضرورت پوری کرنے کیلئے پیدا فرمائیں۔

ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ۝۰ۭ
وَھُوَبِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ۝۲۹ۧ

پھر نظامِ سماوی کی طرف توجہ فر مائی پھر سات طبق آسمان بنائے۔

اور و ہی ہر شے کا علم رکھتے ہیں(ہر چیز کی کہنہ و حقیقت سے واقف ہیں جانتے ہیں کہ تم کو کن کن چیزوں کی ضرورت ہے اور تمہاری فطری حاجتیں کیا ہیں)

تمہید: انسانی حا جتوں میں سب سے اہم حاجت’’علم وہدایت ‘‘ کی ہے جس کے بغیر انسان مخلوقاتِ ارضی وسماوی سے ٹھیک طور پر استفادہ نہیںکر سکتاہے اور نہ اپنے نفع و خسران ابدی کو جان سکتاہے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کی اس اہم ضرورت کو بخوبی جانتے ہیں۔ اس لیے انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اسے علم و ہدایت کی نعمت سے سرفراز فر ما یا۔ چنانچہ وہ واقعہ بیان کیا جاتاہے۔

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۝۰ۭ

قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ۝

اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین پر اپنا ایک خلیفہ بنا نے والا ہوں۔
(خلیفہ و نا ئب وہ ہے جو کسی کی مِلک میں اس کے تفویض کر دہ اختیارات کا استعمال بادشاہ یا مالک کی مرضی کے مطابق کرے)
فرشتوں نے (تعجب سے ) عرض کیا ۔ کیا آپ (زمین پر) ایسےکو (خلیفہ) مقرر فرماتے ہیں جو اس میں فتنہ و فساد پھیلائیگا اور خوں ریزی کریگا۔

وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ۝۰ۭ

حا لانکہ ہم آپ کی تسبیح و تقدیس کر تے رہتے، ہیں۔ (لہٰذا ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں )

قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۳۰

( اللہ تعالیٰ نے) فرمایا میں جانتا ہوں (جس کو ) تم نہیں جانتے (یعنی خلیفہ بنا رہا ہوں تو علم وہدایت سے سرفراز بھی کروں گا)

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّہَا

ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَۃِ۝۰ۙ فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۳۱

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑکو تمام اسماء کا علم سکھایا (اسمائے کونیہ واسما;ئے الٰہیہ یعنی کائناتِ ارضی کی اشیاء ان کے نام آثارو خواص اور ان کا استعمال وغیرہ اور یہ علم اولاد ِ آدم کو بو اسطۂ آدم دیاگیا۔ اسی طرح بچے کو والدین ہی اشیاءکاعلم اور ان کا استعمال سکھا تے ہیں۔)

پھر وہ ساری اشیا ء ان فرشتوں کے سامنے لائی گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا(اگر تمہارا خیال صحیح ہے کہ خلیفہ کے تقرر سے فساد فی الارض بر پا ہو گا یا یہ سمجھتے ہو کہ تم کو زیادہ علم ہے تو ) ان اشیاء کے نام(اور ان کے خواص وآثار) بتلادو۔ اگر تم سچےہو ۔

قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۝۰ۭ

اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۝۳۲

تو فرشتوں نے (اپنی کم علمی کا اعتراف کیا اور) کہا آپ پاک ہیں (آپ ہر طرح کے نقص وعجزوا عتراض سے پاک ہیں) ہم اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا کہ آپ نے ہمیں سکھایا۔
بے شک آپ ہی العلیم ہیں ۔ اپنی مصلحت جانتے ہیں کہ (آدمؑ کو پیدا کرنے میں کیا حکمت و مصلحت ہے) یقیناً آپ ہی الحکیم ہیں( یعنی آ پ ہی کی ساری تجاویز حکیمانہ ہیں۔ کوئی غیر حکیم الحکیم کو کیوں کر رائے وہ ومشورہ دے سکتاہے؟ خالق اور مخلوق میں ذرہ برابرکی برابری کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا)

قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ۝۰ۚ

اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں کے روبرو) فر مایا: ائے آدم انھیں ان اشیاء کے نام ( مع خواص و آثار) بتلادو۔

فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ۝۰ۙ

قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ

پھر جب آدم ؑ نے ان سب اشیاء کے نام (مع خواص وآثار) بیان کردیئے،
اللہ تعالیٰ نے ( فرشتوں کو مخاطب کرکے) فرمایا۔ کیا میں نے تم سے نہ کہا

غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۙ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ۝۳۳

تھا کہ میں ارض وسماوات کے امورِغیبیہ کا جاننے والاہوں، اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کر تے ہو اور جو کچھ تم چھپا تےہو( سب کا علم مجھے ہے) یعنی آدمؑ کی تنقیص اور اپنی تقدیس وبر تری دونوں ہی علم کی بنیادوں پر نہ تھے اور یہ کہ کون اس منصب جلیلہ کے لیے زیادہ اہل ہے۔فرشتوں نے پشیمانی کے ساتھ اپنی لا علمی کا اعتراف کرتے ہوئے للہ تعالیٰ کی تسبیح کی کہ اللہ تعالیٰ آپ ہر طرح کے اعتراض نقص و عجزسے پاک ہیں۔)

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ

فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ۝۰ۤۡ
وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۝۳۴

اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کے آگے جھک جائو( ان کی برتری مان لو)
( اس واقعہ میں یہ حقیقت پنہاں ہے کہ تسبیح وتقدیس سے افضل’’ علم‘‘ ہے۔) لہٰذا (حکم الٰہی کو سنتے ہی) ابلیس کے سواسب سجدے میں گر پڑے (شیطان نے سجدہ کر نے سے) انکار کیا اور اپنے کو بڑا جانا۔
اور کافروں میں سے ہو گیا۔
( یہاں کفر کی توضیح ہو رہی ہے ۔ ابلیس نے تو اللہ تعالیٰ کا انکار کیا اور نہ فرشتوں وغیرہ کا بلکہ اپنی ذلّت کے خیال سے تعمیل حکم سےاعراض کیا جس کی پاداش میں کافر قرار دیا گیا۔ احکامِ الٰہی کی تعمیل سے گریز ،خود پسندی، انکار، کفرہی کے درجات ہیں۔)

وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّۃَ وَكُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا۝۰۠ وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ

اور ہم نے آدمؑ سے کہا تم اور تمہاری بیوی جنّت میں رہو اور اس میں تم دونوں جس جگہ سے چا ہو با فراغت کھائومگر دیکھو اس ایک درخت کے نزدیک نہ جا نا ۔

فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ۝۳۵

ورنہ تم (اپنے نفس پر) ظلم کر نے والوں میں سے ہو جا ئوگے۔

فَاَزَلَّہُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْہَا

پس شیطان نے ( اس درخت کے تعلق سے) انھیں بہکا دیا۔ ( اس کا ثمرہ کھا نے کے ترغیب دی وہ حضرات اس کی چکّر میں آگئے)

فَاَخْرَجَہُمَا مِـمَّا كَانَا فِيْہِ۝۰۠
وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۝۰ۚ

لہٰذا شیطان نے انھیں اس ( عیش) سے جس میں کہ وہ تھے نکلواکر چھوڑا۔
اور ہم نے حکم دیا۔ تم سب یہاں سے( نیچے) اُتر جا ئو۔ تم میں سے بعض بعض کے دشمن رہیں گے۔

وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُّسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۝۳۶

اور تمہارے لیے زمین عارضی مستقرقرار دی گئی۔جہاں ایک وقت مقررہ تک رہنا اور اس سے متمتع ہو نا ہے ۔

توضیح : آدم علیہ السلام اپنی غلطی پر نادم ہوئے ۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کیا جائے؟ اللہ تعالیٰ نے بہ شان ربوبیت معا فی مانگنے کا طریقہ اور کلماتِ عفو و در گزر القا فر مائے۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا ۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (سورۂ الاعراف آیت: ٢٣) دونوں عرض کر نے لگے ائےہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اگر آپ ہمیں نہ بخشیں اور ہم پر رحم نہ فرمائیں تو ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے ۔

فَتَلَـقّٰٓي اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ كَلِمٰتٍ
فَتَابَ عَلَيْہِ۝۰ۭ

اِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۳۷

لہٰذا آدم ؑ نے اپنے رب سے چند کلمات حاصل کرلیے اور توبہ کی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے( رحمت کے ساتھ) تو بہ قبول فر مالی ۔ (یعنی رحمت کے ساتھ خصوصی توجہ فر مائی)
بے شک وہی توبہ قبول کر نے والے رحم کر نے والے ہیں۔

قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا جَمِيْعًا۝۰ۚ
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى

ہم نے کہا تم سب یہا ں سے اُتر جائو
میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت( بہ شکل وحی ورسالت آتی رہیگی۔)

فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۳۸

لہٰذا جو میری ہدایت کی پیروی کرےگا تو ایسے لوگوں پر نہ کسی قسم کا خوف ہی ہو گا اور نہ رنجیدہ ہوں گے۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ

اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا
خٰلِدُوْنَ۝۳۹ۧ

اور جن لوگوں نے انکار کیا(ہدایاتِ الٰہی کو قبول نہ کیا ) اور ہمارے احکام کوجھٹلا دیا( یعنی من مانی زندگی گزار ی)
وہ سب دوزخ میں جا نے والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔

نوٹ: اس واقعہ میں ایک سبق تو یہ ہے کہ شیطان انسان کا دشمن ہے اور اس کی دشمنی یہ ہے کہ بنی آدم کو جنّت سے محروم کردیناچاہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ گناہ کر کے اس کو اچھا سمجھنا شیطانیت ہے، آدمیت یہ ہے کہ گناہ کو برا سمجھے اور گناہ ہو تے ہی اللہ تعالیٰ سے معا فی مانگے۔ تیسرا یہ کہ طلب مغفرت کے بعد مغفرت کی امید ر کھے۔
ان آیات میں ہدا یاتِ الٰہی کے مطابق زندگی گزار نے اور ہدایاتِ الٰہی سے اعراض کے نتائج بیان کئے گئے ہیں۔یہ حقیقت بھی واضح کی گئی ہے کہ انسان ابتدائی آفرینش سے اس نعمت( نعمت ِدین ۔ دین اسلام)سے نوازا جا تا رہا ہے خصوصی طور پر جن خاندانوں میں یہ نعمت نازل کی گئی تھی انھیں مخاطب کیا جا رہا ہے۔

يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ

وَاَوْفُوْا بِعَہْدِىْٓ

اُوْفِ بِعَہْدِكُمْ۝۰ۚ

ائے بنی اسرائیل میری اس نعمت(نعمت ِدین) کو یاد کرو( مستحضر رکھو) جس سے میں تمھیں نواز تا رہا۔ اور (توریت میں) میں نے تم سے جو عہد لیا ہے اس کو پورا کرو( عہد یہ تھا کہ جو بھی نبی آتے رہیں گے اور جو کتاب نازل ہوتی رہے گی اس پر ایمان لائو گے اب ایفائے عہد کا وقت آگیا ہے اس عہد کو پورا کرو)
میں بھی تم سے کیے ہوے اپنے وعدۂ مغفرت کو پورا کروںگا۔ 

لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَـيِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَـنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ  ( سورہ مائدہ آیت:۱۲)
ترجمہ: میں تم سے تمہاری برائیاں دور کروںگااور تم کو ایسی جنت میں داخل کروں گا جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی(جس کا نہایت ہی دل خوش کن منظر ہوگا)

وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ۝۴۰

مجھ سے ہی ڈر تے رہو۔( اپنی مذہبی پیشوائی وبر تری ختم ہو جا نے اور ذرائع معاش مسدود ہو جا نے کے اندیشے سے وعدے کی خلاف ورزی نہ کرو۔ کیوں کہ خلاف ورزی کا انجام جہنم ہے)

وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ

وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍؚ بِہٖ۝۰۠

وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰــتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝۰ۡ

اور میں نے جو کتاب نازل کی ہے اس کو( کلامِ الٰہی) مان لو کیوں کہ جو کتاب تمہارے پاس ہے یہ اس کی تصدیق کرتی ہے۔
( یعنی اس میں وہی اصولی تعلیم ہے جو تمہاری کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔)
اور سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جائو۔
( اس کتاب کے برحق ہو نے کی علامتیں تمہا رے پاس لکھی ہوئی ہیں)
اور چند ٹکوں کی خاطر میرے احکام (میں تحریف کر کے اس کے بدلے دنیوی) حقیر منفعت حاصل نہ کرو۔

وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ۝۴۱

 

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۴۲

اور مجھ ہی سے ڈرو یعنی میرے غضب سے بچو( وعدے کی خلاف ورزی نہ کرو۔)
بنی اسرائیل کو ڈر یہ تھا کہ آخری رسول محمدﷺ کو مان لینے سے ان کی اپنی قدرومنزلت جاتی رہے گی اور عقیدت مندوں سے جو نذرا نے ملتے تھے وہ ختم ہو جائیں گے۔
اور حق کو باطل سے نہ ملا ئو یعنی حق کو مشتبہ نہ بنائو اور حق بات کو نہ چھپا ئو اور تم جانتے ہو ( کہ اس کا بُرا انجام ہے)

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ
وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ۝۴۳

اورنماز قائم کرو۔ اورزکوٰۃ دو۔
اور ( اللہ تعالیٰ کے آگے) جھکنے والوں کےساتھ جھک جا ئو یعنی نماز باجماعت ادا کرو ( ایمان والوں کا ساتھ دو)

اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ
وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۴۴

کیا( یہ عقل کی بات ہے کہ ) تم دوسروں کو تونیکی پرابھار تے ہو۔ اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو(اپنی ہی خبر نہیں لیتے)
حالانکہ تم اپنی کتاب( توریت) میں پڑھتے ہو کہ ( یہ رسولﷺ اور کتاب بر حق ہے) کیا پھر بھی اتنا نہیں سمجھتے (کہ حق سے پہلو تہی کا کیا انجام ہے)

توضیح : م ہی تو تھے جو لوگوں سے بیان کرتے تھے کہ ایک آخری رسول اور ایک آخری کتاب آنے والی ہے جن پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ لیاہے۔ تم جس نیک بات پرایمان لا نے کی تر غیب دوسروں کو دیتے تھے۔ جب اس پر عمل کر نے کا وقت آگیا تو خود ہی کو بھول بیٹھے ۔ دنیا کو دین پر ترجیح دی اور ایسا رویہ اختیار کیا جو کفر ہے  وَوَيْلٌ لِّلْكٰفِرِيْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيْدِۨ۝۲ۙ الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَۃِ __(سورہ ابراہیم آیت :۳)
ترجمہ : یہ اللہ تعالیٰ کا عذاب شدید ان لا گوں کے لیے نہایت ہی تباہ کن ہے جو الٰہی تعلیمات کا انکار کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دی ۔ اور محبوب و مطلوب بنا رکھا۔

وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ

اور ہر طرح کی مصیبت میں ( الٰہی تعلیم کے مطابق) صبر ونماز کےذریعہ اللہ تعالیٰ ہی سےمدد مانگو۔

وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ

اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ۝۴۵ۙ

( استعانت غیر اللہ کے اپنے مجوزہ طریقوں سے باز آئو)
اور ( واقعہ یہ ہے کہ) اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی ان لوگوں پر گراں گزرتی (جن کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقربّ بندوں سے عقیدت و نسبت ہی نجات کا ذریعہ ہے)
لیکن اس کے بر خلاف جن لوگوں کے دل خوفِ الٰہی سے معمور رہتے ہیں، ان پر گراں نہیں۔

(کیونکہ وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ نجات ِ اُخروی کا انحصار صحیح عقیدے وعمل پر ہے۔ الٰہی و نبوی تعلیم پر کما حقہ عمل کے بغیر مغفرت حاصل نہیں ہوتی)

الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ
وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۴۶ۧ

اور ان کے لیے بھی گراں نہیں ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یقیناً( محاسبۂ اعمال کے لیے ) اُن کو اپنے پروردگار سے ملنا ہے۔
اور وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں (اور اپنی نیکیوں کا بدل پا نا ہے یہی ایک خیال انھیں نیکیوں پر اُ بھار تا اور جوش و خروش کے ساتھ سرگرم عمل رکھتا ہے ۔)

توضیح : دونوں طرح کے خیال خوف ورجا ء (خوف وامید) ہی اعمال کو سنوار نے کاذریعہ ہیں ۔ یہی کامل ایمان کی علامت ہے۔

يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ

وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝۴۷

ائے بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کی اس نعمت دین کو مستحضر رکھو جو میں نے تمھیں عنایت کی (تمہارے ہی خاندان میں نبوت ورسالت کا سلسلہ جاری رکھا۔)
اور میں نے تم کو سارے عالم پر فضیلت بخشی تھی۔

وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا

اور (محاسبۂ اعمال کے) اُس دن سے ڈرو جس دن کے شدائد سےکو ئی شخص کسی کو بچا نہ سکے گا۔

وَلَا يُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ۝۴۸

اور نہ کسی کی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ کسی طرح کا معاوضہ لیا جا ئے گا اور نہ وہ کسی اور طرح سے مدد حاصل کر سکیں گے ۔

توضیح : نی اسرائیل نجات کے تعلق سے ان ہی باطل عقائد میں مبتلا تھے کہ شدائد آخرت سے کوئی نہ کوئی بچا لے گا۔ کسی مقرب بندۂ الٰہی کے شفا عت یا نسبت سے نجات ہو جائے گی، چا ہے عقیدہ وعمل کتنا ہی خراب ہو۔
( اس کی تردید مذکورہ آیات میں حق تعالیٰ نے فر ما دی آج اُمت ِمسلمہ انھیں با طل عقا ئد میں گرفتار ہے۔ لہٰذا اُمت کی اصلاح کا طریقۂ کار یہی ہے کہ اولاً مذ کو رہ باطل و مشر کا نہ عقائد کی اصلاح کی جائے)

وَاِذْ نَجَّيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ

( ائے بنی اسرائیل یعنی اولادِ یعقوب ہما راوہ احسان بھی پیشِ نظر رکھو) جب کہ ہم نے تم کو فرعونیوں کے مظالم سے نجات دی۔

يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ
نِسَاۗءَكُمْ۝۰ۭ 

وَفِىْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ۝۴۹

جنھوں نے تم کو بڑی ذلّت ورسوائی میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تمہا رے بیٹوں کو ذبح کئے دیتے تھے۔
اور تمہاری لڑکیوں کو خدمت (اور عیاشی کا آلۂ کار بنانے کے لیے) زندہ رہنے دیتے تھے۔
اور اس میں تمہارے پر وردگار کی طرف سے بڑی سخت آزمائش تھی۔ 

وَاِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَيْنٰكُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۰

وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓى اَرْبَعِيْنَ لَيْلَۃً

اور ( وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب کہ ہم نے تمہا رے لیے در یا کو پھاڑ کر راستہ بنا دیا۔ پھر تم کو نجات دی ( دریا کے پار اُتارا) اور فرعونیوں کو غرقِ در یا کر دیا اور تم ( انھیں) دیکھ رہے تھے یعنی یہ سب کچھ تمہارے آنکھوں کے سامنے ہو تا رہا تھا۔
(اس طرح ہم تو تمہاے حال پر متوجہ رہے) ؎
وہ عطا کر تا رہا اور تم خطا کر تے رہے
اور (وہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے) جب کہ ہم نے موسیٰؑ سے چالیس راتوں کا وعدہ لیا ( اور میقات پوری کر نے کہ لیے کو ہِ طور پر بلا یا)

ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِہٖ

وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۵۱

پھر تم نے ، ان کے بعد یعنی ان کے غیا ب میں گو سالہ پرستی شروع کردی( یعنی گائے کا بچھڑا پو جنے لگے)
اور واقعی تم بڑے ہی ظالم ( نافرمان )ہو۔

ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۵۲

اس واقعہ کے بعد بھی ہم نے درگزر سے کام لیا یعنی تمہیں معاف کر دیا تاکہ تم ( فر ما نبردار بنو) اپنے رب کا شکر ادا کرو۔

وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۝۵۳

اور( ہما را وہ احسان یاد کرو) جب کہ ہم نے( تمہا ری ہدایت کے لیے) موسیٰؑ کو ایک( ایسی) کتاب دی جو حق و باطل میں کسوٹی کی حیثیت رکھتی تھی تاکہ تم ہدایت پائو ۔

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِہٖ يٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰى بَارِىِٕكُمْ
فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ
ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىِٕكُمْ۝۰ۭ

اور جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا ، ائے میری قوم کے لو گو یقیناً تم نے گو سا لہ پرستی کے ذریعہ اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ( اس کی تلافی کی ایک ہی شکل ہے ) اپنے پروردگار کے آگے توبہ کرو۔
اور اپنے کچھ لو گو ں کو ( جو شرارتوں میں پیش پیش تھے) قتل کردو۔
یہ طریقۂ کا رتمہارے پیدا کرنیوالے کے نزدیک تمہارے لیے بہتر ہے۔

فَتَابَ عَلَيْكُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۵۴

پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر توجہ کی( یعنی تم پر مہر با نی کی) اور توبہ قبول کی۔ بےشک وہ بڑے ہی معاف کرنے رحم فرمانے والے ہیں۔

توضیح : جب اس طرح گو سالہ پرستی کا قصہ ختم ہوا تو موسی علیہ السلام نے کتاب تو راۃ کی وہ تختیاں جو انھیں کوہ طور پر چالیس راتوں کی میقات پوری کرنے کے بعد ملی تھیں جس میں ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھی ہوئی تھی اس کے احکام آپؑ نے اپنی قوم کو سنا ئے ۔انھیں شبہات پیدا کر نے کی عادت تھی کہا کہ ہم کو کیسے معلوم ہو کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ خود اللہ ہی کہہ دیں توہم یقین کریں گے۔ حضرت موسیٰؑ نے قوم کا معروضہ ربّ العزت کے پاس پیش فرمایا۔ حکم ہوا کہ ان میںکے کچھ آدم جن کو یہ معتبر سمجھتے ہیں کو ہ طور پر لائے جائیں۔ ہم خودان سے کہہ دیں گے کہ یہ ہمارے ہی احکام ہیں۔ چنانچہ موسیٰ ؑ قوم کے ستر(۷۰)منتخب اشخاص کے ساتھ وقت معینہ پر پہنچ گئے۔ اور اللہ تعالیٰ کا کلام سنا۔ پھر ایک شوشہ یہ چھوڑا۔ کہنے لگے خدا جانے کون بول رہا ہے۔ اس قسم کی شرارتیں کیا کرتے تھے۔ اب اسی کا ذکر ہے۔

وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللہَ جَہْرَۃً

(ائے بنی اسرائیل تمہیں وہ واقعہ یاد ہے؟) جب کہ تم نے (موسیٰ سے) کہا تھا۔ ائے موسیٰ ہم ہر گز آپ کی بات کا یقین نہیں کریں گے (کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے) تاآنکہ صاف طور پر اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ (اس گستاخانہ عمل پر)

فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۵

توتم کو بجلی کے کڑاکے نے آلیا( تم پر موت طاری ہوگیٔ)اور تم دیکھ رہے تھے۔

ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ

(اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا کہ) تمہاری موت کے بعد پھر تمہیں زندہ کیا۔

لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۵۶

تا کہ تم احسان مانو (اور اپنی شرارتوں سے باز آجائو) (ائے بنی اسرائیل تم کو ہمارا یہ احسان بھی یاد ہوگا؟ فرعونیوں کے غرقِ دریا کیے جانے کے بعد جب تم بیا با نوں میں سر گرداں تھے۔کھانے پینے اور دھوپ سے بچنے کا کوئی سامان نہ تھا)

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى۝۰ۭ

 اور ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا۔ اور ( کھانے کے لیے ) من وسلو یٰ اتارا (من) گو ند جیسا شہد کی طرح میٹھا حلویٰ’’ سلویٰ‘‘ بٹیر کی طرح پر ندے بھیجتے رہے۔

كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ۝۰ۭ

وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ۝۵۷
وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ھٰذِہِ الْقَرْيَۃَ

فَكُلُوْا مِنْہَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا
وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا

(اور کہا) یہ ہماری عطا کی ہوئی اچھی غذائیں کھا تے رہو۔ (مگر تم نے اس کی بھی قدر نہ کی)
اور وہ ہمارا کیا بگاڑ تے ۔ لیکن وہ اپناہی نقصان کیا کرتے رہے۔

اورجب ہم نے ان سے کہا ( اگر تم من سلویٰ کے سواکوئی اور چیز چاہتے ہو تو) اس بستی میں داخل ہو جائو۔
پھر اس میں سے جہاں سے چا ہو مر غوب غذائیں کھائو (پیو) اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے(عاجزانہ انداز سے) شہر کے دروازے سے داخل ہو جائو۔

وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰيٰكُمْ۝۰ۭ
وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۵۸

اور حِطَّۃٌ (یعنی حق تعالیٰ ہما رے گناہ معاف فرمادیجئے) کہتے جا ئو تو ہم تمہاری خطائوں کو معاف کردیں گے۔
اور ہم تو نیکوں کا روں کو زیادہ سے زیادہ(انعامات سے) سر فراز کرتے رہیں گے۔

فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِىْ قِيْلَ لَھُمْ

تو ظالموں نے مذکورہ لفظ جس کا انھیں حکم دیا گیا تھا، بدل کراس کی جگہ ایک اور لفظ کہنا شروع کیا۔

فَاَنْزَلْنَا عَلَي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا
رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ۝۵۹ۧ

تو ہم نے اُن ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا ۔
کیو نکہ وہ (مسلسل) نا فر ما نیاں کیے جا رہے تھے۔

وَاِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِہٖ

فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ۝۰ۭ
فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَيْنًا۝۰ۭ
قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ۝۰ۭ

اور (ائے بنی اسرائیل ہمارا وہ احسان بھی یاد کرو) جب مو سیٰؑنے اپنی قوم کے لیے پا نی مانگا۔
ہم نے (موسیٰؑسے ) کہا کہ اپنا عصاء پتھر پرمارو۔
چنانچہ( عصاء کا پتھر پر مار نا تھاکہ) اس میں سے پانی کے بارہ چشمے (معجزانہ طور پر) پھوٹ نکلے۔
ہر قبیلہ اپنے پانی لینے کی جگہ جان لیا(کہ اسے کس جگہ سے پانی لینا ہے)

كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللہِ

وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ۝۶۰

(اس وقت انھیں ہدایت کی گئی کہ ) اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق کھائو پیو۔

اور ملک میں فساد مچاتے نہ پھرو۔

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا

اور (وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب کہ تم نے موسیٰؑ سے کہا تھا کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے زمین سے اُگنے والی ترکاری کا انتظام کرے۔

وَقِثَّـاۗىِٕہَا وَفُوْمِہَا وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا۝۰ۭ قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِىْ ھُوَاَدْنٰى بِالَّذِىْ ھُوَخَيْرٌ۝۰

کہ وہ ککڑی، گیہوں، مسور، پیاز وغیرہ کی قسم سے ہو۔ موسیٰؑنے کہا تم ایک بہترین کھا نے پینے کی نعمت کو چھوڑکر ان کے عوض ایسی چیزوں کی خواہش کر رہے ہوجو معمولی اور ادنیٰ درجے کی ہیں(لیکن تمہاری سمجھ میں نہ آیا) (پھر تم سے کہا گیا : اگر یہی چیزیںمطلوب ہیں تو)

اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ۝۰ۭ وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ۝۰ۤ

کسی شہر میں جا اُترو ۔ وہاں تمہاری یہ خواہش پوری ہوگی۔ اور بالآخر (مسلسل نا فر ما نیوں کی وجہ ) ان پر ذلت و رسوائی ڈال د ی گئی(اور وہ جہاں گئےذلیل وخوار ہوئے)

وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ۝۰ۭ
ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ
وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ۝۰ۭ
ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ۝۶۱ۧ

اور غضب الٰہی کے مستحق بنے۔
یہ سب کچھ( سزائیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) اس لیے (دی جاتی ہیں) کہ وہ تعلیماتِ الٰہی سے رو گردانی کرتے رہے۔
اور بلا وجہ ( ناحق ) انبیاء ؑ کو قتل کرتے رہے۔
یہ سب اس لیے ہوتارہا کہ وہ نا فر مانی وسر کشی کرتے رہے۔
اور حدود عبدیت سے نکل گئے۔

( اللہ تعالیٰ کی کبھی اطاعت نہ کی اس کے باوجود اس غلط تصور میں مبتلا رہے کہ نجات ہو جا ئے گی کو ئی اللہ کا مقرب بندہ جس سے ان کو نسبت حاصل ہے انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچالےگا۔)

( اللہ تعالیٰ کی کبھی اطاعت نہ کی اس کے باوجود اس غلط تصور میں مبتلا رہے کہ نجات ہو جا ئے گی کو ئی اللہ کا مقرب بندہ جس سے ان کو نسبت حاصل ہے انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچالےگا۔)

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ

جو لوگ( محمد رسول اللہﷺ) پر ایمان لائے۔ اور وہ جو یہودو نصاریٰ یاد یگر مذاہب کے پیرو ہیں۔ ( وہ سب سن لیں نجات کا قانونِ الٰہی یہ ہے کہ )

مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ۠

جو کوئی (نبیٔ آخر الزماں کے ذریعہ دی جا نے والی تعلیم) ایمان باللہ، ایمان با لآخرت کو قبول کرے گا۔
اور (اس کے مطابق)اعمالِ صالحہ کرتا رہے گا تو ان کےلیے ان کے اعمال کا صلہ اللہ تعالیٰ کے ہا ں ملے گا۔

وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۶۲

اور (قیامت کے دن ) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہی لاحق ہو گا اور نہ وہ رنجید ہ خاطر ہوں گے۔

وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ۝۰ۭ
خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّۃٍ
وَّاذْكُرُوْا مَا فِيْہِ

لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۶۳

( ائے بنی اسرائیل تمہا ری شرارت کا ایک واقعہ یہ ہے ) کہ کوہِ طور کو تمہارے سروں پر معلق کر کے ہم نے تم سے یہ اقرار لیا تھا۔
جو کچھ ہم نے تم کو تعلیم دی ہے اس پر مضبوطی سے قائم رہو۔
اور جو کچھ احکام اس میں دئے گئے ہیں اس سے نصیحت حاصل کرو۔

(یہ تعلیم اس لیے دی گئی ہے ) شاید کہ تم پرہیزگار انسان بنو (عذاب الٰہی سے محفوظ رہو)

ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۝۰ۚ
فَلَوْ لَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ
لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۶۴

پھر اس عہد وپیمان کے بعد( ائے بنی اسرائیل) تم اپنے اقرار سے پھر گئے۔
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو
تم نقصان اٹھا نے والوں میں سے ہو جا تے۔
(عذاب الٰہی میں مبتلا کیے جاتے)

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ

اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جو تم میں سے ہفتہ کے دن(مچھلی کا شکار کرنے میں) حد سے تجاوز کر گئے تھے۔

توضیح : یہودیوں کی ایک بستی جس کا نام ایلیا ہے اور جو شہر مدین وکوہِ طور کے درمیان دریا کے کنارے واقع ہے۔ انھیں ہفتہ کے دن شکار سے منع کیا گیا تھا، کیوں کہ اس دن کی تعظیم اُن پر فرض تھی اور اسی روز مچھلیاں سطح آب پر کثرت سے جمع ہوجاتیں اور ہفتہ کادن نہ ہوتا تو دکھائی بھی نہ دیتیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے ایک امتحان تھا۔ اس کے جواز کی یہ صورت نکال لی کہ دریا کے کنارے گڑھے کھو دتے اور دریا کا پانی اس میںگزار تے ہفتہ کے روز جب مچھلیاں اس میں بھرجاتیں تو ان کی واپسی کا راستہ بند کردیتے اور دوسرے سے روز پکڑلیتے۔ آج جو لوگ اس طرح کی تاویلات سے احکامِ الٰہی کی نافرمانی کر تے ہیں انھیں اپنی بداعمالیوں کا جائزہ لینا چا ہیئے ۔

فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِـــِٕيْنَ۝۶۵ۚ

تو (عدول حکمی کی پاداش میں) ہم نے اُن سے کہا ذلیل وخوار بندر ہو جائو( لہٰذا اسی آن اُن کی شکلیں تبدیل ہو گئیں۔)

فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہَا وَمَا خَلْفَہَا

پھر ہم نے اس واقعہ کو معاصرین اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت انگیز بنا یا۔

فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہَا وَمَا خَلْفَہَا

پھر ہم نے اس واقعہ کو معاصرین اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت انگیز بنا یا۔

وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۶۶

اور( اس واقعہ کو) متقین کے لیے ایک نصیحت بنایا ۔

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِہٖٓ اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً۝۰ۭ

اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے ، جب کہ ( بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا تھا ہمارے پاس قتل کی ایک واردات ہو گئی ہے اور قاتل کاپتہ نہیں چل رہا ہے ۔ تو) موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا ( اس واقعہ کی تحقیق کیلئے) اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتے ہیں کہ ایک گائے ذبح کرو۔

قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا۝۰

( قوم نے منشاء الٰہی کو نہیں سمجھا اور موسیٰؑ پر طنز کیا) کہا۔ کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں۔

قَالَ اَعُوْذُ بِاللہِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِيْنَ۝۶۷
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا ہِىَ۝۰ۭ
قَالَ اِنَّہٗ يَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّلَا بِكْرٌ۝۰ۭ
عَوَانٌۢ بَيْنَ ذٰلِكَ۝۰ۭ
فَافْعَلُوْا مَا تُـؤْمَرُوْنَ۝۶۸

موسیٰؑ نے کہا اللہ کی پناہ کہ میں ایسی جہالت کروں ( یہ تو اللہ ہی کا حکم ہے)
تو قوم نے کہا اپنے پر ور دگار سے التجا کیجئے کہ وہ ہمیں بتا ئے کہ وہ گائے کس طرح کی ہونی چا ہیے۔
موسیٰؑ نے کہا اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں۔ وہ گائے نہ بالکل بوڑھی ہو اور نہ بچھیا۔
بلکہ ان کے درمیان (یعنی) اوسط عمر کی جوان ہو
لہٰذا( اب حُجّت نہ کرو) جیسا تم کو حکم دیا گیا ہےویسا کرو۔
(مگر قوم نے پھر حُجّت کی )

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُہَا۝۰ۭ
قَالَ اِنَّہٗ يَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ صَفْرَاۗءُ۝۰ۙ فَاقِعٌ لَّوْنُہَا تَسُرُّ النّٰظِرِيْنَ۝۶۹

(اور ) کہا اپنے رب سے درخواست کیجئے ہمیں بتا ئے کہ اس کا رنگ کیسا ہو۔
موسیٰؑ نے کہا ( اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس گائے کا رنگ زرد ہو۔ رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کو شوخ لگے۔)

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا ہِىَ۝۰ۙ
اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَيْنَا۝۰ۭ وَاِنَّآ اِنْ شَاۗءَ اللہُ لَمُہْتَدُوْنَ۝۷۰ 

پھر قوم نے مطالبہ کیا کہ اپنے رب سے مکررودرخواست کیجئے۔ ہمیں بتائیے کہ اس کے مزید اوصاف کیا کیا ہو نے چاہئیں۔
کیوں کہ گائے کے بارے میں( متذ کرہ اوصاف میں ) ہمیں اشتباہ ہوگیا ہے۔ اور اگر اللہ نے چا ہا تو ہم صحیح راہ پالیں گے۔ 

قَالَ اِنَّہٗ يَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِيْرُ الْاَرْضَ وَلَا تَسْقِى الْحَرْثَ۝۰ۚ
مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِيَۃَ فِيْہَا۝۰ۭ
قَالُوا الْـــٰٔنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ
فَذَبَحُوْھَا وَمَا كَادُوْا يَفْعَلُوْنَ۝۷۱ۧ

موسیٰ (علیہ ا سلام) نے کہا۔ اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں وہ گائے ہل میں جُتی ہوئی نہ ہو اور نہ اس سے آب پاشی کا کام لیے گیا ہو۔
عیب سے پاک ہو۔ اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو۔
قوم نے کہا اب آپ نے صحیح علامتیں واضح کردیں۔
لہٰذا( بڑی مشکل سے) انھوں نے اس کوذبح کیا۔ دراصل وہ ذبح کر نا چاہتے ہی نہ تھے( کیونکہ گئو سالہ پرستی کی وجہ گائے کی عظمت ان کے دلوں میں گھر کر گئی تھی۔)

قَالَ اِنَّہٗ يَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِيْرُ الْاَرْضَ وَلَا تَسْقِى الْحَرْثَ۝۰ۚ
مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِيَۃَ فِيْہَا۝۰ۭ
قَالُوا الْـــٰٔنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ
فَذَبَحُوْھَا وَمَا كَادُوْا يَفْعَلُوْنَ۝۷۱ۧ

موسیٰ (علیہ ا سلام) نے کہا۔ اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں وہ گائے ہل میں جُتی ہوئی نہ ہو اور نہ اس سے آب پاشی کا کام لیے گیا ہو۔
عیب سے پاک ہو۔ اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو۔
قوم نے کہا اب آپ نے صحیح علامتیں واضح کردیں۔
لہٰذا( بڑی مشکل سے) انھوں نے اس کوذبح کیا۔ دراصل وہ ذبح کر نا چاہتے ہی نہ تھے( کیونکہ گئو سالہ پرستی کی وجہ گائے کی عظمت ان کے دلوں میں گھر کر گئی تھی۔)

وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِيْہَا۝۰ۭ
وَاللہُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ۝۷۲ۚ

( اور تمھیں یاد ہے وہ واقعہ) جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی۔ اور ایک دوسرے کو قتل کا ملزم ٹھہرا رہے تھے(یعنی اخفائے جرم کر رہے تھے۔)
اور جو بات تم چھپا رہے تھے اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کر نے والے تھے۔

فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِہَا۝۰ۭ

كَذٰلِكَ يُـحْىِ اللہُ الْمَوْتٰى۝۰ۙ
وَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ
تَعْقِلُوْنَ۝۷۳

لہٰذا ہم نے کہا اُس (گائے کے گوشت) کا کچھ حصّہ مقتول کے جسم پر لگادو۔ (گوشت کا لگا نا تھا کہ مقتول زندہ ہوا اور اپنے قاتل کی نشان دہی کردی )
اسی طرح اللہ تعالیٰ مُردوں کو(دفعتًہ) زندہ کر دیتے ہیں۔
اور اس طرح تم کو اپنی قدرت( کی نشانیاں) دکھا تے ہیں۔ تاکہ تم (اپنے حقیقی نفع ونقصان کو ) سمجھو( اور عقیدہ وعمل کی اصلاح کر لو)

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَہِىَ كَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط

پھر اس واقعہ کے بعد تمہا رے دل اور بھی سخت ہو گئے گو یا کہ وہ پتھر ہیں یا پتھر سے بھی زیادہ سخت۔

توضیح : قلوب کے سخت ہو نے سے مرُاد قلوب میں نصیحت قبول کر نے کی صلاحیت کا مفقود ہو نا ہے ۔

وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ۝۰ۭ

اور پتھروں میں بعض ایسے نرم ہو تے ہیں کہ ا ن سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں۔

وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاۗءُ۝۰ۭ

اور ان میں بعض ایسے ہو تے ہیں کہ پھٹ جا تے ہیں۔ اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے۔

وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا يَہْبِطُ مِنْ خَشْـيَۃِ اللہِ۝۰ۭ
وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۷۴

اور ان میں بعض پتھر ایسے ہیں جو خوفِ الٰہی سے (بلندی سے) گر پڑتے ہیں ۔ (مگر تمہا رے دلوں میں خوفِ الٰہی سے جنبش تک نہیں ہوتی)
اور اللہ تعالیٰ تمہاری بداعمالیوں سے بے خبر نہیں ہیں ۔

(حق تعالیٰ اپنے بندوں کے حالت سے بذاتہ واقف ہیں ایسا نہیں ہے کہ کسی ذریعہ یا وسیلہ سے اطلاع پا کرواقف ہو تے ہوں۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے )

اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ

(جس قوم کا یہ حال ہوا ئے مسلمانو) کیا تم ان سے توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری باتوں پر یقین کریں گے۔ ( ایمان لائیں گے )

وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ

حالانکہ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو کلامِ الٰہی( توراۃ) سنتے ہیں

كَلٰمَ اللہِ
ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝۷۵

(سمجھتے ہیں )
پھر اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر اپنی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں( ایسی شر پسند قوم کے ایمان لانے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے جن کے نفاق کا یہ حال ہے کہ

وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا۝۰ۚۖ

اور جب ( یہ منافق) اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو( خوشامد کے طور پر)  کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں۔

وَاِذَا خَلَا بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ
قَالُوْٓا اَتُحَدِّثُوْنَھُمْ بِمَا فَتَحَ اللہُ عَلَيْكُمْ
لِـيُحَاۗجُّوْكُمْ بِہٖ عِنْدَ رَبِّكُمْ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۷۶

(قر آن کو کلامِ الٰہی جا نتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کی بشارت توریت میں بھی ہے۔)
اور جب تنہائی میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو (دوسرے یہودی ان سے) کہتے ہیں۔ جو بات اللہ نے تم پر ظاہر فر ما دی ہے ۔ کیا تم ان مسلمانوں سے بیان کر تے ہو۔
تا کہ مسلمان( قیامت کے دن ) تمہارے پر ور دگار کے سامنے تمہارے اس ا قرار کو پیش کردیں( اورتمہا رے جان بوجھ کر ایمان نہ لانے کی پا داش میں تمہیںسزا ملے۔) تو پھر کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ 

مطلب یہ کہ دل سے نہ سہی ظاہری طور پر بھی اگر مسلمانوں کے سامنے اس بات کا اقرار کر لو گے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ محمد ﷺ آخری رسول ہیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ قیامت کے دن مسلمان تمہارے اس اقرار کو حُجّت بنا لیں گے اور تم پر کتاب اللہ کو نہ ماننے اور محمد ﷺ پر ایمان نہ لانے کا جرم ثابت ہوگا ۔ اس لیے ان باتوں کو چھپا ئے رکھنے میں مصلحت ہے ۔ حق تعالیٰ فر ماتے ہیں کتنے بےوقوف ہیں یہ لوگ۔

اَوَلَا يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ۝۷۷

کیا وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو کچھ وہ چھپاتے ہیں، جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں ۔
(یعنی وہ مسلمانوں کے آگے صداقت کا اقرار کریں یا نہ کریں اللہ تعالیٰ تو بہر حال جانتے ہیں ۔ جس کی بناءپر آخرت میں ان سے مواخذہ ہو گا۔)

وَمِنْھُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ
اِلَّآ اَمَانِىَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ۝۷۸

اور ( واقعہ یہ ہے کہ ) ان میں ان پڑھ بھی ہیں۔ کتاب اللہ (کی صحیح تعلیمات) سے واقف نہیں ہیں۔
سوائے اس کے کہ باطل وبے بنیاد خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں( کہ نجات بہر حال ہو جائے گی ) اور وہ محض اپنے ظن وتخمین وہم و گمان پر چلتے ہیں ۔

فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْہِمْ۝۰ۤ

لہٰذا بڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب میں (اپنی گھڑی ہوئی غلط با تیں لکھتے ہیں)
( یعنی توریت میں تحریف کر تے ہیں )

ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللہِ لِــيَشْتَرُوْا بِہٖ ثَــمَنًا قَلِيْلًا۝۰ۭ
فَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَيْدِيْہِمْ وَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا يَكْسِبُوْنَ۝۷۹

پھر کہتے ہیں کہ یہ ( احکام ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔
تا کہ اس کے عوض تھوڑی سی قیمت یعنی دنیوی منفعت حاصل کریں۔
پھر ان کےلئے بڑی خرابی ہے جو ایسی تحریریں لکھتےہیں۔
اور بڑا ہی افسوس ہے ان کے اس طرح کے کسب پر ( عقیدہ وعمل کی گمراہی کے با وجود ان خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں کہ انھیں آگ چھو بھی نہیں سکتی ۔ چنانچہ )

وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَۃً۝۰ۭ

اور وہ کہتے ہیں آگ ہمیں ہرگز چھو نہیں سکتی ( گناہوں کے سبب اگر انھیں نار میں جا نا بھی پڑے تو) وہ بس گنتی کے چند ہی دن ہوں گے (کیوں کہ وہ ایک نبی کی اُمّت ہیں ) 

قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللہِ عَہْدًا

فَلَنْ يُّخْلِفَ اللہُ عَہْدَہٗٓ

پیغمبر! ان سے پو چھیئے کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے اس بات کا وعدہ لے رکھا ہے( کہ عقیدہ وعمل کتنا ہی بگاڑ لو) اللہ تعالیٰ تم کو بخش دیں گے (اگر ایسا وعدہ لیا گیا ہے )
تو اللہ تعالیٰ اپنے کئےہوئے اقرار کی ہر گز خلاف ور زی نہیں فرماتے (حالانکہ ایسا وعدہ نہیں کیا گیا)

( جب یہ بات نہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے نہ تو تم سے وعدۂ مغفرت فر ما یا ہے اور نہ حق تعالیٰ اپنی سنّت ہی بدلتے ہیں ، سنّتِ الٰہی یہ ہے کہ جس کا عقیدہ وعمل الٰہی و نبوی تعلیم کے خلاف ہو گا، وہ نار جہنم میں داخل کیا جائے گا۔)

اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۸۰

یا پھر تم ( نجات کے تعلق سے ) اللہ تعالیٰ کی نسبت ایسی باتیں کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں۔

بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَۃً وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِيْۗــــــــَٔــتُہٗ

کیوں نہیں! جو کوئی( اپنے عقائد کو اس طرح بگاڑ لیتا ہے اور) برائیاں کرنے لگتا ہے اور اس کے گناہ( ہر طرف سے) اُسے گھیر لیتے ہیں (یعنی جب اس کی زندگی سر تا پا مجرمانہ ہو جاتی ہے)

فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۸۱

ایسے تمام لوگ جہنّمی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۸۲ۧ

اور جو لوگ (الٰہی تعلیم کے مطابق ) ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں۔
وہی جنتی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

توضیح : بَلٰى مَنْ كَسَبَ ۔۔۔ الخ میں اللہ تعالیٰ نے قانونِ تعذیب۔( (آیت ۸۱ سورۂ بقرہ)اور وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا۔۔ الخ میں قانون مغفرت بیان فرمایا ہے۔ (آیت۔۸۲ سورۂ بقرہ)
بنی اسرائیل اولو العزم انبیاء امت تھے۔ یہ آسمانی کتاب (توریت) اور دیگر صحیفوں کے حامل تھے ان کے حا لات وواقعات کو سامنے رکھ کر انکا بگاڑ۔ کفر ، شرک ، نفاق اور دیگر باطل عقائد بیان کیے گئے ہیں تا کہ مسلمانوں کیلئےموجب عبرت ونصیحت ہوں۔

وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ ۝۰ۣ

اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر اللہ کو مدد کے لیے پکار ناشرک ہے اور عبادت ہی کے مفہوم میں داخل ہے۔ اس طرح ہر حیرانی پریشانی، ضرورت، حا جا ت ومشکلات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکار نا یا ان کا واسطہ وسیلہ لینا بھی شرک ہے ۔ ازاں جملہ یہ بھی عہد لیا تھا کہ

وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا

اور والدین کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک( اچھی خدمت گزاری) کرنا۔

وَّذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ

اور دیگر قرابت دار وں یتیموں حا جت مندوں اور محتاجوں کے ساتھ بھلائی کر تے رہنا۔

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا وَّاَقِيْمُوا

اور لوگوں سے(خندہ پیشانی کےساتھ) گفتگو کر نا نماز قائم رکھنا اور

الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۝۰

زکوٰۃ دیتے رہنا۔

ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝۸۳

مگر تم میں سے( ائے بنی اسرائیل) بہت ہی کم لوگوں نے اس اقرار کی پا بندی کی اور تم عہد شکن ثابت ہوئے۔

وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَاۗءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ اَقْــرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ۝۸۴

ایک اقرار تم سے یہ بھی لیا گیا تھا کہ آپس میں کُشت و خون نہ کرنا اور نہ اپنے لوگوں کو ان کے وطن سے نکالنا۔ پھرتم نے اس عہد پر قائم رہنے کا اقرار کیا اور تم اس سے بخوبی واقف ہو۔

ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ

پھر تم وہی تو ہو( جن کا شیوہ ہی عہد شکنی ہے، عہد و اقرار کے بعد آپس میں) اپنے بھائی بندوں کےگلے کا ٹتے ہو

وَتُخْرِجُوْنَ فَرِيْـقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِيَارِھِمْ۝۰ۡتَظٰھَرُوْنَ عَلَيْہِمْ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰ۭ

اور اپنے ہی لوگوں کو ان کے اپنے گھروں سے نکلالتے ہو۔ اپنوں کی مخالفت میں ان کے مخالفین سے مل کر گناہ وتعدی (ظلم) میں ان کا ساتھ دیتے ہو۔

وَاِنْ يَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْھُمْ
وَھُوَمُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ اِخْرَاجُہُمْ۝۰ۭ

اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہو کر آئیں توبدلہ دے کر انھیں چھڑا بھی لیتے ہو۔
حالانکہ سرے سے ان کو ان کی بستی سے نکالنا ہی تم پر حرام تھا ( ان سے لڑنے اور انھیں گھر سے بے گھر کر نے کے وقت تم کو یہ خیال نہ آیا کہ یہ کام حرام ہیں)

اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۝۰ۚ
فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ

کیا تم کتاب اللہ کے بعض احکام پرایمان رکھتے ہواور بعض کا انکار کرتے ہو (انکے عمل کی خرابی کو اللہ تعالیٰ ایمان کی خرابی قرار دیتے ہیں)
(لہٰذا تم میں سےجو ایسی بداعمالیاں کریں یعنی مفادِ دنیا دیکھا تو عمل کیا اور مفادِ دنیا ہی کی خاطر حکم الٰہی کی خلاف ورزی کی تو) ایسے لو گوں کے لیے اس کے سوااور کیا بدلہ ہو سکتا ہے کہ

اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ

وہ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہو کر رہیں۔

وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يُرَدُّوْنَ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ۝۰ۭ
وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۸۵
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَۃِ۝۰ۡ 

فَلَا يُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ۝۸۶ۧ

اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دئے جائیں۔

یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہارے ان اعمال سے بے خبر نہیں ہیں۔
(واقعہ یہ ہے کہ ایسی شرارتیں کر نے والے) وہ لوگ ہیں جنھوں نے آخرت کے بدلے دنیوی زندگی کو خرید لیا ( یعنی آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو ترجیح دی)

ان کو دئے جا نیوالے عذاب میں کوئی کمی نہ ہوگی اور نہ کوئی (دوست، بزرگ، رشتہ دار) ان کی طرف داری یا کسی قسم کی مدد کر پائیگا۔

توضیح :  ۱۔ الٰہی تعلیمات سے گریز مفاد دنیا کی خاطر بے ایمانی کی بات ہے اور آخرت کے مقابلے میں دینا کو ترجیح دنیا انتہائی گمرا ہی ہے ۔
۲ ۔ قرآن سا بقہ کتابوں کا مصدق ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ کتابوں میں جوتعلیم دی گئی تھی وہی تعلیم قرآن میں ہے۔
۳ سابقہ انبیا ء علیہم السلام نے بندگئی رب کی جو تعلیم اپنی اپنی قوموں کو دی تھی، ان قوموں کے پاس اب وہ تعلیم اصلی شکل وصورت میں باقی نہیں رہی اب وہ قرآن ہی میں محفوظ ہے۔
لہٰذا آج ہر قوم کیے لیے نجات کی واحد شکل ہی یہ ہے کہ وہ پیامِ الٰہی لَا الٰہ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رُّسُولُ للہ کو قبول کرے۔ اورقرآنی تعلیم سے اپنے بگڑے ہوئے عقائد اور اعمال کا جائزہ لے اور اپنی اصلاح کرے۔ بنی آدم جو الٰہی تعلیم کو بگاڑ کر مختلف افترائی اد یان میںبٹ گئے ہیں اور طالب نجات ہیں۔ انھیں کلام الٰہی کے ذریعہ دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ اپنے افترائی ادیان کو چھو ڑ کر ایک ہی دین الٰہی کے پیرو ہو جائیں۔ یہی سنت الٰہی اور یہی فطرت انسانی ہے۔ اس کے خلاف سوچنا سمجھنا سنت الٰہی سے ناواقفیت اور فطرتِ انسانی سے جہل ہے۔

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ

اور یقیناً ہم نے موسیٰؑ کو کتاب(توراۃ) دی تھی۔

وَقَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ۝۰
وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۝۰ۭ

اَفَكُلَّمَا جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَہْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ۝۰ۚ

فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ۝۰ۡوَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ۝۸۷

اور رسولوں کا سلسلہ یکے بعد دیگرے جاری کر دیا۔
اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو واضح دلائل(معجزات) عطا کیے اور جبرائیل سے ان کی مدد کی۔( مگر ائے بنی اسرائیل تمہاری شرارت اس حدتک پہنچ چکی تھی کہ)
جب بھی تمہارے پاس رسول آئے(اور صحیح تعلیم پہنچائی) جن کی تعلیم تمہاری خواہش نفس( اور عقائد باطلہ) کے خلاف تھی تو تم نے سر کشی کی اور اس کو قبول کر نے سے انکار کیا۔
چنانچہ بعض کو تو تم نے جھٹلایا اور بعض کو قتل کر دیا۔ ( اب وہی تعلیم محمدالرسول اللہﷺ کے ذریعہ دی جا رہی ہے تم اس کو بھی قبول کرنا نہیں چا ہتے)

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ۝۰ۭ

اور کہتے ہیں کہ ہما رے قلوب پر غلاف ہیں ( یعنی ہمارے دل ہمارے اپنی تعلیم سے اتنے معمور ہیں کہ دوسروں کی تعلیم قبول کرنے کی گنجائش نہیں ہے)

بَلْ لَّعَنَہُمُ اللہُ بِكُفْرِھِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ۝۸۸

بلکہ اللہ تعالیٰ نے کفر کی پاداش میں انھیں پھٹکار دیا ہے۔اس لیے وہ بہت ہی تھو ڑے لوگ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں ۔

وَلَمَّا جَاۗءَھُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ۝۰ۙ

اورجب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی کتاب آئی جو تصدیق کرتی ہے ان کتابوں کی (یعنی اصولاًاس میں وہی تعلیم ہے جوان کی کتابوں میں لکھی ہوئی تھی۔ جس کے بیشتر حصّہ کی انھوں نے تحریف کردی ہے)

وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ

حالانکہ وہ اس سے قبل ایک آخری کتاب( اور آخری رسول) کے آنے

عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝۰ۚۖ
فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِہٖ۝۰

فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۝۸۹

کا ذکرکفار کے سامنے کیا کرتے تھے۔ (اور جن کی آمد کے منتظر تھے)
پھر جب وہ کتاب ان کے سامنے آئی (پیش کی گئی ) جس کو وہ پہچانتے ہیں تو صاف انکار کر دیا۔
لہٰذا اس طرح( اللہ کی کتاب کا) انکار کر نے والوں پر اللہ کی لعنت ہے ۔

بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ اَنْ يَّكْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ بَغْيًا
اَنْ يُّنَزِّلَ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝۰ۚ

(یعنی اب وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اس طرح دور کر دئے گئے ہیں کہ
اب ان کے راہ یاب ہو نے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ )
کیا ہی برا سودا ہے جو اُن لوگوں نے اپنے لیے کیا محض ضد میں دوسروں پر اپنی بر تری قائم رکھنے کے لیے اس کتاب کا انکار کر دیا۔

جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جس بندے پر چا ہا اُتارا۔

فَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰي غَضَبٍ۝۰ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝۹۰

(قرآنِ حکیم کو نہ مان کریہ لوگ) غضب با لائے غضب کے مستحق ہوئے ۔ اور کافروں یعنی انکار کر نے والوں کے لیے آخرت میں ذلّت آمیز رسوا کن عذاب ہے۔

وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاۗءَہٗ۝۰ۤ

اور جب ان سے کہا جا تا ہے کہ جو کتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فر مائی ہے اس کو مان لو تو کہتے ہیں۔ ہم اسی کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو ہم پر اتاری گئی ہے اس کے سوا کسی اور کتاب کو نہیں مانتے۔

وَھُوَالْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ۝۰ۭ

حالانکہ یہ کتاب حق ہے اور ان کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے ( اس میں عقائد و فرائض کی وہی تعلیم ہے جو توراۃ کے ذریعے نازل ہوئی تھی یہی ایک بات قرآن کے کلام ِ الٰہی ہو نے کی بیّن دلیل ہے۔ توراۃ کی طرح قرآن بھی کلام اللہ ہے)

قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِيَاۗءَ اللہِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۹۱ 

(ائے نبی ﷺ) آپ ان سے پو چھئے اگر تم مومن ہو( یعنی واقعی  توریت کے احکام پر پوری طرح عمل پیرا ہو نے کے دعویدار ہو تو تم نے اس سے قبل انبیاء علیہم السلام کو کیوں قتل کیا؟ ( کیا تم اپنی شرارت کو بھول گئے)

وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ مُّوْسٰى بِالْبَيِّنٰتِ
ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِـجْلَ مِنْۢ بَعْدِہٖ
وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۹۲

اور موسیؑ تمہارے پاس کھلے معجزات کے ساتھ آئے تھے ۔
پھر اس کے بعد بھی تم نے گو سالہ پرستی کی۔
واقعی تم بڑے ہی ظالم ہو ۔

وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا
فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ۝۰ۭ
خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّۃٍ
وَّاسْمَعُوْا۝۰ۭ
قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا۝۰ۤ

( اپنی اس شرارت کو یاد کرو) جب کہ ہم نے کوہِ طور کو(لاکر)
تمہارے سروں پر معلق کھڑا کیا تھا اور تم سے یہ اقرار لیا تھا۔
(جو جب کتاب) ہم نے تم کو دی ہے، اس پر مضبوطی سے جمے رہو اور تمہیں جو حکم دیا گیا ہے اس کو اچھی طرح سنو
تم نے یہ گستاخا نہ بات کہی ہم نے سن لیا اور نہ مانا
( ہم سے اطاعت نہیں ہو سکتی)

توضیح : :حق تعالیٰ بنی اسرائیل کے بگاڑ کا ذکر فرما کر ان کے ادعا ئے ایمان کی تردید فر ما رہے ہیں۔ آج یہی بات اکثر مسلمانوں پر بھی صادق آتی ہے۔ اِلَّا ما شاء اللہ

وَاُشْرِبُوْا فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْعِـجْلَ بِكُفْرِھِمْ۝۰ۭ
قُلْ بِئْسَمَا يَاْمُرُكُمْ بِہٖٓ اِيْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۹۳

(واقعہ یہ ہے کہ ) ان کی کافرانہ روش کی وجہ سے گو سالہ پرستی ان کے قلوب میں پیوست ہو گئی تھی۔
ان سے کہئے اگر تم مومن ہو تو تمہارا ایمان تمہیں برُے کاموں کی ترغیب کیوں دے رہا ہے۔

یعنی ایمان کا تقاضہ تو یہ ہے کہ الٰہی تعلیم پر عمل کیا جائے پھر یہ کیسا ایمان ہے کہ ہر حکم کی خلاف ور زی کی جا ر ہی ہے۔ ایک طرف ایمان کا دعو یٰ اور دوسری طرف گئوسالہ پرستی( جوشرک ہے ) ان بے ایمانیوں اور شرارتوں کے با وجود اس زعم میں مبتلا ہیں کہ آخرت کا گھر جنّت انھیں کے لیے ہے۔ ان کی اس باطل ذہنیت کی تردید میں حق تعالیٰ نے فر مایا۔

قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ

عِنْدَ اللہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ
فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۹۴

وَلَنْ يَّـتَمَنَّوْہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ۝۰ۭ

(ائے نبی ﷺ) ان سے پو چھئے کہ اگر آخرت کا گھر ( الجنتہ)

اللہ تعالیٰ کے ہاں اگر تمہارے ہی لیے ہے ، دوسرے اسکے مستحق نہیں ہیں؟

تو تم موت کی تمنّا کرو اگر تم اپنے اس عقیدے میں سچے ہو۔

واقعہ یہ ہے کہ وہ اپنی بد اعما لیوں کے پیشِ نظر ہر گز ہر گز ایسی خوا ہش نہ کریں گے۔

( آخرت کے گھر کی تیاری کی ہو تی تو فطرتاً گھر جانے کی خواہش ہوتی۔ مذ کو رہ آیت ِکریمہ سے ثابت ہے کہ مومن کے قلب میں ہر وقت اپنے اصلی گھر الجنتہ جا نے کی آر زو رہتی ہے)

وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِــمِيْنَ۝۹۵

اور اللہ تعالیٰ ان ظالموں کے قلبی احوال سے بخوبی واقف ہیں۔

وَلَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰي حَيٰوۃٍ۝۰ۚۛ

( ائے نبی ﷺ) آپ ان کو اور لوگوں کی نسبت دنیا کی زندگی کا زیا دہ حریص پا ئو گے۔

وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُــوْا۝۰ۚۛ يَوَدُّ
اَحَدُ ھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَۃٍ۝۰ۚ

اور مشر کین میں سے ان میں کا ہر ایک، ایک ہزار سال جینے کی تمنا رکھتا ہے۔

وَمَا ھُوَبِمُزَحْزِحِہٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ۝۰ۭ
وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ۝۹۶ۧ

اور اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو وہ اس کو ( آخرت کے) عذاب سے بچا نہیں سکتی۔
جو کام وہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں دیکھ رہے ہیں۔ (یہ دنیا سے چمٹے رہنے کی خواہش ان لو گوں کی ہے جن کی زبان پر ایمان تو ہے مگر دل سے وہ الٰہی تعلیم پر عمل کر نا نہیں چاہتے)

تشریحات:  اہلِ کتاب سمجھتے تھے کہ نبیٔ آخرالزماں بنی اسحاق میں معبوث ہوں گے۔ ان کے اس گمان کے خلاف نبیٔ محترمﷺ کی بعثت بنی اسماعیل میں ہوئی جسے بنی اسرائیل برداشت نہ کر سکے اور جہالت کی بنا ء پر یہ سمجھے کہ جبرائیل امین نے ان سے دھو کا کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا پیام بنی اسحاق کے کسی آدمی کے پاس پہنچا نے کے بجا ئے بنی اسماعیل کے پاس پہنچا دیا ہے۔ اس بناء پر جبرئیل علیہ السلام کو اپنا دشمن سمجھنے لگے جس کی تردید حق تعالیٰ نے فر ما دی۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اہلِ باطل کی طرف سے جو بھی اعتراض ہو تا رہا، اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے اختیار تمیزی پر نہیں چھوڑا گیا ۔ لہٰذا ہر با طل خیال واعتراض کا جواب قر آن ہی سے ما خوذ ہو نا چاہیئے۔

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللہِ

( ائے نبی ﷺ) ان سے کہۓ جو جبرئیلؑ سے دشمنی رکھتا ہے اسے آگاہ ہو نا چا ہیئے کہ وہ( جبرئیلؑ) اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے یہ کلام آپ کے قلب پر نازل کیا ہے۔

( فرشتے اللہ تعالیٰ کے احکام کی ذرّہ برابر خلاف ور زی نہیں کر تے۔ جیسا کہ ار شاد الٰہی ہے۔ عـلَيْہَا مَلٰۗىِٕكَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ ( سورۂ تحریم آیت: ۶ ) اس دوزخ کی آگ پر ُتند خو فرشتے متعین ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذرا بھی نا فر ما نی نہیں کرتے جو حکم انھیں دیا جاتا ہے ، اس کو فوراً ہی بجالا تے ہیں۔

مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ

وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ۝۹۷

جو تصدیق کر تی ہے اپنے سےپہلی کتابوں کی( ان کتابوں کی جو ان کے پاس اس وقت صحیح حالت میں نہیں ہیں (توریت انجیل و غیرہ)
( اور تمہاری کتاب ہی کی طرح) اس میں اہلِ ایمان کی رہبری کا سامان اور مومن کے لیے ( آخرت کی ) خوشخبری ہے۔

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ۝۹۸

جو کوئی اللہ تعالیٰ کا دشمن ہو۔ اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسولوں کا اور جبرئیل و میکائیل کا اللہ تعالیٰ بھی ایسے کا فروں کے دشمن ہیں۔

وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ اٰيٰتؚ ٍبَيِّنٰتٍ۝۰ۚ

پیغمبر! واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے احکام نہایت ہی وضاحت کے ساتھ بہ شکل وحی آپ کے پاس بھیجے، ہیں ۔

وَمَا يَكْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ۝۹۹

وہی لوگ اس کے منزل من اللہ ہو نے کا انکار کرتے ہیں جو فا سق ہیں اور( جو فر ما نبر دار بندے بن کر رہنا نہیں چا ہتے) کیونکہ اللہ کی کتاب مان لینے کی صورت میں( اطاعت لا زم آتی ہے اور وہ اطاعت سے گریز کرتے ہیں) اور ان کا تاریخی منظر یہ ہے کہ

اَوَكُلَّمَا عٰھَدُوْا عَہْدًا نَّبَذَہٗ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ۝۰ۭ

جب بھی اللہ تعالیٰ سے عہد و اقرار کر تے ہیں ایک فریق اس عہد کو نظرانداز کر دیتا ہے۔

بَلْ اَكْثَرُھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۱۰۰

بلکہ ان کی اکثریت ایما ن نہیں لاتی۔ چنانچہ ان سے اقرار لیا گیا تھا کہ نبیٔ آخر الزماں پر ایمان لے آئیں۔

وَلَمَّا جَاۗءَھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ
نَبَذَ فَرِيْـقٌ مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ۝۰ۤۙ
كِتٰبَ اللہِ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِھِمْ كَاَنَّھُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۱۰۱ۡ

اورجب اللہ تعا لیٰ کی طرف سے نبیٔ آخرالزماں ان کے پاس آئے اور وہی تعلیم پیش کی جوان کی کتابوں میں مرقوم ہے تو
اہلِ کتاب میں سے ایک فریق نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ بے اعتنا ئی برتی۔
اللہ تعالیٰ کی کتاب کو انھوں نے پسِ پشت ڈال دیا۔ اس طرح کہ گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔

وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ۝۰ۚ

اور اُن بے ہو دہ مشاغل کے پیچھے پڑ گئے جو سلیمانؑ کے عہدِ سلطنت میں شیا طین پڑ ھا کر تے تھے۔

)الٰہی تعلیم کو شعارِ زند گی بنا لینا جن کے لیے ضروری تھا وہ الٰہی تعلیم چھوڑ کر محض دنیا کمانے کے لئے جا دو ٹونا جیسے بے ہودہ مشاغل اختیار کیے جس کا پر چار ملک سلیمانؑ میں شیا طین اور اس کے کا رندے کیا کرتے تھے اور مشہور کر تے تھے کہ جادو وغیرہ کی تعلیم حضرت سلیمانؑ نے دی تھی۔اس طرح ان بے ہودہ مشاغل کو انبیا ئی تعلیم ثابت کر نے کی کوشش کی۔حالانکہ یہ نری شیطا نی اورکا فرانہ تعلیم تھی) ۔

وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ  الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا

اور ایسی کافرانہ تعلیم سلیمانؑ جیسے پیغمبر نہیں دے سکتے تھے۔لیکن کفر کے مر تکب تو شیا طین ہی تھے۔

يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ۝۰ۤ

جو لوگوں کو جادو گری سکھا تے تھے۔

وَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ۝۰ۭ

اور ( وہ پیچھے پڑ گئے اس چیز کے) جو بابل میں ہا روت وماروت نامی دو فرشتوں پر امتحاناً نازل کی گئی تھی۔

فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖ۝۰ۭ
وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ
وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ۝۰

پھر یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جس کے ذریعہ شوہر اور بیوی میں جدائی ڈالی جاتی تھی۔
واقعہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے ذریعہ بھی وہ حکم الٰہی کے بغیر کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے( لہٰذا ایسے مو قعوں پر استعانت کا طریقہ استعاذہ ہے)
مگر اس کے باوجود وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خودان کے لیے نفع بخش تھی اور نہ نقصان رساں۔

( جادو ٹونا ان کے مشاغل حیات و ذریعہ معاش بنے ہوئے تھے۔ شریعت میں جا دو کی سزا قتل ہے۔)

وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ۝۰ۣۭ

(ان کی دیدہ دلیری کا یہ حال تھا) اور وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے اور آخرت میں یکسر محرومی ہے( پھر بھی وہ الٰہی تعلیم کو چھوڑ کر ان ہی باتوں کو سیکھتے رہے۔)

وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ۝۰ۭ
لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۝۱۰۲

اور کیا ہی بُری چیز کے بدلے انھوں نے اپنی زندگی کا سودا کیا۔
کاش یہ جانتے( سمجھ بوجھ سے کام لیتے)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا۝۰ۭ

ائے ایمان والو( رسولﷺ سے مخاطبت کے وقت ) راعنا نہ کہا کرو بلکہ اُنظُرنا کہا کرو اور توجہ سے سنو۔
توضیح : ان کی شرارتوں کا یہ حال تھا کہ نبیٔ وقت کے ساتھ ذلّت آمیز طریقہ اختیار کر تے ان کو متو جہ کرنا ہو تو سیدھے سادے لفظوں میں ہماری طرف دیکھئے’’ اُنظُرنا‘‘ کہنے کی بجائے لفظ راعنا استعمال کرتے۔جس کےمعنی چر وا ہے کے بھی ہوتے ہیں تم ان کی روش اختیار نہ کر نا۔ یہ بڑے ہی دھو کہ باز ہیں۔تمہیں اگر کو ئی بات مکرر در یافت کر نی ہو یا نبی کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانی ہو تو عام محا ورہ کلام کے مطابق ہماری طرف بھی دیکھئے یا’’ مکرر‘‘ فر مائیے کہو۔اہل کتاب ہوں کہ مشرکین ان کی نفسیات ہی یہ ہیں کہ مسلمانوں کو اپنی چال با زیوں سے فریب دیں اور انھیں رحمت ِالٰہی سے محروم کردیں ۔ بہتر تو یہ ہے کہ نبیﷺ جو کچھ کہتے ہیں غور سے سنا کرو۔مکرر کہنے کا موقع ہی نہ آنے دو ۔

 وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ۝۱۰۴

اور کا فروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

( یعنی جو لوگ انکار حق کر رہے ہیں، وہی نبی کے ساتھ ایسی بے ادبی کر تے ہیں وہ عذابِ الٰہی سے بچ نہیں سکتے)

مَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ
اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ خَيْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۭ
وَاللہُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

اہلِ کتاب اور مشرکین کی دلی تمنایہی ہے( یعنی وہ چاہتے ہی یہ ہیں کہ )

تمہارے پرور دگار کی طرف سے تم پر رحمت خیر وبرکت نازل نہ ہو ۔
( ان کے اس طرح برائی چاہنے سے کیا ہو تا ہے)

اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت خاصہ سے نواز تے ہیں۔ رحمت خاصہ یہ تھی کہ منصب نبوت بنی اسحاق سے بنی اسماعیل میں منتقل کی گئی اور اہل حق اس رحمت خاصہ سے نوازے جا تے رہے ۔

وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۝۱۰۵
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا

اور(واقعی) اللہ تعالیٰ بڑے ہی فضل فر ما نے والے ہیں۔
( اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں) ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے بُھلا دیتے ہیں۔

نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا۝۰ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۰۶

تو اس سے بہتر حکم نازل کر تے ہیں یا اس کے مثل کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہیں۔

توضیح : یہ اشرار مسلمانوں کو یہ بھی باور کرا تے ہیں کہ اللہ کا کلام منسوخ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ایک نقص ہے اور اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہیں۔ یہ کہنے سے ان کا منشاء یہ تھا کہ قرآن کو کلامِ الٰہی تسلیم نہ کیا جا ئے کیو نکہ اگر قرآن کو کلامِ الٰہی تسلیم کیا جائے تو سا بقہ کتب الٰہیہ کا فسخ لازم آ تا ہے۔ اہل کتاب کسی طرح یہ تسلیم کر نے تیار نہ تھے کہ ان کی کتاب اب منسوخ ہوچکی ہے۔ اس کے جواب میں حق تعالیٰ فر ماتے ہیں نسخ مو جبِ نقص نہیں ، موجبِ کمال ہے۔ ایسا کر نا مبنی بر حکمت ہو تا ہے۔
( نسخ کا مو جبِ حکمت ہو نا یوں سمجھئے کہ ایک حکیم ابتداءمعدے کی اصلاح کے لیے دوا دیتا ہے جو اصل مر ض کی دوا نہیں ہوتی۔اس کے بعد دوا کو منسوخ کر کے ازالۂ مر ض کی دوائیں دیتا ہے۔ اس طرح حکیم کا نسخ مبنی بر حکمت ہو تا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کسی جاہل کے نزیک مو جبِ نقص ہو ۔ مگر ایک حکیم کے نزدیک یہ عمل حکیما نہ ہو گا حق تعالیٰ بڑی قدرت والے ہیں۔نسخ ان کے صا حب ِ قدرت ہو نے کی علامت ہے نہ کہ عا جز ہونے کی۔

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

کیا تم نہیں جانتے کہ زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی فر ماں روا ئی ہے۔

وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۝۱۰۷

اوراللہ تعالیٰ کے سوا نہ تو تمہا را کوئی مدد گار ہے اور نہ سرپرست۔

اہل کتاب مسلمانوں کے دلوں میں شکوک پیدا کر کے اپنے پیغمبر سے بے جا سوالات کر نے پر مجبور کر دیتے۔اس طرح وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو بھی عتابِ الٰہی کا مستحق بنا دیں یہ ایک کا فرا نہ روش تھی۔اس لیے اہلِ کتاب کی اس شرارت پر اہلِ ایمان کو متنبہ کیا جا ر ہا ہے کہ وہ ایسے سوا لات نہ کریں۔

اَمْ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا رَسُوْلَكُمْ

کیا تم چا ہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اسی طرح کے سوالات کرو جس

كَـمَا سُىِٕلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ
وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ
فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ۝۱۰۸

طرح کے سوال اس سے پہلے مو سیٰؑ سے کیے گئے تھے۔
جس نے ایمان کے بدلے کفر اختیار کیا( اور جس کی یہ روش ہو)
پس وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔

وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ

لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا۝۰

( ائے مسلمانو) بہت سے اہلِ کتاب چاہتے ہی یہ ہیں۔
( یعنی ان کی نفسیات ہی یہ ہیں کہ)
(کسی طرح) تم کو کفر کی طرف پلٹ دیں۔

حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ

مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ۝۰ۚ

اپنے دلی حسد کی وجہ سے( حسد یہ تھا کہ نبوت جیسا خاص انعام اور سارے عالم پر بخشی ہوئی فضیلتِ علمی ان سے چھین لی گئی۔ اور یہ نعمت عظمیٰ بنی اسماعیلؑ کے نصیب میں آئی۔)
ان پر حق ظاہر ہو جا نے کے با وجود بھی( یعنی اس حقیقت سے واقف ہوجا نے کے بعد بھی کہ یہ قرآن بلا شبہ اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا کلام ہے، کفر کی طرف پلٹا نے کی کوشش کر تے ہیں)

فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا

معاف کرو درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے۔
(ائے مسلمانو) اہلِ کتاب کی شرارتوں کے مقابلہ میں عفو ودر گزر سے کام لو( انتقام لینے کی فکر میں لگے رہنے کے بجائے احکامِ الٰہی کی پا بندی کرو یہی ذخیرۂ آخرت ہے)

حَتّٰى يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ

تا آنکہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے( یعنی معر کۂ حق و باطل جہاد پیش آجائے)

اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۰۹

بیشک اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہیں ( انکی شرارت کا ضرور انتقام لیں گے)

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۝۰ۭ
وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۱۱۰

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔
جو بھی بھلا ئیاں کرو گے اپنے لیے ذخیرۂ آخرت کرو گے ان کا بدل اللہ تعالیٰ کے پاس پاؤگے ، بلاشبہ تم جو کچھ بھی عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہے ہیں۔

( اہلِ کتاب یہود و نصارٰی کے غلط عقا ئد میں ایک بات یہ بھی شامل تھی)

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۝۰ۭ
وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۱۱۰

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔
جو بھی بھلا ئیاں کرو گے اپنے لیے ذخیرۂ آخرت کرو گے ان کا بدل اللہ تعالیٰ کے پاس پاؤگے ، بلاشبہ تم جو کچھ بھی عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہے ہیں۔

( اہلِ کتاب یہود و نصارٰی کے غلط عقا ئد میں ایک بات یہ بھی شامل تھی)

وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۝۰ۭ
تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ۝۰ۭ
قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۱۱۱

اور وہ کہتے تھے کہ یہود و نصارٰی کے سوا کو ئی جنّت میں داخل نہیں ہوسکتا۔
یہ ان کی آر زوئیں ہیں۔

(ائے نبیﷺ) ان سے کہیے اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے، ہو تو تمہیں کوئی علمی دلیل پیش کرنی چاہئے۔
( نجات کا تعلق یہو دیت و نصرانیت سے نہیں ہے)

بَلٰي۝۰ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝۰۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۱۱۲ۧ 

بلکہ جو کوئی خود کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردے۔
( یعنی الٰہی تعلیم کے مطابق عامل رہنے کا پختہ ارادہ کر لے) اور وہ نیکو کار تو اس کا صلہ اس کے پر ور دگار کے پاس ہے اور ایسے لوگوں کو(قیامت کے دن ) نہ کسی طرح کا خوف لاحق ہو گا اور نہ رنجیدہ خاطر ہونگے۔

توضیح : عقیدہ وعمل کے بگاڑ کے با جود کو ئی یہ ادعا رکھتا ہے کہ وہ جنّت کا مستحق ہے ۔کلامِ الٰہی میں ایسی ہی غلط آرزوؤں کو’’امانی‘‘ کہا گیا ہے۔کتاب و سنت سے ہٹے ہو ئے غلط اعمال جن کو شیطان نے ان کی نظروں میں اچھا کر دکھا یا ہے۔ عبادت کے طور پر بجالانا اور ان سے اچھے نتائج کی امید رکھنا ہی اما نی ہے۔

وَقَالَتِ الْيَہُوْدُ لَيْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰي شَيْءٍ۝۰۠

اور یہودی کہتے ہیں عیسائی ہدایت کی کسی راہ پر قائم نہیں ہیں۔

وَّقَالَتِ النَّصٰرٰى لَيْسَتِ الْيَہُوْدُ عَلٰي شَيْءٍ۝۰ۙ

اور نصا ریٰ کہتے ہیں یہودی ہدایت کی کسی را ہ پر قائم نہیں ہیں( یعنی گمراہ ہیں۔)

وَّھُمْ يَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۝۰ۭ

كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ۝۰ۚ
فَاللہُ يَحْكُمُ بَيْنَھُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝۱۱۳

حالانکہ وہ دو نو ں بھی کتاب پڑھتے،ہیں ( جس میں قا نونِ تعذیب ومغفرت کی تفصیل ہے) اور خود ہی ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیتے ہیں۔کتاب اللہ کو چھوڑ دینے اور جا ہلا نہ تصورات کو اجزائے دین بنا نے کے یہ سب کچھ نتائج ہیں۔
اسی طرح بالکل انھیں کی سی بات (ان لوگوں نے کہی) جو کچھ نہیں جانتے ۔
لہٰذا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے اس اختلاف کا فیصلہ فرما دیں گے۔ (جس میں وہ جھگڑتے ہیں)

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ

اللہِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ
وَسَعٰى فِيْ خَرَابِہَا

اُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ

يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ۝۰ۥۭ

لَھُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۱۱۴

اور اس سے بڑ ھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں

اللہ تعالیٰ کا ذکر کیے جانے سے روکے۔
اور ان کی خرابی کے در پے رہے۔( یہ دونوں گر وہ دین ِالٰہی کے حامل کہلانے کے با وجود آپس کی ر قا بت میں اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو ویران کرتے اور ان میں عبادت سے لوگوں کو روکتے ہیں)۔

ان لوگوں کو داخل نہیں ہونا چاہئے، مگر ڈرتے ہوئے۔

( مسا جد کی بے حر متی وویرانی انھیں سزاوار نہ تھی ) چا ہئے تو یہ تھا کہ وہ ( ان کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ) ان میں باادب داخل ہوتے۔
ان ظالموں کے لیے دنیا میں بھی ذلّت وخواری ہے ۔ اور ان کے لیے آخرت میں بڑا ہی سخت عذاب ہے۔

توضیح : یہ ایک دوسرے کی مسا جد کو اس لیے ویران کرتے کہ ہر گر وہ اپنی ہی سمت قبلہ کو بڑی نیکی سمجھتا تھا۔ اس کی تردید میں اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں۔

وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۝۰ۤ

فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ۝۰ۭ

اِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۱۱۵

اور مشرق و مغرب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی مقرر کردہ سمتیں ہیں۔ 

(اللہ تعالیٰ کے حکم سے) تم جس سمت کو بھی قبلہ بنائو گے۔اسی طرف اللہ تعالیٰ کو پائو گے(یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت محدود نہیں ہے)
(اس آیت میں وجہ کے معنی توجہ کے ہیں)
بے شک اللہ تعالیٰ سا ری کائنات پر محیط ہیں اور وہ ساری چیزیں جاننے والے ہیں۔

توضیح : سمت ِقبلہ ہی کے تعلق سے ان کا عقیدہ خراب نہ تھا بلکہ عقیدہ کی بڑی خرابی ان میں یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد کے بھی قائل ہیں ۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا۝۰ۙ سُبْحٰنَہٗ۝۰ۭ

اور کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اولا در رکھتے ہیں (نہیں) اللہ تعالیٰ (ان کے جاہلانہ تصورات سے) پاک و منزہ ہیں۔

بَلْ لَّہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ
كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ۝۱۱۶

(اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں) بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔
سب انھیں کے (محتاج اور) تابع فرمان ہیں۔

بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ ہی ( پہلی مر تبہ جب کچھ نہ تھا) زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے ہیں۔

وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۝۱۱۷

اور اللہ تعالیٰ جب کوئی کام کر نا چاہتے ہیں تو حکم فر ما تے ہیں۔ ہو جا پس وہ ہو جا تا ہے( اس طرح اللہ تعالیٰ کی کا ر سازی وکار فرمائی میں کو ئی فر د خلق کسی حیثیت سے بھی شریک و دخیل نہیں ہے کیونکہ فرمانروائی کا پو را نظام ایک لفظ کن سے انجام پاتا ہے ۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا يُكَلِّمُنَا اللہُ اَوْ تَاْتِيْنَآ اٰيَۃٌ۝۰ۭ

اور جو لوگ کچھ نہیں جانتے (یعنی مشرک) وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سے کلام کیوں نہیں کرتے ۔یا ہما رے پاس کوئی خاص نشانی کیوں نہیں آتی( جس کی بناء پر ہم قرآن کو اللہ کا کلام اور محمد ﷺ کو اللہ کا رسول مان لیتے )

توضیح : ظامِ الٰہی تو یہ ہے کہ محقق ایک ہی ہوتا ہے ۔اور اس کی تحقیق اس سے استفادہ کر نے والے بہت ہو تے ہیں وحی ہم سب پر کیوں نہیں آتی؟ یہ ایک جا ہلا نہ سوال ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ ان کے اس جا ہلانہ سوال کا جواب نہیں دے رہے ہیں۔بلکہ ار شاد فر ماتے ہیں۔

كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّثْلَ قَوْلِہِمْ۝۰ۭ
تَشَابَہَتْ قُلُوْبُھُمْ۝۰ۭ قَدْ بَيَّنَّا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝۱۱۸

پہلے کے جاہل لوگ بھی انھیں کی سی باتیں کہا کرتے تھے۔

ان کے قلوب آپس میں ملتےجلتے ہیں ۔ یعنی سب کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں۔ یقین کر نے والوں کیلئے ہم اپنے احکام واضح طور پر بیان کر دیئے ہیں۔
(یقین پیدا کر نے کے لیے کشف و خواب کی ضرورت ہے اور نہ امورِ غیبیہ کو بالعین دیکھنے کی ۔ مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہی عین الیقین کی شان رکھتا ہے)

توضیح : کشف کی حیثیت بھی ایک خواب کی سی ہے خواب کی طرح کشف بھی محتاجِ تعبیر ہو تا ہے۔اہل کشف کے لیے صحیح راہ یہی تھی کہ وہ اپنے مکشو فات کی تعبیر کلام ِ الٰہی کے تحت کرتے۔ بجائے اس کے انھوں نے کلام الٰہی کی تعبیر اپنے کشف کے تحت کر دی۔چنانچہ’’اِلٰہیات‘‘ وحدۃ الوجود، وحدۃ الشہود۔ جبر وقدر۔ جزاءوسزا کے تمام صو فیا نہ مسائل اسی لغز ش کی پیداوار ہیں اور دنیائے اسلام پر چھائے ہوئے ہیں۔الٰہی ونبوی تعلیم سے کما حقّہ، واقف نہ رہنے کا نتیجہ ہیں۔ کلام الٰہی کی اس طرح ناقدری ہو تی ہے تو کلام الٰہی سے مرادِ الٰہی کا پا نا محال ہو جاتا ہے۔اور بے دینی کی باتیں عقیدہ وعمل بن جا تی ہیں۔

اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا۝۰ۙ

وَّلَا تُسْـــَٔـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْمِ۝۱۱۹

یقیناً ہم نے آپﷺ کو دین حق کے ساتھ( ایمان لا نے والوں کو) جنّت کی خوش خبری دینے والا( منکرین کو) عذابِ نار سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔
(اظہارِحق کے بعد کسی کے ایمان نہ لا نے کی ذمہ داری آپ ﷺ پر نہیں ہے)
اور اب ان کے دوزخ میں جا نے کی پوچھ آپ سے نہ ہو گی۔

وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَہُوْدُ وَلَاالنَّصٰرٰى

حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ۝۰

اور آپﷺ سے نہ تو یہو دی راضی ہوں گے اور نہ عیسائی( وہ آپﷺ کی مخالفت کر تے رہیں گے مخالفت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔)

تا آنکہ آپ ان کا مذہب اختیار نہ کرلیں۔

توضیح : آج بھی مسلمانوں کے تعلق سے غیرا قوام کی ہی نفسیات ہیں اور مسلمان ہیں کہ دین کو چھوڑ کر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ فرقہ واریت کا لفظ گھڑ کر مسلمانوں کو دین سے برگشتہ کیا جارہا ہے اورمسلمان غیر شعوری طور پر اسکا شکار ہو رہے ہیں۔

قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى۝۰ۭ

آپ(ﷺ )کہہ دیجئے کہ ہدایت تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو۔(یعنی ہدایت کسی کی خاندانی میراث نہیں ہے۔)

وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۝۰ۙ
مَالَكَ مِنَ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۝۱۲۰ؔ

(ائے نبی ﷺ) اور اگرآپ کے پاس علم (وحی الٰہی) آجا نے کے بعد( اگر آپ ان گمراہوں) ان کی خواہشات پر چلو گے تو
تو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں نہ آپﷺ کا کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی آپ(ﷺ )کو بچا ئے گا اور نہ کسی طرح کی حمایت کر سکے گا۔

( یہاں یہ حقیقت منکشف ہو تی ہے دین کا صحیح علم اسلام ہی میں ہے۔اس کے سواجو کچھ ہے ۔ باطل و بے اصل ہے۔) مسلمان بھی علمِ دین سے بے بہر ہ رہیں گے تو جاہل ہی ر ہیں گے اور جہل ہی شرک و غیرہ جیسے شجر خبیث کا تخم ہے۔

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ۝۰ۭ

اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ۝۰ۭ
وَمَنْ يَّكْفُرْ بِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۱۲۱ۧ

جن لو گوں کو ہم نے (اس سے پہلے) کتاب دی ہے، ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو بلا کسی تلبیس و کتمان کے کما حقّہ، اُن کتبِ الٰہیہ کو پڑھتے ہیں( جو نزولِ قرآن کے زمانے تک تحریف و تلبیس سے محفوظ رہ گئی تھیں)
وہ یہ تسلیم کر تے ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے۔
لہٰذا جو لوگ قرآن کو اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں مانتے وہی انتہائی نقصان میں ہیں( ایسا نقصان جس کی تلا فی کسی صورت سے ممکن نہیں۔ یعنی وہ ہمیشہ ہمیشہ آگ میں جلتے بھنتے رہیں گے۔)

( خصوصی طور پر یہ آیت اہل کتاب سے متعلق ہے۔دیگرا قوم کو بھی اپنی نجات کے لیے قرآن پر ایمان لا نا ضروری ہے۔ اور ایمان کے ساتھ اتباع رسول اللہ ﷺ بھی لازم و ملزوم ہے)

يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ

ائے بنی اسرائیل میرے وہ احسانات یاد کرو جو میں نے تم پر کیے۔

الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝۱۲۲

اور یہ کہ میں نے( تمہا رے خاندان میں نبوت جا ری کر کے) تم کواہلِ عا لم پر فضیلت بخشی۔

وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِيْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا

اور اس دن کے شداید سے ڈرو جس دن کوئی کسی کی کے کام نہ آئےگا۔

وَّلَا يُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا

اور نہ گناہوں کا کوئی کفارہ قبول کیا جائے گا۔ اور نہ کسی کی سفارش

تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ۝۱۲۳

فائدہ دے سکے گی۔ اور نہ انھیں کسی قسم کی مدد مل سکے گی۔

توضیح : اللہ تعالیٰ بار بار بنی اسرائیل کے باطل عقائد کی تردید فر ما رہے ہیں۔کیوں کہ وہ نجات کے باطل عقائد کی بناء پر طغیان وسر کشی میں جری ہو گئے تھے اور ان کے قلوب خوفِ الٰہی سے خا لی ہو چکے تھے۔آج امّت محمد یہﷺ کی حالت بھی ان سے کچھ مختلف نہیں ہے۔

وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّہُنَّ۝۰ۭ
قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا
قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ۝۰ۭ
قَالَ لَا يَنَالُ عَہْدِي الظّٰلِــمِيْنَ۝۱۲۴

اور(واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب کہ ابراہیم ؑ کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمائش کی۔ جس میں و ہ پو رے اترے۔
تو اللہ تعالیٰ نے فر ما یا (اس سلسلے میں) میں تم کو لو گوں کا پیشوا بنا ئو ں گا۔

( ابراہیم ؑ ؑنے) عرض کیا۔ میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے۔
( اللہ تعالیٰ نے ) ار شاد فر ما یا۔ میرا وعدہ ظا لمین سے متعلق نہ ہو گا۔

(یعنی انھیں قوموں کو امامت و پیشوائی بخشی جا ئے گی جو الٰہی و نبوی تعلیم پر عامل ہوں گے۔ اور اس کے خلاف عمل کر نے والے ظالم ہیں۔ اور ظالم اس منصبِ جلیلہ( امامت) سے محروم ر ہیں گے۔ ظالمین سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے الٰہی ونبوی تعلیم کو فرا موش کر دیا اور نجات کے متعلق مشر کا نہ عقائد اختیار کیے اور بدعات ایجاد کیں۔

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۝۰ۭ
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى۝۰ۭ

اور ( وہ واقعہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے) جب کہ ہم نے کعبۃ ا للہ کو لوگوں کا مرجع( عبا دت کی جگہ) اور جائے امن قرار دیا۔
اور تا کید کہ مقامِ ابراہیم کو مصلّٰی قرار دو۔(جہاں ابراہیمؑ نماز پڑ ھتے تھے)

وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ۝۰ۭ

اور جس وقت ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ اس گھر کی( تعمیر کر رہے تھے یعنی) دیوار یں بلند کر ر ہے تھے۔(اسماعیل ؑ دعا کرتے تھے )

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ

ائے ہما رے رب ہم سے یہ خد مت قبول فر ما۔

السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۱۲۷

بے شک آپ تعالیٰ ہی( دعائوں کے ) سننے والے ( اور ہما ری دلی تمنّائوں کو) جاننے والے ہیں۔

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ

ائے ہما رے پر ور دگار ہم کو اپنا اطاعت گزار بندہ بنا دیجیے نہ صرف ہم کو

وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّكَ۝۰۠
وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۱۲۸

بلکہ ہما ری نسلوں کو بھی ایسی امّت بنا ئیے جو آپ کی فر مانبر دار ہو۔
اور ہم کو اس گھر کی زیارت کے آداب( ومنا سک حج) بتا دیجئے اور ہمارے حال پر ہمیشہ توجہ فر ماتے رہیے۔
بے شک آپ بڑے ہی معاف کر نے والے اور بڑے ہی مہربان ہیں۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ
يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ
وَيُزَكِّيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۲۹ۧ

ائے پروردگار( ایک اور معروضہ آپ سے یہ بھی ہے کہ) ہما ری نسل میں ایک رسول پیدا کیجئے۔
جو انھیں آپ کی آیتیں پڑ ھ کر سنائے اور انھیں کتاب و حکمت ( یعنی کتاب و سنّت) کی تعلیم دے ۔

اور ان کا تزکیہ کرے( یعنی ان کی زندگی سنوارے) بے شک حق تعالیٰ بڑے ہی زبروست حکیم و دانا ہیں۔

( یعنی اللہ تعالیٰ کا ہر حکم محکم اور ہر تجویز نہایت ہی مستحکم حکیمانہ ہے جس میں سر مو کسی قسم کے نقص کو دخل نہیں ۔ یہاں دوچیزیں ثابت ہو تی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعا کی بنا ء پر جو رسول آئیں گے وہ مکہ میں آئیں گے اور حضرت ابراہیمؑ کی نسل میں حضرت اسمائیلؑ کی اولاد سے ہو ں گے۔ ایک حدیث میں آپ نے فر ما یا ۔ میں اپنے باپ ابراہیمؑ کی دعا ہوں۔ عیسیٰ ؑ کی بشارت ہوں۔ اپنی والدہ کا خواب ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ الٰہی و نبوی تعلیم سے نفس کا تزکیہ ہو تا ہے بنی اسرائیل نے ان حقائق کو بھلا دیا مّلتِ ابراہیمی جس کا ذکر مذکو رہ آیات میں کیا گیا ہے اس کو بگاڑ لیا۔ اور اس ملّت کی تجدید کے لیے اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیلؑ سے ایک رسول مبعوث فرمایا۔ چا ہیے تو یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے آ پ ﷺ پر ایمان لاتے اس کے بر خلاف آپ ہی کے سخت خلاف ہو گئے۔

وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰھٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ۝۰ۭ

بے وقوف کے سوا ملت ابراہیمیؑ سے کون رو گر دانی کر سکتا ہے؟

توضیح : حضرت عبد اللہ بن سلام یہودی تھے۔ مسلمان ہو گئے تھے۔ تو راۃ کے زبر دست عالم تھے اپنے دو بھتیجوں سے جن کا نام سلمہ اور مہاجر تھا فر ما یا کہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے توراۃ میں فر ما یا ہے کہ ’’میں بنی اسماعیل سے ایک نبی پیدا کر نے والا ہوں جن کا نام احمد ہو گا ۔ جو شخص آپ پر ایمان لائے گا وہ راہِ ہدایت پر ہو گا اور جو انکار کرے گا ملعون ہو گا‘‘ یہ سن کر سلمہ نے اسلام قبول کر لیا اور مہاجر نے انکار کر دیا۔

وَلَقَدِ اصْطَفَيْنٰہُ فِي الدُّنْيَا۝۰ۚ وَاِنَّہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۱۳۰

اور یقیناً ہم نے انھیں دنیا میں بر گذیدہ کیا اور آخرت میں بھی وہ صالحین میں شمار ہوں گے۔حضرت ابراہیمؑ کا یہ حال تھا ۔

اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ۝۰ۙ

قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۳۱

جب ان سے ان کے پر ور دگار نے کہا اسلام لے آئو یعنی اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے آگے جھک جا ئو( سرِ اطاعت خم کردو) بے چوں وچرا فرمانبرداری اختیار کرو۔
تو ابراہیم ؑ نے کہا ۔ میں نے ساری کائنات کے پر ور دگار کی اطاعت قبول کرلی۔

توضیح : قَالَ اَسْلَمْتُ میں’’قال ‘‘، ’’اِذْ‘‘ حرفِ شرط کا جواب ہے۔ اس لیے جوابِ شرط کے تر جمے میں’’ تو‘‘ کا اضافہ کیا گیا۔۔

وَوَصّٰى بِہَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْہِ وَيَعْقُوْبُ۝۰ۭ

اور (نہ صرف یہ کہ وہ ہما رے مخلص و فر ما نبر دار بندہ تھے بلکہ) انھوں نے اپنی اولاد کو بھی اسی طرح فر ما نبر دار بنے رہنے کی وصیت کی۔ اور حضرت یعقوبؑ نے بھی( حضرت ابراہیمؑ کے طریقے پر ان کے قدم بہ قدم چلنے کی اسی طرح ہدایت کی تھی)

يٰبَنِىَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ

ائے میرے پیارے عزیز بچّو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اسی دین اسلام کو پسند فر ما یاہے۔

( یعنی اللہ تعالیٰ کو وہی طریقۂ زندگی پسند ہے جو مرضی الٰہی کے مطابق ہو اور س میں شرک کا شبہ بھی نہ ہو۔ یعنی وہ عبادت کسی کے دکھا نے، بتا نے، نیک نام کہلا نے، نمود و شہرت کے لیے نہ ہو۔ محض اللہ تعالیٰ کی خوش نو دی کے لیے ہو۔

فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۳۲ۭ

لہٰذا تم مر تے دم تک اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم پر جمے ر ہو۔

یعنی زمانے کے حالات کتنے ہی بدل جائیں ما حول تم پر کتنا ہی دبائو ڈالے۔ کیسے ہی مصائب کا سا منا کر نا پڑے مگر تم اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایات کے خلاف سرِ موانحراف نہ کر نا ایسے مو قعوں پر اگر جان پر بھی آبنے تو جان جو کھم میں ڈالنا، جان پر کھیل جا نا ،جان جانِ آفریں کے حوالے کر دینا ہی کمال ایمان ہے۔ جنّت کی خریداری ہی فوزِعظم ہے جیسا کہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ۝۰ۣ وَعْدًا عَلَيْہِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ۝۰ۭ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ مِنَ اللہِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِہٖ۝۰ۭ وَذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۱۱ (سورہ توبہ آیت :۱۱۱ )
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں۔ یہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں( اللہ کے دشمنوں کو) مارتے ہیں اور خود مارے بھی جاتے ہیں اس پر اللہ نے ان سے توریت ، انجیل، قرآن میں جنت کا وعدہ کر رہا ہے( جو پورا ہو کر رہے گا) اللہ تعالیٰ سےزیادہ وعدہ کا پورا کر نے والا کون ہے؟ تو جو معاملہ تم نے اس سے کیا ہے۔ اس پر خوشیاں منائو یہی بڑی کا میا بی ہے۔

اَمْ كُنْتُمْ شُہَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ۝۰ۙ

ائے بنی اسرائیل کیا تم اس وقت مو جود تھے جب یعقوب (علیہ السلام) اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے( انھیں فکر تھی تو یہ تھی کہ میرے بعد میری اولاد کہیں دین ِ الٰہی سے نہ پھر جا ئے۔ ایسے نازک وقت میں بھی اپنی اولاد سے ایمان کی تجدید کر وا لی۔

اِذْ قَالَ لِبَنِيْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ۝۰ۭ
قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰہَكَ وَاِلٰہَ اٰبَاۗىِٕكَ

اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــہًا وَّاحِدًا۝۰ۚۖ وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۝۱۳۳

اس وقت اپنے بیٹوں سے پو چھا کہ میر ے بعد تم کس کی عبادت کروگے۔
سب بچوں نے اقرار کیا ہم اللہ ہی کی عبادت کریں گے جو آپ کے باپ دادا
ابراہیمؑ۔ اسماعیلؑ اور اسحاقؑ سب کے الٰہ واحد ہیں۔ اور (آپ اطمینان رکھیئے) ہم ( مرتے دم تک) اسی اللہ کے فر ما نبر دار بندے بنے رہیں گے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کو الٰہ واحدما ننا، اللہ تعالیٰ ہی کے آگے جھک جا نا غیر اللہ سے بے نیاز ہو جا نا ہی دین ہے ۔ آج اللہ تعالیٰ کو اِلٰہ واحد ماننے کا صرف زبانی ادّعا ہے۔ نحنُ مُسْلِمُوْن سے یکسر بے خبری ہے۔بنیادی کلمہ لا الہ الا اللہ کے مطابق ہر چھوٹی بڑی حاجت اور ہر مشکل حیرانی و پریشانی میں اللہ تعالیٰ ہی سے مدد ما نگی جا نی چا ہیئے اور اللہ تعا لیٰ ہی کے معبود و مستعان ہو نے کا ہم نے جو اقرار کیا ہے اور جس کا وعدہ ہم پانچ وقت کی نما زوں میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۝۴ۭ [١:٥] کے تحت کرتے ہیں، وہ کس حد تک صحیح تصور کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ دیندار کہلا نے والی ہماری اکثریت اس اقرار کے خلاف حَلِّ مشکلات دفع مصا ئب کے لیے غیر اللہ۔ ملا ئکہ۔ انبیاء علیہم السلام مقر بانِ الٰہی۔ بزرگا نِ دین ، وغیرہم کو مدد کے لیے پکارتی۔ ان کاواسطہ وسیلہ لیتی ان کی نذر و نیاز ما نتی ہے۔ اور جن کے لیے قبریں مزاریں آستا نہ(استعا نت کا ذریعہ) بنی ہوئی ہیں ۔ العیاذباللہ۔ یہ سارے اعمال شرک ہیں ۔ جن کا انجام جہنم ہے۔

تِلْكَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ۝۰ۚ لَہَا مَا كَسَبَتْ
وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ۝۰ۚ
وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۱۳۴

یہ ہیں تمہارے وہ اسلاف جو گزر چکے اُن کو اُن کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔

اور تم کو تمہارے اعمال کا ۔
اور جو عمل وہ کر تے تھے ان کی پرسش تم سے نہیں ہو گی۔

سبق: جو لوگ اپنے ایمان و عمل کے ساتھ اس جہاں سے گزر گئے ان کا مقبولِ حق ہو نا تمہارے کام نہ آئے گا ۔ اور تم محض اس بناء پر نجات نہ پا ئو گے کہ تمہا رے اسلاف مقبول حق تھے۔ اس ار شاد سے نجات کے تمام باطل تصورات کی جڑ کٹ جا تی ہے۔ یہو دو نصا ری اپنی مسلسل نا فر ما نیوں کی وجہ گمرا ہ ہو تے گئے۔ عتاب و غضب الٰہی کے مستحق بنے۔ اس کے باوجود ان کی شرارتیں اس حدتک پہنچ چکی تھی کہ وہ ملت ِابراہیمی کی حقانیت سے واقف ہوتے ہو ئے اور آپ ﷺپر ایمان نہ لا نے سے اپنا ملعون ہو نا جانتے ہوئے بھی مسلمانوں کو یہودی یا نصرانی بناکر رحمت ِالٰہی سے دور کر نے کی فکر میں لگے ر ہے آج بھی مسلمانوں کے تعلق سے باطل پرست حکمران اقوام کی یہی نفسیات ہیں۔ کہتے ہیں۔ ’ دین کو ئی چیز نہیں۔ اس سے فر قہ واریت پید اہو تی ہے جس کو کسی طرح بر داشت نہیں کیا جا سکتا۔ فر قہ واریت پھیلانے والوں کو سختی سے کچل دیا جا ئے گا، کیوں کہ اس سے یک جہتی با قی نہیں رہتی و غیرہ۔ خوشنما الفاظ گھڑکربے دین بنا نے کی سعی لا حا صل کی جا تی ہے ۔
دینی بر تری انھیں پسند نہیں۔ ان کی دلی تمنا ہے کہ کاش تم بھی ان کی طرح کا فر ہو جا تے تا کہ کسی کو کسی پر مذہبی فو قیت باقی نہ رہے۔ وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَـمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً ۔ترجمہ : وہ چا ہتے ہیں کیا ہی اچھا ہو تا کہ تم کافرہو تے جیسا کہ وہ کا فر ہوئے ہیں تا کہ وہ اور تم برابر ہو جا ئو۔
فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ ( سو رہ نساء آیت۸۹ )خبر دار ان کو دوست نہ بنائو۔ ان کی باتوں میں نہ آئو۔
اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۶۰ۙ ( سو رہ یٰسین آیت ۶۰ ) یہ تمہا رے دشمن ہیں ۔
(۱) يُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ وَتَاْبٰي قُلُوْبُہُمْ۝۰ۚ وَاَكْثَرُہُمْ فٰسِقُوْنَ۝۸ۚ (سو رہ توبہ ۸ )اپنی فریب آمیز با تو ں سے تمہیں راضی رکھنے کی کو شش کر تے ہیں اوران کے دل ان باتوں کو نہیں مانتے اور ان کی اکثریت فاسق ہے ( احکام ِ الٰہی کی تعمیل کر نا نہیں چا ہتی)
۲۔ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاۗءُ مِنْ اَفْوَاہِھِمْ۝۰ۚۖ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُھُمْ اَكْبَرُ۝۰ۭ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۱۱۸ (سورہ آل عمران:۱۱۸) ترجمہ: بغض ان کے منہ سے ظاہر ہو تا ہے ۔ اور جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپا تے ہیں(تمہاری بر بادی کے منصوبے) وہ بہت زیادہ ہیں۔ اس طرح ہم نے تم سے ان کی نفسیات بیان کر دی ہیں۔ تاکہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔اس سلسلے میں یہو دو نصاریٰ کی نفسیات کا ذکر فر ما یا جا ر ہا ہے۔

وَقَالُوْا كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَہْتَدُوْا۝۰ۭ
قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰھٖمَ حَنِيْفًا۝۰ۭ

وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۱۳۵

یہود و نصاریٰ کہتے ہیں( ائے مسلمانو) یہودو نصاریٰ ہو جا ئو(اسی صورت میں تم ہدا یت یا فتہ ہو سکتے ہو)
(ائے نبی ﷺ) ان سے کہئے(نہیں ہر گز نہیں ) ہم تم تو ملّت ابراہیمی اختیار کر تے ہیں کہ وہ خدائے واحد ہی کے ہو کر رہے تھے۔
اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے۔
( لہٰذا ہدایت تو ملّتِ ابراہیمی میں ہے جس کے ہم پیر و ہیں)

قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ

ان کو بھی سنا دیجئے کہ ہم اللہ ہی پر ایمان لا ئے۔
(اللہ تعالیٰ ہی کو اِلٰہ واحد معبو و مستعان مانا)

وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ

اور ہم پر جو کتاب نازل ہوئی اور وہ کتابیں جو( تمام سا بقہ انبیا علیہم السلام) ابراہیمؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور ان کی اولاد پر

وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ
وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۚ
لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۝۰ؗۖ

وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۝۱۳۶

نازل ہوئیں
اور جو کتابیں موسی ٰؑ اور عیسی ٰؑ کو عطا ہوئیں وہ پیغمبروں کو ان کے پر ور دگار کی طرف سے ملیں ان سب پر ایمان لا ئے۔

ہم ان پیغمبروں میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے( کیو نکہ ان سب کے پاس ایک ہی تعلیم تھی جن کے بعد ان کی اُمتوں نے اسے بگاڑ لیا)
اور ہم تو مسلمان ہیں( ہم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت قبول کر لی)

فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ

لہٰذا ائے ایمان والو جس طرح تم ایمان رکھتے ہو اسی طرح وہ بھی ایمان لائیں تو ضرور ہدایت پائیں گے۔

(یعنی وہ اس وقت مومن ہو سکتے ہیں جب کہ تمہاری طرح تمام انبیاء علیہم السلام اور سب کتبِ الٰہیہ کے حق ہو نے پر ایمان لائیں۔ اور اس کتاب قرآنِ مجید اور محمد ﷺ کی اتباع کو اپنے پر لازم کر لیں)

وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ۝۰ۚ

اور اگر وہ اس سے رو گر دانی کریں تو تعجب ہی کیا ہے وہ تمہاری مخالف راہ پر ہی ہوں گے۔

فَسَيَكْفِيْكَہُمُ اللہُ۝۰ۚ

لہٰذا اللہ تعالیٰ آپؐ کے لیے کافی ہیں۔

وَھُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۱۳۷ۭ

(اگر وہ آپﷺ کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی محاذ بھی قائم کر رہے ہیں تو اُن کی شرارتوں سے اللہ تعالیٰ تمہیں محفوظ رکھیں گے)
اور وہ تو ہر بات کو سنتے اور تمام احوال کو جانتے ہیں۔

صِبْغَۃَ اللہِ۝۰ۚوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً۝۰

اللہ کا رنگ اور اللہ کے (چڑ ھا ئے ہوئے) رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہوسکتا ہے۔
( یعنی ایسی فطری تعلیم خالقِ فطرت کے سوا کون دے سکتا ہے جس کو اختیار کر نے سے انسان دنیا و آخرت کی پاکیزہ اور عیش ونشاط کی دوامی زندگی کا مستحق قرار پا تا ہے۔

توضیح : لغت کے اعتبار سے صبغۃ اللہ کے معنی دین کو اپنے پر لازم کر لینے کے ہیں۔یعنی تعلیماتِ الٰہی کے مطابق اپنے کو ڈھال لینا۔ شعور بندگی کو بیدار رکھنا، سرا پا بندئہ حق بنا رہنا ہی اللہ کے رنگ میں رنگ جا نا ہے۔

وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ۝۱۳۸

اور ہم تو اسی کی بندگی کرنے والے ہیں۔(اُسی کے تابع فر مان ہیں)

توضیح : وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ سےصِبْغَۃَ اللہِ۝۰ۚ کی تشریح ہو تی ہے کہ ہم اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں یہ تعلیم رنگ کی طرح ہمارے رگ ور یشے میں سرایت کر گئی ہے۔ اگرزندگی بے بندگی ہے۔ شرک وطغیان سے آلودہ ہےآخرت سے غافل رکھنے والی ہے تو بمصداق آیت ِکر یمہ بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ آخرت کے تعلق سے ان کا علم نَسِیاًمَنْسِیا ہوچکا ہے۔ یعنی آخرت کی زندگی ایک بھولی بسری سی بات ہو چکی ہے۔ بَلْ ہُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْہَا بلکہ آخرت کی زندگی کے واقع ہو نے میں انھیں شک ہے۔بَلْ ہُمْ مِّنْہَا عَمُوْنَ (سورہ نحل آیت ۶۶ ) بلکہ وہ آخرت سے اندھے بنے ہوئے ہیں۔

قُلْ اَتُحَاۗجُّوْنَـــنَا فِي اللہِ وَھُوَرَبُّنَا وَرَبُّكُمْ۝۰ۚ

(ائے پیغمبر ﷺ) ان سے کہئے کیا تم ہم سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑ تے ہو؟ ( حالانکہ) وہی ہما را اور تمہا را رب ہے۔ مگر تم اللہ تعالیٰ کو اِ لہٰ واحد( معبود ومستعان کا ر ساز حا جت روا) نہیں مانتے۔

وَلَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝۰ۚ
وَنَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ۝۱۳۹ۙ

لہٰذا ہما رے اعمال ہما رے لیے یعنی ہما رے اعمال کا اجر ہم پا ئیں گے اور تمہا رے اعمال کا بدل تم پا ئو گے۔(مگر یہ سن لو)
اور ہم تو خالص اسی کے ہیں۔

( ایسی عبادت جس میں شرک کا شا ئبہ تک نہ ہو۔ یعنی ہم تمہاری طرح انبیاء علیہم السلام اور صالحین اُمت کو اللہ تعالیٰ کی کارسازی وکارفر مائی میں شریک و دخیل نہیں سمجھتے۔ ہما رے پاس اس تصور کا شائبہ بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کی راے و مشورے و سفارش سے فر ما نروائی اورکار سازی فر ما رہے ہیں’’ نَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ ‘‘ ہم اللہ تعالیٰ کی خالص ’’عبادت ‘‘کرنے والے ہیں۔ عبادت میں اخلاص یہ ہے کہ ’’عبادت‘‘ ریا اور دنیا طلبی سے پاک ہو اور عقیدہ وایمان باللہ میں اخلاص یہ کہ عقیدہ وایمان شرک سے پاک ہو۔

اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ
وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطَ كَانُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۝۰ۭ
قُلْ ءَ اَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللہُ۝۰ۭ
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللہِ۝۰ۭ
وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۱۴۰

یا( ان سے پو چھئے) کیا تم ایسی غلط بات کہتے ہو کہ حضرت ابراہیمؑ اورحضرت اسماعیلؑاور حضرت اسحاقؑ حضرت یعقوبؑ اور ان کی اولاد یہود یا نصاریٰ تھی۔
ان سے کہہ دیجئے کیا تم حقیقت ِحال سے زیادہ واقف ہو یا اللہ۔
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی حقیقتوں سے واقف ہو کر دین کو چھپا ئے۔
اور (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہیں۔

تِلْكَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ۝۰ۚ لَہَا مَا كَسَبَتْ

وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ۝۰ۚ وَلَا
تُسْـَٔـلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۱۴۱ۧ

(پھر اچھی طرح سن لو) تمہارے اسلاف گزر گئے(جو صالحین میں سے تھے) اپنے اعمال کی وہ جزاء پا ئیں گے۔
(ان کے اعمال سے تم کو کوئی فائدہ نہ ہوگا)
اور تمہارے عقیدہ وعمل کی جزاء تم کو ملے گی۔
اور وہ جو عمل کرتے تھے اس کی پرسش تم سے نہ ہو گی۔

(تم سے تمہارے اعمال کی پرسش ہو گی ۔تمہارے اعمال (عمل) ہی کے لحاظ سے تمہاری آخرت کا فیصلہ ہو گا۔ تم محض اس وجہ سے بخشے نہ جا ئو گے کہ تم اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی اولاد ہو یا ان سے نسبت رکھتے ہو)۔

سَيَقُوْلُ السُّفَہَاۗءُ مِنَ النَّاسِ

بے وقوف لوگ( یہود اور انھیں کی طرح ان کے ہم عقیدہ غیر یہود تحویلِ قبلہ کے بارے میں) یہ بات ضرور کہیں گے۔

مَا وَلىہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِىْ كَانُوْا عَلَيْہَا۝۰ۭ

قُلْ لِّلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۝۰ۭ

يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۱۴۲

کہ کس چیز نے ان (مسلمانوں) کو اس قبلہ بیت المقدس سے پھیر دیا جس کی طرف(رخ کر کے یہ نماز پڑ ھتے) تھے۔

کہہ دیجئے مشرق، ہو یا مغرب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے (اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ جس سمت کو چا ہیں فضیلت بخشیں کسی کو اعتراض کا حق نہیں)

اللہ تعالیٰ جس کو چا ہتے ہیں، سیدھی راہ دکھا تے ہیں۔

(یعنی اصلی قبلہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ کعبۃ اللہ ہی اصل قبلۂ ابراہیمی ہے۔ اس کا مادّی ثبوت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ جہاں نماز پڑ ھتے تھے وہ مقام اب تک محفوظ ہے۔مُصلیٔ ابراہیمی جس کا نام ہے اور جس کا رخ کعبۃ اللہ کی طرف ہے)

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ

وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ

اور اسی طرح ہم نے تم کو اعتدال پسند اُمّت بنا یا تا کہ تم لو گوں کے مقابلے میں گواہ ر ہو( یعنی موجودہ اور آنے والی نسلِ انسانی کیلئےرہنما بن سکو۔ اور اپنے علم وعمل سے ثابت کر دو کہ مسلمان کیسے ہو تے ہیں؟)
اور رسول تم پر گواہ بنیں( کہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی تعلیم علماً و عملاً تم تک پہنچادی ہے۔ اس طرح اپنے فرائضِ نبوت کے کماحقہ، انجام دینے کی شہادت دیں گے)

توضیح : اُمّتِ وسط اُمّت معتدل وہ ہےجس میں افراط و تفریط نہ ہو۔ عیسائیوں نے اِفراط اختیار کی ۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا اور یہو دیوں نے تفریط کی۔ حضرت عیسیؑ کی نبوت ہی کا انکار کر بیٹھے۔ امّتِ معتدل نے انھیں بڑھا یا نہ گھٹایا بلکہ انھیں انکے در جے پر رکھا۔’’ تمام امتوں میں تم بہترین اُمّت ہو ‘‘ کے خطاب سے شرف یاب فر ما تے ہوئے اس اعزاز کی وجہ بھی بتائی کہ تم قوم موں کی ہدایت کے لیے پیدا کیے گئےہو۔ کیوں کہ قیامت تک کو ئی نبی نہیں آئیںگے۔ تم ہی کوآخر الزماں کی لائی ہوئی تعلیم دوسروں تک پہنچانی ہے۔ تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو۔ اور برائیوں سے روکتے ہو ۔اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ واحد ہونے کا یقین رکھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی سے جڑے رہنے کی لوگوں کو دعوت دیتے ہو۔ لیکن آج مسلمان، اسلام کے دینِ حق ہونے کی شہادت دینے کے بجائے اہلِ باطل کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں۔ اور اسلام کی غلط شہادت دے رہے ، ہیں اور بعض تو ان میں اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ شنا خت بھی مشکل سے ہو تی ہے اور فخر ہے کہ انھیں کوئی مسلمان نہیں سمجھتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو
وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۴۷
فرماتے ہیں۔ دراصل یہ مومن ہی نہیں ہیں۔

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ
مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْہِ۝۰ۭ

وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَۃً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللہُ۝۰ۭ
وَمَا كَانَ اللہُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ۝۰ۭ

اور جس سمت قبلہ پر آپ پہلے تھے اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں( یہودو غیر یہود میں سے) کو ن رسول ﷺکا ساتھ دیتا ہے۔

اور کون پیچھے ہٹ جاتا ہے(یعنی کعبۃ اللہ کو قبلہ قرار دیئے جا نے پر کون مر تد ہو جا تا ہے )
( یوں تو اصل شریعت محمدیہﷺ میں کعبۃ اللہ ہی کو قبلہ تجویز کر رکھا تھا۔ تبدیلِ قبلہ سے امتحان مقصود تھا کہ مرتد کیلئے کوئی عذر باقی نہ رہے)
اور قبلہ کی تبدیلی کا حکم بڑا ہی گراں بار ہے۔ مگر ان لو گوں پر کچھ بھی مشکل نہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت بخشی۔
اور اللہ تعالیٰ ایسے نہیں ہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کریں ۔
(کیاوہ نمازیں جو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی تھیں، ضائع ہو گئیں، اس وسوسے کو مذ کورہ آیت میں دور فر ما یا گیا ۔)

اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۴۳

قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْہِكَ فِي السَّمَاۗءِ۝۰ۚ

بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑے ہی شفیق ور حیم ہیں، کسی کے ایمان کو بلا وجہ ضائع نہیں کرتے۔
ہم آپؐ کے چہرہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔

فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَۃً تَرْضٰىھَا۝۰۠

پھر ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف منہ کر نے کا حکم دیں گے۔
جسے آپ پسند کرتے ہیں(آپ کی بھی دلی تمنا تھی کہ اصل قبلہ ابراہیمیؑ کو قبلہ قرار دیا جائے)

فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ 

فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَہٗ۝۰ۭ

لہٰذا آپ ( نمازمیں) اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کیجئے۔
اور ائے مسلمانو! تم جہاں کہیں بھی ہوں( نمازمیں) اپنے چہروں کو اسی (مسجد حرام) کی طرف کر لو۔
(چاہے تم بیت المقدس، ہی میں کیوں نہ ہوں)

وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ
لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ۝۱۴۴

اوروہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی ہے قطعی طور پر جانتے ہیں کہ ان کے
رب کی طرف سے( آیا ہوا) یہ حکم حق ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہیں۔

توضیح : حضرت محمدﷺ نے ظہر کی دورکعت نماز پڑ ھی تھی کہ یہ ہدایت نازل ہوئی۔ اُسی وقت آپ نماز ہی کے اندر کعبۃ اللہ کی طرف پھر گئے اور بقیہ دور کعتیں پڑ ھیں اس مسجد کو قبلتین یعنی دو قبلہ والی مسجد کہتے ہیں جو مدینہ میں واقع ہے۔

وَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ۝۰ۚ وَمَآ اَنْتَ بِتَابِــــعٍ قِبْلَتَہُمْ۝۰ۚ

آپؐ ان اہلِ کتاب کے سامنے چا ہے کتنے ہی دلا ئل پیش کریں وہ آپؐ کے قبلہ کو قبول نہیں کریں گے ۔
اور نہ آپؐ ان کے قبلہ کی طرف رُخ کر سکتے ہیں۔
(کیو نکہ وہ اب منشاء الٰہی کے خلاف ہے)

وَمَا بَعْضُہُمْ بِتَابِـــعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ۝۰ۭ

اور نہ ان کا کوئی فریق دوسرے فریق کے قبلہ کو قبول کر تا ہے ۔

توضیح : اہل باطل اپنے باطل عقیدہ پر اس قدر جمے رہتے ہیں تو اہلِ حق کو اس سےزیادہ جمے رہنا چاہیئے۔اہلِ باطل لاکھ مخالفت کریں اور تحویلِ قبلہ کے حکم کو غیر وا جبی کہنے کی کتنی کوشش کریں ، آپ کو اُن کی خواہشات کی اتبا ع نہ کر نی چاہئیے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔

وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۝۰ۙ

علم حق آجا نے کے بعد اگر پؐ ان کی ( بے جا) خواہشات کی اتباع کریں گے تو۔

اِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۴۵ۘ

یقیناً اس وقت آپ ظالموں میں سے ہونگے۔

توضیح : علم حق کے خلاف جو بھی عقیدہ وعمل ہو گاوہ ’’اَھْوَا‘‘ یعنی خواہشات کی پیر وی کہلائے گا۔ علم حق کی موجود گی میں’’اَھْوَا‘‘ کی اتباع گو یا دین حق سے بر گشتہ ہو نا ہے۔

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَہٗ
كَـمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ۝۰ۭ

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ ان پیغمبر آخر الزماں کو (توریت وانجیل کی بشارتوں کی بناپر) اس طرح پہچا نتے ہیں ۔

جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو( ان کی صورت سے) پہچانتے ہیں۔

وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْہُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝۱۴۶ؔ

اور بعض ان میں سے (تحویل قبلہ کا) حق ہو نا جاننے کے با وجود دانستہ حق بات کو چھپا تے ہیں۔

اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ۝۱۴۷ۧ

یہ(تبدیل شدہ قبلہ) آپ ہی کے رب کا مقرر کیا ہوا ہے( یعنی کعبۃ اللہ ہی اصلی قبلۂ ابراہیمی ہے)
لہٰذا( اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر واقعی ثابت ہو نے کے بعد اہلِ کتاب کی شدید مخالفت کو دیکھ کر) آپ ہر گزشک کرنے والوں میں نہ ہو جائیں۔

وَلِكُلٍّ وِّجْہَۃٌ ھُوَمُوَلِّيْہَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۝۰ۭ۬

اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللہُ جَمِيْعًا۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۴۸

اور ہر امت کے لیے (عبادت کی) ایک سمت مقرر ہے وہ اس کی طرف رُخ کر تے ہیں( آخری امت کے لیے جو دین ِ ابراہیمی سے مناسبت رکھتی ہے قبلۂ ابرا ہیمی تجویز کیا گیا) لہٰذا تم نیکوں میں سبقت کرو۔
تم جہاں کہیں رہو گے اللہ تعالیٰ تم سب کو( محا سبۂ اعمال کے لیے) لے آئیں گے۔
بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے( کوئی شے قدرتِ الٰہی سے با ہر نہیں)

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ
وَاِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۱۴۹

اور(مکرر حکم دیا جا تا ہے کہ) آپ جہاں کہیں ہوں( سفر یا حضر میں بحالتِ نماز) اپنا چہرہ مسجدحرام کی طرف کر لیا کیجئے۔
اور وہ بلا شبہ آپ کے پر ور دگار کی طرف سے حق ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہیں۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ
وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَہٗ۝۰ۙ
لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ ۤ
حُجَّــۃٌ۝۰ۤۙ

اور (پھرتا کید کی جا تی ہے کہ ) آپ جہاں کہیں ہوں، (بوقت ِنماز) اپنا رخ مسجدحرام کی طرف کیجئے۔
اور (ائےمسلمانو) تم جہاں کہیں ہوں اسی مسجدحرام کی طرف اپنا رخ کیا کرو۔
(یہ تا کید اس لیے کی گئی ہے) تاکہ لوگوں کو تم پر کسی طرح کی حجّت کا موقع نہ ملے( وہ تمہیں الزام نہ دے سکیں یعنی تمہارا یہ عمل حق سے انحراف کرنے والوں پر حجت،ہو جائے ۔ اور انکی مخالفت تم پر حجت نہ ہو)

 اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ۝۰

مگر ان میں جو ظالم (ونا انصاف) ہیں وہ الزام دیتے ہی رہیں گے۔

توضیح : یہود مسلمانوں کو الزام دیتے کہ ہما رے دین کو نہیں مانتے مگر ہما رے قبلہ کی طرف نماز پڑ ھتے ہیں ۔اور مشرک
یہ الزام دیتے کہ دعو یٰ تو ابراہیم ؑ کے دین پر چلنے کا ہے لیکن ان کے قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑ ھتے۔ خا نۂ کعبہ کے قبلہ مقرر کیے یہ الزام دیتے کہ دعو یٰ تو ابراہیم ؑ کے دین پر چلنے کا ہے لیکن ان کے قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑ ھتے۔ خا نۂ کعبہ کے قبلہ مقرر کیے جانے سے ان کے یہ اعتراضات رفع ہو گئے۔

فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِيْ۝۰ۤ

وَلِاُتِمَّ نِعْمَتِىْ عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۝۱۵۰ۙۛ

لہٰذا ان کی مخالفت سے مت ڈرو اور مجھ سے ہی ڈر تے رہو( یعنی میرے حکم کی تعمیل کرو)
اور یہ بھی مقصود تھا کہ تم پر اپنی رحمت( نعمت ِدین) کی تکمیل کردوں (یعنی نعمت دین کا اتمام ہو جا ئے۔)

جیسا کہ ارشاد ہے ۔اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ ۭ (ما ئدہ )
ترجمہ: آج ہم نے تمہا رے لیے تمہا رادین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں۔ اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا اور (یہ مقصود ہے کہ تم پر ہدایت کی را ہیں پوری طرح واضح ہو جا ئیں) تم راہ راست پر چلنے لگو۔

كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ

( یہ تم پر ہما را ایسا ہی احسان ہے) جیسا کہ ہم نے تمہیں میں سے رسول بھیجا۔

يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ

وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ

وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۝۱۵۱ۭ

جو تم کو ہماری آیات پڑ ھ کر سنا تے ہیں اور تمہارا تز کیہ کر تے ہیں۔ (یعنی تمہا رے غلط عقائد کی اصلاح کرتے ہیں گناہوں سے پاک کرتے ہیں۔ احکام الٰہی پر عمل کر نے کا طریقہ بتا تے ہیں)
اور تم کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ عقل و دانا ئی سکھا تے ہیں (یعنی دین کی سمجھ پیدا کرتے ہیں)
نیز جن باتوں کا تم کو علم نہیں تھا تم ان کو ان کی تعلیم دیتے ہیں۔

تشریح : بند گی کے طور وطریق کی نبوی تعلیم بظا ہر خارج ازکتاب ہے اور آیت کریمہ مَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا کی رو سے داخلِ کتاب ہے۔اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اللہ کے رسول کی اتباع میں بجالا نا ہی دراصل دانا ئی ہے۔ حدیث میں عقل منداس کو کہا گیا ہے جو نا جائز خواہشات کو قا بو میں رکھے اور مرنے کے بعد کی زندگی کو سنوار نے کی کو شش میں لگ جا ئے۔ عقل و دانا ئی کی یہ تعلیم فی الحقیقت کتاب اللہ میں ہے اور نہا یت ہی بے وقوف کہا گیا ہے اس شخص کو جو من مانی زندگی گزارے اور نیک عمل کیے بغیر غلط آر زو ئوں میں مبتلا رہے کہ بزرگوں کی نسبتوں سے نجات ہوجائیگی ۔

فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۝۱۵۲ۧ

لہٰذا تم میری ان نعمتوں پر مجھ کو یاد کرو۔ میں بھی تمھیں یاد ر کھو ں گا (یعنی تم ہما رے احکام کی تعمیل کے ذریعہ ہما ری یاد میں لگے رہو۔ پھر میں بھی تمہاری اصلاح کی جانب متوجہ رہوں گا اور میرا شکر کرو(کہ میں نے تم کو اپنی ہدایتوں سے سر فراز کیا) اور میری ناشکری نہ کرو احکامِ الٰہی کی تعمیل شکر اور تعمیل سے گریز کفر ہے۔ 

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۳

ائے ایمان والو تم صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ صبرکر نے والوں کی مدد کرتے ہیں۔

آیاتِ ما قبل فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ کا جو صحیح مفہوم ہے وہ یہاں واضح ہو گیا۔
یعنی مصائب و مشکلات میں اللہ تعالیٰ سے مدد کا طالب ہو نا اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہے اور بندہ کی مدد کرنا۔ اُسے دین پر ثابت قدم رکھنا ہی گو یا اللہ تعالیٰ کا بندہ کو یاد کر نا ہے۔
اس کے سوا اہلِ تصوف مذ کو رہ آیات کا جو مطلب بیان کر تے ہیں یعنی ذاکر و مذ کو ر ایک ہو جائے۔ حسب ِارشادِ نبوی (ﷺ) تحریف غالّین ہے۔ اس آیت میں و اسْتَعِيْنُوْا سے مراد و اسْتَعِيْنُوْا بِاللہِ ہے۔ اس آیت سے مدد مانگنے کے وہ سا رے مشر کا نہ طریقوں کا ابطال ہو تا ہے جس میں امّت کے کثیر افراد مبتلا ہیں۔
اہلِ ایمان کے لیے مصا ئب و پریشانیوں میں نماز کے ذریعہ الٰہی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سے مدد ما نگیں اور صبر کریں۔ صبر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مصائب کے وقت پا ئے ثبات میں لغز ش نہ آنے پا ئے اور کوئی حرکت ایسی نہ ہو جو مرضیٔ رب کے خلاف ہو۔

وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۝۰ۭ

بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۝۱۵۴

اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں(معر کۂ حق و باطل میں) قتل کیے جاتے ہیں، ان کی نسبت یہ نہ کہو( یہ نہ سمجھو) کہ وہ مردے ہیں۔
موت سے اُن کی زندگی ختم نہیں ہو تی بلکہ زندگی کا مقام بدل جا تا ہے۔
بلکہ وہ زندہ ہیں( اس عالم میں زندہ ہیں جہاں وہ اپنے اعمال کا بہترین بدل پائیں گے)
مگر تم نہیں جانتے کہ (و ہ زند گی کیسی۔ ؟ وہ زند گی انسانی شعور وادراک سے بالا تر ہے)

توضیح :بے علم لوگ اس آیت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اولیائے کرام اور بزرگانِ دین زندہ ہیں اور اس طرح زندہ ہیں کہ اگر مشکلات میں مدد کے لیے ان کو پکارا جا ئے تو نہ صرف پکا رنے والے کی آواز ہی سنتے ہیں بلکہ اس کی مدد بھی کر تے ہیں۔ حالانکہ یہ آیت اس مفہوم کی اور اس مشر کا نہ عقیدہ کی متحمل نہیں ہے اور نہ آیت کا یہ محل ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں فی الحقیقت مشر کین اور منافقین کے اس خیال کی تردید کی ہے کہ اسلام قبول کرنا کیا ہے۔ گو یاد نیا وی عیش کے ساتھ ساتھ زندگی سے بھی ہاتھ دھونا ہے اس لیے یہ سمجھا یا جا رہا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو تے ہیں موت سے ان کی زندگی ختم نہیں ہو تی بلکہ آخرت کی زندگی کا آغاز ہو تا ہے۔ اور ان کے لوا ز مِ حیات اکل وشرب وہاں بھی جا ری رہتے ہیں۔ سورۂ آل عمران میں یہ تشریح موجود ہے ۔

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ

وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ
وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ

اور تمہارے قلبی احوال سے واقف ہو نے کے با وجود تم کو اپنے حالات سے( واقف کرا نے کے لیے) ہم تمہیں ضرور آزماتے رہیں گے۔ کچھ خوف سے کچھ بھوک وپیاس سے
اور کچھ جان ومال اور ثمرات کے نقصان سے ۔

اور آپؐایسے صابرین کو ( جو اِن حالات میں ثابت قدم رہتے ہیں جنّت کی) خو شخبری سنا دیجئے۔

الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ

یہ وہ لوگ ہیںکہ ان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو (رجوع اِلی اللہ ہوتے ہیں)

قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ

توکہتے ہیں ہم اللہ ہی کی مِلک ہیں اور ہم اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں (اور ان مصائب پر) صبر کا بے حد و حساب بدل پانے والے ہیں۔ جو مصیبت پہنچ رہی ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے اور اسی میں ہمارے لیے بہتری ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ۝۰ۣ

یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پرور دگار کی مغفرت ورحمت خاص وعام کے مستحق ہیں۔

وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ۝۱۵۷

اور یہی لوگ ہدایت یا فتہ ہیں۔

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِ اللہِ۝۰ۚ

یقیناً کو ہِ صفا و مروہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہو ئے منا سکِ حج میں سے ہیں ۔

توضیح :: یہ دو پہاڑ یاں ہیں مکہ میں کعبۃ اللہ کے قریب واقع ہیں حج و عمرہ کے طواف کے بعد ان کے درمیان تیز تیز چلتے اور نشیبی حصہ سے دوڑ تے ہوئے گزر تے ہیں۔ اسی کانام سعی ہے۔ اور یہ ملّت ابراہیمی ہو نے میں ۔ بعض کو شبہ پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فر مادی۔

فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ

لہٰذا جو شخص خا نۂ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے۔

نوٹ: عمرہ بھی ایک قسم کاحج ہے۔ اس میں اور حج میں یہ فرق ہے کہ حج خالص ذی الحجہ کے مہینے میں ہو تا ہے اور عمرہ اور مہینوں میں بھی ہو سکتا ہے۔حج میں احرام با ندھنا، پھر عرفہ کے دن عرفات کے میدان میں حاضر ہو نا پھر وہاں سے چل کر شعرا لحرام میں رات گزار نا، پھر صبح عید کو منٰی میں پہنچ کر کنکریاں پھینکنا اور حجامت بنوانا، احرام اتار نا، مکہ جا کر طوافِ کعبہ کرنا پھر صفاو مروہ کے درمیان جومکہ میںدو پہاڑ یاں ہیں دوڑ نا و غیرہ ہو تا ہے اور عمرہ میں صرف احرام باندھنا، خا نہ، کعبہ کا طواف کرنا، صفا و مروہ کے درمیان دوڑ نا ہو تا ہے پھر سر منڈ ھوائے اور احرام کھول دے اور حج بدل میں طواف کعبہ کے بعد سعی کرنا درست نہیں ہے۔ سعی کر نے کی صورت میں حج اسی کا ہوگیا۔ اب اس کو مصارفِ حج اداکرنا ضروری ہو جاتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس قرض کی پا داش میں ما خوذ ر ہے گا۔

فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِہِمَا۝۰ۭ
وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا۝۰ۙ فَاِنَّ اللہَ شَاكِـرٌ عَلِــيْمٌ۝۱۵۸

تواس پر کچھ گناہ نہیں کہ دو نوں کا طواف کرے۔
اور جو شخص جس قدر رغبت قلبی کے ساتھ کوئی نیک کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اتنی ہی قدر دانی کرتے ہیں بڑے ہی جاننے والے ہیں( یعنی اپنے مخلص بندوں کو خوب جانتے ہیں)

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْہُدٰى

جو لوگ ہما رے احکام، صاف و صر یح ہدایتیں جن کو ہم نے نازل کیا ہے( اپنے فاسد اغراض کے لیے) چھپا تے ہیں۔

مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ۝۰ۙ

بعد اس کے کہ ہم نے لوگوں کے لیے اپنی کتاب(توریت اور انجیل) میں اس کا اظہار کر دیا( کہ ایک آخری نبی اور آخری کتاب آنے والی ہےاور وہ فلاں فلاں صفات کے حامل ہوں گے جس کی بناء پر وہ آپ کو اس طرح پہچا نتے تھے جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں يَعْرِفُوْنَہٗ كَـمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ۝۰ۭ)

اُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُہُمُ اللہُ وَيَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ۝۱۵۹ۙ

ایسوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور بہت سے لعنت کرنے والے ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا

فَاُولٰۗىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْہِمْ۝۰ۚ
وَاَنَاالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۱۶۰

البتہ جو لوگ اپنی بداعمالیوں سے توبہ کرتے ہیں اور اپنی حالت درست کر لیتے ہیں اور جو امرِحق انھوں نے چھپا یا تھا۔اس کو صاف صاف بیان کرتے ہیں۔
تومیں بھی ان کےقصور معاف کیے دیتا ہوں۔
اور میں بڑا ہی معاف کرنے والا نہایت رحم والا ہوں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ

اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ۝۱۶۱ۙ
خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۚ
لَا يُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْظَرُوْنَ۝۱۶۲

جولوگ(امر حق کو چھپا کر) کا فر ہوئے اور (اسی حالت میں) مرے اور کافر ہی رہے۔
(دین واسلام کو قبول نہیں کیا)
ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور (اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں) سب انسانوں کی
وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی(پھٹکا ر) میں رہیں گے۔

نہ ان کے عذاب میں کمی کی جا ئے گی اور نہ انھیں مہلت دی جا ئے گی(یعنی ان کے عذاب میں ایک لحظہ کا وقفہ نہ ہوگا)

وَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ

لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ۝۱۶۳ۧ

اور(ائے لوگو خوب سمجھ لو) تمہارا معبود(تمہارا حا جت روا، مستعان، مالک و مختار) معبود( حقیقی) ایک ہی ہے ۔
اس کے سوا کوئی عبادت کے لا ئق نہیں وہی رحمٰن و رحیم ہے۔

توضیح :عوام میں غلط رہنمائی کی وجہ دین میں بہت سا ری خرابیاں گمرا ہیاں پیدا ہو چکی، ہیںجس کی وجہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا معبودِ حقیقی، حاجت روا، کار ساز خا لق مالک اور رب ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نظامِ ر بوبیت میں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کو شریک سمجھتے ہیں۔ کار خا نۂ قدرت میں انھیں بڑے ہی با اختیار جان کر ان کی نیاز و ندز ر مانتے ان سے استعانتیں چا ہتے ہیں یہی شرک ہے جس کا انجام جہنّم ہے۔
اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں ما کا ن لہم الخیرہ بیدہ الخیر انھیں کسی قسم کا اختیار نہیں۔ سا را اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود ِ حقیقی ہیں کسی کی رائے مشورہ اور کسی کو اپنا اختیار تفو یض کیے بغیر کسی کے واسطے وسیلے کے بغیر تنہا بہ نفسِ نفیس بندوں کی حاجت روائی فر ما تے ہیں۔

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ
وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ
وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا
وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ۝۰۠
وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ
الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۱۶۴

بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کر نے اور گر دش لیل ونہار میں یعنی رات ودن کے یکے بعد دیگرے آتے رہنے میں
اور ان کشتیوں میں جو ( سا مان اٹھائے ہوئے) سمندر میں چلتی ہیں جن سے لو گوں کو فا ئدہ پہنچتا ہے۔
اور اس بارش کے پا نی سے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان سےنازل کیا زمین کو اس کے خشک و مر دہ ہوجا نے کے بعد ترو تا زہ سرسبز و شاداب کیا۔
اور اس میں ہر قسم کے حیوانات پھیلا دیئے۔
اور ہوائوں کے بدلنے اور بادلوں میں جو زمین و آسمان کے درمیان روکا ہوا ہے۔
(اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اللہ ہی کے معبود و مستعان ہو نے کی) کس قدر نشانیاں، ہیں اُس قوم کے لیے جو عقل سو جھ بوجھ سے کام لیتی ہے۔

توضیح : یہ نظامِ ربوبیت جو کائنات کے گوشہ گوشہ میں جا ری ہے بڑے سے بڑا مفکر بھی جس سے فیض یاب ہے۔ہر سمجھ دار کے لیے جو سلیم الطبع ہو، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے واضح نشان ہیں، مشر کا نہ عقائد کی تردید ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کے اِلہٰ واحد معبود ومستعان ہو نے کا اثبات ہے۔یہ وہ حقائق ہیں جو ہر انسان کے تجربے اور مشا ہدہ میں ہیں۔ اس سرا پا رحمت نظامِ ربوبیت میں ہر انسان پر ورش پا رہا ہے اور منازلِ حیات طے کر رہا ہے۔چاہے وہ کسی کو واسطہ وسیلہ بنائے یا نہ بنائے۔ اللہ تعالیٰ کو اِلٰہ واحد معبود ومستعان ما نے یا نہ مانے حقائق کے انکار سے حقیقت نہیں بدلتی ۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا

اور لو گوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا( اللہ تعالیٰ کے ساتھ) غیر اللہ کو بھی ( چا ہے وہ ذی روح ہوں یا غیر ذی روح) شرکِ فرما نروا ئی قرار دے لیتے ہیں( یعنی رائے و مشورہ اور اختیار میں ان کو بھی شریک قرار دیتے ہیں۔) شرکت چا ہے وہ کتنی قلیل متصور ہو شرکت ہی کہلا ئے گی۔ اس طرح کی شرکت سے غیر شعوری طور پر اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کے درمیان حقیقت کے خلاف یک گو نہ برابری قرار پاتی ہے خالق ومخلوق تو برابر ہوہی نہیں سکتے۔

يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۝۰ۭ

وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں ، جیسی محبت اللہ تعالیٰ سے رکھنی چاہیئے۔

توضیح : مشرکین کے آگے جب یہ حقیقت بیان کی جاتی ہے کہ تم جن افرادِ خلق کو شریکِ خدائی قرار دیتے ہو۔ ان کو نفع وضرر کا رتی برابر اختیار نہیں ہے اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کو را ئے و مشورہ دے سکتے ہیں ۔ تو یہ ان کی عقیدت میں ایسے برہم ہوجاتے ہیں جیسے ایک صحیح العقیدہ مؤمن اللہ تعالیٰ کو بے اختیار کہنے کی صورت میں بر ہم ہو جاتا ہے ۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ

اور جو مومن ہیں ان کو اللہ تعالیٰ سے شدید محبت اور وابستگی ہو تی ہے۔

توضیح :جو لوگ الٰہی ونبوی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا معبود ومستعان مانتے ہیں حاجت روا وکار ساز جانتے ہیں۔ کسی کا واسطہ وسیلہ لینا بھی حقیقت کےخلاف شرک سمجھتے ہیں۔انھیں اللہ تعالیٰ سے شدید محبت ووابستگی ہو تی ہے۔ مرضیات الٰہی کو مقدم رکھتے ہیں ۔ اگر چہ کہ ساری دنیا ناراض ہو جائے۔ مشرکین اپنی حاجتوں اور پریشانیوں میں جس عقیدت کے ساتھ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ اہلِ ایمان اس سے کہیں زیادہ عقیدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی سے وابستہ رہتے ہیں۔ آج جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ نفع و ضرر کی قوتیں بعض افراد خلق مثلاً گزرے ہوئے بزر گانِ دین، اولیاء اللہ بڑے بڑے مقبرہ والوں کو حاصل ہیں وہ لوگ قیامت میں ان غیر اللہ کا بے اختیار ہو نا دیکھ لیں گے۔

وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ۝۰ۙ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلہِ جَمِيْعًا۝۰ۙ

اور ظالم جو کیفیت عذاب کے وقت دیکھیں گے اب اگر دیکھتےکہ ساری قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں(انھیں عذابِ الٰہی سے بچا نے والا کوئی نہیں ان کے باطل عقائد کی قلعی کھل جاتی)

وَّاَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ۝۱۶۵

اور اللہ تعالیٰ عذاب دینے میں بڑے ہی سخت ہیں۔

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا
وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْـبَابُ۝۱۶۶

وہ ایسا وقت ہو گا کہ (کفر کے پیشوا) غلط رہنما اپنے متبعین سےبے زاری کا اظہار کریں گے۔
جب کہ وہ دونوں عذابِ الٰہی کو دیکھ لیںگے اور آپس کے تمام تعلقات (اور ان کی عقید تیں) ختم ہو جا ئیں گے۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّۃً
فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ كَـمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا۝۰ۭ

اور ان کے تابعین( جو شِ انتقام میں) کہیں گے کہ اگر ہم کو پھر دنیا میں پلٹ کر جا نا نصیب ہو۔
تو ہم بھی ان سے ایسی ہی بے رخی بر تتے جیسے آج ہم سے یہ بر ت رہے ہیں۔

كَذٰلِكَ يُرِيْہِمُ اللہُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ
وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ۝۱۶۷ۧ

اس طرح حق تعالیٰ ان کے تمام اعمال(جن کو وہ اپنے لیے موجبِ فلاح و نجات سمجھ رہے تھے) موجبِ حسرت و ندامت بنا دیںگے۔
اور وہ دوزخ سے نکل نہ سکیں گے۔

نوٹ: گزشتہ آیات سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل نے احکامِ الٰہی سے نہ صرف رو گردانی کی بلکہ دین الٰہی میں بہت سارا ردبدل کردیا مثلاً یہ کہ :
۱۔ اونٹ حلال تھا لیکن حرام کرلیا۔ ۲۔ انبیاء علیہم السلام کی عقیدت و محبت میں غلو کیا اور انھیں خدا کا درجہ دیا۔
۳۔ ہفتہ کے روز مچھلی کا شکار منع تھا مگر اپنے طور پر جواز کی یہ صورت نکالی کہ جمعہ کے دن جال لگا تے اور ہفتہ کے روز جال میں پھنسی ہوئی مچھلیاں اتوار کے دن نکال لیتے۔ اس نا فرمانی کی پاداش میں ان کے چہرےمسخ کر دئے گئے۔
ان آیات میں حق تعالیٰ نے پچھلی امتوں کے جو واقعات بیان فر ما ئے ہیں، ان میں ہما رے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے بڑی عبرت کا سامان ہے۔ آج امتِ مسلمہ کی حالات کا جائزہ لیجئے۔ اس امّت کے بگاڑ میں اور پچھلی امتوں کی گمراہی کے واقعات میں بڑی مما ثلت پائی جاتی ہے۔ مثلاً
(۱) قرآن اس لیے نازل ہوا تھا کے زندگی کے ہرہر گو شہ میں اس کے احکام کی تعمیل کی جائے۔مگر اب قرآن صرف طاق کی زینت بن کررہ گیا ہے یا پھر تبرک کے لیے جلسوں کے آغاز کے وقت اور مُردوں پر ایصالِ ثواب کے لیے منتر اور اشلوک کے طور پر پڑھا جا نے لگا ہے۔
۲ ۔ حکم ہے کہ عورتیں پر دہ کریں مگر حال یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو اپنے کو حاجی و قاری کہلوا تے ہیں۔ مسجدوںکی امامت اور قرآن کی تفسیر کا بھی شوق رکھتے ہیں۔چند پیسوں کی خاطر اپنی جوان عمر بیٹیوں سےملازمت کر واتے ہیںکہ مردوں کے دوش بدوش و فتروں میں گھنٹوں بے پر دہ آزادا نہ وقت گزار دیں ۔ کوئی بتائے کہ ان کی عصمت و عفت اور عزتِ نفس کی کیا ضمانت ہے۔؟
۳۔ حق تعالیٰ کا فیصلہ ہے لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۝۰ۭ
جیسی کر نی ویسی بھر نی۔ لیکن عقیدہ اس طرح بگاڑ لیا کہ عقائد واعمال چا ہے کچھ بھی ہوں، زندگیاں فسق و فجور اور گناہوں سے کتنی ہی آلودہ ہوں مضائقہ نہیں۔ کیونکہ امت محمدیہ ہیں آخرت میں کسی نہ کسی بزرگ یا نبی کی سفارش پر۔ عذابِ الٰہی سے بچ جائیں گے۔
۴۔ بنیادی طور پر الٰہی ونبوی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مستعان مدد گار حاجت روا نہیں ہے لیکن اس حقیقت کے خلاف اکثررہنما کہلو ا نے والے یہ گمراہی پھیلا رہے ہیں کہ ہر بزرگ اور ولی اللہ مستعان و حاجت روا ہے۔ اس طرح لاالہ الااللہ اور لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ کی بنیادی تعلیم اور صریح حکمِ ربانی کے خلاف تعلیم دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ بزرگانِ دین اور اولیاء اللہ کو مدد کے لیے پکار نا۔ گویا اللہ تعالیٰ ہی کو پکار ناہے و غیر ہ۔ جو باتیں دین کی نہیں۔ ان کو دین میں شامل کرنا اور دین کے اصلی احکام کو فراموش کر دینا دراصل دین ہی کو بدل دینا ہے۔ غرض وہ سب کچھ اس امّت مسلمہ کے اندر پیدا ہو رہا ہے جو نزولِ قرآن کے زمانے میں بنی اسرائیل کا وصف تھا جو شخص نعمت دین کو بدل دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی ہی سخت سزا دینے والے ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰ؗۖ

ائے لوگو جوچیزیں زمین میں موجود ہیں ان میں سے حلا ل و پاک چیزیں کھا ئو۔

وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ
اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۱۶۸

اور تم شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو۔
وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

توضیح : غیر اللہ کی ربوبیت کے باطل عقیدہ میں مبتلا کرنا شیطان کا ایک اہم کام ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حلال چیز کو حرام کرلینا بھی امرِ شیطانی ہے۔وہ ایسے عقائد کی تعلیم دیتا ہے جس کے جو از میں کوئی دلیل علمی نہیں۔

اِنَّمَا يَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْۗءِ وَالْفَحْشَاۗءِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا

یقیناً وہ تم کو برائی و بے حیائی کے کاموں پر اکسا تا ہے۔
اور یہ (بات بھی دل میں ڈالتا ہے) کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی باتیں

تَعْلَمُوْنَ۝۱۶۹
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ

قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ
اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۝۱۷۰

گھڑا کرو جس کی تم سند نہیں رکھتے۔
اورجب ان (مشرکین) سے کہا جا تا ہے کہ جو کتاب اللہ تعالیٰ نے نا زل کی ہے، اس کے مطابق عمل پیرا ہوجائو(تو ضد وہٹ دھرمی کی وجہ اتباعِ حق سے گریز کرتے ہیں)
(جواب میں) کہتے ہیں کہ ( نہیں) ہم تو اسی طریقہ پر چلیں گے جس طریقہ پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔
اگر چہ کہ ان کے باپ دادا( دین کی) کچھ سمجھ بوجھ ہی نہ رکھتے ہوں اور نہ(کسی آسمانی کتاب کی) ہدایت رکھتے ہوں۔ (پھر بھی یہ انھیں کی اتباع کرتے ہیں اقوامِ عالم کا یہی کچھ حال ہے۔) حالانکہ الٰہی ونبوی تعلیم کے خلاف جو آبا ئی روایات خاندانی طور و طریق ورسو مات ہیں سب قابلِ ترک ہیں ۔

وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً۝۰ۭ

اور جو لوگ کا فرہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایسی چیز(ایسے جانور) کو آواز دے جو پکار نے کی آواز کے سوا کچھ نہ سنے۔

صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۝۱۷۱

(یہ کفّار دین کے معاملہ میں گو یا) بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہیں سکتے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ

ائے لوگو جو ایمان لائے حلال و پاکیزہ چیزیں کھائو جو ہم نے تم کو عطا کی ہیں۔ (رزقِ طیب محض اللہ تعالیٰ کی شان ِربوبیت سے مل رہا ہے۔ نہ وہ کسی کے واسطے وسیلے سے ہے اور نہ زورِ با زو سےہے)

وَاشْكُرُوْا لِلہِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَ۝۱۷۲

اور اللہ تعالیٰ ہی کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کے عبادت گزار بندے ہو(یعنی اگر تم بندۂ حق ہو تو ر سماً وروا یتاًحرمت و حلّت کے جو تصورات کام کررہے ہیں انھیں ترک کردو۔ اصل شکر گزاری یہ ہے کہ جو رزق تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہا ہے۔وہ محض اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت سے مل رہا ہے۔

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ
وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ۝۰

یقیناً تم پراس نے مرا ہوا جا نور اور(بہتا ہوا) خون اور سوّر کا گوشت حرام کیاہے۔
اور وہ تمام چیزیں جو غیر اللہ کے لیے نا مزد کی گئی ہوں ۔

تشریح: جو جانور غیر اللہ کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ اس پر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا ئے یا غیر اللہ کا ۔ حرمت کے لحاظ سے برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے وہ حلال نہ ہوگا۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کیا ہو تو وہ اسلام سے خارج ہو گیا اور وہ جانور ایسا ہو گا جیسا مر تد کا ذبح کیا ہوا۔
غیر اللہ کی خوشنو دی کے لیے نذر۔ نیاز۔ منت وغیرہ سب حرام ہے۔ اگر چہ کہ وہ ملا ئکہ انبیاء علیہم السلام صالحین امت اور دیگر بزرگانِ دین ہی کیوں نہ ہوں ان کے نام پر جانور ذبح کر نا یا مساکین و غیرہ کو کھلا نا لغیر اللہ کے حکم میں داخل ہے ۔

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۭ

(یہاں ایک استثنیٰ ہے کہ) جوکوئی بھوک سے بہت زیادہ بے قرار ہوجائے بہ شر طیکہ اس کی نیت نا فر ما نی اور مزہ حاصل کرنے کی نہ ہو تو

اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۷۳

(شدتِ اضطراب میں) مذکورہ حرام چیزیں بقدرِ قوتِ لا یموت کھالے تاکہ جان بچ جا ئے۔ اس پر کچھ گناہ نہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فر ما نے والے ہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ الْكِتٰبِ

وَيَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝۰ۙ

اُولٰۗىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِہِمْ اِلَّا النَّارَ
وَلَا يُكَلِّمُہُمُ اللہُ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَلَا يُزَكِّيْہِمْ۝۰ۚۖ

جو لوگ کتاب سے(حر متِ اشیاء کے) ان مذ کورہ احکام کو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فر ما ئے ہیں، چھپا تے ہیں (اور اس کے حلال ہو نے کا فتوی دیتے ہیں۔)
اور ان کے بدلے تھو ڑی سی قیمت (یعنی دنیا وی منفعت) حاصل کرتے ہیں۔
وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر تے ہیں۔

اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُن سے بات نہیں کریں گے۔ اور نہ ان کو (گنا ہوں کی آلا ئشوں سے) پاک کریں گے(یعنی تزکیۂ نفس کے لیے

وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۷۴

وہ کتنے ہی طریقے ایجاد کریں ان سے ان کا تزکیہ نہ ہوگا)
اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰى
وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ۝۰ۚ
فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَي النَّارِ۝۱۷۵

یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمرا ہی خریدلی۔

اور بخشش و مغفرت کے بدلے عذاب ۔
پھر وہ آتش جہنّم کے لیے کیسے با ہمت ہیں( یہ ایک محا ورہ ہے)

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَـقِّ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ نے کتاب کو سچائی کے ساتھ نازل فرمایا۔
(ان کے باطل عقائد کی تردید کردی اور ان کے تقدس اور پار سائی کا پر دہ چاک کردیا)

وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِي الْكِتٰبِ لَفِيْ شِقَاقٍؚبَعِيْدٍ۝۱۷۶ۧ

اور جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا ( کتمانِ حق ۔تحریف ونزع پیدا کی) وہ آپسی مخالفت میں پڑ گئے جس نے ان کو (راہ) حق سے دور کر دیا(یہو دو نصا رٰ ی مراد ہیں)

لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ
وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۝۰ۚ
وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى

نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف کرلو۔

بلکہ اصلی نیکی یہ ہے کہ جو کوئی(الٰہی و نبوی تعلیم کے مطابق) اللہ تعالیٰ پر اور آخرت پر

اور فرشتوں اور اللہ تعالیٰ کی کتاب اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان لائے
اور اپنا مال اللہ تعالیٰ کی خوشنو دی کے لیے قریبی رشتہ داروں کو دے (نمود و شہرت اور کسی قسم کی غر ض مقصود نہ ہو)

وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ
وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ۝۰ۚ

اور یتیموں اور مسکینوں اور مسا فروں کو دے۔
اور سا ئل(مانگنے والوں) کو دے اور گر دن چھڑا نے میں خرچ کرے۔

وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ۝۰ۚ

(یعنی غلاموں کو غلامی سے آزاد کرا نے میں خرچ کرے)
اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔

توضیح : نماز اصلاحِ اعمال کا ذریعہ ہے۔ اگر نماز وں سے اعمال کی اصلاح نہیںہورہی ہے۔ اور ایمان و عقائد میں خرابی ہے۔ ایمان و عقیدہ کی اصلاح کتاب و سنّت سے ہو تی ہے۔ الٰہی و نبوی تعلیم سے صرفِ نظر و بے نیازی ہو تو اس کالازمی نتیجہ بے راہ روی ہے۔ محض عمل سے عقائد درست نہیں ہو تے جہل علم سے دور ہو تا ہے اور علم کتاب اللہ میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے احکام نبیٔ محترم ﷺ کی اتباع میں بجا لا نا ہی دین ہے۔ طبع زاد آبا ئی طریقوں سے من ما نی اللہ تعالیٰ کی عبادت کر نا نیکی نہیں ہے اور ایمان بالآخرت کی خرابی یعنی دنیا کو دین پر تر جیح دینا آخرت سے غفلت برتنا ہے۔ انجام آخرت کا انحصار بزر گوں کی سعی وسفارش پر کر نا اور اس امانی و خوش، فہمی میں مبتلا ر ہنا کہ نجات بہر حال ہوجا ئے گی، فریب نفس اور شیطانی دھو کا ہے۔

وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۝۰

اور جب عہد کریں تو اپنے عہد و پیمان( قول و قرار) کو پورا کر نے والے ہوں۔

وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ۝۰ۭ
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۝۰ۭ
وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۝۱۷۷

اور سختی و تکلیف( تنگد ستی و بیماری) میں صبر کر نے والے اور میدانِ کارزار میں ثابت قدم رہنے والے
یہی وہ لوگ ہیں جو ( اپنے ادعا ئے ایمان میں) سچے ہیں۔
اور یہی لوگ متقی ہیں( یعنی احکامِ الٰہی کی خلاف ور زی کے انجامِ بد سے ڈرنے والے اور احکام ِ الٰہی کی سر فروشا نہ تعمیل کر نے والے ہیں۔ یہاں متقی کی تعریف متعین ہو تی ہے)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي۝۰ۭ

اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بِالْاُنْـثٰى۝۰ۭ
فَمَنْ عُفِيَ لَہٗ مِنْ اَخِيْہِ شَيْءٌ

ائے ایمان والو(عمداً قتل کیے جا نے والوں کے بارے میں) تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص کا حکم دیا جاتا ہے۔
(یعنی خون کا بدلہ خون سے لیا جا سکتا ہے )
آزا دشخص کے بدلے آزاداور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت(قتل کیے جائیں)
ہاں جس کو اس کے فریق کی طرف سے کچھ معافی ہو جا ئے (یعنی پوری معافی نہ ہو)

فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْہِ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۭ
ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَـۃٌ۝۰ۭ

فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۷۸

تو(اس صورت میں) بہ طریق احسن( خوں بہا) کا مطالبہ کرنا اور خوش خوئی کے ساتھ( خو ں بہا) ادا کر نا چاہئے۔
یہ(قا نو نِ دیت و عفو) سزامیں تخفیف(کمی) تمہارے پر ور دگار کی طرف سے( ایک شا ہا نہ ر عایت و) مہر با نی ہے۔
اس کے بعد جو کوئی زیادتی کرے گا تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے(یعنی مقتول کے ور ثا معا فی سےپھر جا ئیں یاقتل خوں بہا نہ دے)

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۷۹

اور قصاص کے حکم میں تمہاری زندگی( حیات ِاجتماعی کے تحفظ کا سامان) ہے۔ ائے سمجھ بوجھ سے کام لینے والو( تمہیں یہ احکام اس لیے دیئے گئے ہیں کہ) تم (خوں ریزی سے) بچو۔

یعنی 

كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا۝۰ۚۖ

الْوَصِيَّۃُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ

(اور یہ بھی مقصد ہے کہ خون خرابہ کا انسداد ہو) تم پر (یہ وصیت) فرض کیا جاتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے۔ اگر ترکہ میں کچھ مال چھوڑ جا نے والا ہو۔ تو
ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کر جائے۔

حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ۝۱۸۰ۭ

متّقین پر(والدین و قریبی رشتہ داروں کا) یہ حق ہے۔

توضیح : وصیت کے مسئلہ میں آئمہ فقہا میں اختلاف ہے کہ وصیت کرے اور نہ کرے۔ اس اختلاف کو نزا عی نہیں بنانا چاہیئے بلکہ اس میں راحج اور مر جوح کا فرق ہے۔

فَمَنْۢ بَدَّلَہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ
فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَي الَّذِيْنَ يُبَدِّلُوْنَہٗ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۱۸۱ۭ

لہٰذا جو کوئی وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے۔
تو اس کہ بدلنے کا گناہ انھیں لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ سننے والے ہیں(یعنی ہر عمل سے باخبر رہتے ہیں)

فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْاِثْمًـا

لہٰذاجو کو ئی وصیت کرنے والے کی طرف سے (کسی وارث کی) طرف داری یا حق تلفی کا اندیشہ رکھے۔
(یعنی عمداً ظلم کا ارتکاب کرے۔ کسی کو حق سے محروم کردے)

فَاَصْلَحَ بَيْنَہُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۸۲ۧ

تو (وصیت کو بدل کر) ورثاء میں صلح کرادے تو اس پر کو ئی گناہ نہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فر ما نے والے ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ

ائے لوگو جو ایمان لا ئے ہو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کی اُمتوں پر فرض کیے گئے تھے۔

 

تا کہ تم پر ہیزگار بنو۔

تشریح : روزہ میں کھا نے پینے کے اوقات بدلے گئے ہیں۔ طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک کھا نے پینے کے بجائے غروبِ آفتاب سے صبح صادق تک کھا نے پینے کی اجازت ہے۔اس طرح جائز خواہشات کو بھی قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ اور تزکیہ ہے۔ روزے کی بدولت انسان میں رفتہ رفتہ پر ہیز گاری پیدا ہو تی ہے۔نیز مومن مردِ مجا ہد ہو تا ہے اور مجا ہد کیلئےضروری ہے کہ کھا نے پینے کے اوقات کا ایسا پا بند نہ رہے کہ اس کی مجا ہدا نہ مساعی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو۔

اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۝۰ۭ
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ
فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ

(یہ روزے) گنتی کے چنددن ہیں(اس میں بھی استثنیٰ یہ ہے کہ)
لہٰذا تم میں جو شخص بیمار ہو یا سفر کی حالت ہو تو
دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کرے( یعنی قضا ء روزے رکھے)

وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَہٗ فِدْيَۃٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ۝۰ۭ

اور ان لوگوں پر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں روزے کے بدلے مسکین و محتاج کو کھا نا کھلائے۔

توضیح :سفر یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو فو راً فدیہ دے دے ۔ اگر چہ قضاء روزہ رکھنے کی نیت ہو۔

فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ۝۰ۭ

لہٰذا جو کوئی خو شد لی کے ساتھ نیک کام کرے وہ اسی کیلئےبہترہے۔

توضیح :صحت یاب ہونے یا سفر سے واپسی پر روزہ رکھ لے تو یہ شکل تطوع کی ہے۔

وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۴

اور اگر تم روزے رکھ لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ اگر تم سمجھو۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ۚ

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نا زل کیا گیا۔

ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰

جس میں لوگوں کے لیےہدایتیں ہیں اور ہدایتیں نہا یت ہی واضح ہیں اور (قرآن) حق و باطل کو الگ الگ کر نے والا ہے( صحیح اور غلط کو پرکھنے کا معیار ہے)

توضیح : قرآن کا بنیادی وصف ھُدًى لِّلنَّاسِ ۔ فر قان۔ بتیان ہے ۔یعنی قرآنِ مجید میں ہدایتِ عامّہ کا سامان ہے۔ اس کی تعلیم فہم عامّہ کے مطابق ہے۔ جس کے ذریعہ حق و باطل میں پوری پوری تمیز کی جا سکتی ہے۔
تزکیہ و تطہیر کا ہر حکم و ہدایت واضح اور صاف صاف ہے۔ کوئی پیچیدگی یا مشکل نہیں ہے۔

فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ
وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ
يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۝۰ۡ
وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّۃَ
وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ
وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۸۵

لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کے روزے رکھے۔
اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں اس کی قضاء کرے۔
(یہ سہولت اس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ تعالیٰ تم پر آسانیاں چا ہتے ہیں اور تم پر سختی کر نا نہیں چاہتے۔
اور (یہ آسان حکم اس لیے دیا گیاہے) تا کہ تم ایک ماہ کی مدّت پوری کرسکو۔
اور اس احسان کے بدلے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو (قرآن کے ذریعہ) ہدایتیں بخشیں(اور عذر کی صورت میں قضاء کر نے کی سہولت عطا فرمائی) اور تا کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر کرو ۔

توضیح : روزوں کی تکمیل پر عید کے دن اللہ تعالیٰ کی کبر یا ئی حمدوثنا کرنے اورشکر بجالانے کا جومسنون طریقہ ہے وہ اسی حکم کی عملی شکل ہے جس میں تکبیر بھی ہے اوردعائیں بھی۔

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ

اور جب میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (آپ کہہ دیجئے) میں قریب ہی ہوں۔

توضیح :قریب ہونے کا علم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہر حاجت و ضرورت میں ہر وقت اپنے ربِّ اعلیٰ و عظیم ہی کو پکار یں۔

اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ

جب کو ئی پکار نے والا مجھے پکار تا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔

فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶

لہٰذا نھیں چا ہئے کہ میرے احکام کو مانیں( تعلیماتِ الٰہی کو قبول کریں) اور مجھ ہی پر اعتماد ویقین رکھیں تا کہ وہ راہِ راست پاسکیں۔

توضیح :احکامِ الٰہی کو قبول کر نے کے بعد تعمیل احکام میں کوئی تکلیف پہنچے یا عدم قبولیت دعا پر انقباض پیدا ہو جا ئے تو ہرصورت کو اپنے لیے مفید سمجھے کیونکہ اللہ کی ہر تجویز حکیما نہ ہے لہٰذا اعتماد علی اللہ کے بغیر کوئی راہِ رشد حا صل نہیں کر سکتا ۔

اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَۃَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ۝۰ۭ

 

ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۝۰ۭ

(رمضان کے) روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی بیویوں سے مقاربت جا ئز کر دی گئی ہے۔
(اس سے قبل دوسری قوموں کی طرح تم بھی رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں سے الگ رکھے جا تے تھے)
وہ تمہا رے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے (یعنی وہ تمہارے لیے حرام کاری سے بچنے کا ذریعہ ہیں اور تم ان کے لیے)

توضیح : زن و شوہر کا تعلق جسم و لباس کا سا ہے جس طرح لباس سے جسم کو راحت ملتی ہے اسی طرح زن و شو کا قرب بھی ایک دوسرے کی تسکین وراحت اور حرام کاری سے بچنے کا ذریعہ ہے۔

عَلِمَ اللہُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ

فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ۝۰ۚ

اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ تم اپنے نفس کے حق میں خیانت کے مرتکب ہوا کرتے تھے(یعنی اجازت سے قبل رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے خواہش نفس کی تکمیل کیا کر تے تھے ۔)
(ندامت و معذرت پر) اللہ تعالیٰ نے تم پر مہر بانی کی اور تم سے درگزر فرما یا(یعنی تمہاری اس حرکت کو معاف کر دیا)

فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللہُ لَكُمْ۝۰۠

اب تم (رمضان کی راتوں میں) اس سے مباشرت کر سکتے ہو اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہارے لیے مقرر کیا ہے اس کا سامان کرو۔
(یعنی مطلب یہ کہ یہی مقا ربت تمہارے لیے صاحبِ اولاد ہو نے کا ذریعہ ہے)

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ
لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۝۰۠

اور کھا ئو اور پیو یہاں تک کہ تم پر صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے نمودار ہو نے لگے ۔

ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ۝۰ۚ

وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ۝۰ۙ فِي الْمَسٰجِدِ۝۰ۭ

تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۝۰ۭ

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۝۱۸۷

پھر( سپیدئی سحر نمو دار ہو نے کے بعد سے) غروبِ آفتاب تک روزہ پورا کرو۔
اور جب تم مسجدوں میں معتکف رہو تو بیویوں سے مبا شرت نہ کرو۔( اس سے ظاہر ہے کہ کسی خاص ضرورت سے گھر جاسکتے ہیں۔ مثلاً حاجت ِ ضروری وغیرہ، لیکن اعتکاف کی حالت میں بی بیوں کے ساتھ صحبت وبوس و کنار سب حرام ہے)
یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حدود ہیں۔
(یعنی اللہ تعالیٰ کی منع اور حرام کی ہوئی چیزیں ہیں)ان کے قریب بھی جانے کا خیال دل میں نہ آنا چا ہیئے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے اپنے احکام صاف صاف بیان فر ما تے ہیں تا کہ وہ پر ہیزگار بنیں( ایسی منع کی ہوئی چیزوں سے بچیں دینی احکام تزکیہ و تطہیر کے لیے ہیں اس لیے روزے میں تقوے کی نیت ضروری ہے)

وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ

اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھا ئو۔
اور نہ اس کو ( رشوت کے ذریعہ ے) حُکّام کے پاس پہنچا ئو۔
تاکہ( نا جائز اور غیر منصفا نہ طریقہ سے فیصلہ کرائو اور) لوگوں کے مال کا کچھ حصہ نا حق کھا جائو ۔

بِالْاِثْمِ
وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۸ۧ

(اس آیت سے رشوت وظلم و زیادتی کی حر مت ثابت ہو تی ہے)
اور تم جانتے ہو کہ (یہ سب کا م حرام ہیں)

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ۝۰ۭ

قُلْ ہِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۝۰ۭ

ائے نبی(ﷺ) لوگ آپ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں (کہ یہ بڑھتا اور گھٹتا کیوں ہے)
کہیئے کہ وہ لوگوں کیلئے دن تاریخ اور اوقاتِ حج معلوم کر نے کا ذریعہ ہے۔

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِھَا

اور نیکی اس بات میں نہیں ہے کہ ( احرام کی حالت میں)تم اپنے گھروں میں اس کی پچھلی دیوار سے پھا ند کر آئو۔

توضیح : جب لوگ حج کے لیے گھر سے نکل جاتے اور پھر کسی ضرورت سے گھر واپس آنا پڑ تاتو وہ گھر کے دروازے سے داخل ہو نے کے بجا ئے گھر کی پچھلی دیوار پھا ند کر آنے کو نیکی سمجھتے تھے۔ یہ ان کے اپنے من گھڑت طریقہ تھے۔اور افترائی باتیں تھیں۔ ان میں نیکی کا تصور ہی غلط تھا۔

وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى۝۰ۚ

اصل نیکی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نا راضی سے بچے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے اوامر ونوا ہی پر عمل پیرا ہو نا ہی بہت بڑی نیکی ہے۔ جس معاملے میں اللہ رسول کا کوئی حکم نہ ہواس کو اپنی طرف سے ایجاد کرنا اور نیکی سمجھنا بڑی غلطی ہے۔

وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا۝۰۠

وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۸۹

اور گھر واپس ہو نا پڑے تو( سیدھے سا دے طریقہ پر) گھر کے دروازے سے آیا کرو۔
اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تے رہو۔ تا کہ تم فلاحِ آخرت پا سکو۔
(جتنا خوفِ الٰہی دل میں ہوگا اتنا ہی اللہ رسول کے احکام کا پابند ہوگا)

توضیح :اس آیت سے بدعت کا امتناع ثابت ہوتا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی کام نیکی سمجھ کر اختیار کر نا نیکی نہیں ہے نیکی دراصل اللہ تعالیٰ سے ڈر نے اور احکامِ الٰہی کی خلاف ور زی سے بچنے کا نام ہے۔ احکامِ الٰہی کی تعلیم ہی سے ہم کو معلوم ہوسکے گا کہ ہم میں کتنا خوف اور کتنی اطاعت ہے۔

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ

اور تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑتے رہو جو تم سے لڑ تے ہیں۔( اور عہد شکنی کر تے ہیں)
اور تم حد سے نہ نکلو یعنی زیاد تی نہ کرو۔( معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل بھی زیاد تی کی تعریف میں آتی ہے)

اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝۱۹۰

اللہ تعالیٰ زیادتی کر نے والوں کو پسند نہیں فر ما تے۔

وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ
وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ
اَخْرَجُوْكُمْ

اور (جب قتال شروع ہو جا ئے تو) ان کافروں کو جہاں پائو قتل کرو۔
اور جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے(یعنی مکہ سے) وہاں سے تم بھی انکو نکال دو(یعنی انکو اتنا مارو کہ (مکہ سے ) بھاگ جا نے پر مجبور ہوجائیں)

وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۝۰ۚ

اور(دین سے گمراہ کر نے کا) فتنہ قتل وخوں ریز ی سے کہیں بڑھ کرہے۔

توضیح :قتل اگر چہ کہ کوئی اچھی چیز نہیںہے کہ اس میں انسانوں کی خوں ریزی ہے مگر شہر مکہ میں دینِ اسلام کے خلاف کفّار مشرکینِ مکہ کی سر گر میاں دینِ اسلام کو مٹا نے کی کوشش قتل سے بھی زیادہ انسانوں کے لیے مو جبِ بر بادی تھی، اس لیے اس فتنۂ عظیم سے بچنے کے لیے ان کا قتل مستحسن قرار دیا گیا ۔ کفّار مکّہ کے لیے دو ہی صوتیں تھیں یا تو وہ مسلمان ہو جا ئیں یا انھیں قتل کر دیا جا ئے۔ ان سے جز یہ قبول نہ کیا جا ئے گا۔

وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْہِ۝۰ۚ
فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ۝۰ۭ كَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ۝۱۹۱

اور جب تک وہ تم سے مسجد محترم( خا نۂ کعبہ کے پاس) لڑنے کی ابتدا نہ کریں تم بھی وہاں ان سے نہ لڑو۔
پھر اگر وہ (اپنے کفر سے ) باز آجائیں (اسلام قبول کرلیں) تو کفار (وہاں) تم سے لڑنے کی ابتدا کریں تو تم انھیں قتل کرو۔ کافروں کی یہی سزا ہے۔

فَاِنِ انْــتَہَوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۹۲

پھر اگر وہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فر ما نے والے ہیں (انھیں معاف کردیں گے)

وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ۝۰ۭ
فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۹۳

اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو کہ کفر مغلوب ہو جا ئے اور دین خالص اللہ ہی کا ہو جائے ۔
پھر اگر وہ کفر سے با ز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیاد تی نہ کر نی چاہیئے۔

توضیح : اسلام میں قتل کی اجازت اس لیے ہے کہ فتنہ یعنی غلبۂ کفر ختم ہو جا ئے۔

اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ

احترام کے مہینہ کا بدل احترام ہی کا مہینہ ہے۔

وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ۝۰ۭ

اور ادب واحترام کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں۔

توضیح : ادب واحترام کے بھی مہینے ہیں۔ ان کا احترام اسی وقت تک ہے۔ جب تک کہ دوسرا فریق بھی ان کا احترام کرے۔ کفار ان مہینوں کا احترام نہ کریںتو مسلمان بھی ان مہینوں میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں۔

فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ۝۰۠
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ۝۱۹۴

لہٰذا (ادب واحترام کے مہینوں میں ) جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پرویسی ہی زیادتی کرو۔ جیسی کہ اس نے تم پر کی ہے۔
تم پر جو ہتھیارا ٹھائے تم بھی اس پر ہتھیار چلا ئو دوسروں پر ہتھیار نہ اٹھائو۔
اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تے رہو( اللہ تعالیٰ کی نا فر ما نی کے انجامِ بد کو مستحضر رکھو) اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہیں (ان کی ہر طرح مدد کرتے ہیں)

توضیح : بار بار ۝۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ کی تاکید سے ظاہر ہے کہ خوفِ الٰہی ایمان کا ایک لازمی جزوہے۔ دراصل ایمان میں اقرار اطاعت ہے اور خوفِ الٰہی سے اطاعت کا سر فر و شا نہ جذ بہ پیدا ہو تا ہے۔ اس لیے بعض مفکرین نے اطاعت کے نہ ہونے پر ایمان کی نفی کا حکم لگا یا ہے اور یہی بات قرآنی تعلیم و تفہیم کے بہت قریب و مطابق ہے۔اطاعت میں نقص دراصل ایمان ہی کا نقص ہے ۔

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ۝۰ۚۖۛ
وَاَحْسِنُوْا۝۰ۚۛ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ ۝۱۹۵

اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان نہ کرو(جہاد فی سبیل اللہ میں بخل سے کام نہ لو۔)
اور نیکی کرو( جہا دو انفاق فی سبیل اللہ کیے جائو)
یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے ہی نیکو کاروں کو پسند فرماتے ہیں:

وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ کی خوشنو دی کے لیے حج و عمرہ کو پورا کرو۔ (اس طرح تکمیل کیے بغیر واپس نہ آئو)

فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْيِ۝۰ۚ

وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى يَبْلُغَ

پھر اگر تم راہ میں روک لیے جائو یا کسی مصیبت میں گھر جائو تو قربانی کے جانور جو بھی میسّر ہوں(اونٹ گائے بکری) مقامِ مذبح( ذبح ہو نے کی جگہ) پر بھجوادو۔
اور اپنے سروں کو نہ منڈ ھوا ئوجب تک کہ قربانی کے جانور اپنی جگہ پہنچ نہ

الْہَدْيُ مَحِلَّہٗ۝۰ۭ

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًى مِّنْ رَّاْسِہٖ

جائیں( حالتِ احرام ہی میں رہو)حالتِ احرام میں بال نکلوا نے کی
ممانعت ہے۔
لہٰذا تم میں سے کوئی بیمار ہو جائے یا اس کے سرمیں کسی قسم کی تکلیف ہو (اور حالتِ احرام میں سر منڈ ھوا ئے تو)

فَفِدْيَۃٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُكٍ۝۰ۚ

فَاِذَآ اَمِنْتُمْ۝۰۪ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْي

اس کے بدلے روزے رکھےیا صدقہ دے یا قربانی کرے
اس سلسلہ میں نبیٔ محترم ﷺ نے فر ما یا کہ تین دن کے روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھا نا کھلا ئے یا کم ازکم ایک بکری ذبح کی جا ئے
پھر جب تمہیں امن نصیب ہو جا ئے(اور تم حج کے لیے بہت پہلے مکہ پہنچ جائو) تو جو کوئی حج کے وقت تک عمرہ سے فائدہ اٹھا ئے یعنی حج و عمرہ کا ایک ہی احرام باندھے تو وہ قربانی کے جانور وں میں سے جو بھی قر بانی میسّر ہو کرے۔

توضیح : اگر احرام عمرہ اور حج کا الگ الگ ہو تو حاجی پر قر بانی ضروری نہیں، سوائے کفّارہ کے۔

فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَۃِ اَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ۝۰ۭ

تِلْكَ عَشَرَۃٌ كَامِلَۃٌ۝۰ۭ
ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۱۹۶ۧ

پھر جس کسی کو قر بانی نہ ملے( یا قربانی کی استطا عت نہ ہو)تو اسی وقت (دورانِ حج) تین روزے رکھے اور سات (روزے) جب تم اپنے گھر(وطن) واپس آجا ئو ( تو رکھو)
(اس طرح) یہ پو رے دس ہوئے۔
یہ دس روزے ایک ساتھ نہ رکھنے کی اجازت اُن کے لیے ہے جن کے اہل و عیال مکّہ میں نہ رہتے ہوں۔
اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تے رہو( کہ شرائط حج یا کسی امر کی خلاف ورزی ہونے نہ پا ئے) اور خوب جان لو کہ (خلاف ورزی کی صورت میں) اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔