☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

وَالْفَجْرِ۝۱ۙ
وَلَیَالٍ عَشْرٍ۝۲ۙ
وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ۝۳ۙ
وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ۝۴ۚ

(اللہ تعالیٰ قسم کھاکر فرماتے ہیں) قسم ہے فجر کے وقت کی
اوردس راتوں کی (ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے دس ذی الحجہ تک)
اور جفت اورطاق کی (یوم العرفہ اور یوم النحر) کی
اور رات کی جب وہ رخصت ہورہی ہو۔

توضیح : قرآن مجید عموماً انسانی بول چال اورمحاورۂ عرب میں نازل ہوا ہے اس لئے افہام وتفہیم میں وہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے جسے انسان عام طورپر اختیار کرتا ہے مثلاً کسی بات کی صداقت ثابت کرنی مقصود ہوتی ہو تو مخاطب کومطمئن کرنے کے لئے قسم کھا کر واقعہ بیان کیا جاتا ہے تا کہ وہ یقین کے ساتھ اس کی اہمیت کوسمجھے۔ ورنہ حق تعالیٰ کی شان اس سے کہیں اعلیٰ وارفع ہے کہ کوئی بات قسم کھا کر بیان فرمائیں۔

ہَلْ فِیْ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ۝۵ۭ

یہ مذکورہ قسمیں جو ہم نے کھائی ہیں، ہوش مندی سے کام لینے والوں کے لئے واجب التعظیم اور مبنی برحقائق ہیں۔

توضیح : قسموں کی اہمیت کوسورۂ واقعہ آیت نمبر ۷۶ میں یوں بیان کیا گیا ہے:وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ ۔ اگر تم سمجھو تواللہ تعالیٰ کا اس طرح قسم کھانا بہت بڑی بات ہے۔

اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ۝۶۠ۙ

کیا آپؐ نے نھیں دیکھا، آپ کے پرور دگار نے قوم عاد کیساتھ کیا برتاؤ کیا؟

اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۝۷۠ۙ

(ان کی نافرمانی کے نتائج آپ کے علم میں ہیں)
اونچے ستونوں والی قوم عاد کے ساتھ

توضیح :اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے حضرت ہودؑ کوبھیجا یہ نہایت ہی قد آور قوی الجثہ تھے اپنے مکانات نہایت ہی بلند ومستحکم بناتے تھے۔

الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ۝۸۠ۙ
وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ۝۹۠ۙ

دنیا بھر کے ملکوں میں ان کے مثل کوئی قوم پیدا نہیں کی گئی تھی۔
اورثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی(قریٰ) میں عمارتیں بنانے کے لئے چٹانیں تراشی تھیں۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے حضرت صالحؑ کوبھیجا تھا۔

وَفِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ۝۱۰۠ۙ

الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ۝۱۱۠ۙ
فَاَکْثَرُوْا فِیْہَا الْفَسَادَ۝۱۲۠ۙ

اورمیخوں والے فرعون کے ساتھ( یعنی میخوں، گھوڑوں اورکثرت سے فوج رکھنے والے فرعون کے ساتھ سلوک کیا گیا)
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی۔
اور ان میں بہتوں نے فساد برپا کررکھا تھا۔

فَصَبَّ عَلَیْہِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ۝۱۳ۙۚ
اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ۝۱۴ۭ

توان پر آپ کے رب نے شدید ترین عذاب بھیجا۔
بے شک آپ کا رب ان کے اعمال پر مسلسل نظررکھے ہوئے ہے۔ انھیں اس کی بھرپورسزا دے گا۔

فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ۝۰ۥۙ
فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ۝۱۵ۭ

لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب اس کوآزمائش میں ڈالتا ہے اور عزت ونعمت سے نوازتا ہے۔
توکہتا ہے میرے رب نے مجھے عزت بخشی ۔

وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰىہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ۝۰ۥۙ
فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَہَانَنِ۝۱۶ۚ

اور جب وہ اس کو(اور طرح سے) آزمائش میں ڈالتا۔اوراس کا رزق اس پرتنگ کردیتا ہے۔
توکہتاہے میرے رب مجھے ذلیل کردیا۔

توضیح : گویا عزت اور ذلت کا معیار انسان کے نزدیک مال ودولت اورجاہ واقتدار کا ملنا یا نہ ملنا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عزت وذلت دونوں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے کہ عزت پانے کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتا ہے یا دولت کے نشہ میں اللہ تعالیٰ کا نافرمان بنتا ہے یا پھر تنگ دستی کی حالت میں رجوع الیٰ اللہ رہتا ہے یاد واویلا مچاتا ہے۔

کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ۝۱۷ۙ
وَلَا تَحٰۗضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ۝۱۸ۙ
وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا۝۱۹ۙ

ہرگز نہیں(تمہارا حال توکچھ اور ہی ہے)
بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے۔

اور نہ ہی تم مسکین کوکھانا کھلانے کی ایک دوسرے کوترغیب دیتے ہو۔
اورمیراث کا سارا مال(حرام وحلال کی تمیز کے بغیر) سمیٹ کرکھاجاتے ہو۔

وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا۝۲۰ۭ

کَلَّآ

اورتم مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔ اسی لئے جائز ورثا کا حق دینے سے کتراتے اور انھیں محروم رکھتے ہو۔
ہرگز نہیں(تمہیں اپنے اعمال کاخمیازہ بھگتنا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی صادر کردہ سزا تمہیں مل کررہے گی)

اِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا۝۲۱ۙ
وَّجَاۗءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا۝۲۲ۚ
وَجِایْۗءَ یَوْمَىِٕذٍؚبِجَہَنَّمَ۝۰ۥۙ

جب زمین کوٹ کوٹ کریزہ ریزہ کردی جائے گی۔
اورآپؐ کا پروردگار کرسی عدالت پرجلوہ افروز ہوگا ا س حال میں کہ فرشتے صف درصف کھڑے ہوںگے۔
اورجہنم اس دن سامنے لائی جائے گی۔

یَوْمَىِٕذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَہُ الذِّکْرٰى۝۲۳ۭ
یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ۝۲۴ۚ

اس روز (ہرمجرم) انسان سمجھ پالے گا مگر اس وقت کا سمجھنا اسے کوئی فائدہ نہ دے گا۔
وہ کہے گا کاش میںس حیات جاودانی کے لئے کچھ آگے بھیج دیا ہوتا۔

فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہٗٓ اَحَدٌ۝۲۵ۙ
وَّلَا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗٓ اَحَدٌ۝۲۶ۭ

پھر اس دن اس کوایسا سخت عذاب دیا جائے گا کہ ایسا عذاب دینے والا کوئی نہیں۔
طوق وزنجیروں میں اس طرح جکڑا جائے گا کہ کوئی ایسا نہ جکڑے گا۔

توضیح :یہ منکرانِ حق کا عبرتناک انجام ہوگا، جس کے پیش آنے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں اس کے برخلاف جنہوں نے تعلیمات کوقبول کیا اور اس کے مطابق زندگی بسر کی ہوگی، اللہ تعالیٰ انھیں اس طرح مخاطب فرمائیں گے۔

یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُ۝۲۷ۤۖ

ائے نفس مطمئن (ائے وہ شخص جس یقین کے ساتھ تونے اپنے پروردگار وحدۂ لاشریک کو اپنا رب معبود ومستعان مانا۔ اپنے پیغمبر کی اطاعت کی۔
اللہ رسول کے وعدوں سے مطمئن ہوگیا)

ارْجِعِیْٓ اِلٰى رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۝۲۸ۚ

چل اپنے رب کی طرف (اپنی نیکیوں کا بدلہ پانے کے لئے)وہ تجھ سے راضی اور تواللہ کی عطا سے راضی۔

توضیح :یہ بات اس وقت بھی کہی جائے گی جب قیامت میں دوبارہ اٹھ کرمیدان حشر میں جانے لگے گا۔اور اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حاضر ہونے لگے گا اس وقت اس کو اطمینان دلایا جاتا رہے گا کہ آج کے دن کسی طرح کی پریشانی نہیں۔ وہ اللہ سے راضی اوراللہ اس سے راضی۔
یہی بات اس کی موت کے وقت فرشتوں کے ذریعہ سنائی جائے گی۔ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا (حٰمٓ السجدہ آیت ۳۰)
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پرثابت قدم رہے یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اوران سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو۔ اور خوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جن کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔

فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۝۲۹ۙ
وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۝۳۰ۧ

پس تو میرے(نیک) بندوں میں شامل ہوجا۔
اور داخل ہوجا میری جنت میں۔

توضیح :اس سورۃ میں منکرین حق کے تعلق سے دنیا وآخرت دونوں جگہ عذاب دیا جانا بیان کیا گیا ہے اورایک اہم بات یہ بیان کی گئی کہ دنیا کی خوش حالی اور بدحالی دونوں بطورامتحان ہیں اور یہ کہ نجات اخروی کا تعلق نسبتوں سے بالکل نہیں ہے۔ یہ نہ ہوگا کہ کسی کا عقیدہ وعمل کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، مگر نسبتوں کی بنا پر بخش دیا جائے گا بلکہ نجات کا دارومدار ایمان وعمل اور عقیدے کی صحت پرہے۔