☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا۝۱ۙ

(ائے محمدﷺ) یقیناً ہم نے آپؐ کو کھلی اورنمایاں فتح بخشی۔

توضیح :صلح حدیبیہ کے بعد جب فتح کا یہ مژدہ سنایا گیا تولوگ حیران تھے کہ اس صلح کوفتح کیسے کہا جاسکتا ہے ایمان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد کومان لینے کی بات دوسری ہے، مگر اس کے فتح ہونے کا پہلو کسی کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کیونکہ بظاہر ایسی شرطوں پر معاہدہ طے پایا تھا جس میں مسلمانوں کی سبکی تھی۔ حضرت عمرؓ نے یہ آیت سن کر پوچھا، یا رسول اللہ ! کیا یہ فتح ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا: ہاں (ابن حریر)
ایک اور صحابیؓ حاضر ہوئے اورانہوں نے بھی یہی سوال کیا؟ آپؐ نے فرمایا:۔ اِیْ وَالَّذِیْ نَفْسٍ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ اِنَّہٗ الْفَتْحِ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے یقینا ًیہ فتح ہے۔( مسند احمد ابوداؤد)
کچھ زیادہ مدت نہ گذری تھی کہ اس صلح کا فتح ہونا بالکل عیاں ہوتا چلا گیا اور ہر خاص وعام پر یہ بات پوری طرح کھل گئی کہ فی الواقع اسلام کی فتح کا آغاز حدیبیہ ہی سے ہوا تھا۔

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ
ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ
وَيُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكَ
وَيَہْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا۝۲ۙ

تا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اگلی پچھلی کوتاہی معاف فرمادے

اور آپؐ پر اپنی نعمت کا اتمام کردے۔
اور آپؐ کوسیدھا راستہ دکھادے۔

وَّيَنْصُرَكَ اللہُ نَــصْرًا عَزِيْزًا۝۳
ہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ السَّكِيْنَۃَ
فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ

لِيَزْدَادُوْٓا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِہِمْ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ آپؐ کی زبردست بھر پور مدد فرمائیں۔
وہی تو ہے جس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی۔
(بے سروسامانی کے باوجود پہاڑوں سے ٹکرانے کی ہمت بخشی، دین حق پرجمے رہنے کی توفیق واستقامت عطا فرمائی)
تا کہ ان کے ایمان کے ساتھ ان کی قوت یقین میں اور زیادتی ہو

وَلِلہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ
وَكَانَ اللہُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا۝۴ۙ

آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ تعالیٰ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہیں
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔

لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا
وَيُكَفِّرَ عَنْہُمْ سَيِّاٰتِہِمْ۝۰ۭ

وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللہِ فَوْزًا عَظِيْمًا۝۵ۙ

تاکہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کوایسی جنتوں میں داخل کردے جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی
جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے
ان سے ان کی برائیاں دور کردیں گے
(جو کچھ قصور ان سے سرزد ہوچکے، انھیں معاف کردیا جائے گا)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے۔

وَّيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ الظَّاۗنِّيْنَ
بِاللہِ ظَنَّ السَّوْءِ۝۰ۭ
عَلَيْہِمْ دَاۗىِٕرَۃُ السَّوْءِ۝۰ۚ
وَغَضِبَ اللہُ عَلَيْہِمْ
وَلَعَنَہُمْ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَہَنَّمَ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا۝۶

اور ان منافق مردوں اورمنافق عورتوں
اور مشرک مردوں اورمشرک عورتوں کوسزا دے
جو اللہ تعالیٰ کے متعلق بدگمانی کرتے
ہیں برائی کے چکر میں وہ خود ہی آگئے
اور اللہ تعالیٰ کا غضب ان پر ہوا
اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ مہیا کردی
اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔

توضیح :رسول اللہﷺ نے ایک خواب دیکھا کہ آپؐ اپنے اصحابؓ کے ساتھ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ بھی ادا فرمایا ہے۔ پیغمبرؐ کا خواب بھی وحی کی ایک قسم ہے۔ آپؐ نے یہ خواب صحابہؓ کو سنایا۔ سفر کی تیاری شروع کردی اور اطراف واکناف قرب وجوار میں اعلان بھی فرمایا کہ جو بھی ساتھ چلنا چاہیں آجائیں جن لوگوں کی نظر ظاہری اسباب پر تھی انہوں نے سمجھا کہ یہ لوگ موت کے منہ میں جارہے ہیں۔
ہجرت کے بعد کفار مکہ نے چھ سال سے مسلمانوں کے لئے حج کا راستہ بند رکھا تھا اور اس اثناء میں کوئی مسلمان حج کے لئے نہ جاسکا تھا۔ ذی قعدہ ۶ ھ میں چودہ سو صحابہ کے ساتھ آپؐ اس سفر کے لئے روانہ ہوگئے۔ ذو الحلیفہ کے مقام پرپہنچ کرسب نے عمرے کا احرام باندھا، قربانی کے (۷۰) اونٹ ساتھ لئے جن کی گردنوں میں قربانی کی علامت کے طور پر قلاوے پڑے ہوئے تھے صرف ایک ایک تلوار رکھ لی گئی اس کے سوا کوئی اور سامان جنگ ساتھ نہ تھا۔ جب حدیبیہ کے مقام پرپہنچ گئے جو عین حرم کی سرحد پرواقع تھا تواہل مکہ نے مزاحمت کی۔ بالآخر اہل مکہ کی طرف سے ایک صلح نامہ کی پیش کش ہوئی اور صلح حدیبیہ کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا۔ اس موقع پر مدینہ کے منافق سمجھ رہے تھے رسول اللہﷺ اورآپؐ کے ساتھی اس سفر سے واپس لوٹ نہ سکیں گے اور یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے، لیکن جب توقع کے خلاف مسلمان صحیح وسالم واپس مدینہ لوٹے توطعن کرنے لگے کہ اہل مکہ نے انھیں واپس لوٹا کر بڑی زک دی ہے۔ مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کی انہی بدگمانیوں کا ذکر فرمایا ہے۔

وَلِلہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ
وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا۝۷
اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۝۸ۙ
لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ۝۰ۭ
وَتُسَـبِّحُوْہُ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۝۹

اور آسمانوں اورزمین کے لشکر اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں
اور اللہ تعالیٰ زبردست حکمت والے ہیں۔
ائے نبی ﷺ ہم نے آپ کو (اظہار حق کی) شہادت دینے والا خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔
تا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ
ان کا ساتھ دو اور ان کی تعظیم وتوقیر کرو۔
اور صبح وشام اللہ تعالیٰ ہی کی تسبیح کرتے رہو۔

(یعنی ہر قسم کے نقص وعیب سے اللہ تعالیٰ کا پاک ہونا بیان کرتے رہو)

اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ
اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللہَ۝۰ۭ
يَدُ اللہِ فَوْقَ اَيْدِيْہِمْ۝۰ۚ
فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنْكُثُ عَلٰي نَفْسِہٖ۝۰ۚ

ائے نبیﷺ جو لوگ آپؐ سے بیعت کررہے تھے وہ دراصل اللہ تعالیٰ سے بیعت کررہے تھے
ان کے ہاتھوں میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تھا
جو اس عہد کوتوڑے گا اس کی عہد شکنی کا وبال اسی پر پڑے گا

وَمَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰہَدَ عَلَيْہُ اللہَ فَسَيُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۝۱۰ۧ

اورجو اپنے عہد کوپورا کرے گا جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے
تو اللہ تعالیٰ اس کو عنقریب اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔

سَيَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ
مِنَ الْاَعْرَابِ

دیہاتیوں میں سے جولوگ پیچھے رہ گئے تھے (یعنی عمرے کے لے آپؐ کا ساتھ نہ دیا) اب وہ آکر آپؐ سے کہیں گے کہ

شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَہْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا۝۰ۚ
يَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَيْسَ
فِيْ قُلُوْبِہِمْ۝۰ۭ

ہمارے مال اور اہل وعیال کی مشغولیت نے ہمیں مصروف کررکھا تھا لہٰذا آپؐ ہمارے لئے معافی کی دعا کیجئے
یہ اپنی زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو درحقیقت ان کے دلوں میں نہیں ہیں (اصل میں وہ اپنی اس حرکت پر دل میں نادم ہی نہیں ہیں)

قُلْ فَمَنْ يَّمْلِكُ لَكُمْ مِّنَ اللہِ شَـيْـــــًٔا
اِنْ اَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا۝۰ۭ
بَلْ كَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝۱۱
بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰٓى اَہْلِيْہِمْ اَبَدًا

(ائے نبی ﷺ ) ان سے کہئے کون ہے جو تمہارا معاملہ میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہو
اگر وہ(اللہ) تمہیں نقصان پہنچا نا چا ہے یا تمہیں نفع پہنچا نا چاہے

بلکہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہیں۔
بلکہ تم توسمجھ رہے تھے کہ رسول اور مومنین کبھی اپنے اہل وعیال کی طرف (مدینہ) واپس لوٹ کرنہ آسکیں گے

وَّزُيِّنَ ذٰلِكَ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ۝۰ۚۖ
وَكُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا۝۱۲

اور یہ خیال تمہارے دلوں کوبہت بھلا معلوم ہونے لگا تھا اور تم نہایت ہی بری بدگمانی میں مبتلا رہے۔
اور تم توبڑے ہی بد باطن ہو۔

وَمَنْ لَّمْ يُؤْمِنْۢ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ فَاِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَعِيْرًا۝۱۳
وَلِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ
وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ
وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝۱۴

اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لائیں گے تو ہم نے ایسے کافروں کے لئے دہکتی ہوئی آگ تیار رکھی ہے۔
آسمانوں اور زمین کی فرماں روائی اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے وہ جس کوچاہے بخش دے
اور جس کوچاہے سزا دے
اور(اب بھی تم مخلصانہ روش اختیار کروگے تواللہ تعالیٰ معاف کردیں گے کیونکہ) اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے اور رحم وکرم فرمانے والے ہیں۔

سَيَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْہَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ۝۰ۚ

جب تم (خیبر کی جنگ میں) مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے جانے لگوگے تویہ پیچھے رہ جانے والے تم سے کہیں گے ہمیں بھی اجازت دیجئے کہ ہم بھی آپؐ کے ساتھ چلیں

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللہِ۝۰ۭ قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا
كَذٰلِكُمْ قَالَ اللہُ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ فَسَيَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا۝۰ۭ

یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کوبدل دیں صاف کہہ دیجئے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ چل نہیں سکتے،
اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے فیصلہ فرمادیا ہے یہ لوگ کہیں گے کہ نہیں بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کررہے ہو (حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے)

بَلْ كَانُوْا لَا يَفْقَہُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۱۵

بلکہ یہ لوگ( صحیح) بات کوکم ہی سمجھتے ہیں۔

قُلْ لِّـلْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَـتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ
تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ۝۰ۚ
فَاِنْ تُطِيْعُوْا يُؤْتِكُمُ اللہُ اَجْرًا حَسَـنًا۝۰ۚ
وَاِنْ تَتَوَلَّوْا كَـمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝۱۶

ائے نبیﷺ پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہئے تم عنقریب ایک سخت جنگجو قوم کے ساتھ جنگ کے لئے بلائے جاؤگے۔

تم کو ان سے جنگ کرنی ہوگی یا وہ مطیع ہوجائیں گے۔
اگر تم نے حکم جہاد کو مان لیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا اچھا بدل دیں گے۔

اور اگر تم روگردانی کروگے جیسا کہ اس سے پہلے روگردانی کرچکے ہو تو اللہ تعالیٰ تم کو درد ناک سزا دیں گے۔

لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ
وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ
وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ۝۰ۭ
وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ
يُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۰ۚ

(جنگ سے پیچھے رہ جانے میں) اندھے پر کوئی گناہ نہیں ہے
اور نہ لنگڑے پر گناہ ہے
اور نہ بیمار پر
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا
اللہ تعالیٰ اس کو ایسی جنتوں میں داخل کریں گے جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔

وَمَنْ يَّتَوَلَّ يُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝۱۷ۧ

اور جو کوئی اطاعت سے انحراف کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو درد ناک سزادیں گے۔

لَقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ
اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ

فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِہِمْ
فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَۃَ عَلَيْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا۝۱۸ۙ

یقیناً اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے راضی ہوگئے
جب وہ آپؐ سے (حدیبیہ کے مقام پر) درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے
اللہ تعالیٰ کوان کے دلوں کا حال معلوم تھا
چنانچہ اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی
اورانھیں اس صلہ میں قریبی فتح بخشی۔

وَّمَغَانِمَ كَثِيْرَۃً يَّاْخُذُوْنَہَا۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا۝۱۹
وَعَدَكُمُ اللہُ مَغَانِمَ كَثِيْرَۃً تَاْخُذُوْنَہَا
فَعَجَّلَ لَكُمْ ہٰذِہٖ
وَكَفَّ اَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ۝۰ۚ

اور بہت سارا مال غنیمت انھیں عطا کردیا۔جن کو یہ حاصل کریں گے
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکیم ہیں۔
اللہ تعالیٰ تم سے بہت سے مال غنیمت کا وعدہ فرماتے ہیں جنہیں تم حاصل کروگے۔
فوری طور پر تو تمہارے لئے یہ فتح(خیبر) عطا کردی
اور لوگوں کوتم پرہاتھ اٹھانے سے روک دیا۔

یعنی ان کے قلوب میں اہل ایمان کی ہیبت ڈال دی، جنگ کی نوبت نہ آئی اورتمہیں مالا مال کردیا۔

وَلِتَكُوْنَ اٰيَۃً لِّــلْمُؤْمِنِيْنَ

اور اس سے غرض یہ تھی کہ مومنین کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور ہو۔

یعنی یہ یقین پیدا ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی کس طرح مدد کرتے ہیں۔

وَيَہْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا۝۲۰ۙ
وَّاُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْہَا
قَدْ اَحَاطَ اللہُ بِہَا۝۰ۭ
وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا۝۲۱
وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ

اور تمہیں سیدھے راسہ پرجمائے رکھے۔
اور اس کے علاوہ ایک اور فتح بھی حاصل ہوگی جس پر تم ابھی قادر نہیں ہو
اللہ تعالیٰ نے ان کوگھیر رکھا ہے
اور اللہ تعالیٰ ہرچیز پرقادر ہیں۔
اور اگر کافر تم سے لڑتے تویہ یقینا ًپیٹھ پھیر کربھاگ جاتے۔

ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا۝۲۲
سُـنَّۃَ اللہِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ
مِنْ قَبْلُ۝۰ۚۖ

پھر وہ کسی کواپنا دوست، حامی، مددگار نہ پاتے۔

یہی سنت الٰہی ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے(یعنی اللہ نے کفار کے لئے جو دین الٰہی میں مانع ومزاحم ہوں، ذلت وخواری تجویز کر رکھی ہے)

وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۲۳
وَہُوَالَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَہُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَكَّۃَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ

اور آپ اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤگے ۔
اور اللہ وہی توہے جس نے وادی مکہ میں ان (کافروں) کے ہاتھوں سے تم کواورتمہارے ہاتھوں سے ان کو روک دیا حالانکہ تم کوان کافروں پرفتح یاب کرچکا تھا

وَكَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا۝۲۴
ہُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَــرَامِ
وَالْہَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ۝۰ۭ
وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَاۗءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْہُمْ
اَنْ تَـطَــــُٔـــوْہُمْ

اور جو کچھ تم کررہے تھے اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہے تھے۔
یہی تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکے رکھا۔

اور قربانی کے جانوروں کوجو رکے رہ گئےان کی قربانی کی جگہ پہنچنے نہ دیا
اور اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد اور عورتیں موجود نہ ہوتے جنہیں تم جانتے نہ تھے
اگر ان کا کچلا جانا (ہلاک ہونا) متوقع نہ ہوتا (توجنگ روکی نہ جاتی)

فَتُصِيْبَكُمْ مِّنْہُمْ مَّعَرَّۃٌۢ
بِغَيْرِ عِلْمٍ۝۰ۚ
لِيُدْخِلَ اللہُ فِيْ رَحْمَتِہٖ
مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۚ

لَوْ تَزَيَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝۲۵

(اگر جنگ ہوتی تومسلمان، مسلمان کے ہاتھوں مارے جاتے ) اور بے خبری میں ان مسلمانوں کے مارے جانے کا تمہیں ضرور صدمہ پہنچتا۔
( پس جنگ روک دینے کا مقصد یہ بھی تھا) کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں اپنی رحمت میں داخل کردیں (یعنی طالبان حق کو ایمان لانے کا ایک اور موقع فراہم کریں)
ہاں اگر دونوں فریق (مومن وکافر) الگ الگ ہوتے توان میں جو کافر تھے ہم انھیں درد ناک سزا دیتے۔

اِذْ جَعَلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ قُلُوْبِہِمُ

جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں حمیت جاہلیہ کو جگہ دی۔

الْحَمِيَّۃَ حَمِيَّۃَ الْجَاہِلِيَّۃِ
فَاَنْزَلَ اللہُ سَكِيْنَتَہٗ عَلٰي رَسُوْلِہٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَلْزَمَہُمْ كَلِمَۃَ التَّقْوٰى
وَكَانُوْٓا اَحَقَّ بِہَا وَاَہْلَہَا۝۰ۭ
وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا۝۲۶ۧ

تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اہل ایمان پر سکینت نازل فرمائی اور ان کو تقویٰ کی بات کا پابند رکھا

کہ وہ اس کے زیادہ حق دار اوراس کے اہل تھے
اور اللہ تعالیٰ ہر شئے کی حقیقت اچھی طرح جانتے ہیں۔

لَـقَدْ صَدَقَ اللہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ۝۰ۚ
لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۝۰ۙ
مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ۝۰ۙ لَا تَخَافُوْنَ۝۰ۭ
فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا
فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًا۝۲۷
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ
لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۝۲۸ۭ

بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کوسچا خواب دکھایا تھا۔
جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق تھا۔
یعنی تم لوگ انشاء اللہ ضرر مسجد الحرام (بیت اللہ) میں پورے امن وسکون کے ساتھ داخل ہوں گے
اپنے سر منڈھواؤگے اور بال ترشواؤگےتمہیں کسی قسم کا خوف دامن گیر نہ ہوگا۔
پھر اللہ تعالیٰ جانتے ہیں (ان حقائق کو) جنہیں تم نہیں جانتے
اسی لئے( یعنی خواب کے پورا ہونے سے پہلے) ایک قریبی فتح (فتح خیبر) تم کوعطا کردی۔
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کوہدایت اور دین حق (اسلام) کے ساتھ بھیجا۔
تا کہ اس کوتمام ادیان پرغالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ
وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ

محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔
اور جو لوگ آپؐ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں۔

توضیح : اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کافروں کے ساتھ بے رحمی برتتے ہیں بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان ہیں۔ کسی لالچ ترغیب یا دباؤ سے خریدے نہیں جاسکتے۔ دشمنانِ دین کے کسی باطل نظرئیے کو کسی لالچ کے تحت ماننے والے نہیں ہیں۔

رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ
تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا
يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا۝۰ۡ
سِيْمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ
السُّجُوْدِ۝۰ۭ
ذٰلِكَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ۝۰ۚۖۛ

وہ آپس میں رحیم ( ایک دوسرے کے ہمدرد وغمگسار) ہیں
آپ انھیں (اکثر)رکوع وسجدہ کی حالت میںدیکھیں گے
اور اللہ کے فضل اورخوشنودی کی طلب وجستجو میں لگے رہتے ہیں
ان کے سجدہ ریز ہونے کی نشانی ان کے چہروں سے ظاہر ہے
( خدا پرستی کا نور چہروں سے ظاہر ہوتا ہے)
ان کے یہ اوصاف توریت میں لکھے ہوئے ہیں

وَمَثَلُہُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ۝۰ۣۚۛ
كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔہٗ
فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ
فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِہٖ

انجیل میں بھی ان کی مثال دی گئی ہے
جیسے کھیتی اس نے پہلے اپنی کونپل نکالی
پھر اس کوتقویت دی پھر وہ گدرائی
پھر اپنے تنہ پر کھڑی ہوئی

يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ

کاشت کرنے والوں کو بھلی لگتی ہے

مطلب یہ کہ ابتداً توحید کوپیش کرنے والا ایک ہی بندۂ خدا تھا پھر دو ہوئے پھر تین ہوئے اسی طرح اہل ایمان کا سلسلہ کھیتی کی طرح بڑھتا ہی گیا۔ بڑھتا ہی گیا۔

لِيَغِيْظَ بِہِمُ الْكُفَّارَ۝۰ۭ
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ
مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۝۲۹ۧ

تا کہ اس کے ذریعہ کافروں کا جی جلائے۔
ان میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ کرتے رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ان سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔

صلح حدیبیہ کی شرائط حسب ذیل ہیں:
۱۔دس سال تک صلح وآشتی سے رہیں گے اورمکہ ومدینہ میں جانبین کی آمدورفت بلا روک ٹوک رہے گی۔
۲۔ جو قبائل چاہیں معاہدہ میں قریش سے مل جائیں اور جو قبائل چاہیں مسلمانوں سے ملے رہیں۔ ایسے تمام حلیف قبائل کے بھی یہی حقوق ہوں گے۔
۳۔ اس سال مسلمان، طواف کعبہ نہ کریں، بلکہ آئندہ سال کریں ، اور بوقت طواف ہتھیار مسلمانوں کے جسم پر نہ ہوں۔ ۴۔ اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر رسول اللہﷺ کے پاس چلا جائے توقریش کے مطالبہ پر واپس کردیا جائے گا لیکن اگر کوئی شخص اسلام چھوڑکر قریش کے پاس چلا جائے توقریش اس کوواپس نہ کریں گے۔
اگرچہ یہ شرائط مسلمانوں کے لئے ناگوار تھے لیکن حضوراکرمؐ نے انھیںقبول فرمالیا کہ انھیں شرائط میں اشاعت اسلام کی راہیں کھلتی تھیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس صلح کومسلمانوں کے لئے فتح مبین قرار دیا اور تاریخ گواہ ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں کوکئی فتوحات حاصل ہوئیں۔
غزوۂ خیبر:مدینہ سے شام کی جانب تین منزل یعنی تقریباً (۶۰تا ۷۰ ) میل دور خیبر ایک آبادی کا نام ہے یہ خالص یہودیوں کا شہر تھا۔ آبادی کے اطراف نہایت مستحکم قلعے بنا کر یہود اس میں آباد تھے۔ مدینہ سے جو یہود نکال دیئے گئے تھے وہ بھی یہیں آکر بس گئے تھے۔
رسول اللہﷺ کوصلح حدیبیہ سے واپس ہوکر ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ خبریں آنے لگیں کہ خیبر کے یہود مدینہ پر حملہ کی تیاری کررہے ہیں اور جنگ احزاب کی ناکامی کا بدلہ لینے اور اپنی کھوئی ہوئی عزت وقوت کوپھر بحال کرنے کے لئے ایک خوں ریز جنگ کی تیاری کرچکے ہیں ۔
رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کرکے یہ طے کیا کہ مسلمانوں کوآگے بڑھ کریہودیوں کا مقابلہ کرنا چاہئے مجاہدین کی تعداد دوہزار تھی، جن میں دو سو گھوڑ سوار تھے خیبر یہودیوں کا بڑا مرکز تھا، تمام قلعے یکے بعد دیگرے فتح ہوگئے اور بعض قبائل توجنگ کے بغیر طالب صلح ہوئے۔ خیبر کی اس فتح سے یہودیوں کی قوت بالکل ٹوٹ گئی۔ اسلام کے دو بڑے دشمن مشرکین مکہ او ریہود تھے دونوں نے اسلام کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنالیا تھا۔ یہود کی شکست سے مشرکین کا ایک قوی بازو ٹوٹ گیا اور مسلمانوں کوبھی درکار امن نصیب ہوا، چنانچہ اسلام کی اشاعت میں جورکاوٹیں تھیں وہ بڑی حد تک دور ہوگئیں۔ اورمسلمانوں کی معاشی حالت بھی ٹھیک ہوگئی۔
فتح مکہ:
فتح خیبر کے بعد جس فتح کا ذکر سورہ فتح میں ہے وہ فتح مکہ ہے۔ رمضان ۸ھ میںمکہ بغیر جنگ کے فتح ہوگیا۔ جدال وقتال کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اس لئے اس جنگ میں کوئی مال غنیمت ہاتھ نہیں آیا نہ ہی مشرکین کی جائیدادوں پرقبضہ کیا گیا۔ اصل فتح یہ تھی کہ اب مشرکوں کی پوری قوت ٹوٹ چکی تھی اور قریبا ًتمام اہل مکہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے۔
فتح حنین :
قریش کے دوقبائل ہوازن وثقیف بڑے طاقتور اور جنگجو قبائل تھے فتح مکہ کی خبر ان کوپہنچی تو بڑے جوش میں آگئے، کہا کہ قریش بڑے بزدل تھے جو مارکھاگئے ہم مسلمانوں سے لڑیں گے۔ انہوں نے اپنے ساتھ دیگر قبائل کو بھی ہموار کیا۔ اور چار ہزار کی جمعیت لے کر مکہ کی طرف بڑھے وادی حنین میں جو طائف اور مکہ کے درمیان تھی، پڑاؤ کیا۔ رسول اللہﷺ کواس کی خبر پہنچی توآپ بھی بارہ ہزار مجاہدین کے ساتھ مقابلہ کے لئے نکلے۔ وادی حنین ہی میں مقابلہ ہوا۔ یہ پہلی جنگ تھی جس میں صحابہؓ کی تعداد ودشمن کے مقابلہ میں تگنی تھی، مگر اس کے باوجود دشمن کی تیروں کی بارش کا مقابلہ نہ کرسکے اور ادھر ادھر دوڑنے لگے رسول اللہﷺ نے ان کو پکارا آپ کی للکار پرمجاہدین اسلام پر مجتمع ہوئے اور دشمن پریکبارگی حملہ کردیا گیا چنانچہ دشمنوں کوشکست فاش ہوئی۔ سورہ توبہ میں اس جنگ کا اجمالی تذکرہ ہے۔