☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ۝۰ۚ

ائے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو (یعنی نافرمانی سے بچنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرو کیونکہ اپنے پروردگار کوناراض کرنا اپنی ابدی زندگی کواپنے ہی ہاتھوں برباد کرنا ہے)

اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ۝۱

یقیناً قیامت کے احوال اوراس کے شدائد بڑے ہی ہولناک (لرزہ خیز) ہوں گے اوروہ ایک حادثہ عظیم ہوگا۔

يَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ كُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ

جس دن تم اس (زلزلہ) کودیکھو گے کہ (دہشت کے مارے) ہرمادہ اپنے بچہ کودودھ پلانا بھول جائے گی۔

وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا

اور( ہیبت وگھبراہٹ کے مارے) ہر حاملہ اپنا حمل ڈال دے گی( حمل گرپڑیں گے)

وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا ہُمْ بِسُكٰرٰي

اورآپ لوگوں کونشہ بازوں کی طرح مد ہوش دیکھیں گے، یہ مدہوشی کسی نشہ سے نہ ہوگی۔

وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِيْدٌ۝۲

لیکن اللہ تعالیٰ کا عذاب ہی ایسا شدید ہوگا۔

توضیح : یہ نفخ اولیٰ ہے جس سے قیامت کا آغاز ہوگا جس کی تفصیل قرآن مجید میں مختلف مقامات پرمختلف انداز سے بیان کی گئی ہے جن میں سے چند ذیل میںدیئے گئے ہیں۔
۱۔ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ (الدخان ۱۰) توآپ ان کے لیے اس روز کا انتظار کیجئے جس روز آسمان سے دھواں نکلے گا (یعنی عذاب نازل ہوگا) ۲۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا ۔وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا (الطور۹۔۱۰) اوریہ اس روز واقع ہوگا جس روز آسمان تھرتھرانے لگے اورپہاڑ چلنے لگیں گے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍ۝۳ۙ

اورلوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں دلیل علمی کے بغیر اللہ تعالیٰ کے الہ واحد ہونے کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور شیطان سرکش کی اتباع کرتے ہیں۔

كُتِبَ عَلَيْہِ اَنَّہٗ مَنْ تَوَلَّاہُ فَاَنَّہٗ يُضِلُّہٗ

اللہ تعالیٰ کے پاس یہ بات طے شدہ ہے کہ جو کوئی شیطان کو دوست بنائے گا وہ اسے گمراہ کردیتا ہے۔

وَيَہْدِيْہِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِ۝۴

اور اسے دہکتی ہوئی آگ والے عذاب کی طرف لے جاتا ہے ۔

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ

ائے لوگو کیا تم کوموت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے میں شک ہے (ذرا اپنی تخلیق پرغور توکرو)

فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَۃٍ

کہ ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا مٹی سے کی پھر نطفہ سے پھر خون کے جمے ہوئے لوتھڑے سے پھر گوشت کی بوٹی سے صورت بنائی اوربعض کوادھورا چھوڑا۔

لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ۝۰ۭ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى

یہ تخلیقی ذکر اس لیے کیا گیا کہ تم پر اپنی خالقیت ظاہر کی جائے اورہم جسے چاہتے ہیں رحم مادر میں ایک مدت مقررہ تک ٹھیرائے رکھتے ہیں۔

ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ۝۰ۚ

پھر ہم تم کوبچہ بنا کر باہر نکال لاتے ہیں تا کہ تم ( اس حالت سے بتدریج) اپنی بھرپور جوانی تک پہنچ جاؤ۔

وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ

اور بعض تم میں سے (ایسے بھی ہیں جو جوانی سے پہلے) مرجاتے ہیں اوربعض تم میں سے ایسے بھی جنہیں بڑھاپے کی انتہائی خراب حالت پرپہنچادیا جاتا ہے۔

لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَـيْــــًٔا۝۰ۭ

تا کہ بہت ساری چیزوں کوجاننے کے باوجود نہ جاننے والے کی طرح ہوجائے۔

وَتَرَى الْاَرْضَ ہَامِدَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍؚبَہِيْجٍ۝۵

اور تم زمین کونہایت ہی خشک (حالت مردنی میں) دیکھتے ہو پھر جب ہم اس پرمینہ برساتے ہیں تووہ ابھرتی جاتی ہے اورطرح طرح کے خوشنما نفیس نباتات اگ آتے ہیں۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ

ان قدرتوں کا اظہار اسی لیے ہے کہ (انسان یہ جان لے کہ ) اللہ تعالیٰ ہی بلاشرکت غیرے کائنات کے خالق فرمانروا حاجت روا ہیں۔

وَاَنَّہٗ يُـحْيِ الْمَوْتٰى وَاَنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۶ۙ

اور یہ کہ وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔

وَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِيَۃٌ لَّا رَيْبَ فِيْہَا۝۰ۙ

اور یہ کہ قیامت آکر رہے گی جس کے واقع ہونے میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔

وَاَنَّ اللہَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُوْرِ۝۷

اوریہ کہ اللہ تعالیٰ ان سب کوجو قبروں میں ہیں (محاسبۂ اعمال کے لیے) زندہ کرکے اٹھائیں گے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ۝۸ۙ

اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جواللہ تعالیٰ کے الہ واحد ہونے کے بارے میں علم ودانش اورکتاب اللہ کے واضح احکام وہدایات کوپیش نظررکھے بغیر جھگڑتے ہیں۔

ثَانِيَ عِطْفِہٖ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ

(جب وہ اپنے غلط عقائد کی صحت میں کوئی علمی دلیل پیش نہیں کرسکتے توہٹ دھرمی سے اپنے کوبڑا ہی جاننے والا ثابت کرنے کے لیے) تکبر کے ساتھ پلٹ جاتے ہیں تا کہ لوگوں کوراہ حق سے بھٹکائیں۔

لَہٗ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّنُذِيْقُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ عَذَابَ الْحَرِيْقِ۝۹

ایسے شخص کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اورقیامت کے دن ہم اس کودہکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھائیں گے۔

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدٰكَ

(اور اس سے کہا جائے گا) یہ انجام بد تیرے کفر کی سزا ہے جو تونے اپنے ہاتھوں آگے بھیجا تھا۔

وَاَنَّ اللہَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ۝۱۰ۧ

اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کبھی ظلم کرنے والے نہیں ہیں۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللہَ عَلٰي حَرْفٍ۝۰ۚ

اورلوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو بے یقینی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے۔

فَاِنْ اَصَابَہٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ۝۰ۚ

اگر اس کو کوئی دنیاوی فائدہ پہنچتا ہے تواس سے (کسی قدر) مطمئن ہوتا ہے

وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ

اور اگر اس کوآزمائش کے طور پر کوئی مصیبت پہنچتی ہے

انْقَلَبَ عَلٰي وَجْہِہٖ۝۰ۣۚ

تو دین ہی سے پھر جاتا ہے۔

خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ

وہ دنیا میں بھی نقصان میں رہتا ہے اور آخرت میں بھی۔

ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۝۱۱

یہی توکھلا نقصان ہے۔

توضیح :مطلب یہ ہے کہ کافروں کی طرح یہ دنیا بھی حاصل کرنہیں پاتا کیونکہ جب وہ اللہ رسول اور موت کے بعد کی زندگی سے بے پرواہ ہو کر دنیا کمانے لگتا ہے تواللہ رسول اور موت کے بعد کی زندگی کے کچھ نہ کچھ خیالات وگمان اور ضمیر کی کھٹک اس کو وہ یکسوئی واطمینان حاصل ہونے نہیں دیتے جو کافروں کو حاصل رہتی ہے۔ اور دنیا کے فائدوں کا لالچ خواہش نفس کے قید وبند، نقصانات کے اندیشے اس کودین کے تقاضے پورا کرنے سے روکتے ہیں۔ تذبذب کی یہ حالت انسان کے لیے بڑی ہی مہلک ہوتی ہے اس طرح وہ دنیا بھی کھوتا ہے اور آخرت بھی۔

يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّہٗ وَمَا لَا يَنْفَعُہٗ۝۰ۭ

پھر وہ اللہ تعالیٰ کے سوا غیراللہ کوپکارتا ہے جونہ اس کونقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ اس کونفع بخش سکتے ہیں۔

ذٰلِكَ ہُوَالضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ۝۱۲ۚ

یہی انتہا درجہ کی گمراہی ہے (کہ انسان مدد کے لیے غیراللہ کوپکارے)

يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّہٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِہٖ۝۰ۭ

یہ ایسے کوپکارتا ہے جس کی عبادت کا ضرر نفع کے مقابلہ میں یقینی ہے۔

لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَلَبِئْسَ الْعَشِيْرُ۝۱۳

ایسا دوست بھی برا ہے اورایسا ہم نشیں بھی برا ہے۔

توضیح : مطلب یہ کہ پکارنے والا غیر اللہ کوپکارکر اپنا ایمان فوراً ہی ضائع کردیتا ہے اور جس نفع کی امید میں غیراللہ کوپکارا تھا وہ نہ تو فوری حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی یہ نفع یقینی اور قطعی ہوتا ہے۔ غیر اللہ پر نفع ونقصان کا انحصار محض ظن وگمان پرمبنی ہے۔ اِنٓ يَّدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيدًا (سورہ نساء ۱۱۷) اور وہ تو (اہل اللہ کے زعم میں) شیطان سرکش ہی کوپکارتے ہیں وَمَن يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا (سورہ نسا ۳۸) اور جس کا ساتھی شیطان ہواس کی رفاقت کیا ہی بری ہے۔

اِنَّ اللہَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۰ۭ

بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کوجوایمان لائے اورنیک عمل کیے ایسی جنتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی (جس کا نہایت ہی خوشنما منظر ہوگا)

اِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ۝۱۴

بے شک اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں (کسی کی رائے ومشورہ سے نہیں کرتے)

مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَہُ اللہُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ

جو شخص (محمدﷺ کی مخالفت میں) یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں آپ کی مدد نہیں کریں گے۔

فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَاۗءِ

تواس کوچاہئے کہ ایک رسی آسمان تک تان لے اور اس کے ذریعہ (اگر ہوسکے) آسمان پر چڑھ جائے۔

ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ ہَلْ يُذْہِبَنَّ كَيْدُہٗ مَا يَغِيْظُ۝۱۵

پھر اس نصرت الٰہی کے سلسلہ کومنقطع کردے ( جومحمدمصطفیٰﷺ سے وابستہ ہے) پھر دیکھے کہ (محمدﷺ کی جن باتوں سے وہ غضب میں آرہا ہے) کیا اس کی اس تدبیر سے وحی الٰہی کا سلسلہ محمدؐ پر بند ہوجائے گا۔

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰہُ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۝۰ۙ

اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کوواضح دلائل کے ساتھ نازل کیا ہے۔

وَّاَنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ۝۱۶

اوراللہ تعالیٰ جس کوچاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ ہدایت اسی کودیتے ہیں جوطالب ہدایت ہوتا ہے۔ اور جوگمراہی اختیار کرتا ہے اس کواسی حالت میں چھوڑدیتے ہیں اللہ تعالیٰ زبردستی کسی کوہدایت دیتے ہیں اور نہ کسی کوگمراہی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ صاف طو رپر ارشاد ہے: فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن جو چاہے ایمان لائے وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے فاعل حقیقی ہونے کی تردید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تویہ چاہتے ہیں کہ تمام بندے دوزخ سے بچیں۔ اسی لیے قرآن مجید کے ذریعہ ہدایتیں نازل فرمائیں اور تعلیم وتربیت کے لیے رسول بھیجے۔ اپنی چاہت بندوں پر مسلط نہیں کی، انھیں عقل وفہم اور اختیار دے کر ان کی آزمائش کی۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ہَادُوْا وَالصّٰبِــــِٕــيْنَ وَالنَّصٰرٰي

جو لوگ الٰہی تعلیم کے مطابق ایمان لاتے ہیں اور جویہودی ہوئے اورجوبے دین (فرشتوں وکواکب کے پرستار ہیں)

وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُـوْٓا۝۰ۤۖ

اور نصاریٰ اورمجوس اوروہ لوگ جو شرک کرتے ہیں،

اِنَّ اللہَ يَفْصِلُ بَيْنَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ

یقیناً اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کےدرمیان فیصلہ فرمادیںگے۔

اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ۝۱۷

بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پرنظررکھے ہوئے ہے۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جو مخلوق آسمانوں اورزمین میں ہے۔ سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے آگے سربہ سجود ہے۔

وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ

سورج اور چاند ستارے اور پہاڑ و درخت اورچوپائے اور بہت سے انسان اللہ تعالیٰ ہی کے آگے سجدہ ریز ہیں۔

النَّاسِ۝۰ۭ وَكَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْہِ الْعَذَابُ۝۰ۭ

اوربہت سے انسان ایسے بھی ہیں جو (اللہ تعالیٰ کے آگے سربسجود نہ ہونے کی پاداش میں) مستحق عذاب ہوچکے ہیں۔

وَمَنْ يُّہِنِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّكْرِمٍ۝۰ۭ

اور جس کواللہ تعالیٰ ذلیل کردیں کوئی اس کوعزت دینے والا نہیں۔

اِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ۝۱۸ ۭ ۞

بیشک اللہ تعالیٰ جوچاہتے ہیں کرتے ہیں (کسی کودم مارنے کی مجال نہیں)

ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّہِمْ۝۰ۡ

یہ دوفریق(اہل حق وباطل) اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔

فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ۝۰ۭ

لہٰذا جو لوگ انکار حق کرتے ہیں ان کے لیے آگ کے کپڑے پہنائے جائیں گے( جو آتش گیر مادے کے ہو ںگے)

يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِہِمُ الْحَمِيْمُ۝۱۹ۚ

ان کے سروں پرکھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔

يُصْہَرُ بِہٖ مَا فِيْ بُطُوْنِہِمْ وَالْجُلُوْدُ۝۲۰ۭ

جس سے ان کے پیٹ کے اندر کی چیزیں اورکھالیں جل جائیں گی۔

وَلَہُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيْدٍ۝۲۱

اوران کومارنے کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے۔

كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْہَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْہَا۝۰ۤ

دوزخ کی تکلیف اوررنج سے جب بھی اس سے نکلنا چاہیں گے توپھر اسی میں لوٹائے جائیں گے۔

وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ۝۲۲ۧ

اورکہا جائے گا آتش جہنم کا مزہ چکھتے رہو۔

اِنَّ اللہَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًا۝۰ۭ

بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کوجو( کتاب اللہ کے مطابق) ایمان لاتے ہیں اور (اس کے تقاضے) اعمال صالحہ (زندگی کے ہر شعبہ میں سنت کے مطابق) بجالانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ( جن کا نہایت ہی خوشنما منظرہوگا) وہاں انھیں سونے اور موتی کے زیور پہنائے جائیں گے۔

وَلِبَاسُہُمْ فِيْہَا حَرِيْرٌ۝۲۳

اور ان کا لباس ریشم کا ہوگا (یہ سب کچھ عطا اس لیے ہے کہ)

وَہُدُوْٓا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ۝۰ۚۖ

انھیں پاکیزہ کلام (لاالہ الااللہ) کی طرف ہدایت کی گئی تھی، اور انہوں نے اس کوقبول کیا تھا)

وَہُدُوْٓا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِيْدِ۝۲۴

اوردین اسلام کی طرف جن کی رہنمائی کی گئی تھی۔

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ

جن لوگوں نے کفر کیا ( دین حق کی رہنمائی قبول نہ کی اور لوگوں کو) اللہ تعالیٰ کے (پسندیدہ) راستے سے روکتے رہے۔

وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِيْ جَعَلْنٰہُ لِلنَّاسِ

اور بیت اللہ مسجد الحرام سے بھی روکتے ہیں جسے ہم نے (بلا امتیاز غربت وامارت) سب انسانوں کے لیے بنایا تھا

سَوَاۗءَۨ الْعَاكِفُ فِيْہِ وَالْبَادِ۝۰ۭ

(جہاں) سب برابر ہیں خواہ وہ مقامی ہوں یا باہر سے آنے والے ہوں۔

وَمَنْ يُّرِدْ فِيْہِ بِـاِلْحَادٍؚبِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۲۵ۧ

اور( یہاں) جوکوئی زیادتی کرے گاتوہم اس کو(جہنم کا) درد ناک عذاب چکھائیں گے۔

توضیح : گناہوںکا ارتکاب اگرچہ کہ بہت برا ہے لیکن بیت الحرام یا کسی مسجد میں کیا جائے تواس کی سنگینی بڑھ جاتی ہے۔

وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰہِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا

اورجب کہ ہم نے ابراہیمؑ کے لیے( خانہ کعبہ میں جگہ دی) بسایا اوریہ بھی حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی اور کوشریک نہ کرنا۔

وَّطَہِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۝۲۶

اور میرے گھر(بیت اللہ) کو طواف کرنے والوں قیام رکوع وسجدہ کرنے والوں کے لیے پاک وصاف رکھو۔

وَاَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ۝۲۷ۙ

اورلوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تمہارے پاس پیدل یا سبک رفتار سبک جسم اونٹنیوں پرسوار ہوکر دور دراز مقامات سے چلے آئیں۔

لِّيَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۝۰ۚ فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْرَ۝۲۸ۡ

تا کہ اپنے مقررہ (دینی ودنیاوی) فائدے حاصل کریں اورقربانی کے دنوں میں مخصوص چوپایوں کوجنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا رزق بنایا ہے اللہ کا نام لے کرقربانی کریں پھر ان(قربانی کے جانوروں کا گوشت) کھاؤ اورتنگ دست ومحتاج کوبھی کھلاؤ۔

ثُمَّ لْيَقْضُوْا تَفَثَہُمْ وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَہُمْ وَلْيَطَّوَّفُوْا بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ۝۲۹

پھر( جب قربانی سے فارغ ہوجاؤ تو) اپنا میل کچیل (جو حالت احرام میں بدن پرجمع ہوگیا تھا اس کو) دور کرو، اور اپنی نذریں پوری کرو اور قدیم گھر (کعبۃ اللہ) کا طواف بھی کرلو۔

ذٰلِكَ۝۰ۤ

( حج بیت اللہ کے متعلق) یہبات تو ہوچکی ہے

وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللہِ فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝۰ۭ

اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے محترم احکام کی عظمت ملحوظ رکھے گا تو( اس کا یہ احترام ) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی کے لیے بہتر ہے۔

وَاُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ

اور تمہارے لیے چوپائے حلال کیے گئے سوائے ان کے جوپڑھ کر تم کوسنائے گئے ہیں۔

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ۝۳۰ۙ

لہٰذا بت پرستی کی گندگی سے بچو اور ان جھوٹی باتوں سے بچو (جو اللہ تعالیٰ کے تعلق سے گھڑلی گئی ہیں جو کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہیں)
(رسول اللہﷺ نے جھوٹی گواہی کوبھی شرک کے برابر قرار دیا ہے عُدِلَتْ شَھَادَۃَ الزُّوْرِ بِالْاِشْرَاکِ بِاللہِ)

حُنَفَاۗءَ لِلہِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِہٖ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھیرائے بغیر صرف اللہ ہی کے ہوکر رہو۔
(درِ حق کے اس طرح نیازمند ہوجاؤ کہ درغیر کی نیاز مندی کا شائبہ بھی تمہارے فکروعمل میں نہ رہنے پائے)

وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّيْرُ اَوْ تَہْوِيْ

اور جوشخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ (کسی کو) شریک کرتا ہے تو( اس کا حال یہ ہوتا ہے) گویا کہ وہ آسمان (کی بلندیوں) سے نیچے گرپڑا پھر پرندوں نے اس کی بوٹی بوٹی نوچ ڈالی۔

بِہِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ۝۳۱

یا ہوا نے اسے اڑا کرکہیں دور داز جگہ پٹخ دیا۔

ذٰلِكَ۝۰ۤ

یہ سن چکے اور اب سن لو

توضیح : مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی حیثیت میں اشرف المخلوقات اورخلیفہ ہے۔ لیکن جب وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے تو ’’اَسْفَلُ السَّافِلِیْنَ‘‘ اس کا مقام قرارپاتا ہے۔ انسان کے لیے اس سے بڑھ کرذلت اورکیا ہوسکتی ہے کہ اپنے پیدا کرنے اور پرورش کرنے والے کوچھوڑکراپنے ہی جیسے یا بے جان محتاج وبے اختیار افراد خلق کی طرف رجوع کرے جو اپنی قبروں میں پہنچ چکے ہیں۔

وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۝۳۲

اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے طریقوں کا احترام کرتا ہے تو اس کا یہ احترام دل کی پرہیزگاری ہے۔

توضیح : یعنی اس بات کی علامت ہے کہ اس کا دل کا خوف الٰہی سے معمور ہے۔ الٰہی احکام کی خلاف ورزی دراصل سرکشی اور قلب کے خوف الٰہی سے خالی ہونے کا ثبوت پیش کرنا ہے۔ وَاتَّقُوْاللہ (سورہ مائدہ آیت ۸۸ ) اللہ پر تم ایمان لائے ہو تو اس کی نافرمانی کے انجام بد سے ڈرتے رہو کیونکہ ایمان کا اقتضا خوف الٰہی ہے۔

لَكُمْ فِيْہَا مَنَافِعُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى

تمہارے لیے ان میں ایک وقت مقررہ تک کے لیے فائدے ہیں (سواری،بار برداری، اون، دودھ وغیرہ)

ثُمَّ مَحِلُّہَآ اِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ۝۳۳ۧ

پھر ان (جانوروں) کو ذبح کرنےکے لئے قدیم گھر بیت اللہ کے قریب پہنچنا ہے۔

توضیح :زمانہ جاہلیت میں قربانی کے جانوروں سے استفادہ ناجائز سمجھا جاتا تھا جس کی تردید کی گئی صحیحین میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کودیکھا کہ وہ اپنی اونٹنی ہانکے لے جاتا ہے آپؐ نے فرمایا اس پرسوار ہوجا۔ اس نے عرض کیا یہ توقربانی کی اونٹنی ہے۔ آپ نے فرمایا اس پرسوار ہوجا تیرا بھلا ہو۔ یہ کلمہ دوسری بار فرمایا تیسری بار۔

وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ

اورہم نے ہرامت کے لیے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے تا کہ جو مویشی (چوپائے) اللہ تعالیٰ نے انھیں دیئے ہیںذبح کے وقت ان پر اللہ تعالیٰ

مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۝۰ۭ

کا نام لیا جائے۔(اور مقررہ ایام میں مقررہ طریقہ پرذبح کیا جائے۔)

توضیح : اگر قربانی کا مقصد مردہ بزرگوں کوراضی وخوش کرنا یا ان سے فیض حاصل کرنا ہوتو وَمَا اُھِلَّ لِغَیْرِاللہ۔ (البقرہ ۱۷۳) کی رو سے اس کا حرام ہونا ایک طے شدہ حقیقت ہے۔

فَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا۝۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ۝۳۴ۙ

لہٰذا تمہارا معبود ایک ہی ہے اسی کے تابع فرمان رہو۔ اور (محمدﷺ کے ہر حکم کے آگے جھکنے والے کو) جنت کی خوشخبری سنادیجئے۔

الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ

یہ وہ لوگ ہیں جب اللہ تعالیٰ کا ذکر(عذاب کی باتیں) سنتے ہیں توان کے قلوب لرز اٹھتے ہیں۔

وَالصّٰبِرِيْنَ عَلٰي مَآ اَصَابَہُمْ

اور جب ان پرمصیبت پڑتی ہے تو صبر کرتے ہیں(یعنی مصیبت کودور کرنے کیلئے ایسا قدم نہیں اٹھاتے جس سے اللہ ورسول کی نافرمانی ہو۔ مصیبت کی آزمائش امتحان اورخطاؤں کا کفارہ سمجھ کربرداشت کرتے ہیں)

وَالْمُقِيْمِي الصَّلٰوۃِ۝۰ۙ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳۵

اورنماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے(اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللہِ

اور قربانی کے اونٹوں کوبھی ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ قرار دیا ہے۔

لَكُمْ فِيْہَا خَيْرٌ۝۰ۤۖ

ان میں تمہارے لیے فائدے ہی فائدے ہیں۔

فَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہَا صَوَاۗفَّ۝۰ۚ

توقربانی کے وقت قطار باندھ کران پراللہ تعالیٰ کا نام لو۔

فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا فَكُلُوْا مِنْہَا

جب وہ پہلو کے بل گرپڑے توان کا گوشت کھاؤ

وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۝۰ۭ

اور بھوکے مانگنے اور نہ مانگنے والوں کوکھلاؤ۔

كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰہَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۳۶

اس طرح ہم نے ان کوتمہارے لیے مسخر کردیا تا کہ تم( اللہ تعالیٰ کا) شکر ادا کرتے رہو۔

لَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۝۰ۭ

(یہ بات یاد رکھو) اللہ تعالیٰ کوان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔

كَذٰلِكَ سَخَّرَہَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ہَدٰىكُمْ۝۰ۭ

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کوتمہارے بس میں کردیا لہٰذا اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر کہ تم کوہدایت بخشی اللہ تعالیٰ کی عظمت شان جلالت بڑائی کبریائی کا ذکر کرتے رہو۔

وَبَشِّرِ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۳۷

اور( ائے پیغمبرﷺ) نیکو کاروں کو(جنت کی) خوشخبری سنائیے۔

اِنَّ اللہَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۭ

بے شک اللہ تعالیٰ مومنین کی طرف سے دشمنان دین کے حملوں کی مدافعت کرتے ہیں۔

اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۝۳۸ۧ

یقیناً اللہ تعالیٰ ہرخیانت کار، دغاباز ، کفران نعمت کرنے والے کوپسند نہیں فرماتے۔

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۝۰ۭ

جن (اہل ایمان) سے بلاوجہ لڑائی کی جاتی ہے انھیں بھی (ان کافروں سے) لڑنے کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ بہت ستائے گئے ہیں۔

موضح القرآن:۔ جب تک حضرت محمدﷺ مکہ میں رہے حکم تھا کہ مسلمان کافروں کی بدی پرصبر کریں۔ جب مدینہ میں آئے توحکم ہوا جو تم سے بدی کرے تم بھی ان سے بدلہ لو، تب جہاد شروع ہوا۔

وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۝۳۹ۙ
الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ۝۰ۭ

بے شک اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پرقادرہیں(انھیں غالب کریں گے) یہ وہ لوگ ہیں جوناحق اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے (ان کا قصور ہی کیا تھا) محض اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی ہمارے رب ہیں۔

وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ

اوراگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے (ظلم وستم زور وقوت کو) بعض لوگوں کو ذریعہ دفع نہ کرتے۔

لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْہَا اسْمُ اللہِ كَثِيْرًا۝۰ۭ

توعیسائی راہبوں کے گرجے اوریہودیوں کے عبادت خانے اورمسجدیں جس میں اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے منہدم کردیئے جاتے۔

وَلَيَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ۝۰ۭ

اورجو اللہ تعالیٰ کے دین کی (بقا واشاعت میں جان و مال سے) مدد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتے ہیں۔

اِنَّ اللہَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ۝۴۰

بے شک اللہ تعالیٰ بڑی ہی زبردست طاقت والے ہیں۔

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ

(دین کی مدد کرنے والے) یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ا ن کوزمین پر(جان ومال وعزت) قانونی تحفظ عطا کریں (یعنی حکمران بنائیں) تو وہ (باقاعدہ) نماز قائم کریں اورزکوۃ دیں (بیت المال کا قیام عمل میں لائیں)

وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝۴۱

اورنیک کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں۔ اور انجام (نتائج) اللہ کے ہاتھ میں (نتائج سے بے نیاز ہوکر کام کا آغاز کیا جانا چاہئے)
(آئینی طور پرجان ومال کے تحفظ کے ساتھ ہی مذکورہ فرائض کی ادائی لازم آتی ہے)

وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ

اور اگر یہ لوگ آپ کوجھٹلارہے ہیں (توآپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔)

فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّثَمُوْدُ۝۴۲ۙ وَقَوْمُ اِبْرٰہِيْمَ وَقَوْمُ لُوْطٍ۝۴۳ۙ

ان لوگوں سے پہلے قوم نوحؑ عاد وثمود اورقوم ابراہیمؑ اورقوم لوطؑ

وَّاَصْحٰبُ مَدْيَنَ۝۰ۚ

اورشہر مدین کے رہنے والے قوم شعیبؑ اپنے نبیوں کوجھٹلاچکے ہیں۔

وَكُذِّبَ مُوْسٰى فَاَمْلَيْتُ لِلْكٰفِرِيْنَ ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ۝۰ۚ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ۝۴۴

اورموسیٰؑ بھی جھٹلائے گئے (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) میں ان کافروں کو مہلت پہ مہلت دیتا رہا (مگر وہ باز نہ آئے) پھر میں نے انھیں اپنی گرفت میں لیا (ہلاک کردیا) پس میرا عذاب بھی کس شدت کا تھا۔

فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ اَہْلَكْنٰہَا وَہِىَ ظَالِمَۃٌ

کتنی ہی ایسی بستیاں جنہیں ہم نے تباہ وتاراج کردیا ان میں بسنے والی قومیں ظالم تھیں (یعنی کفرو شرک میں مبتلا تھیں)

فَہِيَ خَاوِيَۃٌ عَلٰي عُرُوْشِہَا

اب وہ (ویران حالت میں) اپنی چھتوں پر گر پڑی ہیں۔

وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ۝۴۵

اور کتنے ہی کنویں بیکار پڑے ہیں اور کتنے ہی عالی شان محل کھنڈر میں تبدیل ہوگئے۔ (جہاں کوئی رہنے بسنے والا نہیں)

اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ

کیا یہ لوگ زمین پرچلتے پھرتے( ان تباہیوں کو)دیکھ نہیں رہے ہیں (ان تباہ شدہ بستیوں پران کا گزرنہیں ہورہا ہے)

فَتَكُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۚ

جس سے ان کےدل ایسے ہوجائیں کہ حق کوسمجھنے لگیں یا ان کے کان ایسے ہوجائیں کہحق کو سن سکتے ہو

فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ

واقعہ یہ ہے کہ (ان تباہ شدہ بستیوں کودیکھ کربھی جو لوگ عبرت نہیں لیتے) ان کی آنکھیں تواندھی نہیں ہوتی ہیں۔

وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۝۴۶

لیکن دل جوسینوں میں ہیں( انکار حق کی وجہ سے) اندھے ہوجایا کرتے ہیں (سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے)

وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللہُ وَعْدَہٗ۝۰ۭ

(ائے نبی ﷺ یہ لوگ آپ کی نبوت میں شبہ پیدا کرنے کے لیے) آپ سے عذاب کے جلد لے آنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کی ہرگز ہرگزخلاف ورزی نہیں فرماتے (عذاب تواپنے وقت پرآکر ہی رہے گا)

وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۝۴۷

اور(عذاب کا) ایک دن (پیغمبرؐ) آپ کے رب کے پاس ایک ہزار برس کے برابر ہے جس کو تم شمار کرتے ہو۔

وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ اَمْلَيْتُ لَہَا وَہِىَ ظَالِمَۃٌ

اور کتنی ہی ایسی بستیاں تھیں جن میں رہنے بسنے والوں کومیں نے مہلت دی اور وہ سب نافرمان تھے۔

ثُمَّ اَخَذْتُہَا۝۰ۚ وَاِلَيَّ الْمَصِيْرُ۝۴۸ۧ

بالآخر میں نے انھیں بھی اپنی گرفت میں لیا اور سب کو(جزائے اعمال کے لیے) میری ہی طرف پلٹ کرآنا ہے۔

قُلْ يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّمَآ اَنَا لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝۴۹ۚ

(ائے محمدﷺ) کہہ دیجئے ائے لوگو میں تمہیں علی الاعلان (انکار حق کے انجام سے) ڈرانے والا ہوں۔

فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۝۵۰

پس جو لوگ (انجام آخرت سے ڈرکر) ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے ان کے لیے مغفرت اورباعزت روزی ہے( جنت میں شاداں وفرحاں رہیں گے)

وَالَّذِيْنَ سَعَوْا فِيْٓ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيْنَ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۝۵۱

اور جو لوگ ہمارے احکام(اورہماری تعلیمات) کو(نبیﷺ واہل ایمان کو) نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں وہ سب جہنمی ہیں۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ

ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اورکوئی نبی ایسا نہیں بھیجا۔

وَّلَا نَبِيٍّ اِلَّآ اِذَا تَـمَنّٰٓي اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْٓ اُمْنِيَّتِہٖ۝۰ۚ

(جن کے ساتھ ایسا معاملہ پیش نہ آیا ہو) جب وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پڑھ کرسناتے تواسی وقت شیطان سننے والے (کفار کے دلوں) میں شبہات پیدا کیے دیتا ہے۔

توضیح : (تمنیٰ کے معنی آرزو۔ اور کلام الٰہی کی تلاوت کے ہیں۔ یہاں تلاوت مراد ہے)

فَيَنْسَخُ اللہُ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللہُ اٰيٰتِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۵۲ۙ

پھر شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کواللہ تعالیٰ مٹادیتے ہیں پھراللہ تعالیٰ اپنی دوسری محکم آیتوں سے شبہات رفع فرمادیتے ہیں اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں(اللہ تعالیٰ کا ہرحکم وہرتجویز عالمانہ اورحکیمانہ ہے ہرفتنہ انگیزی کا سد باب فرماتے ہیں۔)

لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ فِتْنَۃً لِّلَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ

تا کہ شیطان نے جو کچھ فتنہ پردازی کی ہے (شبہات پیدا کیے) ان لوگوں کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنائے۔

مَّرَضٌ وَّالْقَاسِـيَۃِ قُلُوْبُہُمْ۝۰ۭ

جن کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے اور جن کے دل سخت ہوگئے ہیں یعنی قبولیت حق کی صلاحیت متاثر ہوچکی ہے۔

وَاِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ لَفِيْ شِقَاقٍؚ بَعِيْدٍ۝۵۳ۙ

اورواقعہ یہ ہے کہ ظالم(کافرومشرک) حق کی مخالفت کرتے ہوئے حق سے دور ہی رہتے ہیں۔

وَّلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ

اور جن لوگوں کوصحیح علم عطا کیا گیا ہے وہ جان لیں کہ وہ (وحی الٰہی جو نبی نے پڑھ کرسنائی ہے) آپ کے رب کی طرف سے حق ہے۔

فَيُؤْمِنُوْا بِہٖ فَتُخْبِتَ لَہٗ قُلُوْبُہُمْ۝۰ۭ

پس وہ وحی الٰہی کے حق ہونے پریقین رکھتے ہیں اوران کے دل اللہ تعالیٰ کے آگے اوربھی جھک جاتے ہیں(یقین سے بھرجاتے اور مطمئن ہوتے ہیں)

وَاِنَّ اللہَ لَہَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۵۴

اور ایسے موقعوں پراللہ تعالیٰ اہل ایمان کوصحیح راہ دکھاتے ہیں۔

وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ مِرْيَۃٍ مِّنْہُ حَتّٰى تَاْتِيَہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً

اور (واقعہ یہ ہے کہ) وحی کے ایسے واقعات ہمیشہ کافروں کواوربھی شک وشبہ میں ڈالتے ہیں، تا آں کہ اچانک قیامت آجائے۔

اَوْ يَاْتِيَہُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيْمٍ۝۵۵

یا ان کے پاس ایک منحوس دن کا عذاب آجائے۔

اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلہِ۝۰ۭ

اس دن حکومت اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی (کسی کوکسی حیثیت سے بھی کوئی اختیار نہ ہوگا)

يَحْكُمُ بَيْنَہُمْ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ ہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائیں گے۔

فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۵۶

لہٰذا جو لوگ (کتاب وسنت کے مطابق) ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے (یعنی زندگی کے کاروبار، معاملات، تعلقات میں ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش میں لگے رہے) تو وہ طرح طرح کی نعمتوں سے بھرے ہوئے باغوں میں رہیں گے۔

توضیح : اعمال صالحہ کا اطلاق صرف ان ہی اعمال پرہوگا جوسنت اور روش صحابہؓ سے ثابت ہوں۔ غیر مسنون اعمال کتنے ہی دل فریب ناموں کے حامل کیوں نہ ہوں ان پر بدعت ہی کا اطلاق ہوگا۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا فَاُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝۵۷ۧ

اور جن لوگوں نے (اللہ تعالیٰ کے احکام سے) منہ موڑا اور ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے رہے ان سب کیلئے نہایت ہی رسوا کن عذاب ہوگا۔

وَالَّذِيْنَ ہَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا

اور جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی پھر وہ (اثنائے راہ میں) قتل کردیئے گئے یا مرگئے۔

لَيَرْزُقَنَّہُمُ اللہُ رِزْقًا حَسَـنًا۝۰ۭ

تواللہ تعالیٰ انھیں بہترین رزق دیں گے۔

وَاِنَّ اللہَ لَہُوَخَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ۝۵۸

اور بے شک اللہ تعالیٰ ہی بہترین روزی دینے والے ہیں۔

توضیح : اس آیت سے ثابت ہے کہ موت کے بعد نہ صرف شہداء کے لیے زندگی ہے بلکہ ہر اس شخص کے لیے جو موت سے ہمکنار ہوتا ہے۔ ’’ایک زندگی ہے‘‘ انسان موت کے بعد محض عدم میں نہیں چلاجاتا اور رزق کا مسئلہ زندہ مخلوق ہی کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مزید تشریح آل عمران آیت ۱۶۹،۱۷۰،۱۷۱ اور سورۂ بقرہ آیت ۱۵۴ میں کی ہے۔ اہل قرآن کے اس باطل عقیدہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ موت کے بعد شہدا کے سوا کسی کوزندگی نہیں ہے۔ انسان مر کر محض عالم عدم میں چلا جاتا ہے۔

لَيُدْخِلَنَّہُمْ مُّدْخَلًا يَّرْضَوْنَہٗ۝۰ۭ وَاِنَّ اللہَ لَعَلِيْمٌ حَلِيْمٌ۝۵۹

اللہ تعالیٰ انھیں ایسی جگہ داخل کریں گے جو ان کی پسندیدہ ہوگی۔ یقینا اللہ تعالیٰ جانتے ہیں (کہ کون کس طرح کے اجر کا مستحق ہے اور وہ بڑے ہی حلم والے ہیں۔
(اہل ایمان کی لغزشوں، بے اعتدالیوں اور سرکشیوں پرفوری گرفت نہیں فرماتے)

ذٰلِكَ۝۰ۚ

یہ تو سن چکے اور سنو کہ

وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِہٖ

جو شخص (دشمن سے) اسی قدر انتقام لے جس قدر تکلیف دشمن نے اس کوپہنچائی ہے تو یہ اس کے لئے جائز ہے۔

ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْہِ لَيَنْصُرَنَّہُ اللہُ۝۰ۭ

پھر اگر (دشمن) اس پرزیادتی کرے تواللہ تعالیٰ اس (مظلوم) کی مدد ضرور کریں گے۔

اِنَّ اللہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ۝۶۰

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی معاف کرنے والے بخشنے والے ہیں۔

توضیح : عموماً غصہ میں سخت انتقام لیا جاتا ہے اور انتقام میں زیادتی اس خیال سے بھی کی جاتی ہے کہ دشمن پھر شرارت کرنہ پائے۔ اس لیے ارشاد ہے کہ زیادتی نہ کی جائے، عفو ودرگزرسے کام لے، اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں گے جیسا تم اوروں کے ساتھ کروگے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ۔ (شوری ۴۰) جس نے معاف کیا اور صلح وصفائی کرلی تو اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (شوریٰ ۴۲) اور جوکوئی صبر کرے اور معاف کردے توبلاشبہ یہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ (النحل ۱۴۲) اور اگر تم صبرکرو تو صبر کرنے والوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ

اللہ تعالیٰ ہی ایسی قدرت والے ہیں کہ رات کودن میں اور دن کو رات میں داخل کرتے ہیں ( یعنی رات کا کچھ حصہ دن میں شامل فرما کر دن بڑھاتے ہیں اور دن کا کچھ حصہ رات میں شامل فرما کر رات بڑھاتے ہیں)

وَاَنَّ اللہَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۝۶۱

بے شک اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ سننے والے دیکھنے اور جاننے والے ہیں۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ وَاَنَّ مَا

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کا الہ واحد ہونا حق ہے اور جولوگ

يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَالْبَاطِلُ

اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کو(پیروں پیغمبروں کوبھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک، فرمانروا، والی سمجھ کر) مدد کیلئے پکارتے ہیں ان کا یہ عمل غلط اورباطل ہے۔

وَاَنَّ اللہَ ہُوَالْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ۝۶۲

اوریقیناً اللہ تعالیٰ ہی اپنی قدرت کے لحاظ سے بلند وبالاتر ہیں۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۡفَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّۃً۝۰ۭ

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے پانی برساتے ہیں۔ جس کی بدولت زمین سرسبز وشاداب ہوجاتی ہے۔

اِنَّ اللہَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ۝۶۳ۚ

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی باریک بین اور ہرچیز سے باخبر ہیں۔

لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ

جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جوکچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔

وَاِنَّ اللہَ لَہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۝۶۴ۧ

اور بیشک اللہ تعالیٰ ہی بے نیاز ہیں (سب اسی کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں) ساری تعریفیں اسی کیلئے ہیں۔( ہر طرح کی تعریف کا وہی مستحق ہے)

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ

کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے تابع کردی ہیں۔

وَالْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ

اور کشتیاں بھی اسی کے حکم سے سمندر میں چلتی ہیں۔

وَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۝۰ۭ

اور وہی آسمان کوزمین پرگرنے سے تھامے ہوئے ہے سوائے اس کے کہ اسی کے حکم سے گرجائے۔

اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۶۵

بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پرنہایت ہی شفقت کرنے والے بڑے ہی رحمدل ہیں۔

وَہُوَالَّذِيْٓ اَحْيَاكُمْ۝۰ۡثُمَّ يُمِيْتُكُمْ

اور وہی توہے جس نے تم کوحیات بخشی پھر وہ تم کو(وقت مقررہ پر) موت دیگا

ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ۝۰ۭ

پھر قیامت کے دن تم کوزندہ کرے گا۔

اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ۝۶۶

واقعی جاہل انسان بڑا ہی ناشکرا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت کی مذکورہ نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کے کامل القدرت ہونے کا منکر ہے۔ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کواپنا اختیار دے کر شریک کاربنائے بغیر تنہا حکمرانی پرقادرنہیں۔

لِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا ہُمْ نَاسِكُوْہُ

ہم نے ہر ایک امت کے لیے ذبح کرنے کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے جس کی وہ اتباع کرتے ہیں۔

فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ

لہٰذا مخالفین کوچاہئے کہ اس معاملہ میں اے نبیؐ آپ سے جھگڑا نہ کریں (جس طریقہ عبادت کی تعلیم ہمارے نبی دے رہے ہیں وہ ہمارا ہی مقرر کیا ہوا ہے)

وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ۝۰ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى ہُدًى مُّسْتَقِيْمٍ۝۶۷

اور ائے نبی (ﷺ) آپ لوگوں کواپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہیں گے، بے شک آپ سیدھے راستے پرہیں۔

وَاِنْ جٰدَلُوْكَ فَقُلِ اللہُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۶۸

اور اگر وہ آپ سے جھگڑا کریں توکہئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مخالفانہ اعمال سے پوری طرح باخبر ہیں۔

اَللہُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۶۹

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ فرمادیں گے جن میں تم اختلاف کرتے رہے تھے۔

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان وزمین کی ہرچیز کواللہ تعالیٰ جانتے ہیں (سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے)

اِنَّ ذٰلِكَ فِيْ كِتٰبٍ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ۝۷۰

یہ سب کچھ ان کا قول وفعل ایک کتاب (لوح محفوظ) میں لکھا ہوا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ کے لیے ہر ایک کا فیصلہ کرنا نہایت ہی آسان ہے۔

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّمَا لَيْسَ لَہُمْ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ

اوریہ (مشرک) اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں۔ جس کے جواز پر اللہ تعالیٰ نے کوئی سند نازل نہیں کی اورنہ یہ خود ان کے بارے میں کوئی علم رکھتے ہیں۔

وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ۝۷۱

اور ان ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ

اورجب ان کوہمارے صاف صاف احکام وآیتیں پڑھ کرسنائی جاتی ہیں تو

تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْہِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ۝۰ۭ يَكَادُوْنَ يَسْطُوْنَ

آپ ان کافروں کے چہروں پرناگواری کے آثار دیکھتے ہیں۔ ( ایسا محسوس ہوتا ہے کہ) وہ فوراً ان لوگوں پرحملہ کر ہی دیں گے

بِالَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ عَلَيْہِمْ اٰيٰتِنَا۝۰ۭ

جوانھیں ہمارے احکام سناتے ہیں۔

قُلْ اَفَاُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكُمْ۝۰ۭ اَلنَّارُ۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ آپ ان مشرکین سے) کہہ دیجئے کہ کیا میں تم کواس (کلام) سے بھی زیادہ ناگوار چیز بتلادوں وہ جہنم ہے۔

وَعَدَہَا اللہُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝۷۲ۧ

جس کا اللہ تعالیٰ نے کافروں سے وعدہ کررکھا ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ

کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے تابع کردی ہیں۔

وَالْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ

اور کشتیاں بھی اسی کے حکم سے سمندر میں چلتی ہیں۔

وَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۝۰ۭ

اور وہی آسمان کوزمین پرگرنے سے تھامے ہوئے ہے سوائے اس کے کہ اسی کے حکم سے گرجائے۔

اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۶۵

بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پرنہایت ہی شفقت کرنے والے بڑے ہی رحمدل ہیں۔

وَہُوَالَّذِيْٓ اَحْيَاكُمْ۝۰ۡثُمَّ يُمِيْتُكُمْ

اور وہی توہے جس نے تم کوحیات بخشی پھر وہ تم کو(وقت مقررہ پر) موت دیگا

ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ۝۰ۭ

پھر قیامت کے دن تم کوزندہ کرے گا۔

اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ۝۶۶

واقعی جاہل انسان بڑا ہی ناشکرا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت کی مذکورہ نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کے کامل القدرت ہونے کا منکر ہے۔ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کواپنا اختیار دے کر شریک کاربنائے بغیر تنہا حکمرانی پرقادرنہیں۔

لِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا ہُمْ نَاسِكُوْہُ

ہم نے ہر ایک امت کے لیے ذبح کرنے کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے جس کی وہ اتباع کرتے ہیں۔

فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ

لہٰذا مخالفین کوچاہئے کہ اس معاملہ میں اے نبیؐ آپ سے جھگڑا نہ کریں (جس طریقہ عبادت کی تعلیم ہمارے نبی دے رہے ہیں وہ ہمارا ہی مقرر کیا ہوا ہے)

وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ۝۰ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى ہُدًى مُّسْتَقِيْمٍ۝۶۷

اور ائے نبی (ﷺ) آپ لوگوں کواپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہیں گے، بے شک آپ سیدھے راستے پرہیں۔

وَاِنْ جٰدَلُوْكَ فَقُلِ اللہُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۶۸

اور اگر وہ آپ سے جھگڑا کریں توکہئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مخالفانہ اعمال سے پوری طرح باخبر ہیں۔

اَللہُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۶۹

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ فرمادیں گے جن میں تم اختلاف کرتے رہے تھے۔

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان وزمین کی ہرچیز کواللہ تعالیٰ جانتے ہیں (سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے)

اِنَّ ذٰلِكَ فِيْ كِتٰبٍ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ۝۷۰

یہ سب کچھ ان کا قول وفعل ایک کتاب (لوح محفوظ) میں لکھا ہوا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ کے لیے ہر ایک کا فیصلہ کرنا نہایت ہی آسان ہے۔

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّمَا لَيْسَ لَہُمْ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ

اوریہ (مشرک) اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں۔ جس کے جواز پر اللہ تعالیٰ نے کوئی سند نازل نہیں کی اورنہ یہ خود ان کے بارے میں کوئی علم رکھتے ہیں۔

وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ۝۷۱

اور ان ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ

اورجب ان کوہمارے صاف صاف احکام وآیتیں پڑھ کرسنائی جاتی ہیں تو

تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْہِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ۝۰ۭ يَكَادُوْنَ يَسْطُوْنَ

آپ ان کافروں کے چہروں پرناگواری کے آثار دیکھتے ہیں۔ ( ایسا محسوس ہوتا ہے کہ) وہ فوراً ان لوگوں پرحملہ کر ہی دیں گے

بِالَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ عَلَيْہِمْ اٰيٰتِنَا۝۰ۭ

جوانھیں ہمارے احکام سناتے ہیں۔

قُلْ اَفَاُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكُمْ۝۰ۭ اَلنَّارُ۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ آپ ان مشرکین سے) کہہ دیجئے کہ کیا میں تم کواس (کلام) سے بھی زیادہ ناگوار چیز بتلادوں وہ جہنم ہے۔

وَعَدَہَا اللہُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝۷۲ۧ

جس کا اللہ تعالیٰ نے کافروں سے وعدہ کررکھا ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ

ائے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے اس کوغور سے سنو،

فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ

اللہ تعالیٰ کوچھوڑ کرجن لوگوں کو تم (مدد کے لیے) پکارتے ہو

مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ۝۰ۭ

وہ ایک (ادنیٰ) مکھی کوبھی نہیں پیدا کرسکتے چاہے اس کے لیے سب کے سب جمع کیوں نہ ہوجائیں۔

وَاِنْ يَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۝۰ۭ

اور وہ ایسے بے اختیار ہیں کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے۔

ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۝۷۳

طالب ومطلوب کتنے گئے گزرے ہیں۔

مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۝۰ۭ

ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی جیسی قدر کرنی چاہئے تھی نہ کی۔
(قدر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرتے اور شرک کے مرتکب نہ ہوتے)

اِنَّ اللہَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ۝۷۴

بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی ہی زبردست طاقت رکھنے والے ہیں۔اور غالب ہیں۔
(عبادت ایسی ہی ناقابل تسخیر ہستی کی کی جانی چاہئے یا جس میں ایک رمق بھی حرکت نہ ہو)

اَللہُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ (اپنے احکام بندوں تک پہنچانے کیلئے) فرشتوں یا انسانوں میں سے کسی کوبھی رسول منتخب فرمالیتے ہیں( ان کا شمار افضل ترین مخلوقات میں ہوتا ہے لیکن یہ فضیلت انھیں اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی میں شریک نہیں بناتی)

اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۝۷۵ۚ

بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والے دیکھنے والے ہیں۔

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ۝۰ۭ

جو کچھ ان کے آگے ہے اور جوکچھ ان کے پیچھے ہے وہ اس کوجانتے ہیں۔

وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝۷۶

اور تمام امور فیصلہ کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کے آگے پیش ہوں گے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا

ائے ایمان والو تم اللہ ہی کے آگے سرنیاز جھکاتے رہو۔

وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَــيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۷۷ ۚ ۞

اوراسی کے درپر سربہ سجود رہو اورتمام امورلوازمات عبادت ازقسم نذر ومنت قربانی وغیرہ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے رکھو اوراعمال صالحہ کرتے رہو تا کہ آخرت میں با مراد ہو سکو۔

وَجَاہِدُوْا فِي اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ۝۰ۭ ہُوَاجْتَبٰىكُمْ

اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے (یعنی دین حق کی اشاعت میں جان ومال سے پوری طرح جدوجہد کرتے رہو) اسی نے (دین حق کی اشاعت کے لیے) تم کو منتخب فرمایا ہے۔

وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ

اور دین کے بارے میں تم پرکوئی تنگی نہیں رکھی۔

حَرَجٍ۝۰ۭ مِلَّـۃَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰہِيْمَ۝۰ۭ

تم اپنے باپ ابراہیمؑ کی اس ملت پر ہمیشہ ہمیشہ قائم رہو۔

ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۰ۥۙ

اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے(یعنی تابع فرمان)

مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا

اس سے پہلے (یعنی نزول قرآن سے قبل) اور اس کتاب میں بھی۔

لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ

تا کہ رسول تمہارے مسلمان ہونے کی شہادت دیں

وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ۝۰ۚۖ

اور تم (اپنے عمل سے) لوگوں سے ثابت کردو کہ مسلمان ایسے ہوتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہےوَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن (حم سجدہ ۳۳) اس سے بہتر بات کس کی ہوتی ہے جو لوگوں کواللہ تعالیٰ کی طرف بلائے اورنیک عمل کرے اوراپنے عمل سے ثابت کردے کہ وہ مسلمان ہے)

فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ۝۰ۭ

پس نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور اللہ تعالیٰ کی رسی (شریعت) کو مضبوطی سے پکڑے رہو (قرآن مجید سے وابستہ رہو)

ہُوَمَوْلٰىكُمْ۝۰ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ۝۷۸ۧ

وہی تمہارا کارساز ہے پھر وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔