☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

سَبَّحَ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۚ

ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، اللہ ہی کی تسبیح کرتی ہے

ان تمام مشرکانہ عقائد سے اللہ تعالیٰ کا پاک ومنزہ ہونا بیان کرتی ہی جن کو مشرکین نے اپنے طورپر گھڑ رکھا ہے

وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱

اور وہی زبر دست حکیم (دانائے کامل) ہے۔

توضیح : تمام افرادِ خلق جن کو جاہل لوگ شریک خدائی قرار دیتے ہیں وہ سب دانائی میں اسی کے محتاج ہیں خالق اور مخلوق میں رتی برابر بھی مساوات کا تصور نہیں کیا جاسکتا

ہُوَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِہِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ۝۰ۭؔ

وہ (اللہ) ہی تو ہے جس نے کافروں کو جو اہل کتاب میں سے تھے پہلے ہی حملہ میں ان کے گھروں سے نکال باہر کردیا

توضیح :وہ یہود بنی نضیر تھے۔ مدینہ کے قریب آٹھ دن میل کے فاصلے پر رہتے تھے۔ مسلمان ان سے لڑنے کے لئے جمع ہوئے تھے،اور ابھی کشت و خون کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ وہ جلاوطنی کئے لئے خودتیارہوگئے۔

مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ يَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ

(مسلمانو) تمہارے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ بھی سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے ان کو بچالیں گے

مَّانِعَتُہُمْ حُصُوْنُہُمْ مِّنَ اللہِ

پس ان پر اللہ (کاعتاب) اس جگہ سے آیا جہاں سے انھیں گمان بھی نہ

فَاَتٰىہُمُ اللہُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا

تھا(کہ کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں نکالے جائیں گے)

وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ
يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَہُمْ بِاَيْدِيْہِمْ وَاَيْدِي الْمُؤْمِنِيْنَ۝۰ۤ
فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ۝۲

(اللہ تعالیٰ نے) ان کے دلوں میں(اہل ایمان کی) دہشت ڈال دی
وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے
تو ائے آنکھ والو، عبرت حاصل کرو( کہ اللہ ورسول کی مخالفت کی سزا بعض دفعہ دنیا میں بھی مل جاتی ہے)

وَلَوْلَآ اَنْ كَتَبَ اللہُ عَلَيْہِمُ الْجَلَاۗءَ لَعَذَّبَہُمْ فِي الدُّنْيَا۝۰ۭ
وَلَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابُ النَّارِ۝۳
ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ شَاۗقُّوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۚ
وَمَنْ يُّشَاۗقِّ اللہَ فَاِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۴

اگر اللہ تعالیٰ نے ن کے حق میں جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی تو انھیں دنیاہی میں عذاب دیا جاتا(ان کانام ونشان بھی مٹ جاتا)
آخرت میں تو ان کے لئے آگ کا عذاب ہے ہی ۔
یہ اس پاداش میں ہے کہ انھوں نے اللہ اور اسکے رسول کی مخالفت کی تھی
جو شخص اللہ کی مخالفت کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ سخت ترین سزا دیتے ہیں۔

مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَۃٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْہَا قَاۗىِٕمَۃً عَلٰٓي اُصُوْلِہَا
فَبِـاِذْنِ اللہِ وَلِيُخْزِيَ
الْفٰسِقِيْنَ۝۵

(ائے مسلمانو) تم نے کھجور کےدرخت کاٹ ڈالے یاجن کو اپنی جڑوں پر قائم رکھا (یعنی قطع نہیں کیا)
تو دو نوں باتیں اللہ ہی کے حکم اور مرضی کے مطابق تھیں تاکہ فاسقوںکو ذلیل وخوار کیا جائے۔

توضیح :مسلمانوں نے جب محا صرہ شروع کیا تو بنی نضیر کی بستی کے اطراف جو نخلستان واقع تھے ان کے بہت سے درختوں کو کاٹ ڈالا، اور بعض کو جلا دیا تاکہ محا صرہ میں آسانی ہو اور جو درخت فوجی نقل وحرکت میں حائل نہ تھے انھیں اپنی حالت پر چھوڑ دیا گیا۔ مدینہ کے منافق اور بنی قریضہ اور خود بنی نضیر نے شور مچا یاکہ محمد ﷺ فَسَاد فِی الْارض سے منع فرماتے ہیں۔ مگر ےہ دیکھ لو ہرے بھرے پھل دار درخت کاٹے جارہے ہیں۔ یہ فَسَاد فِی الْاَرْض نہیں تو کیا ہے؟
اس پر یہ آیت نازل فرمائی گئی۔ یہاں یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جہاد کے دوران کی گئی انہدامی کارروائی فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔

وَمَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ

اور جو کچھ مال اللہ تعالیٰ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیا تو(اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے)

فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْہِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ
وَّلٰكِنَّ اللہَ يُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰي
مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ
وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۶

کیو نکہ اس کے لئے تم نے گھو ڑے دوڑائے اور نہ اونٹ

لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتے ہیں، تسلطّ بخشتے ہیں

اللہ تعالیٰ ہر چیز ہر قادر ہیں۔

مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰى
فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ
كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ
مِنْكُمْ۝۰ۭ

(اس طرح ) جو کچھ (مال) اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو دیہات والے (کافروں) سے دلوا یا ہے
وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامی اور مسا کین اور مسا فروں کے لئے ہے
تاکہ وہ تمہارے مال داروں ہی کے درمیان گردش کرتا نہ رہے

وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۷ۘ

اور رسول جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لیا کرو
اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہو
اور اللہ(کی نافرمانی)سے ڈرتے رہو
یقیناً اللہ تعالیٰ سخت ترین سزا دینے والے ہیں۔

توضیح :اس آیت کا تعلق صرف تقسیم فئے سے ہی نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے ہر اس اَمرونہی سے ہے جو رسول اللہؐ نے فرمایا، اگر چہ کہ وہ قرآن میں بہ صراحت مو جود نہ ہو، تمام صحابہ کرامؓ اس کا یہی مطلب سمجھتے تھے۔

لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ
اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْوَاَمْوَالِہِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا

(نیز مال فئے) ان غریب مہا جرین کے لئے ہے
جو اپنے گھروں اور جائیداد سے نکال دیئے گئے ہیں
یہ لوگ اللہ کا فضـل اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں

انھوں نے دنیا کے فائدے کے لئے ہجرت نہیں کی،بلکہ دین حق کی بقاو اشاعت انھیں مطلوب تھی۔

وَّيَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۝۸ۚ

اور وہ اللہ اور اس کے رسول(کے دین) کی مدد کرتے ہیں
یہی لوگ صادق فی الایمان(اپنے ایمان میں سچّے) ہیں

وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ

(اور مال فئے ان لو گوں کے لئے بھی ہے) جو مہا جرین کے آنے سے پہلے ایمان لاکر دار الہجرت(مدینہ) میں مقیم تھے

يُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَيْہِمْ
وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا
وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ
وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۝۰ۭۣ
وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ
فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۹ۚ

یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں
اور جب ان مہا جرین کو کچھ دیا جا تا ہے تو یہ (انصار) اپنےدلوں میںاس کی خواہش اور خلش نہیں پاتے
اور اپنی ذات پر ان مہا جرین کو مقدم رکھتے ہیں، اگر چہ کہ خود ہی فقر واحتیاج میں مبتلا کیو نہ ہوں
اور جو شخص اپنے نفس کے بخل سےبچا یا گیا(توفیق الٰہی شامل حل رہی) تو ایسے ہی لوگ(بلند حوصلگی کے نتیجہ میں ) فلاح پانے والے ہیں۔

توضیح : یہ تعریف مدینہ کے انصار کی ہے، مکّہ سے ہجرت کرکے مہا جرین جب مدینہ آئے تو مدینہ والوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیش کش کی کہ ہمارے باغ،نخلستان(کھجور کے باغ) حاضر ہیں آپ ہمارے ان مہاجر بھائیوں میں تقسیم فرمادیں۔ حضور ؐ نے فرمایا: یہ لوگ باغبانی سے واقف نہیں ہیں۔ یہ اس علاقے کے ہیں، جہاں باغات نہیں ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اپنے با غوں اورنخلستانوں میں کام تم کرو اور پیداوار میں انھیں کچھ حصّہ دو۔ انھوں نے کہا: سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۤۡ ہم نے سن لیا اور مان لیا۔(بخاری ابن جریر)
اس پرمہا جرین نے عرض کیا، ہم نے ایسے لوگ نہیں دیکھے جو اس درجہ ایثار کرنے والے ہوں کہ یہ کام خود کریں اور حصّہ ہم کو دیں۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ سارا اجر یہی لوگ لوٹ لیں گے، تو فر ما یا: نہیں، جب تک تم ان کی تعریف کر تے رہو گے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرتے رہو گے، تم کو بھی اجر ملتا رہے گا۔ (مسند احمد)

وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ
يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ

اور (وہ فئے) ان لو گوں کے لئے بھی ہے جو ان کے بعد آئے
جو کہتے ہیں، ائے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دیجئے، جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں

وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا
لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا

اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کی طرف سے کینہ پیدا ہونے نہ دیجئے

رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۰ۧ

ائے ہمارے پر ور دگار، بے شک آپ بڑے ہی شفقت کرنے والے اہل ایمان پر بڑاہی رحم فرمانے والے ہیں۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نَافَقُوْا

يَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِہِمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ
لَىِٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ

(ائے نبی ﷺ) کیا آپؐ نے ان منافقین کو نہیں دیکھا (عبد اللہ بن اُبی و غیرہ مراد ہیں)
یہ اپنے کافر ساتھیوں سے اور اہل کتاب سے کہتے ہیں

اگر تم جلا وطن کردیئے جاؤگے تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے(یہ بنی نضیر تھے)

وَلَا نُطِيْعُ فِيْكُمْ اَحَدًا اَبَدًا۝۰ۙ وَّاِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ يَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۱۱

اور تمہارے معاملہ میں کسی کا کہنا نہ مانیں گے
اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے
اللہ تعالیٰ گواہ ہیں کہ یہ قطعی جھوٹے ہیں۔

لَىِٕنْ اُخْرِجُوْا لَا يَخْرُجُوْنَ مَعَہُمْ۝۰ۚ

اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ ہر گز نہ نکلیں گے

وَلَىِٕنْ قُوْتِلُوْا لَا يَنْصُرُوْنَہُمْ۝۰ۚ
وَلَىِٕنْ نَّصَرُوْہُمْ لَيُوَلُّنَّ الْاَدْبَارِ۝۰ۣ ثُمَّ لَا يُنْصَرُوْنَ۝۱۲
لَاَانْتُمْ اَشَدُّ رَہْبَۃً فِيْ صُدُوْرِہِمْ مِّنَ اللہِ۝۰ۭ
ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۝۱۳

اور اگر ان سے جنگ ہوئی تو یہ ان کی مدد نہیںکریں گے
اور اگر وہ ان کی مدد کریں بھی تو پیٹھ پھیر کر جائیں گے اور پھر کہیں سے مدد نہ پائیں گے
(ائے مسلمانو) ان کے دلوں میں اللہ سے زیادہ تمہاری ہیبت بیٹھی ہوئی ہے
یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ ایک ایسی قوم ہے،جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتی

لَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ جَمِيْعًا
اِلَّا فِيْ قُرًى مُّحَصَّنَۃٍ
اَوْ مِنْ وَّرَاۗءِ جُدُرٍ۝۰ۭ
بَاْسُہُمْ بَيْنَہُمْ شَدِيْدٌ۝۰ۭ

یہ کبھی اکھٹے ہوکر(کھلے میدان میں) تمہارا مقابلہ نہیں کریں گے
مگر ایسی بستیوں میں جہاں قلعے بنے ہوئے ہوں
یا دیوار کے پیچھے چھپ کر
ان کی لڑائی آپس میں بڑی ہی سخت ہوتی ہے

تَحْسَبُہُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰى۝۰ۭ
ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ۝۱۴ۚ

تم انھیں (بظاہر) باہم متّفق متحّد سمجھتے ہو مگر ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں
ان کا یہ حال اس لئے ہے کہ یہ ایک بے سمجھ قوم ہے

كَمَثَلِ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَرِيْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ۝۰ۚ

ان کا حال ان لوگوں کے مماثل ہے جو ان سے کچھ ہی پہلے اپنے کئے کا مزہ چکھ چکے ہیں

توضیح : یہ کفّار قریش اور یہود بنی قینقاع ہیں جو اپنی کثرتِ تعداد اور سرو سامان کے با وجود مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت سے شکست کھا چکے تھے۔

وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۵ۚ
كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ۝۰ۚ
فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ
اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكَ
اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶

اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
ان منا فقین کی مثال شیطان کی سی ہے کہ وہ انسان سے کہتا رہتا ہے کہ کفر کر
پھر جب وہ کفر میں مبتلا ہو جاتا ہے تو کہتا ہے
مجھے تجھ سے کچھ سرو کار نہیں(میں تجھ سے بری الذمّہ ہوں)
میں تو ربُّ العالمین سے ڈرتا ہوں۔

توضیح :منا فقین بھی اپنے سا تھیوں سے کہتے، ہم تمہارے ساتھ ہیں اہل ایمان سے ضرور لڑیں گے مگر جب لڑنے کا وقت آتا تو سب سے پہلے منافق بھاگ جاتے ہیں۔

فَكَانَ عَاقِبَتَہُمَآ اَنَّہُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيْہَا۝۰ۭ
وَذٰلِكَ جَزٰۗؤُا الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۷ۧ

پھر(شیطان اور ان کا شا گرد انسان) دونوں کا انجام نار جہنّم، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے
اور ظالموںکی یہی جزاہے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ

ائے لوگو جو ایمان لائے ہواللہ سے ڈرو (احکام الٰہی کی خلاف ورزی نہ کرو، نفاق کاکوئی شائبہ اپنے اندر پیدا ہونے نہ دو)

وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۝۰ۚ

وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۱۸

تم میں سے ہر شخص کو دیکھنا چاہیئے کہ ان نے کل کے لئے (آخرت کے لئے) کیا سامان بھیجاہے
اور اللہ سے ڈرتے رہو
بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہیں۔

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ۝۰ۭ

اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۱۹
لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ۝۰ۭ
اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰

اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ، جنھوں نے اللہ کو بھلا دیا (یعنی اَوامر ونواہی کو پیش نظر نہیں رکھا ) تو اللہ تعالیٰ نے بھی انھیں ان کو انجام آخرت سے غافل کردیا
یہی لوگ بدکار و نا فرمان ہیں۔
اہل نار(دوزخ والے) اور اہل جنّت بہ لحاظ انجام برابر نہیں ہو سکتے

اہل جنّت ہی کامیاب ہیں(اور اہل نار ناکام)

لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ
لَّرَاَيْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْـيَۃِ اللہِ۝۰ۭ

اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو(ائے نبیﷺ)آپؐ دیکھتے، اللہ کے خوف سے وہ پہاڑ دبا جا رہاہے، پھٹا جا رہا ہے

توضیح :(مگر کا فروں کے دل بڑے ہی سخت ہیں کہ کلام الٰہی کو سن کر بھی ایمان نہیںلاتے )یہ بطور ایک محاورہ کے ہے جیسے کہتے ہیں، پگھل کر موم ہوجاتا اگر پتھر کو سمجھا تا۔

وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ

ہم ان مثالوں کو لوگوں کی نصیحت کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکرسے کام لیں(اور دین الٰہی کو قبول کریں)

لَعَلَّہُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ۝۲۱
ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ
عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ۝۰ۚ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ۝۲۲

وہ اللہ ہی ہے،جس کے سواکوئی اور معبود نہیں
پوشیدہ اور ظاہر کاجاننے والا
وہ رحمٰن ورحیم ہے(دنیا وآخرت کا پورا نظام ان ہی اسمائے حسن ’’رحمٰن ورحیم‘‘ کے تحت جاری ہے)

ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ۝۰ۭ
سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۲۳

اللہ وہی تو ہے جس کے سوا کوئی حاجت روا نہیں ہر شئے کا مالک، کائنات کا حکمراں، ہر طرح کے عجزو نقص وعیب سے پاک ، امن دینے والا، ہر شئے کا نگہبان بڑا ہی زبر دست،ارادہ میں اٹل، کبر یائی، بر تری اور عظمت اسی کے لئے ہے
پاک ومنزّہ ہے اس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں۔

ہُوَاللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ

لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ
يُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ
وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۲۴ۧ

اللہ وہی تو ہے جو تمام مخلوقات کا خالق، ایجاد واختراع کرنے والا، صورتیں بنا نے والا
اچھے سے اچھے نام اسی کیلئےہیں(کوئی فرد خلق ان اسماء سے متصف نہیں)
ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے

اور وہ بڑاہی زبر دست حکیم ہے(سارے تجاویز نہایت ہی حکیمانہ ہیں)