☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

الۗرٰ۝۰ۣ

الف۔ لام۔ را۔ یہ حروف مقطعات ہیں، جن کے معنی رسول اللہﷺ اورصحابہ کرام سے بہ سند صحیح منقول نہیں ہیں۔

تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ۝۱

یہ اس کتاب کے احکام ہیں جس کا نام قرآن مبین ہے (یعنی یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے مضامین نہایت ہی واضح اورفہم عامہ کے مطابق ہیں)

رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِـمِيْنَ۝۲ 

(ایک ایسا بھی وقت آسکتا ہے) کافر (یعنی انکار حق کرنے والے) تمنا کریں گے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ مسلمان ہوتے (یعنی الٰہی تعلیم قبول کرلیتے اوراس کے مطابق زندگی بسرکیے ہوتے)

ذَرْہُمْ يَاْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا وَيُلْہِہِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ۝۳

ائے نبیؐ انھیں ان کے حال پرچھوڑدیجئے کہ(کچھ دن) کھا پی لیں اورفائدہ اٹھائیں اوران کی (جھوٹی) امیدیں انھیں حقائق سے غافل رکھے ہوئے ہیں عنقریب انھیں (انکارحق کا انجام) معلوم ہو ہی جائے گا۔

وَمَآ اَہْلَكْنَا مِنْ قَرْيَۃٍ اِلَّا وَلَہَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ۝۴

ہم نے جس کی بستی کوہلاک کیا، اس کا ایک وقت بھی مقرر کیا (انکارِحق کے ساتھ ہی ان کی ہلاکت عمل میں نہیں لائی گئی، انھیں سوچنے سمجھنے، حق وباطل میں تمیز کرنے کیلئے موقع دیا گیا اورانھیں مہلت پرمہلت دی جاتی رہی)

مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّۃٍ اَجَلَہَا وَمَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ۝۵

کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہلاک نہیں کی جاتی اورنہ ان کی ہلاکت میں تاخیر کی جاتی ہے (یعنی وقت مقررہ میں کسی قسم کی تاخیر وتعجیل نہیں ہواکرتی)۔

یعنی 

وَقَالُوْا يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْہِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ۝۶ۭ

(اورطنزاً کہتے ہیں) ائے وہ شخص جس پرنصیحت کی کتاب نازل کی جارہی ہے، تم تودیوانے ہو۔

لَوْ مَا تَاْتِيْنَا بِالْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝۷

اگرتم سچے ہوتوہمارے پاس فرشتوں کولے کرکیوں نہیں آتے۔

مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَۃَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ۝۸

(انھیں جواب دیا جاتا ہے) ہم فرشتوں کویوں ہی (تفریح طبع کے طور پر) نازل نہیں کیا کرتے بلکہ قوموں کی ہلاکت کیلئے نازل کرتے ہیں( وہ تباہی کا فیصلہ لے کراترتے ہیں۔ اوراس وقت انھیں مہلت نہیں دی جاتی

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۝۹

بے شک یہ کتاب(القرآن) ہم ہی نے نازل کی ہے اوریقیناً ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۰

اور (ائے محمدﷺ) ہم آپ سے پہلے ہرقوم میں رسول بھیج چکے ہیں۔

وَمَا يَاْتِيْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہْزِءُوْنَ۝۱۱

پھرجب بھی ان کے پاس رسول آئے توانہوں نے ان کا مذاق ہی اڑایا۔

كَذٰلِكَ نَسْلُكُہٗ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ۝۱۲ۙ

اس طرح ہم (تکذیب وتضحیک کوانکارِ حق کے نتیجہ میں) انتقاماً مجرمین کے دلوں میں داخل کرتے ہیں۔

لَا يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَقَدْ خَلَتْ سُـنَّۃُ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۳

( اس لئے) وہ اس پر ایمان نہیں لاتے۔ زمانہ قدیم سے ان کی یہی روش چلی آتی ہے (یعنی کلام الٰہی کوشاعری یا گھڑے ہوئے قصے کہانیاں وغیرہ کہتے ہیں)

وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْہِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِيْہِ يَعْرُجُوْنَ۝۱۴ۙ

(یہ آپ سے معجزے کا مطالبہ کرتے ہیں) اگرہم ان کے مطالبہ پران کے لیے آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ (دن کی روشنی میں) اس پرچڑھنے بھی لگیں( ملائکہ اوروہاں کے عجائب بھی دیکھیں)

لَقَالُوْٓا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ۝۱۵ۧ

تب بھی وہ یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھوں کودھوکہ ہوگیا ہے بلکہ ہم پرجادوکردیا گیا ہے۔

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَيَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِيْنَ۝۱۶ۙ

اورہم نے آسمان میں بہت سے برج( محفوظ قلعے) بنارکھے ہیں۔
اوردیکھنے والوں کے لیے ان کوستاروں سے سجایا ہے۔

توضیح : کفارِ مکہ رسول اللہﷺ کو کاہن بھی کہتے تھے۔ کاہنوں کے متعلق یہ بات مشہورتھی کہ جنات آسمانوں پرجاتے ہیں اور ملاء اعلیٰ سے خبریں لا لا کر کاہنوں کوبتاتے ہیں۔ اسی طرح آپﷺ نے بھی جنات کوتابع کررکھا ہے اوروہاں کی کچھ باتیں ان سے معلوم کرکے ہم کوسناتے ہیں۔ انکے اس باطل خیال کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے آسمان کی حقیقت حال کوبیان فرمایا ہے۔

وَحَفِظْنٰہَا مِنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ۝۱۷ۙ

اورہم نے ہرشیطان مردود سے آسمان کومحفوظ کردیا ہے (کسی شیطان یا جن کی رسائی آسمانوں پرنہیں ہوسکتی)

اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِيْنٌ۝۱۸

الا یہ کہ ادھر ادھر سے چھپ چھپا کر جوکوئی سننے کی کوشش کرتا ہے توآگ کا ایک شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔ (یعنی آگ کے شعلوں سے انھیں ماربھگایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ خیال غلط ہے کہ جنات ملاء اعلیٰ کی خبریں لاکر انسانوں کوپہنچاتے ہیں)

وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰہَا وَاَلْقَيْنَا فِيْہَا رَوَاسِيَ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْہَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ۝۱۹

اورزمین کوہم ہی نے پھیلایا اوراس پرپہاڑ جمادیئے اورزمین سے ضروریات زندگی کی ہرموزوں ومناسب چیز اگائی۔

وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْہَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِيْنَ۝۲۰

اورتمہارے لیے تمام سامان معیشت زمین سے پیدا کیا (نہ صرف تمہارے لیے بلکہ تمہارے جانوروں کے لیے بھی) جن کے رزق کا تم انتظام کرسکتے تھے) ان کا چارہ بھی ہم ہی نے زمین سے اگایا)

وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُہٗ۝۰ۡ

(مخلوقات کی ضروریات زندگی میں سے) کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔

وَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ۝۲۱

اورہم ان کو ایک مناسب مقدار میں اتارتے رہتے ہیں یعنی پیدا کرتے رہتے ہیں۔

وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ

اورہم ہی ہواؤں کوچلاتے ہیں جوپانی سے بھرے بادلوں کواٹھا لاتی ہیں۔

فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْہُ۝۰ۚ

اورہم ہی آسمان سے مینہ برساتے ہیں جس سے ہم تم کوپلاتے (اور تمہاری کھیتیوں کوسیراب کرتے)کیا یہ بارش کا نظام ہی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے کافی نہیں ہے کہ صرف ہم تنہا تمہارے حاجت روا ہیں۔

وَمَآ اَنْتُمْ لَہٗ بِخٰزِنِيْنَ۝۲۲

اور تم توذخیرہ آب نہیں بناسکتے تھے (یعنی پانی کا خزانہ)

وَاِنَّا لَنَحْنُ نُـحْيٖ وَنُمِيْتُ وَنَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ۝۲۳

اورہم ہی حیات بخشتے اورہم ہی موت دیتے ہیں اورہم ہی ہرچیز کے اصل مالک ووارث ہیں۔

وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْـتَاْخِرِيْنَ۝۲۴

اورجولوگ تم سے پہلے گزرچکے ہیں ہم ان کوبھی جانتے ہیں اور جو تمہارے بعد آنے والے ہیں، ہم ان کوبھی جانتے ہیں۔

وَاِنَّ رَبَّكَ ہُوَيَحْشُرُہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ۝۲۵ۧ

اور( یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ قیامت کے دن) تمہارا پروردگار ان سب کو(محاسبہ اعمال کیلئے) جمع کرے گا بے شک وہ بڑا ہی جاننے والا حکمت والا ہے۔

توضیح :اللہ تعالیٰ علیم وحکیم ہیں توبندہ بندہ ہی ہے چاہے کتنا ہی مقربِ الٰہی ہو، غیرحکیم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں غیر حکیم کواللہ تعالیٰ کی فرمانروائی میں شریک ودخیل سمجھنا شرک وجہالت ہے۔ بھلا ایک عالم جاہل سے اورایک حکیم غیر حکیم سے کس طرح رائے ومشورہ لے سکتا ہے ؟ واقعہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی الٰہ واحد، معبود ومستعان ہیں۔ کائنات کا یہ سارا نظام جوآیات بالا میں مذکور ہے غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی کسی حیثیت سے بھی شریک ومددگار نہیں ہے جس کی گواہی کائنات کا ذرہ ذرہ اورخود انسان کا رواں رواں دے رہا ہے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۶ۚ

اورہم نے انسان کو ایک خمیر کی ہوئی مٹی کے نیم خشک گارے سے پیدا کیا۔

وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ۝۲۷

اوراس سے قبل جنات کوآگ (باد سموم یعنی جلانے والی تیزگرم ہوا) سے پیدا کیا۔

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۸

اوروہ واقعہ بھی سن لو جب کہ آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا میں سڑی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک انسان بنانے والا ہوں۔

توضیح :یہاں انسان سے پہلے جناب کا پیدا کیا جانا ثابت ہے۔ دوسرے یہ کہ انسان کی ابتداء ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے تحت جرثومہ یا بندر سے نہیں بلکہ انسان ہی سے ہوئی ہے۔
تیسرے یہ کہ اولین انسان آدمؑ ہی ہیں اوریہ خیال کہ آدمؑ سے پہلے انسان موجود تھے اوران میں سے آدمؑ کوخلیفہ بنایا گیا، درست نہیں۔ کیونکہ پہلے انسان کا صرف مٹی سے بنایا جانا اور اسی کا مسجود ملائکہ ہونا مسلمہ ہے۔ یہ بھی مسلمہ ہے کہ صرف آدم ہی مٹی سے بنائے گئے اورفرشتوں نے بہ حکم الٰہی ان ہی کوسجدہ کیا لہٰذا وہ پہلا انسان جومٹی سے بنایا گیا اور جومسجود ملائکہ ہوا، حضرت آدمؑ ہی تھے۔ کیونکہ دو انسانوں کا مٹی سے بنایا جانا اور ان دونوں کا مسجود ملائکہ ہونا ثابت نہیں۔ پہلی عورت جوپیدا کی گئی، وہ حوا ہیں۔ نیز یہ خیال کہ حضور اکرمﷺ نور ہی ہیں یا آپؐ کے نورہی سے کائنات پیدا کی گئی، بے دلیل بات ہے۔ کیونکہ ارشاد الٰہی ہے خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ طِیْن (انسان کومٹی سے پیدا کیا) سے آدم کا مٹی سے پیدا کیا جانا ثابت کرتا ہے کہ نوع انسانی کا وجود صرف آدم ہی سے ہوا۔ اورحضوراکرمﷺ حضرت آدم ہی کی اولاد ہیں۔ چنانچہ سب ایک فرد کے صلب اورایک عورت کے بطن سے ہی سے پیدا ہوئے۔
۲۔ یہ نظریہ کہ انسان کی حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار یہ تمام صفات دراصل صفات الٰہیہ کا عکس یا پرتوہیں درست نہیں۔ ۲۔ یہ نظریہ کہ انسان کی حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار یہ تمام صفات دراصل صفات الٰہیہ کا عکس یا پرتوہیں درست نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ علمنہ ہم نے اس کوعلم دیا۔ جَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَّصِیْرَا۔ ہم نے اس کوسننے والا دیکھنے والا بنایا۔
لہٰذا یہ انسانی صفات مخلوق ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے انسان میں پیدا کیے جواپنے ظہور کے لیے اعضاء کے محتاج ہیں۔ مزید یہ کہ خود انسان نے ایسے آلات ایجاد کرلیے ہیں جس سے ان صفات کا ظہور ہوتا ہے۔ اگرانسانی صفات کوالٰہی صفات کا پرتومان لیا جائے تواللہ تعالیٰ کے صفات کے لیے بھی اعضاء کا درکار ہونا لازم آتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی شان ’’لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ‘‘ ہے( کوئی چیز اس کے مانند نہیں) یہ نہیں فرمایا گیا کہ انسان کے صفات میری صفات کے پرتو ہیں۔ لہٰذا انسانی صفات اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہوئیں نہ کہ پر تو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق وخلاق ہیں۔
انسان سے غلطی کا صدور اس بات کوثابت کرتا ہے کہ صفات انسانی، الٰہی صفات کے پرتو نہیں بلکہ یہ مخلوق محض ہیں ورنہ صفات الٰہیہ سے بھی ان کے صدور کے امکان کوماننا پڑے گا۔’’من روحی‘‘ سے صفات انسانی صفت الٰہیہ کا پرتو ہونے کا استدلال اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ روح کے تعلق سے فرماچکے ہیں ’’قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّی‘‘ کہہ دیجئے کہ روح (جان) تیرے پروردگار کے حکم سے ہے۔ انسان چونکہ مخلوق ہے لہٰذا اس کی ہر شے بشمول صفات مخلوق ہی میں ’’مِن رُّوْحِی‘‘ کا مطلب ’’مِنْ اَمْرِ رَبِّی‘‘ کے سوا اورکچھ نہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ انسانی صفات الٰہی صفات کا پرتوبالکل نہیں ہیں۔

فَاِذَا سَوَّيْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِيْنَ۝۲۹

پھر جب میں اس کودرست کروں اوراس میں اپنی روح پھونک دوں یعنی اس میں جان ڈال دوں تواس کے آگے سجدہ ریز ہوجاؤ۔

فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ كُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ۝۳۰ۙ اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ

پھر ابلیس کے سوا سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔

اَبٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ۝۳۱

سب کے ساتھ سجدہ کرنے سے انکار کیا (اوراپنے کوبڑا جانا)

قَالَ يٰٓـاِبْلِيْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ۝۳۲

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ ائے ابلیس تجھے کیا ہوگیا کہ تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ شامل نہ ہوا؟

قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۳۳

شیطان نے کہا میرے لیے زیبا نہ تھا کہ میں انسان کوسجدہ کروں جس کوآپ نے ایک خمیر کی ہوئی کھنکھناتی مٹی کے خشک گارے سے پیدا کیا۔

قَالَ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌ۝۳۴ۙ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا نکل جا یہاں سے تومردود ہے۔

وَاِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَۃَ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِ۝۳۵

اورتجھ پرقیامت تک لعنت برستی رہے گی(یعنی رحمت الٰہی سے محروم کردیا گیا)

قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِيْٓ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۝۳۶

ابلیس نے کہا ائے میرے پروردگار مجھے قیامت تک مہلت دیجئے ( کہ میں جوچاہے کروں اورمجھ پر کوئی گرفت نہ ہو)

قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ۝۳۷ۙ
اِلٰى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ۝۳۸

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھے قیامت تک کے لیے مہلت ہے
جس کا وقت مقرر ہے۔

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاُزَيِّنَنَّ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ وَلَاُغْوِيَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۳۹ۙ

شیطان نے کہا ائے میرے پروردگار جیسا کہ آپ نے مجھے راستہ سے بہکایا میں بھی دنیا کوان کی نظروں میں مزین بناؤں گا اورسب کوبہکاؤں گا (یہ شیطانی قول ہے جویہ کہتا ہے کہ ائے میرے رب تونے ہی مجھے گمراہ کیا)

اِلَّا عِبَادَكَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِيْنَ۝۴۰

ہاں ان میں سے جوآپ کے مخلص بندے ہیں، وہ میرے دام فریب میں نہیں آسکتے۔

قَالَ ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَــقِيْمٌ۝۴۱

اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہی( اخلاص کا) راستہ سیدھے مجھ تک پہنچتا ہے (اخلاص سے مراد شرک سے پاک ہونا ہے)

اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْہِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ۝۴۲ وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوْعِدُہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۴۳ۣۙ

(ائے ابلیس سن لے) بے شک میرے مخلص بندوں پرتیرا بس نہیں چل سکتا ہاں گمراہوں میں سے جوتیری اتباع کرے، (تیرے پیچھے چل پڑے) ان سب کے لیے جہنم کا وعدہ ہے۔

لَہَا سَبْعَۃُ اَبْوَابٍ۝۰ۭ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْہُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ۝۴۴ۧ

اس (جہنم) کے سات دوازے ہیں۔ ان میں سے ہر دروازے کیلئے ایک منقسمہ حصہ ہے ( ہردروازے سے گزرنے کیلئے علیحدہ علیحدہ راستے ہیں)

توضیح : حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ دروازوں سے مراد طبقے ہیں۔ یعنی دوزخ کے نیچے سات طبقے اورمنزلیں ہیں۔ پہلا طبقہ جہنم ہے۔ دوسرا لظی، تیسرا حطمہ، چوتھا سعیر، پانچواں سقر، چھٹا جہیم، ساتواں ہاویہ۔ یہ سب جہنم کے نام اوردرجے ہیں۔

اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ۝۴۵ۭ

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم(برخلاف اس کے) متقین جنت کے خوش منظر باغوں میں رہیں گے۔ جن میں خوب صورت چشمے ہوں گے(متقی وہ لوگ ہیں، جواللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام بد سے ڈرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں لگے رہتے ہیں) ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

اُدْخُلُوْہَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِيْنَ۝۴۶

انھیں کہا جائے گا کہ امن وسلامتی کے ساتھ اس جنت میں داخل ہوجاؤ۔

وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰي سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ۝۴۷

اوران کے دلوں میں ایک دوسرے سے جوکچھ رنجشیں باقی رہ گئی تھیں، ہم وہ سب دور کریں گے۔ سب بھائی بھائی کی طرح الفت ومحبت سے رہیں گے۔ ایک دوسرے کے سامنے عالی شان تختوں پربیٹھے ہوئے جنت کا لطف اٹھائیں گے۔

لَا يَمَسُّہُمْ فِيْہَا نَصَبٌ وَّمَا ہُمْ مِّنْہَا بِمُخْرَجِيْنَ۝۴۸

وہاں انھیں ذرا بھی تکلیف نہ پہنچے گی اورنہ وہ جنت سے نکالے جائیں گے۔

نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝۴۹ۙ

ائے نبیؐ میرے بندوں کویہ خوشخبری سنادیجئے کہ (توبہ کرلوتو) میں بڑا ہی بخشنے والا رحم کرنے والا ہوں ۔

وَاَنَّ عَذَابِيْ ہُوَالْعَذَابُ الْاَلِيْمُ۝۵۰

اوریہ کہ میرا عذاب بھی بڑا ہی دردناک ہے۔( اگر تم اسی حالت کفر میں مرجاؤگے)

وَنَبِّئْہُمْ عَنْ ضَيْفِ اِبْرٰہِيْمَ۝۵۱ۘ

ائے نبیؐ انھیں ابراہیمؑ کے مہمانوں کا واقعہ بھی سنادیجئے۔

توضیح : تا کہ آپ کے مخالفین کومعلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کی کس طرح مدد کرتے ہیں۔ خواہ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں اوراہل باطل کتنے ہی دولت مند اوراقتدار کے مالک کیوں نہ ہوں۔ انھیں تباہ وبرباد کردیا جاتا ہے۔ اس میں قوم کے مطالبہ کا بھی جواب ہے۔ مطالبہ یہ تھا کہ فرشتے ہمارے سامنے لائے جائیں۔ جواب دیا گیا کہ فرشتے تونافرمان قوموں کی ہلاکت کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔

اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًا۝۰ۭ قَالَ اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ۝۵۲

جب وہ ابراہیمؑ کے پاس آئے توانہوں نے سلام کیا (آپ ان اجنبیوں کودیکھ کرگھبراگئے) کہا ہم تم سے خائف ہیں۔

قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ۝۵۳

فرشتوں نے کہا گھبراؤ نہیں (ہم فرشتے ہیں) ہم تم کوایک ایسے لڑکے کی بشارت دینے کے لیے آئے ہیں جوبڑا عالم دین ہوگا۔

قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِيْ عَلٰٓي اَنْ مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ۝۵۴

ابراہیمؑ نے کہا کیا تم مجھے ایسی حالت میں فرزند کی بشارت دیتے ہو کہ مجھ پر بڑھاپا آگیا ہے۔ (بالکل بوڑھا ہوچکا ہوں سوچو توسہی) کس چیز کی بشارت دیتے ہو۔

قَالُوْا بَشَّرْنٰكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِيْنَ۝۵۵

فرشتوں نے کہا یہ بالکل صحیح خوشخبری ہے۔ لہٰذا آپ (اللہ کی رحمت سے) نا امید نہ ہوں۔

قَالَ وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ۝۵۶

ابراہیمؑ نے کہا گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون نا امید ہوتا ہے؟

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّہَا الْمُرْسَلُوْنَ۝۵۷

(پھر ) ابراہیمؑ نے پوچھا ائے فرشتو ! تمہارے آنے کا کچھ اوربھی مقصد ہے ؟

قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِيْنَ۝۵۸ۙ

فرشتوں نے کہا ہم ایک مجرم قوم کی طرف (ان کی تباہی کے لیے بھیجے گئے ہیں)

اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ۝۰ۭ اِنَّا لَمُنَجُّوْہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۵۹ۙ

مگرلوط خاندان ( اس سے مستثنیٰ رہے گا) ہم ان سب کوبچالیں گے۔

اِلَّا امْرَاَتَہٗ قَدَّرْنَآ۝۰ۙ اِنَّہَا لَمِنَ الْغٰبِرِيْنَ۝۶۰ۧ

سوائے ان کی عورت کے کہ ہم نے اس کا ہلاک ہونا طے کر رکھا ہے کہ وہ پیچھے رہ کر عذاب پانے والوں میں شامل رہے گی۔

فَلَمَّا جَاۗءَ اٰلَ لُوْطِۨ الْمُرْسَلُوْنَ۝۶۱ۙ

پھر جب یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے (فرشتے) لوطؑ کے پاس آئے۔

قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ۝۶۲

تولوطؑ نے کہا تم جانے پہچانے لوگوں میں سے نہیں ہو؟

قَالُوْا بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِيْہِ يَمْتَرُوْنَ۝۶۳

فرشتوں نے کہا ہم تمہارے پاس وہ چیز لے کرآئے ہیں جس کے واقع ہونے میں تمہاری قوم شک میں پڑی ہوئی ہے۔(یعنی عذاب)

وَاَتَيْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۝۶۴

اورواقعی ہم اسی لیے تمہارے پاس آئے ہیں اورہم سچ کہتے ہیں۔

فَاَسْرِ بِاَہْلِكَ بِقِطْـعٍ مِّنَ الَّيْلِ

توآپ رات کے کسی حصہ میں اپنے گھروالوں کولے کرچلے جائیے۔

وَاتَّبِـــعْ اَدْبَارَہُمْ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّامْضُوْا حَيْثُ تُؤْمَرُوْنَ۝۶۵

اورآپ ان کے پیچھے چلیں (تا کہ ان پرمطلع رہیں) اورتم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اورجہاں تمہیں حکم ہوا ہے وہاں چلے جائیں۔

وَقَضَيْنَآ اِلَيْہِ ذٰلِكَ الْاَمْرَ اَنَّ دَابِرَ ہٰٓؤُلَاۗءِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِيْنَ۝۶۶

اورہم نے اپنا یہ حکم لوطؑ کے پاس بھیجا کہ صبح ہوتے ہوتے ان سب (مجرموں) کی جڑ ہی کاٹ دی جائے گی۔

وَجَاۗءَ اَہْلُ الْمَدِيْنَۃِ يَسْـتَبْشِرُوْنَ۝۶۷

(اس واقعہ کی ابتداء یہ ہے کہ جب فرشتے لوطؑ کے پاس آئے تو) شہر کے مجرم لوگ خوشی خوشی (لوطؑ کے پاس بری نیت سے دوڑے دوڑے) آئے۔

قَالَ اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ ضَيْفِيْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ۝۶۸ۙ

لوطؑ نے کہا یہ میرے مہمان ہیں (کہیں ان کے بارے میں) مجھے شرمندگی میں نہ ڈالنا۔

وَاتَّقُوا اللہَ وَلَا تُخْــزُوْنِ۝۶۹

اللہ تعالیٰ سے ڈرو اورمیری رسوائی نہ کرو۔

قَالُوْٓا اَوَلَمْ نَــنْہَكَ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۝۷۰

انہوں نے کہا۔ کیا ہم نے تمہیں سارے جہاں(کی حمایت و طرف داری) سے منع نہ کیا تھا۔

قَالَ ہٰٓؤُلَاۗءِ بَنٰتِيْٓ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ۝۷۱ۭ

لوطؑ نے کہا اگرتم کو(اپنی خواہشات کی تکمیل) کرنی ہی ہے تویہ میری بیٹیاں (حاضر )ہیں (ان سے شادی کرلو)

لَعَمْرُكَ اِنَّہُمْ لَفِيْ سَكْرَتِہِمْ يَعْمَہُوْنَ۝۷۲

( ائے محمدؐ !) آپ کی جان کی قسم وہ اس وقت نشہ شہوت میں (ان حقائق سے اندھے بنے جارہے ہیں)مدہوش تھے۔

فَاَخَذَتْہُمُ الصَّيْحَۃُ مُشْرِقِيْنَ۝۷۳ۙ

بالآخر سورج نکلتے نکلتے ایک آسمانی آواز نے انھیں اپنی گرفت میں لیا (یعنی ہلاک کردیئے گئے)

فَجَعَلْنَا عَالِيَہَا سَافِلَہَا

اورہم نے اس بستی کوتہ وبالا کردیا (یعنی الٹ کرنیچے اوپرکردیا)

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہِمْ حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّيْلٍ۝۷۴ۭ

اورہم نے ان پر(آگ میں پکی ہوئی) مٹی وکنکر کی بارش برسائی۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ۝۷۵

بے شک اس واقعہ میں اہل بصیرت کے لیے کتنی ہی سبق آموز عبرتیں ہیں۔

وَاِنَّہَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ۝۷۶

اور وہ اجڑا ہوا شہر ایک آباد گزرگاہ پر ہے (مکہ سے شام کوجاتے ہوئے وہ بستی راہ پر نظرآتی ہے)

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۝۷۷ۭ

اس میں اہل ایمان کے لیے بڑی عبرتیں ہیں۔

وَاِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَيْكَۃِ لَظٰلِمِيْنَ۝۷۸ۙ

اورایکہ کے رہنے والے(یعنی قوم شعیب کے لوگ) ظالموں میں سے تھے

فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۝۰ۘ

پس ہم نے ان سے انتقام لیا۔

وَاِنَّہُمَا لَبِـاِمَامٍ مُّبِيْنٍ۝۷۹ۭۧ

اوروہ دونوں اجڑی ہوئی بستیاں شارع عام پرواقع ہیں۔

وَلَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ الْمُرْسَلِيْنَ۝۸۰ۙ

اورحجر کے رہنے والے (قوم ثمود) نے بھی رسولوں کوجھٹلایا (مدینہ اورشام کے درمیان یہ بستی واقع تھی)

وَاٰتَيْنٰہُمْ اٰيٰتِنَا فَكَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِيْنَ۝۸۱ۙ

اورہم نے ان کواپنی نشانیاں دیں (یعنی معجزات دکھائے) پس وہ ان سے روگردانی ہی کرتے رہے۔

وَكَانُوْا يَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا اٰمِنِيْنَ۝۸۲

اوروہ پہاڑوں کوتراش تراش کرگھربناتے تھے کہ چین وسکون کے ساتھ رہیں۔

فَاَخَذَتْہُمُ الصَّيْحَۃُ مُصْبِحِيْنَ۝۸۳ۙ

پس صبح ہوتے ہوتے ایک آسمانی ہولناک آواز نے انھیں اپنی گرفت میں لیا (اوروہ ہلاک ہوکر رہے)

فَمَآ اَغْنٰى عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۸۴ۭ

ان کی احتیاطی تدابیران کے کچھ کام نہ آئیں۔ (یعنی مکانوں کا استحکام ان کوبچانہ سکا)

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ

اورہم نے آسمانوں اورزمین اوران کے درمیان جومخلوق ہے، بے مقصد نہیں بنایا ان سب کا ایک مقصد ہے

وَاِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِيَۃٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ۝۸۵

اورانجام کی یہ ساعت (یعنی قیامت) یقیناً آکر رہے گی لہٰذا ائے نبیؐ (مخالفین کی اذیت رسانیوں پر) خوش خلقی ودرگزرسے کام لیجئے۔

اِنَّ رَبَّكَ ہُوَالْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ۝۸۶

بے شک آپ کا پروردگار بڑا ہی خلاق (قیامت جیسے حادثہ عظیم کا برپا کرنے والا اوراس کے وقت کا) جاننے والا ہے۔

وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ۝۸۷

اورائے نبیؐ! ہم نے آپ کوسات آیتیں دی ہیں جو(ہر نماز میں) باربار پڑھی جاتی ہیں (جس کا نام سورۃ الفاتحہ ہے) اورقرآن عظیم عطا کیا یعنی قرآن جیسی بے بہا دولت سے سرفراز کیا۔

لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ

(ایسی بے مثل بیش بہا نعمتوں کودیکھتے ہوئے بھی) آپؐ (رغبت دلی کے ساتھ) ان چیزوں پرنظرڈالیے جن سے (ہم نے چند روزہ زندگانی میں کفار کے مختلف گروہ میں) استفادہ کا موقع دیا ہے۔

وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْہِمْ

اورنہ ان کے حال زار (انجام آخرت کی بے خبری) پرافسوس کیجئے۔

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۝۸۸

اوراپنی (تمام تر) توجہ اہل ایمان کی طرف مرکوز کیجئے۔
(یعنی اہل ایمان کی تعلیم وتربیت اوران کی اخروی زندگی کے سنوارنے ہی کی طرف آپ کوہمہ تن مصروف رہنا چاہئے۔ اسی بنا پرآپ کے جانشین کے بھی یہی فرائض ہوں گے)

وَقُلْ اِنِّىْٓ اَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ۝۸۹ۚ

کہئے میں علی الاعلان (ایمان نہ لانے نا فرمانی کرنے والوں کوعذاب الٰہی سے) ڈرانے والا ہوں۔

كَـمَآ اَنْزَلْنَا عَلَي الْمُقْتَسِمِيْنَ۝۹۰ۙ
الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِيْنَ۝۹۱

(ہم ان کفار پر اسی طرح عذاب نازل کریں گے) جس طرح کتاب اللہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے (اہل کتاب) پرنازل کیا تھا (جنہوں نے کتاب کے بعض احکام کومانا اوربعض کا انکار کردیا) اللہ تعالیٰ کی کتاب کوتفرقہ پردازی کا ذریعہ بنایا۔

فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۹۲ۙ
عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۹۳

لہٰذا پیغمبر آپ کے پروردگار کی قسم ہم ان سب سے ( ان کے اعمال کی) باز پرس کریں گے جنہیں وہ کرتے رہے تھے۔

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ

لہٰذا (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) جوحکم تمہیں دیا گیا ہے وہ لوگوں کوصاف صاف سنادیجئے۔ (کامیابی یا ناکامی کا کوئی خیال نہ کیجئے)

وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ۝۹۴

شرک کرنے والوں کی مخالفت کوخاطر میں نہ لائیے ( اورنہ ان کا پاس ولحاظ کیجئے)

اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَہْزِءِيْنَ۝۹۵ۙ

جولوگ آپ کا مذاق اڑاتے ہیں، ہم آپ کی طرف سے انتقام لینے کے لیے کافی ہیں۔

الَّذِيْنَ يَجْعَلُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ۝۰ۚ

یہ وہ لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ کے ساتھ اوروں کوبھی معبود ومستعان قرار دیتے ہیں (جن کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے یعنی انبیاء علیہم السلام،بزرگان دین، اولیائے کرام وغیرہ بھی نظام ربوبیت میں شریک ودخیل ہیں)

فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ۝۹۶

عنقریب ان کو( ان باطل عقیدوں کا انجام) معلوم ہوجائے گا۔

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ۝۹۷ۙ

اوریقیناً ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ (کفارو مشرک) جو کچھ کہتے ہیں اس سے آپ کے دل کوبڑی تکلیف پہنچتی ہے ۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ۝۹۸ۙ

لہٰذا (اس کا علاج یہ ہے کہ) آپ اپنے پروردگار کی حمد وتسبیح میںلگے رہئے اورنماز پڑھنے والوں میں شامل ہوجائے۔

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ۝۹۹ۧ

اوراپنے پروردگار کی عبادت کیے جائیے یہاں تک کہ آپ کی موت کا وقت آجائے جس کا آنا یقینی ہے۔