☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

الۗمَّۗ۝۱ۙ

اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۙ

ا۔ ل۔ م یہ حروفِ مقطعات ہیں ان کا کوئی مفہوم رسول اللہﷺ سے بہ اسناد صحیح منقول نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود (مستعان) نہیں ہے ۔(اللہ تعالیٰ ہی الٰہ واحد کارساز وحاجت روا ہیں۔)

توضیح : اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں ملائکہ انبیاء علیہم السلام اور کوئی مقرب بندہ کسی حیثیت میں بھی شریک ودخیل نہیں ہے۔ اورنہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ادنیٰ سا اختیار کسی بندہ کودیا۔ اللہ تعالیٰ ہی تنہا بہ نفیس نفیس آسمانوں اور زمین کی مخلوقات کے حاجت روا کارساز ہیں۔ انسانوں کی حاجت روائی کے لیے پیغمبر اپنی وفات کے بعد ذی حیات نہیں ہیں۔

الْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ۝۲ۭ

ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہمیشہ سے قائم ہے۔

توضیح : دائم الحیات ایسی حیات کوفنا ہے نہ زوال۔ ایسی حیات رکھنے والے اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔ باقی سب أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ کے مطابق مردہ ہیں۔ ان میں حیات نہیں ہے اور انھیں شعور بھی نہیں ہے( کہ وہ اپنی قبروں سے) کب اٹھائے جائیں گے۔

نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ
مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ

(ائے محمدﷺ) اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر یہ سچی کتاب جونازل کی ہے یہ سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتی ہے (یعنی اس کتاب میں وہی تعلیم ہے جو اس سے پہلے کی کتابوں میں نازل کی گئی تھی۔

وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۝۳ۙ
مِنْ قَبْلُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ۝۰ۥۭ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ۝۰ۭ

اورلوگوں کی ہدایت کے لیے اس سے قبل توریت انجیل نازل کی گئی تھی۔
اور اس نے (حق وباطل کوالگ کردینے والی کتاب) الفرقان (قرآن) نازل کی۔
جو لوگ قرآنی تعلیم کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔

وَاللہُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ۝۴

اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست انتقام لینے والے ہیں۔

توضیح : دنیا میں مکافات عمل یا رد عمل کا جو قانون الٰہی نافذ ہے وہ حق تعالیٰ کے اسم حسن اَلْمُنْتَقِمُ کے تحت ہے۔

اِنَّ اللہَ لَا يَخْفٰى عَلَيْہِ شَيْءٌ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ۝۵ۭ

بے شک اللہ تعالیٰ سے زمین وآسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد ہونے کے لیے جس وسعت علمی کی ضرورت ہے اس کا تقاضہ یہی ہے کہ زمین وآسمان کی کوئی شئے اس سے مخفی نہ رہے۔

ھُوَالَّذِيْ يُصَوِّرُكُمْ فِي الْاَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاۗءُ۝۰ۭ
لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۶

اللہ تعالیٰ وہی توہے جس نے رحم مادر میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہیں بنائیں۔

اللہ تعالیٰ کے سوا (اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ) کوئی معبود (مستعان) نہیں وہی( سب کا حاجت روا مشکل کشا اور) زبردست حکیم ہے۔

توضیح : اپنی ساری مخلوقات کوحکیمانہ انداز سے پیدا فرمایا ایک کی صورت دوسرے نہیں ملتی۔ صورت جدا، سیرت جدا، اندازجداورنہ پہچان مشکل ہوتی اورنظام کائنات درہم برہم ہوجاتا۔

ھُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ

مِنْہُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ۝۰

(اللہ) وہی تو ہے جس نے آپ پر (القرآن)کتاب نازل کیا( جو حکمت علم وہدایت کا سرچشمہ ہے)
اس میں آیات محکمات ہیں۔ یہی کتاب کی اصل ہیں۔
اوردوسری متشابہات ہیں۔

توضیح : محکمات وہ ہیں۔ جن کا مفہوم واضح اورمتعین ہو۔ یہی علم وحکمت کا سرچشمہ ہیں۔ متشابہات وہ آیتیں ہیں جن میں کئی معنوں کا احتمال ہو مراد تو ایک ہی معنی ہوتے ہیں لیکن الفاظ اوران کی ترکیب کچھ اس انداز کی ہوتی ہے کہ کئی معنوں کا احتمال ہوتا ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ شبہ ہو کہ وہ انسان کی طرح ہوں گے۔

فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ زَيْـغٌ
فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَۃِ

لہٰذا جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہوتا ہے۔
وہ توآیات متشابہات کا اتباع کرتے ہیں (یعنی ان کے معنی ومطلب کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں) تا کہ اس کے ذریعہ فتنہ پیدا کریں۔

وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِہٖ۝۰ۚ۬ وَمَا يَعْلَمُ

تَاْوِيْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ۝۰ۘؔ
وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ۝۰ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا۝۰ۚ
وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۷

اورغلط مفہوم نکالے اور اس کی تاویلات (یعنی آیات متشابہات کا ٹھیک

ٹھیک مفہوم ومطلب )اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
اور جو لوگ علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم ان پر ایمان لائے یہ سب (متشابہات) ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں۔

صاحبِ سمجھ ہی (جو سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں) نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔ (یعنی مطلب یہ ہے کہ وہ متشابہات کے پیچھے نہیں پڑتے اورمحکمات جیسے سرچشمہ علم وہدایت سے سیراب ہوتے رہتے ہیں۔)

توضیح : الا اللہ پروقف لازم ہے۔ یہاں وقف کرنے کے بجائے بعض حضرات نے وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ پر وقف کیا ہے حالانکہ یہاں وقف نہیں ہے۔ اس طرح انہوں نے یہ مطلب نکالا ہے کہ آیاتِ متشابہات کے معنی ومطلب یا تواللہ تعالیٰ جانتے ہیں یا رٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِیعنی جو علم میں پختہ ہیں۔ چنانچہ یہ تفسیر بعض حضرات مجددین تک سے منسوب ہے کہ ’’رَاسِخُ الْعِلْمِ‘‘وہی شخص ہوسکتا ہے جو آیاتِ متشابہات کے معنی ومطالب جانتا ہو۔ قرآن مجید کے تقریبا تمام نسخوں میں الا اللہ کے بعد ہی وقف لازم ہے۔ اس کے بعد یہ کہنا کہ اگر ’’وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ‘‘ کے بعد وقف رکھا جائے توفلاں معنی ہوں گے ذہنی تراش خراش ہے۔

رٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ یعنی جو علم میں پختہ ہیں آیات متشابہات پرجیسی کہ وہ بظاہر ہیں ویسے ہی ایمان رکھتے ہیں۔ ایک آیت متشابہ یہ ہے۔
’’فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللّهِ ‘‘ تم جدھر بھی رخ کرو اللہ تعالیٰ کواپنی طرف متوجہ پاؤگے۔ اس میں وجہہ اللہ آیت متشابہ ہے جس کی تاویل لوگوں نے یوں کردی کہ ہرشے میں اللہ تعالیٰ ہی جلوہ گر ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں وجہہ کے معنی توجہ کے بھی آئے ہیں۔ يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ (یوسفؑ کے بھائیوں نے کہا تھا) پھر ابا کی توجہ تمہاری طرف ہوجائے گی (سورہ یوسف) اس طرح وجہ اللہ کی آیت کا مطلب یہ ہوا کہ تم جس طرف بھی رخ کرکے نماز پڑھوگے اللہ تعالیٰ کو اپنی طرف متوجہ پاؤگے۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا

ائے ہمارے پروردگار آیات محکمات سے ہم کوہدایت فرمانے کے بعد ہمارے قلوب میں ایسی کجی پیدا نہ ہونے دیجئے( کہ ہم آیات متشابہات کی ٹوہ میں لگ جائیں۔)

وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۝۰ۚ

(آیاتِ محکمات ہی کے افہام وتفہیم کے سلسلہ میں اگر آیات متشابہات کے معنی ومطلب جاننا ضروری ہوتو) حق تعالیٰ اپنے پاس سے رحمت کی یہ دولت بھی عطا فرمائیے۔

اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۝۸
رَبَّنَآ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِـيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْہِ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۝۹ۧ

بے شک آپ بڑے ہی عطا فرمانے والے ہیں۔
ائے ہمارے پروردگار یقیناً آپ ہی (محاسبۂ اعمال کے لیے) لوگوں کواس دن جمع کریں گے جس کے واقع ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔
یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدے سے ٹلنے والے نہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِىَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآ اَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللہِ شَـيْـــــًٔـا۝۰ۭ
وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمْ وَقُوْدُ النَّارِ۝۱۰ۙ

جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا (قیامت کے دن) ان کا مال انھیں (عذابِ الٰہی سے) بچا نہ سکے گا اورنہ ان کی اولاد۔اللہ کے سامنے

وہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن بنیں گے۔

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ۝۰ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ
كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۝۰ۚ

ان کا حال بھی فرعونیوں اوران لوگوں کا سا ہوگا جو ان سے پہلے گزرچکے ۔
انہوں نے (ہماری تعلیمات اور) واضح نشانیوں کوجھٹلایا۔

فَاَخَذَھُمُ اللہُ بِذُنُوْبِہِمْ۝۰ۭ وَاللہُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۱۱

 تواللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کے سبب انھیں اپنی گرفت میں لیا۔ اوراللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔

قُلْ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَـتُغْلَبُوْنَ وَتُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَہَنَّمَ۝۰ۭ

وَبِئْسَ الْمِہَادُ۝۱۲

(ائے نبیﷺ) دعوت حق کا انکار کرنے والوں سے کہئے تم عنقریب (دنیا میں بھی) مغلوب ہوجاؤگے اور آخرت میں جہنم کی طرف ہانکے جاؤگے ۔
اورجہنم کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔

قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰيَۃٌ فِيْ فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا۝۰ۭ
فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَاُخْرٰى كَافِرَۃٌ
يَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَيْہِمْ رَاْيَ الْعَيْنِ۝۰ۭ

تمہارے لیے اس واقعہ (معرکہ ٔ بدر) میں عبرتناک سبق ہے۔
جب کہ دوفریق ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہوچکے تھے۔ ایک جماعت اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑرہی تھی اور دوسرا گروہ (ان) کافروں کا تھا (جو حق کومٹانے کا درپے تھا) دیکھنے والے دیکھ رہے تھے (اندازہ لگارہے تھے) کہ کافروں کا گروہ مسلمانوں کے لشکر سے دگنا ہوگیا ہے۔(دراصل کافر تین گناہ تعداد میں تھے)

وَاللہُ يُـؤَيِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ۝۱۳

اور اللہ تعالیٰ اپنی فتح ونصرت سے جسے چاہتے ہیں نوازتے ہیں۔
اہل بصیرت کے لیے اس واقعہ میں بڑی عبرتیں ہیں۔

توضیح : اس آیت میں جنگ بدر کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو مکہ مدینہ سے قریب ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً تین سو تیرہ تھی اورکافر ان سے تین گناہ زیادہ تھے یعنی ایک ہزار کے قریب تھے لیکن ان کی کثرت اوران کے عصری آلات حرب، ان کی فوجی صلاحیتیں، ان کی دولت، ان کا غرور انھیں کام نہ آیا۔ مٹھی بھر بے سروسامان مہاجر اورکھیتی باڑی کرنے والے غریب انصار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قریش جیسے جنگ آزما بہادروں، سورماؤں کو شکست فاش دلوادی جو اس نظریہ کے تحت مقابلے کے لیے آئے تھے کہ بے سروسامان مسلمانوںکولڑائی سے قبل ہی نیست ونابود کردیں۔ اہل ایمان کا حال یہ تھا کہ رات بھرمصروف عبادت رہتے۔ نمازیں تھیں، روزے تھے، دعائیں تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں قبول فرمالیں۔ اورانھیں فتح نصیب فرمائی۔ دوسری طرف کافروں کے لشکر میں شراب کے دورچل رہے تھے۔ گانے اورناچنے والی حسین وجمیل لونڈیاں داد عیش دے رہی تھیں۔

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ  وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ
وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۝۰ۭ
ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ

لوگوں کیلئےطبعی طورپر بیوی بچے بڑے ہی خوش آئند بنادیئے گئے ہیں۔ اور ذخائر سیم وزر (خزانے اور چاندی سونے کے ڈھیر)

اوراسی طرح خصوصی گھوڑے، مویشی کھیتی باڑی (محبوب مشاغل بنادیئے گئے ہیں مگر انھیں یہ بات بھی سنادی گئی ہے کہ)
یہ دنیا کا سازوسامان چند روزہ ہے۔(زوال پذیر ہے۔ یہاں ہمیشہ رہنا نہیں ہے)

وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۝۱۴

قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ۝۰ۭ

 اوربہترین جگہ (جہاں ہمیشہ رہنا ہے) اللہ تعالیٰ کے پاس ہے (جس کا نام آخرت ہے)
(ائے نبیﷺ) آپ ان لوگوں سے کہئے کیا میں تم کو ایک ایسی زندگی کی خبر نہ دوں جو تمہارے لیے اس چند روزہ زندگی سے کہیں بہتر ہے۔

لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا

ان لوگوں کے لیے جومتقیانہ زندگی بسر کرتے ہیں ان کے رب کے پاس ایسے (دل کشا) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

توضیح : دودھ کی نہریں، شہد مصفا کی نہریں، نہایت ہی خوش ذائقہ پانی کی نہریں اورپاکیزہ شراب کی نہریں جس کی تفصیل سورۂ محمدمیں ہے۔

وَاَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ۝۰ۭ
وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ۝۱۵ۚ

اور(جہاں ان کے لیے) پاکیزہ بیبیاں ہوں گی اور انھیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل رہے گی۔
اوراللہ تعالیٰ اپنے بندوں پرنظررکھے ہوئے ہیں(یعنی جو بندے جو سلوک کے مستحق ہوتے ہیں وہی سلوک ان سے کیا جاتا ہے۔

توضیح : مذکورہ چیزیں طبعی طورپر پسند خاطرنہ بنائی جاتیں تواس سے اعلیٰ وافضل چیزوں کی طرف رغبت نہ ہوتی۔

اَلَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝۱۶ۚ 

یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں ائے ہمارے رب یقیناً ہم ایمان لائے (یعنی تمام الٰہ باطلہ سے کٹ کرآپ ہی کو اپنا معبود و مستعان حاجت روا کار ساز مان لیا) لہٰذا ہمارے گناہ معاف فرمادیجئے اور ہم کودوزخ کی آگ سے بچائیے۔

اَلصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالْقٰنِـتِيْنَ

( یہ وہ لوگ ہیں جو ہر قسم کی تکلیف اورمشکلات میں) صبر کرتے ہیں اور سچ بولتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔

وَالْمُنْفِقِيْنَ وَالْمُسْـتَغْفِرِيْنَ
بِالْاَسْحَارِ۝۱۷

راہِ حق میں خرچ کرتے ہیں اور( ان تمام نیکیوں کے باوجود اپنے کو خطاوار سمجھتے ہوئے) رات کی پچھلی ساعتوں میں قیام رکوع وسجود میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔

توضیح : اس قدر افہام وتفہیم کے بعد بھی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کوالٰہ واحد معبود ومستعان نہیں مان رہے ہیں تونہ مانا کریں خود اللہ تعالیٰ نے اپنے الٰہ واحد ہونے کی اس طرح گواہی دی ہے۔

شَہِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۙ

وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ نے (اس بات کی) گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت واستعانت کے لائق نہیں۔
اورفرشتوں نے بھی اوراہل علم نے بھی راستی اورانصاف کے ساتھ گواہی دی (اور قیامت تک گواہی دیتے رہیں گے) کہ

لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۸ۭ

اس (ذاتِ اقدس) کے سوا کوئی عبادت( واستعانت) کے لائق نہیں وہ زبردست حکیم ہے (اس کی ساری تجاویز حکیمانہ ہیں)۔

توضیح : مخلوقات ارضی وسماوی کا خالق مالک ربِ الٰہ ومدبرحکیمانہ نظام کا چلانے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ کوئی فرد خلق خواہ وہ فرشتہ ہو یا نبی اس صفت سے متصف ہے اور نہ شریکِ فرمانروائی۔

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ

اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے (جس میں توحید کی تصدیق اور اقرار عبادت بھی شامل ہے)

توضیح : دین یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ ہی کواپنا معبود ومستعان، حاجت روا، کارساز مالک ومقتدرمانے اورپیغمبروں کے ذریعہ جواحکام بھیجے ہیں اس کی پوری پوری پیروی کرے۔ یعنی جن باتوں اور کاموں سے منع کیا گیا ہے اس سے بچے اور جن کا حکم دیا گیا ہے رغبت وخوشدلی کے ساتھ انجام دے۔ اس کے سوا جس قدر ادیان ہیں باطل ہیں۔ اور ان کا انجام جہنم ہے۔

وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ 

الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۝۰ۭ

اورجن لوگوں کوکتاب دی گئی تھی انہوں نے دین کا صحیح علم آجانے کے بعد اختلاف کیا (تا کہ اپنی پیشوائی وبرتری باقی رہے اور آپس میں ایک

دوسرے پرزیادتی کرنے کا موق ملے)آپس کی ضد سے۔

وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاٰيٰتِ اللہِ فَاِنَّ اللہَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝۱۹

اورجوکوئی اللہ تعالیٰ کے احکام وہدایت سے انکار کردے تواللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والے ہیں۔

توضیح : یہود ونصاریٰ توریت وانجیل کی پیش گوئیوں کی بناء پر کہتے تھے کہ ایک اورپیغمبرآخرالزماں پیدا ہوں گے جو کوئی اس پیغمبر کی لائی ہوئی تعلیم کونہ مانے گا وہ کافرو جہنمی ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ پیغمبر برحق انھیں کی قوم بنی اسرائیل میں پیدا ہوں گے جب آپؐ کی بعثت بنی اسمٰعیل میں ہوئی تومحض اپنی مذہبی پیشوائی وبرتری ختم ہوجانے کے اندیشے سے توریت وانجیل کے وہ مضامین جس میں آپؐ کی تعریف وتوصیف تھی اس میں تحریف کردی۔

فَاِنْ حَاۗجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْہِيَ لِلہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ۝۰ۭ

وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ۝۰ۭ فَاِنْ

پھر اگر یہ لوگ (ائے نبیﷺ) آپ سے جھگڑنے لگیں توکہنا میں اور میرے متبعین اللہ تعالیٰ کی مطیع وفرمانبردار ہوچکے ہیں( یعنی ہم نے اپنی جبین نیاز اللہ تعالیٰ کے درپرجھکادی ہے۔
اور(ائے نبیﷺ) اہل کتاب اورغیراہل کتاب (مشرکین مکہ) سے کہئے کیا تم نے بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت قبول کرلی(یعنی اللہ تعالیٰ

اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ

کے فرمانبردار بندے بن کرزندگی گزارنی چاہتے ہو ؟ پھر اگر یہ اسلام لے آئیں تویقیناً ہدایت پر ہوں گے۔

وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ۝۰ۭ

اور اگر وہ اس سے روگردانی کریں نہ مانیں توآپ کا کام احکام پہنچادینا ہے۔

وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ۝۲۰ۧ

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال پرنظررکھے ہوئے ہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ حَقٍّ۝۰ۙ
وَّيَقْتُلُوْنَ الَّذِيْنَ يَاْمُرُوْنَ
بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ۝۰ۙ
فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۲۱

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کو ناحق قتل کردیا۔
جولوگ انصاف کا حکم دینے والوں کو(افراط وتفریط سے بچنے کی تعلیم دینے والوں، اصلاح عقائد واعمال کی طرف متوجہ کرنے والوں کو) مارڈالتے ہیں، ایسے لوگوں کودرد ناک عذاب کی بشارت دیجئے۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۡوَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ۝۲۲

یہ ایسے لوگ ہیں دنیا اور آخرت میں ان کے نیک اعمال ضائع کردیئے جائیں گے اور ان کا کوئی حامی ومددگار نہ ہوگا۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ
يُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللہِ لِيَحْكُمَ بَيْنَھُمْ
ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ وَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝۲۳

(ائے نبیﷺ) کیا آپؐ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب (توراۃ) کا ایک حصہ دیا گیا تھا۔

جب انھیں اللہ کی اسی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ ا ن کے (اختلاف کا) فیصلہ کردے۔

توان میں سے ایک فریق (اس سے) روگردانی کرتا ہے۔اوروہ ہیں ہی روگردانی کرنے والے

ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۝۰۠ وَغَرَّھُمْ فِيْ دِيْــنِہِمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۝۲۴

(یہ) اسی غلط عقیدہ کے تحت کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں چھو بھی نہیں سکتی۔ اگر چھو بھی لے توبس چند ہی روز اوران کے اپنے من گھڑت عقیدۂ نجات نے دین کے بارے میں انھیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔

فَكَيْفَ اِذَا جَمَعْنٰھُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْہِ۝۰ۣ

تو اس دن ان کی کیسے گزریگی جب ہم قیامت کے دن انھیں جمع کریں گے جس کے واقع ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں (جس کا آنا یقینی ہے)

وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝۲۵

اور ہر شخص کواس کے عقیدے و عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اوران پر ظلم نہ کیا جائے گا۔

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ
وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡ
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ
بِيَدِكَ الْخَيْرُ۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ ) آپؐ اللہ تعالیٰ سے اس طرح (دعا کیجئے) ائے اللہ ملکوں کے مالک آپ جسے چاہیں حکومت دیں۔
اورجس سے چاہیں چھین لیں
اور جس کو چاہیں عزت دیں اورجس کوچاہیں ذلیل کریں۔
بھلائی آپ ہی کے اختیار میں ہے۔

اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۶

تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَتُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ۝۰ۡ

بے شک آپ ہر چیز پرقادر ہیں (یعنی آپ کی عطاء ومنع میں کوئی مانع ومزاحم نہیں ہوسکتا)
حق تعالیٰ آپ ہی رات کودن میں داخل فرماتے ہیں اوردن کورات میں۔

وَتُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ
وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ۝۰ۡ
وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝۲۷

اور آپ ہی مردہ (بے جان) سے زندہ (جاندار) کو پیدا کرتے ہیں اور زندہ سے مردہ کو۔
اورآپ جسے چاہتے ہیں بے حساب رزق دیتے ہیں۔

توضیح : ذلت وعزت حکومت وغلامی رزق کی کمی وبیشی اور موت وحیات کا سارا نظام اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار اپنے مقرب بندوں کودے رکھا ہے۔ ایسا سمجھنا شرک ہے۔

لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۰ۚ
وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللہِ فِيْ شَيْءٍ

مومنین کوچاہئے کہ اہل ایمان کو چھوڑ کرکافروں کواپنا رفیق نہ بنائیں۔

جو کوئی ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىۃً۝۰ۭ

سوائے اس کے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے( ظاہری طورپر ) ایسا طرز عمل اختیار کرو۔

وَيُحَذِّرُكُمُ اللہُ نَفْسَہٗ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنے غضب سے ڈراتے ہیں (تا کہ اس سے ڈرکر ) احکام کی تعمیل کرو(اور داخل رحمت ہوجاؤ)

وَاِلَى اللہِ الْمَصِيْرُ۝۲۸

اور (بالآخر) تم کو اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ

اَوْ تُبْدُوْہُ يَعْلَمْہُ اللہُ۝۰ۭ

ائے نبی (ﷺ) لوگوں کومطلع کیجئے کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم چاہے انھیں چھپاؤ۔
یاظاہر کرو اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ بذاتہٖ جانتے ہیں کسی ذریعہ خبر رسانی کی اللہ تعالیٰ کوحاجت نہیں۔

وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ
وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۹
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا۝۰ۚۖۛ

اور وہ جانتے ہیں جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔

اور اللہ تعالیٰ ہر طرح کی قدرت رکھتے ہیں۔
جس دن ہر شخص اپنے نیک اعمال کے بدلے کوپالے گا۔

وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْۗءٍ۝۰ۚۛ
تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَيْنَہَا وَبَيْنَہٗٓ اَمَدًۢا بَعِيْدًا۝۰ۭ
وَيُحَذِّرُكُمُ اللہُ نَفْسَہٗ۝۰ۭ

اور جو کچھ برائیاں اس نے کی تھیں، انھیں بھی دیکھ لے گا۔
(بدکاری کا ارتکاب کرنے والا) چاہے گا (اس کی دلی تمنا ہوگی کہ) کاش اس میں اوراس برائی میں دور کی مسافت ہوتی یعنی یہ دن واقع ہی نہ ہوتا۔
اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنے غضب سے ڈراتے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کا یہ ڈرانا اپنے بندوں پرعین شفقت ہے، وہ ڈراوا نھیں جو ایک ظالم ڈراتا ہے۔ بلکہ یہ وہ ڈرانا ہے جو ایک شفیق نہایت مہربان نہایت رحم کرنے والا مربی، اصلاح کے لیے اپنے مربوب کوڈراتا ہے کیونکہ انسان اپنے نقصان ہی کے خوف سے اپنی اصلاح کی طرف مائل ہوتا ہے۔

وَاللہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ۝۳۰ۧ

اوراللہ تعالیٰ اپنے بندوں پرنہایت ہی مہربان ہیں۔
(انجام کی خرابی سے قبل از قبل مطلع فرمادیتے ہیں)

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ

يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ
وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۱

ائے نبی(ﷺ) لوگوں سے کہئے اگر تم اللہ تعالیٰ کو دوست رکھتے ہو تو (علماً وعملاً )میری اتباع کرو( یعنی جو تعلیم اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ نازل فرمائی ہے اس پر عمل پیرا ہوجاؤ۔)
اللہ تعالیٰ بھی تمہیں دوست رکھیں گے اور تمہارے گناہ معاف کردیں گے۔
اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کی رحمت ومغفرت کے لیے اطاعت ضروری ہے۔

قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ۝۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ۝۳۲

کہیئے اللہ اور رسول کی اطاعت کیے جاؤ۔
پھر اگر وہ اطاعت سے انحراف کریں تو (وہ سن لیں)اللہ تعالیٰ کافروں کو پسند نہیں کرتے (اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اللہ کی اطاعت نہ کرنے والوں کوکافر فرمایا ہے)

توضیح : اب کلام کارُخ آل عمران کے تاریخی واقعات کی طرف مڑتا ہے۔ کیونکہ اہل کتاب کے عقائد کی خرابی کا تعلق آل عمران ہی کے دو افراد بی بی مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہے۔

اِنَّ اللہَ اصْطَفٰٓي اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝۳۳ۙ
ذُرِّيَّۃًۢ بَعْضُہَا مِنْۢ بَعْضٍ۝۰ۭ

یقینا ًاللہ تعالیٰ نے آدمؑ و نوحؑ وآلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمران کو سارے عالم پر فضیلت بخشی (نبوت سے سرفراز فرمایا۔)
بعض ان میں بعض کی اولاد ہیں۔

وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۳۴ۚ

اور اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ سننے والے (اور بندوں کے حالات) جاننے والے ہیں۔

اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّىْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِيْ بَطْنِىْ مُحَرَّرًا

( وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب کہ عمران کی بی بی نے دعا کی۔ ائے میرے پروردگار میں اس بچہ کو جو میرے پیٹ میں ہے۔آپ کی نذر کرتی ہوں۔

فَتَقَبَّلْ مِنِّىْ۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۳۵

لہٰذا آپ میرے اس نذرانے کو میری طرف سے قبول فرمائیے بے شک آپ ہی سننے والے (دلی مدعا کے) جاننے والے ہیں۔

فَلَمَّا وَضَعَتْہَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّىْ وَضَعْتُہَآ اُنْثٰى۝۰ۭ
وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ۝۰ۭ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰى۝۰ۚ

وَاِنِّىْ سَمَّيْتُہَا مَرْيَمَ

پھر جب ان کے ہاں بچی پیدا ہوئی تو کہنے لگیں ائے میرے پروردگار مجھے تو لڑکی پیدا ہوئی( نذر کے لیے لڑکا موزوں ہوتا)
اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو کچھ وہ جنی (افسوس کی بات نہیں)
(کیونکہ جس لڑکے کی آرزو مند تھیں) وہ لڑکا اس لڑکی کے برابر نہیں ہوسکتا۔
اور (عمران کی بی بی نے) کہا میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا ہے۔

وَاِنِّىْٓ اُعِيْذُھَا بِكَ وَذُرِّيَّــتَہَا مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۝۳۶

اور میں اس لڑکی کواور آئندہ اس کی ذریت کوشیطان مردود کے شر سے (بچانے کے لیے) حق تعالیٰ آپ کی پناہ (وحفاظت) میں دیتی ہوں۔

سبق: اولاد کی پرورش ونگہداشت، پیدائش کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے حوالے کیا جانا چاہئے۔ تا کہ وہ شیطان کے شر سے محفوظ ہے۔ عموماً لوگ اس سبق کو بھول گئے۔

فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّاَنْۢبَتَہَا نَبَاتًا حَسَـنًا۝۰ۙ
وَّكَفَّلَہَا زَكَرِيَّا۝۰ۭۚ

پھر مریم علیہا السلام کو ان کے رب نے بہ خوشی قبول فرمایا۔
اور غیر معمولی طورپر بڑھایا (ان کی بہترین پرورش فرمائی)
اور زکریا کوان کا کفیل وسرپرست بنایا (آپ قریبی رشتہ دار بھی تھے)

كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْہَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ۝۰ۙ وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا۝۰ۚ قَالَ يٰمَرْيَـمُ اَنّٰى لَكِ ھٰذَا۝۰ۭ قَالَتْ ھُوَمِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ

جب بھی زکریا علیہ السلام عبادت گاہ میں بی بی مریمؑ کے پاس جاتے توان کے پاس کھانے پینے کا سامان پاتے۔
یوں فرماتے ائے مریم یہ چیزیں (سامان خورد نوش) تمہارے پاس کہاں سے آئیں۔ توکہتیں یہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے آئیں۔

اِنَّ اللہَ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝۳۷

بے شک اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں بے حساب رزق دیتے ہیں۔

توضیح : بی بی مریمؑ کے جواب سے اس امر پر روشنی پڑتی ہے سامان خورونوش کی موجودگی خرق عادت کے طورپر تھی۔ اس لیے حضرت زکریا علیہ السلام کوتعجب ہوا۔

ھُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّہٗ۝۰ۚ

اس موقع پر حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے دعا کی۔

قَالَ رَبِّ ھَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّۃً طَيِّبَۃً۝۰ۚ اِنَّكَ سَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ۝۳۸
فَنَادَتْہُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَھُوَقَاۗىِٕمٌ يُّصَلِّيْ فِي الْمِحْرَابِ۝۰ۙ

کہا ائے میرے پروردگار اپنی قدرت سے مجھے ایک نیک لڑکا عنایت فرمائیے۔ بے شک آپ ہی دعاؤں کے سننے والے ہیں (دعا کے ساتھ ہی قبولیت دعا کی بشارت مل گئی)
پھر ایک فرشتے نے انھیں آواز دی جب کہ وہ محراب میں نماز پڑھ رہے تھے۔

اَنَّ اللہَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيٰي مُصَدِّقًۢـا بِكَلِمَۃٍ مِّنَ اللہِ

وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۳۹

یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یحییٰ نامی ایک فرزند کی خوشخبری دی ہے جو اللہ تعالیٰ کے لفظ کن کی (بغیر باپ کے پیدا ہوجانے والے لڑکے عیسیٰؑ کے پیغمبر ہونے کی ) تصدیق کرنے والا ہوگا۔
اور سردار ہونگے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے ہونگےاور نبی، صالحین میں سے ہونگے۔

توضیح : قبولیت دعا کے تعلق سے حضرت زکریا علیہ السلام کا خیال تھا کہ شاید وہ جوان ہوجائیں گے ۔ایسی کوئی صورت پیش نہیں آئی اور فرزند کی بشارت ملی تو

قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّقَدْ بَلَغَنِىَ الْكِبَرُ وَامْرَاَتِيْ عَاقِرٌ۝۰ۭ قَالَ كَذٰلِكَ اللہُ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ۝۴۰

کہا ائے میرے پروردگار مجھے لڑکا کیونکر ہوگا جب کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ہاں ایسا ہی ہوگا جیسا اللہ تعالیٰ چاہیں (اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ ظاہری اسباب کے بغیر صاحب اولاد بنادے۔)

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّيْٓ اٰيَۃً۝۰ۭ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰــثَۃَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا۝۰ۭ

وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْرًا وَّسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ۝۴۱ۧ

زکریا علیہ السلام نے کہا ائے میرے پروردگار میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرمادیجئے( جس سے معلوم ہو کہ میری بیوی حاملہ ہے)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک اشارہ کے سوا بات نہ کرسکوگے (جب تم پر ایسی کیفیت طاری ہو تو سمجھ لینا کہ تمہاری بیوی حاملہ ہے)
(اس احسان کی شکر گزاری میں) صبح و شام اپنے پروردگار کی تسبیح کیا کیجئے( یعنی اللہ تعالیٰ کا با قدرت ہونا اور ہر قسم کے نقص سے پاک ہونا مستحضر رکھیئے۔)

سبق: اولاد کی خواہش میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہو رہی ہے۔ حالانکہ آپ سے پہلے آپ ہی کے خاندان میں حضرت موسیٰؑ، حضرت ابراہیم ؑ وغیرہ جلیل القدر پیغمبر گزرچکے ہیں۔ جو مقربانِ بارگاہِ الٰہی تھے۔ مگر دعامیں ان کو واسطہ وسیلہ نہیں بنایا گیا۔ الٰہی ونبوی تعلیم یہ ہے کہ ہر چھوٹی بڑی حاجت میں اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہی کو مدد کے لیے پکارا جائے۔
عصر حاضر کے بعض مفسرین بیان کرتے ہیں کہ نہ بی بی مریمؑ کے پاس کھانا بطورِ خرق عادت آیا اور نہ حضرت زکریاؑ کے پاس ولادت بطور خرق عادت ہوئی۔ یہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ خرقِ عادت کے طورپر کھانے کی موجودگی ہی نے حضرت زکریاؑ کو دعا پر آمادہ کیا۔ ورنہ کھانا تو روز ہی آتا تھا۔ لفظ ہناک سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔
دوسرے حضرت زکریاؑکا یہ مطالبہ ’’رَبِّ اجْعَلْنِی آیہ‘‘ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ ولادت ، حالت ضعیفی اور غیر طبعی حالات ہی میں ہوئی۔ کوئی ظاہری سبب بطور علاج اختیار نہیں کیا گیا۔ آلِ عمران کے ایک فرد کا واقعہ تو یہ تھا۔ اب ایک دوسری ہستی کا واقعہ بھی قابل ذکر ہے۔

وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىكِ وَطَہَّرَكِ وَاصْطَفٰىكِ عَلٰي نِسَاۗءِ الْعٰلَمِيْنَ۝۴۲

اور(وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب کہ فرشتہ نے بی بی مریمؑ سے کہا۔ ائے مریم اللہ تعالیٰ نے آپ کو برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی اور دنیا کی ساری عورتوں پر ترجیح دی۔

يٰمَرْيَمُ اقْنُتِىْ لِرَبِّكِ وَاسْجُدِيْ

ائے مریم اپنے پروردگار کی فرمانبردار بنی رہو۔ اوراس کے آگے

وَارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ۝۴۳

سربہ سجود رہو۔ اور جو بندے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے ہیں، ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ۔

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہِ

اِلَيْكَ۝۰ۭ
وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَيُّھُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ۝۰۠

وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ۝۴۴

یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں وحی کے ذریعہ( ائے نبیﷺ) ہم

آپ پر ظاہر کرتے ہیں۔
اور(اے پیغمبرﷺ) آپؐ اس وقت ان میں موجود نہ تھے جب کہ وہ اپنے اپنے قلم ڈالنے لگے تھے (یعنی قرعہ اندازی کی جارہی تھی) کہ کون مریم کی کفالت کرے۔
اور نہ آپؐ اس وقت موجود تھے جب کہ وہ (ان کے خاندان کے لوگ ان کی کفالت کے سلسلہ میں) جھگڑ رہے تھے۔

توضیح : وہ قلم جن سے توراۃ لکھتے تھے پانی کے بہاؤ پر ڈالے گئے۔ شرط یہ تھی کہ جس کا قلم نہ بہے وہی کفالت کرے۔چنانچہ حضرت زکریا علیہ السلام کے نام قرعہ نکلا۔ یہ واقعہ وحی کے ذریعہ آپؐ پر واضح کیا گیا جو آپ ؐ کے رسول برحق ہونے کی ایک بین دلیل ہے۔

اِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللہَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَۃٍ مِّنْہُ ۝۰ۤۖ

اسْمُہُ الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ
وَجِيْہًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ
وَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ۝۴۵ۙ
وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ وَكَہْلًا

وَّمِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۴۶

وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے۔ جب کہ فرشتوں نے کہا ائے مریمؑ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی طرف سے ایک خوشخبری سناتے ہیں (یعنی کلمہ ’’کن‘‘ سے ایک لڑکا پیدا ہوگا)
جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔
اوردنیا وآخرت میں با آبرو (با عزت) ہوگا۔
اورمقربین (اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں) میں سے ہوگا۔
اور وہ گہوارہ (ماں کی گود) میں اور ادھیڑ عمر میں لوگوں سے کلام کریگا۔
(یعنی اپنی نبوت کا اعلان کرے گا۔
اور نیکو کاروں میں سے ہوگا۔

قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ وَلَدٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ۝۰ۭ
قَالَ كَذٰلِكِ اللہُ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ

اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَہٗ

مریم نے کہا ائے میرے پروردگار مجھے اولاد کس طرح ہوگی ؟
جب کہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ہاں ایسا ہی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جیسا چاہتے ہیں پیدا کرسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہوجا۔

كُنْ فَيَكُوْنُ۝۴۷

توفوراً ہی وہ ہوجاتاہے (یعنی ایک آنِ واحد میں حکم کے ساتھ ہی بلا اسباب ظاہری سب کچھ ہوجاتا ہے اور اسباب ظاہری سے توہوتا ہی ہے۔

وَيُعَلِّمُہُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَالتَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۝۴۸ۚ

(پھر فرشتوں نے کہا) اور وہ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے گا۔ اور توراۃ وانجیل کا علم سکھائے گا۔

وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝۰ۥۙ
اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۙ

اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے جائیں گے۔
(بنی اسرائیل سے کہیں گے) میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے اپنی رسالت کی نشانیاں لے کر آیا ہوں (وہ نشانیاں یہ ہیں)

اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَہَيْــــَٔــۃِ الطَّيْرِ

میں تمہارے لیے (اپنے نبی ہونے کی تصدیق کے لیے مٹی سے پرندے کی طرح ایک مجسمہ بناتا ہوں۔

فَاَنْفُخُ فِيْہِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢا بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۚ
وَاُبْرِئُ الْاَكْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۚ
وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ۝۰ۙ فِيْ بُيُوْتِكُمْ۝۰ۭ
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۴۹ۚ
وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىۃِ
وَلِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِيْ حُرِّمَ عَلَيْكُمْ

پھراس میں پھونک مارتا ہوں پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ ہوجاتا ہے۔
اور میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کیے دیتا ہوں اور مردوں کوزندہ کرتا ہوں۔
اور میں تمہیں بتائے دیتا ہوں جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو کچھ اپنے گھروں میں ذخیرہ کر رکھتے ہو۔
ان معجزات میں تمہارے لیے (میری نبوت کے بین) دلائل ہیں اگر تم طالب حق ہوتو ان دلائل کو دیکھ کر ایمان لے آؤ۔

اور میں اس تعلیم وہدایت کی تصدیق کرنے والا ہوں جو توریت میں (اس وقت) تمہارے پاس موجود ہے۔

اور بعض وہ چیزیں جو (تمہاری سرکشی کی وجہ) تم پر حرام کردی گئی تھی ان کو تمہارے لیے حلال کرتا ہوں۔

توضیح :(یہودیوں پر گائے اور بکری کی چربی حرام تھی اور بعض جانور اور ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار بھی)

فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۝۵۰

ساتھ تمہارے پاس آیا ہوں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرا کہا مانو (انکار کی جوسزا اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے اس کے انجام سے ڈرو۔)

اِنَّ اللہَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۝۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۝۵۱

بے شک اللہ تعالیٰ میرے بھی رب ہیں اور تمہارے بھی لہٰذا اسی اللہ کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا (جنت میں جانے کا) راستہ ہے۔

فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ

قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللہِ۝۰ۭ
قَالَ الْحَوَارِيُوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ۝۰ۚ

پھر جب عیسیٰؑ نے ان کی طرف سے نافرمانی محسوس کی (یعنی پوری طرح یقین ہوگیا کہ ان کی اکثریت کفر پر اڑی ہوئی ہے اور آپ کے قتل کے درپے ہے)
کہا تم میں سے کون اللہ تعالیٰ کی راہ میں میرا ساتھ دے گا۔
آپکے سچے مخلص بہی خواہوں نے کہا اللہ کی راہ میں ہم آپکا ساتھ دیتے ہیں۔

اٰمَنَّا بِاللہِ۝۰ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۝۵۲

آپ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلمان ہیں۔

رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ

وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ۝۵۳

(پھر ان لوگوں نے کہا) ائے ہمارے پروردگار جو کتاب آپ نے نازل فرمائی ہے ہم اس پر ایمان لائے۔
آپ کے رسول حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کی اتباع قبول کرلی لہٰذا ہم کو تصدیق کرنے والوں میں شمار کرلیجئے۔
(کتاب اللہ پر ایمان اور رسول اللہ کی اتباع لازم وملزوم ہے)

وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۝۵۴ۧ

اور وہ (یعنی بنی اسرائیل (یہود) قتل عیسیٰؑ کے بارے میں ایک) چال چلے اوراللہ تعالیٰ نے بھی (آپ کو بچانے کی تدبیر کی) اور اللہ تعالیٰ (لوگوں کے مکر کا) خوب خوب سدِ باب کرتے ہیں۔

وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۝۵۴ۧ

اور وہ (یعنی بنی اسرائیل (یہود) قتل عیسیٰؑ کے بارے میں ایک) چال چلے اوراللہ تعالیٰ نے بھی (آپ کو بچانے کی تدبیر کی) اور اللہ تعالیٰ (لوگوں کے مکر کا) خوب خوب سدِ باب کرتے ہیں۔

توضیح :حضرت عیسیٰؑ کے اعلانِ رسالت پر سب سے زیادہ مخالفت کرنے والے یہودی تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کی تعلیم سے ان کے گھڑے ہوئے عقائد پر کافی ضرب پڑتی تھی وہ برسراقتدار نہ تھے۔ اس لیے بطور خود تو کچھ کر نہ سکے۔ حکومت وقت کو حضرت عیسیٰؑ کے خلاف کاروائی کرنے کی ترغیب دی۔ حکومت بھی مشرکین ہی کی تھی اور حضرت عیسیٰؑ کی تعلیم کی ضرب ان کے عقائد پر پڑتی تھی۔ اس لیے حضرت عیسیٰؑ کے قتل کا حکم جاری کردیا۔ اس وقت حضرت عیسیٰؑ ایک ایسے محفوظ مقام پر تھے جس کی خبر حکومت کے کارندوں کو نہ تھی۔ یہودیوں نے پتہ چلا کر آپ کے مقام کی اطلاع حکومت کے کارندوں کو دی۔ چنانچہ آپ گرفتار کر لیے گئے۔ اور مقتل میں پہنچادیئے گئے یہ تھا آپ کے مخالفین کا مکر۔

اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ

اس وقت اللہ تعالیٰ نے عیسیٰؑ سے فرمایا (گھبراؤ نہیں) میں تمہاری مدت عمر پوری کروں گا۔ اور (فی الحال) تم کو اپنی طرف اٹھالیتا ہوں یعنی آسمان پر بلالیتا ہوں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مکر کو اس طرح پامال کردیا کہ آپ کو آسمان پر اٹھالیا۔ اورپھر آپ ہی کا ایک ہم شبیہ ان کے ہاتھ آگیا اس طرح حضرت عیسیٰؑ کو قتل ہونے سے بچالیا۔ اور قیامت کے قریب آپ کو مابقی عمر کی مدت پوری کرنے کے لیے پھر دنیا میں بھیجا جائے گا۔

وَمُطَہِرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

اور تم کو اہل کفر کی گندگیوں سے پاک کیے دیتا ہوں۔

وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۚ

 

ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۵۵

اور (یہ بھی تسلی دی کہ) دنیا میں جب تک تمہارے متبعین رہیں گے (یعنی اللہ تعالیٰ کو الٰہ واحد معبود ومستعان مان کر احکام الٰہی کے مطابق عمل کرنے والے) ان کوقیامت تک تمہاری نبوت کا انکار کرنے والے یہودیوں پر غالب رکھوں گا(امت محمدیہﷺ اور نصاریٰ مراد ہیں جو یہودیوں پر غالب رہیں گے)
پھر تم سب (جواب دہی کے لیے) میرے پاس لائے جاؤگے تو میں تمہارے درمیان ان امور میں فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔

فَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۡ
وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ۝۵۶
وَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُوَفِّيْہِمْ اُجُوْرَھُمْ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِـمِيْنَ۝۵۷

لہٰذا جن لوگوں نے کفر کیا تومیں انھیں دنیا وآخرت میں سخت ترین عذاب دوں گا۔

اور ان کا کوئی حامی ومددگار نہ ہوگا۔
اور جو لوگ ایمان لائے اورنیک عمل کیے ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدل دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ظالموں (نافرمانوں) کو پسند نہیں فرماتے۔

توضیح :کسی مصلحت وحکمت کے تحت اہل کفر کودنیا میں غلبہ دیا جائے تو اس صورتِ حال کو دیکھ کر اہلِ ایمان کو یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی درست رکھتے ہیں۔

ذٰلِكَ نَتْلُوْہُ عَلَيْكَ مِنَ الْاٰيٰتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيْمِ۝۵۸

یہ (مختصر) سرگزشت جو ہم آپ کوسناتے ہیں اس میں ایک حکیمانہ نصیحت ہے۔

اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللہِ كَمَثَلِ اٰدَمَ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے۔

خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۝۵۹

اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹی سے بنایا پھر حکم دیا (انسان) ہو جا اسی آن فورا ًہی وہ انسان ہوگئے۔

اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ۝۶۰
فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَـنَا وَاَنْفُسَكُمْ۝۰ۣ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ۝۶۱

یہ امر واقعی آپ کے پروردگار کی طرف سے ہے ۔
لہٰذا آپ شک وشبہ کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔

یہ علم آجانے (یعنی اس علمی حقیقت کے واضح ہوجانے) کے بعد بھی جو کوئی عیسیٰؑ کے بارے میں آپ سے جھگڑنے لگے۔
توائے محمد ﷺ کہئے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اوراپنی عورتوں کوبلائیں اور تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کوبلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ۔ پھر سب مل کر اللہ تعالیٰ سے التجا کریں کہ جھوٹوں پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ (تصفیۂ حق وباطل کی اسی صورت کا نام مباہلہ ہے)

اِنَّ ھٰذَا لَھُوَالْقَصَصُ الْحَقُّ۝۰ۚ
وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللہُ۝۰ۭ

وَاِنَّ اللہَ لَھُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۶۲

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ عَلِيْمٌۢ بِالْمُفْسِدِيْنَ۝۶۳ۧ

یہ سارے واقعات ایک حقیقت ہیں۔
اور(یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ) اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود (و مستعان) نہیں ہے۔
اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکیم ہیں۔
(یعنی کائنات کا سارا نظام حکیمانہ ہے)
پھر (اس کے بعد) اگر یہ (مباہلہ سے) منہ موڑیں تو اللہ تعالیٰ مفسدوں کو خوب جانتے ہیں (اقرار واقعی سزادیں گے)۔

قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ

(ائے پیغمبرﷺ) کہئے ائے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے۔

اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا

کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں۔ اور کسی کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں۔

وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۝۶۴ 

اور ہم میں کوئی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو (مخلوقات میں سے) رب نہ بنائے۔
پھر اگر وہ اس بات کو نہ مانیں توان سے کہہ دو تم گواہ رہو کہ ہم تومسلمان ہیں (اللہ الٰہ واحد کے فرمانبردار ہیں اور اسی کی تعلیم وہدایت پر چلتے ہیں)

توضیح : مسلمان وہی ہے جس کا ایمان ملائکہ پرستی انبیاء پرستی اوربزرگ پرستی سے پاک ہو۔

يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ
وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰىۃُ وَالْاِنْجِيْلُ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِہٖ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۶۵
ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ حَاجَجْتُمْ فِـيْمَا لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ
فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْمَا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ

وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۶۶

ائے اہل کتاب تم ابراہیمؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔

توراۃ وانجیل توابراہیمؑ کے بعد ہی نازل ہوئیں کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے۔

تم تو وہ لوگ ہو کہ تم نے اس معاملے میں جھگڑا کیا تھا۔ جس کا تمہیں کچھ علم بھی تھا۔

تو پھر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں (یعنی مطلب یہ ہے کہ ابراہیمؑ کے یہودی ونصرانی ہونے کے معاملے میں تو بلا علم جھگڑتے ہو)
اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ ابراہیمؑ کا مسلک کیا تھا، تم اس سے بے خبر ہو۔

مَا كَانَ اِبْرٰہِيْمُ يَہُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا۝۰ۭ
وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۶۷

اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِـاِبْرٰہِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ
وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْاۭ

وَاللہُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۸

ابراہیمؑ نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ سب سے بے تعلق ہو کر اللہ تعالیٰ ہی کے ہوکر رہے تھے۔ سچے مسلمان تھے۔

اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے (ان کا ایمان شرک کے ان تمام اجزا سے پاک تھا جس کو عوام نے جزو ایمان بنالیا ہے۔)
یقیناً ابراہیمؑ سے قریب تر یعنی ملت ابراہیمی کے پیرو وہ لوگ ہیں جو ابراہیمؑ کی پوری پوری اتباع کرتے ہیں۔
اوریہ نبی ہیں۔ اور وہ لوگ جو ایمان لائے(اور اپنے ایمان کوملائکہ پرستی۔ انبیاء پرستی۔ پیر پرستی جیسے مشرکانہ عقائد سے پاک رکھا۔) اوراللہ تعالیٰ اہل ایمان کے دوست وحامی ہیں۔

وَدَّتْ طَّاۗىِٕفَۃٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يُضِلُّوْنَكُمْ۝۰ۭ

اہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کی یہ تمنا ہے کہ کسی طرح تم کو گمراہ کردیں۔

وَمَا يُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۶۹
يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ۝۷۰

يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۷۱ۧ

مگر یہ تم کو کیا گمراہ کریں گے وہ خود اپنے آپ کوگمراہی میں ڈال رہے ہیں اور انھیں اس کا شعور بھی نہیں۔
ائے اہل کتاب تم اللہ کی آیتوں کا کیوں انکار کرتے ہو۔ اور تم گواہی دیتے ہو (یعنی یہ اقرار کرتے ہو کہ توریت وانجیل اللہ ہی کا کلام ہے۔ پھر اس میں جو آیتیں محمدﷺ کی تعریف میں ہیں۔ ان کا کیوں انکار کرتے ہو۔)
ائے اہل کتاب تم حق کے ساتھ باطل کو کیوں ملا رہے ہو اور حق کو چھپاتے ہو اور تم جانتے ہو(کہ محمدﷺ اور آپ کی لائی ہوئی کتاب حق ہے)

وَقَالَتْ طَّاۗىِٕفَۃٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّہَارِ
وَاكْفُرُوْٓا اٰخِرَہٗ لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۷۲ۚۖ

اوراہل کتاب کا ایک فریق دوسرے سے کہتا ہے جو کتاب ایمان والوں پرنازل ہوئی ہے اس پر صبح کی ا ولین ساعتوں میں ایمان لاؤ۔

اورشام میں انکار کردو تا کہ وہ( اسلام سے) برگشتہ ہوجائیں۔

توضیح :ایسی تدبیر اہل کتاب کواس لیے سوجھی کہ انصار رضوان اللہ علیہم ایمان لانے سے پہلے یہودیوں کی مذہبی پیشوائی اور ان کے عالم دین ہونے سے پہلے کافی مرعوب تھے اور اسی مرعوبیت کی بناء پر ایمان لانے کے بعد بھی بنی اسرائیل سے قرآنی تعلیم کے بعض اجزاء کی تصدیق چاہتے تھے۔

وَلَا تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِــعَ دِيْنَكُمْ۝۰ۭ

اور(اہلِ کتاب آپس میں ایک دوسرے کو کہتے کہ)اپنے مذہب والوں کے سوا کسی کی بات نہ مانو (اور یہ بات اپنے لوگوں کے سوا کسی پر ظاہر نہ کرنا)

قُلْ اِنَّ الْہُدٰى ھُدَى اللہِ۝۰ۙ

(ائے نبیﷺ) کہئے یقیناً ہدایت (ونبوت) اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔

اَنْ يُّؤْتٰٓى اَحَدٌ مِّثْلَ مَآ اُوْتِيْتُمْ اَوْ يُحَاۗجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ۝۰ۭ

یہ کہ دے کسی اور کوبھی جس طرح تم کو دی گئی۔
یا تم (مسلمانوں کی مخالفت اس لیے کرتے ہو کہ وہ دین حق کے حق ہونے کے بارے میں) تمہارے خلاف تمہارے پروردگار کے پاس شہادت دیں گے۔

قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللہِ۝۰ۚ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ
وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۷۳ۚۙ

کہہ دیجئے فضل اور شرف اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے، وہ جسے چاہیں عطا فرمائیں۔
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی وسعت علمی رکھنے اور سب کچھ جاننے والے ہیں۔

يَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ
وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۝۷۴

اپنی رحمت سے جسے چاہتے ہیں خاص کرلیتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی صاحبِ فضل ہیں۔

نوٹ: اہل کتاب نہ صرف دین ہی کے معاملے میں بددیانت ہیں بلکہ یہ دنیوی معاملات میں بھی بددیانت ہیں۔

وَمِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّہٖٓ اِلَيْكَ۝۰ۚ
وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِيْنَارٍ لَّا يُؤَدِّہٖٓ اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْہِ قَاۗىِٕمًا۝۰ۭ
ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ۝۰ۚ

وَيَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝۷۵

اوراہل کتاب میں بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر سونے چاندی کے ڈھیر بھی انکے پاس بطور امانت رکھے جائیں تو پوری پوری طرح آپ کو لوٹادیں۔
اور ان میں (زیادہ تر) ایسے بددیانت ہیں کہ ایک در ہم بھی ان کے پاس امانت رکھا جائے تو ہرگز آپ کوواپس نہ لوٹائیں۔
تا ایں کہ تم ان کے سرپرسوار نہ ہوجاؤ۔
اس طرح کی بددیانتی وہ اس باطل عقیدے کے تحت کرتے ہیں کہ( جن لوگوں کو کتاب نہیں دی گئی ان سے ایسی بدمعاملگی میں) ہم پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔
اور وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ (اللہ تعالیٰ نے ایسی بات نہیں کہی)

بَلٰي مَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝۷۶ 

ہاں جو شخص اپنے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتا ہے اور بد عہدی کے انجام سے ڈرتا ہے۔تویقینا اللہ تعالیٰ بھی ایسے پرہیزگاروں کوپسند فرماتے ہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ وَاَيْـمَانِہِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا

جو لوگ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد وپیمان اور اپنی قسموں کودنیا کے حقیر معاوضے میں بیچتے ہیں (یعنی دنیا کے چند ٹکوں کے لیے نہ عہد کی پابندی کرتے ہیں اور نہ اپنے قسموں کی)

اُولٰۗىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللہُ
وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَلَا يُزَكِّـيْہِمْ۝۰۠
وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۷۷
وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِيْقًا يَّلْوٗنَ اَلْسِنَـتَھُمْ بِالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْہُ مِنَ الْكِتٰبِ وَمَا ھُوَمِنَ الْكِتٰبِ۝۰ۚ
وَيَقُوْلُوْنَ ھُوَمِنْ عِنْدِ اللہِ وَمَا ھُوَمِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۚ
وَيَـقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝۷۸
مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَہُ اللہُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ
ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللہِ
وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ
وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ۝۷۹ۙ 

ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔اورنہ اللہ تعالیٰ ان سے کلام کریں گے۔
نہ قیامت کے دن ان کی طرف نظرالتفات فرمائیں گے اور نہ ان کوگناہوں سے پاک کریں گے (یعنی معاف نہ کریں گے)
اوران کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
اور ان اہل کتاب میں بعض ایسے بھی ہیں جوکتاب توریت پڑھتے وقت (کچھ اس انداز سے) اپنی زبان کو الٹ پلٹ کر (اپنی من گھڑت باتیں بیان کرتے ہیں کہ ) تاکہ سننے والے خیال کریں کہ کتاب اللہ ہی کی عبارت سناتے ہیں۔ حالانکہ وہ کتاب میں لکھا ہوا نہیں ہوتا۔
اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوا۔اوروہ جانتے بوجھتے اللہ تعالیٰ کی نسبت ایسی جھوٹی باتیں کہتے ہیں۔

کسی انسان کے لئے یہ بات سزاوار نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اس کو کتاب علم وحکمت (سمجھ بوجھ راہ صواب) اور نبوت سے سر فراز فرمائیں۔
مگر وہ لوگوں سے کہتا پھرے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا تم میرے بندے بن جاؤ۔لیکن وہ تو یہ کہے گا کہ تم ربانین میں سے (اللہ والے) ہوجاؤ (اللہ ہی کو اپنا رب اورالٰہ مانو۔)
اس وجہ سے تم اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھے ہو ۔ اور اس لیے بھی کہ تم اس کا درس بھی دیتے ہو۔ 

وَلَا يَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ وَالنَّبِيّٖنَ اَرْبَابًا۝۰ۭ

اور وہ قطعاً تم کو کوئی ایسا حکم نہیں دیں گے کہ تم ملائکہ اور انبیاء علیہ السلام کوکارسازحاجت روا بناؤ ۔

وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ
لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَۃٍ
ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ

لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ۝۰ۭ
قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ۝۰ۭ

قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا۝۰ۭقَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰہِدِيْنَ۝۸۱

اور جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ
جب میں تم کو کتاب ودانائی عطا کروں
پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے۔ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی جو کتابیں ہیں ان کی تصدیق کرے (یعنی وہی تعلیم پیش کرے جو تحریف سے قبل تمہاری کتابوں میں تھی)
تو تمہیں اس پر ضرور ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔
(پھر اس اقرار کی ہم نے توثیق بھی کروائی) پوچھا کیا تم سب نے واقعی اقرار کرلیا اور اس اقرار پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری قبول کرلی؟
انھوں نے کہا ہاں ہم نے اقرار کرلیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا۔ تم اس عہد وپیمان کے گواہ رہو۔ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ 

فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۸۲

پھر اس اقرار کے بعد جو بھی بد عہدی کرے گا، ان سب کا شمار بدکرداروں میں ہوگا۔

توضیح :جب انبیاء علیہم السلام اس عہد کے پابند ہیں تو پھر اُن کی امتیں جو اس وقت موجود ہیں، ان کے لیے بھی نجات کی صرف یہی صورت ہے کہ وہ ان نبیٔ آخر الزماں پر ایمان لائیں۔ اور آپﷺ کی اتباع کریں۔

اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ

کیا یہ (کافر) اللہ تعالیٰ کے دین کے سوا کسی اور دین کی تلاش میں ہیں۔

وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَ۝۸۳ 

حالانکہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ چاروناچار اللہ تعالیٰ ہی کے حکم کے آگے جھکا ہوا ہے۔ قوانینِ الٰہی کا پابند ہے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

توضیح : سورۃ الفاتحہ الٰہی تعلیمات کا لب ِ لباب ہے۔ اور بندۂ عاجز ومحتاج کی ایک درخواست بھی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سکھائی ہے کہ اللہ ہی کی عبادت کی جائے اور اللہ تعالیٰ ہی سے استعانت چاہی جائے۔ 

قُلْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا

وَمَآ اُنْزِلَ عَلٰٓى اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ
وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَالنَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰۠
لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۝۰ۡوَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۝۸۴
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۝۰ۚ
وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۸۵

(ائے نبی ﷺ) کہئے ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور ان احکام پر بھی جو ہم پر نازل کیے گئے ہیں۔
اور ان صحیفوں پر بھی جو ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور ان کے دیگر افراد خاندان پر نازل کیے گئے۔
اور جو موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے دیئے گئے۔
ہم ان تمام انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور ہم تو اسی اللہ کے فرمانبردار ہیں۔

اور جو شخص بھی دین اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرے گا اس کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔
اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا ( ایسا نقصان جس کی تلافی کسی صورت میں بھی ممکن نہ ہوسکے گی۔ )

كَيْفَ يَہْدِي اللہُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِہِمْ

وَشَہِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۸۶ 

(ائے پیغمبر ﷺآپ تو چاہتے ہیں کہ اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو کیا ہی اچھا ہوتا لیکن) اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو کیسے ہدایت دے گا جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوجائے۔
اور(وہ اس سے پہلے) گواہی دے چکے ہیں کہ آپ سچے پیغمبر ہیں۔ اوران کے پاس (رسولِ برحق ہونے کے) دلائل آچکے ہیں (پھر بھی وہ روگرداں ہیں) اللہ تعالیٰ ایسی ظالم قوم کو کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتے۔ 

اُولٰۗىِٕكَ جَزَاۗؤُھُمْ اَنَّ عَلَيْہِمْ لَعْنَۃَ اللہِ

یہ ایسے مجرم ہیں ان کی جزاء تو یہی ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔

وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ۝۸۷ۙ
خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۚ
لَا يُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْظَرُوْنَ۝۸۸ۙ
اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا۝۰ۣ
فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۸۹

اور فرشتوں کی اور سارے انسانوں کی۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی لعنت میں پڑے رہیں گے۔
ان کے عذاب میں کسی طرح کی کمی نہ ہوگی اور نہ انھیں کسی طرح کی کوئی مدد حاصل ہوگی کہ عذاب سے نجات پاجائیں۔
ہاں وہ لوگ جنھوں نے کفر کے بعد توبہ کی (رسولؐ پر ایمان لائے) اور اپنے عقیدہ وعمل کی اصلاح کرلی۔
پھر (ان مراحل کے بعد) اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں(یعنی توبہ سے قبل کیے ہوئے گناہوں پر انھیں سزا نہ دیں گے)

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِہِمْ

ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُھُمْ۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الضَّاۗلُّوْنَ۝۹۰

جو لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے (یعنی اس بات کو تسلیم کرنے کے بعد کہ حضرت محمد رسول ؐ برحق ہیں، انکار کر گئے۔ )
پھر اپنے کفر میں بڑھتے ہی گئے (یعنی حق کو جانتے ہوئے بھی حق کی مخالفت میں شدت اختیار کی) ایسے لوگوں کی توبہ ہر گز قبول نہ ہوگی وہ سب گمراہ ہیں ۔

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَھَبًا وَّلَوِ افْتَدٰى بِہٖ۝۰ۭ
اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ وَّمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ۝۹۱ۧ

جو لوگ کافر ہوگئے اور اسی کفر کی حالت میں مرے۔
(آخرت میں ہونے والے عذاب سے بچنے کیلئے) ان میں کا ہر شخص فدیہ میں زمین بھر سونا بھی دینا چاہے گا تو اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائیگا۔
یہ وہ لوگ ہیں ان کے لیے آگ کا دردناک عذاب ہوگا۔
اور ان کیلئے (وہاں) کوئی کسی طرح کی مدد کرنے( یا بچانے) والا نہ ہوگا۔

توضیح :اہل ایمان کے ساتھ اہل کتاب کا مکر یہ بھی تھا کہ بہ سلسلۂ انفاق وہ ان سے کہتے تھے کہ معمولی سے معمولی اور حقیر چیزیں بھی اللہ کی راہ میں دی جائیں تو قبول ہوجاتی ہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو متنبہ فرمایا کہ ایسا نہیں ہے۔

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝۹۲
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ
اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِہٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىۃُ۝۰ۭ
قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىۃِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۹۳
فَمَنِ افْتَرٰى عَلَي اللہِ الْكَذِبَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۹۴۬
قُلْ صَدَقَ اللہُ۝۰ۣ
فَاتَّبِعُوْا مِلَّــۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝۰ۭ

وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۹۵

اور تم جو کچھ بھی (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کروگے یقیناً اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں (اس کا بدلہ ضرور دیں گے)
کھانے پینے کی یہ سب چیزیں (جو شریعت ِ محمدیہؐ میں حلال ہیں) بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں۔
سوائے ان چیزوں کے جنھیں خود بنی اسرائیل نے نزولِ توراۃ سے قبل اپنے آپ پر حرام کرلی تھیں۔
(ائے نبیﷺ) ان سے کہئے توراۃ لے آؤ پھر اس کو پڑھو اگر تم (اپنے اس اعتراض میں ) سچے ہو (بتاؤ ان کی حرمت کا بیان کہاں ہے)
لہٰذا جو کوئی اس (دلیل صحیح) کے بعد بھی اللہ تعالیٰ پر جھوٹی باتیں گھڑے گا تو ایسے سب لوگ ظالم ہیں۔

(ائے نبیﷺ) کہہ دیجئے اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا (جو کچھ بھی فرمایا)
لہٰذا ملت ابراہیمی کی اتباع کرو کہ ابراہیم ؑ سب سے یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ ہی کے ہوچکے تھے۔
وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔

اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ۝۹۶ۚ

ساری دنیا کے لوگوں کے لیے (بغرضِ عبادت) سب سے پہلا جو گھر بنایا گیا (اور جس کو مرکز ہدایت وبرکت قرار دیا گیا) وہ مکہ میں ہے۔

فِيْہِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِيْمَ۝۰ۥۚ
وَمَنْ دَخَلَہٗ كَانَ اٰمِنًا۝۰ۭ

وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا۝۰ۭ

اس میں کھلی نشانیاں ہیں۔ مقامِ ابراہیم بھی ہے(آج بھی مقام ابرہیم محفوظ ہے۔ جہاں طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے۔ )
اور جو شخص حدودِ حرم میں داخل ہوا۔ امن پالیا( اس کی جان ومال کی حفاظت ہوگئی)
اور اللہ تعالیٰ (ہی کی خوشنودی) کے لیے لوگوں پر حج بیت اللہ فرض کیا گیا ہے جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔

تشریح: استطاعت کے مفہوم میں جانے آنے، کھانے پینے اور واپسی تک متعلقین کے مصارف اور راستہ کا پر امن ہونا داخل ہے۔ اسی طرح سفر میں عورت کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو تو وہ بھی فریضۂ حق کی ادائی میں غیر مستطیع سمجھی جائے گی۔ کسی امرِ شرعی کی خلاف ورزی لازم آتی ہو تو یہ بھی عدم استطاعت میں داخل ہے۔

وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۝۹۷

اور جس کسی نے (فرضیت حج کا ) انکار کیا تو اللہ تعالیٰ سارے عالم سے بے نیاز ہے۔

توضیح :سارے جہاں کے انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگیںتو اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلالت وکبریائی میں ذرہ برابر کمی واقع نہیں ہوتی اور سارا جہاں عبادت میں سرنگوں ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلالت میں ذرہ برابر اضافہ نہیں ہوجاتا۔

قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ۝۰ۤۖ

وَاللہُ شَہِيْدٌ عَلٰي مَا تَعْمَلُوْنَ۝۹۸
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَھَا عِوَجًا
وَّاَنْتُمْ شُہَدَاۗءُ۝۰ۭ

کہیئے ائے اہل کتاب تم احکامِ الٰہی کا کس لیے انکار کرتے ہو۔ (حج اللہ تعالیٰ کا حکم اور ملت ابراہیمی ہے، مگر اہل کتاب مانتے نہ تھے۔ نہ ماننا کفر ہے۔)
اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔
کہیئے ائے اہل کتاب تم اللہ تعالیٰ کے راستہ سے ان لوگوں کو کیوں روکتے ہو جو ایمان لے آتے ہیں (دین اسلام اختیار کرتے ہیں) تم اس کو غلط ثابت کر دکھانے کی کوشش کرتے ہو۔ اور تم دین برحق (دین اسلام کی) شہادت دے چکے ہو۔
(جانتے ہو کہ محمد ﷺ نبیٔ برحق ہیں اور وہ جو بھی حکم دے رہے ہیں اکثر ملت ابراہیمی ہی ہے)

وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۹۹

اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے بے خبر نہیں ہیں (تمہیں اس کی سزا مل کر رہے گی)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِيْعُوْا فَرِيْقًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ يَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ كٰفِرِيْنَ۝۱۰۰

ائے ایمان والو اگر تم اہل کتاب کے کسی فریق کا کہنا مانوگے یعنی ان کے مشوروں، خیالات اور نظریات پر عمل کروگے تو وہ تم کو ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف پلٹادیں گے۔ (تمہارے متعلق ان کی یہی نفسیات ہیں)

وَكَيْفَ تَكْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللہِ وَفِيْكُمْ رَسُوْلُہٗ۝۰ۭ
وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللہِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۱۰۱ۧ

اور تم کیوں کفر کروگے جب کہ تم کواللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیںاور تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں۔
اور جو اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر مضبوطی کے ساتھ جما رہا تو وہ سیدھے راستے پر لگ گیا۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ
وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۰۲

ائے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کا پاس لحاظ رکھو۔ احکام کی خلاف ورزی کے انجام سے ڈرو۔ )
اور (تم میں یہ عزم ہونا چاہئے کہ ) تم مرتے دم تک اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بنے رہوگے۔

توضیح :باطل کے ہنگاموں میں دین ِ الٰہی پر استقامت اسی وقت نصیب ہوتی ہے جب کہ بندۂ مومن کتاب وسنت کی تعلیم پر مضبوطی کے ساتھ جما رہے۔ چاہے جان ومال، اولاد، گھر بار، عزت وآبرو کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠

اور تم سب اللہ تعالیٰ کی رسی (شریعت، اللہ تعالیٰ کی کتاب) کو مضبوطی سے پکڑے رہو۔ اور گروہ بندی نہ کرو( یا فرقوں میں نہ بٹ جاؤ ورنہ تفریق ملت کے بھنور میں پھنس جاؤگے)

وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ ۚ

اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو مستحضر رکھو جو اس نے تم کو عطا کی ہیں تو تم ایک دوسرے کے دشمن تھے (دین وایمان کی بدولت) اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی۔

فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰

اور تم اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔

وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ
فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۝۰ۭ
كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۝۱۰۳
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ
وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ
وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۴

حالانکہ تم (جہل وگمرہی کی وجہ ) دہکتی ہوئی آگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
مگر اللہ تعالیٰ نے تم کو اس میں گرنے سے بچالیا( تم پر بڑا فضل فرمایا)
اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنے احکام وضاحت کے ساتھ بیان فرماتے ہیں تا کہ تم ہدایت پاسکو۔
اور تم میں ضرور ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے۔
اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے بری باتوں سے روکے منع کرے۔
اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ۝۰ۭ
وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۱۰۵ۙ
يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ۝۰ۚ

فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ۝۰ۣ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ

اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنھوں نے (صاف وصریح احکام آجانے کے بعد) اختلاف کیا ( گروہ بندی میں مبتلا ہوئے)
واضح نشانیاں آجانے کے بعد
ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے۔
اس دن بعض چہرے (نورِ ایمان سے ) منور ہوں گے اور بعض (ظلمت وکفر کی وجہ ) سیاہ ہوں گے۔
تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے (ان سے پوچھا جائیگا) کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے تھے ؟

توضیح :یہ یہود ونصاری ہوں گے۔ بعثت محمدیہ ﷺ سے پہلے توریت وانجیل کی بشارتوں کی بناء پر رسالت محمدیہﷺ کی تصدیق کرتے تھے اور جب رسالت کا اعلان ہوا تو انکار کر بیٹھے۔

فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۝۱۰۶

(ان سے کہا جائے گا) انکارِ حق کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو ۔

توضیح :جو مسلمان کلماتِ کفر کہتے ہیں اور کتاب وسنت کے مطابق عقیدہ اختیار نہیں کرتے ان کا بھی شمار گمراہ فرقوں میں ہوگا۔

وَاَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِيْ رَحْمَۃِ اللہِ۝۰ۭ
ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ۝۱۰۷

اور (نورِ ایمان سے) جن کے چہرے روشن ہو ںگے، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت (اور اس کے فضل سے جنت ) میں داخل کئے جائیں گے۔
وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ (آرام کے ساتھ ) رہیں گے۔

تِلْكَ اٰيٰتُ اللہِ نَتْلُوْھَا عَلَيْكَ بِالْحَـقِّ۝۰ۭ
وَمَا اللہُ يُرِيْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۱۰۸

(ائے محمدﷺ) یہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں ہم آپ کو ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ اہل عالم پر ظلم کرنا نہیں چاہتے۔

توضیح :اللہ تعالیٰ اپنے احکام مرضیات ونامرضیات سے بندوں کو واقف کرادیتے ہیں۔ اس کے بعد بھی لوگ کج روی اختیار کریں تو وہ آپ اپنے ذمہ دار ہیں۔

وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝۱۰۹ۧ

جو کچھ زمین میں اور آسمانوں میں ہے وہ اللہ ہی کا ہے۔ اور تمام اُمور فیصلہ کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے پیش ہوں گے( کوئی بات اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ رہ سکے گی)

توضیح :کسی کی سعی وسفارش ومشورہ کے بغیر بندوں کے ناری وناجی ہونے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی بہ نفسِ نفیس فرمائیں گے۔

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ

تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ
مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۱۱۰

(ائے ایمان والو) جتنی امتیں پیدا ہوئی ہیں (ان سب میں) تم بہترین امت ہو۔ تم لوگوں کی (ہدایت) کے لیے پیدا کیے گئے ہو (دعوتِ حق کی یہی جدوجہد تمہارا طرۂ امتیاز ہے۔ )
تم نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں بری باتوں سے منع کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔
اگر اہل کتاب (بنی اسرائیل) تمہاری طرح ایمان لاتے تو انہی کے لیے بہتر ہوتا۔
ان میں ایمان والے تھوڑے ہیں اور ان کی اکثریت نافرمان ہے۔

لَنْ يَّضُرُّوْكُمْ اِلَّآ اَذًى۝۰ۭ

معمولی سے نقصان کے سوا وہ تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔

وَاِنْ يُّقَاتِلُوْكُمْ يُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَار۝۰ۣ ثُمَّ لَا يُنْصَرُوْنَ ۝۱۱۱
ضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّـۃُ اَيْنَ مَا ثُـقِفُوْٓا
اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ
وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ
وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الْمَسْكَنَۃُ۝۰ۭ
ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ
وَيَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ۝۰ۭ
ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ۝۱۱۲ۤ
لَيْسُوْا سَوَاۗءً۝۰ۭ
مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّۃٌ قَاۗىِٕمَۃٌ
يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللہِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ۝۱۱۳

اور اگر وہ تم سے لڑیں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔
پھر انھیںکہیں سے بھی مدد نہ ملے گی۔
(مسلسل شرارتوں کی وجہ ) ان پر ذلت وخواری مسلط کردی گئی( یہ جہاں کہیں بھی گئے ان پر ذلت کی مار پڑی۔ )
بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کے حال پر رحم کریں یا دوسرے لوگ ان کی مدد کریں۔
اور وہ غضب الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں۔
اور تنگدلی ذلت وخواری ان پر مسلط کی گئی۔
اللہ تعالیٰ کا یہ عتاب ان پر اس لیے آیا کہ انھوں نے تعلیمات الٰہی کا انکار کیا۔
اور انبیاء علیہم السلام کو قتل کرتے رہے۔یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔

وہ سب کے سب یکساں نہیں ہیں۔ان اہل کتاب میں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم ہیں۔
وہ رات کی ساعتوں میں اللہ تعالیٰ کی کتاب (تورات) کی تلاوت (صحیح معنی ومفہوم کے ساتھ ) کرتے ہیں اور اسی کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔

يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

(صحیح طور پر ) وہ اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں (یعنی ان کا ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت افترائی عقائد سے پاک ہے۔ )

وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ
وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ
وَيُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ۝۰ۭ

وَاُولٰۗىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۱۱۴ 

اور وہ نیکی کا حکم کرتے ہیں اور لوگوں کو برائی سے منع کرتے ہیں۔

اور وہ نیکیوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔

اور یہی لوگ نیکو کار وں میں سے ہیں۔

توضیح :یہودیوں میں سے کئی اشخاص توریت کے عالم اوراپنے دین پرقائم تھے۔ وہی لوگ اسلام میں داخل ہوئے ان میں سردار عبداللہ بن سلام تھے اللہ تعالیٰ جہاں اہل کتاب کی مذمت فرماتے ہیں۔ وہاں ان میں ایمان لانے والوں کی تعریف فرماتے ہیں ان آیات میں صالحین کے بنیادی اوصاف بیان فرمائے گئے ہیں۔
(۱) ایمان باللہ وایمان بالآخرت (۲) قیام نماز وقیام لیل (۳) تلاوتِ کلام اللہ (۴) امربالمعروف ونہی عن المنکر (۵)نیکیوں میں سبقت۔

وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُّكْفَرُوْہُ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالْمُتَّقِيْنَ۝۱۱۵
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِىَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآ اَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللہِ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ
وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ۝۱۱۶
مَثَلُ مَا يُنْفِقُوْنَ فِيْ ھٰذِہِ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيْحٍ فِيْھَا صِرٌّ

اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَاَھْلَكَتْہُ۝۰ۭ

اوروہ جوبھی نیک عمل کریں گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔اوراللہ تعالیٰ متقین کوخوب جانتے ہیں (انھیں بہتر سے بہتر جزاء دیں گے۔)
جولوگ کافر ہیں ان کے مال اوران کی اولاد انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہرگز ہرگز نہ بچاسکیں گے۔اوریہ سب لوگ جہنمی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ (اذیت پاتے) اسی میں رہیں گے۔(غیراللہ کی خوشنودی کے لیے) جولوگ دنیا میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا کی سی ہے جس میں سخت سردی ہو۔ (اتنی سرد کہ برف کی شکل اختیار کرے یا بادسموم کی طرح کہ جلادے لفظ صِرٌّ (دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے)

وہ ایسے ظالموں کی کھیتی پرچلے جواپنے آپ پرظلم کرتے ہیں۔ پھروہ اسے تباہ کردے۔

(جلادے یا جھلسادے محنت کا ثمرہ بھی حاصل نہ ہو۔ سراسر نقصان میں رہے)

وَمَا ظَلَمَھُمُ اللہُ وَلٰكِنْ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ۝۱۱۷

اللہ تعالیٰ نے ان پرظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود (انکار حق کے نتیجہ میں) اپنے آپ پرظلم کرتے رہے۔

(ان کے ا نفاق کا یہ انجام کچھ اس وجہ سے نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم کیا ہو)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا۝۰ۭ

ائے ایمان والو اہل ایمان کے سوا کسی غیر قوم کواپنا رازدار نہ بناؤ یہ تمہاری تباہی وبربادی میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھتے۔

وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ۝۰ۚ
قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاۗءُ مِنْ اَفْوَاہِھِمْ۝۰ۚ ۖ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُھُمْ اَكْبَرُ۝۰ۭ

قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۱۱۸

وہ چاہتے ہیں کہ تم مشقت ومصائب میں مبتلا ہوجاؤ۔
ان کی زبانوں سے بغض وعداوت کا اظہار ہوتا ہے۔
(یہی نہیں بلکہ) جوکینہ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے زیادہ ہے۔
تمہارے متعلق (ان کی جونفسیات ہیں) وضاحت کے ساتھ ہم نے ان کی نشاندہی کردی ہے۔ اگرتم سمجھ بوجھ سے کام لوگے (تودشمن کودوست نہ بناؤگے)

ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ
وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّہٖ۝۰ۚ

تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ان لوگوں سے تودوستی رکھتے ہو، (حالانکہ) وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے۔
اورتم ساری کتابوں پرایمان رکھتے ہو( سب کتابوں کومانتے ہو) اوروہ تمہاری کتابوں کونہیں مانتے۔

وَاِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْٓااٰمَنَّا۝۰ۚۤۖ

وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظ۝۰ۭ

قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۱۱۹
اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَـنَۃٌ تَـسُؤْھُمْ۝۰ۡ

اور(ان کی منافقت کا یہ حال ہے کہ )وہ جب تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں ہم ایمان لائے۔
اورجب وہ تمہارے پاس سے چلے جاتے ہیں توغصہ کے مارے جوتمہارے خلاف ان کے دلوں میں بھرا ہوا ہے، اپنی انگلیوں کوکاٹ کاٹ کراپنے غیض وغضب کا اظہار کرتے ہیں۔
ان سے کہئے تم اپنے ہی غیظ وغضب میں جل مرو۔
بے شک اللہ تعالیٰ دلوں کے رازوں سے واقف ہیں۔
اگر تم کوکوئی بھلائی پہنچتی ہے توانھیں سخت ناگوار ہوتا ہے۔

وَاِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَۃٌ يَّفْرَحُوْا بِھَا۝۰ۭ
وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ۝۱۲۰ۧ

اوراگر تم پرکوئی مصیبت آتی ہے تووہ خوش ہوتے ہیں۔ (ان کی نفسیات ہی یہ ہیں کہ تم مبتلائے مصائب رہو)
اور اگر تم (مصائب میں) صبر سے کام لو اور (ان کی فریب کاریوں سے) بچتے رہو تو ان کا مکروفریب، تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکے گا۔
وہ جوکچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پراحاطہ کیے ہوئے ہیں۔ (ان کا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جوان کے نامۂ اعمال میں نہ لکھا گیا ہو وہ کسی طرح بچ نہیں سکتے۔)

وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِكَ

تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ۝۰ۭ
وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۱۲۱ۙ

اور(وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب کہ ائے نبیﷺ آپؐ صبح سویرے مدینہ سے نکل گئے۔
میدان جنگ میں مومنین کی مورچہ بندی کررہے تھے۔

اور(اس وقت تم آپس میں جوگفتگو کررہے تھے اورتمہاری جوقلبی کیفیتیں تھیں، وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔) اللہ تعالیٰ سننے اورجاننے والے ہیں۔

اِذْ ھَمَّتْ طَّاۗىِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا۝۰ۙ وَاللہُ وَلِيُّہُمَا۝۰ۭ

وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۱۲۲

اس وقت تم میں سے دوجماعتوں نے ہمت ہاردی، (یعنی میدان جنگ سے واپس ہوجانا چاہا۔)
اوراللہ تعالیٰ نے ان کی خیر خواہی کی ان کوبچالیا (انھیں اس ارادہ سے بازرکھا)
اوراہل ایمان کواللہ تعالیٰ ہی پربھروسہ رکھنا چاہئے۔

توضیح : یہ جنگ احد کا واقعہ ہے۔ جنگ بدرکی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اہل مکہ خاص اہتمام کے ساتھ مدینہ پرحملہ آور ہوئے تھے۔
نبی کریم ﷺ کی رائے تھی کہ مدینہ ہی میں قلعہ بند ہوکر لڑیں لیکن اکثریت کی رائے یہ تھی کہ مدینہ سے باہر ہی مقابلہ کیا جانا چاہئے۔

عبداللہ بن ابیٔ جومنافقین کا سردار تھاوہ بھی اپنے تین سوساتھیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جمعیت میں شریک مشورہ تھا۔ اس کی بھی رائے یہی تھی کہ مدینہ میں قلعہ بند ہوکر لڑنا چاہئے جب اس کی رائے پرعمل نہیں ہوا اور یہ طے پاگیا کہ مدینہ سے باہر مقابلہ کیا جائے گا توعبداللہ بن ابیٔ اول توساتھ ہولیا لیکن بیچ راستے سے اپنے تین سوساتھیوں کولے کرواپس لوٹ گیا۔ اس کے ساتھیوں کوملا کر مسلمانوں کی کل جمعیت ایک ہزار تھی اورمشرکین مکہ کی تعداد تین ہزار۔
صحابہ کی فوج سے عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں کے نکل جانے سے مسلمانوں کی تعداد صرف سات سورہ گئی جس کی وجہ سے مسلمانوں کے دوقبیلوں نے واپس جانے کا ارادہ کیا تھا پھر بہ توفیق الٰہی وہ اپنی رائے سے باز آگئے اور شریک جنگ رہے۔

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّــۃٌ۝۰ۚ

ائے ایمان والو! یقیناً جنگ بدرمیں اللہ تعالیٰ تمہاری مددکرچکے ہیں۔ جب کہ تم (عددی اعتبار سے) بہت ہی کم بے سروسامان تھے۔

( اب اگرتمہاری تعداد کم ہے توگھبرانے کی کیا وجہ ہے۔ تم کواسباب سے ہٹ کراللہ تعالیٰ ہی پربھروسہ کرنا چاہئے۔کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ غزوۂ بدر میں تم تعداد میں بہت کم تھے سامانِ حرب بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد کی تھی)

فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۲۳

اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُـمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُنْزَلِيْنَ۝۱۲۴ۭ
بَلٰٓى۝۰ۙ اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا

وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُسَوِّمِيْنَ۝۱۲۵

لہٰذا اللہ تعالیٰ کے احکام کا پاس رکھو (ہمت نہ ہارو ڈٹ کرمقابلہ کرو یہ تعلیم تم کواس لیے دی جاتی ہے) تا کہ تم (احسانوں کو یاد کر کے) شکر کرو۔
(ائے نبیﷺ) جب آپؐ اہل ایمان کویہ اطمینان دلارہے تھے۔
کیا تمہارے (اطمینان کے لیے) یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تم کوتین ہزار فرشتوں سے مدد دے جو پے درپے آسمان سے اترتے رہیں گے۔
ہاں اگر تم صبر سے کام لو (دل کومضبوط رکھو) اورتقویٰ اختیار کرو(یعنی کوئی کام مرضیات الٰہی کے خلاف نہ کرو نصرت الٰہی تمہارے شامل حال رہیگی)
اوریہ کافر تم پردفعتاً حملہ کربیٹھیں تو(تین ہزار ہی نہیں بلکہ) پانچ ہزار فرشتوں سے تمہارا پروردگار تمہاری مدد کرے گا۔ جن پر خصوصی نشان لگائے گئے ہوں گے۔

وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَلِتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ

اوراس مدد کواللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے خوشی کا ذریعہ بنایا ۔اور اس لیے بھی کہ اس سے تمہارے دلوں کواطمینان حاصل ہو ۔

وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۝۱۲۶ۙ

نصرت ومدد تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ جو بڑی زبردست حکمت والا ہے (بلا اسباب ظاہری بھی تمہاری مدد کرنے پر قادر ہے۔)

لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْ يَكْبِتَھُمْ فَيَنْقَلِبُوْا خَاۗىِٕــبِيْنَ۝۱۲۷

تاکہ کافروں کی ایک جماعت کونیست ونابود کرے۔ یا انھیں ذلیل وخوار کردے پھروہ شکست کھا کر ناکام لوٹ جائیں ۔

توضیح : معرکۂ احد میں جب کہ کفار دوبارہ حملہ کررہے تھے مسلمانوں کوہزیمت ہورہی تھی۔ خود حضورؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے۔ اس وقت قریب تھا کہ حضورؐ کفار کے حق میں بددعا کریں لیکن اللہ تعالیٰ کویہ بھی پسند نہیں چنانچہ ارشاد ہے۔

لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ
اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۱۲۸

(ائے نبیﷺ) تجاویز الٰہی میں آپ کوکوئی اختیار نہیں۔
خواہ (اللہ تعالیٰ) ان کے حال پرمہربانی کرے یا انھیں عذاب دے بہرحال وہ توظالم ہیں( ان پررحم کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں)

توضیح :تجاویز الٰہی میں آپؐ کوکوئی اختیار نہیں ہے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی بندہ کتنا ہی مقرب الٰہی کیوں نہ ہو اس کواللہ تعالیٰ کے قانون مغفرت وعذاب میں کسی قسم کا دخل یا اختیار نہیں ہے۔ افضل الانبیاء کے متعلق اس طرح کا ارشاد ہے توماوشما کا کیا ذکر۔

وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ
يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۲۹ۧ

جوکچھ آسمانوں اورزمین میں ہے سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

وہ جس کوچاہے معاف کردے اور جس کوچاہے عذاب دے۔ اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم کرنے والے ہیں۔

توضیح : کسی کومعاف کردینا عذاب دینا اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ اس میں کوئی کسی طرح بھی شریک ودخیل نہیں ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً۝۰۠
وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۳۰ۚ

ائے ایمان والو سود نہ کھاؤ (خواہ وہ) تھوڑا ہویا بہت کہ تھوڑا بھی زیادہ سود کی طرح حرام ہے۔

اوراللہ تعالیٰ سے ڈرو(یعنی احکام الٰہی کی خلاف ورزی کے نتائج کو پیش نظررکھو۔ یہ تعلیم تم کواس لیے دی جارہی ہے) تا کہ تم فلاح آخرت حاصل کرسکو۔

وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ۝۱۳۱ۚ

اور(دوزخ کی) اس آگ سے بچو جوکافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

وَاَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۳۲ۚ

اوراللہ ورسول کی اطاعت کرو۔ امید ہے کہ تم رحم کیے جاؤ۔

توضیح : اطاعت سے انحراف کفر ہے اوررحمت الٰہی مشروط بہ اطاعت۔ اس آیۂ کریمہ کے اولین مخاطب صحابہ کرام ہیں۔ جوطاعت ِالٰہی میں پیش پیش تھے۔ پھرماوشما کے لیے ضروری ونہایت ضروری ہے کہ رحمت حق کوپانے کے لیے ہرشعبۂ حیات میں اللہ ورسول کی پوری پوری اطاعت کریں۔

وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝۰ۙ
اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ۝۱۳۳ۙ
الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ
وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ۝۰ۭ
وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۳۴ۚ

اوراپنے پروردگارکی بخشش کی طرف سبقت کرو۔اوراس جنت کے حصول میں کوشش کروجس کی وسعت تمام آسمانوں اورزمین کے برابر ہے۔
اوروہ متقین کے لیے تیارکی گئی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جوخوشحالی وبدحالی (ہرحال) میں (اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں (تنگدستی کوانفاق نہ کرنے کا بہانہ نہیں بناتے)
اوروہ اپنے غصہ پرقابو پاتے ہیں اورلوگوں کے قصور معاف کردیا کرتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ نیکوکاروں کوپسند فرماتے ہیں۔

توضیح : قتال کے موقع پرغصہ پی جانے، خطاؤں سے درگزرکرنے، برائیوں کا بدلہ بھلائیوں سے دینے کی ہدایت اس لیے فرمائی گئی ہے کہ مقابلہ انھیں کفار سے تھا جن کی صورت دیکھتے ہی ان کی شرارت یاد آجاتی۔
غصہ کی آگ بھڑک اٹھتی ان کے ساتھ کوئی نیک سلوک نہ کرنے کا جذبہ ابھرآتا۔ اس لیے مجاہدین کے سامنے مذکورہ اوصاف کورکھا گیا۔ جہاد ذاتی اغراض ومقابلے کے لیے نہیں ہونا چاہئے اور نہ اس میں اپنے نفس کا دخل ہو۔

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللہَ

اوریہ وہ لوگ ہیں کہ جب کوئی گناہ کبیرہ کربیٹھتے ہیں یا اپنے حق میں برائی کرجاتے ہیں تو(فورا ہی اللہ تعالیٰ کویاد کرلیتے ہیں۔( یعنی نماز پڑھ کر)اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے ہیں۔ (یہاں ذکراللہ سے مراد  اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْری ہے میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔

فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ۝۰۠
وَمَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہُ۝۰ۣ۠ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا
وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝۱۳۵
اُولٰۗىِٕكَ جَزَاۗؤُھُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ

وَجَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا۝۰ۭ

پس اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہو۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کون گناہوں کومعاف کرسکتا ہے؟
اوروہ اپنی معصیت پراڑے نہیں رہتے۔
اوروہ جانتے ہیں (کہ گناہوں پراڑے رہنا قہرالٰہی کودعوت دینا ہے)
ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے نیک اعمال کی جزاء مغفرت ہے۔
اورباغ ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (جس کا نہایت ہی خوش کن منظرہوگا)

توضیح : دودھ، شہد، پاکیزہ شراب اورشفاف پانی کی نہریں ہوں گی ۔ دودھ جانوروں کے تھن سے نکالا ہوا نہ ہوگا اور شراب پھلوں کوسڑا کربنائی گئی نہ ہوگی۔ بلکہ ان کی قدرتی نہریں ہوں گی۔ نیز شہد مکھیوں کے پیٹ سے نکالا ہوا نہ ہوگا۔

وَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ۝۱۳۶ۭ

اچھے عمل کرنے والوں کا اجر بھی کیا ہی اچھا ہوگا۔

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ۝۰ۙ

فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُكَذِّبِيْنَ۝۱۳۷

(کش مکش حق وباطل کے واقعات کچھ آج ہی پیش نہیں آرہے ہیں) تم سے پہلے ایسے واقعات گزرچکے ہیں۔
توتم زمین پرچل پھرکردیکھو (پیغمبروں اوران کی تعلیمات کو) جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔

توضیح :ان کی اجڑی ہوئی بستیوں کے نشان آج بھی موجود ہیں قوم عاد، ثمود ولوط وغیرہ

ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۱۳۸

(قرآن کا) یہ بیان (صریح ہدایت وموعظت دنیا کے) تمام انسانوں کے لیے (ہے لیکن) ہدایت ونصیحت (انھیں کے لیے کارگرہوتی )ہے جو(اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام بد سے) ڈرتے ہیں۔

(جیسا کہ ارشاد ہے ) سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَّخْشٰى۝۱۰ۙ وَيَتَجَنَّبُہَا الْاَشْقَى۝۱۱ۙ الَّذِيْ يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى۝۱۲ۚ (سورۃ الاعلیٰ)
نصیحت وہی حاصل کرتا ہے جواپنے نقصان سے ڈرتا ہے اور نہایت ہی بدبخت ہے وہ جونصیحتوں سے گریز کرتا ہے جو قیامت میں دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔

وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۳۹

اور(اگر تمہارے مقابل کافرزیادہ ہیں تو) نہ تم ہمت ہارواورنہ رنج کرواورتم ہی غالب رہوگے اگر تم سچے مومن ہو، (تائید الٰہی تمہارے شامل حال رہے گی۔)

توضیح : بحالت جنگ اضطراری حالت کے ایسے موقعوں پراللہ تعالیٰ کا اطمینان دلانا جوہری توانائی سے کہیں زیادہ قوت بخش ہے۔

اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۝۰ۭ
وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۚ
وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا

(ائے ایمان والو اس جنگ میں) اگرتم کوزخم آئے ہیں تو(جنگ بدر میں) فریق مخالف بھی اسی طرح زخمی ہوچکے ہیں۔
اورہم ایام کولوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں، (اتارچڑھاؤہوتا رہتا ہے کبھی فتح کبھی شکست۔)
اور اس سے یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کوآزمائے۔

وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۝۰ۭ
وَاللہُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۴۰ۙ

اورتم سے بعض کوشہادت کا درجہ عطا کرے۔
اوراللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کوپسند نہیں فرماتے۔

توضیح : کافروں کوشکست نہ بھی ہوتویہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو پسند کرتے ہیں۔ وہ تواللہ تعالیٰ کی نظروں میں ناپسندیدہ ہیں ہی۔

وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۝۰ۭ
وَاللہُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۴۰ۙ

اورتم سے بعض کوشہادت کا درجہ عطا کرے۔
اوراللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کوپسند نہیں فرماتے۔

توضیح : کافروں کوشکست نہ بھی ہوتویہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو پسند کرتے ہیں۔ وہ تواللہ تعالیٰ کی نظروں میں ناپسندیدہ ہیں ہی۔

وَلِيُمَحِّصَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ۝۱۴۱
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ

وَلَمَّا يَعْلَمِ اللہُ الَّذِيْنَ جٰہَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۴۲

اوریہ بھی مقصود تھا کہ مومنوں کے ایمان کونکھارے۔ اور کافروں کومٹادے (ان کا زور توڑدے)
کیا تم یہ سمجھتے ہوکہ (آزمائش کے بغیر) یوں ہی جنت میں داخل کردیئے جاؤگے۔
حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی آزمائش نہیں کی ہے جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور نہ یہ دیکھا ہے کہ تم دشمن کے مقابلے میں کس قدرثبات قدمی سے کام لیتے ہو۔

توضیح : بہ سلسلۂ جہاد جان ومال، عزت وآبرو کے ہر نقصان کوبہ طیب خاطرگوارہ کیے بغیر کیا تم سمجھتے ہو کہ صرف روزے نمازوں سے تمہارے لیے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ہرگزنہیں۔ دین کے بنیادی اعمال نماز، روزہ، زکوۃ، حج تم کومرد مجاہد بنانے اور تمہارے اندر تنظیم پیدا کرنے کے لیے ہیں۔

وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَـمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہُ۝۰۠
فَقَدْ رَاَيْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۱۴۳ۧ

اورتم اپنی موت سے پہلے شہادت کے تمنائی تھے۔

لیکن جب تم نے اس کو دیکھ لیا توحیرت زدہ رہ گئے۔

توضیح : جنگ احد میں ایک صحابی حضرت مصعبؓ بن عمیر جورسول اللہﷺ سے صورت شکل میں مشابہ تھے، شہید ہوگئے تودشمنوں نے یہ خبر مشہورکردی کہ رسول اللہﷺ قتل کردیئے گئے۔ اس خبر کا صحابہ کرام پرایسا اثرہوا کہ گویا ان پرایک بجلی سی گری۔ بعض حضرات اپنے دل میں خیال کررہے تھے کہ اب لڑنے یا زندہ رہنے سے کیا حاصل ؟ ا س رکوع کے ابتدائی بیان میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۝۰ۭ
اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ
عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ۝۰ۭ
وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْہِ
فَلَنْ يَّضُرَّ اللہَ شَـيْـــًٔـا۝۰ۭ
وَسَيَجْزِي اللہُ الشّٰكِرِيْنَ۝۱۴۴

اورمحمدﷺ توصرف اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں۔
آپؐ سے پہلے بہت سے رسول گزرچکے ہیں۔
اگرآپؐ کا انتقال ہوجائے یا آپؐ شہید ہوجائیں توکیا
تم الٹے پاؤں پھرجاؤگے (یعنی مرتد ہوجاؤگے۔)
اورجوکوئی الٹا پھرجائے گا (یعنی مرتد ہوجائے گا۔)
تووہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا (اپنی خرابی کا آپ درپے ہوگا۔)
اوراللہ تعالیٰ شکرگزاربندوں کوجلد ہی جزائے خیردیں گے۔

توضیح : ایسے نازک حالات میں دین الٰہی پرمضبوطی کے ساتھ جمے رہنے کواللہ تعالیٰ شکرگزاری قراردیتے ہیں۔

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا۝۰ۭ
وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا۝۰ۚ

وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا۝۰ۚ وَسَنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ۝۱۴۵ 

اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی شخص مرنہیں سکتا ۔ اس کا وقت لکھا ہوا ہے۔

اورجوشخص دنیا میں اپنے اعمال کا بدلہ چاہتا ہے، ہم اس کو دنیا ہی میں دے دیتے ہیں (مگرہرطالب دنیا کواس کی طلب کے مطابق دنیا بھی نہیں دی جاتی ہاں جس قدر اللہ تعالیٰ چاہے۔)
اورجوشخص آخرت کا بدل چاہتا ہے ہم اس کو وہاں عطا کریں گے۔ اورہم عنقریب شکرگزاروں کو(نہایت ہی اچھا) صلہ دیں گے۔

وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ۝۰ۙ مَعَہٗ رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ۝۰ۚ

اورکئی ایک نبی ایسے گزرے ہیں جن کے ساتھ ہوکر بہت سے اللہ والوں نے کفار کے مقابلہ میں جنگ کی ہے۔

توضیح : حق وباطل کے معرکے اور جدال وقتال کی صعوبتیں نہ صرف محمدﷺ اور آپؐ کے اصحاب کوپیش آئیں۔ بلکہ ہردور میں بہت سے اہل حق اپنے اپنے نبیوں کے ساتھ جہاد وقتال کرتے رہے۔

فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ
وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا۝۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۴۶
وَمَا كَانَ قَوْلَھُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا
وَاِسْرَافَنَا فِيْٓ اَمْرِنَا
وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا
وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝۱۴۷

اللہ تعالیٰ کی راہ میں جومصیبتیں ان پرواقع ہوئیں، ان سے نہ تووہ پست ہمت ہوئے۔
اورنہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ (کافروں سے) دبے
اور اللہ تعالیٰ صبرواستقامت سے کام لینے والوں کوپسند فرماتے ہیں۔
اورجب وہ دشمنوں کے مقابل ہوئے توان کی زبان پریہی کلمات رہے ائے ہمارے پروردگار ہمارے گناہوں کومعاف فرما۔
اورجوزیادتی ہم نے اپنے کاموں میں کی ہے۔ اسے درگزر فرما۔اور(دشمن کے مقابلے میں) ہم کوثابت قدم رکھئے۔
اورکافروں کے مقابل ہماری مدد کیجئے (فتح ونصرت بخشئے)

فَاٰتٰىھُمُ اللہُ ثَوَابَ الدُّنْيَا
وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ۝۰ۭ
وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۴۸ۧ

پھراللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی انھیں اچھا بدلہ دیا (کافروں پرفتح بخشی)
اورآخرت کا بدل توبہتر سے بہترہے ہی۔
اوراللہ تعالیٰ نیکوکاروں کودوست رکھتے ہیں۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِيْعُوا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
يَرُدُّوْكُمْ عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ۝۱۴۹

ائے وہ لوگو جوایمان لائے ہواگر تم کافروں کا کہنا مان لوگے (یعنی ان کی اڑائی ہوئی غلط خبروں پریقین کرلوگے تو
تووہ تم کوالٹے پاؤں پھرا کر(مرتد) بنادیں گے پھرتم نا کام ہوجاؤگے۔

توضیح :جنگ احد میں رسولﷺ نے کوہ احد کی گھاٹی پرتیراندازوں کا ایک دستہ متعین فرمادیا تھا۔ اورتاکید کی تھی کہ فتح ہویا شکست گھاٹی سے نہ اترنا۔ پہلے ہی حملہ میں کافروں کوشکست ہوئی۔ مسلمان مالِ غنیمت کے لوٹنے میں مشغول ہوگئے۔

یہ حال دیکھ کرتیرانداز بھی مورچہ چھوڑمال غنیمت جمع کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ جوان کے سپہ سالار تھے، انھیں روکنے کی بہیترے کوشش کی مگرانہوں نے نہ مانا، گھاٹی سے نیچے اترآئے ان اصحاب کا استدلال یہ تھا کہ آپؐ کے تاکیدی حکم کا منشاء فتح ہونے تک ہی گھاٹی پرمورچہ بنائے رکھنا تھا خالد بن ولید نے (جواس وقت تک کفار میں تھے) گھاٹی کوخالی پا کر پیچھے سے حملہ کردیا۔ گھاٹی پردس تیرانداز جورہ گئے تھے، مقابلہ میں شہید ہوگئے۔ اچانک غیرمتوقع حملہ سے مسلمانوں میں بھگدڑمچ گئی۔ اوربھاگے ہوئے کافر پھرجمع ہوگئے۔ جنگ کا نقشہ بدل گیا رسول اللہﷺ کے تاکیدی حکم کی غلط تاویل کے نتیجہ میں فتح شکست کی صورت اختیار کرگئی۔ مسلمانوں کے ہوش اڑگئے۔ بڑی بدحواسی پھیل گئی۔ آپؐ گرپڑے۔چہرۂ مبارک زخمی ہوگیا۔ چاردندان مبارک شہید ہوگئے۔ خَود کی کڑیاںسراقدس میں دھنس گئیں۔ کافرومنافقین نے آپؐ کے شہید ہونے کی غلط خبر اڑائی۔ اورمشہورکیا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے رسول ہوتے تونہ مرتے۔ آپؐ نے فتح ونصرت کے غلط وعدے کئے تھے۔ اہل مکہ غالب آگئے۔ اب تمہیں اپنا قدیم مذہب اختیار کیے بغیر چارہ نہیں ہم تمہارے دوست وخیرخواہ ہیں۔ ہم اور تم ایک ہی توتھے وغیرہ۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ مسلمانو ! کافروں کا کہنا نہ مانو۔ ان کے فریب میں نہ آؤ ورنہ وہ تم کوپھرکفرکی طرف لوٹادیں گے۔ پھر تم بڑے خسارے میں پڑجاؤگے۔

بَلِ اللہُ مَوْلٰىكُمْ۝۰ۚ وَھُوَخَيْرُ النّٰصِرِيْنَ۝۱۵۰

سَـنُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ
بِمَآ اَشْرَكُوْا بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا۝۰ۚ
وَمَاْوٰىھُمُ النَّارُ۝۰ۭ وَبِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِــمِيْنَ۝۱۵۱

بلکہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارے دوست وخیر خواہ ہیں اور وہی تمہاری بہترین مدد کرنے والے ہیں۔ کافرجھوٹے ہیں وہ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔
ہم ابھی کافروں کے قلوب میں (تمہارا) رعب پیدا کیے دیتے ہیں۔

اس سبب سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ جس کی کوئی سند جواز اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں کی ۔
(اس مشرکانہ عقیدہ کی بنا پر) ان ظالموں کا ابدی ٹھکانا نار ہے اوروہ کیا ہی بری جگہ ہے۔

وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللہُ وَعْدَہٗٓ
اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِـاِذْنِہٖ۝۰ۚ
حَتّٰٓي اِذَا فَشِلْتُمْ

اور(کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تواپنا وعدۂ(نصرت) سچ کردکھایا۔
جب کہ تم کافروں کواللہ تعالیٰ کے حکم سے قتل کررہے تھے۔
تا آنکہ (مال غنیمت کی ہوس میں) تم میں ذراسی بزدلی پیدا ہوگئی۔

وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ
وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ۝۰ۭ
مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الدُّنْيَا
وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۚ
ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْھُمْ لِـيَبْتَلِيَكُمْ۝۰ۚ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ۝۰ۭ

اورتم نے (نبی کے) ایک امرمحکم کودنیا کی طرف مائل ہوکر نزاعی بنالیا۔
اورتم نے رسول کے حکم کی خلاف ورزی اس وقت کی جب کہ تمہاری مرضی کے مطابق تم کودشمن پرکامیابی حاصل ہوئی۔
تم میں بعض تودنیا کے خواستگار تھے۔ اورتم میں بعض طالب آخرت۔

پھراللہ تعالیٰ نے تم کوان (کے مقابلہ) سے بچالیا تا کہ تمہارے صبروثبات کا امتحان لے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہاری لغزش معاف کردی۔

توضیح : تمہارے دشمنوں کے دست وبرد سے محفوظ رکھا۔ ورنہ کافرتمہارا نام ونشان بھی باقی نہ رکھتے دشمن قابو پانے کے بعد کسی مزاحمت کے بغیر خود ہی پسپا ہوکر دفع ہوگئے۔

وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۵۲

اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلَا تَلْوٗنَ عَلٰٓي اَحَدٍ

وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ

فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ

اورواقعی اللہ تعالیٰ مومنوں پربڑا ہی فضل فرمانے والے ہیں (بڑی نظرعنایت رکھتے ہیں)
(وہ کیسی پریشانی کا وقت تھا) جب کہ تم میدان چھوڑکر بھاگے چلے جارہے تھے اورمڑکربھی دیکھتے نہ تھے۔
اوررسولؐ تم کوتمہارے پیچھے کھڑے پکار رہے تھے۔
(اللہ تعالیٰ کے بندومیری طرف آؤ۔ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں)
تو(رسول اللہﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں) اللہ تعالیٰ نے تمہیں رنج پررنج پہنچایا۔

توضیح : ہزیمت کا رنج۔ نبیؐ کے شہید ہونے کی غلط خبر کا رنج، کثیرتعداد میں شہید وزخمی ہوجانے والوں کا رنج۔ اس بات کا رنج کہ اب گھروں کی بھی خیر نہیں تین ہزار دشمنانِ دین سے مقابلہ اتنی تعداد میں مدینہ کی آبادی بھی نہ تھی۔

لِّكَيْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَآ اَصَابَكُمْ۝۰ۭ 

وَاللہُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۱۵۳

تا کہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے یا جوبھی مصیبت تم پرواقع ہو تو اس سے غمزدہ نہ ہوں(کیونکہ دنیا کے نقصانات یا دنیا کی مصیبتوں پروہی لوگ واویلا مچاتے ہیں جوطالب دنیا اور آخرت فراموش ہوتے ہیں)

جوکچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے با خبر ہیں۔

ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً
نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَاۗىِٕفَۃً مِّنْكُمْ۝۰ۙ

پھرپریشانی کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم پر امن وسکون نازل فرمایا۔

تم میں سے ایک جماعت پراونگھ ونیند طاری کردی( جس سے خوف جاتا رہا)

توضیح : زخموں سے چور ،کرب واذیت میں رات گزارنے کے بجائے نیند طاری کردی تاکہ بیداری کے بعد تازہ دم ہوجائیں۔

وَطَاۗىِٕفَۃٌ قَدْ اَہَمَّـتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ يَظُنُّوْنَ بِاللہِ غَيْرَ الْحَـقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِيَّۃِ۝۰ۭ
يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍ۝۰ۭ
قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّہٗ لِلہِ۝۰ۭ

اورایک جماعت ایسی تھی جسے اپنی ہی جان کی فکر تھی۔
وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں زمانہ جاہلیت کی طرح بدگمانی میں مبتلا تھے۔
وہ کہتے ہیں کیا (قضا وقدر میں) ہم کوبھی کچھ اختیار ہے؟
( ائے نبیﷺ) کہہ دیجئے سارے اختیارات اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں۔

يُخْفُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِھِمْ مَّا لَا يُبْدُوْنَ لَكَ۝۰ۭ
يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰہُنَا۝۰ۭ
قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ۝۰ۚ
وَلِــيَـبْتَلِيَ اللہُ مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ

یہ لوگ اپنے دلوں میں ایسی باتیں چھپائے رکھتے ہیں، جو آپؐ پر ظاہر نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں اگر ہمارے لیے کسی طرح کا اختیار ہوتا توہم یہاں اس طرح مارے نہ جاتے (زخم خور دہ نہ ہوتے)
ان سے کہئے اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تووہ اشخاص جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا جاچکا ہے(کشاں کشاں) اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے۔
اوراللہ تعالیٰ نے چاہا کہ جوکچھ کمزوریاں تمہارے دلوں میں ہیں۔ ایک آزمائش کے ذریعہ تم پرواضح کردے۔

وَلِـيُمَحِّصَ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ۝۰ۭ

وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۱۵۴

اورجوکچھ آلودگی تمہارے دلوں میں ہے، اس سے تمہیں پاک وصاف کردے۔
اوراللہ تعالیٰ دلوں کے احوال سے پوری طرح واقف ہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ۝۰ۙ
اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّـيْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا۝۰ۚ

تم میں سے جولوگ مقابلہ کے دن پیٹھ پھیر کربھاگے تھے۔
ان کے بعض اعمال کی وجہ سے شیطان نے ان میں لغزش پیدا کردی تھی۔

توضیح : چونکہ ان کا بھاگنا کفروارتداد کی وجہ سے نہ تھا۔ اس لیے میدان کارزارکی گرماگرمی دیکھ کرپھر وہ واپس لوٹ آئے۔

وَلَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْھُمْ۝۰ۭ
اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝۱۵۵ۧ

یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان کا قصور معاف کردیا۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے حلیم ہیں۔ یعنی اپنے بندوں کی خطاؤں سے درگزرکرتے اوربہ کمال حلم گوارا بھی فرمالیتے ہیں۔

توضیح : اس رکوع کی آخری آیت میں صحابہ کرام کے میدان چھوڑکرچلے جانے کا ذکر ہے۔ اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّـيْطٰنُیہاں لفظ زل استعمال ہوا ہے۔ کلام الٰہی میں بعض مقامات پرشیطان کے تعلق سے تسلط کا لفظ بھی آیا ہے ان دونوں الفاظ کے فرق کواچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ زل کا مطلب یہ ہے کہ کوئی راہ چلتا کسی لغزش کے سبب گر پڑے۔ پھر سنبھل کراٹھ کھڑا ہو اور اسی راہ پر پھرسے گامزن ہو۔ شیطان کا تسلط یہ ہے کہ راہ سے بے راہ ہی ہوجائے۔(گمراہی میں پڑجائے) حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ میں بھی زل ہی استعمال ہوا ہے۔ فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ۔ شیطان ان دونوں کے لیے ایک لغزش پیدا کی تھی۔ یہاں بھی شیطان کے مسلط ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ اس فرق کوملحوظ نہ رکھنے کی وجہ بعض لوگ یوں معترض ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان سے فرمایا تھا۔ کہ ’’ تومیرے بندوں پرمسلط نہ ہوسکے گا ۔‘‘(الآیۃ)
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ تو آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے نہ تھے۔ اس اعتراض کا جواب بعض مفسروں نے دیا ہے لیکن زل اور تسلط کے فرق کوبیان کئے بغیر
سبق:۔ مفادِ دنیا کے لیے کسی امر محکم کی جزوی نافرمانی کتنی ہی خوشگوار تاویل کے تحت ہو، اللہ تعالیٰ کوپسند نہیں ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا

وَقَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِي الْاَرْضِ اَوْ كَانُوْا غُزًّى

ائے وہ لوگو جوایمان لائے ہو(ایسے موقعوںپر) کافروں کی طرح نہ ہوجاؤ (جن کے سامنے دنیا ہی کا نفع اوردنیا ہی کا ضرررہتا ہے۔ جو ضررِ دنیا کوکسی حال برداشت نہیں کرتے۔
اوروہ اپنے (ان مسلمان) بھائی بندوں کے بارے میں جب وہ اللہ کی راہ میں سفر کرتے ہیں یا شریک جہاد ہوتے ہیں تو(بطورِافسوس) کہتے ہیں۔

لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَمَا قُتِلُوْا۝۰ۚ
لِيَجْعَلَ اللہُ ذٰلِكَ حَسْرَۃً فِيْ قُلُوْبِھِمْ۝۰ۭ
وَاللہُ يُحْيٖ وَيُمِيْتُ۝۰ۭ

کاش یہ لوگ ہمارے پاس رہ جاتے تویوں نہ مرتے اور نہ یوں قتل ہوتے۔
اللہ تعالیٰ اس طرح کی باتوں سے ان کے دلوں میں ایک حسرت پیدا کردیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے زندگی بھی اورموت بھی۔

توضیح : بہرحال مرنا توبرحق ہے۔ پھر کیا ہی اچھی ہے وہ موت جواللہ تعالیٰ کی راہ میں آئے۔

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۱۵۶

وَلَىِٕنْ قُتِلْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَوْ مُتُّمْ
لَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَحْمَۃٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ۝۱۵۷

اورتم جوکچھ کرتے ہواللہ تعالیٰ اس کے دیکھنے والے ہیں یعنی تمہارے سب اعمال اللہ تعالیٰ کی نظرمیں ہیں۔
اوراگرتم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ یا مرجاؤ۔

تواللہ تعالیٰ کی رحمت ومغفرت (جوتمہارے شامل حال رہے گی) وہ ان ساری چیزوں سے بہتر ہے۔ جن کولوگ جمع کرتے ہیں ( کیا ہی اچھی ہے وہ حاضری جو سرخروی کے ساتھ ہو)

وَلَىِٕنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاِالَى اللہِ تُحْشَرُوْنَ۝۱۵۸
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۝۰ۚ

وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۝۰۠
فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝۰ۚ

اوراگرتم مرجاؤ یا مارے جاؤ۔ ضرور اللہ تعالیٰ کے پاس لائے جاؤگے۔

محض اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے( ائے نبیؐ) آپ ان لوگوں کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہیں، جومیدان جنگ سے چلے گئے تھے (ان کی طرف سے آپؐ کے دل میں کدورت نہیں پیدا ہوئی)
اوراگر آپؐ تند خو یا سخت دل ہوتے تویہ لوگ آپؐ کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے
لہٰذا آپؐ ان کے قصور معاف کیجئے اوران کے لیے دعائے مغفرت کیجئے۔ اور(حسب معمول) مشوروں میں انھیں شریک بھی کیا کیجئے۔

فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ

اورجب (مشورے کے بعد طے شدہ امور کی تکمیل کا) ارادہ کرلوتو (اس کے اتمام کا) اللہ تعالیٰ پربھروسہ رکھو

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ۝۱۵۹

بے شک اللہ تعالیٰ (اپنے پر) بھروسہ کرنے والوں کوپسند کرتے ہیں۔

اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللہُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ۝۰ۚ
وَاِنْ يَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۝۰ۭ
وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۱۶۰

اگراللہ تعالیٰ تمہاری مدد کریں توکوئی تم پرغالب نہیں آسکتا۔

اوراگروہی تمہیں چھوڑدے یعنی مدد نہ کرے۔ تواس کے بعد پھر کون تمہاری مدد کرسکتا ہے۔
اوراہل ایمان کواللہ تعالیٰ ہی پربھروسہ رکھنا چاہئے۔

وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّغُلَّ۝۰ۭ وَمَنْ يَّغْلُلْ
يَاْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۚ
ثُمَّ تُوَفّٰي كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝۱۶۱

اور(کسی) نبی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خیانت کرے اور جوکوئی خیانت کرے گا،
قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیز کے ساتھ حاضر ہوگا۔
پھرہرشخص کواس کے کیے کا پورا پورا بدل دیا جائے گا اور ان پرظلم نہیں کیا جائے گا۔

اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللہِ كَمَنْۢ بَاۗءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللہِ
وَمَاْوٰىہُ جَہَنَّمُ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝۱۶۲

کیا وہ شخص جو مرضیات الٰہی کے مطابق زندگی بسرکرتا ہو، اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو اپنے اعمال کی وجہ غضب الٰہی کا مستحق ہوچکا ہو۔
اورجس کا ٹھکانہ جہنم قرارپائے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔

ھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ
وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ۝۱۶۳

(شدتِ کفر کے لحاظ سے) اللہ تعالیٰ کے پاس انکے بھی درجات ہوں گے۔
اور اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں جو کچھ وہ کر رہے ہیں۔ یعنی سب کچھ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں ہے جس سزا کے وہ مستحق ہیں انھیں دی جائے گی۔

لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ
اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ

بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنین پربڑا ہی احسان کیا ہے۔
جب کہ ان میں انھیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرمایا۔

يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ

جوانھیں اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کرسناتے ہیں اور ان کا تزکیہ نفس کرتے ہیں۔ یعنی ان کے غلط عقائد کی اصلاح کرتے ہیں۔

وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝۱۶۴
اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃٌ
قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْھَا۝۰ۙ
قُلْتُمْ اَنّٰى ہٰذَا۝۰ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ

اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۶۵

وَمَآ اَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِـاِذْنِ اللہِ
وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۶۶ۙ

اورانھیں کتاب اللہ کی تعلیم دیتے اور دانائی سکھاتے ہیں اوروہ نبیؐ کے آنے سے قبل سراسرگمراہی میں تھے۔

(جنگ احد میں کافروں کی طرف سے) جب تم پرمصیبت آپڑی تو
(جنگ بدرمیں) تم انھیں اس سے دوچند (مصیبت) پہنچا چکے ہو۔
اب تم کہتے ہویہ مصیبت کہاں سے آگئی۔ ائے نبیؐ کہئے یہ مصیبت تمہارے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی ہے۔ (کہ تم نے پیغمبر کے تاکیدی حکم کی خلاف ورزی کی)
بے شک اللہ تعالیٰ ہرچیز پرقادرہے (تمہارے مغلوب ہوجانے کے بعد بھی کافروں کوبے نیل ومرام واپس کردیا اورتم پرسے مصیبت ٹال دی)
دونوں جماعتوں کے مقابلہ کے دن(جنگ احد میں) جومصائب تمہیں پیش آئے تھے وہ باذن اللہ تھے (اللہ ہی کے حکم سے واقع ہوئے تھے)
اورجس سے مقصود یہ تھا کہ اہل ایمان کی پہچان کی جائے۔

وَلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ نَافَقُوْا۝۰ۚۖ
وَقِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَوِ ادْفَعُوْا۝۰ۭ
قَالُوْا لَوْنَعْلَمُ قِتَالًا لَّااتَّبَعْنٰكُمْ۝۰ۭ

اور وہ لوگ بھی پہچانے جائیں جومنافق تھے۔
اورجب ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرویا (کم از کم کافروں کے حملہ کی) مدافعت کرو۔
توان (منافقوں نے) کہا (جنگ کے موقعوں کوہم تم سے زیادہ جانتے ہیں) اگرہم کویقین ہوتا کہ آج دشمنوں سے مقابلہ ہے توہم ضرور تمہارا ساتھ دیتے۔

توضیح : عبداللہ بن ابیٔ تین سومنافقین کوساتھ لے کرواپس ہونے لگا توبعض مسلمانوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی اور ساتھ چلنے کے لیے کہا توجواب دیا کہ ہمیں یقین ہے کہ آج جنگ نہیں ہوگی، اس لیے ہم جارہے ہیں، ورنہ ہم ضرور تمہارا ساتھ دیتے۔

ھُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَىِٕذٍ اَقْرَبُ مِنْھُمْ لِلْاِيْمَانِ۝۰ۚ

يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ۝۰ۭ
وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ۝۱۶۷ۚ
اَلَّذِيْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَقَعَدُوْا

وہ اس دن ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔یعنی بہانے بنا کر قتال سے پہلو تہی کی تھی۔ ایمان سے قریب ہونے کے بجائے کفر سے زیادہ قریب ہوگئے۔
وہ زبان سے ایسی باتیں کہہ رہے تھے، جوان کے دلوں میں نہ تھیں۔

اوراللہ تعالیٰ جانتے ہیں جوکچھ وہ دلوں میں چھپائے رکھتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جوخود توگھروں میں بیٹھے رہے اوراپنے بھائیوں کے بارے میں کہا کہ

لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا۝۰ۭ

یہ لوگ ہمارا کہنا مانتے تو(اللہ تعالیٰ کی راہ میں) مارے نہ جاتے۔

قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۱۶۸

ان سے کہئے اگر تم اپنے اس بیان میں سچے ہوکہ (موت کا وقت ٹل سکتا ہے) تواپنے اوپر سے موت کوٹال دو۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتًا۝۰ۭ
بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ۝۱۶۹ۙ فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۙ

جولوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں، تم انھیں مردہ نہ سمجھو۔

بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس زندہ ہیں اوررزق پارہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جوکچھ انھیں عطا کیا ہے، وہ انھیں پا کر خوش وخرم ہیں۔

وَيَسْـتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِيْنَ لَمْ يَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ۝۰ۙ

اورجولوگ ان کے پیچھے رہ گئے ہیں یعنی مصروف جنگ ہیں شہید ہوکر ابھی ان میں شامل نہیں ہوسکے ہیں، ان کیلئےبھی خوش اورمطمئن ہیں۔

توضیح :مسند احمد میں نبیٔ کریمﷺ کی ایک حدیث مروی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ جوشخص نیک عمل لے کردنیا سے جاتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر پرلطف اورپرکیف زندگی میسرآتی ہے کہ پھرکبھی وہ دنیا میں واپس آنے کی تمنا نہیں کرتا۔ مگر شہید کا حال اس سے مختلف ہے کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ پھردنیا میں بھیجا جائے اور پھر اس لذت اور سرور سے لطف اندوز ہو جو راہ خدا میں جان دیتے وقت ایک شہید کوحاصل ہوتا ہے۔

اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۱۷۰ۘ
يَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ۝۰ۙ
وَّاَنَّ اللہَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۷۱ۚۛۧ

(کہ قیامت کے دن) ان کوکچھ خوف ہوگا اورنہ وہ حزن ملال میں مبتلا ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کی نعمت اورفضل ومہربانی سے مسرور ہورہے ہوں گے (مرنے کے بعد شہدا کی ایک طرح کی زندگی ہے)
اوراللہ تعالیٰ اہل ایمان کا اجرضائع نہیں کرتے۔

توضیح : جنگ احد سے پلٹ کرمشرکین جب کئی منزل دورچلے گئے توانھیں ہوش آیا اورآپس میں کہنے لگے، ہم نے یہ کیا غلط حرکت کی محمد(ﷺ) کی طاقت کوتوڑنے کا جواچھا موقع ہاتھ آیا تھا، ہم نے اسے کھودیا۔ چنانچہ ایک جگہ ٹھہرکرمشورہ کیا کہ مدینہ پرفورا ہی حملہ کردینا چاہئے۔ پھرہمت نہ ہوئی اور مکہ واپس ہوگئے ادھر نبی کریمﷺ کوبھی یہ اندیشہ تھا کہ یہ لوگ کہیں پھر پلٹ نہ آئیں۔ فرمایا کہ صبح تمہیں کفار کے تعاقب میں چلنا ہے۔ یہ موقع اگرچہ کہ نہایت ہی نازک تھا۔ مگرپھر بھی جوسچے مومن تھے، جاں نثاری کے لیے آمادہ ہوگئے، اورنبی کریمﷺ کے ساتھ حمراءالاسد تک گئے۔ جومدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پرواقع ہے، آیات ذیل کا اشارہ ان ہی فداکاروں کی طرف ہے۔

اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ۝۰ۭۛ

لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝۱۷۲ۚ

(معرکۂ حق وباطل میں) زخموں سے چور ہونے کے بعد بھی جنہوں نے اللہ رسول کے حکم کو(بہ ذوق وشوق) مان لیا (اورمقابلے کے لیے چل کھڑے ہوئے)
ان لوگوں میں سے جنہوں نے فدا کارانہ جوہردکھائے اورڈرتے رہے کہ کوئی حرکت مرضیٔ الٰہی کے خلاف تونہیں ہوئی) ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے (ایسا اجرجس کا تصور اس دنیا میں ممکن نہیں)

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ

فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۝۰ۤۖ

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں لوگوں نے کہا یقیناً لوگ (تمہارے دشمن اپنی پوری جمعیت کے ساتھ) تمہاری تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں(تمہیں نیست ونابود کرنے کا تہیہ کرچکے ہیں)
لہٰذا ان سے مقابلہ نہ کرو توان کی قوت ایمانی میں اوراضافہ ہوگیا۔ (یعنی اہل باطل کومخالفانہ سرگرمیوں کی خبر سن کر)ان کے ایمان کی قوت میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔

وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۝۱۷۳

اورانہوں نے (بے ساختہ) کہا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بڑا ہی اچھا کارساز ہے۔

فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ
لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوْۗءٌ۝۰ۙ وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللہِ۝۰ۭ
وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ۝۱۷۴

پھر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اوراس کی عنایتوں سے خوش وخرم واپس آگئے۔
انھیں کسی طرح کا نقصان نہ پہنچا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع رہے (قتال کی نوبت ہی نہیں آئی دشمن بھاگ گئے)
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی فضل والے ہیں۔

توضیح :واقعہ یہ تھا کہ جنگ احد کے اختتام پراسی رات رسول اللہﷺ کوخبر ہوئی کہ دشمن جوبظاہر واپس ہوگئے تھے۔ چھ میل کے فاصلہ پرپھرمقابلہ کی تیاری میں مصروف ہیں۔ اور صبح ہوتے ہوتے مدینہ پرحملہ آور ہوں گے۔ یہ سنتے ہی رسول اللہﷺ نے اسی وقت یہ اعلان کردیا کہ کل جتنے لوگ جنگ احد میں شریک تھے وہ سب کے سب صبح لڑائی کے لیے ہتھیار بند ہوجائیں۔ صحابہ کرام زخموں سے چور ہونے کے باوجود اس حکم کی تعمیل کے لیے بسروچشم تیارہوگئے۔ راستہ میں لوگوں نے انھیں ڈرایا بھی کہ دشمن تازہ دم ہوگیا ہے تم ان سے مقابلہ کروگے تونقصان اٹھاؤگے۔ مگراس خبر سے صحابہ کرام کا جوش ایمان، شوق شہادت اوربڑھ گیا۔ تین میل کے فاصلے پرآپؐ نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا۔ وہاں کے سردار قبیلہ رسول اللہﷺ کے بڑے ہمدرد تھے، گوایمان نہیں لائے تھے۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے کہا آپ ذرا ٹھہریں۔ میں جاکر دشمن کی خبر لے آتا ہوں۔ اورسیدھے اس مقام پرپہنچے جہاں ابوسفیان اپنی پوری فوج کے ساتھ حملہ کی تیاری میں مصروف تھے۔ انہوں نے ابوسفیان سے کہا تم شاید اس خیال میں ہوکہ محمدﷺ اوران کے ساتھی زخموں سے چور بڑی ہی ناتوان اورکمزورحالت میں پڑے ہوں گے۔ ان پرحملہ کردینے کا یہ اچھا موقع ہے، ان کومقاومت کی تاب نہ ہوگی وغیرہ توائے ابوسفیان یہ محض تمہاری خام خیالی ہے میں تمہاری ہمدردی میں یہ اطلاع دینے آیا ہوں کہ محمدﷺ اپنے ساتھیوں سمیت ایک تازہ دم فوج کے ساتھ تمہارے تعاقب میں میرے گاؤں میں آکرپڑاؤ کیے ہوئے ہیں جویہاں سے دوڈھائی میل ہی ہے۔ میں تمہاری ہمدردی میں یہاں آیا ہوں۔ مدینہ پر حملہ کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ۔ یہ سنتے ہی ابوسفیان کی ہمت پست ہوگئی۔ اوروہ سب اسی وقت مکہ کی طرف چل دیئے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بلا کسی زحمت کے مدینہ واپس ہوئے۔

اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَہٗ۝۰۠

(خوف دلانے والا تو) شیطان ہے جواپنے دوستوں سے تم کوڈراتا ہے

فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۷۵

وَلَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ۝۰ۚ
اِنَّھُمْ لَنْ يَّضُرُّوا اللہَ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ
يُرِيْدُ اللہُ اَلَّا يَجْعَلَ لَھُمْ حَظًّا فِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ
وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۱۷۶

لہٰذا تم ان سے مت ڈرو مجھ ہی سے ڈرو۔ اگرتم واقعی مومن ہو(یہی ایمان کا اقتضا ہے)
دین کے مقابلہ میں جان ومال کوعزیز رکھنا، غضب الٰہی کا مستحق بننا ہے۔
اورجولوگ کفر میں بھاگ دوڑکرتے ہیں ان کی سرگرمیوں سے تمہیں گھبرانا نہیں چاہئے۔
وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔(اپنا ہی آپ نقصان کرتے ہیں۔)
اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ آخرت کی بہتر(خیروبقاء) زندگی کا کوئی حصہ انھیں نصیب نہ ہو۔
اوران کے لیے بڑا ہی سخت عذاب ہے۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّار۔ یقیناًمنافق دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقے میں رکھے جائیں گے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ لَنْ يَّضُرُّوا اللہَ شَـيْـــًٔـا۝۰ۚ
وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۷۷
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ۝۰ۭ
اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا۝۰ۚ

وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝۱۷۸

جولوگ ایمان کے بدلے کفرکے خریدار بنے ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اورکافر یہ نہ سمجھیں کہ جومہلت ہم نے انھیں دے رکھی ہے، وہ ان کے حق میں اچھی ہے۔
بلکہ یہ مہلت ان کواس لیے دی گئی ہے کہ ان کی سیاہ کارانہ زندگی میں اوراضافہ ہی ہوتا رہے۔(اوریہ اپنی خوشحالی میں اس قدرمگن رہیں کہ انھیں اپنے اصلاح حال کی فکر ہی نہیں ہوتی۔)
ان کے لیے ذلت آمیزعذاب (رسوا کن عذاب مقرر) ہے۔

مَا كَانَ اللہُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْہِ

اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ تم کواسی حال میں پڑا رہنے دے جس میں کہ تم اب ہو۔(یہ حالت اس وقت تک رہے گی)

حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ۝۰ۭ

وَمَا كَانَ اللہُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْبِ
وَلٰكِنَّ اللہَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰۠
فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۝۰ۚ
وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝۱۷۹
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ
بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۝۰ۭ

یہاں تک کہ گندگی اورپاکی پوری پوری طرح ایک دوسرے سے ممیز نہ ہوجائے۔ (یعنی مسلمان ومنافق ملے جلے نہ رہیں اہل حق اوراہل باطل گڈمڈ نہ رہیں۔)
اوراللہ تعالیٰ امورغیب سے ہرایک کومطلع نہیں کیا کرتے۔
لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جن کوچاہتے ہیں، منتخب فرمالیتے ہیں۔
لہٰذا(غیبی امورمیں) اللہ ورسول پرایمان لاؤ۔
اوراگرتم ایمان لے آؤ اورنامرضیات الٰہی سے بچتے رہو تو تمہارے لیے اجرعظیم ہے۔
اوروہ لوگ جن کواللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت کچھ عطا کیا ہے بخل کرتے ہیں (راہ ِحق میں خرچ نہیں کرتے) وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ بخل ان کے لیے بہتر ہے۔
بلکہ وہ ان کے حق میں برا ہے(موجبِ عذاب ہے)

سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ
وَلِلہِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ
وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝۱۸۰ۧ

جس مال میں وہ بخالت کرتے تھے قیامت کے دن اس مال کا طوق بناکر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا۔
(بالآخر) آسمانوں اورزمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے (جس قدر جلد ممکن ہوخیرخیرات میں سبقت کرے اور اس کو ذخیرہ بنائے)
اورتم جوکچھ کرتے ہواللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہیں۔

لَقَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ فَقِيْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِيَاۗءُ۝۰ۘ

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قول سن لیا جوکہتے ہیں اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں( یہ یہودیوں کا کہنا ہے۔)

توضیح : جب یہ آیت نازل ہوئی مَنْ ذَالَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا کون ہے جواللہ تعالیٰ کواچھا قرض دے تواس کا مذاق اڑاتے ہوئے یہودیوں نے کہنا شروع کیا۔ جی ہاں اللہ میاں مفلس ہوگئے ہیں اب وہ اپنے بندوں سے قرض
مانگ رہے ہیں

سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَقَتْلَھُمُ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ۝۰ۙ
وَّنَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ۝۱۸۱

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْكُمْ
وَاَنَّ اللہَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ۝۱۸۲ۚ
اَلَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ عَہِدَ اِلَيْنَآ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ
حَتّٰى يَاْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْكُلُہُ النَّارُ۝۰ۭ
قُلْ قَدْ جَاۗءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِيْ بِالْبَيِّنٰتِ وَبِالَّذِيْ قُلْتُمْ

فَلِمَ قَتَلْتُمُوْھُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۱۸۳

جوکچھ وہ کہتے ہیں ہم ابھی لکھ لیں گے۔ اورن کے پیغمبرو ںکوناحق قتل کرنا بھی( قلمبند کریں گے۔)
اور (قیامت کے دن) ہم ان سے کہیں گے۔ لو اب آتش جہنم کے مزے چکھو۔
یہ ان کاموں کی سزا ہے جوتم اپنے ہاتھوں آگے بھیجتے رہے تھے۔
اوراللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے ظالم نہیں ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جوکہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم کسی رسول کو اس وقت تک رسول تسلیم نہ کریں۔
جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ کرے جسے (غیب سے آکر) آگ نہ کھالے۔ (اللہ تعالیٰ نے ان سے ایسا کوئی عہد نہیں لیا)
(ائے نبیﷺ )ان سے کہئے مجھ سے پہلے کئی ایک رسول واضح معجزات کے ساتھ آئے تھے اوراس معجزے کے ساتھ بھی جس کا تم نے ذکر کیا ہے۔
پھر(ایمان لانے کے لیے یہ شرطیں پیش کرنے میں تم سچے ہوتو) ان رسولوں کوتم نے کس لیے قتل کیا؟اگر تم سچے ہو۔

توضیح : اللہ تعالیٰ نے بعض پیغمبروں کویہ معجزہ بخشا تھا۔ ان کی امت کے لوگ جوقربانی اورنذر ونیاز اللہ تعالیٰ کے لیے کرتے تو اس کوایک میدان میں رکھتے آسمان سے آگ آتی اور اس کوجلادیتی توسمجھا جاتا تھا کہ قربانی قبول کرلی گئی۔

فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ
جَاۗءُوْ بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ
وَالْكِتٰبِ الْمُنِيْرِ۝۱۸۴
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۭ

لہٰذا (ائے نبیﷺ ) اگریہ لوگ آپؐ کوجھٹلارہے ہیں توآپ سے پہلے بہت سے رسول جھٹلائے جاچکے ہیں۔
جواپنے ساتھ کھلے معجزات اورصحیفے اورواضح معجزات لے آئے تھے۔

بالآخر ہرشخص موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔

توضیح : موت سے حیات کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا موت آخرت کی زندگی کا آغاز ہے۔

وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ۝۰ۭ
وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝۱۸۵
لَتُبْلَوُنَّ فِيْٓ اَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ۝۰ۣ
وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ
وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَذًى كَثِيْرًا۝۰ۭ
وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۝۱۸۶
وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ
لَتُبَيِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَہٗ۝۰ۡ

فَنَبَذُوْہُ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِھِمْ
وَاشْتَرَوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا۝۰ۭ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ۝۱۸۷

اورتم قیامت کے دن اپنے اعمال کا پورا پورا بدل پاؤگے۔

لہٰذا جوکوئی نارِجہنم سے دوررکھا گیا اورجنت میں داخل کیا گیا تواس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔
اوردنیا کی زندگی توایک دھوکے کا سامان ہے۔

تا کہ تم کواپنے مال اوراپنی جان کے بارے میں آزمایا جاتا رہے اور (صرف یہی نہیں بلکہ) تم اہل کتاب یہودونصاریٰ سے۔

اوران لوگوں میں سے جومشرک ہیں بڑی ہی دل آزار باتیں سنوگے۔

اوراگرتم (ان حالات میں) صبروپرہیزگاری اختیار کروگے تویہ بڑے ہی ہمت کے کام ہیں۔
اور(وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جن کوکتاب دی گئی تھی یہ عہد لیا تھا۔
کہ (ان کتابوں میں ان نبیٔ آخرالزماں کی جونشانیاں اور آپؐ کی بعثت کی جوبشارتیں لکھی ہوئی ہیں) ان کوبلاکم وکاست لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہنا اوراس میں سے کوئی بات نہ چھپانا (تا کہ لوگ ہدایت پرآجائیں)
توانہوں نے اس عہدواقرار کوپس پشت ڈالدیا۔
اوراس کے بدلے تھوڑی قیمت حاصل کرلی۔ کیا ہی برا سودا ہے جو انہوں نے کیا۔

توضیح : کعب بن اشرف ایک بڑا سرمایہ دار یہودی تھا۔ اس نے اپنے علماء کوبلا کر کہا کہ ہماری کتابوں میں ان نبیٔ موصوف کی جوبشارتیں لکھی ہوئی ہیں، انھیں لوگوں پرظاہر نہ کرنا میں تم کواس کا معقول معاوضہ دوں گا۔ لہٰذا مال وزر کی طمع میں یہ لوگ حق بات کوچھپانے لگے۔

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا
وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا
فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ۝۰ۚ
وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۱۸۸

جولوگ ناپسندیدہ کاموں پرخوش ہوتے ہیں اور پسندیدہ کام نہیں کرتے۔
اورچاہتے ہیں کہ ایسے کاموں میں ان کی تعریف ہو جوفی الواقع انہوں نے کیے نہیں ہیں۔
ایسوں کی نسبت ہرگز نہ سمجھنا کہ وہ عذاب الٰہی سے چھٹکارا پاسکیں گے۔

اوران کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

توضیح : یہ یہودی ہیں۔ غلط مسائل بتلاتے اور نبی محترمﷺ کی صفات چھپاتے اوراپنے کوعالم دین سمجھتے ہوئے خوش بھی ہوتے کہ نجات انھیں کے لیے ہے۔

وَلِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۸۹ۧ

آسمانوں اور زمین کی نافرمانی بلاشرکت غیرے اللہ تعالیٰ ہی کیلئےہے۔
اوراللہ تعالیٰ ہرچیز پرقادر ہے۔

توضیح : دنیاوی بادشاہوں کی طرح امورسلطنت انجام دینے کے لیے کسی کومشیر ،مقرب، مصاحب بنائے بغیر اور اپنے اختیارات کا کوئی جزوعطاء کیے بغیر کائنات ارضی وسماوی کا تنہا نظم ونسق چلانے پرقادر ہیں۔