☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّہُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ

ائے نبی(ﷺ) کہئے، میرے پاس وحی بھیجی گئی ہے جنوں کے ایک گروہ نے غور سے (اس کلام کو) سنا

توضیح :رسول اللہﷺ کووحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی خبردی بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ آپؐ چند اصحاب کے ساتھ بازار عکاز تشریف لے جارہے تھے راستے میں نخلہ کے مقام پرآپ نے صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت جنوں کا ایک گروہ ادھر سے گذرہا تھا، تلاوت کی آواز سن کرٹہر گیا اور غور سے قرآن سنتا رہا، اسی واقعہ کا ذکر اسی سورۃ میں کیا گیا ہے۔

فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَــبًا۝۱ۙ

يَّہْدِيْٓ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ۝۰ۭ

(واپس ہوکر) انہوں نے اپنی قوم سے کہا، بے شک ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے(جواپنی زبان اورمضامین کے اعتبار سے انوکھا کلام ہے)
جو راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لائے۔

وَلَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا۝۲ۙ
وَّاَنَّہٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا
مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا۝۳ۙ

اور جب ہم اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔
اوریہ کہ ہمارے رب کی شان نہایت ہی اعلیٰ وارفع ہے
اس نے کسی کواپنی بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے۔(وہ بے احتیاج ہے)

وَّاَنَّہٗ كَانَ يَقُوْلُ سَفِيْہُنَا عَلَي اللہِ شَطَطًا۝۴ۙ
وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَي اللہِ كَذِبًا۝۵ۙ

اور ہم میں سے بعض بے قوف جاہل اللہ تعالیٰ پر حد سے گزری ہوئی باتیں افترا کرتے رہے ہیں۔
اور ہم سمجھتے تھے کہ انسان اورجن اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہرگز جھوٹ نہیں بولتے۔

وَّاَنَّہٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْہُمْ رَہَقًا۝۶ۙ

اورانسانوں میں سے بعض ایسے بھی تھے جو(اجنہ کونافع وضار سمجھ کر) ان کی پناہ مانگتے تھے اس طرح انہوں نے جنوں کا غرور اورزیادہ بڑھا دیا۔

وَّاَنَّہُمْ ظَنُّوْا كَـمَا ظَنَنْتُمْ
اَنْ لَّنْ يَّبْعَثَ اللہُ اَحَدًا۝۷ۙ
وَّاَنَّا لَمَسْـنَا السَّمَاۗءَ
فَوَجَدْنٰہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا
وَّشُہُبًا۝۸ۙ

اورانسانوں نے بھی ایسا ہی گمان کررکھا تھا جیسا کہ تمہارا گمان تھا۔
کہ اللہ کسی کو دوبارہ زندہ نہیں فرمائیں گے۔
اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا
توہم نے اس کوقوی ترین پہرہ داروں سے بھرا ہوا پایا، اورشہاب کو ٹوٹتے ہوئے ستاروں کی طرح دیکھا (گویا کہ ان کی بارش ہورہی ہے)

وَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ۝۰ۭ
فَمَنْ يَّسْتَمِـــعِ الْاٰنَ يَجِدْ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا۝۹ۙ

وَّاَنَّا لَا نَدْرِيْٓ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ
فِي الْاَرْضِ
اَمْ اَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا۝۱۰ۙ
وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِكَ۝۰ۭ

حالانکہ ہم اس سے پہلے آسمانی خبریں سننے کے لئے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے۔
مگر اب جو کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لئے گھات میں ایک شہاب ثاقب لگا ہواپاتا ہے۔(گویا ہرطرف سے آگ کے گولے برسائے جارہے ہیں)
اوریہ کہ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کو کوئی تکلیف پہنچانا مقصود ہے؟
یا ان کا پروردگار ان کوراہ راست دکھا کربھلائی کا ارادہ فرمایا ہے۔
اوریہ کہ ہم میں کچھ لوگ صالح ہیں (اللہ تعالیٰ کووحدہ لا شریک لہ مانتے ہیں) اورہم میں بعض اور طرح کے ہیں( جو اللہ تعالیٰ کوالٰہ واحد، معبود ومستعان نہیں مانتے)

كُنَّا طَرَاۗىِٕقَ قِدَدًا۝۱۱ۙ

ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ نُّعْجِزَ اللہَ
فِي الْاَرْضِ
وَلَنْ نُّعْجِزَہٗ ہَرَبًا۝۱۲ۙ
وَّاَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْہُدٰٓى اٰمَنَّا بِہٖ۝۰ۭ فَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِرَبِّہٖ
فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَّلَا رَہَقًا۝۱۳ۙ

اوراب ہم یقیں کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ ہم زمین کے کسی حصہ
میں(جاکر) اللہ تعالیٰ کوعاجز نہیں کرسکتے۔
اورنہ بھاگ کراس کی گرفت سے بچ سکتے ہیں۔
اورجب ہم نے ہدایت کی بات سنی تواس پر یقین کرلیا۔
پس جو کوئی اپنے رب پر ایمان لائے گا۔
نہ اس کو(اپنی نیکیوں کے) ضائع ہونے کا اندیشہ ہوگا اورنہ ظلم کا

وَّاَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ
وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَ۝۰ۭ
فَمَنْ اَسْلَمَ
فَاُولٰۗىِٕكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا۝۱۴

اورہم میں سے کچھ تومسلمان( اللہ کے اطاعت گذار) ہوگئے ہیں
اورہم میں سے کچھ نافرمان وحق سے منحرف ہی رہے
لہٰذا جنہوں نے اسلام کی راہ اختیار کی۔
بس وہی لوگ نیکی(نجات) کا راستہ پانے والے ہیں۔

وَاَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا۝۱۵ۙ
وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَۃِ لَاَسْقَيْنٰہُمْ مَّاۗءً غَدَقًا۝۱۶ۙ

اورجنہوں نے حق سے انحراف کیا وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔

اور اگر لوگ سیدھی راہ پر ثابت قدم رہتے
توہم انھیں خوب سیراب کرتے، وقت پر مینہ برساتے (کھیتیاں اگاتے اور رزق بڑھاتے)

لِّنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ۝۰ۭ

تا کہ اس نعمت سے ان کی آزمائش کریں۔

یہ آیت کفار مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ ان کی نافرمانیوں کے باعث سات برس کا قحط ہوا تھا۔

وَمَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّہٖ يَسْلُكْہُ عَذَابًا صَعَدًا۝۱۷ۙ
وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ

فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا۝۱۸ۙ

اورجو کوئی اپنے رب کی نصیحتوں سے اعراض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کریں گے۔
اور یہ کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔
(یعنی اللہ کے سوا کسی کے لئے سجدہ نہیں ہے)
پس اللہ کے سوا(مدد کے لئے) کسی اور کونہ پکارو۔

وَّاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللہِ يَدْعُوْہُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْہِ لِبَدًا۝۱۹ۭۧ

اورجب اللہ کا بندہ اللہ ہی کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا تو(کافر) اس پر ٹوٹ پڑنے کے لئے تیار ہوگئے۔
( عبادت الٰہی میں حائل ومزاحم ہونے کی ٹھانی)

قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِہٖٓ
اَحَدًا۝۲۰
قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا۝۲۱
قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللہِ اَحَدٌ۝۰ۥۙ

وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا۝۲۲ۙ

(ائے نبیﷺ)کہئے میں تواپنے رب ہی کوپکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی (فرد خلق) کوشریک نہیں کرتا یہ بھی کہئے، میں تمہارے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اورنہ کسی بھلائی کا۔

کہئے(اگر میں اسی باتوں کا ادعا کروں تو) مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں بچاسکتا۔
اور نہ میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ پاسکتا ہوں۔

توضیح :اگر میں تمہارا کہا مان لوں اوراللہ کی بندگی چھوڑدوں، پھر اللہ تعالیٰ مجھے عذاب میں مبتلا کردیں تو کوئی ایسا نہیں ہے جو مجھے اس کے عذاب سے بچاسکے۔

اِلَّا بَلٰـغًا مِّنَ اللہِ وَرِسٰلٰتِہٖ۝۰ۭ

وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ
فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝۲۳ۭ

میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات اور اس کے احکام پہنچادوں۔
اور جوکوئی اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کرے گا۔
تواس کیلئےجہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

توضیح : اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہرگناہ ومعصیت کی سزا جہنم ہے بلکہ جس سلسلہ میں یہ بات فرمائی گئی ہے۔ اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے توحید کی جودعوت دی گئی ہے اس کوجو شخص نہ مانے اور شرک سے باز نہ آئے، اس کے لئے ابدی جہنم کی سزا ہے ۔(تفہیم القرآن)

حَتّٰٓي اِذَا رَاَوْا مَا يُوْعَدُوْنَ

فَسَيَعْلَمُوْنَ مَنْ اَضْعَفُ نَاصِرًا

یہاں تک کہ جب یہ لوگ وہ چیز دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے۔
تب انھیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور اور بے اختیار ہیں

وَّاَقَلُّ عَدَدًا۝۲۴
قُلْ اِنْ اَدْرِيْٓ اَقَرِيْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ

اور کس کے جتھے کی تعداد کم ہے۔
ائے نبی(ﷺ) کہئے، میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے آیا وہ قریب ہے۔

اَمْ يَجْعَلُ لَہٗ رَبِّيْٓ اَمَدًا۝۲۵
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًا۝۲۶ۙ

یا میرے پروردگار نے اس کی مدت دراز کردی ہے۔
وہ عالم الغیب ہے وہ اپنے امور غیبیہ پر کسی کومطلع نہیں فرماتا۔

اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ

فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا۝۲۷ۙ
لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ
وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا۝۲۸ۧ

سوائے اپنے کسی رسول کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے غیب کا کوئی علم دینا پسند کرلیا ہو۔
اس صورت میں وحی لانے والے فرشتے کے آگے اورپیچھے محافظ فرشتے بھیجے جاتے ہیں تا کہ
وہ جان لے کہ ان فرشتوں نے (کسی قسم کی آمیزش کے بغیر)اپنے رب کے پیغامات بہ حفاظت پہنچادیئے
اور اللہ تعالیٰ ان کے احوال کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اورایک ایک چیز گن رکھی ہے۔

رسولوں اورفرشتوں کی مجال نہیں کہ ان میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی کرے۔