☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

يُسَـبِّحُ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ
الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِـيْمِ۝۱

ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے
وہ (دنیا وآخرت کا) فرماں روا ہے۔

اور اپنے فیصلوں میں غلطی وخطا سے پاک ہے۔ نہایت زبردست ہے جس کی ساری تجاویز حکیمانہ ہیں۔

ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ
وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝۲ۙ

(اللہ)وہی تو ہے جس نے ایک ایسی قوم میں جو امّی ہے ایک رسول (محمد ﷺ)کو اٹھا یا، جو انھیں اللہ کی آیتیں سناتے اور ان کی زندگی سنوارتے ہیں
اور وہ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں
حالانکہ اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

وَّاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ۝۰ۭ
وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۳

اور (آپؐ کی بعثت) ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو ابھی ان سے ملے نہیں ہیں
اور اللہ بڑے ہی زبر دست حکیم ہیں۔

توضیح : حضرت محمد ﷺ کی رسالت صرف عرب قوم کی حدتک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کی ان دوسری قو موں کے لئے بھی ہے جو ابھی اہل ایمان میں شامل نہیں ہوئی، قیامت تک آنے والی قومیں مراد ہیں۔

ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ
وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۝۴
مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىۃَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْہَا

یہ اللہ کا فضل ہے، جس کوچاہتے عطا کرتے ہیں
اور اللہ تعالیٰ بڑا فضل فرمانے والے ہیں۔
جن لو گوں کو توراۃ کا حامل بنا یا گیا تھا(توراۃ کے ذریعہ علم حق سے نوازا گیا تھا) مگر انھوں نے اس کا بار نہیں اٹھا یا

كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا۝۰ۭ

اان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں (اور وہ نہیں جانتا کہ ان میں کیا لکھا ہے)

بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ۝۰ۭ
وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۵
قُلْ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ ہَادُوْٓا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّكُمْ اَوْلِيَاۗءُ لِلہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ 

اس سے بھی زیادہ بری مثال ان لوگوں کی ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات (احکام الٰہی) کو جھٹلا یا
اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتے۔
(ائے محمدﷺ) کہہ دیجئے ، ائے لوگوں جو یہودی بن گئے ہو اگر تمہارا یہ گھمنڈ ہے کہ دوسرے تمام لو گوں کے سوا تم ہی اللہ کے چہیتے ہو

فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۶
وَلَا يَتَمَنَّوْنَہٗٓ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ۝۰ۭ
وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ۝۷
قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِيْكُمْ
ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ
وَالشَّہَادَۃِ
فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۸ۧ

تو ذرا موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو
وہ ہر گز اس کی تمنانہ کریںگے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو وہ کرچکے ہیں
اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے خوب واقف ہیں۔
آپؐ ان سے کہیئے، جس موت سے تم بھاگتے ہو ہو تو تمہاے پاس آکر رہے گی
پھر تم اللہ کے آگے پیش کئے جاؤ گے جو ہر کھلی اور چھپی بات کا جاننے والا ہے
پھر جو کچھ تم کرتے رہے تھے وہ تمہیں بتادے گا۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ
وَذَرُوا الْبَيْعَ۝۰ۭ

ائے لوگوں جو ایمان لائے ہو،جمعہ کے دن نماز کے لئے پکارا جائے (اذان کہی جائے) تو اللہ کے ذکر(نماز) کی طرف دوڑو

اور خرید و فروخت چھوڑدو

ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۹
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ
وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ
وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۰

یہ تمہارے لئے زیادہ بہترہے اگر تم سمجھو۔

پھر جب نماز سے فارغ ہوجاؤ تو اپنے کاروبار میں مصروف ہوجاؤ

اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو
اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔

وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَۨا
انْفَضُّوْٓا اِلَيْہَا وَتَرَكُوْكَ قَاۗىِٕمًا۝۰ۭ

اور جب انھوں نے تجارت اورکھیل تماشہ ہوتے دیکھا
تواس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا

قُلْ مَا عِنْدَ اللہِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّہْوِ
وَمِنَ التِّجَارَۃِ۝۰ۭ
وَاللہُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ۝۱۱ۧ

ائے نبی ﷺ ان سے کہیئے جو کچھ اللہ کے پاس ہے
وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے
اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر رزق دینے والے ہیں۔

توضیح :یہ مدینہ کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے، شام سے ایک تجارتی قافلہ عین نماز جمعہ کے وقت آیا اور اس نے ڈھول تاشے بجانے شروع کئے تاکہ بستی کے لوگوں کو اس کی آمد کی اطلاع ہوجائے،رسول اللہ ﷺ اس وقت خطبہ دے رہے تھے، ڈھول اور تاشے کی آواز سن کر لوگ بے چین ہوگئے اور بارہ آدمیوں کے سوا باقی قافلہ کی طرف دوڑ گئے، یہ تربیت کا ابتدائی دور تھا، سو انھیں جمعہ کے آداب سکھلا ئے گئے۔