☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِہِ الْكِتٰبَ

ساری تعریفین اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے جس نے اپنے بندے (محمد ﷺ ) پریہ کتاب (قرآن) نازل فرمائی۔

وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۝۱ۭ۫ قَيِّـمًا

اورجس میں کسی اعتبار سے کوئی خامی (پیچیدگی) نہیں رکھی (یعنی اس کے تمام احکام ومضامین عقل وفطرت کے مطابق انسان کی بھلائی کیلئے نہایت اعتدال کے ساتھ نازل کیے گئے) جودین پر استقامت بخشتے ہیں۔

لِّيُنْذِرَ بَاْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ

تا کہ (نافرمانی کرنے والوں کو) اس کی طرف سے آنے والے سخت ترین عذاب سے ڈرائے۔

وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا حَسَـنًا۝۲ۙ مَّاكِثِيْنَ فِيْہِ اَبَدًا۝۳ۙ

اوران تمام اہل ایمان کے لیے (جنہوں نے الٰہی تعلیم کے مطابق زندگی بسرکی) خوشخبری سنائیے کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے
پاس بڑا ہی اچھا بدل جنت ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

وَّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا۝۴ۤ

اوران لوگوں کوڈرائیے جوکہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کواپنا بیٹا بنالیا ہے (یعنی اپنی فرمانروائی میں شریک کاربنا رکھا ہے)

مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِاٰبَاۗىِٕہِمْ۝۰ۭ

اس کا صحیح علم نہ ان کوہے اورنہ ان کے باپ دادا کوتھا (یعنی حقیقت کیا ہے یہ جانتے ہی نہ تھے)

كَبُرَتْ كَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ

بڑے ہی گناہ کی بات ہے جوان کے منہ سے نکلتی ہے۔

اَفْوَاہِہِمْ۝۰ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا۝۵

جوکچھ یہ کہہ رہے ہیں محض جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔

توضیح : عقیدہ کا جہاں تک تعلق ہے اس کے لیے نص قرآن کا ہونا لازمی وضروری ہے کسی عقیدہ وعمل کے صحیح ہونے کے لیے اللہ ورسول کی بات دلیل ہوسکتی ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قراردینے کے عقیدہ کوآیت زیربحث میں باطل وجھوٹ قراردیا گیا ہے۔قرآن میں امتوں اورقوموں کے غلط وباطل عقائد کوبیان کیا گیا ہے مثلاً بت پرست فرشتوں کواللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ یہود عزیرعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ اورنصاریٰ عیسیٰؑ کواللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ ان تمام باطل عقاید کی بنیاد قیاس وگمان پرہے یا یہ باطل ہے اورجھوٹ ہے جوگھڑلیا گیا ہے۔

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا۝۶

شاید کہ آپ اپنے کوہلاک ہی کرڈالیں اوررنج وغم کے سبب کہ یہ لوگ اس کلام پرایمان نہیں لارہے ہیں ۔

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا

ہم نے زمین پرجتنی بھی چیزیں بنائی ہیں اس میں زیب وزینت (جاذبیت وکشش) رکھی ہے۔

لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۷

تا کہ ہم لوگوں کا امتحان لیں کہ کون اچھا عمل کرتا ہے ۔

وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَيْہَا صَعِيْدًا جُرُزًا۝۸ۭ

اورجوچیزیں زمین پر ہیں ہم ان سب کوفنا کرکے زمین کوایک چٹیل میدان بنادیں گے۔

توضیح : یہاں دنیا کی حقیقت اوراس کے انجام کوبیان کرتے ہوئے انسان کواس کی غفلت پرتنبیہ کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس کی جہالت کودور کرنے کے لیے یہ علم بھی دیا گیا کہ دنیوی زندگی اصلی وحقیقی نہیں ہے بلکہ ایک امتحان ہے جس کے نتائج کا بدلہ دوسرے عالم میں ملنے والا ہے۔

اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَہْفِ وَالرَّقِيْمِ۝۰ۙ

(ائے نبیؐ) غار اورلوح(تختی) والوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا آپ انھیں جانتے ہیں ؟

كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَــبًا۝۹

(تختی والوں سے مراد جہاں پہاڑ پران کے نام کندہ ہیں) وہ ہماری عجیب نشانیوں میں سے تھے۔

اِذْ اَوَى الْفِتْيَۃُ اِلَى الْكَہْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً وَّہَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا۝۱۰

جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تو دعا کی کہ ائے ہمارے پروردگار ہم پراپنی رحمت نازل فرما اور اس معاملہ میں ہمارے لیے بھلائی کا سامان کردیجئے۔

فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِہِمْ فِي الْكَہْفِ سِنِيْنَ عَدَدًا۝۱۱ۙ

پھر ہم نے اسی غار میں سال ہا سال تک ان کے کانوں پر(نیند کا) پردہ ڈال دیا (یعنی ان کوسلادیا)

ثُمَّ بَعَثْنٰہُمْ لِنَعْلَمَ اَيُّ الْحِزْبَيْنِ اَحْصٰى لِمَا لَبِثُوْٓا اَمَدًا۝۱۲ۧ

پھرانھیں جگایا تا کہ ہم دیکھیں کہ کون سی جماعت ان کے غار میں رہنے کی مدت کا صحیح اندازہ کرسکتی ہے۔

توضیح : یہاں دنیا کی حقیقت اوراس کے انجام کوبیان کرتے ہوئے انسان کواس کی غفلت پرتنبیہ کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس کی جہالت کودور کرنے کے لیے یہ علم بھی دیا گیا کہ دنیوی زندگی اصلی وحقیقی نہیں ہے بلکہ ایک امتحان ہے جس کے نتائج کا بدلہ دوسرے عالم میں ملنے والا ہے۔

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَاَہُمْ بِالْحَقِّ۝۰ۭ

ہم ان کا صحیح واقعہ آپ سے بیان کرتے ہیں۔

توضیح : اہل کتاب نے آپؐ کی رسالت کی تصدیق کے لیے اصحاب کہف کے متعلق استفسار کیا، جس کے جواب میں وحی الٰہی کے ذریعہ آپ نے صحیح واقعہ بیان فرمایا۔ یہ واقعہ آپؐ کے رسول ہونے کا ایسا ثبوت ہے جوکسی اوردلیل کا محتاج نہیں۔ کیونکہ آپ نے نہ کسی سے علم حاصل کیا اورنہ آپ کوکوئی اورذریعہ معلومات حاصل تھا اور نہ یہ قصے عرب میں معروف تھے اہل کتاب کے ہاں اس واقعہ کے متعلق جوقصص مشہور تھے اس میں یہ اجزاء نہیں تھے جوآپ نے بیان فرمائے۔ اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ کا ذریعہ علم سوائے وحی کے کچھ نہ تھا جس کوپوری قوم جانتی تھی۔

اِنَّہُمْ فِتْيَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنٰہُمْ ہُدًى۝۱۳ۤۖ

وہ چند نوجوان تھے جواپنے رب پر(صدق دل سے یعنی بلاشائبہ شرک) ایمان لائے تھے اورہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا۔

وَّرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ

(اورجب انہوں نے ایمان پرقائم رہنے کا تہیہ کرلیا تو) ہم نے ان کے دلوں کومضبوط کردیا (استقامت بخشی)

اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے توکہنے لگے ہمارا پروردگار تووہ ہے جوآسمانوں اورزمین کا مالک ہے۔

لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰـہًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا۝۱۴

ہم اس کے سوا کسی کومعبود سمجھ کرنہیں پکاریں گے، اگر ہم ایسا کریں تویہ (عقل کے خلاف) بڑی ہی بیجا بات ہوگی۔

ہٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً۝۰ۭ

ہماری قوم کے ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اورمعبود بنا رکھے ہیں۔

لَوْلَا يَاْتُوْنَ عَلَيْہِمْ بِسُلْطٰنٍؚبَيِّنٍ۝۰ۭ

بھلا یہ ان کے معبود ہونے پرکوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے۔

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللہِ كَذِبًا۝۱۵ۭ

پھراس سے بڑھ کرظالم کون ہوگا جواللہ تعالیٰ کے متعلق جھوٹے عقائد گھڑے۔

وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْہُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ فَاْوٗٓا اِلَى الْكَہْفِ

اور( پھر انہوں نے آپس میں کہا) جب تم قوم ( کے ان مشرکین) سے اوران کے شرکاء سے (ان سے جن کی یہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں) کنارہ کش ہوگئے ہو تو چل کرغار میں پناہ لو۔

يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِہٖ وَيُہَيِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا۝۱۶

تمہارا رب تم کواپنی رحمت سے نوازے گا اوروہ تمہاری اس کوشش میں ہر طرح کی آسانیاں پیدا کرے گا۔

وَتَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ كَہْفِہِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ

اوراگر آپ طلوع آفتاب کے وقت دیکھیں توسورج ان کے غار کی داہنی طرف سے گزرجاتا ہے (اس طرح کے عمل سے دھوپ ان پر نہیں پڑتی)

وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُہُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَہُمْ فِيْ فَجْــوَۃٍ مِّنْہُ۝۰ۭ

اورجب غروب کے وقت دیکھیں توبائیں جانب سے گزرتا ہے۔ حالانکہ وہ اس غار کے ایک کشادہ حصہ میں ہیں،اورجب غروب کے وقت دیکھیں توبائیں جانب سے گزرتا ہے۔ حالانکہ وہ اس غار کے ایک کشادہ حصہ میں ہیں،

ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ۝۰ۭ

یہ اللہ تعالیٰ کے (قادرمطلق اورمختار کل ہونے کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

مَنْ يَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝۰ۚ

جس کواللہ تعالیٰ ہدایت دیں وہی ہدایت پاتا ہے (جوہدایت کی طرف رجوع ہوتا ہے اس کوہدایت دی جاتی ہے)

وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِيًّا مُّرْشِدًا۝۱۷ۧ

اور جس کو حق تعالیٰ گمراہی میں پڑا رہنے دیں توپھر نہ کوئی اس کوراہ دکھانے والاہے اور نہ کوئی دوست اس کا ساتھ دیتا ہے۔

وَتَحْسَبُہُمْ اَيْقَاظًا وَّہُمْ رُقُوْدٌ۝۰ۤۖ وَّنُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ۝۰ۤۖ

اورائے نبیؐ اگرآپ انھیں دیکھتے تویہی خیال کرتے کہ وہ جاگ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ سورہے ہیں۔ اورہم ان کودائیں اوربائیں کروٹیں بدلواتے ہیں،

وَكَلْبُہُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْہِ بِالْوَصِيْدِ۝۰ۭ لَوِاطَّلَعْتَ عَلَيْہِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْہُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْہُمْ رُعْبًا۝۱۸

اوران کا کتا غار کے دہانہ پردونوں ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا (ائے نبیؐ) اگرآپؐ انھیں جھانک کردیکھتے توپیٹھ پھیر کربھاگ جاتے اوران کا خوف آپ کے دل میں بھرجاتا ہے۔

وَكَذٰلِكَ بَعَثْنٰہُمْ لِيَتَسَاۗءَلُوْا بَيْنَہُمْ۝۰ۭ

اوراسی طرح ہم نے انھیں طویل نیند سے جگایا تا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اپنے احوال پوچھیں

قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْہُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ۝۰ۭ

ان میں سے ایک نے پوچھا کہو تم کتنی مدت سوتے رہے؟

قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ۝۰ۭ

انہوں نے جواب دیا ایک دن یا اس سے بھی کم۔

قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ۝۰ۭ

انہوں نے کہا تمہارا پروردگار ہی جانتا ہے کہ تم کتنی مدت سوتے رہے۔

فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ ہٰذِہٖٓ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ

لہٰذا (اب ان باتوں کوچھوڑو) اپنے میں سے کسی کو یہ سکے دے کرشہر میں بھیجو۔

فَلْيَنْظُرْ اَيُّہَآ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْيَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْہُ

اوراچھی طرح دیکھ لے کہ کونسا کھانا پاک (حلال) ہے پھر اس میں سے تمہارے لیے لے آئے۔

وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا۝۱۹

اوراس حسن تدبیر کے ساتھ جائے اورآئے کہ کوئی تم کوپہچان نہ سکے۔

اِنَّہُمْ اِنْ يَّظْہَرُوْا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوْكُمْ

اگروہ تم پرمطلع ہوجائیں توتم کوسنگسار کریں گے۔

اَوْ يُعِيْدُوْكُمْ فِيْ مِلَّتِہِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْٓا اِذًا اَبَدًا۝۲۰

یا زبردستی اپنے باطل دین میں لوٹائیں گے اورپھرتم (ان کے پنجہ ظلم سے نکلنے میں) کبھی کامیاب نہ ہوسکوگے۔

وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْہِمْ لِيَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ

اوراسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان کے حال سے خبردار کردیا تا کہ وہ جان لیں اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔

وَّاَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَيْبَ فِيْہَا۝۰ۚۤ

اوریہ کہ قیامت کے واقع ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔

توضیح : قیامت کے بارے میں غور وفکر کی بجائے وہ انہی کے بارے میں جھگڑنے لگے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔

اِذْ يَتَنَازَعُوْنَ بَيْنَہُمْ اَمْرَہُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَيْہِمْ بُنْيَانًا۝۰ۭ

اس وقت لوگ ان ہی کے تعلق سے جھگڑنے لگے کہنے لگے (یاد گار کے طور پر) ان کے غار پرایک عمارت بنادو

رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ۝۰ۭ

(بعضوں نے کہا ان کوان کے حال پرچھوڑدو) ان کا پروردگار ان کے احوال سے خوب واقف ہے۔

قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓي اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْہِمْ مَّسْجِدًا۝۲۱

ان لوگوں نے کہا جوبرسراقتدار تھے ہم توضرور ان پرایک عبادت گاہ بنائیں گے۔

سَيَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ كَلْبُہُمْ۝۰ۚ

بعض لوگ (قیاساً) کہیں گے وہ نوجوان تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے

وَيَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ كَلْبُہُمْ رَجْمًۢـــا بِالْغَيْبِ۝۰ۚ

اوربعض کہیں گے وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے ، سب ظنی اور غیر تحقیقی باتیں کرتے ہیں۔

وَيَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ كَلْبُہُمْ۝۰ۭ

اوربعض کہتے ہیں وہ سات ہیں آٹھواں ان کا کتاہے

قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَّا يَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِيْلٌ۝۰ۥۣ

کہئے میرا رب ہی ان کی صحیح تعداد جانتا ہے، ان کی صحیح تعداد سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔

فَلَا تُمَارِ فِيْہِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاہِرًا۝۰۠

لہٰذا ان کی تعداد کے بارے میں سرسری بحث کے سوا کوئی تفصیلات میں نہ جائے۔

وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًا۝۲۲ۧ

اوران کے بارے میں کسی سے کچھ نہ پوچھئے۔

توضیح : قیامت کے بارے میں غور وفکر کی بجائے وہ انہی کے بارے میں جھگڑنے لگے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔

وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا۝۲۳ۙ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ۝۰ۡ

اورکسی کام کی نسبت یوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگریہ کہ اللہ چاہے توکروں گا۔

وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ

اوراگر آپ کبھی ان شاء اللہ کہنا بھول جائیں توجب بھی یاد آجائے ان شاء اللہ کہہ دیا کیجئے۔

وَقُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّہْدِيَنِ رَبِّيْ لِاَقْرَبَ مِنْ ہٰذَا رَشَدًا۝۲۴

اورکہئے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے گا۔

وَلَبِثُوْا فِيْ كَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا۝۲۵

(اصحاب کہف کے بارے میں اتنا جزواورسن لیجئے) کہ وہ غار میں تین سو سال رہے (بعض کا خیال ہے کہ) نوسال اورزیادہ رہے۔

قُلِ اللہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا۝۰ۚ

کہئے اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں کہ وہ کتنی مدت رہے

لَہٗ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اَبْصِرْ بِہٖ وَاَسْمِعْ۝۰ۭ

آسمانوں اورزمین کی ساری پوشیدہ چیزوں کا علم اسی کو ہے وہی ہرشئی کونظرمیں رکھے ہوئے ہے اوروہی سب کچھ سنتا ہے۔

مَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِيٍّ۝۰ۡوَلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِہٖٓ اَحَدًا۝۲۶

اس کے سوا ان کا کوئی کارساز وحاجت روا نہیں اورنہ اس نے اپنی فرمانروائی میں کسی کوشریک کیا ہے ۔

وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ۝۰ۭۚ

اور(اس بنیادی حقیقت کو) جواپنی کتاب کے ذریعہ آپ پرمنکشف کی گئی ہے پڑھ کرسنایا کیجئے۔(کہ اللہ تعالیٰ ہی بلا شرکت غیرے معبود ومستعان ہیں اللہ تعالیٰ نے افراد خلق میں سے کسی حیثیت سے بھی اپنی حکومت میں شریک ودخیل نہیں فرمایا ہے)

لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِہٖ۝۰ۣۚ

اسکے احکام کوئی بدل نہیں سکتا (قانون الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔

وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا۝۲۷

اورآپ اس کے مقابلے میں ( اس کے عذاب سے بچنے کے لیے) کوئی جائے پناہ نہ پاؤگے۔

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَہٗ

اورجو(غریب) صبح وشام اپنے پروردگار کوپکارتے ہیں اوراس کی خوشنودی کے طالب رہتے ہیں ان کا ساتھ دیجئے۔ صبروضبط کواپنائے رہئے۔

وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْہُمْ۝۰ۚ تُرِيْدُ زِيْنَۃَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ

اوردنیوی زیب وزینت کی خاطر ا(اہل ایمان) سے بے التفاتی نہ برتیے۔

وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ 

اور اس کا کہنا نہ مانئے جس کے دل کو ہم نے (انتقاماً) اپنی یاد سے غافل کردیا ہے۔ اور جو(بلا روک ٹوک) اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہو۔

وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۝۲۸

اور اس کا کام حد سے گزر گیا ہو۔اس کا کہنا نہ ماننا۔

توضیح : عموما ًدولت مند غریب لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کوکسرشان سمجھتے ہیں۔ چنانچہ روسائے قریش کا حضورﷺ سے یہ مطالبہ تھا کہ ہم جب بھی آپ کے پاس آئیں تویہ غریب آپ کے پاس سے اٹھ کرچلے جایا کریں۔
روسائے قریش کی اس چال کا ذکر سورہ انعام میں گزرچکا ہے۔ یہاں بالفاظ دیگر اسی کا اعادہ ہے ایسا ہی معاملہ حضرت نوحؑ اوران کی قوم کے سرداروں کے درمیان بھی پیش آچکا ہے۔ (سورۂ ہود :۲۷ تا ۳۱)
ائے نبیؐ اس توقع میںکہ شاید روسائے قریش کے مطالبہ کوتسلیم کرنے سے وہ ایمان قبول کریں گے، آپ غریب اہل ایمان سے بے التفاتی نہ برتئے کیونکہ وہ سچے دل سے دن رات ہرچھوٹی بڑی حاجت ومصیبت میں اپنے پروردگار ہی کی طر ف رجوع ہوتے ہیں اوراسی کوپکارتے ہیں۔ یہ خیال ہرگز کرنانہ کہ دولت مند داخل اسلام ہوجائیں گے توشاید ان کے تعاون سے غریب اہل ایمان کی دنیوی زندگی اچھی ہوجائے گی۔ ہرگز ہرگز ایسے شخص کی بات نہ سنیے جس کوہم نے انکار کے نتیجہ میں حق سے پھیردیا ہے۔

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۝۰ۙ

ائے نبی کہہ دیجئے( لوگو) یہ قرآن برحق تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے لہٰذا جوچاہے ایمان لائے اور جوچاہے انکار کرے۔

اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ نَارًا۝۰ۙ

یقیناً ہم نے ظالموں (مشرکوں) کیلئے (دہکتی ہوئی) آگے تیار رکھی ہے۔

اَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا۝۰ۭ

جن کی قناتیں انھیں گھیری ہوئی ہوں گی۔

وَاِنْ يَّسْتَغِيْثُوْا يُغَاثُوْا بِمَاۗءٍ كَالْمُہْلِ يَشْوِي الْوُجُوْہَ۝۰ۭ

اوراگر وہ (پیاس سے بے تاب ہوکر) فریاد کریں گے توایسے پانی سے فریاد رسی کی جائے گی جوپگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جومنہ اور چہرے کوبھون ڈالے گا۔

بِئْسَ الشَّرَابُ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا۝۲۹

لہٰذا وہ پینے کی کیا ہی بری چیز ہوگی اوران کا ٹھکانا بھی کیا ہی برا ہوگا۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

جولوگ ایمان لائے اورنیک اعمال کرتے رہے(یعنی جنہوں نے الٰہی تعلیمات قبول کی اوراس کے مطابق زندگی بسر کی)

اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا۝۳۰ۚ

نیک کام کرنے والے کا اجر ہم ضائع نہیں کرتے۔

اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ

یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے (ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔

يُحَلَّوْنَ فِيْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ

اس میں ان کوسونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔

وَّيَلْبَسُوْنَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ

اوروہ وہاں سبز ریشم کے باریک اوردبیز کپڑے پہنے ہوں گے۔

مُّتَّكِــِٕـيْنَ فِيْہَا عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ۝۰ۭ

اورمسندوں پرگاؤتکیے لگائے (شاہانہ انداز سے) بیٹھے رہیں گے۔

نِعْمَ الثَّوَابُ۝۰ۭ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا۝۳۱ۧ

کیا ہی اچھا بدلہ اورکیا ہی آرام کی اچھی جگہ ہے

وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ

(ائے نبیؐ) آپ انھیں (مخاطبین قرآن کو) ان دوشخصوں کا حال سنائیے۔

جَعَلْنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ

جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دوباغ عنایت کیے تھے۔

وَّحَفَفْنٰہُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَيْنَہُمَا زَرْعًا۝۳۲ۭ

اوران باغوں کی باڑکھجور کے درختوں کی تھی اوراس کے درمیان کھیتی بھی لگارکھی تھی۔

كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ اٰتَتْ اُكُلَہَا

دونوں باغ کثرت سے میوہ لاتے تھے۔

وَلَمْ تَظْلِمْ مِّنْہُ شَـيْــــًٔـا۝۰ۙ

اوراس کی پیداوار میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی تھی۔

وَّفَجَّرْنَا خِلٰلَہُمَا نَہَرًا۝۳۳ۙ

اوران کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کررکھی تھی ۔

وَّكَانَ لَہٗ ثَمَــــرٌ۝۰ۚ

اوران باغوں کے تمام ثمرات کا وہی تنہا مالک تھا۔

فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَہُوَيُحَاوِرُہٗٓ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا۝۳۴

ایک دن وہ اپنے ساتھی سے اثناء گفتگو میں کہنے لگا میں تم سے مال ودولت میں بڑھا ہوا ہوں، کنبہ اورخاندان کے اعتبار سے بھی زیادہ عزت والا ہوں(اس طرح کی شیخیوں کے ساتھ)

وَدَخَلَ جَنَّتَہٗ وَہُوَظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ۝۰ۚ قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِيْدَ ہٰذِہٖٓ اَبَدًا۝۳۵ۙ

وہ اپنے باغ میں اپنے حق میں ظلم کرتا ہوا داخل ہوا (باغ کی سرسبزی وشادابی کودیکھ کر) کہا میں گمان بھی نہیں کرسکتا کہ یہ باغ کبھی تباہی کی سرحد کوبھی پہنچے گا (یعنی تباہ نہ ہوگا)

وَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَاۗىِٕمَۃً۝۰ۙ

اورمیں نہیں سمجھتا کہ قیامت برپا بھی ہوگی (یعنی میرا گمان غالب ہے کہ قیامت برپا نہ ہوگی)

وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّيْ لَاَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْہَا مُنْقَلَبًا۝۳۶

اور اگر میں اپنے رب کے پاس لوٹا یا بھی گیا توضروراس باغ سے بہتر پاؤں گا (کافر سمجھتے ہیں کہ گناہوں کے باوجود دنیا میں خوش حال زندگی کا حاصل ہونا اس بات کی علامت ہے کہ آخرت میں بھی اس سے بہتر زندگی ملے گی)

قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَہُوَيُحَاوِرُہٗٓ اَكَفَرْتَ بِالَّذِيْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ

تواس کا دوست جواس سے گفتگو کررہا تھا کہنے لگا کیا تم اس اللہ کے الٰہ واحد معبود ومستعان )ہونے کا انکار کرتے ہو جس نے تم کومٹی سے پیدا کیا ؟

ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًا۝۳۷ۭ

پھر نطفہ سے تم کوصحیح وسالم انسان بنایا ؟

لٰكِنَّا۟ ہُوَاللہُ رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا۝۳۸

لیکن میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ وہی اللہ میرا رب ہے اورمیں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کوکسی حیثیت سے بھی شریک نہیں کرتا۔

وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ۝۰ۚ

اوراپنے ساتھی سے کہا جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے توتم نے مَاشَاءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ کیوں نہیں کہا (یعنی یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا فضل ہے اوراسی کی مہربانی ہے۔)

وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ۝۰ۚ

اوراپنے ساتھی سے کہا جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے توتم نے مَاشَاءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ کیوں نہیں کہا (یعنی یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا فضل ہے اوراسی کی مہربانی ہے۔)

توضیح : باغ کی سرسبزی کا انحصار صرف انسان کی تدبیر وکوشش پرنہیں ہے اورنہ اس میں بزرگوں کے فیضان کا رتی برابر دخل ہے۔ دنیا کی خوشحالی کواپنی محنت کا نتیجہ سمجھنا بھی مشرکانہ ذہنیت ہے۔

اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّوَلَدًا۝۳۹ۚ

اگر تم مجھ کومال واولاد میں اپنے سے کمتر دیکھ رہے ہو

فَعَسٰي رَبِّيْٓ اَنْ يُّؤْتِيَنِ خَيْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ

توہوسکتا ہے کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر باغ عنایت کرے۔

وَيُرْسِلَ عَلَيْہَا حُسْـبَانًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَتُصْبِحَ صَعِيْدًا زَلَقًا۝۴۰ۙ

اور(تمہارے) اس باغ پرآسمان سے کوئی آفت بھیج دے پھر وہ ایک چٹیل میدان ہوکر رہ جائے۔

اَوْ يُصْبِحَ مَاۗؤُہَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِيْعَ لَہٗ طَلَبًا۝۴۱

یا پھر اس(نہر) کا پانی بڑی گہرائی میں پہنچ جائے، پھر تم اس کوکسی طرح بھی حاصل نہ کرسکو۔

وَاُحِيْطَ بِثَمَرِہٖ

اور(آخر کار) عذاب الٰہی نے اس کے ثمرات کواپنی گرفت میں لیا۔

فَاَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْہِ عَلٰي مَآ اَنْفَقَ فِيْہَا وَھِيَ خَاوِيَۃٌ عَلٰي عُرُوْشِہَا

پھر صبح وہ (اپنے باغ کواس طرح اجڑتے دیکھا کہ وہ ) اپنے منڈھوں سمیت گرپڑا ہے توجومال اس نے اس پرخرچ کیا تھا سب اکارت گیا، حسرت کے ساتھ کف افسوس ملنے لگا۔

وَيَـقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا۝۴۲

اورکہنے لگا کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہوتا۔

توضیح : اس شخص کا شرک یہ تھا کہ جوکچھ خوشحالی مال و دولت کی فراوانی اسے حاصل تھی وہ اس کواپنی عقل وتدبیر کا نتیجہ سمجھ رہا تھا۔ اسی طرح دنیوی خوشحالیوں کوبزرگوں کا فیضان سمجھنا یا مقربان بارگاہ الٰہی کوواسطہ یا وسیلہ بنائے بغیر دنیا کی خوشحالی نصیب نہیں ہوتی سمجھنا بھی شرک ہے۔

وَلَمْ تَكُنْ لَّہٗ فِئَۃٌ يَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ

اوراس وقت کوئی جماعت اللہ کے مقابلہ میں اس کی کسی طرح کی کوئی مدد نہ کرسکی۔

وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا۝۴۳ۭ

اور وہ خود بھی اس مصیبت کا مقابلہ نہ کرسکا۔(اورنہ اللہ تعالیٰ سے بدلہ لے سکا)

ہُنَالِكَ الْوَلَايَۃُ لِلہِ الْحَقِّ۝۰ۭ ہُوَخَيْرٌ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ عُقْبًا۝۴۴ۧ

یہاں( یہ حقیقت ثابت ہوگئی کہ حاجت براری وکارسازی بالکلیہ) حکومت اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے (وہی کارساز وحاجت روا ہے) وہی بدلہ بہتر ہے جواللہ دے اورنتیجہ کے لحاظ سے وہی انجام بہتر ہے جس کواللہ عطا کرے۔

توضیح : شرک کی گندگیوں سے عقیدہ وایمان کا پاک ہونا اوراللہ تعالیٰ ہی کواپنا کارساز حاجت روا فریاد رس، مشکل کشا، آقا، مالک جاننا اوربہ رغبت قلبی اسی کی اطاعت وفرماں برداری میں لگے رہنا ہی شیوۂ بندگی ہے۔ اس کا انجام بھی خوب ہے یعنی مغفرت وجنت ہے۔

وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوۃِ

(ائے نبیؐ) ان لوگوں سے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کیجئے اس کی مثال

الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ

ایسی ہے جیسی ہم نے آسمان سے پانی برسایا ہو۔

فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ہَشِيْمًا تَذْرُوْہُ الرِّيٰحُ۝۰ۭ

پھر اس کے ذریعہ زمین سرسبز وشاداب( وبارآور)ہوگئی، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوگئی، ہوائیں اسے اڑائے پھرتی ہیں۔

وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا۝۴۵

اوراللہ تعالیٰ ہرچیز پرپوری طرح قادر ہے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کونہ کسی مدد کی ضرورت ہے اورنہ رائے مشورہ کی۔ اپنی قدرت کاملہ سے سارے عالم کا نظام قائم فرمانا، پھر اس کوفنا کرنا، فنا کے بعد دوبارہ جزاء کا عالم برپا کرنا کیا مشکل ہے۔

اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ

مال اوراولاد (جس کی محبت میں تم گرفتار اورجنہیں مطلوب ومقصود بنائے ہوئے ہو) وہ تو دنیوی زندگی کی ایک رونق ہیں (جنہیں بقاء نہیں اورجن سے امیدیں بھی پوری نہیں ہوتیں)۔

وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًا۝۴۶

اوراعمال صالحہ ہی باقی رہنے والے ہیں، وہ آپ کے رب کے نزدیک بدل کے لحاظ سے بھی اعلیٰ وارفع ہیں اورامید کے اعتبار سے بھی ہزاروں درجہ بہتر ہیں (لہٰذا عقلمندی یہ ہے کہ انسان اسی کا تمنائی بنارہے)

وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَۃً۝۰ۙ

اورجس دن ہم پہاڑوں کوچلائیں گے ائے نبیؐ آپ زمین کودیکھیں گے کہ وہ کسی چیز سے ڈھکی چھپی نہ رہے گی (صاف میدان کی طرح رہے گی)

وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا۝۴۷ۚ

اورہم ان سب کوجمع کریں گے (جوموت کے بعد دوبارہ زندگی کوممکن نہیں سمجھتے تھے محاسبہ اعمال کے بارے میں یقین نہیں رکھتے تھے) لہٰذا ان میں کسی کوبھی نہ چھوڑیں گے ۔

وَعُرِضُوْا عَلٰي رَبِّكَ صَفًّا۝۰ۭ

اور(محاسبۂ اعمال کیلئے) اپنے رب کے سامنے صف بستہ لائے جائیں گے۔

لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍؚ۝۰ۡ

( اس وقت ان سے پوچھا جائے گاکیا یہ امرواقعہ نہیں ہےکہ ) تم ہمارے پاس اس طرح دوبارہ زندہ ہوکر آگئے جیسا کہ ہم نے تم کوپہلی مرتبہ کیا تھا۔

بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا۝۴۸

بلکہ تم اس خیال میں مست تھے کہ تمہارے اعمال کے محاسبہ کی یہ ساعت ہی نہ آئے گی۔

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْہِ

اوران کے سامنے ان کا نامہ عمل رکھ دیا جائے گا پھرآپ مجرمین کودیکھیں گے کہ جوکچھ اس میں لکھا ہوا ہوگا اس سے گھبرا رہے ہوں گے۔

وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَۃً وَّلَا كَبِيْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَا۝۰ۚ

اورکہیں گے ہائے ہماری تباہی وبربادی یہ کیسی کتاب ہے کہ ہرچھوٹی سے چھوٹی اوربڑی سے بڑی (بھلائی ہویا برائی) کسی بات کوبھی نہیں چھوڑتی مگریہ سب اس میں مندرج ہیں۔

وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ

اور جوکچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اس میں لکھا ہوا پائیں گے (ائے نبیؐ) آپ کا رب کسی پر رتی برابر ظلم نہیں کرتا، (یعنی ناکردہ گناہ نہیں لکھتا)

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ

(اوروہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب کہ ہم نے ملائکہ کوحکم دیا تھا کہ وہ آدمؑ کوسجدہ کریں۔

فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ۝۰ۭ

ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا جوجنات کی جنس سے تھا اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی

اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَذُرِّيَّتَہٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَہُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ۝۰ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا۝۵۰

کیا تم اس کواوراس کی اولاد کومیرے سوا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، ظالموں کے لیے (شیطان کی دوستی) کیا ہی برا بدل ہے۔

مَآ اَشْہَدْتُّہُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَا خَلْقَ اَنْفُسِہِمْ۝۰۠

(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) میں نے نہ توآسمانوں اورزمین کے پیدا کرتے وقت انھیں شاہد بنایا تھا اورنہ خود انھیں پیدا کرتے وقت۔

توضیح : آسمانوں اورزمین کے پیدا کرتے وقت کون موجود تھا جس سے مشورہ لیا جاتا اور مدد لی جاتی(ایسا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا)

وَمَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّيْنَ عَضُدًا۝۵۱

اورمیں (ایسا عاجز تو) نہ تھا کہ گمراہ کرنے والوں کواپنا دست وبازو بناتا(اجنہ جیسے گمراہوں کواپنا یہ اختیار دیتا کہ وہ جس کوچاہیں گمراہ کریں۔

وَيَوْمَ يَقُوْلُ نَادُوْا شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْہُمْ

اور(اس دن کو یاد رکھو) جس دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جن کوتم ہمارا شریک سمجھتے تھے انھیں پکارو توسہی

فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَہُمْ

لہٰذا وہ ان کوپکاریں گے مگر وہ ان کی پکار کا کوئی جواب نہ دیں گے۔

وَجَعَلْنَا بَيْنَہُمْ مَّوْبِقًا۝۵۲

اورہم ان کے درمیان ایک آڑ کردیں گے(اوروہ آگ سے بھری ہوئی خندق ہوگی)

وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مُّوَاقِعُوْہَا

اورمجرمین (جہنم کی) آگ دیکھیں گے توخیال کریں گے کہ وہ اسی آگ میں ڈالے جائیں گے۔

وَلَمْ يَجِدُوْا عَنْہَا مَصْرِفًا۝۵۳ۧ

اوروہ اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔

وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ۝۰ۭ

اورہم نے اس قرآن میں لوگوں کوسمجھانے کے لیے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں۔

وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا۝۵۴

لیکن (منکر) انسان (حقائق کونہ ماننے کیلئے) سب سے زیادہ جھگڑتا ہے (اوربلادلیل اپنے بزرگوں کواس نظام کائنات میں دخیل وشریک سمجھتا ہے)

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَہُمُ الْہُدٰى وَيَسْتَغْفِرُوْا رَبَّہُمْ

لوگوں کے پاس ہدایت آجانے کے بعد اس کوقبول کرلینے اوراپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگنے سے کونسی چیز مانع ہوسکتی تھی؟

اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَہُمْ سُنَّۃُ الْاَوَّلِيْنَ اَوْ يَاْتِيَہُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا۝۵۵

سوائے اس کے کہ گزشتہ امتوں کی طرح ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جائے یا عذاب الٰہی ان کے سامنے آموجود ہو۔

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۝۰ۚ

اورہم رسولوں کواسی لیے بھیجتے ہیں کہ وہ (لوگوں کوجنت کی) خوشخبری سنائیں اورانھیں آخرت کے انجام بد (دوزخ سے) ڈرائیں۔

وَيُجَادِلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوْا بِہِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَمَآ اُنْذِرُوْا ہُزُوًا۝۵۶

اور منکرین حق محض غلط اوربے اصل (باتیں نکال نکال کر) جھگڑتے ہیں تا کہ حق کونا حق ثابت کردکھائیں اورانہوں نے میرے احکام اور تنبیہات کو(جوانھیں کی گئی تھیں) مذاق بنا رکھا۔

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ

اوراس سے بڑھ کرظالم کون ہوگا جس کواس کے رب کی تعلیم سنائی گئی

فَاَعْرَضَ عَنْہَا

تواس سے اس نے روگردانی کی۔

وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدٰہُ۝۰ۭ

اوراپنے ہاتھوں سے جوکچھ گناہ سمیٹ رہا ہے (اس کے انجام آخرت کو) بھول گیا۔

اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ

ہم نے (انتقاماً) ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ اسے سمجھ ہی نہ سکیں۔

وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۝۰ۭ

اوران کے کانوں میں ثقل پیدا کردیا (تا کہ وہ سن نہ سکیں)

وَاِنْ تَدْعُہُمْ اِلَى الْہُدٰى فَلَنْ يَّہْتَدُوْٓا اِذًا اَبَدًا۝۵۷

اوراگر آپ انھیں ہدایت کی طرف لائیں تووہ اس حالت میں ہدایت کی راہ پر کبھی نہ آئیں گے۔

وَرَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَۃِ۝۰ۭ

اور(واقعہ یہ ہے کہ) آپ کا رب بڑا ہی بخشنے والا صاحب رحمت ہے۔

لَوْ يُؤَاخِذُہُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَہُمُ الْعَذَابَ۝۰ۭ

اگروہ ان کی بداعمالیوں پرانھیں فوری گرفت کرتا توجلد ہی ان پر عذاب آجاتا۔

بَلْ لَّہُمْ مَّوْعِدٌ

بلکہ ان کے لیے (عذاب کا) ایک وقت مقرر ہے۔

لَّنْ يَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِہٖ مَوْىِٕلًا۝۵۸

(جب وہ آئے گا تو) ان کیلئے اللہ تعالیٰ کے سوا کہیں جائے پناہ نہ ہوگی۔

وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَہْلَكْنٰہُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا

اوریہ بستیاں جو ویران پڑی ہیں ان کے ظلم (کفروشرک) کی وجہ سے ہم نے انھیں تباہ وبرباد کردیا۔

وَجَعَلْنَا لِمَہْلِكِہِمْ مَّوْعِدًا۝۵۹ۧ

اوران کی ہلاکت کیلئے ہم نے ایک وقت مقرر کردیا تھا (جوان سے ٹل نہ سکا)

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىہُ

(موسیٰؑ کے سفر کا وہ واقعہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے) جب کہ موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا۔

لَآ اَبْرَحُ حَتّٰٓي اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا۝۶۰

میں یہ سفر اس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچ نہ جاؤں یا اس کے لیے برسوں چلنا ہی پڑے۔

توضیح : سفر کی وجہ بعض روایتوں میں یوں ہے کہ کسی نے آپ سے پوچھا اس وقت سب سے بڑا عالم کون ہے؟ توفرمایا میں ہوں۔ بات تواس لحاظ سے صحیح تھی کہ آپ پیغمبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کوقرب کا علم بخشا مگر اتنی بات بھی پیغمبر کے لیے مناسب نہ سمجھی گئی۔ ارشاد ہوا کہ مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ رہتا ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے، ہوسکتا ہے کہ بعض اورعلوم کا وہ زیادہ جاننے والا ہو اور مقام قرب کا انھیں علم نہ ہو۔ موسیٰ کوان سے ملنے کا شوق ہوا پوچھا ان سے ملنے کیا صورت ہے۔ ارشاد ہوا کہ ایک بے جان مچھلی ساتھ رکھو، جہاں وہ گم ہوجائے وہیں وہ شخص ملے گا یہاں ایک نکتہ یہ ہے کہ موسیٰ نے اپنے سے چھوٹے درجہ کے شخص کوبعض خاص علوم میں استاد بنانے میں عار نہیں جانا۔

فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِہِمَا نَسِيَا حُوْتَہُمَا

جب وہ دونوں چلتے ہوئے دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچے تواپنی اس مچھلی کوبھول گئے۔

فَاتَّخَذَ سَبِيْلَہٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا۝۶۱

جو خشکی پرسرنگ کی طرح راستہ بناتے ہوئے دریا میں چلی گئی۔

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىہُ اٰتِنَا غَدَاۗءَنَا۝۰ۡ

پھرجب وہ دونوں اس مقام سے آگے نکل گئے توموسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا ہمارا ناشتہ لے آؤ۔

لَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا۝۶۲

یقیناً ہم اس سفر میں بہت تھک گئے ہیں۔

قَالَ اَرَءَيْتَ اِذْ اَوَيْنَآ اِلَى الصَّخْرَۃِ فَاِنِّىْ نَسِيْتُ الْحُوْتَ۝۰ۡ

خادم نے کہا دیکھئے ایک عجیب بات ہوئی جب ہم چٹان کے پاس آرام کے لیے ٹھیرے تھے، میں اس مچھلی کا ذکر کرنا بھول گیا۔

وَمَآ اَنْسٰنِيْہُ اِلَّا الشَّيْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَہٗ۝۰ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيْلَہٗ فِي الْبَحْرِ۝۰ۤۖ عَجَـــبًا۝۶۳

میں اس واقعہ کا ذکر کرتا لیکن شیطان نے مجھے بھلادیا (مچھلی زندہ ہوئی) اوروہ عجیب طریقہ سے دریا میں اپنی راہ لی۔

قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ۝۰ۤۖ

موسیٰ ؑنے کہا یہی تووہ مقام ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔

فَارْتَدَّا عَلٰٓي اٰثَارِہِمَا قَصَصًا۝۶۴ۙ

پھر وہ دونوں اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس لوٹے۔

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ

پس وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کوپایا۔

اٰتَيْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا

جنہیں ہم نے اپنی خاص رحمت سے نوازا تھا

وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۝۶۵

اور ہم نے انھیں ایک خاص علم بخشا تھا۔

قَالَ لَہٗ مُوْسٰي ہَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰٓي اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۝۶۶

موسیٰ نے ان سے کہا کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں اس شرط کے ساتھ کہ جو مفید علم (اللہ تعالیٰ نے) آپ کو سکھایا ہے اس میں سے آپ مجھے سکھائیں۔

قَالَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِيَ صَبْرًا۝۶۷

کہا تم میرے ساتھ رہ کر ( میرے کاموں کو) برداشت نہ کرسکوگے۔

وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلٰي مَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْرًا۝۶۸

اورتم کیسے برداشت کرسکتے ہو جب کہ تم ان باتوں کوحقیقت سے ہی بے خبر ہو۔

قَالَ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللہُ صَابِرًا

موسیٰ ؑنے کہا، اللہ نے چاہا توآپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے

وَّلَآ اَعْصِيْ لَكَ اَمْرًا۝۶۹

اورمیں کسی معاملہ میں بھی آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

قَالَ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِيْ فَلَا تَسْــــَٔـلْنِيْ عَنْ شَيْءٍ

پھر انہوں نے (خضرؑ نے) کہا اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو شرط یہ ہے کہ تم مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔(یعنی میری کسی بات پراعتراض نہ کرو)

حَتّٰٓي اُحْدِثَ لَكَ مِنْہُ ذِكْرًا۝۷۰ۧ

تا آنکہ میں خود اس کی وضاحت نہ کردوں۔

فَانْطَلَقَا۝۰۪ حَتّٰٓي اِذَا رَكِبَا فِي السَّفِيْنَۃِ خَرَقَہَا۝۰ۭ

پھر دونوں مل کر چلے تاآنکہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو(اس بندہ حق نے) اس کشتی میں سوراخ کردیا۔

قَالَ اَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ اَہْلَہَا۝۰ۚ لَقَدْ جِئْتَ شَـيْــــًٔـا اِمْرًا۝۷۱

موسیٰؑ نے کہا آپ نے اس کشتی میں اس لیے سوراخ کردیا کہ کشتی کے سوار ڈوب جائیں، آپ نے توبڑے ہی خطرہ کا کام کیا ہے۔

قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِيَ صَبْرًا۝۷۲

خضرؑ نے کہا کیا میں نے تم سے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ تم میرے کاموں پر صبر نہ کرسکوگے۔

قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِيْ بِمَا نَسِيْتُ وَلَا تُرْہِقْنِيْ مِنْ اَمْرِيْ عُسْرًا۝۷۳

موسیٰ ؑنے کہا میری بھول چوک پرمواخذہ نہ کیجئے اورمیرے اس معاملہ میں مجھ پر زیادہ سختی نہ کیجئے۔

فَانْطَلَقَا۝۰۪ حَتّٰٓي اِذَا لَقِيَا غُلٰمًا فَقَتَلَہٗ۝۰ۙ

پھر کشتی سے اتر کر دونوں چلے یہاں تک کہ راہ میں ایک لڑکا ملا، پس انہوں نے اس کومار ڈالا۔

قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّۃًۢ بِغَيْرِ نَفْسٍ۝۰ۭ لَقَدْ جِئْتَ شَـيْــــًٔـا نُّكْرًا۝۷۴

موسیٰ ؑنے کہا آپ نے بلا وجہ ایک بے گناہ کی جان لی یقیناً آپ نے بہت ہی برا کام کیا ہے۔

توضیح : سفر کی وجہ بعض روایتوں میں یوں ہے کہ کسی نے آپ سے پوچھا اس وقت سب سے بڑا عالم کون ہے؟ توفرمایا میں ہوں۔ بات تواس لحاظ سے صحیح تھی کہ آپ پیغمبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کوقرب کا علم بخشا مگر اتنی بات بھی پیغمبر کے لیے مناسب نہ سمجھی گئی۔ ارشاد ہوا کہ مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ رہتا ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے، ہوسکتا ہے کہ بعض اورعلوم کا وہ زیادہ جاننے والا ہو اور مقام قرب کا انھیں علم نہ ہو۔ موسیٰ کوان سے ملنے کا شوق ہوا پوچھا ان سے ملنے کیا صورت ہے۔ ارشاد ہوا کہ ایک بے جان مچھلی ساتھ رکھو، جہاں وہ گم ہوجائے وہیں وہ شخص ملے گا یہاں ایک نکتہ یہ ہے کہ موسیٰ نے اپنے سے چھوٹے درجہ کے شخص کوبعض خاص علوم میں استاد بنانے میں عار نہیں جانا۔