بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِہِ الْكِتٰبَ
ساری تعریفین اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے جس نے اپنے بندے (محمد ﷺ ) پریہ کتاب (قرآن) نازل فرمائی۔
وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۱ۭ۫ قَيِّـمًا
اورجس میں کسی اعتبار سے کوئی خامی (پیچیدگی) نہیں رکھی (یعنی اس کے تمام احکام ومضامین عقل وفطرت کے مطابق انسان کی بھلائی کیلئے نہایت اعتدال کے ساتھ نازل کیے گئے) جودین پر استقامت بخشتے ہیں۔
لِّيُنْذِرَ بَاْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ
تا کہ (نافرمانی کرنے والوں کو) اس کی طرف سے آنے والے سخت ترین عذاب سے ڈرائے۔
وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا حَسَـنًا۲ۙ مَّاكِثِيْنَ فِيْہِ اَبَدًا۳ۙ
اوران تمام اہل ایمان کے لیے (جنہوں نے الٰہی تعلیم کے مطابق زندگی بسرکی) خوشخبری سنائیے کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے
پاس بڑا ہی اچھا بدل جنت ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
وَّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا۴ۤ
اوران لوگوں کوڈرائیے جوکہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کواپنا بیٹا بنالیا ہے (یعنی اپنی فرمانروائی میں شریک کاربنا رکھا ہے)
مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِاٰبَاۗىِٕہِمْ۰ۭ
اس کا صحیح علم نہ ان کوہے اورنہ ان کے باپ دادا کوتھا (یعنی حقیقت کیا ہے یہ جانتے ہی نہ تھے)
كَبُرَتْ كَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ
بڑے ہی گناہ کی بات ہے جوان کے منہ سے نکلتی ہے۔
اَفْوَاہِہِمْ۰ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا۵
جوکچھ یہ کہہ رہے ہیں محض جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا۶
شاید کہ آپ اپنے کوہلاک ہی کرڈالیں اوررنج وغم کے سبب کہ یہ لوگ اس کلام پرایمان نہیں لارہے ہیں ۔
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا
ہم نے زمین پرجتنی بھی چیزیں بنائی ہیں اس میں زیب وزینت (جاذبیت وکشش) رکھی ہے۔
لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۷
تا کہ ہم لوگوں کا امتحان لیں کہ کون اچھا عمل کرتا ہے ۔
وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَيْہَا صَعِيْدًا جُرُزًا۸ۭ
اورجوچیزیں زمین پر ہیں ہم ان سب کوفنا کرکے زمین کوایک چٹیل میدان بنادیں گے۔
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَہْفِ وَالرَّقِيْمِ۰ۙ
(ائے نبیؐ) غار اورلوح(تختی) والوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا آپ انھیں جانتے ہیں ؟
كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَــبًا۹
(تختی والوں سے مراد جہاں پہاڑ پران کے نام کندہ ہیں) وہ ہماری عجیب نشانیوں میں سے تھے۔
اِذْ اَوَى الْفِتْيَۃُ اِلَى الْكَہْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً وَّہَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا۱۰
جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تو دعا کی کہ ائے ہمارے پروردگار ہم پراپنی رحمت نازل فرما اور اس معاملہ میں ہمارے لیے بھلائی کا سامان کردیجئے۔
فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِہِمْ فِي الْكَہْفِ سِنِيْنَ عَدَدًا۱۱ۙ
پھر ہم نے اسی غار میں سال ہا سال تک ان کے کانوں پر(نیند کا) پردہ ڈال دیا (یعنی ان کوسلادیا)
ثُمَّ بَعَثْنٰہُمْ لِنَعْلَمَ اَيُّ الْحِزْبَيْنِ اَحْصٰى لِمَا لَبِثُوْٓا اَمَدًا۱۲ۧ
پھرانھیں جگایا تا کہ ہم دیکھیں کہ کون سی جماعت ان کے غار میں رہنے کی مدت کا صحیح اندازہ کرسکتی ہے۔
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَاَہُمْ بِالْحَقِّ۰ۭ
ہم ان کا صحیح واقعہ آپ سے بیان کرتے ہیں۔
اِنَّہُمْ فِتْيَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنٰہُمْ ہُدًى۱۳ۤۖ
وہ چند نوجوان تھے جواپنے رب پر(صدق دل سے یعنی بلاشائبہ شرک) ایمان لائے تھے اورہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا۔
وَّرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ
(اورجب انہوں نے ایمان پرقائم رہنے کا تہیہ کرلیا تو) ہم نے ان کے دلوں کومضبوط کردیا (استقامت بخشی)
اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے توکہنے لگے ہمارا پروردگار تووہ ہے جوآسمانوں اورزمین کا مالک ہے۔
لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰـہًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا۱۴
ہم اس کے سوا کسی کومعبود سمجھ کرنہیں پکاریں گے، اگر ہم ایسا کریں تویہ (عقل کے خلاف) بڑی ہی بیجا بات ہوگی۔
ہٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً۰ۭ
ہماری قوم کے ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اورمعبود بنا رکھے ہیں۔
لَوْلَا يَاْتُوْنَ عَلَيْہِمْ بِسُلْطٰنٍؚبَيِّنٍ۰ۭ
بھلا یہ ان کے معبود ہونے پرکوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے۔
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللہِ كَذِبًا۱۵ۭ
پھراس سے بڑھ کرظالم کون ہوگا جواللہ تعالیٰ کے متعلق جھوٹے عقائد گھڑے۔
وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْہُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ فَاْوٗٓا اِلَى الْكَہْفِ
اور( پھر انہوں نے آپس میں کہا) جب تم قوم ( کے ان مشرکین) سے اوران کے شرکاء سے (ان سے جن کی یہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں) کنارہ کش ہوگئے ہو تو چل کرغار میں پناہ لو۔
يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِہٖ وَيُہَيِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا۱۶
تمہارا رب تم کواپنی رحمت سے نوازے گا اوروہ تمہاری اس کوشش میں ہر طرح کی آسانیاں پیدا کرے گا۔
وَتَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ كَہْفِہِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ
اوراگر آپ طلوع آفتاب کے وقت دیکھیں توسورج ان کے غار کی داہنی طرف سے گزرجاتا ہے (اس طرح کے عمل سے دھوپ ان پر نہیں پڑتی)
وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُہُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَہُمْ فِيْ فَجْــوَۃٍ مِّنْہُ۰ۭ
اورجب غروب کے وقت دیکھیں توبائیں جانب سے گزرتا ہے۔ حالانکہ وہ اس غار کے ایک کشادہ حصہ میں ہیں،اورجب غروب کے وقت دیکھیں توبائیں جانب سے گزرتا ہے۔ حالانکہ وہ اس غار کے ایک کشادہ حصہ میں ہیں،
ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ۰ۭ
یہ اللہ تعالیٰ کے (قادرمطلق اورمختار کل ہونے کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
مَنْ يَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۰ۚ
جس کواللہ تعالیٰ ہدایت دیں وہی ہدایت پاتا ہے (جوہدایت کی طرف رجوع ہوتا ہے اس کوہدایت دی جاتی ہے)
وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِيًّا مُّرْشِدًا۱۷ۧ
اور جس کو حق تعالیٰ گمراہی میں پڑا رہنے دیں توپھر نہ کوئی اس کوراہ دکھانے والاہے اور نہ کوئی دوست اس کا ساتھ دیتا ہے۔
وَتَحْسَبُہُمْ اَيْقَاظًا وَّہُمْ رُقُوْدٌ۰ۤۖ وَّنُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ۰ۤۖ
اورائے نبیؐ اگرآپ انھیں دیکھتے تویہی خیال کرتے کہ وہ جاگ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ سورہے ہیں۔ اورہم ان کودائیں اوربائیں کروٹیں بدلواتے ہیں،
وَكَلْبُہُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْہِ بِالْوَصِيْدِ۰ۭ لَوِاطَّلَعْتَ عَلَيْہِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْہُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْہُمْ رُعْبًا۱۸
اوران کا کتا غار کے دہانہ پردونوں ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا (ائے نبیؐ) اگرآپؐ انھیں جھانک کردیکھتے توپیٹھ پھیر کربھاگ جاتے اوران کا خوف آپ کے دل میں بھرجاتا ہے۔
وَكَذٰلِكَ بَعَثْنٰہُمْ لِيَتَسَاۗءَلُوْا بَيْنَہُمْ۰ۭ
اوراسی طرح ہم نے انھیں طویل نیند سے جگایا تا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اپنے احوال پوچھیں
قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْہُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ۰ۭ
ان میں سے ایک نے پوچھا کہو تم کتنی مدت سوتے رہے؟
قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ۰ۭ
انہوں نے جواب دیا ایک دن یا اس سے بھی کم۔
قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ۰ۭ
انہوں نے کہا تمہارا پروردگار ہی جانتا ہے کہ تم کتنی مدت سوتے رہے۔
فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ ہٰذِہٖٓ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ
لہٰذا (اب ان باتوں کوچھوڑو) اپنے میں سے کسی کو یہ سکے دے کرشہر میں بھیجو۔
فَلْيَنْظُرْ اَيُّہَآ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْيَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْہُ
اوراچھی طرح دیکھ لے کہ کونسا کھانا پاک (حلال) ہے پھر اس میں سے تمہارے لیے لے آئے۔
وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا۱۹
اوراس حسن تدبیر کے ساتھ جائے اورآئے کہ کوئی تم کوپہچان نہ سکے۔
اِنَّہُمْ اِنْ يَّظْہَرُوْا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوْكُمْ
اگروہ تم پرمطلع ہوجائیں توتم کوسنگسار کریں گے۔
اَوْ يُعِيْدُوْكُمْ فِيْ مِلَّتِہِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْٓا اِذًا اَبَدًا۲۰
یا زبردستی اپنے باطل دین میں لوٹائیں گے اورپھرتم (ان کے پنجہ ظلم سے نکلنے میں) کبھی کامیاب نہ ہوسکوگے۔
وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْہِمْ لِيَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ
اوراسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان کے حال سے خبردار کردیا تا کہ وہ جان لیں اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔
وَّاَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَيْبَ فِيْہَا۰ۚۤ
اوریہ کہ قیامت کے واقع ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔
اِذْ يَتَنَازَعُوْنَ بَيْنَہُمْ اَمْرَہُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَيْہِمْ بُنْيَانًا۰ۭ
اس وقت لوگ ان ہی کے تعلق سے جھگڑنے لگے کہنے لگے (یاد گار کے طور پر) ان کے غار پرایک عمارت بنادو
رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ۰ۭ
(بعضوں نے کہا ان کوان کے حال پرچھوڑدو) ان کا پروردگار ان کے احوال سے خوب واقف ہے۔
قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓي اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْہِمْ مَّسْجِدًا۲۱
ان لوگوں نے کہا جوبرسراقتدار تھے ہم توضرور ان پرایک عبادت گاہ بنائیں گے۔
سَيَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ كَلْبُہُمْ۰ۚ
بعض لوگ (قیاساً) کہیں گے وہ نوجوان تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے
وَيَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ كَلْبُہُمْ رَجْمًۢـــا بِالْغَيْبِ۰ۚ
اوربعض کہیں گے وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے ، سب ظنی اور غیر تحقیقی باتیں کرتے ہیں۔
وَيَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ كَلْبُہُمْ۰ۭ
اوربعض کہتے ہیں وہ سات ہیں آٹھواں ان کا کتاہے
قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَّا يَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِيْلٌ۰ۥۣ
کہئے میرا رب ہی ان کی صحیح تعداد جانتا ہے، ان کی صحیح تعداد سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔
فَلَا تُمَارِ فِيْہِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاہِرًا۰۠
لہٰذا ان کی تعداد کے بارے میں سرسری بحث کے سوا کوئی تفصیلات میں نہ جائے۔
وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًا۲۲ۧ
اوران کے بارے میں کسی سے کچھ نہ پوچھئے۔
وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا۲۳ۙ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ۰ۡ
اورکسی کام کی نسبت یوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگریہ کہ اللہ چاہے توکروں گا۔
وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ
اوراگر آپ کبھی ان شاء اللہ کہنا بھول جائیں توجب بھی یاد آجائے ان شاء اللہ کہہ دیا کیجئے۔
وَقُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّہْدِيَنِ رَبِّيْ لِاَقْرَبَ مِنْ ہٰذَا رَشَدًا۲۴
اورکہئے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے گا۔
وَلَبِثُوْا فِيْ كَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا۲۵
(اصحاب کہف کے بارے میں اتنا جزواورسن لیجئے) کہ وہ غار میں تین سو سال رہے (بعض کا خیال ہے کہ) نوسال اورزیادہ رہے۔
قُلِ اللہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا۰ۚ
کہئے اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں کہ وہ کتنی مدت رہے
لَہٗ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ اَبْصِرْ بِہٖ وَاَسْمِعْ۰ۭ
آسمانوں اورزمین کی ساری پوشیدہ چیزوں کا علم اسی کو ہے وہی ہرشئی کونظرمیں رکھے ہوئے ہے اوروہی سب کچھ سنتا ہے۔
مَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِيٍّ۰ۡوَلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِہٖٓ اَحَدًا۲۶
اس کے سوا ان کا کوئی کارساز وحاجت روا نہیں اورنہ اس نے اپنی فرمانروائی میں کسی کوشریک کیا ہے ۔
وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ۰ۭۚ
اور(اس بنیادی حقیقت کو) جواپنی کتاب کے ذریعہ آپ پرمنکشف کی گئی ہے پڑھ کرسنایا کیجئے۔(کہ اللہ تعالیٰ ہی بلا شرکت غیرے معبود ومستعان ہیں اللہ تعالیٰ نے افراد خلق میں سے کسی حیثیت سے بھی اپنی حکومت میں شریک ودخیل نہیں فرمایا ہے)
لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِہٖ۰ۣۚ
اسکے احکام کوئی بدل نہیں سکتا (قانون الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا۲۷
اورآپ اس کے مقابلے میں ( اس کے عذاب سے بچنے کے لیے) کوئی جائے پناہ نہ پاؤگے۔
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَہٗ
اورجو(غریب) صبح وشام اپنے پروردگار کوپکارتے ہیں اوراس کی خوشنودی کے طالب رہتے ہیں ان کا ساتھ دیجئے۔ صبروضبط کواپنائے رہئے۔
وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْہُمْ۰ۚ تُرِيْدُ زِيْنَۃَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ
اوردنیوی زیب وزینت کی خاطر ا(اہل ایمان) سے بے التفاتی نہ برتیے۔
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ
اور اس کا کہنا نہ مانئے جس کے دل کو ہم نے (انتقاماً) اپنی یاد سے غافل کردیا ہے۔ اور جو(بلا روک ٹوک) اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہو۔
وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۲۸
اور اس کا کام حد سے گزر گیا ہو۔اس کا کہنا نہ ماننا۔
روسائے قریش کی اس چال کا ذکر سورہ انعام میں گزرچکا ہے۔ یہاں بالفاظ دیگر اسی کا اعادہ ہے ایسا ہی معاملہ حضرت نوحؑ اوران کی قوم کے سرداروں کے درمیان بھی پیش آچکا ہے۔ (سورۂ ہود :۲۷ تا ۳۱)
ائے نبیؐ اس توقع میںکہ شاید روسائے قریش کے مطالبہ کوتسلیم کرنے سے وہ ایمان قبول کریں گے، آپ غریب اہل ایمان سے بے التفاتی نہ برتئے کیونکہ وہ سچے دل سے دن رات ہرچھوٹی بڑی حاجت ومصیبت میں اپنے پروردگار ہی کی طر ف رجوع ہوتے ہیں اوراسی کوپکارتے ہیں۔ یہ خیال ہرگز کرنانہ کہ دولت مند داخل اسلام ہوجائیں گے توشاید ان کے تعاون سے غریب اہل ایمان کی دنیوی زندگی اچھی ہوجائے گی۔ ہرگز ہرگز ایسے شخص کی بات نہ سنیے جس کوہم نے انکار کے نتیجہ میں حق سے پھیردیا ہے۔
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۰ۙ
ائے نبی کہہ دیجئے( لوگو) یہ قرآن برحق تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے لہٰذا جوچاہے ایمان لائے اور جوچاہے انکار کرے۔
اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ نَارًا۰ۙ
یقیناً ہم نے ظالموں (مشرکوں) کیلئے (دہکتی ہوئی) آگے تیار رکھی ہے۔
اَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا۰ۭ
جن کی قناتیں انھیں گھیری ہوئی ہوں گی۔
وَاِنْ يَّسْتَغِيْثُوْا يُغَاثُوْا بِمَاۗءٍ كَالْمُہْلِ يَشْوِي الْوُجُوْہَ۰ۭ
اوراگر وہ (پیاس سے بے تاب ہوکر) فریاد کریں گے توایسے پانی سے فریاد رسی کی جائے گی جوپگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جومنہ اور چہرے کوبھون ڈالے گا۔
بِئْسَ الشَّرَابُ۰ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا۲۹
لہٰذا وہ پینے کی کیا ہی بری چیز ہوگی اوران کا ٹھکانا بھی کیا ہی برا ہوگا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
جولوگ ایمان لائے اورنیک اعمال کرتے رہے(یعنی جنہوں نے الٰہی تعلیمات قبول کی اوراس کے مطابق زندگی بسر کی)
اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا۳۰ۚ
نیک کام کرنے والے کا اجر ہم ضائع نہیں کرتے۔
اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے (ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔
يُحَلَّوْنَ فِيْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ
اس میں ان کوسونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔
وَّيَلْبَسُوْنَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ
اوروہ وہاں سبز ریشم کے باریک اوردبیز کپڑے پہنے ہوں گے۔
مُّتَّكِــِٕـيْنَ فِيْہَا عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ۰ۭ
اورمسندوں پرگاؤتکیے لگائے (شاہانہ انداز سے) بیٹھے رہیں گے۔
نِعْمَ الثَّوَابُ۰ۭ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا۳۱ۧ
کیا ہی اچھا بدلہ اورکیا ہی آرام کی اچھی جگہ ہے
وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ
(ائے نبیؐ) آپ انھیں (مخاطبین قرآن کو) ان دوشخصوں کا حال سنائیے۔
جَعَلْنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ
جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دوباغ عنایت کیے تھے۔
وَّحَفَفْنٰہُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَيْنَہُمَا زَرْعًا۳۲ۭ
اوران باغوں کی باڑکھجور کے درختوں کی تھی اوراس کے درمیان کھیتی بھی لگارکھی تھی۔
كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ اٰتَتْ اُكُلَہَا
دونوں باغ کثرت سے میوہ لاتے تھے۔
وَلَمْ تَظْلِمْ مِّنْہُ شَـيْــــًٔـا۰ۙ
اوراس کی پیداوار میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی تھی۔
وَّفَجَّرْنَا خِلٰلَہُمَا نَہَرًا۳۳ۙ
اوران کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کررکھی تھی ۔
وَّكَانَ لَہٗ ثَمَــــرٌ۰ۚ
اوران باغوں کے تمام ثمرات کا وہی تنہا مالک تھا۔
فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَہُوَيُحَاوِرُہٗٓ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا۳۴
ایک دن وہ اپنے ساتھی سے اثناء گفتگو میں کہنے لگا میں تم سے مال ودولت میں بڑھا ہوا ہوں، کنبہ اورخاندان کے اعتبار سے بھی زیادہ عزت والا ہوں(اس طرح کی شیخیوں کے ساتھ)
وَدَخَلَ جَنَّتَہٗ وَہُوَظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ۰ۚ قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِيْدَ ہٰذِہٖٓ اَبَدًا۳۵ۙ
وہ اپنے باغ میں اپنے حق میں ظلم کرتا ہوا داخل ہوا (باغ کی سرسبزی وشادابی کودیکھ کر) کہا میں گمان بھی نہیں کرسکتا کہ یہ باغ کبھی تباہی کی سرحد کوبھی پہنچے گا (یعنی تباہ نہ ہوگا)
وَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَاۗىِٕمَۃً۰ۙ
اورمیں نہیں سمجھتا کہ قیامت برپا بھی ہوگی (یعنی میرا گمان غالب ہے کہ قیامت برپا نہ ہوگی)
وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّيْ لَاَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْہَا مُنْقَلَبًا۳۶
اور اگر میں اپنے رب کے پاس لوٹا یا بھی گیا توضروراس باغ سے بہتر پاؤں گا (کافر سمجھتے ہیں کہ گناہوں کے باوجود دنیا میں خوش حال زندگی کا حاصل ہونا اس بات کی علامت ہے کہ آخرت میں بھی اس سے بہتر زندگی ملے گی)
قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَہُوَيُحَاوِرُہٗٓ اَكَفَرْتَ بِالَّذِيْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ
تواس کا دوست جواس سے گفتگو کررہا تھا کہنے لگا کیا تم اس اللہ کے الٰہ واحد معبود ومستعان )ہونے کا انکار کرتے ہو جس نے تم کومٹی سے پیدا کیا ؟
ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًا۳۷ۭ
پھر نطفہ سے تم کوصحیح وسالم انسان بنایا ؟
لٰكِنَّا۟ ہُوَاللہُ رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا۳۸
لیکن میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ وہی اللہ میرا رب ہے اورمیں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کوکسی حیثیت سے بھی شریک نہیں کرتا۔
وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللہُ۰ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ۰ۚ
اوراپنے ساتھی سے کہا جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے توتم نے مَاشَاءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ کیوں نہیں کہا (یعنی یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا فضل ہے اوراسی کی مہربانی ہے۔)
وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللہُ۰ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ۰ۚ
اوراپنے ساتھی سے کہا جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے توتم نے مَاشَاءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ کیوں نہیں کہا (یعنی یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا فضل ہے اوراسی کی مہربانی ہے۔)
اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّوَلَدًا۳۹ۚ
اگر تم مجھ کومال واولاد میں اپنے سے کمتر دیکھ رہے ہو
فَعَسٰي رَبِّيْٓ اَنْ يُّؤْتِيَنِ خَيْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ
توہوسکتا ہے کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر باغ عنایت کرے۔
وَيُرْسِلَ عَلَيْہَا حُسْـبَانًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَتُصْبِحَ صَعِيْدًا زَلَقًا۴۰ۙ
اور(تمہارے) اس باغ پرآسمان سے کوئی آفت بھیج دے پھر وہ ایک چٹیل میدان ہوکر رہ جائے۔
اَوْ يُصْبِحَ مَاۗؤُہَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِيْعَ لَہٗ طَلَبًا۴۱
یا پھر اس(نہر) کا پانی بڑی گہرائی میں پہنچ جائے، پھر تم اس کوکسی طرح بھی حاصل نہ کرسکو۔
وَاُحِيْطَ بِثَمَرِہٖ
اور(آخر کار) عذاب الٰہی نے اس کے ثمرات کواپنی گرفت میں لیا۔
فَاَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْہِ عَلٰي مَآ اَنْفَقَ فِيْہَا وَھِيَ خَاوِيَۃٌ عَلٰي عُرُوْشِہَا
پھر صبح وہ (اپنے باغ کواس طرح اجڑتے دیکھا کہ وہ ) اپنے منڈھوں سمیت گرپڑا ہے توجومال اس نے اس پرخرچ کیا تھا سب اکارت گیا، حسرت کے ساتھ کف افسوس ملنے لگا۔
وَيَـقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا۴۲
اورکہنے لگا کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہوتا۔
وَلَمْ تَكُنْ لَّہٗ فِئَۃٌ يَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ
اوراس وقت کوئی جماعت اللہ کے مقابلہ میں اس کی کسی طرح کی کوئی مدد نہ کرسکی۔
وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا۴۳ۭ
اور وہ خود بھی اس مصیبت کا مقابلہ نہ کرسکا۔(اورنہ اللہ تعالیٰ سے بدلہ لے سکا)
ہُنَالِكَ الْوَلَايَۃُ لِلہِ الْحَقِّ۰ۭ ہُوَخَيْرٌ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ عُقْبًا۴۴ۧ
یہاں( یہ حقیقت ثابت ہوگئی کہ حاجت براری وکارسازی بالکلیہ) حکومت اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے (وہی کارساز وحاجت روا ہے) وہی بدلہ بہتر ہے جواللہ دے اورنتیجہ کے لحاظ سے وہی انجام بہتر ہے جس کواللہ عطا کرے۔
وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوۃِ
(ائے نبیؐ) ان لوگوں سے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کیجئے اس کی مثال
الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ
ایسی ہے جیسی ہم نے آسمان سے پانی برسایا ہو۔
فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ہَشِيْمًا تَذْرُوْہُ الرِّيٰحُ۰ۭ
پھر اس کے ذریعہ زمین سرسبز وشاداب( وبارآور)ہوگئی، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوگئی، ہوائیں اسے اڑائے پھرتی ہیں۔
وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا۴۵
اوراللہ تعالیٰ ہرچیز پرپوری طرح قادر ہے۔
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ
مال اوراولاد (جس کی محبت میں تم گرفتار اورجنہیں مطلوب ومقصود بنائے ہوئے ہو) وہ تو دنیوی زندگی کی ایک رونق ہیں (جنہیں بقاء نہیں اورجن سے امیدیں بھی پوری نہیں ہوتیں)۔
وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًا۴۶
اوراعمال صالحہ ہی باقی رہنے والے ہیں، وہ آپ کے رب کے نزدیک بدل کے لحاظ سے بھی اعلیٰ وارفع ہیں اورامید کے اعتبار سے بھی ہزاروں درجہ بہتر ہیں (لہٰذا عقلمندی یہ ہے کہ انسان اسی کا تمنائی بنارہے)
وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَۃً۰ۙ
اورجس دن ہم پہاڑوں کوچلائیں گے ائے نبیؐ آپ زمین کودیکھیں گے کہ وہ کسی چیز سے ڈھکی چھپی نہ رہے گی (صاف میدان کی طرح رہے گی)
وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا۴۷ۚ
اورہم ان سب کوجمع کریں گے (جوموت کے بعد دوبارہ زندگی کوممکن نہیں سمجھتے تھے محاسبہ اعمال کے بارے میں یقین نہیں رکھتے تھے) لہٰذا ان میں کسی کوبھی نہ چھوڑیں گے ۔
وَعُرِضُوْا عَلٰي رَبِّكَ صَفًّا۰ۭ
اور(محاسبۂ اعمال کیلئے) اپنے رب کے سامنے صف بستہ لائے جائیں گے۔
لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍؚ۰ۡ
( اس وقت ان سے پوچھا جائے گاکیا یہ امرواقعہ نہیں ہےکہ ) تم ہمارے پاس اس طرح دوبارہ زندہ ہوکر آگئے جیسا کہ ہم نے تم کوپہلی مرتبہ کیا تھا۔
بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا۴۸
بلکہ تم اس خیال میں مست تھے کہ تمہارے اعمال کے محاسبہ کی یہ ساعت ہی نہ آئے گی۔
وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْہِ
اوران کے سامنے ان کا نامہ عمل رکھ دیا جائے گا پھرآپ مجرمین کودیکھیں گے کہ جوکچھ اس میں لکھا ہوا ہوگا اس سے گھبرا رہے ہوں گے۔
وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَۃً وَّلَا كَبِيْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَا۰ۚ
اورکہیں گے ہائے ہماری تباہی وبربادی یہ کیسی کتاب ہے کہ ہرچھوٹی سے چھوٹی اوربڑی سے بڑی (بھلائی ہویا برائی) کسی بات کوبھی نہیں چھوڑتی مگریہ سب اس میں مندرج ہیں۔
وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۰ۭ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۴۹ۧ
اور جوکچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اس میں لکھا ہوا پائیں گے (ائے نبیؐ) آپ کا رب کسی پر رتی برابر ظلم نہیں کرتا، (یعنی ناکردہ گناہ نہیں لکھتا)
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ
(اوروہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب کہ ہم نے ملائکہ کوحکم دیا تھا کہ وہ آدمؑ کوسجدہ کریں۔
فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۰ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ۰ۭ
ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا جوجنات کی جنس سے تھا اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی
اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَذُرِّيَّتَہٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَہُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ۰ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا۵۰
کیا تم اس کواوراس کی اولاد کومیرے سوا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، ظالموں کے لیے (شیطان کی دوستی) کیا ہی برا بدل ہے۔
مَآ اَشْہَدْتُّہُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَا خَلْقَ اَنْفُسِہِمْ۰۠
(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) میں نے نہ توآسمانوں اورزمین کے پیدا کرتے وقت انھیں شاہد بنایا تھا اورنہ خود انھیں پیدا کرتے وقت۔
وَمَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّيْنَ عَضُدًا۵۱
اورمیں (ایسا عاجز تو) نہ تھا کہ گمراہ کرنے والوں کواپنا دست وبازو بناتا(اجنہ جیسے گمراہوں کواپنا یہ اختیار دیتا کہ وہ جس کوچاہیں گمراہ کریں۔
وَيَوْمَ يَقُوْلُ نَادُوْا شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْہُمْ
اور(اس دن کو یاد رکھو) جس دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جن کوتم ہمارا شریک سمجھتے تھے انھیں پکارو توسہی
فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَہُمْ
لہٰذا وہ ان کوپکاریں گے مگر وہ ان کی پکار کا کوئی جواب نہ دیں گے۔
وَجَعَلْنَا بَيْنَہُمْ مَّوْبِقًا۵۲
اورہم ان کے درمیان ایک آڑ کردیں گے(اوروہ آگ سے بھری ہوئی خندق ہوگی)
وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مُّوَاقِعُوْہَا
اورمجرمین (جہنم کی) آگ دیکھیں گے توخیال کریں گے کہ وہ اسی آگ میں ڈالے جائیں گے۔
وَلَمْ يَجِدُوْا عَنْہَا مَصْرِفًا۵۳ۧ
اوروہ اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔
وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ۰ۭ
اورہم نے اس قرآن میں لوگوں کوسمجھانے کے لیے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں۔
وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا۵۴
لیکن (منکر) انسان (حقائق کونہ ماننے کیلئے) سب سے زیادہ جھگڑتا ہے (اوربلادلیل اپنے بزرگوں کواس نظام کائنات میں دخیل وشریک سمجھتا ہے)
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَہُمُ الْہُدٰى وَيَسْتَغْفِرُوْا رَبَّہُمْ
لوگوں کے پاس ہدایت آجانے کے بعد اس کوقبول کرلینے اوراپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگنے سے کونسی چیز مانع ہوسکتی تھی؟
اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَہُمْ سُنَّۃُ الْاَوَّلِيْنَ اَوْ يَاْتِيَہُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا۵۵
سوائے اس کے کہ گزشتہ امتوں کی طرح ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جائے یا عذاب الٰہی ان کے سامنے آموجود ہو۔
وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۰ۚ
اورہم رسولوں کواسی لیے بھیجتے ہیں کہ وہ (لوگوں کوجنت کی) خوشخبری سنائیں اورانھیں آخرت کے انجام بد (دوزخ سے) ڈرائیں۔
وَيُجَادِلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوْا بِہِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَمَآ اُنْذِرُوْا ہُزُوًا۵۶
اور منکرین حق محض غلط اوربے اصل (باتیں نکال نکال کر) جھگڑتے ہیں تا کہ حق کونا حق ثابت کردکھائیں اورانہوں نے میرے احکام اور تنبیہات کو(جوانھیں کی گئی تھیں) مذاق بنا رکھا۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ
اوراس سے بڑھ کرظالم کون ہوگا جس کواس کے رب کی تعلیم سنائی گئی
فَاَعْرَضَ عَنْہَا
تواس سے اس نے روگردانی کی۔
وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدٰہُ۰ۭ
اوراپنے ہاتھوں سے جوکچھ گناہ سمیٹ رہا ہے (اس کے انجام آخرت کو) بھول گیا۔
اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ
ہم نے (انتقاماً) ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ اسے سمجھ ہی نہ سکیں۔
وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۰ۭ
اوران کے کانوں میں ثقل پیدا کردیا (تا کہ وہ سن نہ سکیں)
وَاِنْ تَدْعُہُمْ اِلَى الْہُدٰى فَلَنْ يَّہْتَدُوْٓا اِذًا اَبَدًا۵۷
اوراگر آپ انھیں ہدایت کی طرف لائیں تووہ اس حالت میں ہدایت کی راہ پر کبھی نہ آئیں گے۔
وَرَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَۃِ۰ۭ
اور(واقعہ یہ ہے کہ) آپ کا رب بڑا ہی بخشنے والا صاحب رحمت ہے۔
لَوْ يُؤَاخِذُہُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَہُمُ الْعَذَابَ۰ۭ
اگروہ ان کی بداعمالیوں پرانھیں فوری گرفت کرتا توجلد ہی ان پر عذاب آجاتا۔
بَلْ لَّہُمْ مَّوْعِدٌ
بلکہ ان کے لیے (عذاب کا) ایک وقت مقرر ہے۔
لَّنْ يَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِہٖ مَوْىِٕلًا۵۸
(جب وہ آئے گا تو) ان کیلئے اللہ تعالیٰ کے سوا کہیں جائے پناہ نہ ہوگی۔
وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَہْلَكْنٰہُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا
اوریہ بستیاں جو ویران پڑی ہیں ان کے ظلم (کفروشرک) کی وجہ سے ہم نے انھیں تباہ وبرباد کردیا۔
وَجَعَلْنَا لِمَہْلِكِہِمْ مَّوْعِدًا۵۹ۧ
اوران کی ہلاکت کیلئے ہم نے ایک وقت مقرر کردیا تھا (جوان سے ٹل نہ سکا)
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىہُ
(موسیٰؑ کے سفر کا وہ واقعہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے) جب کہ موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا۔
لَآ اَبْرَحُ حَتّٰٓي اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا۶۰
میں یہ سفر اس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچ نہ جاؤں یا اس کے لیے برسوں چلنا ہی پڑے۔
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِہِمَا نَسِيَا حُوْتَہُمَا
جب وہ دونوں چلتے ہوئے دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچے تواپنی اس مچھلی کوبھول گئے۔
فَاتَّخَذَ سَبِيْلَہٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا۶۱
جو خشکی پرسرنگ کی طرح راستہ بناتے ہوئے دریا میں چلی گئی۔
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىہُ اٰتِنَا غَدَاۗءَنَا۰ۡ
پھرجب وہ دونوں اس مقام سے آگے نکل گئے توموسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا ہمارا ناشتہ لے آؤ۔
لَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا۶۲
یقیناً ہم اس سفر میں بہت تھک گئے ہیں۔
قَالَ اَرَءَيْتَ اِذْ اَوَيْنَآ اِلَى الصَّخْرَۃِ فَاِنِّىْ نَسِيْتُ الْحُوْتَ۰ۡ
خادم نے کہا دیکھئے ایک عجیب بات ہوئی جب ہم چٹان کے پاس آرام کے لیے ٹھیرے تھے، میں اس مچھلی کا ذکر کرنا بھول گیا۔
وَمَآ اَنْسٰنِيْہُ اِلَّا الشَّيْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَہٗ۰ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيْلَہٗ فِي الْبَحْرِ۰ۤۖ عَجَـــبًا۶۳
میں اس واقعہ کا ذکر کرتا لیکن شیطان نے مجھے بھلادیا (مچھلی زندہ ہوئی) اوروہ عجیب طریقہ سے دریا میں اپنی راہ لی۔
قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ۰ۤۖ
موسیٰ ؑنے کہا یہی تووہ مقام ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔
فَارْتَدَّا عَلٰٓي اٰثَارِہِمَا قَصَصًا۶۴ۙ
پھر وہ دونوں اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس لوٹے۔
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ
پس وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کوپایا۔
اٰتَيْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا
جنہیں ہم نے اپنی خاص رحمت سے نوازا تھا
وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۶۵
اور ہم نے انھیں ایک خاص علم بخشا تھا۔
قَالَ لَہٗ مُوْسٰي ہَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰٓي اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۶۶
موسیٰ نے ان سے کہا کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں اس شرط کے ساتھ کہ جو مفید علم (اللہ تعالیٰ نے) آپ کو سکھایا ہے اس میں سے آپ مجھے سکھائیں۔
قَالَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِيَ صَبْرًا۶۷
کہا تم میرے ساتھ رہ کر ( میرے کاموں کو) برداشت نہ کرسکوگے۔
وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلٰي مَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْرًا۶۸
اورتم کیسے برداشت کرسکتے ہو جب کہ تم ان باتوں کوحقیقت سے ہی بے خبر ہو۔
قَالَ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللہُ صَابِرًا
موسیٰ ؑنے کہا، اللہ نے چاہا توآپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے
وَّلَآ اَعْصِيْ لَكَ اَمْرًا۶۹
اورمیں کسی معاملہ میں بھی آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔
قَالَ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِيْ فَلَا تَسْــــَٔـلْنِيْ عَنْ شَيْءٍ
پھر انہوں نے (خضرؑ نے) کہا اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو شرط یہ ہے کہ تم مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔(یعنی میری کسی بات پراعتراض نہ کرو)
حَتّٰٓي اُحْدِثَ لَكَ مِنْہُ ذِكْرًا۷۰ۧ
تا آنکہ میں خود اس کی وضاحت نہ کردوں۔
فَانْطَلَقَا۰۪ حَتّٰٓي اِذَا رَكِبَا فِي السَّفِيْنَۃِ خَرَقَہَا۰ۭ
پھر دونوں مل کر چلے تاآنکہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو(اس بندہ حق نے) اس کشتی میں سوراخ کردیا۔
قَالَ اَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ اَہْلَہَا۰ۚ لَقَدْ جِئْتَ شَـيْــــًٔـا اِمْرًا۷۱
موسیٰؑ نے کہا آپ نے اس کشتی میں اس لیے سوراخ کردیا کہ کشتی کے سوار ڈوب جائیں، آپ نے توبڑے ہی خطرہ کا کام کیا ہے۔
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِيَ صَبْرًا۷۲
خضرؑ نے کہا کیا میں نے تم سے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ تم میرے کاموں پر صبر نہ کرسکوگے۔
قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِيْ بِمَا نَسِيْتُ وَلَا تُرْہِقْنِيْ مِنْ اَمْرِيْ عُسْرًا۷۳
موسیٰ ؑنے کہا میری بھول چوک پرمواخذہ نہ کیجئے اورمیرے اس معاملہ میں مجھ پر زیادہ سختی نہ کیجئے۔
فَانْطَلَقَا۰۪ حَتّٰٓي اِذَا لَقِيَا غُلٰمًا فَقَتَلَہٗ۰ۙ
پھر کشتی سے اتر کر دونوں چلے یہاں تک کہ راہ میں ایک لڑکا ملا، پس انہوں نے اس کومار ڈالا۔
قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّۃًۢ بِغَيْرِ نَفْسٍ۰ۭ لَقَدْ جِئْتَ شَـيْــــًٔـا نُّكْرًا۷۴
موسیٰ ؑنے کہا آپ نے بلا وجہ ایک بے گناہ کی جان لی یقیناً آپ نے بہت ہی برا کام کیا ہے۔
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِيَ صَبْرًا۷۵
کیا میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے کاموں پرصبر نہ کرسکیں گے۔
قَالَ اِنْ سَاَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍؚبَعْدَہَا فَلَا تُصٰحِبْنِيْ۰ۚ
(موسیٰ نے معذرتاً) کہا اگر میں اس کے بعد پھر کوئی بات پوچھوں (اعتراض کروں) توآپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں
قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّىْ عُذْرًا۷۶
کیونکہ آپ میری طرف سے عذر کی انتہا کوپہنچ چکے ہیں ۔
فَانْطَلَقَا۰۪ حَتّٰٓي اِذَآ اَتَيَآ اَہْلَ قَرْيَـۃِۨ اسْـتَطْعَمَآ اَہْلَہَا فَاَبَوْا اَنْ يُّضَيِّفُوْہُمَا
پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک بستی والوں کے پاس پہنچے وہاں کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا (مہمانی چاہی) تو انہوں نے ان کی ضیافت سے انکار کیا۔
فَوَجَدَا فِـيْہَا جِدَارًا يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ۰ۭ
توانہوں نے وہاں ایک ایسی دیوار پائی جوگرنے کوتھی انہوں نے ٹھیک کردیا۔
قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْہِ اَجْرًا۷۷
نے کہا، اگر آپ چاہتے تواس کام پر کچھ اجرت لے سکتے تھے (جس سے کھانے پینے کا انتظام ہوسکتا)
قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَيْنِيْ وَبَيْنِكَ۰ۚ
(خضرؑ) نے کہا یہ بات میرے اورآپ کے درمیان علیحدگی کا سبب بنی (اب ہم ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے)
سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِيْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَيْہِ صَبْرًا۷۸
(ائے موسیٰؑ ) جن کاموں پرآپ صبر نہ کرسکے میں ابھی تمہیں ان کی حقیقت بتائے دیتا ہوں۔
اَمَّا السَّفِيْنَۃُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ يَعْمَلُوْنَ فِي الْبَحْرِ
وہ کشتی چند مسکینوں کی تھی جسے سمندر میں کشتیاں چلا کر وہ گزارہ کرتے تھے۔
فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِيْبَہَا وَكَانَ وَرَاۗءَہُمْ مَّلِكٌ
تومیں نے اس کوعیب دار بنایا کیونکہ آگے (ساحلی شہر میں) ایک ظالم بادشاہ رہتا ہے۔
يَّاْخُذُ كُلَّ سَفِيْنَۃٍ غَصْبًا۷۹
جوہر اچھی کشتی کوزبردستی چھین لیتا ہے۔
وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَيْنِ
اور وہ جولڑکا تھا اس کے ماں باپ مومن تھے۔
فَخَشِيْنَآ اَنْ يُرْہِقَہُمَا طُغْيَانًا وَّكُفْرًا۸۰ۚ
ہمیں اندیشہ لاحق ہوا کہ وہ (بڑا ہوکر) انھیں سرکشی اورکفر میں نہ پھنسا دے۔
فَاَرَدْنَآ اَنْ يُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَيْرًا مِّنْہُ زَكٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا۸۱
توہم نے چاہا کہ ان کا رب ان کواس سے اچھا لڑکا عطا کرے جوپاکیزہ سیرت اورماں باپ کے حق میں رحم دل ہو۔
وَاَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَيْنِ يَتِيْمَيْنِ فِي الْمَدِيْنَۃِ
اوروہ جودیوار تھی دویتیم (نابالغ) لڑکوں کی تھی جواس شہر میں رہتے تھے۔
وَكَانَ تَحْتَہٗ كَنْزٌ لَّہُمَا
اوراس دیوار کے نیچے ان کے لیے ایک خزانہ گڑھا ہوا تھا
وَكَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًا۰ۚ
اور ان کا باپ ایک (نیک) صالح شخص تھا۔
فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ يَّبْلُغَآ اَشُدَّہُمَا
توآپ کے پروردگار نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی بھرپورجوانی کوپہنچ جائیں۔
وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَہُمَا۰ۤۖ رَحْمَۃً مِّنْ
اور وہ دونوں آپ کے رب کی مہربانی سے اپنا خزانہ نکال لیں۔
رَّبِّكَ۰ۚ وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِيْ۰ۭ
(حضرت خضرؑ نے کہا) یہ کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیے۔
ذٰلِكَ تَاْوِيْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَيْہِ صَبْرًا۸ۭۧ
پس یہ حقیقت ہے ان کاموں کی جن پر(ائے موسیٰؑ) آپ صبر نہ کرسکے۔
ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کوبھلائی وکارسازی کے لیے اللہ تعالیٰ غیب سے ایسے اسباب پیدا فرمادیتے ہیں جوبظاہر نقصان دہ اور تکلیف رساں معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں انسانوں ہی کی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کسی عضو کواس لیے کاٹ دیتا ہے کہ اس کی مضرت سے مریض کومحفوظ رکھا جائے۔ ڈاکٹر کا یہ فعل اس کے اپنے محدود علم وحکمت کی بناء پر مریض کے فائدے کے لئے ہوتا ہے جس پرانسان کواعتراض نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ توزبردست علیم وحکیم ہیں۔ ان کی حکیمانہ تجاویز پراعتراض وشکایت کیسی ؟
وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ۰ۭ
لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں (جوایک صالح بادشاہ تھے جن کواللہ تعالیٰ نے علم وحکمت سے سرفراز فرمایا تھا)
قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْہُ ذِكْرًا۸۳ۭ
کہئے میں ان کا کچھ حال ابھی بیان کیے دیتا ہوں۔
اِنَّا مَكَّنَّا لَہٗ فِي الْاَرْضِ
ہم نے ان کوزمین پر بڑا ہی اقتدار بخشتا تھا( زمین پرحکمرانی دی تھی)
وَاٰتَيْنٰہُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا۸۴ۙ
اورہم نے ان کوہر طرح کے اسباب حکمرانی عطا کیے تھے۔
فَاَتْبَعَ سَبَبًا۸۵
پھر وہ اپنے اسباب (سازوسامان کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے)۔
حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ
یہاں تک کہ (علاقوں پر علاقے فتح کرتے ہوئے) سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچ گئے۔
وَجَدَہَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنٍ حَمِئَۃٍ
اوراس کے کیچڑ (گارے ودلدل) کے چشمہ میں ڈوبتا ہوا پایا۔
وَّوَجَدَ عِنْدَہَا قَوْمًا۰ۥۭ
اوراس کے قریب ایک قوم کوپایا۔
قُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ اِمَّآ اَنْ تُعَذِّبَ
ہم نے (الہاماً) کہا ائے ذوالقرنین (اگر یہ قوم دعوت حق کا انکار کرے تو تم کواختیار ہے کہ) تم انھیں سزادو۔
وَاِمَّآ اَنْ تَتَّخِذَ فِيْہِمْ حُسْـنًا۸۶
یا ان سے اچھا برتاؤ کرو۔
قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُہٗ
(ذوالقرنین نے کہا (یعنی یہ فیصلہ کرلیا کہ پہلے ایمان کی دعوت دونگا) پھر جو کوئی ظلم کرے گا یعنی کفروشرک پراڑا رہے گا تو ہم اس کو سزا دیں گے۔
ثُمَّ يُرَدُّ اِلٰى رَبِّہٖ فَيُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّكْرًا۸۷
پھر جب وہ (مرنے کے بعد) اپنے رب کی طرف لوٹایا۔ جائے گا تواللہ تعالیٰ اس کو(جہنم کی) سخت ترین سزادیں گے۔
وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَاۗءَۨ الْحُسْنٰى۰ۚ
اورجوکوئی ایمان لائے گا اورنیک عمل کرے گا تو اس کے لیے نہایت ہی اچھا بدلہ ہے۔
وَسَنَقُوْلُ لَہٗ مِنْ اَمْرِنَا يُسْرًا۸۸ۭ
ہم اس سے اچھا برتاؤ کریں گے۔
ثُمَّ اَتْـبَـعَ سَبَبًا۸۹
حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ
پھر اس نے ایک اور سامان سفر کیا۔
(ذوالقرنین نے پورے سازو سامان کے ساتھ اپنی دوسری مہم کا آغاز مشرق کی جانب کیا )تا آنکہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پہنچ گئے۔
وَجَدَہَا تَطْلُعُ عَلٰي قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّہُمْ مِّنْ دُوْنِہَا سِتْرًا۹۰ۙ
تواس کوایک ایسی قوم پرطلوع ہوتے پایا جس کے لیے دھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں بنایا (نہ مکان نہ لباس)۔
كَذٰلِكَ۰ۭ وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَيْہِ خُبْرًا۹۱
حقیقت حال یہی ہے اورجو کچھ سازو سامان ان کے پاس تھا۔ (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) ہم کوخبر تھی (جوذوالقرنین نے اس صحرا نشین قوم کو دھوپ سے بچنے کے لیے دیا تھا)
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا۹۲
پھر (مشرق ومغرب کوفتح کرنے کے بعد) وہ ایک تیسری مہم پر لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے۔
حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ
یہاں تک کہ وہ دو دیواروں کے درمیان پہنچے۔
وَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمَا قَوْمًا۰ۙ لَّا يَكَادُوْنَ يَفْقَہُوْنَ قَوْلًا۹۳
وہاں (ذوالقرنین نے) ایک ایسی قوم کوپایا جو پوری طرح بات سمجھ نہ سکتی تھی۔
قَالُوْا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ اِنَّ يَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ
اس قوم نے کہا ائے ذوالقرنین یا جوج ماجوج اس سرزمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں۔
فَہَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلٰٓي اَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَہُمْ سَدًّا۹۴
توکیا ہم آپ کے لیے اس خرچ کا انتظام کریں کہ آپ ہمارے اوران کے درمیان کوئی مضبوط آڑ ( دیوار) بنادیں (تا کہ وہ ادھر نہ آسکیں)
قَالَ مَا مَكَّــنِّيْ فِيْہِ رَبِّيْ خَيْرٌ
ذوالقرنین نے کہا میرے پروردگار نے جو کچھ مجھے عطا کیا ہے وہی بہت کچھ ہے۔
فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّۃٍ اَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَہُمْ رَدْمًا۹۵ۙ
لہٰذا تم اپنی قوت بازو سے میری مدد کروتا کہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مستحکم حصار (دیوار) بنادوں۔
اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ۰ۭ
تم میرے پاس لوہے کی بڑی بڑی چادریں لے آؤ (چنانچہ کام کا آغاز کیا گیا)
حَتّٰٓي اِذَا سَاوٰى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ
یہاں تک کہ ان دونوں پہاڑوں کے درمیان کافی حصہ پُر کردیا
قَالَ انْفُخُوْا۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا۰ۙ
حکم دیا کہ خوب آگ دہکاؤ یہاں تک کہ وہ آگ ہوجائے
قَالَ اٰتُوْنِيْٓ اُفْرِغْ عَلَيْہِ قِطْرًا۹۶ۭ
(پھر) کہا میرے پاس پگھلا ہوا تانبہ لاؤ کہ میں اس پر ڈال دوں ۔
فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ يَّظْہَرُوْہُ
پھر وہ اس پرچڑھ نہ سکیں گے۔
وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَہٗ نَقْبًا۹۷
اورنہ وہ اس میں نقب (سوراخ ) لگا سکیں گے۔
قَالَ ھٰذَا رَحْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّيْ۰ۚ
(جب دیوارتیارہوگئی تو) ذوالقرنین نے کہا میرے رب کی مہربانی سے یہ کام اختتام کوپہنچا۔
فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ رَبِّيْ جَعَلَہٗ دَكَّاۗءَ۰ۚ
اورپھر جب میرے پروردگار کا وعدہ آپہنچے گا اس کوڈھادے گا
وَكَانَ وَعْدُ رَبِّيْ حَقًّا۹۸ۭ
میرے رب کا وعدہ سچا اوراٹل ہے۔
وَتَرَكْنَا بَعْضَہُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ
اور اس دن ہم ان کو (ان کے حال پر) چھوڑدیں گے تو وہ (اپنی کثرت سے سمندر کی موجوں کی طرح) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے (ساری دنیا میں پھیل جائیں گے تب فساد عظیم برپا ہوجائے گا)
وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰہُمْ جَمْعًا۹۹ۙ
اور صور پھونکا جائے گا پھر ہم سب انسانوں کوایک ساتھ جمع کریں گے ۔ (یہ قیامت کا دن ہوگا)
وَّعَرَضْنَا جَہَنَّمَ يَوْمَىِٕذٍ لِّلْكٰفِرِيْنَ
اوراس روز ہم جہنم کوکافروں کے سامنے لائیں گے۔
عَرْضَۨا۱۰۰ۙ الَّذِيْنَ كَانَتْ اَعْيُنُہُمْ فِيْ غِطَاۗءٍ عَنْ ذِكْرِيْ
جن کی آنکھیں میری تعلیم اورمیری نصیحتوں سے بند پڑی تھیں۔
وَكَانُوْا لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَمْعًا۱۰۱ۧ
اوروہ اس کوسننے کے لیے تیار نہ تھے۔
اَفَحَسِبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ يَّــتَّخِذُوْا عِبَادِيْ مِنْ دُوْنِيْٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭ
کیا وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے یہ سمجھتے ہیں کہ میرے سوا میرے بندوں کواپنا کارساز حاجت روا قرار دیں
اِنَّآ اَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ نُزُلًا۱۰۲
یقیناً ایسا عقیدہ رکھنے والے کافروں کی مہمانی کے لیے ہم نے جہنم کی آگ تیار رکھی ہے۔
قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخسَرِيْنَ اَعْمَالًا۱۰۳ۭ
ان سے کہئے کیا ہم ایسے لوگوں کوبتائیں جواعمال کے لحاظ سے بڑے ہی خسارہ میں ہوں گے۔
اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۱۰۴
(نجات کے تعلق سے) دنیا میں جن کی کوششیں غلط تھیں اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ اچھے کام کررہے ہیں۔
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَاۗىِٕہٖ
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں (احکام) کا اوراس کے حضور حاضر ہونے کا انکار کیا۔
فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَزْنًا۱۰۵
پس ان کے تمام اعمال ضائع ہوگئے لہٰذا ہم قیامت کے دن (ان کے اعمال کا) کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔
ذٰلِكَ جَزَاۗؤُہُمْ جَہَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا
ان کے اس تمام کفر کی سزا جہنم ہے۔
وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ ہُزُوًا۱۰۶
انہوں نے میرے احکام اورمیرے رسولوں کا مذاق اڑایا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۱۰۷ۙ
جولوگ (کتاب وسنت کے مطابق) ایمان لائے اورنیک کام کیے ان کے لئے جنت الفردوس جیسے (اعلیٰ ترین) باغوں میں مہمانی ہوتی رہے گی۔
خٰلِدِيْنَ فِيْہَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا۱۰۸
جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے وہ وہاں سے نکل کرکہیں اورجگہ جانا نہ چاہیں گے۔
کیونکہ تمام اسباب عیش ونشاط وہاں موجود ہوں گے۔ کسی قسم کی احتیاج وتکلیف وہاں نہ ہوگی۔
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ
کہئے (ائے نبیؐ) میرے رب کے اوصاف (علم وحکمت، قدرت بیکراں بندوں کو ربوبیت، نظام حاجت روائی کی تفصیلات )لکھنے کے لیے سمندر اگرسیاہی ہوجائے تب بھی
لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ
قبل اس کے کہ میرے رب کے اوصاف لکھے جائیں سمندر ختم ہوجائے۔
وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا۱۰۹
اگرچہ کہ ہم روشنائی کے لیے ویسا ہی ایک اور سمندر لے آئیں۔
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ۚ
(ائے نبیؐ) ان سے کہئے بلاشبہ میں تمہاری طرح ایک بشرہوں میری طرف وحی کی گئی ہے کہ تمہارا معبود ومستعان (حاجت روا کارساز) صرف ایک ہی ہے۔
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ
لہٰذا جو کوئی اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھتا ہو۔
عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا۱۱۰ۧ
تواس کوچاہئے کہ نیک عمل کرتا رہے اوراپنے رب کی عبادت میں کسی کوشریک نہ کرے۔