سورہ لہب مکی ہے اور اس میں پانچ آیتیں ہیں۔
توضیح :دین اسلام کی دعوت کے دشمن یوں تو تمام رو سائے عرب تھے، الا ماشا ء اللہ، لیکن ان میں سب سے زیادہ پیش پیش خود رسول اللہ ﷺ کا حقیقی چچا ابو لہب تھا۔ اس کی شرارتیں سب سے بڑھی ہوئی تھیں۔آپ کو ہر قسم کی اذیتیں پہنچا نا اور آپ کا مذاق اڑا نا۔ سر بازار استہزاکرنا اور عبادت کے اوقات میں رکا وٹیں کھڑی کرنا محبوب مشاغل تھے۔
نبوت کے ساتویں سال جب قریش نے بنی ہاشم بنی المطلب کا معاشی مقا طعہ کیا تو ابو لہب نے تین سال تک کفّاران قریش کا ساتھ دیا۔ اس کی ان حرکات سے نبی ﷺ کو بڑی تکلیف ہوا کر تی تھی اور اس کی بیوی بھی ان شرارتوں میں اس کی شریک تھی چنانچہ اس سورۃ میں ابو لہب اور اس کی بیوی کی ابدی تباہی کی خبر دی گئی ہے۔
توضیح :دین اسلام کی دعوت کے دشمن یوں تو تمام رو سائے عرب تھے، الا ماشا ء اللہ، لیکن ان میں سب سے زیادہ پیش پیش خود رسول اللہ ﷺ کا حقیقی چچا ابو لہب تھا۔ اس کی شرارتیں سب سے بڑھی ہوئی تھیں۔آپ کو ہر قسم کی اذیتیں پہنچا نا اور آپ کا مذاق اڑا نا۔ سر بازار استہزاکرنا اور عبادت کے اوقات میں رکا وٹیں کھڑی کرنا محبوب مشاغل تھے۔
نبوت کے ساتویں سال جب قریش نے بنی ہاشم بنی المطلب کا معاشی مقا طعہ کیا تو ابو لہب نے تین سال تک کفّاران قریش کا ساتھ دیا۔ اس کی ان حرکات سے نبی ﷺ کو بڑی تکلیف ہوا کر تی تھی اور اس کی بیوی بھی ان شرارتوں میں اس کی شریک تھی چنانچہ اس سورۃ میں ابو لہب اور اس کی بیوی کی ابدی تباہی کی خبر دی گئی ہے۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ۱ۭ
ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور وہ نامراد ہوگیا(ذلیل تبا ہ و برباد ہو گیا)
مَآ اَغْنٰى عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ۲ۭ
سَیَصْلٰى نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ۳ۚۖ
وَّامْرَاَتُہٗ۰ۭ
حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ۴ۚ
اس کامال اور جوکچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا
وہ بہت جلدی دہکتی ہوئی شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا
اور اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی(لگا ئی بجھائی کرنے والی تھی)
جو(خاردار لکڑیاں) سر پر اُٹھا ئے پھر تی
فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ۵ۧ
(آپ کی ارہ میں کانٹے بچھا تی ہے)
(قیامت میں) اس کی گردن میں ایک سخت بٹی ہوئی رسّی ہوگی۔
توضیح :جید کا لفظ عربی زبان میں ایسی گردن کے لئے بو لا جاتا ہے، جس میں زیور پہنا گیا ہو حضرت سعید بن مسیّب، حسن بصروی اور قتادیٰ کہتے ہیں کہ وہ ایک بہت قیمتی ہار گردن میں ہمیشہ پہنتی، اور کہتے پھر تی تھی کہ لات وعزیٰ کی قسم، میں اپنا یہ ہار بیچ کر اسکی قیمت محمد ﷺ کی عداوت میں خرچ کروں گی۔ اس بناء پر قرآن میں جید کالفظ طنزاً استعمال کیا گیا ہے کہ اس زیور پہنے والے گلے میں جس پر وہ فخر کرتی تھی،سخت قسم کی بٹی ہوئی ر سّی ہوگی اوریہ اس کے انتہائی ذلیل کئے جانے کی علامت ہوگی۔