☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۝۰ۥۭ

ائے ایمان والو(اللہ تعالیٰ سے بندگی واطاعت کا) جوعہد واقرار تم نے کیا ہے، اس کوپورا کرو۔

اُحِلَّتْ لَكُمْ بَہِيْمَۃُ الْاَنْعَامِ

تمہارے لیے تمام چوپائے( گائے اونٹ، بھیڑ، بکری اور جوان کے مشابہ ہوں جیسے ہرن نیل گاؤ وغیرہ) حلال کیے گئے ہیں۔

اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ

سوائے ان بہائم کے (جو بہ دلائل شرعیہ حدیث وغیرہ مستثنیٰ کیے گئے ہوں جیسے گدھ، گدھا خچروغیرہ) جن کا ذکر آگے آتا ہے۔

غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ۝۰ۭ

شکار بھی تم پرحرام ہے، جب تم حالت احرام میں ہو۔

اِنَّ اللہَ يَحْكُمُ مَا يُرِيْدُ۝۱

یقینا ًاللہ تعالیٰ (تمہارے لیے) جومناسب سمجھتے ہیں حکم دیتے ہیں۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللہِ

ائے ایمان والو اللہ تعالیٰ کے نام کی چیزوں کی بے حرمتی نہ کرو۔

وَلَا الشَّہْرَ الْحَرَامَ

اورنہ حرمت والے مہینوں کی۔

تشریح : حرمت حج کے تین مہینے ہیں، شوال ذیقعدہ،۱۰؍ذی الحجہ (محرم، رجب، احترام کے) ان مہینوں میں شکار۔ لڑائی۔ جدال قتال وغیرہ حرام ہے مفاد دنیا کے پیش نظرکرتے یہ تھے کہ ذیقعدہ کا مہینہ آتا تواس کوصفر کا مہینہ قراردیتے اور صفر کے مہینے کوذیقعدہ کا ایسا کرنے سے منع کیا گیا۔

وَلَا الْہَدْيَ وَلَا الْقَلَاۗىِٕدَ

اورنہ قربانی کے جانوروں کی بے حرمتی کروجواللہ تعالیٰ کی نذر کردیئے گئے ہوں۔ اورنہ ان جانوروں کی جن کی گردنوں میں پٹے باندھے گئے ہوں۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی نذرونیاز کی علامات ونشانیاں لگادی گئی ہوں)

وَلَآ اٰۗمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ

اورنہ ان لوگوں کی جوعظمت والے گھر کعبۃ اللہ کے قصد سے جارہے ہوں۔

يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرِضْوَانًا۝۰ۭ

(اورجو) اپنے پروردگار کے فضل اوراسکی خوشنودی کے طلب گار ہوں۔

وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا۝۰ۭ

اورجب احرام اتاردوتوشکارکرسکتے ہو۔

وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ

اورایسا توکبھی نہ ہونا چاہئے کہ تم کسی قوم سے محض اس عداوت کی بناء پر کہ

اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا۝۰ۘ

انہوں نے تم کوکعبۃ اللہ کی زیارت سے روک دیا تھا زیادتی کرنے لگو۔

وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠

نیکی اورخداترسی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا کرو۔

وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠

اورگناہ ظلم وزیادتی کے کاموں میں کوئی تعاون نہ کرو۔

وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی (کے نتائج بد) سے ڈرتے رہو۔

اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲

بیشک اللہ تعالیٰ بہت سخت گرفت والے ہیں۔

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ

مرا ہواجانور تم پر حرام کیا گیا ہے۔

وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ

اوربہتا ہوا خون اورسورکا گوشت اوروہ جانور بھی جو غیراللہ کے لیے (ان کی خوشنودی کے واسطے) نامزدکیا گیا ہو۔

وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ

اورجوجانورگلا گھٹنے سے مرجائے اورجوکوئی ضرب (یا چوٹ) کھا کر مرے۔

وَالْمُتَرَدِّيَۃُ وَالنَّطِيْحَۃُ

اورجوبلندی سے گرکرمرے اورجوسینگ کھاکر (یاٹکرسے) مرے۔

وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ۝۰ۣ

اوروہ جانور جس کودرندہ نے پھاڑکھایا ہو۔ سوائے اس کے کہ (وہ ابھی زندہ ہواور) تم اس کوذبح کرلو۔

وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ

اوروہ جانور جوغیراللہ کی پرستش گاہوں(درگاہوں، چلوں اوراستھانوں میں) ذبح کیے گئے ہوں۔( اگر چہ کہ بوقت ذبح غیراللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے نام سے ذبح کیا گیا ہو۔ )(یہ سب حرام ہیں)

وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ۝۰ۭ

اورتمہارا (تیروں وغیرہ سے) فال کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا بھی حرام ہے۔ یہ سب گناہ کے کام ہیں۔

توضیح : عرب میں فال نکالنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ ایک پانسہ یعنی ایک تیر پر اِفْعَلْ لکھتے یعنی یہ کام کرنا چاہئے۔ دوسرے پر لاَتَفْعَلْ اورتیسرا خالی ہوتا کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے یا کسی بات کے ہونے یا نہ ہونے کے معلوم کرنے کا ارادہ کرتے توترکش سے تیر نکالتے۔ اِفْعَلْ لکھا ہوا تیر نکلتا تووہ کام کرتے اور لَاتَفْعَلْ والا تیر نکلتا تووہ کام نہ کرتے۔ اور خالی تیرنکلتا تو پھر نکالتے۔

اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ

آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوچکے ہیں۔

توضیح : ابتدائے اسلام میں مومنوں اورکافروں کے درمیان کھانے پینے کا کوئی امتیاز نہ تھا اس لیے کافروں کویہ امید تھی کہ معاشرت کا یہ تعلق جوہنوز باقی ہے۔ شاید مسلمان آئندہ دین اسلام سے پلٹ جائیں لیکن حلت وحرمت کے بعد جب یہ تعلق منقطع ہوگیا توان کی تمام توقعات پرپانی پھرگیا اورانھیں یقین ہوگیا کہ اب مسلمان اپنے دین سے پلٹنے والے نہیں۔ لہٰذا اس رشتہ کے ٹوٹ جانے کی وجہ کافروں کی طرف سے نقصان کا خوف تمہارے دل میں نہ آنا چاہئے۔

فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ۝۰ۭ

لہٰذا تم ان سے مت ڈرو مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔( میرے احکام کی مخالفت نہ کرو۔ تمہارا دل خوف الٰہی سے معمور ہوناچاہئے تا کہ حلت وحرمت کے احکام کی خلاف ورزی کی جرأت نہ ہوسکے۔)

اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ

آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا۔

وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ

اوراپنی نعمتیں تم پرپوری کردیں۔

وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ

اور تمہارے لئے اسلام کو بہ حیثیت دین پسند کیا۔

فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَۃٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ۝۰ۙ

(یہ حلت و حرمت کے مذکورہ احکام میں ایک استثنیٰ یہ ہے کہ) جو شخص بھوک سے بیتاب ہوجائے گناہ کی طرف مائل نہ ہو (اور مضطر ہوکر بقدر قوت لایموت احکام الٰہی کی خلاف ورزی کا قصد رکھے بغیر کچھ کھا پی لے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کو معاف کریں گے۔)

فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم کرنے والے ہیں۔

توضیح : حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ یہ آیت عصر کے وقت جمعہ کے دن ذی الحجہ کی نویں تاریخ حجۃ الوداع میں ۱۰ ھ میں نازل ہوئی۔ اس کے نزول کے بعد تین مہینے کے قریب حضوراکرمﷺ زندہ رہے۔

يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ) لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کون کونسی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں؟

قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ۝۰ۙ

(ائے نبیﷺ) کہہ دیجئے تمہارے لیے پاک اورمرغوب چیزیں حلال کردی گئی ہیں۔

توضیح : پھاڑ کھانے والے درندے شیر، چیتا، باز، مردارخور پرندے، گدھے، حشرات الارض چوہا وغیرہ حرام ہیں، نیز جانوروں میں کونچلیوں والے اورپرندوں میں پنجوں سے پکڑکرکھانے والے حرام ہیں۔

وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللہُ۝۰ۡ

اورجن شکاری جانوروں کوتم نے سدھایا ہواانھیں شکار کرنا سکھایا ہو۔ اور جس طریق سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں شکار کرنا سکھایا ہے۔ اس طریق پر تم نے سکھایا ہو۔

فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ

توجوشکاروہ تمہارے لیے اپنی گرفت میں لے رکھیں (یا انھیں تمہارے لیے زخمی کریں) تواسے کھاسکتے ہو۔

وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہِ۝۰۠

البتہ (شکاری جانورکوشکار پرچھوڑنے کے وقت) اس پراللہ کا نام بھی لیا کرو۔

وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝۴

اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والے ہیں(یعنی شکاروغیرہ میں اس قدر منہمک نہ ہوجاؤ کہ حرام وحلال کی تمیز اورفرائض کا خیال جاتا رہے ۔

اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ۝۰ۭ

آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں۔

وَطَعَامُ الَّذيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۝۰۠ 

اور(اس کے علاوہ) اہل کتاب کا کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے۔

وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّہُمْ۝۰ۡ

اورتمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے (یعنی ذبیحہ)

توضیح : اہل کتاب اب اپنے دین پرقائم نہیں رہے اس لیے ان کا ذبیحہ درست نہیں۔

وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ

اورپاک دامن ایمان والی عورتوں میں سے

وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ

اوراہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کرنا بھی تمہارے لیے حلال ہے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔

اِذَآ اٰتَيْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ

بشرطیکہ تم ان کا مہردے دو۔

مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ

ان سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو۔ بدکاری اورچند دن کے لئے شہوت رانی مقصود نہ ہو۔

وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ۝۰ۭ

اورنہ پوشیدہ طریقہ پرناجائز تعلقات رکھو۔

وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ۝۰ۡ

اورجوشخص ایمان کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کرے گا (یعنی حلال قطعی کی حلت یا حرام قطعی کی حرمت کا انکار کرے گا) تو اس کے تمام نیک اعمال برباد کیے جائیں گے۔

وَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۵ۧ

اوروہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا(ایسا نقصان جس کی تلافی کسی طرح ممکن نہ ہو)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ

ائے ایمان والو جب تم نمازکے لیے اٹھو۔

فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ

تواپنا منہ اوراپنے ہاتھ کہنیوں تک دھولو

وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ۝۰ۭ

اوراپنے سرکامسح کرواوراپنے پیرٹخنوں تک (دھولیا کرو)

توضیح :وضو میں منہ دھونا کہنیوں تک ہاتھ دھونا اورسرکامسح کرنا اورٹخنوں تک پاؤں دھونا فرض ہے۔ اس میں کوئی عمل
ترک ہوجائے تووضو نہیں ہوتا۔

وَاِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا۝۰ۭ

اوراگر تم کونہانے کی حاجت ہوتونہاکرپاک ہوجاؤ۔

وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ

اوراگرتم بیمار ہویا سفرکی حالت میں ہو۔

اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ

یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کرکے آیا ہو۔

اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً

یا تم نے اپنی بیویوں سے صحبت کی ہواورپھرتمہیں پانی نہ ملے۔

فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا

توپاک مٹی سے تیمم کرلو(اس کا طریقہ یہ ہے کہ مٹی پردونوں ہاتھ مار کر پہلے)

فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْہُ۝۰ۭ

اپنے منہ پرپھیرلو اور(پھردوسری بار اسی طرح ہاتھ مٹی پرمارکر)اپنے ہاتھوں پر(کہنیوں تک) پھیرلو۔

مَا يُرِيْدُ اللہُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ

اللہ تعالیٰ تم پرکوئی بارڈالنا نہیں چاہتے۔

وَّلٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَہِّرَكُمْ

بلکہ تم کوپاک وصاف رکھنا چاہتے ہیں۔

وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكُمْ

اورچاہتے ہیں کہ تم پراپنی نعمتیں پوری کردیں۔

لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۶

تا کہ تم (اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں پر)شکر کرتے رہو۔

وَاذْكُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَيْكُمْ

اوراللہ تعالیٰ نے تم پرجوفضل واحسان کیے ہیں انھیں یاد رکھو(کہ اللہ تعالیٰ نے تم کودین کی تعلیم دیکرتمہارے لیے دنیا وآخرت کی سعادت کا سامان کردیا)

وَمِيْثَاقَہُ الَّذِيْ وَاثَقَكُمْ بِہٖٓ۝۰ۙ

اوراس پختہ عہدوپیمان کوبھی پیش نظررکھو جواللہ تعالیٰ نے تم سے لیا تھا۔

اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۡ

اس وقت تم نے یہ اقرار کیا تھا’’ ہم نے سنا اورہم نے اطاعت قبول کرلی‘‘۔

وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ

اوراللہ تعالیٰ سے ڈرو (یعنی اقراربندگی کے پورا نہ کرنے کی جوسزا اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہے۔ اس کے انجام سے ڈرو)

اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۷

بے شک اللہ تعالیٰ ( نہ صرف تمہارے ظاہری اعمال کودیکھتے ہیں بلکہ) دلوں کے احوال سے تک واقف ہیں۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡ

ائے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے صحیح صحیح گواہی دینے کے لیے کھڑے ہونے والے بنو۔

وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ

اور(کہیں ایسا نہ ہو) کسی قوم کی دشمنی کا جذبہ تمہیں انصاف سے باز رکھے۔

اِعْدِلُوْا۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡ

انصاف کیا کرو۔ جانبداری نہ برتو۔ یہی بات پرہیزگاری کے قریب ہے۔

وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ

اوراللہ تعالیٰ سے ڈرو (یعنی انصاف نہ کرنے کا جو انجام آخرت اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھا ہے اس ڈرو)

اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۸

بیشک اللہ تعالیٰ (بذاتہ) تمہارے اعمال سے باخبر ہیں(کسی کے خبر دینے کے بعد باخبر نہیں ہوتے جیسا کہ لوگوں کا عقیدہ ہے)

وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ۝۹

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کررکھا ہے جو(الٰہی تعلیم کے مطابق) ایمان لے آئے اورنیک کام کرتے رہے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۝۱۰

اورجنہوں نے (الٰہی تعلیم کوقبول کرنے سے) انکار کیا اور ہماری آیتوں اوراس کے اچھے وبرے حقیقی (ابدی) انجام کوجھٹلایا وہ سب دوزخی ہیں۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ

ائے ایمان والواللہ تعالیٰ نے جواحسانات تم پرکیے ہیں انھیں یاد رکھو۔

اِذْ ہَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَہُمْ فَكَفَّ اَيْدِيَہُمْ عَنْكُمْ۝۰ۚ

جب کہ تمہاری (مخالف) قوم نے تم پردست درازی کرنی چاہی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی دست درازیوں سے تم کوبچالیا۔

وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۱۱ۧ

اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو(یعنی کوئی کام مرضیات الٰہی کے خلاف نہ کرو) اوراہل ایمان کو اللہ تعالیٰ ہی پربھروسہ رکھنا چاہئے۔

توضیح : (چاہے ظاہری اسباب موجود ہوں یا نہ ہوں۔ بعض اوقات اسباب موجود ہوتے ہیں لیکن چیز وجود میں نہیں آتی اوربعض اوقات اس کے برعکس ہوتا ہے)

وَلَقَدْ اَخَذَ اللہُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝۰ۚ

اوراللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے ایسا ہی اقرار لیا تھا۔

وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا۝۰ۭ وَقَالَ اللہُ اِنِّىْ مَعَكُمْ۝۰ۭلَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوۃَ 

اورہم نے ان میں بارہ سرداران قبیلہ مقرر کیے تھے۔ اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرو۔

وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ

اورزکوۃ ادا کرتے رہو۔ اورمیرے پیغمبروںپرایمان لاؤ۔

وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا

اوران کا ساتھ دواوراللہ تعالیٰ کواحسن طریقہ سے قرض دو (یعنی دین حق کی بقاواشاعت میں مال خرچ کرتے رہوگے)

لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَـيِّاٰتِكُمْ

تومیں ضرور تم سے تمہاری برائیاں دورکرتا رہوں گا

وَلَاُدْخِلَـنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ۝۰ۚ

اورتم کوایسی جنت میں داخل کروں گا جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی (جس کا نہایت ہی خوشنما منظرہوگا)

فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ۝۱۲

پھراس کے بعد تم میں سے جوکوئی کفرکرے گا تووہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔

توضیح : قرض اس لیے فرمایا کہ جس طرح قرض واجب الادا ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کا ضرور بدلہ دیں گے۔

فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّيْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ

توانکی عہد شکنی کی وجہ ہم نے ان (کواپنی رحمت سے دورکردیا)پر لعنت کی

وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِـيَۃً۝۰ۚ

اورہم نے ان کے دلوں کوسخت کردیا (قبولیت حق کی صلاحیت سلب کرلی)

يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ۝۰ۙ

(اب ان کا یہ حال ہے کہ) کلام(الٰہی) میں تحریف کرتے ہیںکلمات کو اپنے موضوع سے ہٹادیتے ہیں۔

وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِہٖ۝۰ۚ

اورجوتعلیم انھیں دی گئی تھی اس کا بیشتر حصہ بھلادیا اور(گناہ کے گناہ ہونے کا بھی انھیں احساس نہ رہا)

وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰي خَاۗىِٕنَۃٍ مِّنْہُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْہُمْ

ان میں سے چند کے سوا آپؐ آئے دن ان کی کسی نہ کسی خیانت سے آگاہ ہوتے رہیں گے (جوان سے ہوتی رہتی ہیں)

فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاصْفَحْ۝۰ۭ

آپ انھیں معاف کیجئے اوردرگزرسے کام لیجئے۔

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۱۳

یقیناً اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔

وَمِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓى اَخَذْنَا مِيْثَاقَہُمْ

اوران لوگوں میں سے جوکہتے ہیں ہم نصاریٰ ہیں (حضرت عیسیٰ کی امت) ہم نے ان سے بھی عہد واقرارلیا تھا)

فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِہٖ۝۰۠

مگرانہوں نے بھی ان نصیحتوں کا بیشترحصہ بھلادیا جوانھیں کی گئی تھیں۔

فَاَغْرَيْنَا بَيْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاۗءَ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ

توہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے بغض دشمنی ڈال دی۔

وَسَوْفَ يُنَبِّئُہُمُ اللہُ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ۝۱۴

اوروہ جوکچھ (برائیاں) کرتے رہے تھے عنقریب اللہ تعالیٰ وہ سب انھیں بتادیں گے۔

يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا

ائے اہل کتاب یقیناً ہمارے رسول (پیغمبر آخرالزماں) تمہارے پاس آگے ہیں۔

يُـبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ

کتاب اللہ کی (جس اصولی وبنیادی) تعلیم کوتم نے چھپائے رکھا ہے اس میں بہت سی باتوں کووہ کھول کھول کرتمہارے سامنے بیان کرتے ہیں۔

وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۰ۥۭ

اوربہت سی باتوں سے درگزر کرتے ہیں۔

قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ۝۱۵ۙ

یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس ایک نور (علم کی روشنی) واضح کتاب (قرآن مجید) آچکی ہے۔

يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ

اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ ان لوگوں کوجورضائے الٰہی کے طالب ہوتے ہیں، سلامتی کی راہیں دکھاتے ہیں۔

وَيُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ

اورانھیں جہل کی تاریکیوں سے نکال کرعلم کی روشنی میں لے آتے ہیں۔

وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۱۶

اورانھیں صراط مستقیم پرچلنے کی ہدایت دیتے ہیں۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۝۰ۭ

بلاشبہ وہ لوگ کافر ہیں جوکہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی عیسیٰ ابن مریمؑ ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ ہی عیسیٰ ابن مریم کی شکل میں آئے تھے وغیرہ)

قُلْ فَمَنْ يَّمْلِكُ مِنَ اللہِ شَـيْـــًٔـا اِنْ اَرَادَ اَنْ يُّہْلِكَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّہٗ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ ) آپ ان سے کہئے عیسیٰ بن مریم اوران کی ماں اور جتنے لوگ زمین پرہیں ان سب کواگراللہ تعالیٰ ہلاک کرنا چاہیں توکس کی مجال ہے کہ اس سے باز رکھے۔

توضیح :عیسیٰ بن مریم عین اللہ نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ مخلوقات کی صورت میں جلوہ گرنہیں ہوتے۔

وَلِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا۝۰ۭ 

آسمانوں اورزمین اورجوکچھ ان کے درمیان ہے سب پراللہ تعالیٰ کی فرمانروائی ہے۔

يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۷

اللہ تعالیٰ جس کوجس طریقہ سے چاہتے ہیں پیدا فرماتے ہیں (آدمؑ کو بغیر ماں باپ پیدا کیا اورعیسیٰ بن مریم کوباپ کے بغیر) اوراللہ تعالیٰ ہرچیز پرقادرہیں۔

توضیح : عیسائیوں نے اپنی طرف سے یہ عقیدہ گھڑلیا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کی شکل میں اللہ تعالیٰ جلوہ گر ہوتے ہیں ان آیات میں اس عقیدہ کی تردید فرمائی گئی ہے۔ افسوس کہ اکثر اہل تصوف کے پاس ایسا ہی عقیدہ تصوف کا روح رواں ہے جوکلام الٰہی کی رو سے کفر ہے)

وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللہِ وَاَحِبَّاۗؤُہٗ۝۰ۭ

اوریہود ونصاریٰ کہتے ہیں ہم اللہ کے بیٹے ہیں اوراس کے پیارے ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ انھیں بہت چاہتے ہیں)

قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ۝۰ۭ

(ائے نبی!ﷺ) آپ ان سے کہئے پھروہ تمہاری بداعمالیوں کے سبب تمہیں کیوں عذاب دیتا ہے۔

بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ۝۰ۭ

بلکہ (واقعہ یہ ہے کہ جیسے اور مخلوقات ہیں) ویسے تم بھی ایک انسانی مخلوق ہو۔

يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ (اپنے قانونِ مغفرت کے تحت) جسے چاہتے ہیں بخش دیتے ہیں۔ اور (قانون تعذیب کے تحت) جسے چاہتے ہیں عذاب دیتے ہیں

توضیح :کسی کی رائے ومشورے وسفارش کی بناء پرکسی کے جنتی اوردوزخی ہونے کا فیصلہ نہ ہوگا۔

وَلِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

آسمانوں اورزمین اورجوکچھ ان کے درمیان ہے۔

وَمَا بَيْنَہُمَا۝۰ۡوَاِلَيْہِ الْمَصِيْرُ۝۱۸

سب پراللہ تعالیٰ ہی کی نگرانی ہے۔ اور سب کو اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے

يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا

ائے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارے رسول محمدﷺ آئے ہیں۔

يُـبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰي فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ

تمہیں احکام سے واقف کراتے ہیں۔ ایسے وقت آئے ہیں کہ ایک مدت دراز سے رسولوں کی آمد کا سلسلہ ملتوی تھا۔

توضیح :عیسیٰؑ اورمحمدﷺ کے درمیان تقریبا چھ سوسال کا زمانہ گزرا ہے۔ اس درمیان کوئی نبی نہیں گزرے۔ (بخاری)

اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّلَا نَذِيْرٍ۝۰ۡ

تاکہ تم یہ عذر نہ کرسکو کہ ہمارے پاس کوئی (جنت کی) بشارت دینے والا اور(دوزخ کے عذاب سے) ڈرانے والا نہیں آیا۔

فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّنَذِيْرٌ۝۰ۭ

اب تمہارے پاس خوشخبری سنانے والے اور(عذاب سے) ڈرانے والے( اللہ کے رسولؐ) آگئے ہیں۔

وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۹ۧ

اوراللہ تعالیٰ ہرچیز پرقادرہیں۔

توضیح : اگرتم پیغمبرؐ کی بات نہ مانوگے تواللہ تعالیٰ تمہیں فنا کرکے ایسی قوم پیدا کرنے پرقادر ہیں جوتمہاری طرح نافرمان نہ ہوگی۔

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِہٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَيْكُمْ

اوروہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جب کہ موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا۔ ائے میری قوم کے لوگو اللہ تعالیٰ کے اس احسان کوپیش نظررکھوجواس نے تم پر کیئے

اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۝۰ۤۖ

جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم ہی میں سے نبی پیدا کیے اورتم کوبادشاہت عطا کی۔

وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۝۲۰

اورتم کواتنا کچھ دیا کہ اہل عالم میں سے کسی کونہیں دیا۔

يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِيْ كَتَبَ اللہُ لَكُمْ

ائے میری قوم اس مقدس شہر میں داخل ہوجاؤ جس کی فتح اللہ تعالیٰ نے تمہارے نصیب میں لکھ دی ہے۔

وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ۝۲۱

اور(مقابلے میں) پیٹھ نہ دکھاؤ ورنہ ناکام ونامراد لوٹوگے۔

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْہَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ۝۰ۤۖ

قوم نے جواب دیا ائے موسیٰؑ اس شہر میں بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں۔

وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَا حَتّٰي يَخْرُجُوْا مِنْہَا۝۰ۚ

اورہم ہرگز اس (شہر) میں داخل نہ ہوں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔

فَاِنْ يَّخْرُجُوْا مِنْہَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ۝۲۲

ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں توبلاشبہ ہم شہر میں داخل ہوجائیں گے۔

قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمَا ادْخُلُوْا عَلَيْہِمُ الْبَابَ۝۰ۚ

اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے سپاہیوں نے جن پراللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا تھا کہا تم (ان پرحملہ آورہوکر) شہرکے دروازے تک توپہنچ جاؤ۔

فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ۝۰ۥۚ

پھرجب تم دروازہ میں داخل ہوجاؤگے تویقیناً تم غالب آجاؤگے۔

وَعَلَي اللہِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۲۳

اگرتم مومن ہوتواللہ تعالیٰ ہی پرپورا پورا بھروسہ رکھو۔

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْہَا

قوم نے بڑی ہی گستاخی کے ساتھ جواب دیا کہ جب تک شہر کے لوگ شہر میں رہیں گے ہم ہرگز اس شہر میں داخل نہ ہوں گے۔

فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰہُنَا قٰعِدُوْنَ۝۲۴

لہٰذا آپ اورآپ کا پروردگار دونوں جاؤ اورلڑوہم تویہیں بیٹھے رہتے ہیں۔

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِيْ وَاَخِيْ

(ان کا یہ گستاخانہ جواب سن کرموسیٰؑ نے) کہا اے میرے پروردگار ! میں اپنے اوراپنے بھائی کے سوا کسی اورپراختیار نہیں رکھتا۔

فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ۝۲۵

لہٰذاب ہمارے اورنافرمان لوگوں کے درمیان جدائی ڈال دیجئے (یعنی نافرمانوں کوہم سے علیحدہ کردیجئے)

قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَيْہِمْ اَرْبَعِيْنَ سَـنَۃً۝۰ۚ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ملک ان پرچالیس برس تک کے لیے حرام کردیا گیا (وہ وہاں جانے نہ پائیں گے)

يَتِيْھُوْنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ۝۲۶ۧ

اب یہ (جنگل صحرا بہ صحرا مارے مارے) پھرتے رہیں گے لہٰذاب ایسے نافرمانوں (کی تباہ حالی) پرآپ افسوس نہ کیجئے۔

وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ۝۰ۘ

اور(ائے محمدﷺ) ان کوآدمؑ کے دوبیٹوں(ہابیل اورقابیل) کے حالات سنائیے(جوبالکل) سچے ہیں۔

اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا

جب کہ ان دونوں نے (اللہ تعالیٰ کی جناب میں) منتیں مانی تھیں ان میں سے ایک کی منت قبول ہوئی۔

وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۝۰ۭ

اوردوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔

قَالَ لَاَقْتُلَـنَّكَ۝۰ۭ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ۝۲۷

تب (قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کردوں گا۔ اس نے کہا اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کی نیاز قبول کرتے ہیں۔

لَىِٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِيْ

اگرتومجھے قتل کرنے کے لیے مجھ پرہاتھ اٹھائے گا۔

مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ يَّدِيَ اِلَيْكَ لِاَقْتُلَكَ۝۰ۚ 

تومیں تجھے قتل کرنے کے لیے تجھ پرہاتھ نہ اٹھاؤں گا۔

اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ۝۲۸

(کیونکہ) میں رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔

اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ تَبُوْۗاَ بِـاِثْمِيْ وَاِثْمِكَ

میں چاہتا ہوں کہ تومیرے گناہ میں بھی ماخوذ ہواوراپنے گناہوں میں بھی

فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ۝۰ۚ

پھرتودوزخیوں کے زمرہ میں شامل ہوجائے گا

وَذٰلِكَ جَزٰۗؤُا الظّٰلِــمِيْنَ۝۲۹ۚ

اورظلم کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔

فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِيْہِ

پھراس کواس کے نفس نے(بہ رغبت قلبی) اپنے بھائی کے قتل پرابھارا۔

فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۳۰

پھراس نے اس کوقتل کرڈالا اورخسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگیا۔

توضیح : سوچنے لگا کہ مقتول کی لاش کوکیا کیا جائے کیونکہ اس وقت تک کسی کی موت واقع ہوئی نہ تھی۔

فَبَعَثَ اللہُ غُرَابًا يَّبْحَثُ فِي الْاَرْضِ لِيُرِيَہٗ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَۃَ اَخِيْہِ۝۰ۭ

پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کوبھیجا وہ زمین کریدنے لگا تا کہ اس کودکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کس طرح چھپائے

قَالَ يٰوَيْلَــتٰٓى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ ہٰذَا الْغُرَابِ

(قاتل نے یہ دیکھ کراپنے دل میں) کہا افسوس ہے مجھ پر کہ میں اس کوے سے بھی گیا گزرا ہوگیا (کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر خود سوچ نہ سکا)

فَاُوَارِيَ سَوْءَۃَ اَخِيْ۝۰ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِيْنَ۝۳۱ۚۙۛ

لہٰذا اس طرح اس نے اپنے بھائی کی لاش چھپادی۔ پھر(اپنی اس بے عقلی پراپنے جی میں) نہایت پشیمان ہوا۔

مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ۝۰ۚۛؔ كَتَبْنَا عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ

اس قتل کی وجہ ہم نے بنی اسرائیل کے لیے قانون جاری کردیا۔

اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ

کہ جوکوئی (اپنی جان کے تحفظ کے سوا) کسی کوبلا وجہ قتل کرے گا یا زمین میں فساد پھیلائے گا

فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۝۰ۭ

توگویا اس نے تمام لوگوں کوقتل کیا(یعنی قتل وخون کی بنیاد ڈالی۔ دنیا کے تمام قتل وخون کا ذمہ دار ہوا)

وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۝۰ۭ

اورجوکوئی اس کی زندگی کا موجب ہوا (یعنی قاتل سے قصاص لے کرخوں ریزی کا انسداد کیا) توگویا اس نے حیات عامہ کا تحفظ کیا۔

وَلَقَدْ جَاۗءَتْہُمْ رُسُلُنَا
بِالْبَيِّنٰتِ۝۰ۡ

اور(یہ ایک حقیقت ہے کہ) بنی اسرائیل کے پاس ہمارے رسول کھلی کھلی ہدایتیں لے کرآتے رہے (تاکہ قوم امن وسلامتی کی زندگی بسر کرے۔ اورقتل وخوں ریزی اورفتنہ وفساد سے محفوظ رہے۔)

ثُمَّ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنْہُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِي الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ۝۳۲

پھراس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے لوگ ملک میں فتنہ وفساد پھیلاتے رہے۔

اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ

جولوگ اللہ اوراس کے رسول سے جھگڑتے ہیں (یعنی اللہ ورسول کی مخالفت کرتے ہیں)

وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا

اورملک میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں۔

اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا

ان کی سزایہی ہے کہ قتل کردیئے جائیں یا سولی پرچڑھادیئے جائیں

اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ

یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹے جائیں (یعنی بایاں پاؤں اورداہنا ہاتھ یا داہنا پاؤں اوربایاں ہاتھ

اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ۝۰ۭ

یا ملک سے نکال دیئے جائیں (شہر بدرکیے جائیں)

ذٰلِكَ لَہُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا

دنیا میں ان کے لیے اس طرح کی ذلت ورسوائی ہے

وَلَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۳۳ۙ

اورآخرت میں ان کے لیے بڑا ہی سخت عذاب ہے۔

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْہِمْ۝۰ۚ

ہاں جن لوگوں نے توبہ کی قبل اس کے کہ تم ان پرقابو پالو(یعنی تمہاری گرفت میں آنے سے پہلے توبہ کرلیں توانھیں معاف کیا جائے گا۔)

فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۴ۧ

لہٰذاب(اچھی طرح جان لوکہ) اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ

ائے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی (نافرمانی کے انجام) سے ڈرو۔

وَابْتَغُوْٓا اِلَيْہِ الْوَسِيْلَۃَ

اوراس کا قرب حاصل کرنے کے ذرائع تلاش کرو(ترک معاصی طاعتِ الٰہی ذرائع قرب ہیں)

وَجَاہِدُوْا فِيْ سَبِيْلِہٖ

اوراس کی راہ میں جہاد کرو(یعنی اللہ تعالیٰ کی زمین سے فتنہ وفساد دورکرنے کی پوری پوری جدوجہد کرتے رہو، قرب الٰہی کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔

لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۳۵

(یہ تعلیم تم کواس لیے دی جاتی ہے) تا کہ تم فلاح آخرت حاصل کرسکو۔

توضیح : ایک عرصے سے اس آیت کریمہ کی غلط تعبیر کی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں گمراہی پھیلتی اورپھیلائی جارہی ہے۔ اس آیت میں جولفظ وسیلہ ہے اس کوواسطے کے معنی میں استعمال کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس آیت کریمہ میں حکم ہے کہ اللہ وبندہ کے درمیان بزرگوں کوواسطہ بنایا جائے۔ حالانکہ وسیلہ کے معنی عربی میں قرب کے ہیں۔ ہم جس مفہوم میں توسل وواسطہ کہتے ہیں یعنی اللہ وبندہ کے درمیان سفارشی بنانا۔ لفظ وسیلہ کے یہ معنی نہیں ہیں۔ اس آیت کے مخاطبین اول حضرات صحابۂ کرام تھے۔ اس حکم کی تعمیل میں ان حضرات نے کن کن بزرگوں کواپنے اللہ تعالیٰ کے درمیان واسطہ بنایا؟
سب سے بزرگ تر حضرت محمدﷺ تھے (بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر) کسی ضعیف سے ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ صحابہ کرام نے رسول اللہﷺ کوواسطہ بنایا ہو اوراس تعلق سے آپ ﷺکی نذرومنت کی ہو۔ مصیبتوں میں مدد کے لیے آپﷺ کو پکارا ہو۔ آپ ﷺ کے مزار پرجاکر سجدے وطواف کیئے ہوں۔
صحابہ کرام کے بعد حضرات تابعین کا دورآتا ہے۔ ان حضرات کے بزرگ حضرات صحابہ کرام ہی تھے مگرصحابہ کرام کے تعلق سے بھی تابعین نے ایسا کوئی عقیدہ پیدا نہیں کیا اورنہ کوئی ایسا عمل کیا جیسا کہ مسلمان غلط رہنمائی کی بناء پربزرگوں، پیرومرشد کووسیلہ بناتے ہیں۔
زیربحث آیت کریمہ کا اگر یہی مفہوم ہے جوجہلا سمجھتے ہیں، تواس کا مطلب یہ ہوا کہ زیربحث آیت کریمہ کا مطلب اورمفہوم حضرات صحابہ کرام ہی نے سمجھا نہ حضرات تابعین نے العیاذباللہ۔

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَہُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا

جولوگ کافر ہیں (الٰہی تعلیم کا انکار کرتے ہیں) اگر ان کے پاس روئے زمین کے تمام خزانے (مال ومتاع) ہوں۔

وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لِيَفْتَدُوْا بِہٖ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ

اوراس کے ساتھ اتنے ہی اورہوں تا کہ وہ اس کوبطور تاوان دے کرروزقیامت کے عذاب سے چھوٹ جائیں

مَا تُقُبِّلَ مِنْہُمْ۝۰ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۳۶

تب بھی وہ چیزیں ان سے ہرگزقبول نہیں کی جائیں گی اوران کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا ہُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنْہَا۝۰ۡ

(ہرچند کہ) وہ آگ سے نکلنا چاہیں گے (مگر) اوروہ اس سے نکل نہ سکیں گے۔

وَلَہُمْ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ۝۳۷

اوران کودائمی عذاب ہوگا۔

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ

(ایک تعزیری حکم یہ بھی دیا جاتا ہے کہ جومرد اور جوعورت چوری کرے۔

فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَہُمَا

تو ان کے ہاتھ(کلائی تک) کاٹ ڈالو۔

جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللہِ۝۰ۭ

ان کی بداعمالیوں بدکرداریوں کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی عبرتناک سزا ہے۔

وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۳۸

اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکیم ہیں(یعنی یہ سزا بڑی ہی حکیمانہ ہے، اس کے سواجوسزا بھی تجویز کی جائے گی وہ یقیناً نامناسب ہی ہوگی)

فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ يَتُوْبُ عَلَيْہِ۝۰ۭ

پھرجوشخص ارتکاب جرم کے بعد توبہ کرے اوراپنی اصلاح کرلے تواللہ تعالیٰ بھی اس کے حال پرمہربان ہوجائیں گے(اورآئندہ بھی ارتکاب جرم سے بچائے رکھیں گے)

اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۹

بیشک اللہ تعالیٰ (توبہ کے بعد) بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانیوالے ہیں

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

ائے نبی(ﷺ) کیا آپ نہیں جانتے کہ آسمانوں اورزمین کی فرمانروائی اللہ ہی کے لیے ہے۔(جس کا کوئی شریک نہیں)

يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

(قانون تعذیب کے تحت) وہ جسے چاہے عذاب کرے اور (قانون مغفرت کے تحت) جسے چاہے بخش دے( اس میں کسی کی سعی وسفارش کودخل نہیں)

وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۴۰

اوراللہ تعالیٰ ہرچیز پرقادرہیں( یعنی کسی کی رائے ومشورہ کے بغیرتنہا فیصلہ کرنے پرقادرہیں)

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ

ائے رسول(ﷺ) جولوگ کفرمیں دوڑے دوڑے جاتے ہیں، اس سے آپؐ کورنجیدہ خاطر نہ ہونا چاہئے۔

مِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ

یہ ان لوگوں میں سے ہیں جومنہ سے توکہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔

وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ ۝۰ۚۛ

مگران کے دل ایمان نہیں لائے(اس لیے ایمان کی شرط اول اقرار باللسان تصدیق بالقلب ہے)

وَمِنَ الَّذِيْنَ ہَادُوْا۝۰ۚۛ

اورجو(زیادہ تر) یہودیوں میں سے ہیں۔

سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ

یہ لوگ غلط باتیں بنانے کے لیے جاسوسی کرتے پھرتے ہیں

سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِيْنَ۝۰ۙ

اورایسے لوگوں (کوبہکانے) کے لیے جاسوسی کرتے ہیں

لَمْ يَاْتُوْكَ۝۰ۭ

جوابھی آپؐ کے پاس نہیں آئے

يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ۝۰ۚ

کلام الٰہی کے الفاظ کوان کا صحیح مقام متعین ہونے کے بعد بدل دیتے ہیں یعنی اصل موضوع سے پھیردیتے یا اس میں تحریف کرتے ہیں

يَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِيْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ

اور(لوگوں سے) کہتے ہیں، اگر تم کویہ حکم ہے تواسے قبول کرلو

وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا۝۰ۭ

اوراگراس کے خلاف ہوتونہ مانو۔

توضیح :یہودتوریت میں اپنی طرف سے غلط سلط باتیں لکھ لیتے اورلوگوں سے کہتے کہ اگرمحمد(ﷺ) وہی بات کہیں جوہماری کتاب میں لکھی ہوئی ہے تواس کومان لو۔

وَمَنْ يُّرِدِ اللہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَہٗ مِنَ اللہِ شَـيْـــــًٔـا۝۰ۭ

اورجس کواللہ تعالیٰ موردعتاب قراردیں توآپ اس کے(بچاؤ کے) لیے اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی طرح کا اختیار نہیں رکھتے۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَمْ يُرِدِ اللہُ اَنْ يُّطَہِّرَ قُلُوْبَہُمْ۝۰ۭ

یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کواللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق کی وجہ پاک کرنا نہ چاہا۔

لَہُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ۝۰ۚۖ

ان کے لیے دنیا میں بھی ذلت وخواری ہے۔

وَّلَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۴۱

اورآخرت میں بھی ان کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔

سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ۝۰ۭ

یہ جھوٹی باتیں بنانے کے لیے جاسوسی کرنے والے اور(رشوت وغیرہ کا) حرام مال کھانے والے ہیں۔

فَاِنْ جَاۗءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ

اگریہ آپ کے پاس (اپنے معاملات میں تصفیہ کے لئے ) آئیں تو آپ ان کے درمیان فیصلہ کیجئے ۔

اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ۝۰ۚ

یا ان سے اعراض کیجئے (فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا آپؐ کواختیار ہے)

وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا۝۰ۭ

اواگرآپؐ ان سے اعراض کریں تو(یہ اندیشہ نہ کیجئے کہ وہ آپ کوکوئی نقصان پہنچائیں گے) وہ قطعاً آپ کو کوئی ضرر نہ پہنچاسکیں گے۔

وَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِالْقِسْطِ۝۰ۭ 

اوراگرآپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تومنصفانہ فیصلہ کیجئے۔

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۝۴۲

یقیناً اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کوپسند کرتے ہیں۔

وَكَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ وَعِنْدَہُمُ التَّوْرٰىۃُ

وہ کیوںآپؐ سے فیصلہ کرانا چاہیں گے جب کہ خود ان کے پاس توارت موجود ہے۔

فِيْہَا حُكْمُ اللہِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۝۰ۭ

اس میں اللہ تعالیٰ کا حکم موجود ہے (جس کووہ جانتے ہیں) پھر اس کے باوجود حکم الٰہی سے روگردانی کرتے ہیں۔(احکام الٰہی کے مطابق اپنے نزاعات کا فیصلہ نہیں چاہتے اپنی مرضی کے مطابق آپؐ سے فیصلہ کروانا چاہتے ہیں)

وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۴۳ۧ

دراصل وہ مومن ہی نہیں ہیں۔

توضیح : الٰہی تعلیمات کے مطابق اپنے معاملات طے نہ کرنا نفی ایمان کی علامت ہے۔

اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىۃَ فِيْہَا ہُدًى وَّنُوْرٌ۝۰ۚ

ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور(عقائد صحیحہ کی) تعلیم تھی۔ (نورسے مراد علم ہے)

يَحْكُمُ بِہَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ ہَادُوْا

اسی کتاب کے مطابق انبیاء علیہم السلام جواللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے ہوتے ہیں یہودیوں کوحکم دیتے رہے

وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللہِ وَكَانُوْا عَلَيْہِ شُہَدَاۗءَ۝۰ۚ

اورتمام علمائے حق اورمذہبی پیشوا بھی جواللہ تعالیٰ کی کتاب کی حفاظت کے ذمہ دار تھے (اسی توریت کے مطابق فیصلہ کرتے تھے) اوراس کتاب کے من اللہ ہونے کے گواہ بھی تھے۔

توضیح : الٰہی تعلیمات کے مطابق کاروبار معاملات میں عمل پیرا ہونا بھی کتاب اللہ کی حفاظت ہے۔

فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ

توتم لوگوں سے مت ڈرو مجھ ہی سے ڈرو۔

توضیح : یہ اندیشہ نہ کروکہ اگر ہم کلام الٰہی کی تصدیق کریں گے توعام لوگوں کی نظروں سے گرجائیں گے جاہ ومرتبہ میں فرق آجائے گا۔

وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰـتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝۰ۭ

اور(دنیا کے) قلیل معاوضہ پرمیری آیتوں کو نہ بیچو (یعنی لوگوں سے پیسہ لے کر احکام الٰہی کے خلاف کوئی فیصلہ نہ دو)

وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ

اورجوکوئی اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ

فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۴۴

کرے توایسے ہی لوگ کافر ہیں۔

توضیح : یہودیوں کا ایسا ہی عمل تھا وہ اپنی افترائی باتوں کوحکم الٰہی بتلاکرگمراہ ہوئے۔ اوردوسروں کی گمراہی کا بھی سبب بنے۔

وَكَتَبْنَا عَلَيْہِمْ فِيْہَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ۝۰ۙ

اورہم نے ان (یہودیوں) پر(تورات) میں یہ بات فرض کی تھی (کہ اگرکوئی کسی کوناحق عمداً قتل یا زخمی کردے اورصاحب حق دعوے کردے تو) جان کے بدلے جان

وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ۝۰ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ۝۰ۭ

اورآنکھ کے بدلے آنکھ اورناک کے بدلے ناک اورکان کے بدلے کان اوردانت کے بدلے دانت اورزخموں کا بدلہ اسی طرح ہے۔

توضیح : کوئی کسی کوناحق قتل کردے توقاتل کو قتل کردیا جانا چاہئے۔ اسی طرح کوئی کسی کی آنکھ پھوڑدے تواس کی بھی آنکھ پھوڑدینے کا فیصلہ دینا چاہئے۔

فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَكَفَّارَۃٌ لَّہٗ۝۰ۭ

پھرجوشخص ملزم کومعاف کردے (جس کومعاف کرنے کا حق پہنچتا ہے ) تووہ اس کے لیے کفارہ ہوگا۔

وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ

اورجوکوئی اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے۔

فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۴۵

توایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔

توضیح :قصاص اس قتل یا جرم میں ہے جب ناحق اورعمداً ہوخطا کی صورت میں خوں بہا ہے جس کے مسائل سورہ نساء کے رکوع وَمَاکَانَ مُوْمِن میں گزرچکے ہیں۔
مسئلہ:۔ اَلنَّفْسَ بِالنَّفْسِ میں آزاد اورغلام مسلمان اورکافرذِمّی اورمرد اورعورت اورکبیرو صغیر شریف ورذیل بادشاہ اوررعیت سب داخل ہیں۔ البتہ خود اپنے مملوک غلام اوراپنی اولاد کے قصاص کے احکام کی تفصیل کتب حدیث وفقہ میں مل سکتی ہے۔

وَقَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ

اوران پیغمبروں کے بعد ہم نے انھیں کے طریقہ پرعیسیٰ بن مریم کوانجیل دے کربھیجا۔

مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ۝۰۠

جواپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرتے تھے۔ (تمام کتب الٰہیہ کی تصدیق کرنا لوازمات رسالت سے ہے)

وَاٰتَيْنٰہُ الْاِنْجِيْلَ فِيْہِ ہُدًى وَّنُوْرٌ۝۰ۙ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ 

ہم نے عیسیٰ بن مریم کوانجیل نامی کتاب دی جس میں ہدایت ونصیحت تھی اوروہ (انجیل) اپنے سے قبل کی کتاب (یعنی توریت) کی بھی تصدیق کرتی تھی ( یہ بھی کتب الٰہیہ کے لوازم سے ہے)

وَہُدًى وَّمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۴۶ۭ

اورجس میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ونصیحت تھی۔

وَلْيَحْكُمْ اَہْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فِيْہِ۝۰ۭ

اوراہل انجیل کوچاہئے کہ جواحکام اللہ تعالیٰ نے اس میں نازل فرمائے ہیں، اس کے مطابق فیصلہ دیا کریں۔

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ

اور (ائے پیغمبرﷺ) ہم نے آپؐ کی طرف کتاب برحق (قرآن) نازل کی ہے (یعنی ایسی کتاب جس میں حقائق بیان کیے گئے ہیں۔

مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ الْكِتٰبِ

جواپنے سے پہلے کتابوں کی تصدیق کرتی ہے (یعنی اس میں بنیادی اصولی وہی تعلیم ہے جواس سے پہلے کی کتابوں میں دی گئی تھی)

وَمُہَيْمِنًا عَلَيْہِ

اور(یہ کتاب پچھلی کتابوں کی) محافظ و نگہبان ہے۔

اور(یہ کتاب پچھلی کتابوں کی) محافظ و نگہبان ہے۔

فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ

لہٰذا ائے نبیﷺ جواحکام اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں، اس کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کیجئے

وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ۝۰ۭ

اورجوعلمی حقائق آپ تک پہنچے ہیں اس سے ہٹ کران کے خواہشات کی پیروی نہ کیجئے۔

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا۝۰ۭ

ہم نے تم میں سے ہرایک(امت) کے لیے (ذکروعبادت کے) الگ الگ طریقے مقررکیے ہیں۔

وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً

اوراگراللہ تعالیٰ چاہتے توتم سب کوایک ہی امت بنادیتے۔

وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ

لیکن جواحکام تمہیں دیئے گئے ہیں، اس سے تمہاری آزمائش مقصود ہے۔

توضیح :ذکرعبادت الٰہی کے طریقوں اوراس کے جزوی اختلاف کواس لیے رکھا کہ تم کوآزمایا جائے یعنی تمہارا امتحان لے کہ تم ہرکتاب کی اصولی وبنیادی تعلیم اوراوامرونواہی کودیکھ کرہرآنے والی کتاب پرایمان لے آتے ہویا فروعی وجزوی اختلافات کودیکھ کرسرے سے کتاب الٰہی کا انکارکرتے ہو۔ لہٰذا جزوی اختلافات کی الجھنوں میں نہ پھنسواوراس وقت جوتعلیم تمہارے سامنے ہے، اس پرعمل کرنے کا جوطریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے اس کواختیار کرو۔

فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۝۰ۭ

لہٰذا نیکیوں میں سبقت کرو(نیک بننے میں) ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔

اِلَى اللہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا

(یہ حقیقت پیش نظررکھو کہ) تم سب کو(ایک دن عقیدہ وعمل کے محاسبہ کے لیے) اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہونا ہے۔

فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۴۸ۙ

جس بات میں تم اختلاف کرتے رہے تھے وہاں اس کی حقیقت سے تمہیں آگاہ کردیا جائے گا۔

وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ

اور(ائے محمدﷺ) اللہ تعالیٰ نے جواحکام نازل کیے ہیں اس کے مطابق لوگوں کے درمیان (ان کے معاملات کا) فیصلہ کیا کیجئے۔

اور(ائے محمدﷺ) اللہ تعالیٰ نے جواحکام نازل کیے ہیں اس کے مطابق لوگوں کے درمیان (ان کے معاملات کا) فیصلہ کیا کیجئے۔

وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ وَاحْذَرْہُمْ

اورآپؐ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے اوران سے ہوشیار رہئے۔

اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللہُ اِلَيْكَ۝۰ۭ

کہ کہیں یہ لوگ آپؐ کو (اپنی سازشوں اورشرارتوں کے ذریعہ) اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے بعض احکام سے منحرف کرنے نہ پائیں۔

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّصِيْبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِہِمْ۝۰ۭ

پھراگروہ(الٰہی تعلیم سے) روگردانی کریں توآپ جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے انھیں مبتلائے عذاب کرنے کا فیصلہ فرمالیا ہے۔

وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ۝۴۹

اوریقیناً ان لوگوں کی اکثریت نافرمان ہے۔

اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۝۰ۭ

توکیا یہ لوگ جاہل انسانوں کے بتائے ہوئے احکام وتجاویز کے مطابق اپنے نزاعات کا فیصلہ چاہتے ہیں (اور جاہل انسانوں کے بتائے ہوئے دستور کی اتباع کرنا چاہتے ہیں)

وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا

اوریقین کرنے والوں کے نزدیک (فیصلہ کرنے میں) اللہ تعالیٰ سے

لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝۵۰ۧ

بہتر کون ہوسکتا ہے؟

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۘؔ

ائے ایمان والو تم (منافقوں کی طرح) یہود ونصاریٰ کو دوست مت بناؤ۔

بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ

یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔

توضیح :یہودیوں کی یہودیوں سے نصرانی کی نصرانیوں سے دوستی ہوتی ہے لیکن اہل ایمان واہل کفرمیں دوستی نہیں ہوسکتی۔

وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ۝۰ۭ

اورتم میں سے جوکوئی ان سے دوستی کرے گا پس وہ یقیناً ان ہی لوگوں میں سے ہوگا (کیونکہ دوستی کسی خاص مناسبت کے ساتھ ہوتی ہے)

اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ۝۵۱

یقیناً اللہ تعالیٰ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتے۔

توضیح :جولوگ کفار یہودونصاریٰ کودوست بناتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں ظالموں میں شمار فرماتے ہیں۔

فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْہِمْ

پس جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے۔ آپؐ دیکھیں گے کہ وہ دوڑے دوڑے ان میں جاملیں گے۔

يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَۃٌ۝۰ۭ

(اگرکوئی ملامت کرے تو) کہتے ہیں (اگرمحمدﷺ کا ساتھ دیں تو) ہم کوڈرہے کہ کہیں زمانہ کی گردش ہم کواپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔

توضیح : جیسے قحط وغیرہ۔ اورکہتے ہیں کہ مصلحتاً ہم ان سے میل جول رکھتے ہیں چونکہ یہ ہمارے ساہوکار ہیں، قرض وغیرہ مل جاتا ہے۔ اگر ظاہری میل جول ترک کریں تودقت ہوگی۔ ظاہر میں اس طرح کہتے ہیں لیکن دل میں اورمطلب لیتے کہ کفار مسلمانوں پرغالب آجائیں توہم کوان کی دوستی کام آئے گی۔

فَعَسَى اللہُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ

ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ (اہل ایمان کو) فتح نصیب کریں یا اپنے پاس سے کوئی اوربات (موافقت میں) ظاہرکردیں۔

فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَسَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِيْنَ۝۵۲ۭ

پھراس وقت یہ لوگ (اپنے اس نفاق پرجسے) وہ اپنے دلوں میں چھپائے رکھے تھے پشیمان ہوں گے۔

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَہٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَيْمَانِہِمْ۝۰ۙ اِنَّہُمْ لَمَعَكُمْ۝۰ۭ

اوراس وقت اہل ایمان (تعجب سے) کہیں گے کیا یہی وہ لوگ ہیں جوبڑے ہی مبالغہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھایا کرتے تھے کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں۔

حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَ۝۵۳

ان کی ساری تدبیریں(جوحفظ یا تقدم کے تحت کی گئی تھیں)اکارت گئیں اور وہ ناکام رہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ

ائے ایمان والو تم میں جوکوئی اپنے دین سے پھر جائے (یعنی مرتد ہوجائے تواللہ تعالیٰ کواس کی پرواہ نہیں)

فَسَوْفَ يَاْتِي اللہُ بِقَوْمٍ يُحِبُّہُمْ وَيُحِبُّوْنَہٗٓ۝۰ۙ

پھرعنقریب اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوپیدا کریں گے کہ(اللہ تعالیٰ انھیں محبوب رکھیں گے اوروہ اللہ تعالیٰ کو)

اَذِلَّۃٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۝۰ۡ

جومومنین پربڑے ہی نرم دل ہوں گے اورکافروں پرسخت ہوں گے۔

توضیح : یعنی دین کے معاملہ میں کسی طرح کی مداہنت انھیں گوارا نہیں ہوگی۔ ؎
ہوجوحلقہ یاران تو ابریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن

يُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ

وہ اللہ کی راہ میں (دین حق کوعام کرنے۔ پھیلانے میں جدوجہد) جہاد کرتے رہیں گے۔

وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاۗىِٕمٍ۝۰ۭ

اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف نہیں کھائیں گے۔

ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ جس کوچاہتے ہیں( یہ اعزاز ) عطا فرماتے ہیں۔

وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۵۴

اور(واقعی)اللہ تعالیٰ بڑے ہی صاحب فضل (جودوکرم سننے) اور جاننے والے ہیں(کہ کون اس فضل کا مستحق ہوسکتا ہے)

اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا

یقیناً اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول اوروہ لوگ جوایمان لائے ہیں، تمہارے دوست ہیں۔

الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ رٰكِعُوْنَ۝۵۵

جونماز قائم کرتے ہیں اورزکوۃ دیتے ہیں۔ اوروہ (اللہ تعالیٰ کے ہرحکم کے آگے) جھک جاتے ہیں۔

وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۵۶ۧ

اورجوشخص اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول اوراہل ایمان کودوست رکھتا ہے تووہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہے وہی (دشمن پر) غالب آتی ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ

ائے ایمان والو ان لوگوں کودوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کوکھیل اورمذاق بنائے رکھا ہے۔

ہُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۚ

جواہل کتاب سے ہیں۔ جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور کافروں کو۔

وَاتَّقُوا اللہَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۵۷

اوراللہ سے ڈرو اگرتم ایمان دارہو۔ (اطاعت وخوف الٰہی شیوۂ ایمان ہے)

وَاِذَا نَادَيْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا۝۰ۭ

جب تم نماز کے لیے اذاں کہتے ہو تووہ اس کا بھی مذاق اڑاتے ہیں۔کھیل بتاتے ہیں۔

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ۝۵۸

یہ (حرکتیں) وہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی بے وقوف قوم ہے جو(دین کے بارے میں) سمجھ سے کام نہیں لیتی۔

قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ ہَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّآ

کہئے۔ ائے اہل کتاب کیا تم ہم سے (اس لیے) عداوت رکھتے ہو کہ (ہم میں کوئی عیب یا برائی ہے)

اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا

سوائے اس کے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر(اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق) ایمان رکھتے ہیں۔ اوراس کتاب(قرآن) پرجوہماری طرف بھیجی گئی ہے۔

وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ۝۰ۙ

اوران کتابوں پربھی جواس سے پہلے نازل کی گئی ہیں۔ (توریت انجیل وغیرہ)

وَاَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ۝۵۹

اورتم میں اکثر بدکردار ہیں۔

قُلْ ہَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ

ائے محمدﷺ آپؐ ان سے کہئے (دنیا میں تمہاری شرارتوں کی پاداش میں تم پرکچھ مصیبتیں ضرورآتی ہیں) کیا میں بتاؤں تمہاری ان شرارتوں کا بدل جواللہ کے پاس ہے۔

مَنْ لَّعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَيْہِ

ان پراللہ تعالیٰ نے لعنت کی اورغضبناک ہوئے۔

وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَـنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ۝۰ۭ

اوران میں سے کسی کوبندراورکسی کوسوربنادیا اور (انہوں نے) شیطان کی پرستش کی۔

اُولٰۗىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ

ایسے لوگوں کے لیے (آخرت میں) بدترین ٹھکانا ہے۔

عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ۝۶۰

اوروہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے (اب ان کے راہ یاب ہونے کی توقع نہیں رہی)

وَاِذَا جَاۗءُوْكُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا

اوریہ لوگ جب تمہارے پاس آتے ہیں توکہتے ہیں ہم ایمان لائے۔

وَقَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَہُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِہٖ۝۰ۭ

اوروہ کفر ہی کے ساتھ آئے تھے اوروہ اسی کفر کے ساتھ واپس ہوئے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا يَكْتُمُوْنَ۝۶۱

اوراللہ تعالیٰ جانتے ہیں جوکچھ وہ چھپائے رکھتے ہیں (یعنی جس مرض نفاق کووہ چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے واقف ہیں)

وَتَرٰى كَثِيْرًا مِّنْہُمْ يُسَارِعُوْنَ فِي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاَكْلِہِمُ السُّحْتَ۝۰ۭ

اورآپ ان میں اکثر کودیکھیں گے کہ وہ گناہوں اورظلم وزیادتیوں اورحرام مال کھانے میںجلدی کرتے ہیں(کسی قسم کی پس وپیش نہیں کرتے۔ نتائج سے بے پرواہ ہوتے ہیں)

لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۶۲

کیا ہی برے کام ہیں جویہ کرتے ہیں۔

لَوْلَا يَنْھٰىہُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِہِمُ السُّحْتَ۝۰ۭ

ان کے علماء وفقہاء مشائخ انھیں گناہوں کی باتوں اورحرام خوری سے منع کیوں نہیں کرتے۔

لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ۝۶۳

(علمائے یہودوفقہا کی) یہ روش(مداہنت) کیا ہی بری ہے جووہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

توضیح : مطلب یہ ہے کہ اکابروپیشوایان قوم۔ قوم کی برائیوں پرانھیں کیوں سرزنش نہیں کرتے اوران کی بداعتقادیوں اوربداعمالیوں کوان کے سامنے رکھ کراس کے انجام سے انھیں کیوں نہیں ڈراتے۔ ان کا یہ طریقہ نہایت ہی برا ہے۔

وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ يَدُ اللہِ مَغْلُوْلَۃٌ۝۰ۭ

اوریہود نے کہا اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے (یعنی نعوذباللہ اللہ تعالیٰ بخیل ہوگئے ہیں)

غُلَّتْ اَيْدِيْہِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا۝۰ۘ

دراصل انھیں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اوراس بات کے کہنے کی وجہ لعنت کیے گئے ہیں۔
(یہ خود ہی بخیل ہیں۔ بخل میں ضرب المثل ہیں)

بَلْ يَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ۝۰ۙ

بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں(بڑے ہی جوادوکریم ہیں)

يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاۗءُ۝۰ۭ

(اللہ تعالیٰ کے تعلق سے بخل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا) اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں۔

توضیح :یہود اللہ تعالیٰ کونعوذ باللہ بخیل اس لیے کہنے لگے تھے کہ صدیوں سے وہ اللہ تعالیٰ کی عنایات سے محروم کردیئے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت سے مایوسی کے بعد ایسی باتیں کہہ رہے تھے جو ان کے مومن نہ ہونے کی علامت ہے۔ اس پاداش میں وہ رحمت الٰہی سے دورکردیئے گئے۔

وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا۝۰ۭ

اورائے نبی (ﷺ) جوکچھ آپؐ پرآپؐ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے۔ اس سے ان کی اکثریت سرکشی اور کفرہی بڑھتی ہی جاتی ہے۔

وَاَلْقَيْنَا بَيْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاۗءَ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ

اور ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے بغض ودشمنی ڈال دی۔

كُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّـلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللہُ۝۰ۙ

جب بھی یہ (دین واسلام کے خلاف) جنگ وجدال کے لیے آگ بھڑکاتے ہیں( فتنہ انگیزی کرنا چاہتے ہیں) اللہ تعالیٰ اس کوبجھادیتے ہیں( ان میں باہم پھوٹ اوراختلاف پیدا کردیتے ہیں۔

وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۝۶۴

اوروہ ملک میں شروفساد پھیلاتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مفسدوں کوپسند نہیں کرتے۔

وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَـيِّاٰتِہِمْ وَلَاَدْخَلْنٰہُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۶۵

اوراگراہل کتاب ایمان لاتے اورپرہیزگاری اختیار کرتے توہم ان سے ان کی برائیاں دورکردیتے اورہم انھیں نعمتوں سے بھری ہوئی جنتوں میں داخل کرتے۔

وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ

اوراگروہ توریت اورانجیل اورجوکتابیں ان کے رب کی طرف سے ان پرنازل کی گئی تھیں انھیں قائم رکھتے(یعنی ان میں تحریف نہ کرتے اوران پرعمل پیرا رہتے)

لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ۝۰ۭ 

تووہ اپنے اوپر اورنیچے سے کھاتے (یعنی ہروقت آسمان سے بارشہوتی اورزمین سے بہ افراط اناج، میوہ پھل ترکاریاں پیدا ہوتیں۔)

مِنْہُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ۝۰ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ۝۶۶ۧ

ان میں کچھ لوگ راہِ اعتدال پرہیں۔ اوران میں بہت سے نہایت ہی برے اعمال کے مرتکب ہیں۔

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ

پیغمبر (محمدﷺ) جواحکام آپ پرنازل کیے گئے ہیں انھیں (بلا اندیشہ ضررجان ومال) لوگوں تک پہنچاتے رہئے۔

وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۝۰ۭ

اوراگرایسا نہ کیا (یعنی احکام الٰہی کے پہنچانے میں) تساہل برتا تو (اس کے یہ معنی ہوں گے کہ) آپؐ نے اپنے فرائض رسالت انجام نہیں دیئے۔

وَاللہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ آپؐ کولوگوں کے شرسے محفوظ رکھیں گے۔

توضیح : آپؐ بلا خوف وخطر احکام الٰہی پہنچاتے رہیے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضرات صحابہ کرام راتوں کو آنحضرتﷺ کی نگہبانی کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی توآپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اب اٹھ جاؤ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت فرمادی ہے۔

اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝۶۷

بے شک اللہ تعالیٰ کافرقوم کوہدایت نہیں دیتے۔

توضیح : سنت الٰہی یہ ہے کہ جب تک لوگ باطل کوحق سمجھ کرحق کا انکار کرتے رہیں گے اورطالب ہدایت نہ ہوں گے انھیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ اگر چہ کہ وہ اپنے زعم میں بڑے عالم ہی کیوں نہ کہلائیں۔

قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۭ

کہئے ائے اہل کتاب تم ہدایت کے کسی مقام تک پہنچ نہیں سکتے جب تک کہ تم توریت اورانجیل کی تعلیمات پرقائم نہ ہوجاؤ اورجوکچھ کتابیں تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہیں(ان پرپوری طرح جمے نہ رہو)

وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا۝۰ۚ

اور(ائے نبیﷺ) یہ قرآن جوآپؐ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اس سے ان کی اکثریت سرکشی اورکفرمیں بڑھتی ہی جائے گی۔

فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝۶۸

لہٰذا آپ کافرقوم پرافسوس نہ کیجئے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ہَادُوْا

یقیناً وہ لوگ جوایمان لائے اوروہ جویہودی ہوئے ۔

وَالصّٰبِـُٔــوْنَ وَالنَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۶۹

اورستارہ پرست اورعیسائی ہوگئے ان میں سے جوبھی اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن(قیامت) پرایمان لاے اورنیک کام کرے تو (قیامت کے دن) ان پر نہ کچھ خوف طاری ہوگا اورنہ وہ حزن وملال میں مبتلا ہوں گے۔

لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ

یقینا ًہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا (کہ جوبھی رسول ان کے پاس آتے رہیں گے، ان پرایمان لائیں گے اوران کی رسالت کا اقرارکرینگے)

وَاَرْسَلْنَآ اِلَيْہِمْ رُسُلًا۝۰ۭ

اورہم نے ان کی طرف رسول بھیجے۔

كُلَّمَا جَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَہْوٰٓى اَنْفُسُہُمْ۝۰ۙ

جب بھی ان کے پاس رسول آئے اور وہ تعلیم پیش کی جس کوان کے دل نہیں چاہتے تھے۔

فَرِيْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِيْقًا يَّقْتُلُوْنَ۝۷۰ۤ

توانہوں نے انبیاء علیہم السلام کی ایک جماعت کوجھٹلایا اورایک جماعت کوقتل کردیا۔

وَحَسِبُوْٓا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ

اوریہ سمجھتے رہے کہ وہ (کسی عذاب الٰہی میں) مبتلا نہ کیے جائیں گے۔

فَعَمُوْا وَصَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللہُ عَلَيْہِمْ

اس سے اوربھی اندھے بہرے بنے رہے۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ان پرمہربانی فرمائی (پھررسول بھیجا)

ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا كَثِيْرٌ مِّنْہُمْ۝۰ۭ

پھربھی ان میں سے بہت سارے اندھے بہرے ہی بنے رہے (نتائج پرغور تک نہ کیا)

وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ۝۷۱

اوراللہ تعالیٰ ان کے سارے اعمال کودیکھتے رہے ہیں

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۝۰ۭ وَقَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ

یقیناً وہ لوگ بھی کافر ہیں جوکہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی مسیح ابن مریم کی شکل میںجلوگرہیں( اورجواس عقیدہ کونجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور لوگوں کوباورکراتے ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم نے راز میںیہ تعلیم دی تھی)

اعْبُدُوا اللہَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ۝۰ۭ

حالانکہ مسیح نے یہ کہہ دیا تھا کہ ائے بنی اسرائیل(اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق) اللہ تعالیٰ کی عبادت کروجومیرا بھی رب ہے اورتمہارا بھی (مشرکانہ عقائد سے بازآؤ)

اِنَّہٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ

(واقعہ یہ ہے کہ ) جوکوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کریگا (انبیا علیہم السلام اوراولیائے کرام کواللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی میں شریک کارسمجھ کرمدد کیلئے پکارے گا ان کے آگے لوازم عبادت نذرومنت مانے گا۔ )

فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَيْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ۝۰ۭ

توہرایسے شخص پراللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے۔ اور اس کا (ابدی) ٹھکانہ جہنم ہے۔

وَمَا لِلظّٰلِــمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۷۲

اورظالمین (مشرکین) کا کوئی حامی ومددگار نہ ہوگا۔

توضیح :مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے جن مشرکانہ عقائد کونجات کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں وہ جہنم میں جانے کا سبب بنے گا۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰــثَۃٍ۝۰ۘ

یقیناً کافر ہیں وہ لوگ جوکہتے ہیں اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔

توضیح :یعنی اللہ عیسیٰ ابن مریم۔ روح القدس (جبرئیل امین) یہ عیسائیوں کا عقیدۂ تثلیث ہے۔

وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۷۳

حالانکہ اس معبود یکتا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اوراگر وہ ایسے (عقائد) واقوال سے باز نہ آئیں توان میں سے ایسے کافروں کودرد ناک عذاب پہنچ کررہے گا۔

اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللہِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَہٗ۝۰ۭ

توپھرکیوں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آگے توبہ نہیں کرتے؟ اوراسی سے (اپنے گناہوں کی) معافی کیوں نہیں مانگتے۔

وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۷۴

اوراللہ تعالیٰ توبڑے ہی بخشنے رحم فرمانے والے ہیں۔ (بشرطیکہ انسان کفروشرک سے توبہ کرے)

مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ

مسیح ابن مریم توصرف اللہ تعالیٰ کے رسول تھے۔

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۝۰ۭ

ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں(یعنی پہلے کے رسول بھی بشرہی تھے) یہ بھی بشرہیں۔ اولاد آدم ہیں ۔

وَاُمُّہٗ صِدِّيْقَۃٌ۝۰ۭ كَانَا يَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ۝۰ۭ

اوران کی ماں بہت ہی سچی(راست باز) تھیں یہ دونوں (انسان تھے) کھاناکھاتے تھے(یعنی لوازمات بشری رکھتے تھے)

اُنْظُرْ كَيْفَ نُـبَيِّنُ لَہُمُ الْاٰيٰتِ

غورتوکیجئے ہم نے ان لوگوں کیلئے اپنی آیتیں کس طرح کھول کھول کر بیان کیں۔ (یعنی کتنے واضح الفاظ میں ان کے باطل عقائد کی تردید کردی۔)

ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۝۷۵

پھران کے حال پرغورکیجئے (اتنی واضح تفہیم کے باوجود) وہ کدھربہکے جارہے ہیں۔

قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ

ائے پیغمبر(ﷺ) ان سے کہئے کیا تم اللہتعالیٰ کے سواغیراللہ کی عبادت کرتے ہو۔

مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۝۰ۭ وَاللہُ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۷۶

جوتمہیں نہ ضرر پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں اورنہ نفع کا اور(واقعہ یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ سننے اورجاننے والے ہیں۔

قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ

کہئے ائے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو۔

وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ

اورنہ ایسے لوگوں کی خواہشات کے پیچھے چلوجواس سے پہلے خود بھی گمراہ ہوئے۔

وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ۝۷۷ۧ

اوربہتوں کوگمراہ کیا۔ اور وہ خود بھی سیدھی راہ سے بھٹکے رہے۔

لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۝۰ۭ

بنی اسرائیل میں سے جولوگ کافر ہوئے ان پرداؤدؑ اورعیسیٰؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔

ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ۝۷۸

اس وجہ سے کہ انہوں نے نافرمانی کی اورحدود الٰہی سے تجاوز کرگئے۔

كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۝۰ۭ

وہ لوگوں کوبرے کاموں سے روکتے بھی نہ تھے اورخود بھی ان کے مرتکب ہوتے تھے۔

لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۝۷۹

کیا ہی بری روش تھی جس پر وہ چل رہے تھے۔

تَرٰى كَثِيْرًا مِّنْہُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ

ان میں اکثر لوگوں کوآپؐ دیکھتے ہیں کہ وہ (اہل ایمان کوچھوڑکر) کافروں کودوست بناتے ہیں۔

لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ

اپنی ذات کے لیے انہوں نے کیا ہی براسامان اپنے آگے بھیجا(یعنی حیات بعدالموت کے لیے انہوں نے کیا ہی بری تیاری کی)

اَنْ سَخِـــطَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَفِي الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ۝۸۰

کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوگئے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مبتلائے عذاب کردیئے گئے۔

وَلَوْ كَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالنَّبِيِّ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ

اوراگروہ اللہ تعالیٰ اورنبی پراورجوکتاب نبی پراتاری گئی ہے اس پر ایمان لاتے (یعنی یقین رکھتے)

مَا اتَّخَذُوْہُمْ اَوْلِيَاۗءَ وَلٰكِنَّ كَثِيْرًا مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ۝۸۱

اوران (کافروں) کودوست نہ بناتے( توان کے لیے بہترہوتا) لیکن ان میں اکثر فاسق ہی ہیں۔

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا۝۰ۚ

(محمدﷺ) اہل ایمان کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والوں میں آپؐ یہود اورمشرکین کوپاؤگے۔

وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى۝۰ۭ

اوردوستی کے لحاظ سے اہل ایمان سے قریب تران لوگوں کوپاؤگے جو اپنے کونصاریٰ کہتے ہیں۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُہْبَانًا

یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اورعابد بھی۔

وَّاَنَّہُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ۝۸۲

اوروہ تکبر نہیں کرتے۔

توضیح : علماء نے کہا کہ نصاریٰ سے مراد نجاشی بادشاہ حبش اوراس کے ساتھی ہیں۔ حضرت جعفرطیار سے جب انہوں نے قرآن سناتوان کے دل نرم پڑگئے اورساتھ ہی وہ مسلمان ہوگئے۔

وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ

اورجب وہ اس کلام کوسنتے ہیں جورسول اللہﷺ پرنازل ہوا۔

تَرٰٓي اَعْيُنَہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ۝۰ۚ

(تو) تم دیکھتے ہوکہ حق کوپہچان لینے کی وجہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔

يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ۝۸۳

وہ کہتے ہیں ائے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ لہٰذا ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں شمار فرمالیجئے۔

وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللہِ وَمَا جَاۗءَنَا مِنَ الْحَقِّ۝۰ۙ

اور(کہتے ہیں) جب حق بات ہمارے پاس آچکی توپھرکوئی وجہ نہیں کہ ہم ایمان نہ لائیں۔

توضیح : حبشہ کے لوگوں نے نجاشی اوراس کے ساتھ ایمان لانے والوں پرطعن کیا کہ بغیر دیکھے ایمان لائے توانہوں نے جواب میں یہ بات کہی وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللہِ (موضح القرآن)

وَنَطْمَعُ اَنْ يُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِيْنَ۝۸۴

اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک بندوں کے ساتھ (جنت میں) داخل فرما دےگا۔

فَاَثَابَہُمُ اللہُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۭ

اس اقرار (حق) کے بدلے اللہ تعالیٰ انھیں ایسی جنت میں داخل کریں گے جس کے نیچے نہریں بہتی ہونگی جس میں وہ ہمیشہ رہیںگے۔

وَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۸۵

اور یہی جزاء ہے (ایمان لانے والے) نیکو کاروں کی۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَــحِيْمِ۝۸۶ۧ

اور جن لوگوں نے حق کا انکار کیا اور ہمارے احکام جھٹلائے وہ سب دوزخی ہیں۔

توضیح :مکہ میں جب کافروں نے مسلمانوں پر ظلم کیا تو حضرت محمد ﷺ نے اجازت دی کہ وہ کسی اور ملک میں جارہیں۔ قریب اسی (۸۰ )مسلمان بعض تنہا اور بعض اہل و عیال سمیت ملک حبشہ ہجرت کرگئے ۔ پھر مکہ کے کافروں نے وہاں کے بادشاہ کو بہکایا کہ اس قوم کواپنے ملک میں نہ رہنے دیں اس لئے کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام کو غلام کہتے ہیں۔ تب بادشاہ نے مسلمانوں کو بلوایا اور قرآن پڑھوا کر سنا۔ اس کے علماء بہت روئے اور کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے ہم نے ایسا ہی سنا ہے اور ہمیں خبر دی ہےکہ ان کے بعد قیامت سے پہلے اک اور نبی آئیںگے۔ وہ بیشک یہی نبی ہیں۔ بعد میں وہ بادشاہ حبشہ مسلمان ہوا۔ ان کے حق میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (موضح القرآن)
نوٹ: جو لوگ تارک الدنیا ہوکر نفس کشی اور رہبانیت کو بڑی نیکی سمجھتے تھے۔ اندیشہ تھا کہ ان کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی ایسا نوٹ: جو لوگ تارک الدنیا ہوکر نفس کشی اور رہبانیت کو بڑی نیکی سمجھتے تھے۔ اندیشہ تھا کہ ان کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی ایسا ہی کرنے لگیں۔ لہٰذا حکم دیا گیا۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَكُمْ

ائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو لذیذ مرغوب غذائیں تمہارے لئے حلال کردی ہیں ان کو اپنےپر حرام مت کرلو

توضیح :حلال چیزوں کو کسی وجہ سے بھی ترک کردینا گویا انھیں حرام کرلینا ہے۔ سوائے اس کے کہ کسی مرض کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہو۔

وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝۸۷

اور حدود شرعیہ سے آگے نہ بڑھو۔ یقیناً حد سے گزرنے والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتے (اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی شئے کو نہ تو حرام قرار دو اور نہ اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیز کو اپنے پر حلال کرلو)

وَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰۠

اور اللہ تعالیٰ نے جن پاکیزہ و حلال چیزوں کو تمہارا رزق بنایا ہے کھاؤ۔

وَّاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ۝۸۸

اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو( معصیت سے بچانا ہی تقویٰ ہے۔)

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ

اللہ تعالیٰ ایسی قسموں پر کوئی مواخذہ نہیں فرماتے جو (بول چال میں) بلاقصد تمہاری زبان سے نکل جاویں۔

وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ۝۰ۚ

مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر اللہ تعالیٰ ضرور مواخذہ کریںگے (ایسی قسمیں توڑدینی چاہئیں)

فَكَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰكِيْنَ

اور اس طرح قسم کو توڑنےکاکفارہ دس مسکینوں کو کھاناکھلانا ہے۔

مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِيْكُمْ

اوسط قسم کا کھاناجو تم اپنےاہل و عیال کو کھلاتے ہو۔

اَوْ كِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ۝۰ۭ

یا انھیں (اوسط قسم کے) کپڑے پہنادو یا غلام آزاد کرو

فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰــثَۃِ اَيَّامٍ۝۰ۭ

لہٰذا جس کسی میں (ان تینوں باتوں کی) استطاعت نہ ہوتو تین روزے رکھے۔

ذٰلِكَ كَفَّارَۃُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ۝۰ۭ

یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے( مطلب یہ ہےکہ تم نےاگر حلال چیزیں نہ کھانے کی قسم کھائی ہے تو اس کو توڑ دو اور کفارہ ادا کردو۔)

وَاحْفَظُوْٓا اَيْمَانَكُمْ۝۰ۭ

اپنی قسموں کو پورا کرو (یعنی ایسی باتوں کی قسمیں نہ کھایا کرو جن پر تم عمل نہ کرسکو یا گناہ کرنے یا نیک کام نہ کرنے کی قسم نہ کھایا کرو۔)

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۸۹

اس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہارے (فائدے کے) لئے اپنے احکام صاف صاف بیان کردیئےہیں تاکہ تم شکر گزار بندے بنے رہو۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ
رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ

ائے ایمان والو یقیناً شراب اور جوا اور استھان (پتھر سے تراشی ہوئی مورتیں یا بزرگوں کےنام کی قبریں، درگاہیں ،چلّے وغیرہ کی تعظیم یہ سب انصاف کی تعریف میں آتے ہیں) اور فال نکالنے کے تیر (یہ سب) گندے اور شیطانی کام ہیں۔

فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۹۰

لہٰذا ان چیزوں سے بچتے رہو (یہ تعلیم تم کو اس لئے دی جاتی ہے) تاکہ تم فلاح پاؤ۔

اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ

یقیناً شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ جوے اور شراب کے ذریعہ تمہارے درمیان بغض اور دشمنی پیدا کردے۔

وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ۝۰ۚ

اور تمہیں ذکر اللہ اور نماز سے غافل کردے۔

توضیح :یہاں ذکر اللہ سے مراد ایک دوسرے کے حقوق و واجبات کی ادائی ہے۔

فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۝۹۱

کیا تم ان کاموں سے باز نہ آؤگے؟

وَاَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا۝۰ۚ

اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ ﷺکی اطاعت کرو اور (اطاعت نہ کرنے کے انجام بد سے) ڈرتے رہو۔

فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰي رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۝۹۲

پھر اگر تم احکام الٰہی سے روگردانی کروگے تو جان لو کہ ہمارے رسولؐ کے ذمہ صرف واضح طور پر احکام پہنچا دینا ہے (یہ سمجھ کر کہ رسول اللہ ﷺ بخشوائیںگے، خبردار کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرنا)

لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْٓا

جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کوئی گناہ نہیں جو وہ (سابق میں) کھاچکے یا استعمال کرچکے (یعنی جنہوں نے امتناعی احکام سے پہلے جوے کا پیسہ کھالیا تھا)

اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا۝۰ۭ

بشرطیکہ وہ آئندہ (ان چیزوں سے) بچتے رہیں اور ایمان پر جمے رہیں اور نیک رویہ اختیار کریں۔ پھر (جن باتوں سے روکا گیا) ان سے پرہیز کریں (اور جو حکم الٰہی آئے اس کو بہ سروچشم) مان لیں پھر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور نیک کام کرتے رہیں۔

وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۹۳ۧ

اور اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو محبوب رکھتے ہیں (یعنی پسند فرماتے ہیں)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللہُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَـنَالُہٗٓ اَيْدِيْكُمْ وَرِمَاحُكُمْ

(حالت احرام میں شکار کرنے کی ممانعت ہے اسلئے حکم دیا گیا ہے) ائے ایمان والو۔ اللہ تعالیٰ شکار سے تمہاری قدرے آزمائش کرتے رہیںگے جن تک تمہارے ہاتھ اور نیزے پہنچ سکیںگے (یعنی اللہ تعالیٰ شکارکو تمہارے قابو میں اور تمہارے نیزوں کی زد میں لاکر تمہارا امتحان کرینگے)

لِيَعْلَمَ اللہُ مَنْ يَّخَافُہٗ بِالْغَيْبِ۝۰ۚ

تاکہ اللہ تعالیٰ عملاً بھی آزمائش کرلیں کہ کون (اللہ تعالیٰ سے) غائبانہ ڈرتا ہے۔

فَمَنِ اعْتَدٰي بَعْدَ ذٰلِكَ

پھر اس کے بعد جو کوئی (احکام الٰہی سے) تجاوز کرے گا، (یعنی اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہوکر شکار کے موقع سے فائدہ اٹھائیگا)

فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۹۴

تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے (یعنی جہنم کی آگ میں جلتا رہیگا)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ۝۰ۭ

ائے ایمان والو حالت احرام میں شکار نہ کرو (اگرچیکہ شکار کتنا ہی تم سے قریب اور تمہاری زد میں آجائے)

وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا

اور تم میں جو کوئی عمداً اس حالت میں شکار کرے

فَجَــزَاۗءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ

تو اس کے بدلے اس شکار کا ہم قیمت کوئی مویشی نذر دے۔

يَحْكُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ

جانور کی قیمت کا تعین (اور روزوں کا تعین) تم میں سے دو عادل کرینگے۔

ہَدْيًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَۃِ اَوْ كَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰكِيْنَ

کفارہ کاجانور (قربانی کے لئے) کعبۃ اللہ بھیجا جائے گا یا (اس گناہ کے) کفارہ میں مسکینوں کوکھانا کھلایا جائے گا۔

اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ۝۰ۭ

یا اس کے بدلے روزے رکھنے ہوںگے تاکہ اپنے کئے کی سزا بھگت لے۔

عَفَا اللہُ عَمَّا سَلَفَ۝۰ۭ وَمَنْ عَادَ

اس حکم سے پہلے جو غلطی ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کردیا

فَيَنْتَقِمُ اللہُ مِنْہُ۝۰ۭ

اور آئندہ جو کوئی اس کا اعادہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لینگے۔

وَاللہُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ۝۹۵

اور اللہ تعالیٰ زبردست انتقام لینے والے ہیں۔

اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ

تمہارے لئے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا (حالت احرام میں بھی) حلال کردیا گیاہے۔

مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّـيَّارَۃِ۝۰ۚ

تمہارے اور مسافروں کے فائدے کے لئے (چاہے تم اس کو حالت سفر میں کھاؤ یا مقیم رہ کر یا قافلہ کے لئے اس کو توشہ بناؤ)

وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا۝۰ۭ

اور تم پر خشکی کا شکار حرام ہے جب تک کہ تم حالت احرام میں ہو۔

وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْٓ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ۝۹۶

اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس کے سامنے تم (محاسبہ اعمال کے لئے) حاضر کئے جاؤگے۔

جَعَلَ اللہُ الْكَعْبَۃَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِــيٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْيَ وَالْقَلَاۗىِٕدَ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ نے قابل احترام مکان کعبۃ اللہ کو لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کا ذریعہ بنایا۔ اور حرمت کے مہینوں اور قربانی کے جانوروں کو بھی (قتل و غارت گری کے انسداد کاذریعہ بنایا)

ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ

یہ اس (بات کا یقین دلانے کے) لئے کہ تم جان لو کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس کو اللہ تعالیٰ (اچھی طرح) جانتے ہیں۔

توضیح : ایک ایسا ملک جہاں کوئی منظم حکومت نہ ہو اور جہاں کے لوگ قبائلی زندگی بسر کرتے ہوں۔ قتل و غارت گری کے عادی ہوں، وہاں لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے اللہ تعالیٰ نے حدودِ حرم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اور حرمت کے مہینوں میں جدال و قتال لوٹ و غارت گری کو حرام فرما کر امن قائم فرمایا۔

وَاَنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۹۷

اور یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتے ہیں (یعنی جان و مال کے تحفظ اور امن وامان کے بہتر سے بہتر طریقوں سے بخوبی واقف ہیں۔

اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ

(اچھی طرح) جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔ (خلاف ورزی کےانجام سے بچ نہ سکوگے)

وَاَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۹۸ۭ

اور (اگر سہواً ہوجائے تو) اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانیوالے ہیں

مَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ۝۰ۭ

رسول کے ذمہ تو صرف احکام پہنچادینا ہے۔

وَاللہُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْتُمُوْنَ۝۹۹

اور اللہ تعالیٰ جانتے ہی ہیں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو (یعنی یہ جانتے ہیں کہ اس تعلیم کے بعد تم نے اس کی کتنی قدر کی اور کس قدر ناقدری)

قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ

(ائے نبی ﷺ) کہئے پاک اور ناپاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں۔

وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَۃُ الْخَبِيْثِ۝۰ۚ

اگرچہ کہ ناپاک چیزوں کی کثرت تمہیںبھلی ہی کیوں نہ لگے۔

توضیح :گندگی اور پاکیزگی کا وزن اور قیمت ایک دوسرے کی زیادتی کی وجہ نہیں ہے۔ پاکیزگی اگر کم سے کم بھی ہو تو اپنی پاکیزگی کی وجہ نہایت ہی بیش بہا چیز ہے اور گندگی کتنی ہی زیادہ ہو اس کا نہ تو کوئی وزن ہے اور نہ کوئی قیمت۔ لہٰذا برائی کی کثرت دیکھ کر مرعوب و متاثر نہ ہونا چاہئے۔

فَاتَّقُوا اللہَ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ

لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۰۰ۧ

ائے عقلمندو (عقل سے کام لو) اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرو (یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کے انجام سے ڈرتے رہو۔)
(یہ تعلیم تم کو اسلئے دی گئی ہے) تا کہ تم (آخرت کی) کامیابی حاصل کرسکو۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْـيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ۝۰ۚ

ائے ایمان والو ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کیا کرو کہ اگر ان کی حقیقت تم پر ظاہر کردی جائے تو تمہیں برا لگے۔

وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْہَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ۝۰ۭ

اگر نزول قرآن کے وقت پوچھوگے تو وہ تمہیں بتا دی جائیںگی۔

عَفَا اللہُ عَنْہَا۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝۱۰۱

اللہ تعالیٰ نےایسی باتوں سے درگزر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے حلیم الطبع ہیں۔

قَدْ سَاَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِہَا كٰفِرِيْنَ۝۱۰۲

اسطرح کی باتیں تم سے پہلے والوں نے بھی پوچھی تھیں (جب وہ انھیں بتادی گئیں) تو انہوں نے اس کی صحت کا انکار کردیا۔ (مثلاً کسی نے سوال کیا کہ میرا باپ کون ہے جواب آیا کہ جن کو تم اپنا باپ سمجھ رہے ہو، وہ تمہارا باپ نہیں ہے۔ بلکہ تم کسی اور کی نسل سے ہو۔ صحیح جواب ملنے پر

مَا جَعَلَ اللہُ مِنْۢ بَحِيْرَۃٍ

انکار کردیا)اللہ تعالیٰ نے بحیرہ کو حرام نہیں کیا (بحیرہ وہ اونٹنی جو بتوں کے نذر کی جاتی تھی اس کے کان پھاڑ کر چھوڑ دیتے تھے تاکہ کوئی اس کا دودہ دوہ نہ سکے۔)

وَّلَا سَاۗىِٕبَۃٍ وَّلَا وَصِيْلَۃٍ وَّلَا حَامٍ۝۰ۙ

اور نہ سائبہ نہ وسیلہ نہ حام کو (حرام قرار دیا)

توضیح :سائبہ وہ جانور جو بتوں کےنام پر چھوڑ دئے جاتے جن سے کوئی کام نہ لیتےتھے جیسے آج بھی سانڈ چھوڑے جاتے ہیں۔
وصیلہ: وہ اونٹنی جو پہلے اور آخر دو مادہ بچے دے۔
حام: وہ اونٹ جس کی نسل سےچند بچے لے کر سواری وغیرہ کا کام ترک کردیتے تھے۔

وَّلٰكِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ۝۰ۭ

لیکن اہل کفر اللہ تعالیٰ پر جھوٹی باتیں افترا کرتے ہیں۔( یعنی ان کی حرمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔)

توضیح :ہر زمانے میں جہلا کا یہ طریقہ رہا اور اب بھی ہے۔ گائے، بیل، بکرے، مرغ کسی بت قبر یا دیو یا پیر کے نام پر چھوڑتے ہیں۔ ان سے کوئی خدمت لینا ان کو مارنا یاذبح کرناحرام سمجھتے ہیں۔ اس طرح اہلِ عرب بھی مختلف طریقوں سے جانور چھوڑا کرتے تھے۔

وَاَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۝۱۰۳

اور ان میں اکثر سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے (اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی ایسی جاہلانہ باتیںکہتے ہیں)

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس تعلیم کی طرف آؤ جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے اور جو تعلیم رسول دے رہے ہیں۔

قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ

تو کہتے ہمارے لئے وہی طریقہ (عبادت) کافی ہے۔ جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو (کرتے ہوئے) پایا ہے۔

اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۝۱۰۴

اگرچہ کہ ان کے باپ داداکچھ جانتے ہی نہ ہوں اور نہ سیدھی راہ پر ہوں۔ (اس کے باوجود انھیں کے غلط طریقہ پر چلنا چاہتے ہیں)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ۝۰ۚ

ائے ایمان والو تم پر تمہارے اپنے نفس کا حق ہے۔ (تو پہلے اپنے عقائد کی اصلاح کرلو اور گناہوں سے بچو)

لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَيْتُمْ۝۰ۭ

اگر تم ہدایت پر قائم رہو تو کوئی گمراہ شخص تمہارا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔

اِلَى اللہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا

تم سب کو محاسبہ اعمال کیلئے اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے لوٹ کر جانا ہے۔

فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ
تَعْمَلُوْنَ۝۱۰۵

پھر وہ تم کو تمہارے ان سب اعمال سےآگاہ کردےگا جنہیں تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَہَادَۃُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِيْنَ الْوَصِيَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ

ائے ایمان والو جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائےتو وصیت کےوقت تم (مسلمانوں) میں سے دو انصاف پسند قابل اعتبار گواہ لو۔

اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ

یا (مسلمان نہ ملیں تو) غیر مسلم میں سے دو گواہ کرلو اگر تم سفر کی حالت میں ہو۔

فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۭ

پھر تم پر موت کی مصیبت طاری ہو۔

تَحْبِسُوْنَہُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوۃِ

تو نماز کےبعد ان گواہوں کو روک رکھو۔

فَيُقْسِمٰنِ بِاللہِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِيْ بِہٖ ثَـمَنًا وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى۝۰ۙ

اگر تم کو ان گواہوں کی نسبت کچھ شک ہو تو وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھائیں کہ وہ (کسی دنیاوی مفاد کے لئے) غلط شہادت نہیں دیںگے۔ اگرچیکہ ان کا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

وَلَا نَكْتُمُ شَہَادَۃَ۝۰ۙ اللہِ

اور اللہ تعالیٰ کی (خوشنودی کی خاطر) شہادت کو نہ چھپائیںگے (صحیح صحیح گواہی دیںگے)ور نہ

اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِيْنَ۝۱۰۶

اس صورت میں ہم بڑے ہی گنہگار ہوںگے۔

فَاِنْ عُثِرَ عَلٰٓي اَنَّہُمَا اسْتَحَقَّآ اِثْمًا

پھر اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ میں ملوث کیا ہے (یعنی غلط گواہی دی ہے)

فَاٰخَرٰنِ يَقُوْمٰنِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِيْنَ اسْتَحَقَّ عَلَيْہِمُ الْاَوْلَيٰنِ

تو دو اور گواہ ان کی جگہ کھڑے ہوجائیں (جنہوں نے ان کا حق مارنا چاہا تھا) جو (میت سے) قرابت قریبہ رکھتے ہوں۔

فَيُقْسِمٰنِ بِاللہِ لَشَہَادَتُنَآ اَحَقُّ مِنْ شَہَادَتِہِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَآ ۝۰ۡۖ

پھر وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر کہیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ صحیح ہے اور ہم نے (اپنی گواہی میں) کوئی زیادتی نہیں کی (یعنی کوئی غلط بات نہیں کہی) ورنہ

اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۰۷

ہم ظالموں میں سے ہوجائیںگے۔

ذٰلِكَ اَدْنٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِالشَّہَادَۃِ عَلٰي وَجْہِہَآ

اس طریقہ سے بہت ممکن ہے کہ وہ صحیح صحیح شہادت دینے پر مجبور ہوجائیں۔

اَوْ يَخَافُوْٓا اَنْ تُرَدَّ اَيْمَانٌۢ بَعْدَ اَيْمَانِہِمْ۝۰ۭ

یا اس بات سے خوف کھائیں کہ ہماری قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کردی جائیںگی۔

وَاتَّقُوا اللہَ وَاسْمَعُوْا۝۰ۭ

اللہ سے ڈرو (اور جو بھی حکم دیا جائے بہ عزم اطاعت) غور سے سنو۔

وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝۱۰۸ۧ

اور (واقعہ ہیکہ) اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو اصلاح حال کی توفیق نہیں دیتے۔

يَوْمَ يَجْمَعُ اللہُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ۝۰ۭ

وہ دن یاد رکھنے کے قابل ہے جس دن اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو جمع کریں گے پھر ان سے پوچھیںگے تمہیں اپنی دعوت کا کیا جواب ملا تھا۔

قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا۝۰ۭ

وہ عرض کریںگے (باطن کا حال) ہم نہیں جانتے۔

اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۝۱۰۹

یقیناً آپ ہی غیب کی باتوں کے جاننے والے ہیں۔(ان کے دلوں کاحال)

اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِيْ عَلَيْكَ وَعَلٰي وَالِدَتِكَ۝۰ۘ

(وہ مکالمہ بھی قابل ذکر ہے) جب کہ اللہ تعالیٰ (قیامت میں) عیسیٰ علیہ السلام سے کہیںگے۔ ائے عیسیٰ ابن مریم میرے ان احسانات کویاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کئے۔

اِذْ اَيَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۝۰ۣ

جب کہ میں نے جبرئیل سے تمہاری مدد کی۔

تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ وَكَہْلًا۝۰ۚ

تم زمانہ شیر خوارگی میں اور بڑی عمر کو پہنچ کر لوگوں سے باتیں کیا کرتے

تھے (کہ میں اللہ ہی کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اللہ نے مجھے کتاب دی ہے۔ لہٰذا اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی)

وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَالتَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۝۰ۚ

اور اس وقت میں نے تم کو کتاب کا علم سکھایا دانائی بخشی توریت و انجیل کی تعلیم دی۔

وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ كَہَيْئَۃِ الطَّيْرِ بِـاِذْنِيْ

اور جب تم مٹی سے پرندوں کی شکلیں میرے حکم سے بناتے تھے۔

فَتَنْفُخُ فِيْہَا فَتَكُوْنُ طَيْرًۢا بِـاِذْنِيْ

پھر تم اس میں پھونک مارتے تو وہ میرے حکم سے (پرندہ ہوکر) اڑنے لگتا۔

وَتُبْرِئُ الْاَكْـمَہَ وَالْاَبْرَصَ بِـاِذْنِيْ۝۰ۚ

اور تم مادر زاد اندھے اور برص کے مریض کو میرے حکم سے بھلا چنگا کئے دیتے تھے۔

وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِيْ۝۰ۚ

اور جب تم میرےحکم سے مردہ کو زندہ کرتے تھے۔

وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَنْكَ

اور جبکہ میں نے بنی اسرائیل کی دست درازیوں سے تمہیں بچائے رکھا۔

اِذْ جِئْتَہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ

جب تم ان کے پاس (واضح) نشانیوں کے ساتھ آئے۔

فَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ۝۱۱۰

تو ان میں جو کافر تھے کہنے لگے یہ تو کھلے جادو کے سوا اور کچھ نہیں۔

وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيِّيْنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ۝۰ۚ

اور اس وقت میں نے حوارین کو توفیق دی کہ مجھ پر اور میرے رسولوں پر ایمان لائیں۔

توضیح :حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھی اور ان کی اتباع کرنے والوں کے لئے قرآن مجید میں ’’حواری‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔

قَالُـوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ۝۱۱۱

انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے۔ آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلمان ہیں (اطاعت گزار و فرمانبردار ہیں)

اِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ

اس وقت حواریوں نے عیسی ابن مریم سے کہا تھا۔

ہَلْ يَسْتَطِيْعُ رَبُّكَ اَنْ يُّنَزِّلَ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ۝۰ۭ

کیا آپ کا پروردگار ہمارے لئے (کھانے پینے کی چیزوں سے) جماجمایا دسترخوان آسمان سے بھیج سکتا ہے؟

قَالَ اتَّقُوا اللہَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۱۲

عیسیٰؑ نے کہا اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو (یہ بڑی گستاخانہ بات ہے)

قَالُوْا نُرِيْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْہَا

انہوں نے کہا (ہم بے ادبی نہیں کررہے ہیں) ہم چاہتے ہیں کہ (روزگار سے بے فکر رہ کر) اس دسترخوان سے کھائیں پئیں۔

وَتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُنَا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا

اور ہمارے دل مطمئن ہوجائیں اور ہم جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے۔

وَنَكُوْنَ عَلَيْہَا مِنَ الشّٰہِدِيْنَ۝۱۱۳

اور ہم اس پر(خوان نعمت کے مُنزّل من اللہ ہونے پر) گواہ ہیں۔

قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ

عیسیٰؑ ابن مریم نے دعاکی کہ ائے میرے پروردگار ہم پر آسمان سے (اکل و شراب کےسامان سے بھرا ہوا) ایک خوان نعمت نازل فرمایئے۔

تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰيَۃً مِّنْكَ۝۰ۚ

کہ( وہ دن) ہمارے اور ہمارے بعد آنے والوں کیلئے عید قرار پائے اور وہ آپ کی طرف سے (آپ کی تائید و نصرت کی) ایک نشانی بھی ہو۔

وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ۝۱۱۴

اور اس طرح ہمارے رزق کا سامان کردیجئے اور آپ تو بہترین رزق دینے والے ہیں۔

قَالَ اللہُ اِنِّىْ مُنَزِّلُہَا عَلَيْكُمْ۝۰ۚ

(اس دعا کے جواب میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا (میں ایسا خوان نعمت) تمہارے لئے بھیجتا ہوں (مگر یہ بات سن لو)

فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُہٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۱۵ۧ

پھر اس کے بعد تم میں سےجو کوئی کفران نعمت کرے گا تو میں اس کو ایسی سزا دوںگا کہ اہل عالم میں سے کسی کو نہ دوںگا۔

وَاِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ

اور (قیامت کے روز ہونے والے اس مکالمہ کو پیش نظر رکھو) جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم سے پوچھیںگے۔

ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــہَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ

کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا؟ کہ اللہ کے سوا (یا اللہ کے ساتھ) مجھے اور میری ماں کو معبود (و مستعان) قرار دے لو؟

قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ۝۰ۤ بِحَقٍّ۝۰ۭ۬

حضرت عیسیٰؑ جواب دیںگے (اللہ تعالیٰ اس طرح کی شرکت سے) آپ پاک ہیں۔ میرے لئے یہ بات کیسے سزا وار ہوسکتی ہے کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔

اِنْ كُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ۝۰ۭ

اگر میں نے ایسی بات کہی تھی تو آپ اس کو ضرور جانتے ہیں۔

تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ۝۰ۭ

آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے ضمیر میں ہے (یعنی اس طرح پوچھنے کا کیا مقصد ہے میں نہیں جانتا)

اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۝۱۱۶

بیشک آپ غیب کی ساری چیزوں (اور احوال) کو جانتے ہیں۔

مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِيْ بِہٖٓ

میں نے ان سے (ایسی) کوئی بات تو نہیں کہی تھی سوائے اس کے جس کاآپ نے حکم دیا تھا۔

اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ۝۰ۚ

وہ یہ کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی۔

وَكُنْتُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْہِمْ۝۰ۚ

اور میں جب تک ان میں رہا اسی بات کے حق ہونے کی شہادت دیتا رہا۔

فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ

پھر جب آپ نے مجھے اپنی طرف آسمان پر زندہ اٹھالیا تو آپ ہی ان پر نگران رہے۔

وَاَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ۝۱۱۷

اور آپ تو (کائنات کی) ہر چیز کےنگران ہیں۔

اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُكَ۝۰ۚ

اگر آپ انھیں عذاب دیں تو وہ آپ ہی کے بندے ہیں۔

وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۱۸

اور اگر آپ انھیں معاف کردیں تو بے شک آپ بڑے ہی زبردست حکیم ہیں (یعنی آپ کا ہر فعل اور ہر تجویز نہایت ہی حکیمانہ ہے)

قَالَ اللہُ ہٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُہُمْ۝۰ۭ

اللہ جواب میں فرمائیںگے (حق کو جھٹلانے والوں کی مغفرت کا سوال ہی کیا ہے) آج وہ دن ہے کہ سچے لوگوں کو ان کی سچائی کام دیگی (یعنی رحمت الٰہی کے مستحق وہی لوگ ہونگے جنہوں نے دعوت حق کی تصدیق کی۔

لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝۰ۭ

ان کے لئے جنت ہے جس کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی۔ جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ (عیش و آرام سے) رہیںگے۔

رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگئے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے راضی ہوگئے۔

ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۱۹

یہی بڑی کامیابی ہے۔

لِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِيْہِنَّ۝۰ۭ

آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب اللہ تعالیٰ کا ہے (یعنی تمام موجودات کےبلا شرکت غیرے تنہا مالک و فرمانروا اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔)

وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۲۰ۧ

اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

توضیح :اپنے کسی مقرب سے مقرب بندہ کو اعزازاً بھی کسی ادنی قسم کا اختیار تفویض کئے بغیر اور کسی کی رائے ومشورے بغیر زمین و آسمان کی بلاشرکت غیرے فرمانروائی پر پوری طرح قادر ہے۔ اس بناء پر وہ دوبارہ حیاتِ جسمانی اور قیامت و محاسبہ اعمال کے قائل نہ تھے انکا عقیدہ یہ تھا کہ انسان مرتے ہی فرشتے اس
کی روح کو اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بزرگوں کی سعی سفارش یا ان کی نسبتوں سے روح کے ناری و ناجی ہونے کا فیصلہ کردیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ان گھڑے ہوئے عقیدوں کے سبب وہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور محمدﷺکو اللہ تعالیٰ کا رسول ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ اور ان کا خیال یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مافوق البشر طاقتوں کاحامل ہو۔ رسول کا انسانوں میں سے ہونا یعنی بشر ہونا ان کے لئے عجیب بات تھی۔ ایسے ہی کچھ اور اعتراضات تھے جو نزول قرآن کے زمانہ میں ان کے دلوں میں پیدا ہوتے رہے تھے جن کا ہر وقت جواب بھی نازل ہوتا رہا۔ اور تزکیہ نفس کی تعلیم کے بعض اجزا بھی ساتھ ساتھ نازل کئے جاتے رہے۔