☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

يٰٓاَيُّہَا الْمُدَّثِّرُ۝۱ۙ
قُـمْ فَاَنْذِرْ۝۲۠ۙ

وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۝۳۠ۙ

ائے کپڑے میں لپٹے ہوئے (محمدﷺ)
اٹھئے اور (لوگوں کو) خبردار کیجئے (یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کوخواب غفلت سے جگائیے،انھیں انجام آخرت سے ڈرائیے)
اوراپنے پروردگار کی عظمت وبرتری کا اعلان کیجئے۔

ہر طرح کی بڑائی، برتری، عظمت، علوئے مرتبت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص ہے۔

وَثِيَابَكَ فَطَہِرْ۝۴۠ۙ

اوراپنے کپڑے صاف وستھرے رکھئیے

اس حکم میں نفس کی برائیوں سے تطہیر بھی شامل ہے۔

وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۝۵۠ۙ

اور(ہرقسم کی) گندگی سے دور رہئے(خواہ وہ عقائد وخیالات کی ہویا

وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ۝۶۠ۙ

اخلاق واعمال کی یا جسم ولباس ورہن سہن کی)
اور(اس غرض سے) احسان نہ کیجئے (کہ کسی موقع پر) اس سے زیادہ حاصل کرنا مقصود ہو۔

توضیح :کسی پر احسان کرکے بدلہ نہ چاہے، ہر قسم کی عطا وبخشش وحسن سلوک محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہو، اوراسی طرح کوئی نیک عمل نام ونمود شہرت کے لئے نہ ہونا چاہئے۔

وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ۝۷ۭ

فَاِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُوْرِ۝۸ۙ

فَذٰلِكَ يَوْمَىِٕذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ۝۹ۙ
عَلَي الْكٰفِرِيْنَ غَيْرُ يَسِيْرٍ۝۱۰
ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا۝۱۱ۙ

اور(مخالفین اسلام کی طرف سے جوبھی اذیتیں پہنچتی رہیں ان پر) اپنے پروردگار کی خاطرصبر کیجئے۔
پھر جب صور میں پھونک مار دی جائے (اور تمام مردے محاسبۂ اعمال کےلئے قبروں سے اٹھائے جائیں گے)
تو وہ دن بڑا ہی سخت ہوگا۔
کافروں پر آسان نہ ہو گا۔
چھوڑدو مجھے اور اس شخص کو، جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے(میں اس نمٹ لوں گا)

توضیح :یہ شخص ولید بن مغیرہ تھا جو مال ودولت اورعلم ودانش کے اعتبار سے یکتائے زمانہ تھا جب رسول اللہﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا اور قرآن مجید کی آیتیں جیسی جیسی نازل ہوتی گئیں انھیں سنانا شروع کیا توو لید سن کر پھڑک اٹھا، اور بے ساختہ تعریف کرنے لگا، ابوجہل کویہ بات نہایت ہی ناگوار گزری مخالفین اسلام نے ایک طوفان بے تمیزی برپا کیا۔ چند ہی مہینے گزرے تھے کہ حج کا زمانہ آگیا۔ اب انھیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ اس موقع پر قرآن جیسا بے نظیر اور موثر کلام سن کرسارے لوگ اس سے متاثر ہوجائیں گے اور آپ کی یہ دعوت دور دور تک پہنچ جائے گی۔ لہٰذا سرداران قریش نے طے کیا کہ آپ کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلائی جائیں۔
ولید بن مغیرہ نے کہا۔ مختلف باتوں کے کہنے سے خود ہمارا اپنا اعتبار بھی جاتا رہے گا کوئی ایک بات بالاتفاق طے کرلی جائے۔ بعض نے کہا۔ آپ کو کاہن کہیں گے ولید نے کہا خدا کی قسم وہ کاہن نہیں ہیں۔ ہم نے کاہنوں کودیکھا ہے جیسی باتیں وہ بناتے ہیں۔ قرآن کواس سے دور کی بھی نسبت نہیں۔ بعض نے کہا آپ کومجنون کہا جائے۔ ولید نے کہا، وہ مجنون بھی نہیں ہیں۔ ہم نے دیوانے اورپاگل بھی دیکھے ہیں۔ اس حالت میں انسان بہکی بہکی باتیں کرتا ہے لیکن محمدﷺ جو کلام پیش کرتے ہیں، خدا کی قسم اس میں بڑی حلاوت ہے۔ وہ مجنون ودیوانے کی باتیں نہیں ہوسکتیں نہ ہی وہ شاعر ہیں اور نہ ساحر، ان میں سے کوئی بات بھی محمدﷺ پرچسپاں نہیں ہوتی، اس پر ابوجہل نے ولید کوتنگ کیا، کہا کہ تمہاری قوم تم سے راضی نہ ہوگی جب تک کہ تم محمدﷺ کے بارے میں کوئی بات نہ کہو۔ اس نے کہا اچھا مجھے سوچ لینے دوپھر سوچ کربولا، قریب ترین بات جوکہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ تم لوگوں سے کہو کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ یہ ایسا کلام پیش کرتا ہے جو آدمی کواس کے باپ، بھائی، بیوی، بچوں اور سارے خاندان سے جدا کردیتا ہے۔ ولید کی اس بات کوسب نے قبول کیا، اور منصوبہ کے مطابق حج کے زمانے میں ان کے وفود ،دور دور تک پھیل گئے۔ بعد کی آیتوں میں منکرین حق کوخبردار کیا جارہا ہے کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں اس کا انجام بھی وہ دیکھ لیں گے۔(سیرۃ ابن ہشام جلد اول صفحہ ۲۸۸، ۲۸۹ ملخص از تفہیم القرآن)

وَّجَعَلْتُ لَہٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا۝۱۲ۙ

وَّبَنِيْنَ شُہُوْدًا۝۱۳ۙ

(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) اور میں نے اس کو کثرت سے مال دیا (ایسا مال جو اس سے منقطع نہ ہو)
اورہروقت پاس رہنے والے بیٹے دیئے۔

توضیح : اس درجہ دولت دی کہ روزی کمانے کے لئے کہیں باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی بیٹے ہر وقت باپ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔

وَّمَہَّدْتُّ لَہٗ تَمْہِيْدًا۝۱۴ۙ
ثُمَّ يَطْمَعُ اَنْ اَزِيْدَ۝۱۵ۤۙ
كَلَّا۝۰ۭ
اِنَّہٗ كَانَ لِاٰيٰتِنَا عَنِيْدًا۝۱۶ۭ

اورسب طرح کا سامان اس کے لئے مہیا کردیا(جاہ مرتبہ قیادت وغیرہ)
پھر بھی وہ اس بات کی ہوس رکھتا ہے کہ میں اس کو اور زیادہ دوں۔
ہرگز نہیں
وہ ہماری آیتوں (اور دین حق) کا سخت مخالف ہے۔

سَاُرْہِقُہٗ صَعُوْدًا۝۱۷ۭ

میں اس کو عنقریب (دوزخ کے پہاڑ کی)ایک کٹھن گھاٹی پر چڑھواؤں گا(جو اس کی برداشت سے باہر اورسخت ترین عذاب کا موجب ہوگا۔)

اِنَّہٗ فَكَّرَ وَقَدَّرَ۝۱۸ۙ
فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ۝۱۹ۙ
ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ۝۲۰ۙ
ثُمَّ نَظَرَ۝۲۱ۙ
ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ۝۲۲ۙ

(اس کوکافروں کی طرف سے مجلس نبوی میں لایا گیا تو)
اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی۔
اللہ کی مار ہو اس پرکیسی بات بنانے کی کوشش کی۔
ہاں اللہ کی مارہو اس پرکیسی بات بنانے کی کوشش کی ۔
پھر(اس نے حاضرین جلسہ پر) ایک نظرڈالی (کچھ تامل کیا)
پھر منہ بنایا اور انتہائی ناگواری کا اظہار کیا۔

گویا کہ اس کو قرآن اوراس کی تعلیمات سے بہت زیادہ کراہت ہے۔

ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ۝۲۳ۙ
فَقَالَ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ يُّؤْثَرُ۝۲۴ۙ
اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۝۲۵ۭ
سَاُصْلِيْہِ سَقَرَ۝۲۶
وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُ۝۲۷ۭ
لَا تُبْقِيْ وَلَا تَذَرُ۝۲۸ۚ

پھر پلٹا اور تکبر کا اظہار کیا(گویا وہ بہت بڑا جاننے والا ہے)
پھر اس نے کہا کچھ نہیں یہ توجادو ہے جو پہلے سے چلاآرہا ہے۔
یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔
(حق تعالیٰ فرماتے ہیں) میں عنقریب اس کوسقر میں داخل کروںگا۔
آپ جانتے ہیں کہ وہ سقر کیا ہے؟
(وہ) نہ کچھ باقی رکھے گی اور نہ کچھ چھوڑے گی۔

توضیح : وہ آگ جلا کر خاکستر کردے گی پھر بھی اس کا پیچھانہ چھوڑے گی اس پر نئی نئی تازہ کھال پیدا ہوتی رہے گی اور آگ اسے جلاتی رہے گی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہی عمل جاری رہے گا۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا۔
كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ۝۰ۭ
(سورہ نساء آیت ۵۶)

لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ۝۲۹ۚۖ

جلاکر بدن کوخاکستر کردے گی(ہیئت بگاڑدے گی)

عَلَيْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ۝۳۰ۭ
وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰۗىِٕكَۃً۝۰۠

اس پرانیس پہرہ دار ہیں۔
اور ہم نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں۔

توضیح : ان کی قوت وطاقت کوانسانی طاقت پرقیاس کرنا انتہائی نادانی ہے وہ نہایت زبردست طاقت کے مالک تعمیل حکم میں منفرد ہیں۔

وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝۰ۙ
لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ
وَيَزْدَادَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِيْمَانًا
وَّلَا يَرْتَابَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ
وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۙ

اور ہم نے ان کی تعداد کوکافروں کے لئے فتنہ بنادیا۔

تا کہ اہل کتاب(سننے کے ساتھ ہی) یقین کرلیں
اورایمان لانے والو ںکا ایمان اورزیادہ بڑھے
اوراہل کتاب اورمومنین کسی شبہ میں نہ رہیں۔

وَلِيَقُوْلَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ

اور جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے،

مَّرَضٌ وَّالْكٰفِرُوْنَ
مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا۝۰ۭ
كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللہُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

وہ اورکافر یہ کہنے لگیں کہ۔
بھلا اس عجیب بات کے بیان کرنے سے اللہ کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟
(سن لو) اس طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں، گمراہی میں پڑا رہنے دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔

توضیح : سنت الٰہی یہی ہے کہ طالب ہدایت کوہدایت دی جاتی ہے اور جوضلالت وگمراہی کواختیار کرتا ہے اس کواسی حالت میں چھوڑدیا جاتا ہے۔

وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ

وَمَا ھِيَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْبَشَرِ۝۳۱ۧ

اور(ائے نبیﷺ) آپ کے پروردگار کے لشکروں کی تعداد خود اس کے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔
اور اس (دوزخ) ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اس سے انسان کونصیحت ہو۔

كَلَّا وَالْقَمَرِ۝۳۲ۙ
وَالَّيْلِ اِذْ اَدْبَرَ۝۳۳ۙ
وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ۝۳۴ۙ

ہرگز ایسا نہیں ہے(جیسا کہ کافرسمجھتے ہیں) اورقسم ہے چاند کی
اوررات کی جب وہ جانے لگے۔
اورقسم ہے صبح کی جب وہ روشن ہوجائے۔

اِنَّہَا لَاِحْدَى الْكُبَرِ۝۳۵ۙ
نَذِيْرًا لِّلْبَشَرِ۝۳۶ۙ
لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّتَقَدَّمَ
اَوْ يَتَاَخَّرَ۝۳۷ۭ

یقیناً وہ دوزخ بڑی ہیبت ناک چیزوں میں سے ایک ہے۔
انسانوں کے لئے بڑی ہی خوفناک ہے۔
ہراس شخص کے لئے جو تم سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہ جانا چاہے۔

توضیح : دوزخ سے لوگوں کواچھی طرح ڈرایا جاچکا ہے، اب جس کا جی چاہے اس سے ڈرکربھلائی کے راستے پر آگے بڑھے اور جس کا جی چاہے پیچھے ہٹ جائے۔

كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ رَہِيْنَۃٌ۝۳۸ۙ
اِلَّآ اَصْحٰبَ الْيَمِيْنِ۝۳۹ۭۛ
فِيْ جَنّٰتٍ۝۰ۣۭۛ
يَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۴۰ۙ عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ۝۴۱ۙ

ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں رہن ہے۔
سوائے داہنی بازو والوں کے جو ۔
بہشت کے باغوں میں ہوں گے۔
وہ وہاں (جہنم میں رہنے والے) مجرمین سے پوچھیں گے۔

توضیح :اہل جنت اور اہل دوزخ ایک دوسرے سے بے انتہا دوری کے باوجود جب چاہیں گے ایک دوسرے کودیکھ سکیں گے۔ گفتگو بھی کرسکیں گے کوئی چیز حائل نہ ہوگی۔

مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ۝۴۲
قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۝۴۳ۙ
وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۝۴۴ۙ
وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ۝۴۵ۙ

تمہیں کیا چیز جہنم میں لے گئی۔
وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے۔
اور نہ ہم مسکینوں کوکھانا کھلاتے تھے۔
اورہم اہل باطل کے ساتھ مل کر حق سے انکار کرتے تھے۔

(یعنی دین کے خلاف کج بحثی کرنے والوں میں ہم بھی شریک رہا کرتے تھے)

وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ۝۴۶ۙ
حَتّٰٓي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ۝۴۷ۭ
فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشّٰفِعِيْنَ۝۴۸ۭ
فَمَا لَہُمْ عَنِ التَّذْكِرَۃِ مُعْرِضِيْنَ۝۴۹ۙ
كَاَنَّہُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَۃٌ۝۵۰ۙ

اور ہم روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔
یہاں تک کہ ہمیں (اسی حالت میں) موت آگئی۔
تب شفاعت کرنے والوں کی سفارش بھی ان کوکچھ فائدہ نہ دے گی۔
انھیں کیا ہوگیا کہ یہ نصیحت سے روگردانی کرتے ہیں۔
گویا کہ یہ وحشی گدھے ہیں۔

فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَۃٍ۝۵۱ۭ

جوشیر سے (خطرہ بھانپتے ہی بدحواس ہوکر تیز) بھاگتے ہیں۔

بَلْ يُرِيْدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ اَنْ يُّؤْتٰى
صُحُفًا مُّنَشَّرَۃً۝۵۲ۙ

بلکہ ان میں سے ہرایک چاہتا ہے کہ اس کاموسومہ کھلاہوا آسمانی صحیفہ دیا جائے۔

جس میں لکھا ہو کہ محمدﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں لہٰذا ان کی پیروی کی جائے۔

كَلَّا۝۰ۭ
بَلْ لَّا يَخَافُوْنَ الْاٰخِرَۃَ۝۵۳ۭ

ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سرے سے آخرت ہی کا خوف نہیں رکھتے۔

توضیح : ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے مطالبے پورے نہیں کئے جارہے ہیں بلکہ یہ آخرت ہی سے بے خبر وبے خوف ہیں۔

كَلَّآ اِنَّہٗ تَذْكِرَۃٌ۝۵۴ۚ

فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَہٗ۝۵۵ۭ
وَمَا يَذْكُرُوْنَ

كَلَّآ اِنَّہٗ تَذْكِرَۃٌ۝۵۴ۚ

فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَہٗ۝۵۵ۭ
وَمَا يَذْكُرُوْنَ

اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ۝۰ۭ

مگر یہ کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ایسا ہی چاہیں۔

توضیح: کسی شخص کا نصیحت حاصل کرنا اس کی اپنی حیثیت پرمنحصر نہیں ہے بلکہ اسے نصیحت اسی وقت نصیب ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت بھی اس کے موافق ہو۔ اس کے برخلاف اگر انسان کو دنیا میں یہ قدرت حاصل ہوتی کہ جو کچھ کرنا چاہے کر گزرے توپھر ساری دنیا کا نظام ہی درہم برہم ہوکر رہ جاتا۔ جوقدرتی نظام اس جہان میں قائم ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ اللہ کی مشیت دوسروں کی مشیت پرغالب ہے۔

ہُوَاَہْلُ التَّقْوٰى وَاَہْلُ الْمَغْفِرَۃِ۝۵۶ۧ

وہ اس کا حق دار ہے کہ اسی سے ڈراجائے اوروہی بخشش کا مالک ہے(نجات ومغفرت اسی کے اختیار میں ہے)

مغفرت انھیں کی ہوتی ہے جو اپنے گناہوں سے توبہ کرتے اور کتاب وسنت کی اتباع کرتے ہیں اور جن کا عقیدہ وعمل کتاب وسنت کے مطابق ہوتا ہے اور مرتے دم تک اس پر قائم بھی رہتے ہیں۔