☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

وَیْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِیْنَ۝۱ۙ
الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ۝۲ۙ
وَاِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ۝۳ۭ

(ناپ تول میں) کمی کرنے والوں کے لئے بڑی خرابی ہے
جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے ناپ کرلیتے ہیں توپورا پورا لیتے ہیں۔
اور جب ان کو ناپ کردیتے ہیں توکمی کرتے ہیں۔

توضیح :یعنی لینے اوردینے علیحدہ علیحدہ بڑے اور چھوٹے اوزان وپیمانے رکھتے ہیں ناپ تول میں چوری کرتے اور فریب دیتے ہیں۔

اَلَا یَظُنُّ اُولٰۗىِٕکَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ۝۴ۙ
لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ۝۵ۙ
یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۶ۭ

کیا وہ نہیں سمجھتے کہ(محاسبۂ اعمال کے لئے) ایک دن انھیں اٹھالایا جائے گا۔
اس دن جوبڑا ہی سخت ہوگا۔
تمام لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے

کَلَّآ

ہرگز نہیں

توضیح :ان کا یہ گما غلط ہے کہ دنیا میں جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد یہ یونہی چھوڑدیئے جائیں گے اور جواب دہی کے لئے کبھی انھیں اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہونا نہیں ہے۔

اِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍ۝۷ۭ
وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا سِجِّیْنٌ۝۸ۭ

بے شک بدکاروں کے اعمال نامے سجین میں ہوں گے۔
اور (ائے نبیﷺ) کیا آپ جانتے ہیں وہ سجین کیا ہے۔

کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ۝۹ۭ
وَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۝۱۰ۙ
الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۝۱۱ۭ

وہ (گمراہ انسانوں کے فکر وعمل کا با ضابطہ) لکھا ہوا دفتر ہے۔
تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لئے۔
یہ وہ لوگ ہیں جوروز جزا کو جھٹلاتے ہیں۔

وَمَا یُکَذِّبُ بِہٖٓ اِلَّا کُلُّ مُعْتَدٍ
اَثِیْمٍ۝۱۲ۙ

اوراس کو وہی جھٹلاتا ہے جو حد سے نکل جانے والا گنہگار ہے۔

اِذَا تُتْلٰى عَلَیْہِ اٰیٰـتُنَا
قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۱۳ۭ

کَلَّا بَلْ۝۰
رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ۝۱۴

جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں(جس میں روز جزا کی خبر دی گئی ہے)
توکہتا ہے کہ یہ تواگلوں کی کہانیاں ہیں(قصے اور گھڑے ہوئے افسانے ہیں)
ہرگز ایسا نہیں ہے(بلکہ اصل وجہ ان کی تکذیب کی یہ ہے کہ)
ان کے دلوں پران کی بداعمالیوں کا زنگ چڑھ گیا ہے
(یعنی ان میں قبولیت حق کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے)

توضیح : رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی گناہ کرتا ہے توایک سیاہ نقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے اگر وہ توبہ کرے تووہ نقطہ صاف ہوجاتا ہے اس کے برخلاف وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے توپورے دل پرنقطوں کی سیاہی چھا جاتی ہے۔ پھر وہ گناہ کوگناہ نہیں سمجھتا۔ (مسند احمد، ترمذی، نسائی)

کَلَّآ

اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ۝

ہرگز نہیں(جیسا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن انھیں دیدارا الٰہی نصیب ہوگا)
یقیناً اس روز یہ اپنے پروردگار کی دید سے محروم رکھے جائیں گے۔

توضیح : دیدار الٰہی ایک اعلیٰ ترین نعمت ہوگی جس کے مقابلے میں جنت کی تمام نعمتیں ماند پڑجائیں گی۔ اللہ کا ایسا دیدار صرف نیک لوگوں کوہوگا۔

ثُمَّ اِنَّہُمْ لَصَالُوا الْجَــحِیْمِ۝۱۶ۭ
ثُمَّ یُقَالُ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ۝۱۷ۭ

پھر وہ دوزخ میں داخل ہوں گے۔
پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

کَلَّآ
اِنَّ کِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ۝۱۸ۭ
وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا عِلِّیُّوْنَ۝۱۹ۭ

ہرگز ایسا نہیں(جیسا کہ وہ سمجھتے ہیں)
یقیناً نیکوں کاروں کے اعمال نامے علین میں ہوں گے۔
(ائے نبیﷺ) کیا آپ جانتے ہیں وہ علیین کیا ہے؟

کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ۝۲۰ۙ
یَّشْہَدُہُ الْمُقَرَّبُوْنَ۝۲۱ۭ

وہ انسان کی دینی فکر وعمل کا بلند پایہ ایک لکھا ہوادفتر ہے۔
جس کی نگہداشت مقرب فرشتے کرتے ہیں۔

اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ۝۲۲ۙ
عَلَی الْاَرَاۗىِٕکِ یَنْظُرُوْنَ۝۲۳ۙ

تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِہِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِ۝۲۴ۚ

بے شک نیک لوگ بڑی آسائش میں ہوں گے۔
(جنہوں نے الٰہی ونبوی تعلیم کے مطابق سفر حیات کی منزلیں طے کی ہوں گی)
اونچی مسندوں پربیٹھے( جنت کے) نظارے کر رہے ہوں گے
(ائے نبیﷺ) آپ انکے چہروں پرتازگی اور رونق محسوس کریں گے۔

یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ۝۲۵ۙ
خِتٰمُہٗ مِسْکٌ۝۰ۭ
وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ۝۲۶ۭ

انھیں نفیس ترین سربہ مہرشراب پلائی جائے گی۔
جس پر مشک کی مہرلگی ہوگی۔
اورایسی ہی سروروشادمانی کی زندگی کے حصول کے خواہشمندوں کو سبقت کرنی چاہئے۔

وَمِزَاجُہٗ مِنْ تَسْنِیْمٍ۝۲۷ۙ

اور اس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہوگی۔
(جو نہایت ہی لطیف اور خوش ذائقہ ہوگی)

عَیْنًا یَّشْرَبُ بِہَا الْمُقَرَّبُوْنَ۝۲۸ۭ

وہ ایک چشمہ ہوگا جس سے اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے شراب پئیں گے(یعنی وہ شراب جن اجزأ سے مرکب ہوگی، اس کا ایک اہم جزو تسنیم ہوگی)

اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْا مِنَ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَکُوْنَ۝۲۹ۡۖ
وَاِذَا مَرُّوْا بِہِمْ یَتَغَامَزُوْنَ۝۳۰ۡۖ

یقیناً جو لوگ دنیا میں مجرمانہ زندگی گزارتے رہے تھے،
اہل ایمان کا مذاق اڑاتے تھے۔
اور جب وہ ان کے پاس سے گزرتے توآنکھیں مار کر ان کی طرف اشارہ کرتے تھے۔

وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَہْلِہِمُ انْقَلَبُوْا فَکِہِیْنَ۝۳۱ۡۖ
وَاِذَا رَاَوْہُمْ قَالُوْٓا اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ لَضَاۗلُّوْنَ۝۳۲ۙ

اور جب اپنے گھروں کولوٹتے تومزے لیتے ہوئے پلٹتے کہ انہوں نے
اہل ایمان کی خوب بھپتی اڑائی ہے لوگوں میں انھیں ذلیل کیا ہے۔
اور جب وہ انھیں دیکھتے توکہتے کہ یہ لوگ بہکے ہوئے ہیں۔

توضیح : اہل ایمان کوگمراہ کہنا اور ان کی ہنسی اڑانا آج بھی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اعلانِ حق کے ہر دور میں اہل باطل نے اہل حق کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا۔

وَمَآ اُرْسِلُوْا عَلَیْہِمْ حٰفِظِیْنَ۝۳۳ۭ
فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْکُفَّارِ یَضْحَکُوْنَ۝۳۴ۙ
عَلَی الْاَرَاۗىِٕکِ۝۰ۙ یَنْظُرُوْنَ۝۳۵ۭ
ہَلْ ثُوِّبَ الْکُفَّارُ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ۝۳۶ۧ

حالانکہ وہ ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے ہیں۔
پس آج( قیامت کے دن) ایمان والے کافروں پر ہنس رہے ہوں گے۔
مسندوں پربیٹھے ہوئے ان کی خستہ خالی اور درگت دیکھ رہے ہوں گے۔
کہ ان کافروں کوان کے اپنے کئے کا پورا پورا بدلہ مل گیا۔