یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ
وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَاۗءً۰ۚ
وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِیْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ۰ۭ
اِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا۱
ائے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تم کوایک شخص واحد آدم علیہ السلام سے پیدا کیا۔
اور(ابتداء) اسی سے اس کا جوڑا بنایا اورپھردونوں کے باہمی اختلاط سے بہت سے مرد وعورت پیدا کیے۔
اللہ تعالیٰ سے ڈرو اللہ تعالیٰ کے احکام کا پاس ولحاظ رکھو جس کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہو(رشتے اورقرابت داری کے تعلقات بگاڑنے سے احتراز کرو۔ آپس میں بدسلوکی نہ کرو)
یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر (تمہارے اعمال پر) نظررکھے ہوئے ہیں (نگران ہیں)
توضیح : معاشرے کا ایک بگاڑ یتیموں کی حق تلفی بھی تھی۔ اسکی اصلاح کے لیے ابتداًءیتیموں کے حقوق اوراحکام ارشاد ہیں۔
وَاٰتُوا الْیَــتٰمٰٓى اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ۰۠
وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓى اَمْوَالِکُمْ۰ۭ
اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا۲
اوریتیموں کا مال (جوتمہاری تحویل میں ہوبچے بالغ ہوجائیں تو) ان کے حوالے کردو۔ اوران کے پاکیزہ اورعمدہ مال کواپنے ناقص وناکارہ مال سے نہ بدلو۔
اورنہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کرکھاجاؤ۔
کیونکہ یہ بڑا بھاری گناہ ہے۔
نوٹ:۔ ایک ہی آیت میں تین اصلاحی ہدایتیں دی گئی ہیں۔
۱) یتیموں کے بالغ ہونے کے بعد ان کا مال انھیں واپس کردیا جانا چاہئے۔
۲) اپنا خراب مال ان کے اچھے مال سے نہ بدلنا۔
۳) مستطیع حضرات ان کے مال کی نگرانی اوران کی جائیداد کی حفاظت کا کوئی معاوضہ نہ لیں۔
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی
اوراگر تمہیں اندیشہ لاحق ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ
الْیَتٰمٰى
فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ
مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۰ۚ
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً
کرسکوگے۔
تو تم اپنے پسند کی دوسری عورتوں سے نکاح کرو۔
دو، دو تین تین یا چار چار(وقت واحد میں چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں ہے)
پھراگرتم کواندیشہ ہو کہ ان کے حقوق کی ادائیگی میں انصاف نہ کرسکوگے توایک ہی ہو۔
نوٹ : تعداد ازدواج کی اجازت عدل کی شرط سے مشروط ہے۔
اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۰ۭ
ذٰلِکَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا۳ۭ
یالونڈی جس کے تم مالک ہو۔
یہ طریقہ قرین انصاف ہے کہ تم زیادتی اورناانصافی سے بچ جاؤگے۔
وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃٍ۰ۭ
فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیْۗـــــًٔـا مَّرِیْۗــــــًٔـا۴
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللہُ لَکُمْ قِیٰـمًا
وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۵
اورعورتوں کوان کے مہرخوشدلی کے ساتھ ادا کرو۔
ہاں وہ اگر تم کو اپنی خوشی سے (کسی دباؤ کے بغیر) مہرکا کچھ حصہ دے دیں توشوق سے کھاؤ۔
اوراپنا وہ مال جسے اللہ تعالیٰ تمہاری بقائے حیات (وبقائے دین) کے لیے سبب ِمعیشت بنایا ہے۔ اس کو(نادانوں) بے وقوفوں کے حوالے مت کرو۔ (کیوں کہ وہ اس کوبے جاوبے محل خرچ کرکے برباد کردیں گے) اورانھیں اس میں سے کھلاتے اورپہناتے رہو۔ اوران سے تسکین خاطر کی باتیں کرتے رہو۔
توضیح : اس طرح کہ یہ مال تمہارے لیے ہی ہے۔ ابھی تم میں اتنی سمجھ پیدانھیں ہوئی ہے کہ تم اپنا مال سوچ سمجھ کرخرچ کرسکو اس لیے فی الحال اس کا تمہارے ہاتھ دینا مناسب نہیں۔ باشعور ہوجاؤگے توتمہیں ہی دے دیا جائے گا۔
وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰى حَتّٰٓی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ۰ۚ
اوریتیموں کوبالغ ہونے تک (انھیں کے مال سے انھیں) کاروبار میں مصروف رکھ کر آزماؤ (کہ وہ کس حد تک اپنے قدموں پرکھڑے رہ سکتے ہیں۔)
فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ۰ۚ
وَلَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا۰ۭ
وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ۰ۚ
وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْف۰ۭ
فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْہِدُوْا عَلَیْھِمْ۰ۭ
وَکَفٰى بِاللہِ حَسِـیْبًا۶
اورجب دیکھو کہ ان میںاپنے نفع وضرر کوسمجھنے کی کافی صلاحیت پیدا ہوچکی ہے۔(اوروہ نیکی کی راہ پرگامزن ہوچکے ہیں) توان کا مال ان کے حوالے کردو۔
اوران کا مال بیجاطورپرنہ کھاؤ اورنہ اس لیے خرچ کرڈالو کہ وہ بڑے ہوکر اپنے مال کا مطالبہ کریں گے۔
اورتم میں جوصاحبِ استطاعت ہوں توچاہئے کہ یتیموں کے مال کی حفاظت ونگہداشت کا کوئی معاوضہ نہ لے۔
اور جوغیرمستطیع ہو(بقدر ضرورت) جائز اورمناسب مقدار میں کھاسکتا ہے۔
پھرجب تم یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنا چاہوتوان پر گواہ کرلو(تاکہ بعد میں کوئی اعتراض نہ کرسکے)
اور(پائی پائی کا) حساب لینے کے لیے اللہ تعالیٰ کافی ہے۔
توضیح :معاشرے کی دوسری خرابی وراثت کی غلط تقسیم تھی جوآج بھی معاشرے میں پائی جاتی ہے۔اس خرابی کی اصلاح کے احکام دیئے جارہے ہیں۔
وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰى وَالْمَسٰکِیْنُ
فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْہُ
اورمیراث کی تقسیم کے موقع پرکنبہ وبرادری کے غریب غیروارث اوردیگر محتاج ومساکین آجائیں توانھیں بھی اس میں سے کچھ نہ کچھ دیا کرو۔
وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۸
اوران سے اچھے انداز میں بات چیت کرو(یعنی ایسی باتیں نہ کہو۔ جن سے ان کی دل شکنی ہو۔)
وَلْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْھِمْ۰۠
فَلْیَتَّقُوا اللہَ وَلْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا۹
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا۰ۭ وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۱۰ۧ
اورلوگوں کواس خیال سے ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے توانھیں اپنے مرتے وقت بچوں کے تعلق سے کیسے کیسے اندیشے لاحق ہوتے۔
پس چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور(ان ناداروں یتیموں سے) تسکین ودلاسے کی باتیں کریں ( ان کے آجانے پربرہمی کا اظہار نہ کریں)
جولوگ یتیموں کا مال ناجائز طورپرکھاتے ہیں یقیناً وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرلیتے ہیں اوروہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔
توضیح : ترکہ میں سے بہ عنوان زیارت،چہلم، برسی وغیرہ عمدہ عمدہ کھانے پکانا اورکھلانا گویا یتیموں کا مال بیجا طور پر صرف کرنا ہے۔ ایسے غلط اعمال سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے۔ اورتاکید کی گئی ہے کہ نابالغ حصہ داربچوں کی میراث کا مال فضولیات میں خرچ نہ کیا جائے بلکہ ان کے بلوغ تک حفاظت سے رکھا جائے۔
یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ۰ۤ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۰ۚ
فَاِنْ کُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ
فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ۰ۚ
وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ۰ۭ وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ۰ۚ
تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتے ہیں۔ ایک لڑکے کاحصہ دولڑکیوں کے حصے کے برابرہے۔
اگرمیت کی وارث دوسے زیادہ لڑکیاں ہوں۔
انھیں ترکہ کا دوتہائی حصہ ملے گا (یعنی ترکہ کے تین حصے کیے جائیں گے۔ اس میں دوحصے تمام لڑکیوں میں مساوی تقسیم ہوں گے۔)
اوراگر ایک لڑکی ہوتونصف ترکہ پائے گی۔
اورماں باپ کے لیے یعنی دونوں میں سے ہرایک کے لیے میت کے ترکہ میں سے چھٹاچھٹا حصہ ہے۔ اگر میت کی اولاد ہو۔
فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ۰ۚ
فَاِنْ کَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ
یُوْصِیْ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ۰ۭ
پھراگرمیت کی اولاد نہ ہو۔ اوراس کے ماں باپ اس کے وارث ہوں۔ تواس کی ماں کا حصہ ایک تہائی ہے ۔
پھراگرمیت کے بھائی بہن بھی ہوں تواس کی ماں کوچھٹا حصہ ملے گا (ترکہ کی یہ تقسیم) میت کی وصیت کی تکمیل اورقرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔
توضیح :مرنے والے نے مرنے سے قبل ایسی کوئی وصیت کردی تھی کہ میرے مال کا کچھ حصہ فلاں شخص کودیا جائے یا کسی نیک کام میں خرچ کیا جائے توتقسیم سے پہلے اس وصیت پرعمل کیا جائے گا۔ اوراگر مرنے والامقروض ہوتوتقسیم سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔ نیز بیوی کا مہرنہیں ادا کیا ہے تووہ دین (قرض) میں شمار ہوگا۔
قرض وصیت پرمقدم ہے۔ یعنی پہلے قرض ادا ہوگا اس کے بعد وصیت پرعمل ہوگا۔ اس کے بعد متروکہ حسب ہدایت تقسیم ہوگا۔ مگرہدایت الٰہی میں وصیت کا ذکر پہلے ہے۔ اورقرض کا بعد۔ وجہ یہ ہے کہ وصیت چھپائی جاسکتی ہے اوردین چھپایا نہیں جاسکتا۔ اس لیے شرارت نفس سے پوری طرح محفوظ رہنے کے لیے وصیت پرعمل کرنے کی ہدایت پہلے کی گئی ہے۔
نیز متروکہ میں سے تکفین وتدفین کے اخراجات پہلے نکالے جائیں گے۔ اس کے بعد وصیت اوردین کی ادائی اور تقسیم وراثت عمل میں آئے گی۔
اٰبَاۗؤُکُمْ وَاَبْنَاۗؤُکُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا۰ۭ
فَرِیْضَۃً مِّنَ اللہِ۰ۭ
اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِـیْمًا۱۱
تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ، دادا، بیٹوں اورپوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہیں۔ یہ حصے اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے ہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔
توضیح : وراثت کی یہ تقسیم نہایت ہی عالمانہ وحکیمانہ ہے اس کے خلاف جوتقسیم ہوگی وہ جاہلانہ واحمقانہ ہوگی آج جوقومیں مہذب اورترقی یافتہ کہلاتی ہیں، ان کے پاس تقسیم وراثت کاجوطریقہ ہے وہ غیر حکیمانہ اور جاہلانہ ہے۔
وَ لَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھُنَّ وَلَدٌ۰ۚ
فَاِنْ کَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ
مِمَّا تَرَکْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ۰ۭ
اورتمہارے لیے اس ترکہ میں سے نصف حصہ ہے جوتمہاری بیویاں چھوڑجائیں، اس صورت میں جب کہ انھیں اولاد نہ ہو۔
اوراگر وہ عورتیں صاحب اولاد ہوں توعورتوں کے ترکہ میں تمہارا چوتھائی حصہ ہے میت کی وصیت اوردَین کی ادائی کے بعد۔
توضیح : وراثت کی یہ تقسیم نہایت ہی عالمانہ وحکیمانہ ہے اس کے خلاف جوتقسیم ہوگی وہ جاہلانہ واحمقانہ ہوگی آج جوقومیں مہذب اورترقی یافتہ کہلاتی ہیں، ان کے پاس تقسیم وراثت کاجوطریقہ ہے وہ غیر حکیمانہ اور جاہلانہ ہے۔
وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ۰ۚ
فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ۰ۭ
وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً
اَوِ امْرَاَۃٌ
وَّلَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ۰ۚ
فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَھُمْ شُرَکَاۗءُ فِی الثُّلُثِ
مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰى بِھَآ اَوْ دَیْنٍ۰ۙ غَیْرَ مُضَاۗرٍّ۰ۚ وَصِیَّۃً مِّنَ اللہِ۰ۭ
وَاللہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ۱۲ۭ
اوراگرتم کواولاد نہ ہوتو تمہارے ترکہ میں تمہاری بیویاں چوتھائی حصہ پائیں گی۔
اوراگرتمہیں اولاد ہوتو تمہاری بیویوں کا آٹھواں حصہ ہوگا تمہاری وصیت کی تعمیل کے بعد جوتم نے کی ہویا قرض کی ادائی کے بعد(حصے تقسیم کیے جائیں گے)
اوراگر ایسے مردیا عورت کی میراث ہو۔ جوصاحب اولاد ہی نہ ہواورجس کے ماں باپ بھی نہ ہوں۔
اوراس کا ایک بھائی اوربہن ہوتو ان میں سے ہرایک کوچھٹا حصہ ہے۔
پھراگربھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں۔ توکل ترکہ کے ایک تہائی میں سب شریک ہوں گے۔
یہ حصے بعد ادائے وصیت وقرض بشرطیکہ مرنے والے نے ان میں کسی کا نقصان نہ کیا ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہدایت ہے۔
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے اورنہایت ہی حلم والے ہیں۔
توضیح : بندوں کی بعض قابل گرفت باتوں کوبہ کمال رحمت گوارہ فرمالیتے ہیں۔
تِلْکَ حُدُوْدُ اللہِ۰ۭ
وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا۰ۭ وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۱۳
(وراثت کے) یہ تمام احکام اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔
جوکوئی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اس کوجنت میں داخل کیا جائے گا۔ جس کی نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔
(خوش ذائقہ پانی اوربہترین میوؤں کے رس کی نہریں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔) اوریہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ
یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا۰۠
وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۱۴ۧ
وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَاۗىِٕکُمْ
فَاسْتَشْہِدُوْاعَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ۰ۚ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ
فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰى یَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ
اَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا۱۵
اورجواللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی نافرمانی کريگا اوراللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا( یعنی حسب ہدایت میراث تقسیم نہ کریگا۔)
اس کودوزخ کی آگ میں داخل کیا جائیگا جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔
اوراس کے لیے ذلت آمیز عذاب ہے۔
تمہاری عورتوں میں سے جوکوئی بدکاری کا ارتکاب کربیٹھیں۔
ان پراپنے لوگوں میں چار اشخاص کی گواہی لو۔
پھراگر چارمسلمان عورت کی بدکاری کی گواہی دیں توان عورتوں کواپنے گھروں میں بندرکھو۔ تا آنکہ انھیں موت آجائے۔
یا اللہ تعالیٰ ان کے متعلق کوئی اورسبیل پیدا کردے۔
وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْھُمَا۰ۚ
فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا۰ۭ
اِنَّ اللہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِـیْمًا۱۶
اورجودومرد تم میں سے بدکاری کریں توانھیں اذیت پہنچاؤ(اذیت کس شکل سے دی جائے گی اس کا تعین امیروقت کرے گا)
پھراگروہ توبہ کریں اورنیک کار ہوجائیں توان کا پیچھا چھوڑدولوگوں میں ان کی برائی بیان کرتے نہ پھرو۔
بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والے اورمہربان ہیں۔
اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ
بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی توبہ قبول فرماتے ہیں جونادانی سے کوئی براکام کربیٹھتے ہیں پھرفوراً ہی (اللہ تعالیٰ کے خوف سے) نادم اورتائب ہوجاتے ہیں۔
فَاُولٰۗىِٕکَ یَتُوْبُ اللہُ عَلَیْھِمْ۰ۭ
پس ایسے ہی لوگوں کے حال پراللہ تعالیٰ توجہ اورمہربانی فرماتے ہیں۔
وَکَانَ اللہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا۱۷
اوراللہ تعالیٰ (سب کچھ) جاننے والے حکمت والے ہیں۔ (بندوں کے تعلق سے جوبھی تجویز فرماتے ہیں وہ عالمانہ اورحکیمانہ ہوتی ہے)
وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ۰ۚ
حَتّٰٓی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْـــٰٔنَ
وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارٌ۰ۭ
اُولٰۗىِٕکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا۱۸
اوران لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جوہمیشہ برے کام کرتے رہتے ہیں۔
یہاں تک جب ان میں کسی کی موت آموجود ہوتی ہے تواس وقت کہنے لگتا ہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں۔
اورنہ ان لوگوں کی توبہ قبول کی جاتی ہے جوکفر کی حالت میں مرتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیارکررکھا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاۗءَ کَرْہًا۰ۭ
وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ
اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ۰ۚ
وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۚ
فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَکْرَہُوْا شَـیْــــًٔـا
وَّیَجْعَلَ اللہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا۱۹
ائے وہ لوگو جوایمان لائے ہوتمہارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو۔
جومال تم انھیں دے چکے ہو۔ اس کوواپس لینے کے لیے انھیں تنگ ومجبور نہ کرو۔
سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کریں۔
اورحتی الامکان ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو سہو۔
پس اگروہ تمہیں ناپسند ہوںتو (عجب نہیں کہ) تم کسی چیز کوناپسند کرو۔
اوراللہ تعالیٰ نے اس میں بہت سی بھلائیاں پیدا کردیں ۔
وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ۰ۙ
وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا
تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَـیْـــًٔـا۰ۭ
اَتَاْخُذُوْنَہٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا۲۰
اوراگرتم ایک عورت کوچھوڑکردوسری عورت کرنی چاہو ۔
اورپہلی عورت کوڈھیروں مال دے چکے ہو تواس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔
کیا تم اسے بہتان لگا کر صریح ظلم وزیادتی کے ساتھ دیا ہوا واپس لوگے؟
وَکَیْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَقَدْ اَفْضٰى بَعْضُکُمْ اِلٰى بَعْضٍ
اورتم دیا ہوا مال کیوں کرواپس لے سکتے ہو۔ جب کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے متمتع ہوچکے ہو۔
وَّاَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا۲۱
اوروہ تم سے ایک مضبوط عہد اقرار لے چکی ہیں۔ (کہ بلاوجہ ان سے کوئی بدگمانی نہ کروگے)
وَلَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَاۗؤُکُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ۰ۭ
اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّمَقْتًا۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِیْلًا۲۲ۧ
اوراپنے باپ کی منکوحہ عورتوں سے نکاح نہ کرو، مگردورِجاہلیت میں جو ہوچکا سوہوچکا (اگروہ نکاح میں ہوں توانھیں طلاق دے دینی چاہئے۔)
یہ نہایت ہی بے حیائی کا کام ہے اوراللہ تعالیٰ کوسخت ناپسند اوربڑی ہی بری روش ہے۔
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ وَبَنٰتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ
وَعَمّٰـتُکُمْ وَخٰلٰتُکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ
وَاُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ
وَاُمَّھٰتُ نِسَاۗىِٕکُمْ وَرَبَاۗىِٕبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ
مِّنْ نِّسَاۗىِٕکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ
فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ۰ۡ
وَحَلَاۗىِٕلُ اَبْنَاۗىِٕکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ۰ۙ
وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا
حرام کردی گئیں تم پرتمہاری مائیں اورتمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں۔
اورتمہاری پھوپیاں اورتمہاری خالائیں، بھائی کی بیٹیاں بہن کی بیٹیاں۔
اورتمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے اور تمہاری دودھ شریک بہنیں بھی۔
اورتمہاری بیویوں کی مائیں ساس (خوشدامن) اورتمہاری بیویوں کی وہ لڑکیاں جودوسرے شوہرکی اولاد ہیں اوراب جوتمہارے زیرپرورش ہیں۔
تمہاری ان عورتوں کی لڑکیاں جن سے تم مباشرت کرچکے ہو۔
ہاں اگر یہ تعلق قائم نہیں ہوا ہے توپھر ان لڑکیوں سے نکاح کرنے میں تم پرکوئی گناہ نہیں ہے۔
اورتمہارے ان بیٹوں کی بیویاں بھی جوحقیقتاً تمہاری اولاد ہیں۔ یعنی ’’بہو‘‘ ان سب سے نکاح حرام ہے۔
اوربیوی کی موجودگی میں اس کی بہن (سالی) سے نکاح کرنا حرام ہے مگر
مَا قَدْ سَلَفَ۰ۭ
اِنَّ اللہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِـیْمًا۲۳ۙ
دورجہالت میں جوہوچکا سوہوچکا۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے، بڑے رحم کرنے والے ہیں۔
وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ
اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۰ۚ
اورتم پرشوہروالی بی بیاں حرام ہیں۔ البتہ باندیاں جواسیر ہوکر تمہارے قبضہ میں آئی ہوں جائز ہیں۔
کِتٰبَ اللہِ عَلَیْکُمْ۰ۚ
وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِکُمْ
اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ۰ۭ
فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً۰ۭ
وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِہٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ۰ۭ
اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا۲۴
اللہ تعالیٰ نے ان احکام کی پابندی تم پرفرض کردی ہے۔
اوراس کے سوا دوسری تمام عورتیں تمہارے لیے حلال کردی ہیں (یعنی قابل نکاح ہوسکتی ہیں)
جب کہ تم نے اپنا مال ( زرِمہر) خرچ کرکے انھیں حاصل کیا ہو ۔ بشرطیکہ ان سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو (بدکاری اور چند دن کے لیے) شہوت رانی مقصودنہ ہو( اور نہ پوشیدہ ناجائز تعلقات رکھو۔ (
پھرتم اپنی منکوحہ بیویوں سے جس مال(زرمہر) کے عوض متمتع ہوئے ہو۔ ان کا مقرر کردہ مہرانھیں ادا کردو۔
مقررکردہ مہرمیں آپس کی رضامندی سے کمی بیشی کرلوتوتم پرکچھ گناہ نہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے بڑے ہی دانشورہیں۔
توضیح : جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے مذکورہ پابندیاں بڑی ہی عالمانہ اوردانشمندرانہ ہیں۔ جولوگ مذکورہ پابندیوں کو توڑتے ہیں وہ ستاروں کی گزرگاہوں کا پتہ چلانے والے ہی کیوں نہ ہوں جاہل ہیں، نادان ہیں۔ اورجولوگ ان پابندیوں کواپنے لیے عزونازسمجھتے ہیں وہی اہل علم ہیں اوردانا ہیں۔ چاہے ان کولکھنا پڑھنا بھی نہ آتا ہو۔
وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ
فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ۰ۭ
وَاللہُ اَعْلَمُ بِـاِیْمَانِکُمْ۰ۭ
اوراگرتم میں سے کوئی شریف پارسا مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔
توان مومنہ باندیوں سے جوتمہارے قبضہ میں آگئی ہوں نکاح کرے۔
اوراللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کوجانتے ہیں (کہ کس قدر قوی یا ضعیف ہے جن کوتم کم مرتبہ سمجھ رہے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ وہی ایمان میں زیادہ ہوں گوکہ دنیاوی اعتبار سے مرتبہ میں کم ہوں)
بَعْضُکُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۰ۚ
فَانْکِحُوْھُنَّ بِـاِذْنِ اَھْلِہِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ
مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ۰ۚ
فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ
فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ۰ۭ
تم سب (بحیثیت مسلمان) ایک ہی گروہ کے لوگ ہو(جنسی تعلقات کی بے راہ روی سے بچنے کے لیے مراتب دنیا کی کمتری اوربرتری کو خاطرمیں نہ لانا چاہئے)
لہٰذا بے تکلف ان باندیوں کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرو۔ اوراحسن طریقہ سے ان کے مہرادا کرو۔
بشرطیکہ وہ پاک دامن ہوں بدکاری نہ کرتی ہوں اورنہ پوشیدہ طورسے آشنائی کرنے والی ہوں ( جس شخص کے نکاح میں ایک بی بی ہو تو اس کولونڈی سے نکاح حلال نہیں۔)
پھرجب وہ باندیاں اس طرح عقد نکاح میں آجائیں اوراس کے بعد کسی بدچلنی کے مرتکب ہوں
توجوسزا (آزاد) مسلمان بی بیوں کے لیے ہے اس کی آدھی ان کودی جائے۔
توضیح :متاہل یعنی شادی شدہ مردیا عورت زنا کرے توسنگسار کرنے کے احکام ہیں۔ اگر مجرد جس کا نکاح نہ ہوا ہوزنا کرے تو۸۰ کوڑے مارے جائیں۔ اورلونڈی غلام نکاح کے بعد زنا کریں توپچاس کوڑے ہیں۔
ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ۰ۭ
وَاَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ۰ۭ
وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۲۵ۧ
یُرِیْدُ اللہُ لِیُـبَیِّنَ لَکُمْ
وَیَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ
(ناگزیرصورتوں میں باندیوں سے نکاح کرنے کے )یہ احکام تم میں سے ان لوگوں کیلئےہیں جنہیں اندیشہ ہو کہ وہ کسی برائی میں مبتلا ہوجائیں گے۔
اور(اگر تم اپنے جذبات کوقابومیں رکھ سکتے ہوتو) صبرکرنا تمہارے لیے بہتر ہے یعنی باندیوں سے نکاح نہ کرنا بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے اوررحم کرنے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ تم پراپنی ہدایتیں واضح کردیں۔
اور تم سے پہلے کے لوگوں کے طریقے بتائیں (یعنی دیندار متقی لوگوں کی راہ دکھائیں۔)
وَیَتُوْبَ عَلَیْکُمْ۰ۭ وَاللہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۲۶
اور(تمہاری اصلاح کے لیے) تم پرمتوجہ رہیں۔ اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے اوربڑے ہی دانا ہیں۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام ہدایتیں علم ودانائی پرمبنی ہیں)
وَاللہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ۰ۣ
وَیُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا۲۷
اوراللہ تعالیٰ توتم پرہرآن متوجہ رہتے ہیں (تاکہ تمہارے فکروعمل کی اصلاح ہوتی رہے۔)
اورجولوگ بے روک ٹوک شہوت کی پیروی کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ تمہارے اندر بھی بہت سے ایسے ہی میلانات پیدا ہوجائیں (اورتم غلط راہ پر پڑجاؤ)
یُرِیْدُ اللہُ اَنْ یُخَفِّفَ عَنْکُمْ۰ۚ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا۲۸
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ
اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ۰ۣ
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا۲۹
اوراللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ تم پرکم سے کم پابندیاں عاید کی جائیں کیونکہ انسان طبعا ًکمزورپیدا کیا گیا ہے۔
ائے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔
سوائے اس کے کہ تجارت جوباہمی رضامندی سے ہو۔
اور( مالی پریشانیوں اوردنیا کی مصیبتوں سے تنگ آکر) خود کشی نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم پربڑے ہی مہربان ہیں۔
توضیح : اللہ تعالیٰ کے احکام تمہارے لیے سرتاپارحمت ہیں۔ شان رحیمیت کویہ بات بھی پسند نہیں کہ تم چند روزہ مصیبتوں سے گھبراکر اپنے آپ کوہلاک کردو۔
وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا۰ۭ
وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرًا۳۰
اورجوشخص اس طرح سرکشی ونافرمانی سے خود کشی کرلے گا تو ہم اس کوعنقریب آگ میں داخل کریں گے۔
اور یہ اللہ تعالیٰ کیلئے آسان ہے۔
توضیح : انسان کے لیے یہ کام بہت مشکل ہے کہ وہ اپنی نافرمان اولاد کواس کی نافرمانی کی پاداش میں آگ میں ڈال دے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا اپنے کسی سرکش بندے کوآگ میں ڈال دینا آسان ہے۔ سرکشی ونافرمانی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ سنگین جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا بندہ ہونے کی نسبت کا بھی کوئی لحاظ نہ فرمائیں گے۔ یہ بات جوکہی جاتی ہے کہ کسی پیرپیغمبر کا خادم، مرید وامتی ہونے کی نسبت ہی نجات کے لیے کافی ہے کتنی بڑی گمراہی ہے۔ انسان کے لیے مذکورہ تمام نسبتوں میں سب سے بڑی نسبت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کا بندہ ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی تعلیم وہدایت کے خلاف زندگی بسرکرنے کے بعد یہ نسبت بھی کام نہیں آتی۔
اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ
نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَـیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا۳۱
وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ۰ۭ
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَـسَبُوْا۰ۭ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَـسَبْنَ۰ۭ
وَسْـــَٔـلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہٖ۰ۭ اِنَّ اللہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِـــیْمًا۳۲
اگرتم ان بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہوگے جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو
ہم تم سے تمہاری چھوٹی چھوٹی برائیاں دورکریں گے۔ اورتم کوعزت کی جگہ دیں گے۔ (یعنی جنت میں داخل کریں گے)
اورتم میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے پرجوفضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کرو۔
مردوں کوان کے اپنے کام کا حصہ ملے گا اورعورتوں کوان کے کام کے برابر۔
اوراللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کی دعائیں مانگتے رہو بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز کوبخوبی جانتے ہیں ۔( کہ کون فضیلت کا اہل ہے)
توضیح :معاشرے میں عورت کوایک اچھا اورعزت کا مقام دینے اور مرد عورت پرایک دوسرے کے حقوق وواجبات مساوی طورپرعائد کرنے کے باوجود مرد کوعورت پرایک فضیلت بخشی (جس کا بیان آگے آئے گا) مذکورہ آیت میں عورتوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ مساوات مردوزن کا مطالبہ نہ کریں کیوں کہ ایسا مطالبہ غیرفطری ہے۔ بیرون خانہ کاروبار کی پوری ذمہ داری مرد پرعائد کی گئی ہے۔ اس لیے عورت کے مقابلے میں مرد کوعقل وفراست کی صلاحیتیں بھی زیادہ دی گئی ہیں۔ قوائے جسمانی بھی نسبتاً زیادہ رکھے گئے ہیں جس کی وجہ ہم مرد کوصنف قوی اورعورت کواس کی نزاکت کے لحاظ سے صنف نازک کہتے ہیں۔
نیز متاہلانہ زندگی میں گھر کا نظم ونسق میاں بیوی دونوں مل کرچلاتے ہیں۔ دونوں کی حیثیت اگریکساں حاکمانہ کردی جاتی توآپس میں ٹکراؤ ہوتا۔ اس لیے آمر کا ایک درجہ اورایک فضیلت مرد کوعطا کی گئی ہے اور عورت کی جان ومال وآبرو کی حفاظت کی ذمہ داری بھی مرد پرعائد کی گئی ہے۔ گویا عورتوں پرزندگی کا بارکم ڈالا گیا ہے اورمرد پرزیادہ یہ رعایت عورتوں کے لیے رحمت ہے۔ اگر وہ سمجھیں۔
وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ۰ۭ
وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِیْبَھُمْ۰ۭ
اِنَّ اللہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدًا۳۳ۧ
اورہم نے اس ترکہ کے وارث (حصہ دار) مقرر کردیئے ہیں جووالدین اوررشتہ دارچھوڑجائیں۔
اب رہے وہ لوگ جن سے تم نے کچھ دینے دلانے کا معاہدہ کیا ہے (اپنی زندگی میں) انھیں ان کا حصہ دے دو(کیونکہ تمہاری موت کے بعد ان لوگوں کوتمہاری میراث میں سے کچھ بھی مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہوتا۔)
یقیناً اللہ تعالیٰ ہرچیز کی اصل حقیقت سے واقف ہیں۔
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ
وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۰ۭ
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ۰ۭ
مرد عورتوں کے سربراہ ہیں اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کوبعض پرفضیلت بخشی ہے۔
اوریہ فضیلت اس وجہ سے بھی دی گئی ہے کہ وہ ان پر اپنے مال خرچ کرتے ہیں( ان کی محافظت وضروریات کومہیا کرنے کے ذمہ دار قراردیئے گئے ہیں)
لہٰذا صالحہ عورتیں اپنے شوہروں کی اطاعت گزارہوتی ہیں اورشوہروں کی عدم موجودگی میں (مرد کے مال وجائداد اورخود اپنی عزت وآبرو کی ) بتوفیق الٰہی حفاظت کرتی ہیں۔
توضیح : حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ۔ بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو توتمہارا جی خوش ہوجائے۔ جب اسے کسی بات کا حکم دو تووہ تمہاری اطاعت کرے۔ اورجب تم گھر میں نہ ہوں تو وہ تمہارے پیچھے مال کی اور اپنے نفس(عصمت) کی حفاظت کرے۔ عورت پراپنے شوہرکی اطاعت سے اہم اپنے خالق کی اطاعت ہے۔ لہٰذا اگرکوئی شوہراللہ تعالیٰ کی معصیت کا حکم دے۔ یا اللہ تعالیٰ کے عائد کیے ہوئے کسی فرض سے باز رکھنے کی کوشش کرے تواس کی اطاعت سے انکار کردینا اس کا فرض ہے۔ ورنہ وہ گنہگارہوگی۔ اس کے برخلاف اگرشوہربیوی کونفل نماز یا نفل روزہ ترک کرنے کے لیے کہے تواس کی اطاعت لازم ہے۔
وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ
اورجن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہوتو( اس کی اصلاح کی صورت یہ ہے کہ ( انھیں نصیحت کرو (اللہ تعالیٰ کی ناراضی اورعذاب سے ڈراؤ)
وَاہْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِــعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ۰ۚ
( اس پربھی نہ مانیں تو) ان کواپنے بستر سے الگ رکھو (اس کا بھی کچھ اثرنہ ہوتو) انھیں مارو۔
توضیح : جس طرح عورتوں کوطلاق دینے کی اگر چہ اجازت توہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کوپسند نہیں۔ اسی طرح عورت کی اصلاح کے لیے بدرجہ مجبوری بیوی کومارنے کی اگر چہ اجازت توہے ۔ مگر یہ فعل بھی اللہ ورسول کوپسند نہیں۔ رسول اللہﷺ نے جب کبھی عورتوں کومارنے کی اجازت دی ہے بادلِ ناخواستہ دی ہے اوراسے ناپسند ہی فرمایا ہے۔ اوریہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ منہ پرنہ مارے۔ سخت مار نہ مارے۔ ایسی چیز سے نہ مارے جس سے جسم پرنشان پڑجائیں۔
فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلًا۰ۭ
اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا۳۴
وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا
فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا۰ۚ
پھراگر وہ فرمانبردارہوجائیں (سرکشی سے باز آجائیں) توپھران پرزیادتی کرنے کے لیے کوئی بہانہ تلاش نہ کرو۔
بے شک اللہ تعالیٰ بڑی رفعت وعظمت والے ہیں۔
اوراگر (آپس کے اختلافات اتنے بڑھ جائیں کہ) زن وشوہر کے تعلقات منقطع ہوجانے کا اندیشہ پیدا ہوجائے تو(قبل اس کے کہ تعلقات منقطع کرلوصلح کی اس طرح کروشش کرو)
ایک حکم مرد کے رشتہ داروںمیں سے اورایک حکم عورت کے رشتہ داروں میں سے مقررکرلو۔
اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللہُ بَیْنَہُمَا۰ۭ
اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِــیْمًا خَبِیْرًا۳۵
اگروہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تواللہ تعالیٰ ان کے درمیان موافقت کی صورت پیدا کریں گے (دونوں سے مراد ثالث بھی ہیں اورزوجین بھی)
بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے احوال کوجانتے ہیں پوری طرح باخبر ہیں۔
وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَـیْـــًٔـا
وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰى وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ
اوراللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرواوراللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراؤ۔
اوروالدین قرابت داروں یتیموں مسکینوں کے ساتھ احسان کرو۔
وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ۰ۙ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۰ۭ
اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا۳۶ۙ
رشتہ دار ہمسایوں اوردوسرے ہمسایوں اوررات دن ملنے جلنے والے ہم نشینوں اورمسافروں اوراپنے خدمت گاروں، باندیوں، غلاموں کے ساتھ جوتمہارے قبضہ میں ہوں ان سب کے ساتھ احسان کرتے رہو (ان کی خطاؤں سے درگزرکرو)
اللہ تعالیٰ ایسے شخص کوپسند نہیں کرتے جو(اپنے مال دولت پر) مغرور ہواورکثرت مال پربڑائی وفخر کرتا ہو۔
الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ
وَیَکْتُمُوْنَ مَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۰ۭ وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًا۳۷ۚ
جولوگ خودبخالت کرتے ہیں اور لوگوں کوبھی بخل سکھاتے ہیں۔
اورجومال اللہ تعالیٰ نے ا ن کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپائے رکھتے ہیں اور ہم نے (ایسے) کافروں کے لیے ذلت آمیزعذاب تیارکررکھا ہے۔
توضیح : کافرکہتے ہی ہیں اس شخص کوجواللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرے یا احکام الٰہی پرعمل پیرانہ ہو۔اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں میں بخل کرے۔ نہ خود کھائے اور کھلائے نہ پہنے نہ پہنائے۔ اللہ کی نعمتوں کا اظہار نہ کرنا بھی کفران نعمت ہے۔
وَالَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ
وَمَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا فَسَاۗءَ قَرِیْنًا۳۸
اورجولوگ اپنی دولت شہرت ونمود یعنی لوگوں کودکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں تواس بات کی علامت ہے کہ وہ نہ اللہ تعالیٰ پرایمان رکھتے ہیں اورنہ آخرت پر۔
اورشیطان جن کا مصاحب ومشیرہوجائے وہ کیا ہی برا مصاحب ہے۔ (وہ اس کوتباہ وبرباد کرکے ہی چھوڑتا ہے)
وَمَاذَا عَلَیْہِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ
وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَھُمُ اللہُ۰ۭ
وَکَانَ اللہُ بِہِمْ عَلِــیْمًا۳۹
اوران پرکیا مصیبت آتی اگروہ اللہ تعالیٰ پراورآخرت کے دن پرایمان لاتے۔
اورجوکچھ اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا کررکھا ہے۔ اس میں سے خرچ کرتے۔
اور اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتے ہیں (ان کی نیتوں سے خوب واقف ہیں)
اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ۰ۚ
یقیناً اللہ تعالیٰ کسی کی رتی برابر حق تلفی نہیں فرماتے۔
وَاِنْ تَکُ حَسَـنَۃً یُّضٰعِفْھَا
وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًا۴۰ؔ
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍؚ بِشَہِیْدٍ
وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِیْدًا۴۱ۭ
اور اگر ایک نیکی ہوگی تو اس کو کئی گنا بڑھادیتے ہیں۔
اور اپنے پاس سے بڑا ہی اجر عطا فرمادیتے ہیں۔
پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک ایک گواہ کو حاضر کریں گے۔
اورآپ کوان لوگوں پرگواہی دینے کے لئے بلائیں گے۔
یَوْمَىِٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ
لَوْ تُـسَوّٰى بِہِمُ الْاَرْضُ۰ۭ
وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللہَ حَدِیْثًا۴۲ۧ
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ
اس روز کفرکرنے والے اورپیغمبر کے مخالف تمنا کریں گے۔
کاش انھیں زمین میں دفن کردیا جاتا اور اوپرسے مٹی برابر کردی جاتی (یا وہ زمین سے اٹھائے نہ جاتے)
اوروہ کوئی بات اللہ تعالیٰ سے چھپا نہیں سکیں گے۔
ائے ایمان والو جب تم نشہ کی حالت میں ہوتونماز کے قریب بھی نہ جاؤ تاکہ آنکہ تم یہ سمجھنے لگو کہ تمہاری زبان سے کیا الفاظ نکل رہے ہیں۔
توضیح : ابھی شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس سے متعلق لوگوں کے دریافت کرنے پرارشاد فرمایا گیا۔ اس میں بڑے نقصان ہیں(نقصان سے بچنا فطرت انسانی ہے) )سورۂ بقرآیت ۲۱۹)
کچھ ہی عرصہ بعداس کی حرمت کا قطعی حکم آیا (سورہ مائدہ آیت ۹۰)
وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا۰ۭ
وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ
فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا
اور(اسی طرح) غسل کی حاجت ہوتوغسل کےبغیرنماز نہ پڑھو
سوائے اس کے کہ حالت ِسفرمیں راستہ طے کررہے ہو۔
اور اگر تم بیمار ہوجاؤیا سفر کی حالت میں ہو۔ یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کرکے آیا۔ یا تم نے اپنی بیوی سے قربت کی ہو۔
پھرتم کوغسل کے لیے پانی نہ ملے توتم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔
فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا۴۳
(اس طرح سے کہ) مٹی پردونوں ہاتھ مارکرچہرے پراورپھردونوں ہاتھ مارکرکہنیوں تک پھیرلو۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی معاف کرنے والے اوربخشنے والے ہیں۔
توضیح : اہل کتاب نے غسل کے احکام کوبالائے طاق رکھ دیا تھا۔ مسلمانوں کے لیے جب غسل کے احکام آئے تویہ کہہ کربہکانے لگے کہ یہ سب غیرضروری باتیں ہیں۔ اس لیے اب خطاب کا رخ اہل کتاب کی طرف ہوگیا۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ
یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَۃَ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَ۴۴ۭ
وَاللہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَاۗىِٕکُمْ۰ۭ
وَکَفٰى بِاللہِ وَلِیًّا۰ۤۡ وَّکَفٰى بِاللہِ نَصِیْرًا۴۵
مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ
وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ
وَّرَاعِنَا لَیًّۢا بِاَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ۰ۭ
ائے نبی(ﷺ) کیا آپ نے ان لوگوں کونہیں دیکھا۔ جن کوکتاب کا کچھ حصہ دیا گیا تھا (چاہئے تویہ تھا کہ وہ اس پرعمل کرتے بجائے اسکے کہ)
وہ گمراہی کوخریدتے ہیں اوروہ تم کوبھی راہ سے بے راہ کرنا چاہتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کوخوب جانتے ہیں(ان کی شرارتوں سے تم کومحفوظ رکھیں گے)
اوراللہ تعالیٰ کارسازی اورمددونصرت کے لیے کافی ہیں۔
یہودیوں میں ایسے بھی ہیں جوالفاظ کواپنی جگہ سے بدل دیتے ہیں اور غلط مطلب نکالتے ہیں۔
اورکہتے ہیں ہم نے سن تولیا مگرنہ مانا (سنانہ سننے کی طرح) اورکہتے ہیں سنئے۔ پھرساتھ ہی غَیْرَمُسْمَعٍ بھی کہتے ہیں (یہ ذومعنی الفاظ ہیں اس کا ایک مطلب تویہ ہے کہ کوئی آپ کوبری بات نہ سناسکے۔)
دوسرا مطلب یہ ہے کہ خدا کرے کہ تم بہرے ہوجاؤ اورکچھ سن نہ سکو ۔ اورزبان کوتوڑموڑ کررَاعِیْنَا کہتے ہیں اوردینی امور میں طعنہ دیتے ہیں۔
توضیح : رَاعِنَا میں عین کے زیرکوکھینچ کرپڑھاجائے تواس کے معنی چرواہے کے ہوجاتے ہیں۔ ورنہ اس کے معنی ہیں ہماری طرف دیکھئے۔کے ہیں۔
وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا
ایسا کہنے کے بجائے اگروہ (جذبہ اطاعت گزاری کے ساتھ) کہتے کہ ہم نے سنا اورمان لیا (یا یوں کہتے)
وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ۰ۙ
وَلٰکِنْ لَّعَنَھُمُ اللہُ بِکُفْرِہِمْ
فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا۴۶
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا
مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ
مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْہًا فَنَرُدَّھَا عَلٰٓی اَدْبَارِھَآ
اَوْ نَلْعَنَھُمْ کَـمَا لَعَنَّآ اَصْحٰبَ السَّبْتِ۰ۭ
وَکَانَ اَمْرُ اللہِ مَفْعُوْلًا۴۷
ہمیں مکرر وضاحت کے ساتھ سنائیے ہماری طرف التفات کیجئے تویہ بات ان کے لئے بہترہوتی اورراست بازی کہلاتی
لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب ان پرلعنت کردی (اپنی رحمت سے محروم کردیا)
(اس لیے) ان میں بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں۔
ائے وہ لوگو جنہیں کتاب الٰہی دی گئی تھی اس کتاب پربھی ایمان لاؤ جوہم نے نازل کی ہے۔
جوتمہاری کتابوں کی تصدیق کرتی ہے (جس میں ایمان باللہ ایمان بالآخرت کی وہی تعلیم ہے جوتمہاری کتاب میں تم کودی گئی تھی۔)
قبل اس کے کہ تمہارے چہرے بگاڑدیئے جائیں۔
یا چہروں کوپیٹھ کی طرف پھیردیا جائے۔
یا ہم ان پر اس طرح لعنت کردیں جس طرح ہفتہ والوں پرکی تھی (اصحب السبت کا واقعہ سورۂ اعراف میں ہے)
اوراللہ تعالیٰ کا حکم نافذ ہوکرہی رہتا ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ
وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۰ۚ
یقیناً اللہ تعالیٰ اس گناہ کومعاف نہیں فرماتے کہ کسی کو( فردخلق کوکسی حیثیت سے بھی )اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک قراردے۔
اوراس (شرک) کے سواجتنے بھی گناہ ہوں گے( ان کوکسی نہ کسی نیکی کے صلہ میں) جس کوچاہیں گے معاف کردیں گے۔
توضیح : وہ نیکی جس کے صلہ میں دوسرے گناہوں کونظرانداز کیا جائے گا، جان ومال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ جہاد بالسیف یا جہاد باللسان کے لیے قرآنی ہتھیاروں سے آراستہ ہونا ضروری ہے کسی متبع رسول کتاب سے بہ عزم اطاعت درس قرآن حاصل کیے بغیریہ دولت حاصل نہیں ہوسکتی۔
وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِیْمًا۴۸
جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرایا تواس نے اللہ تعالیٰ پربڑا افتراکیا بہتان باندھا۔ غلط بات کہی۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ۰ۭ
بَلِ اللہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَاۗءُ
ائے نبی (ﷺ) کیا آپ نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جو(شرک جیسے گندہ جرم کے مرتکب ہوتے ہوئے بھی) اپنے کوپاکیزہ سمجھتے ہیں۔
بلکہ اللہ تعالیٰ جس کوچاہتے ہیں (شرک کی گندگیوں سے) پاک کرتے ہیں۔
تشریح : اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے نفس کا تزکیہ کرتے ہیں جواللہ تعالیٰ کے احکام وہدایت سے اپنے نفس کا تزکیہ چاہتے ہیں ان کا تزکیہ نہیں کیا جاتا جواپنے خود ساختہ ذکر وعبادت کے طریقوں پرعمل کرتے ہیں۔
وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا۴۹
اوران پربال برابر ظلم نہ ہوگا۔
توضیح : کھجورکی گھٹلی پرباریک جھلی جودھاگہ جیسی دکھائی دیتی ہے، اتنا بھی ظلم نہیں ہوگا۔ نہ تواپنے خود ساختہ ذکروعبادت کا صلہ پائیں گے جوبدعات کہلاتے ہیں۔
اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ۰ۭ
وَکَفٰى بِہٖٓ اِثْمًا مُّبِیْنًا۵۰ۧ
ائے نبی (ﷺ) دیکھئے توسہی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے متعلق کیسی جھوٹی باتیں بناتے ہیں۔
(دیگرگناہوں سے قطع نظر) یہی ایک گناہ ان کے مستحق عذاب ہونے کے لیے کافی ہے۔
توضیح : اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ عقیدہ پیدا کرلینا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں، ملائکہ، انبیاء علیہم السلام، اجنہ، اولیائے کرام کی سفارشات پربندوں کے معاملات کا دنیا وآخرت میں فیصلہ کرتے ہیں۔
نیز پیغمبروں وبزرگوں کے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں اپنے کچھ اختیارات بھی عطا کرتے ہیں، اس لیے ان حضرات کوواسطہ وسیلہ بنائے بغیردنیا وآخرت کے کام نہیں بنتے وغیرہ۔
ایسے تمام عقائد کواللہ تعالیٰ انسانوں کی من گھڑت اورجھوٹی باتیں قراردیتے ہیں۔ یہ مشرکانہ عقائد ہیں شرک ایسا سنگین گناہ ہے کہ ہزار ہا نیکیوں کے باوجود انھیں جہنم کا مستحق بنادیتا ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ
یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ
ائے نبی (ﷺ) کیا آپ نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جن کوکتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے مگروہ ہیں
بت وشیطان پر ایمان لاتے ہیں(اوہام، جن وشیطان، بے اصل، بے حقیقت بے فائدہ باتوں پراعتقاد رکھتے ہیں) اورطاغوت کی اطاعت کرتے ہیں۔
توضیح : قرآنی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ شخص ہے جو حدود بندگی سے گزرجائے۔ من مانی زندگی گزارے اوراللہ تعالیٰ کے بندوں سے بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرائے اورانھیں برائی پرہرطرح مجبور کردے۔ کوئی شخص صحیح معنوں میں مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ طاغوتی احکام سے یکسرانکارنہ کردے۔
وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہٰٓؤُلَاۗءِ اَہْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا۵۱
اُولٰۗىِٕکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللہُ۰ۭ وَمَنْ یَّلْعَنِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ نَصِیْرًا۵۲ۭ
اَمْ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْکِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا۵۳
اورکافروں کے تعلق سے کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تویہی زیادہ صحیح راستہ پرہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن پراللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی(انھیں اپنی رحمت سے محروم کردیا) اورجس پراللہ تعالیٰ لعنت کرے تم اس کا کسی کوحامی مددگار نہ پاؤگے۔
کیا اللہ تعالیٰ کی حکومت میں ان کا کوئی حصہ ہے؟
اگر ایسا ہوتاتوتم لوگوں کو تل برابر بھی نہ دیں گے( یہ اتنے حاسد ہیں کہ) دوسروں کوذرہ برابر بھی حصہ دار نہ بناتے اوراتنے تنگ دل ہیں کہ اعتراف حق میں بھی بخل سے کام لیتے ہیں۔
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۰ۚ
فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ
وَاٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا۵۴
یا لوگوں سے یہ اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے فضل سے نوازا ہے۔ (یہاں ’’ناس ‘‘ سے حضرات صحابہ کرام مراد ہیں۔)
پھرکیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم نے ابراہیمؑ کی اولاد کوکتاب وحکمت عطا کی تھی۔
اورہم نے انھیں ملک عظیم عطا کیا۔
توضیح : ابراہیمؑ کی اولاد میں آل اسحاقؑ دین وحکومت کی نعمتوں سے سرفراز کیے جاتے رہے۔ اب یہ نعمت عظمیٰ آل اسمٰعیلؑ کے حصے میں آئی توحسد کرنے لگے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ابراہیم علیہ السلام سے ہم نےامامت وپیشوائی کا جووعدہ کیا تھا، وہ آل ابراہیم میں صرف انھیں لوگوں کے لیے تھا جوہماری بھیجی ہوئی کتاب کے مطابق عمل پیرا ہونا چاہتے ہوں۔
فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِہٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْہُ۰ۭ
پھران میں (بنی اسحاق میں) بعض نے اس کتاب کومانا اوران میں بعض نے نہ مانا۔( تعلیمات الٰہی سے روگردانی کی اورلوگوں کوبھی دین حق سے روکتے رہے۔)
وَکَفٰى بِجَہَنَّمَ سَعِیْرًا۵۵
اور ان لوگوں کے لئےجہنم کی دہکتی ہوئی آگ کافی ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَارًا۰ۭ
کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ
بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ۰ۭ
اِنَّ اللہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِــیْمًا۵۶
جن لوگوں نے ہمارے احکام کا انکار کیا نہ مانا ہم انھیں بہت جلد دہکتی ہوئی آگ میں داخل کریں گے۔
جب ان کے بدن کی جلد گل اورجل جائے گی تو
ہم اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کریں گے تا کہ وہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔
یقینا اللہ تعالیٰ بڑے ہی زبردست حکیم ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کی ہرتجویز بڑی ہی حکیمانہ ہے۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
سَـنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا۰ۭ لَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ۰ۡ وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا۵۷
اورجولوگ ہماری ہدایتوں کومان لیتے اورنیک عمل کرتے ہیں۔
ہم انھیں ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اوراس میں ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی۔
اورہم انھیں گھنے سایوں میں (جونہایت ہی پرفضا ہوں گے) داخل کریں گے۔
اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ
وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ۰ۭ
اِنَّ اللہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ۰ۭ
اِنَّ اللہَ کَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۵۸
اللہ تعالیٰ تم کوہدایت دیتے ہیں کہ امانت ان ہی لوگوں کودی جائے جواس کے اہل ہیں۔
اورجب تم لوگوں میں فیصلہ کرنے کے لیے حاکم بنائے جاؤ توعادلانہ فیصلہ کیا کرو۔
یقیناً اللہ تعالیٰ تم کواس قرآن کے ذریعہ بہترین نصیحت کرتے ہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری باتوں کو(بذاتہ کسی واسطے وسیلے کے بغیر) سننے والے اورتمہارے احوال جاننے والے ہیں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ
وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۰ۚ
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ
فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ
اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ
ذٰلِکَ خَیْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۵۹ۧ
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ
اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ
وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ
وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ۰ۭ وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۶۰
ائے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرواوراللہ تعالیٰ کے رسول کا کہنا
مانو اورتم میں جوصاحب حکومت ہیں ان کا بھی حکم مانو۔
پھراگرتمہارے درمیان کوئی نزاع پیدا ہوجائے
تواس کواللہ اوررسول کی طرف رجوع کرو۔
اگرواقعی تم اللہ پراورروز آخرت پریقین رکھتے ہو۔
یہی صحیح روش ہے اورانجام کے لحاظ سے بھی بہتر ہے۔
(ائے پیغمبر ﷺ) کیا آپﷺ نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جو دعوے کرتے ہیں کہ
وہ اس کتاب پرایمان رکھتے ہیں جوآپ پرنازل کی گئی ہے۔
اور اس کتاب پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئی تھی۔
تصفیہ کے لیے اپنے مقدمات شیاطین کے پاس لے جانا چاہتے ہیں۔ (یعنی سرکش انسان کے قوانین سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔کعب بن اشرف یہودی مراد ہے ۔)
حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا اس کونہ مانیں۔
اورشیطان توچاہتا ہے کہ انھیںبہکا کرگمراہی کی حد کوپہنچائے۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ
رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا۶۱ۚ
اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنے نزاعات کے فیصلے کے لیے) اللہ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق اللہ کے رسول کی طرف آؤ۔
آپ ان منافقین کودیکھتے ہیں کہ یہ آپ کی طرف آنے سے کتراتے ہیں۔
توضیح : جس مقدمے میں انھیں توقع ہوتی ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا تواس کونبی کریمﷺ کے پاس لے آتے ہیں اورجس مقدمہ میں اندیشہ ہوتا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہوگا توانکار کردیتے۔
فَکَیْفَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌۢ
بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ
ثُمَّ جَاۗءُوْکَ یَحْلِفُوْنَ۰ۤۖ بِاللہِ
اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّآ اِحْسَانًا وَّتَوْفِیْقًا۶۲
پھر انھیں کیسی ندامت ہوگی جب انھیں کے ہاتھوں لائی ہوئی مصیبت ان ہی پرآپڑے گی۔
پھراس وقت وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہوئے آپ کے پاس آتے ہیں واللہ
ہمارا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ (کسی طرح فریقین میں)بھلائی اور موافقت ہوجائے۔
اُولٰۗىِٕکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللہُ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ۰ۤ
فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَعِظْھُمْ
وَقُلْ لَّھُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا۶۳
ان کی نیتوں اوردلوں کے احوال کواللہ تعالیٰ پوری طرح جانتے ہیں۔
لہٰذا آپ ان کی باتوں کا کوئی خیال نہ کیجئے اورانھیں نصیحت کیے جائیے۔
اورانھیںاس طرح نصیحت کیجئے کہ بات ان کے دلوں میں اتر جائے۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ
وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ
جَاۗءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ
لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِـیْمًا۶۴
رسول کوبھیجنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ باذن الٰہی رسول کی پوری پوری اطاعت کی جائے۔
اگروہ اپنے حق میں ظلم کرلیتے ہیں،اللہ ورسول کے (احکام کے) خلاف کوئی کام کربیٹھے توانھیں چاہئے تھا کہ
اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہوئے آپ کے پاس آتے اوررسول بھی ان کے لیے دعا کرتے تو
وہ اللہ تعالیٰ کوتوبہ قبول کرنے والا اوررحم کرنے والا پاتے۔
فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَــرَ بَیْنَھُمْ
ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِــیْمًا۶۵
پس نہیں نہیں (ائے نبیﷺ ) آپؐ کے رب کی قسم۔ یہ لوگ اپنے اختلافی معاملات میں آپ کوحکم بنا کر آپ سے فیصلہ چاہے بغیر ہرگزہرگز ایمان سے مشرف نہیں ہوسکتے۔
پھرآپؐ جوکچھ فیصلہ کرتے (اگروہ ان کے خلاف بھی پڑتا) تواپنے دلوں میں کوئی ناگواری محسوس نہ کرتے۔ اورخوشی خوشی مان لیتے (کہ انصاف ہوا ہے)
وَلَوْ اَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْہِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِکُمْ مَّا فَعَلُوْہُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْھُمْ۰ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِہٖ
لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَشَدَّ تَثْبِیْتًا۶۶ۙ
وَّاِذًا لَّاٰتَیْنٰھُمْ مِّنْ لَّدُنَّآ اَجْرًا عَظِیْمًا۶۷ۙ
وَّلَہَدَیْنٰھُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا۶۸
اگرہم ان کی اصلاح وتزکیہ کے لیے ان پریہ فرض کیے دیتے کہ اپنے آپ کوقتل کرڈالیں یا اپنے گھر بارچھوڑکرنکل جائیں توان میں سے چند کے سوا کوئی عمل نہ کرتے اوراگریہ ان نصیحتوں پرکاربند ہوتے جوانھیں کی جاتی رہی ہیں تو
ان کے حق میں بہتراوردین میں زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا۔
اورجب وہ ایسا کرتے توہم ان کواپنے پاس سے بڑا اجر عطا کرتے۔
اور(باطل کے ہنگاموں میں) انھیں راہ حق پرقائم رکھتے۔
توضیح : جونصیحتیں انھیں کی گئی تھیں وہ باہمی قتال اورترک ِوطن سے بھی کہیں زیادہ آسان تھیں۔
وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ
مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِیْنَ۰ۚ
وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕکَ رَفِیْقًا۶۹ۭ
ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللہِ۰ۭ وَکَفٰى بِاللہِ عَلِــیْمًا۷۰ۧ
واقعہ یہ ہے کہ جولوگ اللہ ورسول کی تعلیم وہدایت کے مطابق زندگی بسرکرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا ( وہ فضل وانعام پانے والے)
نبیین، صدیقین اورشہدا اورصالحین میں سے ہوں گے۔
اورکیا ہی اچھی ہے ان حضرات کی رفاقت اورکیسے اچھے ہیں ان کے رفیق یہ فضل عظیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ یہ جاننے کے لیے کافی ہیں کہ کون کس مرتبہ کا اہل ہے۔
توضیح : یہ ہدایتیں نازل ہورہی تھیں کہ اس اثنا میں یہ خبریں آنے لگیں کہ دشمن اکھٹے ہوکر مدینہ پرحملہ کی تیاریاں کررہے ہیں۔ فلاں قبیلہ کے تیوربدل رہے ہیں۔ مبلغین اسلام کودین کی تعلیم سکھانے کی دعوت دے کرلے جانے اوراس طرح فریب دے کرانھیں شہید کرنے کے واقعات بھی پیش آچکے تھے۔ نت نئے تدبیریں سوچی جارہی تھیں۔ مدینہ کے باہر اہل مدینہ کی جان ومال کے خطرات بڑھ گئے تھے۔ ان حالات میں حکم دیا گیا کہ
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ
فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا۷۱
وَاِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ۰ۚ
فَاِنْ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَکُنْ مَّعَھُمْ شَہِیْدًا۷۲
وَلَىِٕنْ اَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللہِ لَیَقُوْلَنَّ کَاَنْ لَّمْ تَکُنْۢ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہٗ مَوَدَّۃٌ
یّٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَھُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا۷۳
فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَۃِ۰ۭ
وَمَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا۷۴
وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۰ۚ
ائے ایمان والو (دشمنوں سے ہوشیار) اپنے ہتھیار سے لیس رہو۔
پھرموقع بہ موقع جہاد کے لیے الگ الگ دستوں کی شکل میں یا اجتماعی طورپرنکلو۔
اورتم میں کوئی ایسا بھی ہے، جولڑنے سے جی چراتا ہے( بزدل ہے)
پھرلڑائی میں تم کونقصان پہنچتا ہے توکہتا ہے اللہ نے مجھ پربڑا ہی کرم کیا کہ میں اس وقت ان کے ساتھ نہ تھا (ورنہ میں بھی مبتلائے آفات ہوجاتا)
اوراگراللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پرفضل ہو
توکہتا ہے اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اوراس کے درمیان محبت کا توکوئی تعلق تھا ہی نہیں
کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تومیرا کام بن جاتا۔
جوکامیابی حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔
اس کوچاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑے جو آخرت کوچھوڑکرصرف دنیا کے خریدار بنے ہوئے ہیں۔
اورجوکوئی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرے اور شہید ہوجائے یا غالب آئے توہم اس کوعنقریب اجرعظیم دیں گے۔
اورتم کوکیا ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں نہیں لڑتے۔اوروہ بے بس کمزورمرد اور عورتیں اوربچے (جودینداری کی وجہ سے اکثریت کے ظلم کا شکار ہیں) کہتے ہیں۔
ائے ہمارے پروردگار ہم کواس بستی سے نکالیے جہاں کے رہنے والے ظالم ہیں۔
وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا۰ۚۙ
وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا۷۵ۭ
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ۰ۚ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ
فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِیَاۗءَ الشَّیْطٰنِ۰ۚ
اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا۷۶ۧ
اوراپنی طرف سے کسی کوہمارا حامی بنائیے۔
اوراپنی طرف ہمارا مددگار مقررفرمائیے۔
جومومن ہیں وہ تواللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے لڑتے ہیں۔ اورجوکافرہوتے ہیں وہ نظام باطل کے لیے لڑتے ہیں۔
لہٰذا تم شیطان کے ساتھیوں سے لڑو۔
یقیناًشیطان کی چالیں بڑی ہی کمزور ہوتی ہیں۔ (اورشیطان کے ساتھی بڑے ہی بزدل )
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ۰ۚ
(ائے پیغمبرﷺ) کیا آپ نے ان لوگوں کونہیں دیکھا؟ (ضرور دیکھا ہے) جنہیں کہا گیا۔ اپنے ہاتھوں کوروکو (صبر سے کام لو) نماز قائم رکھو اور زکوۃ دیتے رہو۔
توضیح : یہ حکم انھیں اس لیے بارگراں گزرنے لگا کہ مخالفین کی شرارتوں سے ان کے دلوں میں انتقام کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا بدلہ لینے کے لیے بے تاب تھے۔
فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ
پھرجب (ان کی خواہش کے مطابق) جہاد فرض کیا گیا تو ان میں بعض فریق (دشمنوں کی اکثریت اوران کی قوت دیکھ کر) ان سے اس طرح ڈرنے لگے۔
کَخَشْـیَۃِ اللہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـیَۃً۰ۚ
جیسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہی۔
وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ۰ۚ
اورکہنے لگے ائے ہمارے پروردگار ہم پرابھی جہاد کا حکم کیوں فرض کردیا گیا۔
لَوْلَٓا اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۰ۭ
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ۰ۚ
وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۰ۣ وَلَاتُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا۷۷
کیوں نہ ہمیں کچھ اور مہلت دی ہوتی۔
(ائے پیغمبرﷺ) ان سے کہئے دنیا کا سرمایہ زندگی (آخرت کے مقابلے میں) تھوڑا ہے (بلکہ نہ ہونے میں شمار ہے)
اورآخرت ہرطرح بہترہے اس کیلئے جواللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچتا ہے۔
وہاں تم پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا( یعنی تمہاری رتی برابر حق تلفی نہیں ہوگی۔)
اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ
وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَـیَّدَۃٍ۰ۭ
وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللہِ۰ۚ
وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ
یَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ۰ۭ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ۰ۭ
فَمَالِ ہٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَایَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا۷۸
(اب رہا موت کا خوف) موت توجہاں بھی تم رہوگے آکر رہے گی۔
خواہ تم کتنے ہی مضبوط وبلند قلعوں میں بندومحفوظ رہو
(ان لوگوں کا یہ حال ہے) اگر انھیں دنیا کا کوئی فائدہ پہنچتا ہے (فتح یا مال غنیمت) توکہتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
اوراگر انھیں (جنگ وجدال میں یا کسی وقت بھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں (ائے محمدﷺ) یہ تمہاری بدولت ہے۔
کہہ دیجئے (نفع ونقصان) سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔
آخر اس قوم کوکیا ہوگیا کہ وہ کسی بات کوسمجھنا ہی نہیں چاہتی۔
مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَـنَۃٍ فَمِنَ اللہِ۰ۡ
وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ۰ۭ
وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا۰ۭ
وَکَفٰى بِاللہِ شَہِیْدًا۷۹
ائے انسان جب تجھ کوکوئی بھلائی پہنچتی ہے تووہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔
اورجوبھی مصیبت تجھ پرآتی ہے وہ تیرے ہی (بداعمالیوں کے) سبب ہے ( اور۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے آتی ہے)
اور(ائے محمدﷺ) ہم نے آپ کو(تمام لوگوں کی اصلاح کے لیے) رسول بنا کر بھیجا ہے۔( آپ کا وجود لوگوں کے لیے سراپا رحمت ہے)
اور(اس بات پر) اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۰ۚ
وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا۸۰ۭ
وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَۃٌ۰ۡ
فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنْھُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ۰ۭ
وَاللہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ۰ۚ
فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ۰ۭ وَکَفٰى بِاللہِ وَکِیْلًا۸۱
جس نے رسول کی اطاعت کی یقیناً اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔
اورجس نے روگردانی کی توہم نے آپ کوان پرنگران بنا کرنہیں بھیجا۔ (یہ اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہیں)
اوروہ (جب آپ کے سامنے ہوتے ہیں تو) کہتے ہیں (ہمارا کام تو) اطاعت ہے (آپ کواپنی اطاعت کا یقین دلاتے ہیں)
پھر جب آپ کے پاس سے باہر جاتے ہیں توان میں کی ایک جماعت راتوں میں جمع ہوکر آپ کی باتوں کے خلاف مشورے کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ لکھتے جاتے ہیں راتوں میں وہ جوکچھ مشورہ کرتے ہیں۔
لہٰذا آپ ان کی طرف التفات نہ کیجئے اللہ پربھروسہ رکھئے اورکارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔
توضیح : بے خوف رہئے ۔ ان کی خفیہ سازشوں سے نہ گھبرائیے اورنہ ان کے خلاف کوئی تدبیریں سوچئے ۔
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۰ۭ
وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللہِ
لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۸۲
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے۔
اگر یہ لوگ قرآن(اللہ تعالیٰ کے سوا) کسی اورکلام ہوتا
تووہ اس میں (بہت سارے) اختلاف پاتے۔
توضیح :مخالفین، منافقین، ضعیف الایمان۔ ان کی ساری مخالفتیں اس لیے تھیں کہ وہ قرآن کریم کواللہ تعالیٰ کا کلام نہیں سمجھتے تھے۔ کلامِ الٰہی کے ہونے میں انھیں شک تھا۔ اس لیے انھیں فرمایا جارہا ہے۔ اگر یہ کلامِ خالق انسان۔ خالق فطرت کا نہ ہوتا کسی اورکا ہوتا تواس میں اورعقل وفطرت انسانی میں ٹکراؤ ہوتا۔ احکام ناقابل عمل ہوتے۔ انسان کے فطری جذبات ومطالبات کچھ ہوتے۔ احکام وہدایت کچھ اوردوسرا مطلب یہ ہے کہ خود قرآنی احکامات میں تضاد ہوتا حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ قرآنی احکام شروع سے آخر تک ہم آہنگ ہیں۔ بعض مصلحین قوم جواحکامات الٰہی سے بے بہرہ تھے انہوں نے اپنی عقل سے انسانوں کی اصلاح کے لیے یہ نصیحت کی کہ حرص۔ غم۔ غصہ جنسی میلانات۔ اکل وشرب کی خواہشات یہ سب بہیمانہ صفات ہیں، انھیں مٹادینا چاہئے۔ اکل وشرب کے مطالبات چونکہ مٹائے نہیں جاسکتے اس لیے ان کوکم سے کم درجے میں رکھنا چاہئے یا پھر نصیحت کی کہ ترکِ دنیا ہی سے اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل ہوسکتی ہے۔ درحقیقت قال اللہ وقال الرسول میں انسان کے فطری مطالبات ہی کی تکمیل کا سامان ہے۔ عالم وہ نہیں جوبے بہرہ انسانوں کے سامنے دین کوصرف قال اللہ وقال الرسول کہہ کر پیش کردے۔ بلکہ عالم وماہر وہ ہے جودین الٰہی میں انسان کی عقل وفطرت سے جو چیز ہم آہنگ ہے اس کوواضح کرے اور انھیں دعوت الی اللہ دے۔
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ۰ۭ
وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ
لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ۰ۭ
(جومنافق اورضعیف الایمان ہیں ان کی کج فہمیوں کا حال یہ ہے کہ) جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے توبلا تحقیق اس کومشہور کردیتے ہیں۔
اوراگر وہ اس خبر کوپیغمبر اوراپنے ذمہ دار احکام تک پہنچاتے تو
اہل تحقیق اس کے صحیح یا غلط ہونے کی جانچ کرلیتے (اور صحیح نتیجہ پرپہنچتے)
توضیح : اس وقت حالات پرسکون نہ تھے۔ دشمن بے بنیاد اورمبالغہ آمیز افواہیں پھیلاتے تھے۔ جس سے اہل مدینہ اور قرب وجوار میں دہشت پھیل جاتی۔ بعض وقت اصل خطرہ کوچھپانے کی غرض سے امن کی خبریں بھی دیتے تا کہ مسلمان بے خبر رہیں اس قسم کی خبروں کوپھیلانے سے منع کیا گیا۔
وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا۸۳
اوراگر تم پراللہ تعالیٰ کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی توچند اشخاص کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے ہولیتے۔
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ۰ۚ
لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ
وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ۰ۚ
عَسَى اللہُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۰ۭ
وَاللہُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْکِیْلًا۸۴
لہٰذا (اے نبیﷺ) اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑے جائیے۔
آپ اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں ہیں (ہرشخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہے)
اورمومنین کو(قتال فی سبیل اللہ کی) ترغیب دیتے رہئیے۔
ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کولڑائی سے روک دیں (اوران کی قوت کوپارہ پارہ کردیں)
اوراللہ تعالیٰ جنگ کے اعتبار سے بھی سخت ہیں اورسزا کے لحاظ سے بھی سخت تر۔
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَـنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْھَا۰ۚ
جوشخص نیک کام کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا۔
وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا۰ۭ
اورجوناپسندیدہ باتوں اوربرے کام کی سفارش کرے گا وہ اس کا برا بدل پائے گا۔
موضح القرآن:۔ اگر کوئی محتاج کودولت مند سے کچھ دلوادے تواس خیرات کے ثواب دلوانے والا بھی شریک اوراگرکوئی کافربدکار شریر کوچھڑوادے پھر وہ بدکاری کرے توچھڑوانے والا بھی اس فساد میں شریک ہے۔
وَکَانَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا۸۵
وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ
فَحَــیُوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا۰ۭ
اِنَّ اللہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا۸۶
اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۰ۭ
لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ۰ۭ
وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیْثًا۸۷ۧ
اوراللہ تعالیٰ ہربات پرنظررکھنے والے ہیں۔
جب کوئی تم کوسلام کرے (چاہے وہ تمہارا مخالف ہی کیوں نہ ہو)
تواس سے بہترطریقہ پرجواب دویا پھر وہی الفاظ دہرادو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہرچیز کا حساب لینے والے ہیں ۔
اللہ ہی الٰہ واحد ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی معبود نہیں
(پرسش اعمال کے لیے) تم سب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور جمع کیے جاؤگے جس کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں۔
اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہے؟
فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ
پھرتمہیں کیا ہوگیا کہ منافقین (کی روش دیکھنے کے باوجود ان) کے بارے میں دوفریق ہوگئے ہو۔
توضیح : ایک فریق کہتا ہے کہ یہ منافق ہیں۔ دوسرا کہتا ہے ان کے اعمال کچھ ہی ہوں۔ آخر یہ کلمہ گوتو ہیں۔ منافق نہیں ہوسکتے۔ نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ منافق ہیں)
وَاللہُ اَرْکَسَھُمْ بِمَا کَسَبُوْا۰ۭ
اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللہُ۰ۭ
وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلًا۸۸
اوراللہ تعالیٰ نے ان کی منافقانہ روش کی پاداش میں ان کوپھرگمراہی کی طرف پلٹادیا ہے۔
کیا تم اس شخص کوراستہ پرلے آنا چاہتے ہو، جسے اللہ تعالیٰ نے گمراہی میں پڑا رہنے دیا ہو۔
جسے اللہ تعالیٰ نے گمراہی میں پڑارہنے دیا ہو۔ تم اس کیلئے کوئی راہ نہ پاؤگے۔
وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَـمَا کَفَرُوْا
فَتَکُوْنُوْنَ سَوَاۗءً
فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَاۗءَ
حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ۰ۭ
وہ چاہتے ہی یہ ہیں کہ جس طرح وہ خود کافرہیں تم بھی انھیں کی طرح ہوجاؤ۔
تا کہ تم اوروہ دونوں برابر ہوجائیں۔
لہٰذا ان میںسے کسی کودوست نہ بناؤ۔
یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرکے (مدینہ) آجائیں۔
توضیح :نبیٔ محترمﷺ نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ جہاں مسلمانوں کی جان ومال کا ایک گونہ تحفظ ہوگیا توحکم دیا گیا کہ جہاں جہاں اورجس علاقہ میں مسلمان کفار کے زیراثر ہیں اور آزادانہ اسلامی زندگی گزارنہیں سکتے، وہ سب مدینہ ہجرت کرآئیں ہجرت کی قدرت رکھنے کے باوجود جنہیں اپنے گھربارکا چھوڑناگوارانہ ہوا، وہ سب منافق قراردیئے گئے اورجومجبورتھے مستفعین میں شمار کیا گیا۔
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ۰۠
وَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا۸۹ۙ
اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍؚ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ
اَوْ جَاۗءُوْکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُھُمْ
اَنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَھُمْ۰ۭ
وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَسَلَّطَھُمْ عَلَیْکُمْ
فَلَقٰتَلُوْکُمْ۰ۚ
اورجوجماعت سے پلٹ جائیں یعنی مرتد ہوجائیں توانھیں جہاں پاؤ، پکڑواورقتل کردو۔
اوران میں سے کسی کواپنا دوست اوررفیق نہ بناؤ۔
البتہ وہ منافق اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جوکسی ایسی قوم سے جاملیں جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔
یا اسی طرح وہ منافق بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جوتم سے ملتے جلتے رہتے ہیں جن کے دل جدال وقتال سے گریز کرتے ہیں۔
نہ تم سے لڑنا چاہتے ہیں اورنہ اپنی قوم سے۔
اوراگراللہ تعالیٰ چاہتے توان کوتم پرمسلط کردیتے اوروہ تم سے قتال شروع کردیتے۔
فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ۰ۙ فَمَا جَعَلَ اللہُ لَکُمْ عَلَیْہِمْ سَبِیْلًا۹۰
پھر اگروہ تمہارے خلاف کوئی سازش نہ کریں اورنہ تم سے لڑیں اور تمہارے ساتھ صلح وآشتی کا پیشکش کریں تو(اس کے بعد) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان پردست درازی کی کوئی سند جواز نہیں رکھی۔
سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّاْمَنُوْکُمْ وَیَاْمَنُوْا قَوْمَھُمْ۰ۭ
ایک اور قسم کے منافق بھی تمہیں ملیں گے چاہتے ہیں تم سے بھی امن وسلامتی کے ساتھ رہیں اوراپنی قوم سے بھی لیکن۔
کُلَّمَا رُدُّوْٓا اِلَى الْفِتْنَۃِ اُرْکِسُوْا فِیْھَا۰ۚ
فَاِنْ لَّمْ یَعْتَزِلُوْکُمْ وَیُلْقُوْٓا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ
وَیَکُفُّوْٓا اَیْدِیَھُمْ فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ۰ۭ
وَاُولٰۗىِٕکُمْ جَعَلْنَا لَکُمْ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا۹۱ۧ
جب انھیں فتنہ انگیزی کے لیے بلایا جائے تواس میں کووہی پڑیں۔ (یعنی تمہارے خلاف کوئی سازش کرے تویہ ان کا ساتھ دیں۔)
لہٰذا اگرایسے لوگ تمہاری مخالفت سے باز نہ آئیں اورتمہاری طرف امن وسلامتی کا ہاتھ نہ بڑھائیں۔
اوراپنی دست درازیوں سے نہ رکیں۔ پھر وہ جہاں کہیں ملیں انھیں پکڑواورقتل کردو۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہرطرح پکڑنے اورقتل کرنے کی ایک واضح سند جواز اللہ تعالیٰ نے تم کودی ہے۔
توضیح :یہ وہ منافق تھے جواپنی کافرقوم ہی کے ساتھ رہتے سہتے۔ اورمسلمانوں کے خلاف وہ جوبھی کارروائی کرتے تویہ ان کا ساتھ دیتے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مسئلہ بڑا ہی پیچیدہ ہوگیا تھا کہ آخران کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہئے؟ بعض کہتے کچھ بھی ہویہ مسلمان توہیں۔ کلمہ پڑھتے ہیں۔ نماز، روزہ، تلاوت قرآن سب کچھ ہے ان کے ساتھ کفار کا سامعاملہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس اختلاف کا فیصلہ فرمادیا کہ یہ منافق ہیں یہ جہاں ملیں قتل کردیئے جائیں۔
نوٹ:۔ اس کے بعد بعض خرابیوں اورکمزوریوں کی اصلاح کے احکام دیئے گئے۔
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــــًٔـا۰ۚ
وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــــًٔا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ
وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا۰ۭ
فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ وَھُوَمُؤْمِنٌ
اورکسی مومن کے لیے ہرگزجائز نہیں کہ دوسرے مومن کوقتل کرے سوائے اس کے کہ نادانستہ ہوجائے۔
اورجوکوئی کسی مومن کوغلطی سے قتل کردے تو ایک مومن غلام کوآزاد کرے۔
اورمقتول کے وارثوں کوخوں بہادے۔ ہاں اگروہ (مقتول کے ورثا خوں بہا) معاف کردیں (توانھیں اختیار ہے) مگر غلام آزاد کرے۔
ہاں اگر مقتول مومن ہو ا وراس کا تعلق اس قوم سے ہوجوتم سے دشمنی رکھتی ہے توخوں بہانہ دیا جائے ۔
فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ۰ۭ
وَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍؚبَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ
فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ۰ۚ
فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ۰ۡ
تَوْبَۃً مِّنَ اللہِ۰ۭ
وَکَانَ اللہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا۹۲
وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا
فَجَزَاۗؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا
وَغَضِبَ اللہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا۹۳
صرف مسلمان غلام آزاد کرے۔
اوراگرمقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جس سے تمہارا معاہدہ ہے۔
تواس کے وارثوں کوخوں بہادیا جائے اورمومن غلام آزاد کرے۔
لہٰذا اگر کسی میں اس کی استطاعت نہ ہو تواس کوچاہئے کہ مسلسل دوماہ کے روزے (کفارے کے طورپر) رکھے توبہ کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے۔
اورواقعی اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں( تجاویز الٰہی نہایت ہی عالمانہ وحکیمانہ ہیں)
اورجوکوئی کسی مومن کوعمداً (دانستہ ) قتل کردے۔
تو (آخرت میں) اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔
اوراس پراللہ تعالیٰ کا غضب اوراللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی رہے گی اوراس کے لیے (اللہ تعالیٰ نے) بڑا ہی سخت عذاب تیار کررکھا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَتَبَیَّنُوْا
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا۰ۚ
ائے ایمان والو جب تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو توتحقیق سے کام لیا کرو(یعنی دوست ودشمن کی جانچ کرلیا کرو)
اورکوئی شخص تم پرسلام میں سبقت کرے (سلام کے ذریعہ جوشعار اسلامی ہے اپنا مسلمان ہونا ظاہر کرے) توجواب میں یہ نہ کہو کہ تومسلمان نہیں ہے (ہوسکتا ہے کہ وہ سچا مسلمان ہو)
توضیح : ایک دفعہ صحابہ کے لشکر میں ایک شخص سلام کہتا ہوا آیا۔ اس کی غرض یہ تھی چونکہ میں مسلمان ہوں ان کوخبرکردوں تا کہ غلطی سے مجھے قتل نہ کرڈالیں۔ صحابہ میں سے ایک شخص نے اس خیال سے کہ یہ صرف ظاہرداری کرتا ہے۔ اسے قتل کرڈالا۔ چونکہ یہ قتل اسلامی قانون کے خلاف تھا اس لیے یہ آیت نازل ہوئی جنگ کے موقع پرکافرجان بچانے کی خاطر مسلمانوں کودیکھتے توالسلام علیکم کہتے اور کلمہ لاالٰہ الا اللہ پڑھ کراپنا مسلمان ہونا ظاہر کرتے اور بچ جاتے۔ بعض وقت مسلمانوں کوشبہ ہوتا کہ یہ کافر ہے۔ جان بچانے کے لیے حیلہ کررہا ہے قتل کربیٹھتے اوراس کی چیزیں مال غنیمت کے طورپرلے لیتے۔ حضرت نبیٔ محترمﷺ ایسے موقعوں پرسخت تنبیہ فرماتے پھر بھی ایسے واقعات پیش آتے رہے۔ آخر کاراللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں ہدایتیں نازل فرمائیں جس کا منشا یہ ہے کہ تحقیق سے کام لیا جائے شبہ پرکسی کا قتل نہ ہونا چاہئے۔ ایک کافر کوغلطی سے چھوڑدینا کئی درجہ بہتر ہے کہ ایک مومن کوشبہ پرقتل کردیا جائے۔
تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۰ۡ
فَعِنْدَ اللہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ۰ۭ
کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللہُ عَلَیْکُمْ
فَتَبَیَّنُوْا۰ۭ اِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۹۴
تم تودنیا کے (زائل ہوجانے والے) مال غنیمت ہی کو تلاش کرتے ہو۔
پس اللہ تعالیٰ کے پاس (تمہارے لیے) بہت سی غنیمتیں ہیں (اوروہ اہل ایمان کے لیے مختص ہیں۔ اپنے وقت پر مل کررہیں گی)
تم بھی تواس سے پہلے ایسے ہی تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تم پراحسان کیا(تم کومسلمان ہونے کی توفیق بخشی۔)
لہٰذا اچھی طرح تحقیق کرلو( اس کے بعد تلوار اٹھاؤ) تم جوکچھ عمل کرتے ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہیں۔
لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ
وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۰ۭ
فَضَّلَ اللہُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً۰ۭ
وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی۰ۭ
وَفَضَّلَ اللہُ الْمُجٰہِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا۹۵ۙ
جومسلمان کسی عذرکے بغیر(گھروں میں) بیٹھے رہتے ہیں (شریک جہاد نہیں ہوتے اورلڑنے سے جی چراتے ہیں)
اوروہ مجاہدین جواللہ تعالیٰ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرتے ہیں، وہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔
اللہ تعالیٰ نے جان ومال سے جہاد کرنے والوں کوبیٹھے رہنے والوں پرفضیلت بخشی اوردرجات بڑھائے۔
اللہ تعالیٰ نے سبھوں کواچھا اجردینے کا وعدہ فرمایا ہے (دیگر اعمال صالحہ کی وجہ)
اوراللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کوبیٹھے رہنے والوں پرفضیلت بخشی اوراجرعظیم عطا فرمایا۔
دَرَجٰتٍ مِّنْہُ وَمَغْفِرَۃً وَرَحْمَۃً۰ۭ
وَ کَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۹۶ۧ
جن کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس بڑے بڑے درجات ہیں اورمغفرت ہے اوررحمت ہے۔
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے بڑے ہی رحیم ہیں۔ ( وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا ۔ وہ اہل ایمان پربڑے ہی رحیم ہیں)
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ۰ۭ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ۰ۭ
قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا۰ۭ
فَاُولٰۗىِٕکَ مَاْوٰىھُمْ جَہَنَّمُ۰ۭ
وَسَاۗءَتْ مَصِیْرًا۹۷ۙ
جولوگ نفاق کی حالت میں مرتے ہیں، فرشتے جب ان کی روح قبض کرنے لگتے ہیں توپوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے۔ (کیوں تمہاری یہ حالت ہے) توکہتے ہیں ہم اپنے وطن میں مجبور وبے بس تھے۔
فرشتے کہیں گے کیا اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم وہاں ہجرت کر جاتے(ان کا عذرناقابل قبول ہوگا)
لہٰذا ان سب کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔
اوروہ بہت ہی بری جگہ ہے۔
اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ
لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّلَا یَہْتَدُوْنَ سَبِیْلًا۹۸ۙ
فَاُولٰۗىِٕکَ عَسَى اللہُ اَنْ یَّعْفُوَعَنْھُمْ۰ۭ
وَکَانَ اللہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۹۹
البتہ جومرد معذورہیں اورعورتیں اوربچے جوبے بس ہیں۔
(ہجرت کے لیے) نہ توکچھ استطاعت رکھتے ہیں اورنہ ہی راستہ جانتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں معاف کردیں گے۔
اور(واقعی) اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے بڑے ہی بخشنے والے ہیں۔
موضح القرآن:۔ یہ آیت ان کے حق میں ہے، جوکافروں کے شہرمیں دل سے مسلمان ہیں اوران کے ظلم کی وجہ ظاہر نہیں ہوسکتے۔اگراپنی روزی آپ پیدا کرسکتے ہیں اورسفر کی تدبیر سے واقف ہیں توانکا عذر قبول نہ کرنا چاہئے اورشہر میں جارہیں۔ ملک حق تعالیٰ کا کشادہ ہے اگروہاں سے نہ نکلیں اوراسی میں رہیں توان پرعذاب ہوگا اوراگر نا چارہیں اورپرائے بس میں توامید ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں بخش دیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ جس ملک میں مسلمان کھلانہ رہ سکے وہاں سے نکلنا فرض ہے۔
وَمَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ
اورجواللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرے (یعنی اپنے دین کی حفاظت کے لیے ترک وطن کرے۔)
یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً۰ۭ
وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ
فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللہِ۰ۭ
وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۱۰۰ۧ
تووہ زمین میں کشادہ جگہ اوربافراغت روزی پائے گا۔
اورجواپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے پھرراستہ میں اس کوموت آجائے۔
اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوچکا۔
اوراللہ تعالیٰ بڑی ہی بخشش فرمانے رحم کرنے والے ہیں۔
وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ۰ۤۖ
اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۰ۭ
اورجب تم سفر کے لیے نکلو تواپنی نماز کومختصر کرلینے میں تم پرکوئی مواخذہ نہ ہوگا۔
اگریہ اندیشہ ہوکہ کافر تمہیں ستائیں گے۔
توضیح : سفر سے عام سفرمراد ہے جہاد کے لیے ہو۔یا تجارت کے لیے یا کسی اورکام کے لیے نماز کا قصرکرنا درست ہے اورکافروں کے ستانے کا ڈراس وقت تھا جب یہ حکم آیا آنحضرتﷺ کے عمل سے ہرسفر میں قصر کی سہولت ملی۔
چاررکعت والی نماز میں دورکعت نماز پڑھی جائے گی۔ مغرب کے تین رکعت پڑھے جائیں گے البتہ فجر کی سنت نماز پڑھی جائے گی۔ رسول اللہﷺ سفر میں بھی فجر کی سنت پڑھا کرتے تھے۔
اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا۱۰۱
وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ
فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ
فَلْتَقُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنْھُمْ مَّعَکَ
وَلْیَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَھُمْ۰ۣ
فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَاۗىِٕکُمْ۰۠
یقیناً کافرتمہارے کھلے دشمن ہیں۔
(ائے نبیﷺ) جب آپ جنگ کے موقع پرمسلمانوں کے ساتھ ہوں۔
اوربہ حالت جنگ انھیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوں۔
توان میں سے ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی رہے۔
اوراپنے ہتھیار سنبھالے رہے یعنی مصلح ہوکر نماز پڑھے۔
پھر جب وہ سجدہ کرلیں توتمہارے پیچھے دشمن کے مقابل چلے جاویں۔
وَلْتَاْتِ طَاۗىِٕفَۃٌ اُخْرٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ
اوردوسری جماعت جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ( جودشمن کے مقابل کھڑی تھی) وہ آکر آپ کے ساتھ نماز پڑھے (دوسری رکعت بھی پڑھ کر دشمن کے مقابل آجائے۔ پہلا گروہ دوسرے گروہ کے آجانے کے بعد نماز کی تکمیل کرلے )
وَلْیَاْخُذُوْا حِذْرَھُمْ وَاَسْلِحَتَھُمْ۰ۚ
اور اپنے حفاظتی ہتھیار کے ساتھ مسلح رہے۔
وَدَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَاَمْتِعَتِکُمْ
فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَۃً وَّاحِدَۃً۰ۭ
وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَنْ تَضَعُوْٓا اَسْلِحَتَکُمْ۰ۚ
وَخُذُوْا حِذْرَکُمْ۰ۭ
اِنَّ اللہَ اَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًا۱۰۲
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ۰ۚ
کافر تویہ چاہتے ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اورسامان حرب سے ذرا بھی غافل ہوجاؤ
تووہ تم پریکبارگی حملہ کردیں۔
اوراگربارش کی وجہ تم کوتکلیف پہنچے یا تم بیمار ہوتوہتھیار اتاردینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
مگرپھر بھی اپنے حفاظتی سامان کے ساتھ چوکنے رہو۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے کافروں کیلئے ذلت آمیز عذاب تیار کررکھا ہے۔
جب تم نماز سے فارغ ہوجاؤ تواٹھتے بیٹھتے لیٹے ہرحال میں اللہ تعالیٰ کو(اسوۂ حسنہ کے مطابق) یاد کرتے رہو۔
توضیح : اس آیت سے ظاہر ہے کہ نماز مسلمانوں کے لیے ایک ایسا عمل ہے جس سے کسی حال میں غفلت جائز نہیں حتی کہ عین جنگ کی حالت میں بھی۔
فَاِذَا اطْمَاْنَـنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ۰ۚ
اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا ۱۰۳
وَلَا تَہِنُوْا فِی ابْتِغَاۗءِ الْقَوْمِ۰ۭ
اورجب تمہیں اطمینان نصیب ہوجائے یعنی خوف جاتا رہے تواس طرح نماز پڑھو(جس طرح امن کی حالت میں پڑھتے ہو)
بے شک نماز پابندیٔ وقت کے ساتھ اہل ایمان پرفرض ہے۔
اورکفار کے تعاقب میں ذرا سی بھی مداہنت نہ برتویعنی کسی قسم کی کمزوری نہ دکھاؤ۔
اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَـمَا تَاْلَمُوْنَ۰ۚاِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَـمَا تَاْلَمُوْنَ۰ۚ
اگرجنگ میں تم زخم خوردہ ہوگئے ہوتوکفار بھی تمہاری طرح زخم خوردہ ہیں۔
توضیح : باطل کے لیے کفار اس قدر تکلیف برداشت کرتے ہیں تواہل حق کے لیے کیاکچھ نہ کرنا۔
وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ۰ۭ وَکَانَ اللہُ عَلِــیْمًا حَکِــیْمًا۱۰۴ۧ
اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے (جس اجرکی) تم امید رکھتے ہو وہ نہیں رکھتے۔ اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔
یعنی جنگ کی تدابیر تعاقب کا حکم نہایت ہی عالمانہ وحکیمانہ ہے۔
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ
لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىکَ اللہُ۰ۭ
وَلَا تَکُنْ لِّلْخَاۗىِٕنِیْنَ خَصِیْمًا۱۰۵ۙ
وَّاسْتَغْفِرِ اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۱۰۶ۚ
(اے محمدﷺ) بے شک ہم نے یہ کتاب آپ حق کے ساتھ نازل کی ہے۔
تا کہ آپ ہدایت الٰہی کے مطابق لوگوں کے مقدمات فیصل کریں۔
اوربددیانت لوگوں کی حمایت ومدافعت میں جھگڑنے والوں کاساتھ نہ دو۔
اوراللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو۔بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی درگزرکرنے والے بڑے ہی رحیم ہیں۔
توضیح : ایک شخص طعمہ نے ایک انصاری کی زرہ چرالی۔ زرہ کے مالک نے آنحضرتﷺ سے استغاثہ کیا اور طعمہ پراپنا شبہ ظاہر کیا۔ مگرطعمہ کے بھائی بندوں نے آپس میں اتفاق کرکے ایک یہودی پرالزام تھوپ دیا۔ قریب تھا کہ نبیﷺ مقدمہ کی ظاہری روداد کی بناء پریہودی کے خلاف فیصلہ فرمادیتے اتنے میں وحی آئی اور معاملہ کی ساری حقیقت کھول دی گئی۔ اس آیۂ کریمہ میں یہ عام ہدایت اہل ایمان کوملتی ہے کہ تم دغابازوں خائنوں کے طرف دارنہ بنو اورنہ ان کی طرف سے بحث کرو۔
مسلمان وکیل جوچوروں، رہزنوں، خائنوں اورہرقسم کے مجرموںکی طرف سے مقدمات میں وکالت کرتے۔ اوراپنی لسانی طاقت اورمغالطہ آمیز تقریروں سے ان کوسزا سے بچالیتے ہیں، انھیں اس ارشاد ربانی پرعمل کرنا چاہئے۔
وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ۰ۭ
اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِــیْمًا۱۰۷ۚۙ
یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا
اورنہ ان لوگوں کا ساتھ دوجوخود ہی معصیت کے مرتکب ہیں۔
یقیناً اللہ تعالیٰ خیانت کا رعادی گنہگار کوپسند نہیں فرماتے۔
یہ لوگوں سے تواپنے گناہ چھپاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپاسکتے۔
یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللہِ
وَھُوَمَعَھُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ۰ۭ
وَکَانَ اللہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا۱۰۸
اوروہ(اللہ) اس وقت بھی ان کے ساتھ ہے۔ جب یہ راتوں کوچھپ کراللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف مشورے کرتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال کواحاطہ کیے ہوئے ہیں۔
ھٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَاۗءِ جٰدَلْتُمْ عَنْھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۰ۣ
فَمَنْ یُّجَادِلُ اللہَ عَنْھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ
اَمْ مَّنْ یَّکُوْنُ عَلَیْہِمْ وَکِیْلًا۱۰۹
وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللہَ یَجِدِ اللہَ
غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۱۱۰
تم وہی توہوکہ ان مجرمین کی طرف سے دنیا کی زندگی میں (ان کی حمایت میں انھیں بچانے جرم سے بری ثابت کرنے کی) خوب خوب وکالت کرتے ہو۔
پھرقیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کی طرف سے کون بحث کرے گا۔
یا ان کی طرف سے کون ان کا وکیل بنے گا(یعنی کون ان کی کارسازی کرے گا)
اورجوشخص کوئی براکام کربیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرجائے پھروہ اللہ تعالیٰ سے معافی چاہے تووہ یقیناً اللہ تعالیٰ کوبڑاہی بخشنے والا بڑا ہی رحم کرنے والا پائے گا۔
وَمَنْ یَّکْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا یَکْسِـبُہٗ عَلٰی نَفْسِہٖ۰ۭ
وَکَانَ اللہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا۱۱۱
وَمَنْ یَّکْسِبْ خَطِیْۗــئَۃً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِہٖ بَرِیْۗــــــًٔـا
فَقَدِ احْتَمَلَ بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا۱۱۲ۧ
اورجوکوئی گناہ کرتا ہے اس کا ذمہ دارخودہوتا ہے یا جو گناہ کرتا ہے اس کا وبال اسی پرہے۔
اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔
اورجوکوئی سوچ سمجھ کربرا کام یا کوئی گناہ کرے پھر اس گناہ کوکسی بے گناہ کے سرتھوپ دے۔
تواس نے بہتان اورصریح گناہ کا باراٹھالیا۔
توضیح : ابن جریر نے فرمایا کہ ’’خطیئۃ‘‘ عمد اوربلاعمد ہردوگناہ پرشامل ہے اوراثم سے وہی گناہ مراد ہے جوعمداً کیا جائے۔
وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہٗ
اوراگراللہ تعالیٰ کا فضل اوراللہ تعالیٰ کی رحمت آپؐ کے شامل حال نہ ہوتی
لَہَمَّتْ طَّاۗىِٕفَۃٌ مِّنْھُمْ اَنْ یُّضِلُّوْکَ۰ۭ
وَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ
وَمَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَیْءٍ۰ۭ
وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ۰ۭ
وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا۱۱۳
توان میں کا ایک فریق قطعاً آپ سے ایک غلط فیصلہ کروالیتا۔
وہ اپنے سوا کسی کا بہکانہیں سکتے۔
اوروہ آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
اوراللہ تعالیٰ نے آپ پرکتاب نازل کی اوردانائی بخشی اور آپؐ کو ان تمام امور کی تعلیم دی جو فرائض نبوت انجام دینے کے لئے ضروری ہیں۔
اور آپ پریہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے۔
لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ
اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍؚ بَیْنَ النَّاسِ۰ۭ
وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ
فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا۱۱۴
ان کی اکثر وبیشتر سرگوشیوں میں بھلائی نہیں ہے۔
سوائے اس کے کہ کوئی صدقہ، خیرات یا کسی نیک کام کا مشورہ دے یالوگوں کے معاملات میں اصلاح کی تجویز پیش کرے۔
اورجوکوئی ایسے کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کرے گا۔
توہم عنقریب اس کوبڑا اجر عطا کریں گے۔
وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰى
وَیَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ
نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۰ۭ
وَسَاۗءَتْ مَصِیْرًا۱۱۵ۧ
اورہدایت واضح ہوجانے کے بعد جوکوئی رسول کی مخالفت کرے گا۔
اوراہل ایمان (صحابہ کرام صالحین سلف) کی روش اختیار نہ کرے گا تو
ہم اس کو اسی حالت پرالٹ دیں گے جس راہ کووہ اختیار کررکھا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کوجہنم میں داخل کریں گے۔
اوروہ (نہایت ہی) بری جگہ ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ
وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۰ۭ
یقیناً اللہ تعالیٰ (اس گناہ کوہرگز) معاف نہیں فرماتے کہ کسی کواللہ کے ساتھ شریک فرمانروائی قراردے۔
اوراس کے سوا دوسرے تمام گناہ معاف کیے جاسکتے ہیں جس کو حق تعالیٰ معاف کرنا چاہیں۔
توضیح : ایک دوسری آیت میں صراحتاً آیا ہے کہ مشر ک کے لیے جنت حرام ہے۔
حدیث قدسی میں ہے کہ: ائے ابن آدم اگرتیرے گناہ آسمان وزمین کے خلا کوپرکرنے کے برابر ہوں گے مگرشرک کا شائبہ بھی ان میں نہ ہوگا تومیں قادر ہوں کہ سب گناہ کوبخش دوں ۔(ترمذی)
بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت بھی طعمہ کے بارے میں نازل ہوئی وہ مکہ چل دیا اور شرک کی حالت میں مرا بعض نے کہا کہ ایک بوڑھے سائل کے بارے میں نازل ہوئی۔ جس نے کہا کہ ائے اللہ کے نبیﷺ میں شرک سے محفوظ ہوں مگربڑا گنہگارہوں۔ آپؐ پریہ آیت اتری۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے سارے قرآن میں یہ آیت بہت پسند ہے۔
وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۱۱۶
جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور شریک ٹھہرایا وہ راہ راست سے بہت دور جا پڑا ۔
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا۰ۚ
اللہ تعالیٰ کے سوا(مدد کے لیے) اُناث کوپکارتے ہیں۔
توضیح:۔ مشرکین مکہ مدد کے لیے فرشتوں کوپکارتے تھے۔ عربی زبان میں ملائکہ صیغہ تانیث کے ساتھ آیاہے۔
وَاِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا۱۱۷ۙ
لَّعَنَہُ اللہُ۰ۘ
وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۱۱۸ۙ
اور( وہ دراصل) شیطان سرکش کو(مدد کے لیے) پکارتے ہیں
جس پراللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔
اور(شیطان نے اللہ تعالیٰ سے) کہا تھا کہ میں آپ کے بندوں سے اپنا حصہ لے کررہوں گا۔
توضیح : ان کے اندربداعتقادی پیدا کروں گا اوراپنا تابعدار بنالوں گا۔
وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّھُمْ
اورانھیں بہکاؤں گا۔ نجات کی بے جا امیدیں دلاتا رہوں گا۔
توضیح : ان کویہ امید دلاؤں گا کہ محمد ﷺ کا کوئی امتی دوزخ میں نہ جائے گا۔ آپؐ کاامتی ہونا ہی نجات کے لیے کافی ہے۔ اگرچہ کہ اس کا عمل مستوجب عذاب ہی کیوں نہ ہو۔
وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ
اورمیں ان کوحکم دوں گا (جس کی بناء پر وہ اپنے معبودانِ باطل کی نیاز ونذر کے لیے بطورنشانی) چوپایوں کے کان چیرتے (کاٹتے) رہیں گے ( تا کہ ان جانوروں کا بزرگوں کے لئے مختص ہوجانا عوام پرعیاں ہوجائے۔ اوروہ بھی ان کا دیکھا دیکھی شرک کرنے لگیں)
وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ۰ۭ
اورانھیں معصیت کا حکم دوں گا پھروہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں کوبگاڑاکریں گے (اس میں ردوبدل کریں گے)
ڈاڑھی منڈھوانا۔بدن گودوانا۔ مردوں کوزنانی وضع دینا اورعورتوں کومردوں کے رنگ ڈھنگ میں ڈھالنا جس کی ابتدا رومیوں نے کی تھی۔ یہ سب اعمال فسق ہیں اوربڑی ہی معصیت ہے۔
وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللہِ
فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا۱۱۹ۭ
یَعِدُھُمْ وَیُمَنِّیْہِمْ۰ۭ
وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۱۲۰
اُولٰۗىِٕکَ مَاْوٰىھُمْ جَہَنَّمُ۰ۡوَلَا یَجِدُوْنَ عَنْھَا مَحِیْصًا۱۲۱
اورجوشخص اللہ تعالیٰ کوچھوڑکرشیطان کواپنا رفیق بنائے گا
یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بجائے شیطان کی عبادت کرے گا۔
تووہ انتہائی نقصان میں رہا ۔ ایسا نقصان جس کی تلافی ممکن نہیں۔
وہ(شیطان) ان سے جھوٹے وعدے کرتا اور انھیں بیجا امیدیں دلاتا رہتا ہے۔
اورشیطان ان سے صرف جھوٹے وعدے کرتا ہے
لہٰذا ایسے تمام لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جہاں سے وہ نکل نہ سکیں گے۔ (یہ وہ لوگ ہیں جوشیطان کی پیروی کرتے ہیں۔)
یعنی
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
سَـنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا۰ۭ وَعْدَ اللہِ حَقًّا۰ۭ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِیْلًا۱۲۲
اورجولوگ (اللہ رسول کی تعلیم کے مطابق) ایمان لاتے اورنیک کام کرتے ہیں۔
ہم ان کویقیناًایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اوراللہ تعالیٰ سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے۔
لَیْسَ بِاَمَانِیِّکُمْ وَلَآ اَمَانِیِّ اَھْلِ الْکِتٰبِ۰ۭ
مَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا یُّجْزَ بِہٖ۰ۙ
(نجات کا انحصار) نہ تمہاری بیجا تمناؤں پرہے اورنہ اہل کتاب کی خام خیالیوں پر
جوکوئی برا کام کرے ( نجات اخروی کے تعلق سے مشرکانہ عقیدہ رکھے) وہ اس کی جزا پائے گا۔
وَلَا یَجِدْ لَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا۱۲۳
اوراللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کواپنے لیے حامی ومددگار نہ پائیگا۔
وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَھُوَمُؤْمِنٌ
فَاُولٰۗىِٕکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا۱۲۴
اورجوکوئی نیک عمل کرے چاہے مرد ہویا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو۔
ایسے ہی لوگ جنت میں داخل کیے جائیں گے اوران کے اجر میں رتی برابر کمی نہ کی جائے گی۔(ان پرکسی قسم کا ظلم نہ ہوگا)
وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ
وَّاتَّبَعَ مِلَّــۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا۰ۭ
اس سے بہتر کس کا طریقۂ زندگی ہوسکتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے آگے سرتسلیم جھکادیا ہواوروہ نیک کردار بھی ہو۔
اورحنیف ہوکر ملت ابراہیمی کی پیروی کرے (حنیف وہ جوباطل سے کٹ کرحق سے جڑجائے)
وَاتَّخَذَ اللہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلًا۱۲۵
اوراللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کواپنا دوست بنایا (جوملت ابراہیمی کا پیروہوگا۔ اس کو اللہ تعالیٰ دوست بنالیں گے)
وَلِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۰ۭ
وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا۱۲۶ۧ
اورجوکچھ آسمانوں اورزمین میں ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔
اوراللہ تعالیٰ ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہیں (یعنی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی سے باہر نہیں ہے۔)