☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

نۗ

وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ۝۱ۙ

مَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ۝۲ۚ

ن ٓ۔ یہ حروف مقطعات میں سے ہے، جس کے کوئی معنی نبی کریم ﷺ سے بہ سند صحیح منقول نہیں ہے۔
قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔
(قلم کے ساتھ لکھی جانے والی جس چیز کی قسم کھائی جارہی ہے اس سے مراد قرآن مجید ہے)
(ائے نبی ﷺ) آپؐ کے رب کا فضل وکرم ہے کہ آپؐ مجنون نہیں ہیں

توضیح :نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل اہل مکہ آپؐ کو اپنی قوم کا بہترین انسان مانتے تھے،اور آپؐکی دیانت داری وامانت داری۔ عقل وفراست پر مکمل اعتقاد رکھتے تھے، لیکن جب آپؐ نے اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان فرمادیا اور قرآن مجید کی آیتیں سنانے لگے تو آپؐ کو دیوانہ کہنے لگے۔اللہ تعالیٰ نے اسی بہتان تراشی کی تردید فرمائی ہے۔

وَاِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَيْرَ مَمْنُوْنٍ۝۳ۚ

اور یقیناً آپؐکے لئے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیںہے۔

توضیح : مجنون کو تو اس کی مجنونانہ حرکتوں پر کوئی اجر نہیں ملتا، آپؐ چونکہ نبیٔ برحق ہیں، اس لئے آپؐ کو اپنی مساعی جمیلہ کااجر مسلسل ملتا رہے گا۔

وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۝۴

اور بے شک آپؐ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں۔

توضیح :حضرت عائشہؓعنہا فرماتی ہیں کَانَ خَلَقَہ قُراٰنَا آپؐ کے اخلاق قرآن کے مطابق تھے۔(احمد، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ)
آپؐ نے دنیا کے سامنے محض قرآن کی تعلیم ہی پیش نہیں کی تھی بلکہ خود اس کا مجسم نمونہ بن کر دکھا یا۔ جن باتوں کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا آپؐ نے ان پر سب سے زیادہ عمل فرمایا، جن باتوں سے منع کیا گیا ان سے کامل اجتناب فرمایا حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے کسی خادم کو نہیں مارا، کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھا یا۔ جہاد فی سبیل اللہ کے سوا آپؐ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، اورنہ آپؐ نے کسی سے اپنا انتقام لیا۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں، میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی ہے، آپؐنے کبھی میری کسی بات پر اُف تک کہا، نہ کبھی میرے کام پر یہ فرمایا کہ تم نے ایسا کیوںکیا۔(بخاری ومسلم)

فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُوْنَ۝۵ۙ
بِاَىيِّكُمُ الْمَفْتُوْنُ۝۶
اِنَّ رَبَّكَ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ
عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰۠
وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ۝۷
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ۝۸
وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۝۹

عنقریب تم بھی دیکھ لوگے اور وہ بھی دیکھ لیں گے ۔
کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا ہے۔
بے شک آپؐ کا پر ور دگار خوب جاتنا ہے کہ کون اللہ کی راہ سے بھٹک گیا ہے
اللہ تعالیٰ ان کو بھی خوب جانتا ہے جو سیدھی راہ چل رہے ہیں ۔
لہٰذا آپؐ ان جھٹلا نے والوں کے دباؤ میں ہر گز نہ آیئے ۔
یہ تو چاہتے ہیں کہ آپ کچھ مداہنت برتیں تو وہ بھی مداہنت کریں ۔

توضیح :آپ ہمارے مذہب کو باطل اور ہمارےبتوں کو بے اختیار نہ کہیں تو ہم بھی آپ کی مخالفت نہ کریں، یاآپؐ اپنے دین میں کچھ ترمیم کریں تو ہم بھی آپؐ کے ساتھ مصالحت کرلیں، مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد فرمایا جارہا ہے۔

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّہِيْنٍ۝۱۰ۙ

ہَمَّازٍ مَّشَّاۗءٍؚبِنَمِيْمٍ۝۱۱ۙ
مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍ۝۱۲ۙ

عُتُلٍؚّبَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍ۝۱۳ۙ

آپ کسی ایسے شخص کا کہنا ہر گز نہ مانیں جو بہت قسمیں کھانے والا گھٹیا قسم کا آدمی ہے۔
طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھا تا پھرتا ہے۔
نیک کام سے روکتا ہے،حد اعتدال سے گزر جانے والا ہے سخت بد کار ہے
بد مزاج و شریر النّفس ہے اور ان سارے عیوب کے ساتھ ساتھ (اپنے کو دوسرے خاندان سے منسوب کرنے والا) بد اصل ہے ۔

توضیح :حضرت جیرؓ اور شعبیؓ کہتے ہیں یہ لفظ ’’زنیم‘‘ اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو لوگوں میں اپنے شر کی وجہ مشہور ہو۔ اس شخص کانام لئے بغیر اس کی برائیاں بیان کی گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ مکّہ میں وہ شخص اپنی برائیوں میں اتنا مشہور تھا کہ اس کانام لینے کی ضرورت نہ تھی ۔ ہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ اشارہ کس کی طرف ہے ۔

اَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِيْنَ۝۱۴ۭ
اِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِ اٰيٰتُنَا قَالَ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۵
سَنَسِمُہٗ عَلَي الْخُرْطُوْمِ۝۱۶

اگر چہ کہ وہ کتنا ہی زیادہ مال واولاد رکھتا ہو۔
جب ہماری آیتیں اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو کہتا کہ اگلوں کے بے سند افسانے ہیں۔
سو ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے(جو اس کے ذلیل ہونے کی علامت ہوگی)

توضیح : جنگ بدر میں اس کی ناک پر زخم لگا تھا جو زندگی بھر مند مل نہ ہوسکا اور دنیا و آخرت میں اس کے ذلیل و خوار ہونے کا نشان بنا رہا۔

اِنَّا بَلَوْنٰہُمْ
كَـمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ۝۰ۚ
اِذْ اَقْسَمُوْا لَيَصْرِمُنَّہَا مُصْبِحِيْنَ۝۱۷ۙ

وَلَا يَسْتَثْنُوْنَ۝۱۸
فَطَافَ عَلَيْہَا طَاۗىِٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ

ہم نے(ان اہل مکہ کو) اس طرح آزمائش میں ڈالا
جس طرح ایک باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا
جب کہ انھوں نے قسمیں کھا کر کامل یقین کے ساتھ کہا کوئی استثنائی کیفیت تک سوچی نہ تھی
ان شاء اللہ تک نہ کہا تھا۔
آپؐ کے پروردگار کی طرف سے (راتوں رات) اس پر (بادسموم) ایک جلا دینے والی ہوا کا جھونکا چل گیا

وَہُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ۝۱۹
فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِيْمِ۝۲۰ۙ
فَتَنَادَوْا مُصْبِحِيْنَ۝۲۱ۙ
اَنِ اغْدُوْا عَلٰي حَرْثِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰرِمِيْنَ۝۲۲

اور وہ سوتے ہی رہے
پس وہ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ہوگیا
صبح ان لوگوں نے ایک دوسرے کو پکارا۔
اگر تمہیں پھل توڑنے ہیں تو صبح سویرے اپنی کھیتی کی طرف چل نکلو۔

فَانْطَلَقُوْا وَہُمْ يَتَخَافَتُوْنَ۝۲۳ۙ
اَنْ لَّا يَدْخُلَنَّہَا الْيَوْمَ عَلَيْكُمْ مِّسْكِيْنٌ۝۲۴ۙ

چنانچہ وہ آپس میں چپکے چپکے (دبی آواز میں) کہتے جاتے ہیں ۔
کہ آج کوئی مسکین ومحتاج تمہارے اس باغ میں داخل ہونے نہ پائے۔

وَّغَدَوْا عَلٰي حَرْدٍ قٰدِرِيْنَ۝۲۵

فَلَمَّا رَاَوْہَا قَالُوْٓا اِنَّا لَضَاۗلُّوْنَ۝۲۶ۙ

بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ۝۲۷
قَالَ اَوْسَطُہُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْلَا تُـسَبِّحُوْنَ۝۲۸

(چنانچہ کچھ نہ دینے کا فیصلہ کئے ہوئے) صبح سویرے جلدی جلدی وہاں گئے جیسے کہ وہ پھل توڑنے پر قادر ہیں۔
مگر جب باغ کو (اس حالت میں) دیکھاتو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے ہیں۔
نہیں، بلکہ ہم محروم رہ گئے۔
ان میں جو نسبتاً میا نہ روتھا، کہنے لگا، کیا میں نےتم سے کہا نہ تھا؟ (کہ تم اپنی اس حرکت اور بری نیت سے باز آجاؤ اور) اللہ کے تسبیح کرو یعنی انشاء اللہ کہو کہ اللہ کی مشیت کے بغیر کامیابی محال ہے مگر تم نے توجہ نہ کی سواس کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑا) ۔(تب وہ نادم ہوئے اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا)

قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ۝۲۹

کہنے لگے پاک ہے ہمارا رب(اپنے بندوں پر کسی طرح کاظلم کرنے سے) بے شک ہم ہی قصور وار تھے۔

توضیح :باغ کی اس طرح جو تباہی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ہم پر ظلم کیا بلکہ ہم ہی ظالم تھے،کیونکہ اس کے عطاء کئے ہوئے مال میں فقیروں، محتاجوں کا جو حصہ تھا ہم نے انھیں دینا نہ چاہا تھا۔

فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَلَاوَمُوْنَ۝۳۰
قَالُوْا يٰوَيْلَنَآ
اِنَّا كُنَّا طٰغِيْنَ۝۳۱

عَسٰى رَبُّنَآ اَنْ يُّبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْہَآ
اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ۝۳۲
كَذٰلِكَ الْعَذَابُ۝۰ۭ وَلَعَذَابُ

پس وہ ایک دوسرے کو باہم ملامت کرنے لگے۔

(پھر سب متفق ہوکر) کہنے لگے افسوس ہمارے حال پر
بے شک ہم سر کش ہو گئے تھے(اسی طرح اعتراف قصور کیا اور تائب ہوکر کہا)
بعید نہیں کہ ہمارارب(توبہ کی برکت سے) ہمیں اس سے اچھا باغ عنایت کرے
اب ہم اپنے پر ور دگار سے رجوع کرتے ہیں۔
ایسا ہوتا ہے عذاب، اور آخرت کا عذاب تو اس سے بہ درجہا بڑاہے

الْاٰخِرَۃِ اَكْبَرُ۝۰ۘ
لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۝۳۳ۧ

کاش یہ لوگ جانتے ہوتے۔

توضیح : کفار مکّہ اس باغ والوں کے واقعہ کو بخو بی جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کو مانتے تھے لیکن اپنے فاسد خیال کے تحت غیر اللہ کو بھی شریک خدائی سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی اختیارات دے کر اپنی فرماں روائی میں شریک کر رکھا ہے۔

اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۳۴
اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ۝۳۵ۭ
مَا لَكُمْ۝۰۪ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ۝۳۶ۚ
اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ فِيْہِ تَدْرُسُوْنَ۝۳۷ۙ

بے شک ہر ہیز گاروں کے لئے ان کے رب کے پاس نعمتوں سے بھری ہوئی جنتیں ہیں۔
کیا ہم فرماں برداروں کا حال مجرموں کا ساکردیں؟
تمہیں کیا ہوگیا؟ تم کیسے حکم لگاتے ہو؟
کیا تمہارے پاس(اللہ تعالیٰ کی) کوئی آسمانی کتاب ہے۔جس میں تم یہ پڑھتے ہو۔

اِنَّ لَكُمْ فِيْہِ لَمَا تَخَيَّرُوْنَ۝۳۸ۚ

اَمْ لَكُمْ اَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَۃٌ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۙ
اِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُوْنَ۝۳۹ۚ

کہ اس میں تمہارے لئے وہی بات(لکھی ہوئی ہے) جس کو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو۔
یا تمہارے لئے قیامت تک کے لئے ہم پر کچھ عہد وپیمان ہیں

کہ تم جو مطالبہ کروگے وہ تمہیںمل جائے گا ۔

سَلْہُمْ اَيُّہُمْ بِذٰلِكَ زَعِيْمٌ۝۴۰ۚۛ

اَمْ لَہُمْ شُرَكَاۗءُ۝۰ۚۛ

فَلْيَاْتُوْا بِشُرَكَاۗىِٕہِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ۝۴۱
يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ

ان سے پو چھیئے کہ تم میں سے کون (اس بات کا دعویٰ کرتا ہے) کہ اس نے تمہارے اور تمہاری قوم کے لئے اللہ تعالیٰ سے ایسا عہد لے رکھا ہے۔
یا اس (دعوے میں) ان کے ٹھیرائے ہوئے کچھ شریک ہیں(جنھوں نے اس کا ذمّہ لیا ہو اگر ایسا ہے)
اور وہ اپنے دعوے میں سچّے ہیں تو اپنے شریکوں کولے آئیں

جس دن پنڈلی کھول دی جائیگی

توضیح :معنی تو یہ ہیں کہ جس دن پنڈلی کھولی جائے گی۔ پنڈ لی پرسے کپڑا ہٹا یا جائے گا۔یہ الفاظ کنا یہ ہیں۔ محاورہ کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ قیامت کے دن کی صعو بتیں اور ہولنا کیاں مراد ہیں،اس پر صحابہ کرامؓ وتا بعین کی ایک جماعت متفق ہے۔ نیز کشف ساقی سے حقائق کا کھل کر سامنے آنا بھی مراد ہےیعنی جس روز تمام حقیقتیں بے نقاب ہوںگی۔ سارے اختیارات کا اللہ تعالیٰ ہی کہ ہاتھ میں ہوناظاہر ہوجائے گا۔

وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۝۴۲ۙ
خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ۝۰ۭ
وَقَدْ كَانُوْا يُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَہُمْ سٰلِمُوْنَ۝۴۳

اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لئے بلا یا جائے گا تو وہ سجدہ نہ کر سکیں گے۔

ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوںگی،ذلّت ان پر چھارہی ہوگی اور (دنیوی زندگی میں) انھیں سجدہ کے لئے بلا یا جاتا تھا،
جب کہ وہ صحیح سالم تھے(انھیں کوئی عذر شرعی نہ تھا مگر وہ اس سے انکار کرتے تھے)

توضیح : قیامت کے دن علی الا علان اس بات کا مظاہرہ کرا یا جائے گا کہ دنیا میں کون اللہ کی عبادت کرنے والا تھا اور کون عبادت سے انحراف کرتا تھا۔ اس غرض کے لئے لوگوں کو بلا یا جائے گا کہ وہ اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوں، جولوگ دنیا میں عبادت گزار تھے وہ تو سجدہ میں گر پڑیں گے اور جن لوگوں نے دنیامیں اللہ کے آگے سر جھکانے سے انکار کیاتھا، ان کی کمر تختہ ہوجائے گی، ان کے لئے ممکن نہ ہوگا کہ اپنے عبادت گزار ہونے کا جھوٹا مظاہرہ ہی کر سکیں۔غرض کہ وہ ذلّت اور پشیمانی کے ساتھ کھڑے کہ کھڑے رہ جائیں گے۔

فَذَرْنِيْ وَمَنْ يُّكَذِّبُ بِہٰذَا الْحَدِيْثِ۝۰ۭ
سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۴۴ۙ

پس(ائے نبی ﷺ) آپ اس کلام کے جھٹلانے والوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیجئے(میں ان سے نمٹ لوں گا)
ہم انھیں بتدریج تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انھیں خبر بھی نہ ہوگی۔

توضیح :ظلم وطغیان کے نتیجہ میں دشمنان اسلام کو انتقاماً دنیاوی نعمتوں سے بہرور ہونے کا موقع دیا جاتا رہے گا۔ دنیا کی ان خوش حالیوں کو دیکھ کر ان کے حصول میں انہماک، ماورائے دنیا سے بے خبر ی کا باعث بنے گا۔ کفر وشرک کے با وجود دنیوی نعمتوں کا حاصل ہوتے رہنا انعام نہیں ،ان کے لئے سامان ہلاکت ہوگا۔

وَاُمْلِيْ لَہُمْ۝۰ۭ اِنَّ كَيْدِيْ مَتِيْنٌ۝۴۵
اَمْ تَسْــَٔــلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ۝۴۶ۚ

اور میں انھیں مہلت دیئے جاتاہوں،تاکہ وہ گناہوں ( تاکہ وہ گناہوں میں اور زیادہ بڑھیں )بے شک میری تدبیریں نہایت ہی مستحکم ہیں۔
کیا آپ (بہ سلسلۂ تبلیغ) ان سے کوئی معاوضہ طلب کررہے ہیں کہ وہ اس تاوان کے بوجھ سے دبے جارہے ہوں؟

اَمْ عِنْدَہُمُ الْغَيْبُ فَہُمْ يَكْتُبُوْنَ۝۴۷
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ۝۰ۘ

یا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں؟

پس آپؐ اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کیجئے اور مچھلی والے (یونس علیہ السلام) کی طرح نہ ہوجایئے

توضیح :حضرت یونس علیہ السلام اپنی بے صبری کے سبب مچھلی کے پیٹ میں پہنچا دیئے گئے تھے۔

اِذْ نَادٰى وَہُوَمَكْظُوْمٌ۝۴۸ۭ

لَوْلَآ اَنْ تَدٰرَكَہٗ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَاۗءِ وَہُوَمَذْمُوْمٌ۝۴۹
فَاجْتَبٰىہُ رَبُّہٗ فَجَــعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۵۰
وَاِنْ يَّكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَيُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ

جب کہ انھوں نے(مدد کے لئے) اپنے رب کوپکارا تھا اور وہ (بے حد ) غم زدہ تھے۔
اگران کے رب کی مہر بانی شامل حال نہ ہوتی
تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے اور ان کا برا حال ہوجاتا۔
پھر ان کے رب نے انھیں بر گزیدہ کیا اور نھیں صالح بندوں میں شامل فرمالیا۔
اور جب یہ کافر کلام الٰہی(قرآن) سنتے ہیں تو آپؐ کو ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں گویا آپؐ کے قدم ڈگمگا دیں گے (آپ کو اپنے فرائض منصبی سے باز رکھیں گے)

وَيَقُوْلُوْنَ اِنَّہٗ لَمَجْنُوْنٌ۝۵۱ۘ
وَمَا ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۵۲ۧ

اور کہتے ہیں کہ یہ تو ضرور دیوانہ ہے۔
حالانکہ یہ(قرآن) سارے عالم کے لئے ایک نصیحت ہے۔