☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۝۱

قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔

توضیح : چاند کا شق ہونا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال قبل قمری مہینے کی چودھویں رات، چاند طلوع ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد پھٹا۔ چاند کا ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی (جبل نور جس پرغار حرا واقع ہے) پر، اور دوسرا ٹکڑا حرم کعبہ سے متصل جبل بوقیس پرٹکتا نظرآیا۔ یہ کیفیت کچھ ہی دیر رہی اور پھر دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے۔
بوقت واقعہ نبیﷺ منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا: دیکھو اورگواہ رہو کفار نے کہا کہ: محمدﷺ نے ہم پر جادو کردیا اس لئے ہماری آنکھیں دھوکا کھاگئی ہیں ورنہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بعض نے کہا کہ: محمدﷺ مقامی لوگوں پرتوجادو کرسکتے ہیں باہر کے لوگوں پرنہیں کرسکتے باہر سے جب لوگ آئیں گے توپوچھ لیں گے کہ فلاں رات ایسا واقعہ کیا انہوں نے بھی دیکھا ہے ؟ جب لوگ باہر سے آئے توانہوں نے بھی شہادت دی کہ اس عجیب وغریب واقعہ کووہ بھی دیکھ چکے ہیں۔
وہ قصے جو عوام میں مشہور ہیں کہ لوگوں کے مطالبہ پرآپ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دوٹکڑے کردیئے اور ایک ٹکڑا آپ کے گریباں میں داخل ہوکر آستین سے نکل گا، صحیح نہیں ہیں۔

وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَۃً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۝۲
وَكَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَاۗءَہُمْ

اور اگر (کافر) کوئی نشانی یا معجزہ دیکھتے ہیں تومنہ پھیرلیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو بڑا ہی قوی جادوگر ہے۔(بڑی ہی مہارت سے دکھایا گیا ہے)
اورانہوں نے (اس کوبھی) جھٹلایا اور اپنی خواہشات نفس ہی کی پیروی کی۔

وَكُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ۝۳

اور ہرمعاملہ کا ایک انجام مقرر ہے۔

حق پرست اپنی حق پرستی کا اورباطل پرست اپنی باطل پرستی کا انجام ایک روز دیکھ لیں گے۔

وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ مِّنَ الْاَنْۢبَاۗءِ مَا فِيْہِ مُزْدَجَرٌ۝۴ۙ
حِكْمَۃٌۢ بَالِغَۃٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ۝۵ۙ

اور ان کے پاس (گزری ہوئی قوموں کے) وہ واقعات آچکے ہیں جن میں سرکشی سے باز رہنے کے لئے کافی سامان عبرت تھے۔
اور ایسی حکمت جو نصیحت کے مقصد کو پورا کرتی ہے۔

یعنی اس سے ان میں خوف آخرت پیدا ہوسکتا تھا لیکن یہ تنبیہات بھی خوف دلانے والی چیزیں ان پر کارگر نہیں ہوئیں۔

فَتَوَلَّ عَنْہُمْ۝۰ۘ

تو (ائے نبیﷺ) آپ بھی ان سے اپنا رخ پھیر لیجئے (یعنی انھیں ان کے حال پر چھوڑدیجئے، ان کے لئے اپنا وقت ضائع نہ کیجئے)

يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ اِلٰى شَيْءٍ نُّكُرٍ۝۶ۙ
خُشَّعًا اَبْصَارُہُمْ يَخْرُجُوْنَ
مِنَ الْاَجْدَاثِ
كَاَنَّہُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ۝۷ۙ

جس دن ایک بلانے والا فرشتہ انھیں ایک نہایت ہی ناگوار چیز (قیامت کی ہولناکیوں) کی طرف بلائے گا۔
(اس وقت) ذلت وندامت کے مارے ان کی نگاہیں سہمی ہوئی ہوں گی اور وہ اپنی قبروں سے اس طرح نکلیں گے
گویا کہ وہ بکھری ہوئی (پریشان حال) ٹڈیاں ہیں۔

مُّہْطِعِيْنَ اِلَى الدَّاعِ۝۰ۭ
يَقُوْلُ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا يَوْمٌ عَسِرٌ۝۸
كَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّازْدُجِرَ۝۹

پکارنے والے کی طرف دوڑے جارہے ہوں گے۔ (اس وقت) کافر کہیں گے یہ توبڑا ہی سخت اورکٹھن دن ہے (اہل ایمان پر وہ دن سخت نہیں ہوگا)
ان سے پہلے نوحؑ کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی اورانہوں نے ہمارے بندہ (نوحؑ) کوجھوٹا قرار دیا اور کہا کہ
یہ دیوانہ ہے چنانچہ وہ بری طرح جھڑکا گیا۔

فرائض رسالت انجام دینے سے نہ صرف روک دینے کی کوشش کی گئی بلکہ ان کو دھتکارا بھی گیا۔

فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۝۱۰
فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَاۗءِ بِمَاۗءٍ مُّنْہَمِرٍ۝۱۱ۡۖ

تب نوحؑ نے اپنے رب کوپکارا کہ میں (اہل باطل کے ہنگاموں سے) مغلوب ہوا جاتا ہوں، اب آپ میری مدد فرمائیے۔
پس ہم نے موسلادھاربارش کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے (تاکہ دن رات یکساں پانی برستا رہے)

وَّفَجَّــرْنَا الْاَرْضَ عُيُوْنًا

اور زمین کوپھاڑ کر چشموں کوتبدیل کردیا (یعنی زمین سے بھی چشمے

فَالْتَقَى الْمَاۗءُ عَلٰٓي اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۝۱۲ۚ

وَحَمَلْنٰہُ عَلٰي ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ۝۱۳ۙ

پھوٹ پڑے)
پھر (آسمان اور زمین کا) پانی ایک اندازے کے مطابق ہوگیا جو(علم الٰہی میں) طے شدہ تھا۔
اور ہم نے نوحؑ کوایک کشتی پر جو تختوں اورمیخوں سے تیار کی گئی تھی(اہل ایمان سمیت سوار کرادیا)

تَجْرِيْ بِاَعْيُنِنَا۝۰ۚ جَزَاۗءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ۝۱۴
وَلَقَدْ تَّرَكْنٰہَآ اٰيَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۱۵

جو ہماری حفاظت ونگرانی میں چلتی تھی۔ یہ سب کچھ اس شخص کی خاطر تھا جس کی ناقدری کی گئی تھی۔
اورہم نے اس واقعہ کوعبرت وموعظت کے لئے باقی رکھا توپھر سے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟

فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ۝۱۶
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۱۷
كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ۝۱۸

پھر دیکھ لوکیسا تھا میرا عذاب اورکیسی تھیں میری تنبیہات ؟ اور ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کردیا پس ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔؟
(قوم) عاد نے بھی اپنے پیغمبر کی تکذیب کی تھی پھر دیکھ لو کیسا تھا میرا عذاب ؟ اور کیسی تھیں میری تنبیہات ؟

اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَيْہِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْ يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ۝۱۹ۙ

یقینا ًہم نے ان پر ایک تیز وتند طوفانی ہوا بھیجی ایک ایسے دن جوان کے لئے منحوس تھا (جس کی نحوست مسلسل کئی روز تک رہی)

توضیح : سورہ حٰمٓ سجدہ آیت ۱۶ میں فِی اَیَّامٍ نَحِسَاتٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اور سورہ الحاقہ میں فرمایا گیا ہے کہ یہ طوفان مسلسل سات رات اور آٹھ دن جاری رہا تھا۔

تَنْزِعُ النَّاسَ۝۰ۙ كَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ۝۲۰
فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ۝۲۱
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۲۲ۧ

وہ طوفانی ہوا لوگوں کوان کے مکانوں سے اٹھا اٹھا کر اس طرح پھینک رہی تھی گویا کہ وہ جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہوں۔
پھر دیکھ لو کیسا تھا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہات ؟
اور ہم نے اس قرآن کونصیحت کے لئے آسان ذریعہ بنایا ہے پھر ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا ؟

كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِالنُّذُرِ۝۲۳

(قوم ) ثمود نے بھی تنبیہات کو جھٹلایا۔

توضیح : قوم ثمود نے اپنے پیغمبر صالحؑ کوجھٹلایا تھا تمام انبیاء کی اصولاً ایک ہی تعلیم تھی کہ توحید اختیار کریں اور کسی کواللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک قرار نہ دیں۔

فَقَالُوْٓا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُہٗٓ۝۰ۙ
اِنَّآ اِذًا لَّفِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ۝۲۴

پس قوم نے کہا کیا ہم اپنے ہی میں کے ایک انسان کی اتباع کریں (بڑائی مان لیں اور جوانسانیت سے بالاتر نہیں ہے)
اس صورت میں ہم توبہک جانے والوں میں شمار کئے جائیں گے۔

یہ نیا داعی صالح عام انسانوں میں سے ایک انسان ہے کوئی بڑا سردار بھی نہیں ہے۔

ءَ اُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْہِ مِنْۢ بَيْنِنَا بَلْ ہُوَكَذَّابٌ اَشِرٌ۝۲۵
سَيَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْكَذَّابُ الْاَشِرُ۝۲۶

کیا ہمارے درمیاں یہی ایک شخص تھا، جس پر وحی نازل کی گئی ، بلکہ وہ بڑا ہی جھوٹا ہے اور برخود غلط ہے ۔
کل ہی جان لیں گے کہ کون جھوٹا ہے۔

اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَۃِ فِتْنَۃً لَّہُمْ فَارْتَقِبْہُمْ وَاصْطَبِرْ۝۲۷ۡ
وَنَبِّئْہُمْ اَنَّ الْمَاۗءَ قِسْمَۃٌۢ بَيْنَہُمْ۝۰ۚ

ہم ان کی آزمائش کے لئے اونٹنی بھیجنے والے ہیں پس تم انجام کے منتظر رہو اور صبر کرو۔
اورانھیں آگاہ کردو کہ پانی ان کے اور اونٹنی کے درمیان تقسیم ہوگا (یعنی باری مقررہوگی)

ایک دن بستی کے لوگ اوران کے مویشی اس کنویں سے پانی پئیں گے اور ایک دن صرف اونٹنی پیئے گی۔

كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ۝۲۸

اور ہرباری والے کواپنی باری پر آنا چاہئے۔

توضیح :اونٹنی ایک مدت تک ان کی بستیوں میں چرتی پھرتی رہی اس کی باری کے دن کسی کوپانی پرآنے کی ہمت نہ ہوتی تھی اورجن کے پاس مویشی جانور، بکریاں زیادہ تھیں ان کے لئے ایک دن کا پانی محفوظ رکھنا دشوار ہوتا گیا مگر وہ اس اونٹنی سے سخت مرعوب بھی تھے۔ اوران کو یہ احساس تھا کہ اس کی پشت پر کوئی غیر معمولی طاقت ہے چنانچہ اس پرہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتے تھے۔ بالآخر انہوں نے اونٹنی کومار ڈالنے کی تجویز کی، اور قوم کا ایک بد بخت شخص اس کے قتل کا بیڑا اٹھایا۔

فَنَادَوْا صَاحِبَہُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ۝۲۹
فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ۝۳۰

پس اس نے اپنے رفیق کوبلایا، اونٹنی پر وار کیا اور مارڈالا
پھر دیکھو لوکیسا تھا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہات۔

اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَيْہِمْ صَيْحَۃً وَّاحِدَۃً
فَكَانُوْا كَہَشِيْمِ الْمُحْتَظِرِ۝۳۱
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۳۲

یقیناً ہم نے ان پرایک سخت ہولناک آواز بھیجی پھر وہ کانٹوں کی روندھی ہوئی باڑ کی طرح بھس ہوکر رہ گئے۔
اور ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کردیا پھر ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ۔

توضیح : قرآن مجید میں ہر قسم کی نصیحتیں صاف صاف بیان کردی گئیں ہیں اس کے بعد بھی قرآن کوسمجھنے کی کوشش نہ کرنا کتنی بڑی بدنصیبی ہے۔

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍؚبِالنُّذُرِ۝۳۳
اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَيْہِمْ حَاصِبًا
اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ۝۰ۭ
نَجَّيْنٰہُمْ بِسَحَرٍ۝۳۴ۙ نِّعْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا۝۰ۭكَذٰلِكَ نَجْزِيْ مَنْ شَكَرَ۝۳۵
وَلَقَدْ اَنْذَرَہُمْ بَطْشَتَنَا فَتَـمَارَوْا بِالنُّذُرِ۝۳۶

قوم لوط نے بھی تنبیہات کی تکذیب کی۔
ہم نے اس پر پتھراؤ کرنے والی ہوائیں بھیجیں
مگر لوط پر ایمان لانے والوں کوبچالیا
ہم نے انھیں بہ وقت سحر (عذاب سے) بچالیا اپنے فضل سے ہم شکر کرنے والے کوایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
اوریقیناً لوط نے انھیں ہماری گرفت سے ڈرایا تھا، مگر وہ یقین نہ لائے اور شک وشبہ میں پڑے رہے۔

وَلَقَدْ رَاوَدُوْہُ عَنْ ضَيْفِہٖ

فَطَمَسْـنَآ اَعْيُنَہُمْ فَذُوْقُوْا عَذَابِيْ وَنُذُرِ۝۳۷
وَلَقَدْ صَبَّحَہُمْ بُكْرَۃً عَذَابٌ مُّسْتَقِرٌّ۝۳۸ۚ

اور ان لوگوں نے لوطؑ کو اپنے مہمانوں کی حفاظت سے باز رکھنے کی کوشش کی (تا کہ ان کے ساتھ بدکاری کریں)
لہٰذا ہم نے ان کی آنکھیں بے نور کردیں کہ اب میرے عذاب کا مزہ چکھو اور میری تنبیہات کوخاطر میں نہ لانے کی سزا بھگتو۔
اورصبح سویرے ان پر نہ ٹلنے والا عذاب آیا۔

فَذُوْقُوْا عَذَابِيْ وَنُذُرِ۝۳۹

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۴۰ۧ

لہٰذا میرے عذاب کا مزہ چکھو اورمیری تنبیہات پرکان نہ دھرنے کی سزا بھگتو۔
اورہم نے اس قرآن کونصیحت کے لئے آسان ذریعہ بنادیا۔ پھر ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟

توضیح : اس آیت کی بار بار تکرار کا مقصد یہ ہے کہ گزری ہوئی امتوں کا حال سن کر عبرت ونصیحت حاصل کی جائے اورنافرمانی کے نتائج کومستحضر رکھا جائے۔

وَلَقَدْ جَاۗءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ۝۴۱ۚ
كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كُلِّہَا فَاَخَذْنٰہُمْ اَخْذَ عَزِيْزٍ مُّقْتَدِرٍ۝۴۲
اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰۗىِٕكُمْ

اور یقیناً آل فرعون کے پاس بھی تنبیہات آئی تھیں۔
مگر انہوں نے ہماری تمام نشانیوں کوجھٹلادیا تو ہم نے ان کی اپنی گرفت میں اس طرح لیا کہ کوئی زبردست قدرت والا ہی پکڑتا ہے۔
(ائے اہل قریش) کیا تمہارے کفار کچھ ان مذکورہ لوگوں سے بہتر ہیں ؟

جنہیں کفروتکذیب کی پاداش میں سزادی گئی ہے اور وہی روش تم اختیار کروتو تمہیں سزا نہ دی جائے ؟

اَمْ لَكُمْ بَرَاۗءَۃٌ فِي الزُّبُرِ۝۴۳ۚ

یا آسمانی کتابوں میں تمہارے لئے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے۔

آخر تم کس بناء پر اور کس زعم میں حق کا انکار کررہے ہو ؟

اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌ۝۴۴
سَيُہْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۝۴۵

کیا وہ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت غالب ہی رہے گی۔
عنقریب ان کی جماعت شکست کھا جائے گی اوریہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگتے نظرآئیں گے۔

توضیح :یہ پیشین گوئی ہجرت سے پانچ سال پہلے کی ہے اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ مستقبل قریب میں ایک ایسا انقلاب بھی آسکتا ہے کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی بے بسی کا حال یہ تھا کہ ان میں سے ایک جماعت کفار کے ظلم وستم سے تنگ آکر ملک چھوڑکرحبشہ میں پناہ گزیں ہوچکی تھی اور باقی ماندہ افراد شعب ابی طالب میں محصور تھے۔ اورمعاشی مقاطعہ کی وجہ درخت کے پتے کھانے پر مجبور ہوچکے تھے۔ ان حالات میں کون سمجھ سکتا تھا کہ سات برس کے اندر نقشہ بدل جانے والا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے شاگرد وعکرمہ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے جب سورہ القمر کی یہ آیت نازل ہوئی تو میں حیران تھا کہ آخر یہ کونسی جمعیت ہے جو شکست کھاجائے گی؟ مگر جب جنگ بدر میں کفار شکست کھا کر بھاگ رہے تھے تو اس وقت میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ زرہ پہنے ہوئے آگے کی طرف جھپٹ رہے ہیں ، اور آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہیں۔ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔ تب میری سمجھ میں آ یا کہ یہی وہ ہزیمت تھی جس کی خبردی گئی تھی ۔ (ابن جریر، ابن ماتم)

بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْہٰى وَاَمَرُّ۝۴۶

بلکہ اصلی وعدہ کا وقت توبڑی ہی آفت اورنہایت ہی شدید مصیبت کا وقت ہے۔

اِنَّ الْمُجْرِمِيْنَ فِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ۝۴۷ۘ

يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوْہِہِمْ۝۰ۭ
ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ۝۴۸
اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ۝۴۹

بے شک مجرمین (یعنی کفار) غلط فہمی میں مبتلا ہیں، اور ان کی عقل ماری گئی ہے۔
جس روز یہ منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے۔

(توان سے کہا جائے گا) اب جہنم کی آگ کا مزہ چکھو ۔
ہم نے ہرچیز ایک اندازہ کے مطابق پیدا کی ہے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ نے دنیا کی کوئی چیز بے مقصد اوربے نتیجہ نہیں بنائی۔ ہر چیز کی ایک تقدیر ہے جس کے مطابق وہ ایک مقررہ حد تک نشونما پاتی رہتی ہے اور ایک خاص وقت پر ختم ہوجاتی ہے اس ضابطہ کے مطابق اس دنیا کی بھی ایک تقدیرہے، جس کے مطابق ایک خاص وقت تک دنیا چلتی ہے اور ایک خاص وقت پر ختم ہوگی اسی طرح قیامت برپا کرنے کا بھی ایک وقت مقرر ہے جس کے خاتمہ کیلئے وقت مقرر کیا گیا ہے اس کے برپا کرنے کے لئے کوئی بڑی تیاری کرنی نہیں پڑے گی۔

وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ كَلَمْحٍؚ بِالْبَصَرِ۝۵۰
وَلَقَدْ اَہْلَكْنَآ اَشْـيَاعَكُمْ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۵۱
وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْہُ فِي الزُّبُرِ۝۵۲
وَكُلُّ صَغِيْرٍ وَّكَبِيْرٍ مُّسْـتَطَرٌ۝۵۳
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍ۝۵۴ۙ
فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيْكٍ مُّقْتَدِرٍ۝۵۵ۧ

اور ہمارا ہرحکم چشم زدن میں پورا ہوجاتا ہے۔ (بس ایک ہی لفظ کن کہنے کی دیر ہے)
اوریقینا ًہم تمہاری طرح بہت سوں کوہلاک کرچکے ہیں، پھر ہے کوئی (ان واقعات سے) نصیحت حاصل کرنے والا؟
اوران کا ہر فعل دفتروں میں درج ہے۔
اور ہرچھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی ہے۔
یقیناً پرہیزگار لوگ باغوں اورنہروں کے خوش نما مناظر میں ہوں گے۔
ایک بلند ترین مقام قادر مطلق کی بارگاہ کے پاس ۔