☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝۱ۙ

(حق تعالیٰ فرماتے ہیں) میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں۔

توضیح :اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ائے کافرانہ ومشرکانہ ذہنیت کے رکھنے والو ! قیامت وآخرت کے بارے میں تم جوعقائد رکھتے ہو صحیح نہیں ہیں۔ میں اسی دن کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس کا واقع ہونا صحیح ہے۔

وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ۝۲ۭ

اورمیں قسم کھاتا ہوں، ملامت کرنے والے نفس کی۔

توضیح :قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک وہ جو انسان کوبرائیوں پراکساتا ہے، اس کا نام نفس امارہ ہے۔ دوسرا وہ جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بری نیت رکھنے پر انسان کوملامت کرتا ہے، اس کا نام نفس لوامہ ہے۔ اس کو ضمیر بھی کہتے ہیں۔ تیسرا وہ نفس جو صحیح راہ چلنے اور غلط راہ چھوڑدینے میں اطمینان محسوس کرے، اس کونفس مطمئنہ کہتے ہیں (ملحض از تفہیم القرآن)

اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ۝۳ۭ
بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَہٗ۝۴

کیاانسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی مُردہ وبکھری ہوئی ہڈیاں اکھٹی نہیں کریں گے(یعنی اس کودوبارہ پیدا نہ کریں گے؟)
ہاں کیوں نہیں (ہم ضرور پیدا کریں گے) ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ اس کے انگلیوںکی پور پور تک درست کردیں یعنی جیسی تھیں وہیں بنادیں۔

بَلْ يُرِيْدُ الْاِنْسَانُ لِيَفْجُرَ اَمَامَہٗ۝۵ۚ

مگر (نفس پرست) انسان چاہتا ہے کہ (مذہبی قید وبند سے آزاد ہوکر) اپنی زندگی فسق وفجور میں گزاردے۔

يَسْــَٔـلُ اَيَّانَ يَوْمُ الْقِيٰمَۃِ۝۶ۭ
فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ۝۷ۙ

وَخَسَفَ الْقَمَرُ۝۸ۙ

پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا ؟
پھر جب (اس دہشت ناک دن کو دیکھ لے گا توخوف وحیرت سے اس کی) آنکھیں پتھراجائیں گی۔
اور چاند بے نور ہوجائے گا۔

وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۝۹ۙ

اور چاند وسورج جمع کردیئے جائیں گے(یعنی دونوں مغرب سے طلوع کریں گے اور بے نور ہوجائیں گے تو وہ دن بڑا ہی دہشت ناک ہوگا)

يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍ اَيْنَ الْمَفَرُّ۝۱۰ۚ
كَلَّا لَا وَزَرَ۝۱۱ۭ

اس دن انسان کہے گا کیا کہیں بھاگنے کی بھی جگہ ہے۔
ہر گز نہیں (کوئی جائے پناہ نہ ہوگی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔)

اِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِۨ الْمُسْتَــقَرُّ۝۱۲ۭ
يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍؚ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ۝۱۳ۭ

اس روز آپ کے رب ہی کے سامنے جا کرٹھیرنا ہوگا۔
اس دن انسان کواس کے (تمام اعمال) دکھلادئے جائیں گے۔
وہ جو اس نے اپنی زندگی میں آگے بھیجے تھے اور وہ جو اس نے پیچھے چھوڑے تھے۔

توضیح : دنیوی زندگی میں اس نے آخرت کے لئے کیا کیا نیکیاں کی تھیں۔ اوردنیا میں اپنی برائیوں کے کیا کیا اثرات چھوڑے تھے۔ کتنوں کی نیکی وبدی کا درس دیا تھا۔ تاریخ وار ریکارڈ اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔

بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِہٖ بَصِيْرَۃٌ۝۱۴ۙ
وَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَہٗ۝۱۵ۭ
لَا تُحَرِّكْ بِہٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۝۱۶ۭ
اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۝۱۷ۚۖ
فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۝۱۸ۚ

بلکہ انسان اپنے اعمال سے خود بھی خوب واقف ہے ۔
چاہے وہ کتنا ہی عذروحیلہ کرے۔
(ائے نبیﷺ، دوران وحی) وحی کے الفاظ کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کومتحرک نہ کیجئے ۔
اسے یاد کرادینا اور پڑھوادینا ہمارے ذمہ ہے۔
لہٰذا جب ہم اپنا کلام پڑھوانے لگیں توآپ اس کوغور سے سنتے رہیں۔

ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَہٗ۝۱۹ۭ

پھر اس کا مطلب سمجھادینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔

ان درمیانی ہدایات کے بعد اہل کفروشرک کے ساتھ سلسلہ کلام کو آگے جاری رکھا جارہا ہے۔

كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ۝۲۰ۙ

نہیں ہرگز (یعنی تمہارے انکار آخرت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ تم خالق کائنات کوقیامت کے برپا کرنے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز سمجھتے ہو)بلکہ (اصل وجہ یہ ہے کہ ) تم جلد حاصل ہونے والی چیز (دنیا) سے محبت رکھتے ہو۔

وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ۝۲۱ۭ
وُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ۝۲۲ۙ
اِلٰى رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ۝۲۳ۚ

اورآخرت کوچھوڑدیتے ہو۔
اس روز کچھ چہرے تروتازہ اور پررونق ہوں گے۔
اپنے پروردگار کی طرف دیکھ رہے ہوں گے(دیدارالٰہی میں محوہوں گے)

توضیح :بہ کثرت احادیث ہیں کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے مکرم بندوں کودیدارالٰہی نصیب ہوگا۔ اور یہ عظیم ترین نعمت ہوگی۔ جس کے سامنے جنت کی نعمتیں بھی پھیکی پڑجائیں گی۔ بخاری کی روایت ہے کہ۔اِنَّکُمْ سَتَرَوْ نَ رَبَّکُمْ عَیَانًا تم اپنے رب کو علانیہ دیکھو گے۔

وَوُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍؚبَاسِرَۃٌ۝۲۴ۙ
تَظُنُّ اَنْ يُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ۝۲۵ۭ

اوراس روز کتنے ہی چہرے اداس وبدروپ ہوں گے۔
اور سمجھ رہے ہونگے کہ انکے ساتھ بڑا ہی سخت (کمر توڑ) برتاؤ ہونے والا ہے۔

كَلَّآ

(ائے منکرو) ہرگز ایسا نہیں ہے، تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ تم مرکرفنا

ہوجاؤگے ۔اورمحاسبہ اعمال کے لئے اپنے رب کے حضور حاضر نہیں کئے جاؤگے (جزاوسزا کچھ بھی نہیں ہے)جب جان حلق تک پہنچ جائے گی۔

اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ۝۲۶ۙ
وَقِيْلَ مَنْ ۝۰۫ رَاقٍ۝۲۷

جب جان حلق تک پہنچ جائے گی۔
اور لوگ کہنے لگیں کے ’’ہے کوئی جھاڑپھونک کے ذریعہ (موت سے) بچانے والا‘‘۔

وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ۝۲۸ۙ
وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ۝۲۹ۙ

اور (اس وقت) آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے۔
اور (شدت نزع کی وجہ) پنڈلی سے پنڈلی لپیٹ جائے گی۔

اِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِۨ الْمَسَاقُ۝۳۰ۭۧ

اور وہ دن آپ کے پروردگار کی طرف چلنے کا ہوگا۔

موت کے دن سے ہی محاسبہ اعمال شروع ہوجائے گا۔

فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى۝۳۱ۙ

وَلٰكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى۝۳۲ۙ
ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰٓى اَہْلِہٖ يَتَمَطّٰى۝۳۳ۭ

اس نے (اپنی ناعاقبت اندیشی سے اللہ رسول کی بات کو) سچ نہ جانا اورنہ نماز پڑھی
بلکہ جھٹلایا اور روگردانی کی۔
پھر اکڑتا ہوا اپنے گھروالوں کی طرف چل دیا۔

اَوْلٰى فَاَوْلٰى۝۳۴ۙ
ثُمَّ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى۝۳۵ۭ
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى۝۳۶ۭ

پس (ائے جاہل انسان) تف ہے تجھ پراورتباہی ہے تیرے لئے پھر تف ہے تجھ پر اور خرابی ہے تیرے لئے۔
کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی (سزاوجزاءبغیر، شتر بے مہار کی طرح) چھوڑدیا جائے گا (کہ جدھر چاہے چرتا پھرے اور کوئی اس کی نگرانی کرنے والا نہیں ہے)

اَلَمْ يَكُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْـنٰى۝۳۷ۙ
ثُمَّ كَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰى۝۳۸ۙ

فَجَــعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى۝۳۹ۭ

کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو عورت کے رحم میں ٹپکایا جاتا ہے۔
پھر وہ ایک خون کا لوتھڑا بنا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا جسم اور اس کے اعضاء وجوارح مناسب طورپر بنائے (اس میں روح پھونکی اورایک مکمل انسان بنایا)
پھر اس سے مرد اورعورت کی دوقسمیں بنائیں۔

اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ
يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى۝۴۰ۧ

کیا وہ اس پرقادر نہیں ہے کہ مرنے والوں کوپھر سے زندہ کرے (اور حساب لے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسا کرسکتے ہیں)

توضیح :رسول اللہﷺ جب اس آیت کوپڑھتے توفرماتے۔ بَلٰی ہاں کیوں نہیں بے شک حق تعالیٰ آپ ہرشئے پرقدرت رکھتے ہیں کبھی فرماتے: پاک ہے آپ کی ذات۔ خداوندا کیوں نہیں (ابن حریر)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، فرمایا رسولﷺ نے جب تم سورہ التین میں، اَلَيْسَ اللہُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ۝۸ۧ کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہی ہے ؟ پڑھو توکہو بَلیٰ وَاَنَا عَلٰي ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰہِدِيْنَ ۔ کیوں نہیں میں اس پرگواہی دینے والا ہوں۔ اور جب سورہ القیامہ کی یہ آیت پڑھو۔توکہو، بلیٰ اور جب سورۃ المرسلت کی آیت فَبِایِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ۔ اس قرآن کے بعد یہ لوگ اورکس بات پرایمان لائیں گے۔ پڑھو توکہو اٰمَنَّا بِاللہِ۝۰ۚ ہم اللہ تعالیٰ پرایمان لائے۔