بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
الۗمّۗرٰ۰ۣ
یہ حروف مقطعات ہیں جن کے معنی رسول اللہﷺ سے بہ سند صحیح منقول نہیں ہیں۔
تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ۰ۭ
یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں۔
وَالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ
( اس کتاب کے ذریعہ جوتعلیم تمہارے رب کی طرف سے تم پرنازل کی گئی ہے۔ وہ حق ہی حق ہے (یعنی اس کتاب کا جوعلم بھی دیا جارہا ہے وہ حقائق کا علم ہے کسی انسان کی گھڑی ہوئی باتیں نہیں ہیں)
وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ۱
لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کوماننے کے لیے تیارنہیں (دوسرے یہ کہ اس کتاب کا تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہونا ایک امرواقعہ ہے جس کے انکار کردینے سے حقیقت بدل نہیں سکتی)
اَللہُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا
اللہ وہی توہے جس نے آسمانوں کوستونوں کے بغیر (اتنا) بلند بنایا کہ تم اس کودیکھتے ہو۔
ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ
پھرفرمانروائی کے لیے عرش (تخت حکومت) پرجلوہ افروز ہوا۔
وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۰ۭ
اورشمس وقمر کوایک مقررہ نظام کا پابند بنایا۔
كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۭ
ہرچیز ایک مقررہ مدت کے لیے باقاعدگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے مقررہ نظام پرچل رہی ہے۔
يُدَبِّرُ الْاَمْرَ
اپنی سلطنت کی وہی(اللہ تعالیٰ) تنہا تدبیر کرتا ہے،( اس کونہ کسی کی رائے ومشورہ کی ضرورت ہے اورنہ وہ کسی کی سفارش کا محتاج ہے۔
يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ
وہ (انجام آخرت اوراپنے الٰہ واحد ہونے کی) کتنی ہی تفصیل کے ساتھ نشانیاں بیان فرماتا ہے۔
لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ۲
تا کہ تم محاسبۂ اعمال کے لیے اپنے رب کے روبروحاضر ہونے کا یقین کرسکو۔
وَہُوَالَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ
وہی توہے جس نے تمہارے رہنے کے لیے زمین پھیلائے رکھی۔
وَجَعَلَ فِيْہَا رَوَاسِيَ وَاَنْہٰرًا۰ۭ
اوراس میں پہاڑ بنائےاوردریا بہائے۔
وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِيْہَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّہَارَ۰ۭ
اورہرطرح کے میوؤں کی دودوقسمیں بنائیں، وہی رات کی تاریکی سے دن کی روشنی کوچھپاتا ہے۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۳
غوروفکر سے کام لینے والوں کے لیے اس (نظام کائنات) میں (انجام آخرت اوراللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد ہونے کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں۔
وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ
اورزمین میں کئی طرح کے ملے جلے قطعات ہیں اورانگور کے باغ ہیں۔ اورکھیتیاں اورکھجورکے درخت جن میں کچھ شاخ دار بھی پیدا کیے اورکچھ غیرشاخ دار بھی۔
يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ۰ۣ
سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔
وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ۰ۭ
مگرکمال یہ ہے کہ ذائقہ، رنگ وبو میں ہم نے ایک کو دوسرے پرفضیلت بخشی۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۴
عقل ودانش سے کام لینے والوں کے لیے ان (امور) میں (اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد ہونے کی) نشانیاں موجود ہیں۔
وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ۰ۥۭ
اورائے نبیﷺ اگر آپ عجیب بات سننی چاہو تو ان کافروں کا یہ کہنا ہی عجیب ہوسکتا ہے کہ جب ہم مرکرمٹی ہوجائیں گے توپھر کیا دفعتہ ازسرنو پیدا کیے جائیں گے۔
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ۰ۚ
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب ہی کا انکار کردیا۔
وَاُولٰۗىِٕكَ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِہِمْ۰ۚ
اوریہی وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں (باپ دادا کی اندھی تقلید وخواہشات نفس، رسم ورواج کی پیروی، شیطان کے بہکاوے اورگمراہ لوگوں کی اتباع کے) طوق پڑے ہوئے ہیں۔
وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ہُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۵
ایسے ہی لوگ جہنمی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّيِّـئَۃِ قَبْلَ الْحَسَـنَۃِ
(پیغمبر، ان کافروں کی جہالت وبے وقوفی کی کوئی حد بھی ہے؟ ) کہ وہ بھلائی کے بجائے آپ سے عذاب الٰہی کے جلد ازجلد نازل کیے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمُ الْمَثُلٰتُ۰ۭ
حالانکہ ان سے پہلے (کفار پر) عذاب واقع ہوچکے ہیں۔
وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِہِمْ۰ۚ
یقیناً آپ کا پروردگار لوگوں کوان کی ناانصافیوں، ظلم زیادتیوں کے باوجود انھیں معاف کرتا ہے(اورانھیں سوچنے سمجھنے کا باربار موقع دیتا رہتا ہے)
وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ۶
اور( یہ بھی حقیقت ہے کہ) آپؐ کا پروردگار سخت ترین سزا بھی دینے والا ہے۔
وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۰ۭ
اورکافر کہتے ہیں کہ اس رسول پراس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوئی ؟( یعنی آپ کوئی معجزہ لے کرکیوں نہ آئے)
اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ۷ۧ
اور (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ہرقوم کیلئے ایک رہبرہادی برحق (پیغمبر) مقرر ہے۔ یقیناً آپؐ بھی لوگوں کوخواب غفلت سے چونکانے والے ہیں۔
اَللہُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا
ہرایک حاملہ کے متعلق جوکچھ اس کے پیٹ میں ہے اللہ تعالیٰ جانتے ہیں
تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ۰ۭ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ۸
اوررحم میں جوکچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اس سے واقف ہے، اورہرشے کی مقدار، اس کے ظہورکا وقت اس کے پاس مقرر ہے۔
عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْكَبِيْرُ الْمُتَعَالِ۹
وہی پوشیدہ ا ورظاہرہرچیز کا جاننے والا بزرگ وبالاوبرترہے۔
سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ
تم میں سے جوکوئی آہستہ( چپکے سے) بات کہے اورجوکوئی پکارکرکہے۔
وَمَنْ ہُوَمُسْتَخْفٍؚ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّہَارِ۱۰
اور جوکوئی رات کی تاریکی میں چھپ جائے اورجو دن کی روشنی میںچلے پھرے اللہ تعالیٰ کیلئے سب یکساں ہے (یعنی زماں ومکان اس کیلئے تعجب نہیں)
لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ
ہرشخص کے آگے اورپیچھے اسی کے مقرر کیے ہوئے نگرانکار (فرشتے) لگے رہتے ہیں۔
يَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللہِ۰ۭ
(شروروآفات سے) بہ حکم الٰہی اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۭ
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو(خوشحالی کوبدحالی سے اقتدار کومحکومی سے) نہیں بدلتے جب تک کہ وہ اپنی حالت نہ بدلے۔
وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ۰ۚ
اورجب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو(اس کے اعمال کی بناء پر) بگاڑ میں مبتلا کرناچاہتے ہیں توپھر اس بگاڑ کوکوئی روک نہیں سکتا۔
وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ۱۱
اورنہ کوئی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی حمایت کرسکتا ہے۔
ہُوَالَّذِيْ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَـمَعًا
وہی توہے جوتمہیں ڈرانے اور امید دلانے کے لیے بجلیاں دکھاتا ہے (جس سے تم ڈرتے اور نفع بخش بارش ہونے کی امید کرتے ہو)
وَّيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ۱۲ۚ
اوروہی پانی سے بھرے ہوئے بادل پیدا کرتا ہے۔
وَيُسَبِّــحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ مِنْ خِيْفَتِہٖ۰ۚ
اور بادلوں کی گرج اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح (پاکی) بیان کرتی ہے اورسب فرشتے اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرزتے اوراسکی تعریف وتسبیح کرتے ہیں( یعنی اللہ تعالیٰ کا شرک سے پاک ہونا بیان کرتے ہیں (سبحان اللہ وبحمدہ)
وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيْبُ بِہَا مَنْ يَّشَاۗءُ
اوروہی کڑکتی گوندتی ہوئی بجلیاں بھیجتا اورجس پرچاہتا ہے گراتا ہے۔
وَہُمْ يُجَادِلُوْنَ فِي اللہِ۰ۚ وَہُوَشَدِيْدُ الْمِحَالِ۱۳ۭ
اوروہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتے ہیں اوروہ بڑی ہی سخت سزادینے والا ہے۔
لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ۰ۭ
(بے شک مشکلات میں اورآفات ارضی وسماوی میں) اسی (اللہ) کومدد کے لیے پکارنا حق ہے (اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کوبااختیار سمجھ کرمدد کے لیے پکارنا شرک اور گمراہی ہے)
وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ لَہُمْ بِشَيْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْہِ اِلَى الْمَاۗءِ لِيَبْلُغَ فَاہُ
اورجولوگ اللہ تعالیٰ کے سوا غیراللہ کومدد کیلئے پکارتے ہیں، وہ ان کی دعاؤں کوکسی طرح قبول نہیں کرسکتے۔ ان کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی پیاسا پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے تا کہ پانی خود ہی اس کے منہ تک پہنچ جائے۔
وَمَا ہُوَبِبَالِغِہٖ۰ۭ وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ۱۴
حالانکہ وہ اس تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ یہ جوکافروں کی پکارہے (یعنی غیراللہ کومدد کے لیے ان کا پکارنا) گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔
وَلِلہِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًاوَّكَرْہًا
اورآسمانوں اورزمین کی ہر چیز خوشی سے یا مجبوراً اسی کے آگے سجدہ ریز ہے(یعنی مشیت الٰہی کے آگے کوئی سرموتجاوز نہیں کرسکتا)
وَّظِلٰلُہُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ۱۵ ۞
اوران کے سائے بھی صبح وشام اسی کے آگے سجدہ ریز ہیں۔
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ
ائے نبیﷺ ان سے پوچھئے زمین وآسمان کا پروردگار کون ہے؟
قُلِ اللہُ۰ۭ
اورپھر آپؐ ہی کہہ دیجئے اللہ تعالیٰ ہی پروردگار ہیں (جوانکا بھی مسلمہ ہے)
قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ
ائے پیغمبر ان سے کہئے کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کوکارساز بناتے ہو؟
لَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا۰ۭ
جوخود اپنے نفع ونقصان کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔
قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ۰ۥۙ
(ائے نبیﷺ) ان سے پوچھئے کیا اندھا اورآنکھ والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟
اَمْ ہَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ۰ۥۚ
کیا اندھیرا اور اجالا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟
اَمْ جَعَلُوْا لِلہِ شُرَكَاۗءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِہٖ
بھلا ان لوگوں نے جنہیں اللہ کا شریک بنا رکھا ہے، کیا انہوں نے بھی ایسی کوئی مخلوقات پیدا کی ہیں، جیسی کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔
فَتَشَابَہَ الْخَلْقُ عَلَيْہِمْ۰ۭ
اور جس کی وجہ (ان معبودان باطل کی پیدا کی ہوئی اوراللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی) مخلوقات کے پہچاننے میں انھیں دشواری ہورہی ہے یا شبہات پیدا ہوچکے ہیں۔
قُلِ اللہُ خَالِـقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُوَالْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۱۶
کہئے ہرچیز کا خالق صرف اللہ ہی ہے۔ وہی یکتا اور سب پرغالب ہے (اوریہ ایک مسلمہ حقیقت ہے)
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَۃٌۢ بِقَدَرِہَا
اللہ تعالیٰ ہی نے آسمان سے پانی برسایا۔ پھرتمام ندی نالے اپنی اپنی وسعت کے لحاظ سے بہنے لگتے ہیں۔
فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا۰ۭ
پھر وہ سیلاب خس وخاشاک کوبہالے جائے جس کے ساتھ سطح آب پرجھاگ(کف) پھولا ہوا اٹھ آتا ہے۔
وَمِمَّا يُوْقِدُوْنَ عَلَيْہِ فِي النَّارِ ابْتِغَاۗءَ حِلْيَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہٗ۰ۭ
اورایسا ہی میل کچیل ان دھاتوں پربھی آجاتا ہے جنہیں زیوراوربرتن وغیرہ بنانے کے لیے پگھلایا جاتا ہے۔
كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ۰ۥۭ
اس طرح حق تعالیٰ حق وباطل کوصاف صاف واضح طورپربیان فرماتے ہیں۔
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۰ۭ
پس ناکارہ میل کچیل خشک ہوکر زائل ہوجاتا ہے اور (پانی) جولوگوں کوفائدہ پہنچاتا ہے، وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے۔
كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ۱۷ۭ
اس طرح اللہ تعالیٰ مثالوں کے ذریعہ (حق وباطل کی حقیقت) بیان فرماتے ہیں کہ باطل کی حقیقت جھاگ میل کچیل کی سی ہے جوخشک ہو کرضائع وغائب ہوجاتا ہے۔ نہ اس کوکوئی قرارہے اورنہ اس کا کوئی مصرف (یہی حال باطل ادیان کا ہے۔ اس کے برخلاف)
لِلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمُ الْحُسْنٰى۰ۭؔ
ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اپنے رب کے احکام قبول کرلیے۔(یعنی دین اسلام اختیار کیا۔ الٰہی تعلیم کے مطابق زندگی گزاری) بہترین بدل ہے۔
وَالَّذِيْنَ لَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَہٗ
اورجن لوگوں نے اس کوقبول نہ کیا۔
لَوْ اَنَّ لَہُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لَافْتَدَوْا بِہٖ۰ۭ
اگر ان کے پاس اس قدر مال ہوتا جو ساری دنیا میں ہے( اس کے علاوہ) اوراسی قدر ہوتا تونجات کے بدلے وہ سب دے ڈالتے۔
اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ سُوْۗءُ الْحِسَابِ۰ۥۙ وَمَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ۰ۭ وَبِئْسَ الْمِہَادُ۱۸ۧ
یہ وہ لوگ ہیں، جن کا سخت ترین محاسبہ کیا جائے گا۔ اور ان کا مستقل ٹھکانہ جہنم ہے اوروہ بہت ہی بری جگہ ہے۔
اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ ہُوَاَعْمٰى۰ۭ
کیا وہ شخص جوجانتا ہے کہ آپکے رب کی طرف سے جوکچھ آپؐ پرنازل کیا گیا ہے حق ہے ۔کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جواندھا ہے۔
اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۱۹ۙ
بیشک نصیحت تووہی لوگ قبول کرتے ہیں جوسمجھ سے کام لیتے ہیں (دانشمندی یہ ہے کہ انسان اخروی زندگی اوروہاں کا ابدی نفع وضررپیش نظررکھے)
الَّذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ
جولوگ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے اقرار بندگی کوپورا کرتے ہیں۔
وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ۲۰ۙ
اوراپنے کیے ہوئے عہدواقرار کونہیں توڑتے ۔
وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ
اورجن رشتہ ہائے قرابت کوجوڑے رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ وہ اس کوجوڑے رکھتے ہیں۔
وَيَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَابِ۲۱ۭ
اوروہ (ہرمعاملہ میں) اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں، اورسخت حساب لیے جانے سے گھبراتے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ رَبِّہِمْ
اورجواپنے پروردگار کی خوشنوی حاصل کرنے کے لیے جان ومال کی ہرمصیبت بہ طیب خاطربرداشت کرتے ہیں۔
وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً
اورنماز قائم رکھتے ہیں اورجوکچھ اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا کیا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں پوشیدہ اورظاہرا طور پر موقع بہ موقع خرچ کرتے ہیں۔
وَّيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَـنَۃِ السَّيِّئَۃَ
اوربرائی کوبھلائی سے دفع کرتے ہیں( یعنی بداخلاقی کا جواب خوش اخلاقی سے دیتے ہیں)
اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ عُقْبَى الدَّارِ۲۲ۙ
آخرت کا گھر(الجنۃ) ان ہی نیک کاروں کے لیے ہے۔
جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَہَا
ہمیشہ رہنے کی جنتیں(ہوں گی) جن میں وہ داخل ہوں گے۔
وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّيّٰــتِہِمْ
اوران کے آبا واجداد اوران کی بیبیاں اوران کی اولاد میں سے جو بھی اپنے عقائد کی اصلاح کرینگے وہ بھی ان کے ساتھ جنت میں داخل کئے جائینگے۔
وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْہِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ۲۳ۚ
اورملائکہ جنت کے ہردروازے سے ان کے پاس آتے (اورانھیں بشارتیں سناتے) رہیں گے۔
سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ۲۴ۭ
تم پر سلامتی (اللہ تعالیٰ کی رحمت) ہوکہ تم نے بڑے صبر و استقامت کے ساتھ (مخالفین حق کا مقابلہ کیا) لہٰذا آخرت کا یہ گھر(جنت) کیا ہی اچھا بدل ہے۔
وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِہٖ
اورجولوگ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے پیمان کوتوڑتے ہیں۔
وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ
اوراللہ تعالیٰ نے قرابت کے جن رشتے ناتوں کوجوڑنے کا حکم دیا ہے، ان کوقطع کرتے ہیں۔
وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ۰ۙ
اورزمین میں فتنہ وفساد پھیلاتے رہتے ہیں۔
اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ۲۵
ایسوں پرلعنت ہے اوران کے لیے آخرت میں نہایت ہی برا ٹھکانہ (جہنم) ہے۔
اَللہُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ۰ۭ
اللہ تعالیٰ جس کوچاہتے ہیں، رزق میں تنگی و وسعت بخشتے ہیں( یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ خوش حالی اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کے واسطے وسیلے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ شرک ہے)
وَفَرِحُوْا بِالْحَيٰوۃِ
اوروہ تودنیا کی خوش حال زندگی پرخوش ہیں۔
الدُّنْيَا۰ۭ وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا فِي
حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں چند روزہ فائدہ کے سوا
الْاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ۲۶ۧ
اورکچھ نہیں۔
وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۰ۭ
اور کافر کہتے ہیں کہ اس شخص (محمدﷺ) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوںنہ نازل ہوئی؟ (یعنی کوئی معجزہ تو ہونا چاہئے تھا)
قُلْ اِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ
کہئے اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں، گمراہی میں پڑا رہنے دیتے ہیں(یعنی جوگمراہی سے نکلنا نہیں چاہتا اس کو اسی حال میں چھوڑدیتے ہیں)
وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَ۲۷ۖۚ
اورجواس کی طرف رجوع ہوتا ہے، اسے ہدایت دیتے ہیں( ہدایت وضلالت کا تعلق معجزات سے نہیں ہے)
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِكْرِ اللہِ۰ۭ
جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں نے معجزہ کا مطالبہ کئے بغیر نبیﷺ کی دعوت قبول کرلی)
اور ان کے دل اللہ تعالیٰ ہی کے کلام سے مطمئن ہوگئے (کہ واقعی آپؐ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور قرآن اللہ کا کلام ہے)
اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۲۸ۭ
سن لو! اللہ تعالیٰ ہی کے کلام سے یعنی اللہ تعالیٰ ہی کے فرمادینے سے دلوں کواطمینان نصیب ہوتا ہے۔(اوروہ اس تعلق سے کسی شک یا تردد میں نہیں پڑتے)
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
جولوگ ایمان لائے( یعنی جنہوں نے الٰہی تعلیم قبول کرلی) اوراعمال صالحہ بجالائے۔
طُوْبٰى لَہُمْ وَحُسْنُ مَاٰبٍ۲۹
ان کے لیے خوشخبری ہے (جنت کی بشارتیں ہیں)
اوران کاانجام بھی کیا ہی اچھا ہے۔
كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ فِيْٓ اُمَّۃٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہَآ اُمَمٌ
اس طرح ہم نے آپؐ کوایک ایسی امت میں رسول بناکر بھیجا ہے، جس کے قبل بہت سی قومیں گزرچکی ہیں۔
لِّتَتْلُوَا۟ عَلَيْہِمُ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ
تا کہ آپؐ ان کو وہ کتاب پڑھ کرسنائیں جوہم نے آپؐ کے پاس وحی کے ذریعہ بھیجی ہے (اوروہ یقین کرلیں کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اللہ تعالیٰ کا کلام ہے)
وَہُمْ يَكْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ۰ۭ
اوروہ اللہ رحمٰن کی رحمانیت ہی سے انکار کرتے ہیں۔
(رحمانیت کی تفصیل سورہ فاتحہ میں کی گئی ہے)
قُلْ ہُوَرَبِّيْ
کہئے وہی (اللہ) میرا رب ہے۔
لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ
اس کے سوا کوئی الٰہ (مستعان) نہیں
عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْہِ مَتَابِ۳۰
میں اسی پربھروسہ رکھتا ہوں اوراسی کے پاس مجھے جانا ہے۔
وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ
اوراگر قرآن کی یہ تاثیر ہوتی کہ اس سے پہاڑ چلنے لگتے۔
اَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْاَرْضُ
یا اس کے ذریعہ مسافت ارضی طے ہوجاتی
اَوْ كُلِّمَ بِہِ الْمَوْتٰى۰ۭ
یا اس کی تاثیر سے مردے بات کرنے لگتے
بَلْ لِّلہِ الْاَمْرُ جَمِيْعًاۭ
بلکہ یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں
اَفَلَمْ يَايْــــــَٔـسِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
کیا ایمان والوں کوابھی اس بات سے اطمینان نہیں ہوا
اَنْ لَّوْ يَشَاۗءُ اللہُ لَہَدَى النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ
اگر اللہ تعالیٰ چاہتے توسارے انسانوں کوہدایت دیتے۔
توضیح :اللہ تعالیٰ اپنی مشیت مسلط فرما کر سب کو ہدایت یافتہ کردیتے تویہ جبر ہوتا۔ اپنی بات بالجبر منوانا اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں (اس سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت گمراہی پرنہیں ہوتی)
وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا تُصِيْبُہُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِّنْ دَارِہِمْ حَتّٰى يَاْتِيَ وَعْدُ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۳۱ۧ
اورکافروں پران کے اعمال کے سبب ہمیشہ کوئی نہ کوئی بلا آتی رہتی ہے یا ان کے گھر کے قریب بلائیں اترتی رہتی ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ آجائے گا بے شک اللہ تعالیٰ وعدے کی خلاف ورزی نہیں فرماتے۔
وَلَقَدِ اسْتُہْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحاور(ائے نبیﷺ) آپؐ سے پہلے بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔یم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
فَاَمْلَيْتُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ۰ۣ
پھرمیں کافروں کومہلت دیتا رہا بالآخر میں نے انھیں اپنی گرفت میں لے لیا۔
فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ۳۲
پھری میری سزا بھی کیسی (سخت) تھی۔
اَفَمَنْ ہُوَقَاۗىِٕمٌ عَلٰي كُلِّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ۰ۚ
تو کیا جو(ذات اقدس) بذاتہ ہرہرمتنفس کے اعمال سے باخبر اوران پر نگران ہے (وہ بتوں، قبروں اورمزار والوں کی طرح لاعلم وبے خبرہوسکتا ہے)
وَجَعَلُوْا لِلہِ شُرَكَاۗءَ۰ۭ
ان کافروں مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک تجویز کررکھا ہے۔
قُلْ سَمُّوْہُمْ۰ۭ
کہئے کہ وہ ان شرکاء کے نام توبتائیں (کہ وہ کون ہیں)
اَمْ تُنَبِّـــــُٔـوْنَہٗ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْاَرْضِ
کیا تم اللہ ہی کوایسی باتیں بتارہے ہو، گویا نظام ارضی سے وہ واقف ہی نہیں ہیں۔
اَمْ بِظَاہِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ۰ۭ
یا جومنہ کوآیا بے حقیقت باتیں کہہ دیتے ہو؟
بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مَكْرُہُمْ
بلکہ واقعہ یہ ہے کہ کافروں میں ان کی مکاریوں (فریب کاریوں) کو (انتقاماً) مزین کردیا گیا ہے۔
وَصُدُّوْا عَنِ السَّبِيْلِ۰ۭ
اوروہ راہ حق کی طرف آنے سے روک دیئے گئے ہیں۔
وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ۳۳
(واقعہ یہ ہے کہ) جس کو اللہ تعالیٰ ہی گمراہی میں پڑا رہنے دیں پھر اس کو کوئی ہدایت دے نہیں سکتا۔
لَہُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَقُّ۰ۚ
ان کے لیے دنیا میں بھی عذاب ہے اورآخرت کا عذاب تونہایت ہی سخت ہے۔
وَمَا لَہُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ وَّاقٍ۳۴
اورانھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔
مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۰ۭ
متقیوں سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ
تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۰ۭ
اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں( وہ بڑا ہی خوشنما منظرہوگا)
اُكُلُہَا دَاۗىِٕمٌ وَّظِلُّہَا۰ۭ
اس کے میوے دائمی (سدابہار) اوراس کے درختوں کے) سائے بھی دائمی ہوں گے۔
تِلْكَ عُقْبَى الَّذِيْنَ اتَّقَوْا۰ۤۖ
یہ ان لوگوں کا انجام آخرت ہے جومتقی ہیں۔
(جنہوں نے الٰہی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کی)
وَّعُقْبَى الْكٰفِرِيْنَ النَّارُ۳۵
اورانکار حق کرنے والوں کا انجام (النار) جہنم ہے۔
وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ
اورجن لوگوں کوہم نے اس سے پہلے کتاب دی ہے وہ اس کتاب کودیکھ کرجوآپ پرنازل کی گئی ہے، خوش ہوتے ہیں۔
وَمِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ يُّنْكِرُ بَعْضَہٗ۰ۭ
اوران میں بعض گروہ ایسے بھی ہیں جوکتاب کے ان اجزاء کا انکار کرتے ہیں(جن میں ان کے مشرکانہ عقائد کی نفی ہوتی ہے)
قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللہَ
(ائے نبیﷺ) کہئے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کروں۔
وَلَآ اُشْرِكَ بِہٖ۰ۭ
اوراس کے ساتھ کسی کوشریک قرارنہ دوں۔
اِلَيْہِ اَدْعُوْا وَاِلَيْہِ مَاٰبِ۳۶
میں تم کواسی کی طرف بلاتا ہوں اوراسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔
وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰہُ حُكْمًا عَرَبِيًّا۰ۭ
اوراسی مقصد کے لیے ہم نے بہ زبان عربی اپنا کلام نازل کیا۔
وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَاۗءَہُمْ بَعْدَ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۰ۙ
علم الٰہی کے آجانے کے بعد اگر آپ ان (مشرکانہ و کافرانہ عقائد رکھنے والوں) کے اھوآ(غلط عقائد کی) اتباع کرنے لگیں تو
مَا لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا وَاقٍ۳۷ۧ
اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں آپؐ کی نہ کوئی حمایت ہی کرسکے گا اورنہ کوئی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے گا۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ
اور(ائے محمدﷺ) ہم نے آپ سے پہلے بھی پیغمبر بھیجے ہیں۔
وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّيَّۃً۰ۭ
اورہم نے انھیں بشری لوازمات بیوی اوربچوں سے بھی نوازا(آل واولاد بخشی)
وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَۃٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ
کوئی رسول اس بات کا مجاز نہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر معجزہ بھی لاسکے۔
لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ۳۸
حالات زمانہ کے لحاظ سے ہمارے احکام جدا جدا ہوتے ہیں۔
يَمْحُوا اللہُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ۰ۚۖ
اللہ تعالیٰ جس حکم کوچاہتے ہیں موقوف کردیتے ہیں اورجس کوچاہتے ہیں قائم رکھتے ہیں۔
وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ۳۹
(اورہردورکے حالات کے لحاظ سے انسانوں کی ہدایت کیلئے کونسے طریقے بہتر ہیں) یہ سب اللہ تعالیٰ کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب دورایسا ہوتا ہے کہ عام طورپرلوگ خرق عادت کودیکھنے کے عادی ہوتے ہیں اورصاحب خرقِ عادت کی بات مان لیتے ہیں توایسے دورمیں انبیاء معجزات دیکربھیجے گئے لیکن جب دنیا میں علم وآگہی پھیل جاتی ہے توپھر دعوت حق کا مثبت طریقہ یہ ہے کہ علم، عقل وفطرت کی روشنی میں دعوت حق دی جائے۔ چنانچہ قرآن جوسرچشمہ علم وآگہی ہے۔ عصر حاضر کیلئے جوتحقیقاتی و سائنسی دورسمجھا جاتا ہے۔نازل فرمایا گیا۔ اب تا قیام قیامت اللہ تعالیٰ کی یہی کتاب القرآن نافذ وناصر ہے۔
وَاِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُہُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ
اوراگر ہم آپ کو وہ عذاب دکھائیں جس کا ان سے وعدہ کیا ہے یا آپ کی مدت حیات پوری کریں یعنی آپ کے انتقال کے بعد عذاب بھیجیں، آپؐ کواس فکر میں نہ پڑنا چاہئے۔
فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ۴۰
پس آپؐ کا فریضہ نبوت توہمارے احکام کا پہنچادینا ہے اوران سے پرسش کرنا، جواب لینا ہمارا کام ہے ۔
اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا۰ۭ
کیا یہ لوگ اس بات پرغور نہیں کرتے کہ (فتوحات اسلامیہ کی وجہ) ان کی کفر کی دنیا چاروں طرف سے گھٹتی جاتی ہے (یعنی کافرایمان لاتے جارہے ہیں)
وَاللہُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِہٖ۰ۭ
اوراللہ تعالیٰ جیسا چاہتے ہیں، حکم دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کوکوئی ٹال نہیں سکتا
وَہُوَسَرِيْعُ الْحِسَابِ۴۱
وہ بہت جلد حساب لینے والے ہیں۔
وَقَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلِلّٰہِ الْمَكْرُ جَمِيْعًا۰ۭ
اورجولوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی حق کے خلاف بڑی بڑی مکاریاں (فریب کاریاں) کرگزرے ہیں۔ لہٰذا ہرمکاری کا جواب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ۰ۭ
اللہ تعالیٰ ہرشخص کی کارگزاری کوخوب جانتے ہیں
وَسَيَعْلَمُ الْكُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ۴۲
اورعنقریب یہ کافر بھی جان لیں گے کہ آخرت کا گھر(الجنۃ) کس کے لیے ہے۔
وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا۰ۭ
(اس قدر افہام وتفہیم کے بعد بھی) کافر یہی کہتے ہیں کہ (محمدﷺ) آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔
قُلْ كَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ۰ۙ
کہہ دیجئے کہ اب میرے اورتمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔
وَمَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ۴۳ۧ
اوروہ شخص بھی گواہی دے گا جس کے پاس کتاب اللہ کا علم ہے۔