☰ Surah
☰ Parah

سورۃ التوبہ
اس سورۃ کے ابتدائی حصّہ کو سمجھنے کے لیے صلح حدیبیہ کے واقعہ کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ قریش مکّہ اپنی پیہم نا کا میوں اور اہلِ ایمان کی بڑھتی ہوئی جمعیت وقوت کو دیکھ کر کچھ سہمے ہوئے بھی تھے ماہ ذیقعدہ ۶ ھ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے خواب کی بناء پر طواف ِ کعبہ کے لیے مدینہ سے چل کر مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو آپ کو اطلاع ملی کہ مشرکین مکہ نے مزاحمت کرنے اور لڑنے کی تیاری کر رکھی ہے۔ مگر دوسری طرف مسلمانوں کے جوش و خروش اور جذبہ جاں نثار ی کو دیکھ کر وہ خائف بھی تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ جِدال وقتال کی کوئی صورت پیدا ہو۔ اس لیے وہ فوراً ہی مسلمانوں سے صلح کے لیے آمادہ ہوگئے۔ چند شرائط پر صلح ہوئی یہ واقعہ ’’ صلح حدیبیہ‘‘ کہلا تاہے۔ اس صلح نامہ کے دو فقرے حسب ذیل ہیں:
۱ ۔ فریقین دس سال تک باہم صلح و آشتی سے رہیں گے اور مکّہ و مدینہ آنے جانے میں کسی فریق کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہ ہوگی۔
۲۔ جو قبائل چاہیں قریش کے طرف داررہیں، اور جو قبائل چاہیں مسلمانوں کے دوست بن کرر ہیں۔ ان دوست قبائل کے بھی یہی حقوق رہیں گے۔
قریش مکّہ ان شرائط کی پابندی نہ کرسکے۔ چند مہینوں کے بعد قریش کے ایک طرفدار قبیلہ نے مسلمانوں کے ایک دوست قبیلہ کو لوٹ لیا۔ یہ لوگ حضرت رسول اللہﷺ کے پاس فریاد لے کر آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کو لکھا کہ تم نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہٰذا تین شرطیں تمہارے سامنے رکھی جا تی ہیں۔
۱۔ مقتولین کا خوں بہا دیا جائے۔
۲۔ اپنے طرفدار قبیلے سے قطع تعلق کیا جائے۔
۳ ۔یا یہ اعلان کر دیا جائے کہ حُدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا گیا۔
قریش نے صرف تیسری شرط قبول کی۔ سورئہ توبہ کا آغاز معاہدہ حُدیبیہ کی پابندیوں سے دست بر داری کے اعلان سے کیا گیا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

بَرَاۗءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۱ۭ

اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس معاہدہ کے شرائط کی ذمہ داریوں سے سبکد وشی کا اعلان ہے جو تم نے (ائے مسلمانو) مُشرکین سے کر رکھا تھا۔

فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ

لہٰذا (ائے مشرکو) تم اب ملک میں چار مہینے چل پھرلو۔

وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللہِ۝۰ۙ

اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔

وَاَنَّ اللہَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ۝۲

(اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے) اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ کافروں کو رسوا کریں گے۔

توضیح : یہ اعلان حج کے موقع پر ہوا تھا اس لیے ۱۰ ؍ذوالحجہ سے ۱۰ ؍ربیع الآخر چار مہینوں کی مہلت انھیں دی گئی ۔(ابن جریر)

وَاَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ

اور اللہ ورسول کی طرف سے حج اکبر کے دن عام لو گوں کے سامنے اعلان کیا جا تا ہے کہ

اَنَّ اللہَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۰ۥۙ وَرَسُوْلُہٗ۝۰ۭ

اللہ اور اس کے رسول بری الذمہ ہیں اِن شرائط معا ہدہ سے جو مشرکین سے طے پائے تھے۔

فَاِنْ تُبْتُمْ فَہُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝۰ۚ

تمہارے

وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللہِ۝۰ۭ

اور گر تم نے رو گردانی کی تو پھر جان لو کہ تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے (اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے)

وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ۝۳ۙ

اور (ائے نبی ﷺ ) ان کا فروں کو درد ناک عذاب کی خبردیجئے۔

اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ

البتہ وہ مشرکین مستثنیٰ ہیں جن کے ساتھ تم نے (چار ماہ سے زیا دہ کا ) عہد کیا ہو

ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا

اور کیے ہوئے عہد میں انھوں نے کسی طرح کی کوتا ہی نہ کی ہو۔

وَّلَمْ يُظَاہِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْہِمْ عَہْدَہُمْ اِلٰى مُدَّتِہِمْ۝۰ۭ

اور تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد نہ کی ہو تو ان سے کیے ہوئے معا ہدہ کی مُدت پوری کرو۔

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝۴

بیشک اللہ تعالیٰ پر ہیز گاروں(احتیاط کرنیوالوں کو) پسند کرتے ہیں۔

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ

پھر جب معا ہدے کے مہینے گزر جائیں تو

فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْہُمْ

ان مشر کین کو جہاں پائو قتل کردو۔

وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ۝۰ۚ

اور انھیں پکڑو گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ اُن کی تاک میں بیٹھو۔

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ

پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کی پابندی کریں

وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَہُمْ۝۰ۭ

اور زکوٰۃ دیتے رہیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو

اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۵

بلاشبہ اللہ تعالیٰ (توبہ کے بعد) بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں

وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ

اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے

فَاَجِرْہُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ

تواس کو پناہ دیجئے (اپنے پاس رکھیئے) تاکہ وہ آپ کی مجلسوں میں بیٹھ کر کلامِ الٰہی سنے

ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ۝۰ۭ

پھر اس کو اس کے امن کی جگہ (اس کے گھر ) پہنچا دیجئے۔

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُوْنَ۝۶ۧ

یہ حکم اس لیے ہے کہ وہ (علم الٰہی سے) بے خبر قوم ہے۔

كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ

ان مشرکین کیلئے(جنھوں نے بد عہد ی کی) اللہ اور رسول کے نزدیک ان سے کیا ہوا عہد کس طرح بر قرار رہ سکتا ہے؟ (یعنی انھیں کس طرح امان مل سکتی ہے)

اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۚ

سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے کعبۃ اللہ کے قریب عہد لیا ہے۔

فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَہُمْ۝۰ۭ

اگر وہ تم سے کیے ہوے عہد پر قائم رہیں تو تم بھی اُن سے کئے ہوئے اپنے قول و قرار پر قائم رہو

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝۷ كَيْفَ 

بے شک اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو دوست رکھتے ہیں۔ بھلا کس طرح ان لو گوں کا پاس ولحاظ کیا جا سکتا ہے جن کا حال یہ ہو کہ 

وَاِنْ يَّظْہَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً۝۰ۭ

اگر وہ تم پر قابو پائیں تو نہ تمہاری قرابت ہی کا پاس و لحاظ رکھیں اور نہ کسی قول وقرار کا

يُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ

یہ لوگ تم کو اپنی زبانی باتوں سے راضی کرتے ہیں۔

وَتَاْبٰي قُلُوْبُہُمْ۝۰ۚ وَاَكْثَرُہُمْ

اور ان کے دِل(معاہدات کی پابندی سے) گریز کرتے ہیں اور ان کی

فٰسِقُوْنَ۝۸ۚ

اکثر یت بد عہد ہے۔

اِشْتَرَوْا بِاٰيٰتِ اللہِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰ۭ

وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے عوض تھوڑا سا فائدہ حاصل کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں
(یعنی دنیا کے فائدے کے لیے دین فروشی کرتے ہیں)

اِنَّہُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۹

وہ کیا ہی بُرے کام کرتے ہیں ۔

لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً۝۰ۭ

یہ لوگ کسی مسلمان کے بار ے میں نہ کسی قرابت داری کا پاس ولحاظ کرتے ہیں اور نہ اپنے قول و قرار کی ذمہ داری کا انھیں احساس ہے۔

وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُعْتَدُوْنَ۝۱۰

یہ سب حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۝۰ۭ

لیکن اگر وہ ا(اپنی کافرانہ اور مخالِفانہ روش سے)توبہ کرلیںاور نماز کا التزام رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔

وَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝۱۱

اور ہم سمجھ سے کام لینے والوں کیلئے اپنے احکام تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَہْدِہِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ

اور اگر وہ عہد کرنے کے بعداپنی قسموں کو توڑدیں اور تمہارے دین پر طعن کر نے لگیں

فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّۃَ الْكُفْرِ۝۰ۙ

تو کُفر کے ان پیشوائوں سے جنگ کرو۔

اِنَّہُمْ لَآ اَيْمَانَ لَہُمْ

کیونکہ اب ان قسموں کا اعتبار نہیں،یہ بے ایمان ہیں

لَعَلَّہُمْ يَنْتَہُوْنَ۝۱۲

شاید کہ وہ (جہادہی کے خوف سے اپنی شرارتوںسے)بازآئیں۔

اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَہُمْ

(خبردار) کیا تم ایسی قوم سے نہیں لڑوگے جس نے اپنی قسموں کو توڑڈالا

وَہَمُّوْا بِـاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَہُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۝۰ۭ

اور وہ پیغمبر کو جلاوطن کرنے کے درپے ہوئے۔ انھوں نے تم سے عہدشکنی کی ابتداء کی تھی

اَتَخْشَوْنَہُمْ۝۰ۚ فَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۳

کیا تم ان کی اکثریت سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنا تو اللہ سے چاہئے (وہی ڈرنے کے لائق ہے)اگر تم مومن ہو۔
(ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی سے ڈریں غیر اللہ سے

قَاتِلُوْہُمْ يُعَذِّبْہُمُ اللہُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِہِمْ

نے ڈریں)
(بِلا خوف ضررجان ومال) اِن سے لڑو(جنگ کرو) اللہ تعالیٰ تمہارے ہی ہاتھوںانھیں عذاب دیں گے اور انھیں ذلیل وخوار کریں گے

وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْہِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۴ۙ

اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کریں گے(ان پر غلبہ دیں گے) اور اہلِ ایمان کے دِلوں کو تسکین عطا کریں گے

وَيُذْہِبْ غَيْظَ قُلُوْبِہِمْ۝۰ۭ

اور اُن کے دِلوں سے غیـض و غضب دُور کردیں گے

وَيَتُوْبُ اللہُ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ جس پر چاہتے ہیں خاص توجہ مبذول فرماتے ہیں۔

وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۱۵

اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے اور حکمت والے ہیں۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا

کیا تم خیال کرتے ہوکہ(امتحان وآزمائش کے دورسے گزرے بغیر یعنی راہِ حق میں جان مال کی بازی لگائے بغیر یوں ہی چھوڑ دئیے جائوگے؟

وَلَمَّا يَعْلَمِ اللہُ الَّذِيْنَ جٰہَدُوْا مِنْكُمْ

حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے آزمایاہی نہیں کہ کو ن تم میں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے؟

وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلَا رَسُوْلِہٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَۃً۝۰ۭ

اور (کون ہے جو) اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے سواکسی اور کو (اپناخصوصی) دوست نہیں بنایا؟

وَاللہُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۱۶ۧ

اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے جو کچھ تم کیا کرتے ہو باخبر ہیں۔

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللہِ

مشرکین کے لیے سزاوارنہیں ہے کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں

شٰہِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ بِالْكُفْرِ۝۰ۭ

اس حال میں کہ خود ہی اپنے کفر کی گواہی دے رہے ہوں (شرک اور کفر کی حالت میں اِن کا کوئی عمل قابلِ قبول نہ ہوگا)

اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ۝۰ۚۖ

یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے سارے اعمال ضـائع جائیں گے (یعنی ان کے نیک اعمال کا انھیں کوئی اجر نہ ملے گا)

وَفِي النَّارِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ۝۱۷

اور وہ ہمیشہ ہمیشہ دوخ میں رہیں گے۔

اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

بیشک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو وہی لو گ آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن (قیامت) پر (الٰہی ونبوی تعلیم کے مطابق)ایمان رکھتے ہیں۔

وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ

اور نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں

وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللہَ

اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔
یعنی ان کے قلوب مخلوق کے خوف سے بے پرواہ اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے معمور ہوتے ہیں

فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَ۝۱۸

اُمید ہے کے ایسے ہی لوگ ہدایت کے منازل طے کریں گے۔

اَجَعَلْتُمْ سِقَايَۃَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

(کُفر اور شرک کی حالت میں) حجاج کو پانی پلانے والے مسجدِحرام کے خدمت گارکو تم نے اس شخص کے برابر کا قراردے لیا ہےجو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے

وَجٰہَدَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ

اور جو اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دونوں کا درجہ ایک نہیں ہو سکتا۔ (ایمان کے بغیربیت اللہ اور حجاج کی خدمت کوئی حیثیت نہیں رکھتی)

وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۹ۘ

اور اللہ تعالیٰ ظالموں(مشرکوں) کو اصلاحِ عقائد کی سمجھ نہیں دیتے۔

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ

جولوگ ایمان لائے(جنھوں نے الٰہی تعلیم قبول کی) ترکِ وطن کیا اور اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کیے(جان ومال کی پرواہ کیے بغیرہجرت وجہاد کی منزلیں طے کیں۔ گھر سے بے گھرو بے سروسامان ہوئے)

اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ

اللہ تعالی کے پاس ان کے بڑے درجات ہیں

وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰

یہی لوگ با مُراد زندگی پانے والے ہیں ۔

يُبَشِّرُہُمْ رَبُّہُمْ بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَرِضْوَانٍ

ان کا پروردگار انھیں اپنی رحمت بے پایاں اور رضامندی کی خوشخبری سناتاہے۔

وَّجَنّٰتٍ لَّہُمْ فِيْہَا نَعِيْمٌ مُّقِيْمٌ۝۲۱ۙ

اور ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں جن میں بے شمار دائمی نعمتیں ہوں گی۔

خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝۰ۭ

جہاں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝۲۲

بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس (مہاجرین و مجاھدین کےلئے)اجر عظیم ہے۔ایسا اجر کہ یہاں اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ۝۰ۭ

ائے ایمان والو! اپنے باپ دادا اور بھائی بند کو دوست نہ بنائو(یعنی ان سے دِلی لگائو نہ رکھو) اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کرتے ہوں۔

توضیح : ہجرت کی جب اجازت ملی تو بعض حضرات بخوشی مدینے گئے اور بعض کو اپنے مال و اسباب اور اہل وعیال کے سبب پس وپیش ہوا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۳

اور تم میں سے کوئی اُن سے دوستی کرے گا تو ایسے ہی لوگ نا فرمان ہیں

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ

ائے نبی ﷺ (اہل ایمان سے) کہئے اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے

وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ

اور تمہارے بھائی بند اور تمہاری بیبیاں

وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا

اور تمہارا کُنبہ خاندان اور وہ مال جس کو تم نے کما یا ہے

وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا

اور وہ تجارت جس کی نکاسی نہ ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے

وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ

اور وہ مکا نا ت جن کو تم پسند کرتے ہو تمہیں اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں

فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ

تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (اپنے عذاب کا) حکم بھیج دیں۔

وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝۲۴ۧ

اور اللہ نا فرمانوں کو ہدایت نہیں دیتے ۔

توضیح : دین الٰہی کو قبول کرنے کا تقاضہ یہ ہے کہ کُنبہ برادری کے تعلقات اور دنیا کی محبوب چیز کی محبت دین الٰہی کی بقاء اور اشاعتِ حق کی جد و جہد میں مانع ومزاحم نہ ہو۔
۸ھ ہجری میں فتح مکّہ کے بعد ہی جنگ حنین پیش آئی۔ عرب کے دو بڑے قبیلے جن کے نام ہوازن اور ثقیف تھے انھیں اپنی بہادری کا بڑا زعم تھا۔ فتح مکّہ کے بعد انھوں نے خیال کیا کہ اگر مسلمان ہم پر حملہ کریں تو ہمارا مقابلہ نہ کر سکیں گے بلکہ ہم مسلمانوں کو شکست دے کر اہلِ مکّہ کی تمام جائداد پر قابض ہو جائیں گے اور مسلمانوں سے اپنے آبائی دین کی بے حرمتی کا انتقام بھی لیں گے۔ فتح مکّہ کے بعد دیگر قبائل تو اسلام کی طرف مائل ہوتے جا رہے تھے مگر قبیلہ ہوازن او ر ثقیف پر الٹا اثر ہوا۔ اُنھوں نے چند اور قبائل کو ہموار کیا اور چار ہزار منتخب بہادروں کو لے کر مکّہ کی طرف بڑھے اور وادئی حُنین میں جو مکّہ اور طائف کے درمیان واقع ہے، پڑائو کیا۔ اپنے سر دار قبیلہ کے مشورہ سے اپنے بیوی بچّے اور تمام مال وزراور مویشی کو بھی ساتھ لیا تاکہ کوئی ان کی محبت میں میدان جنگ سے فرار نہ ہونے پائے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملتے ہی آپؐ بھی پوری تیار ی کے ساتھ فوج لے کر مقابلے کے لئے نکلے۔اہل ایمان کی تعداد کم وبیش بارہ ہزارتھی اور دشمن صرف چار ہزار تھے ۔اس سے پہلے جتنی لڑائیاں ہوئیں ان میں صحابۂ کرام کی تعداد دشمنوں کے مقابلہ میں کم رہی تھی۔ یہ پہلی جنگ تھی جس میں صحابہ کرام کی تعداد بہت زیادہ اور دشمنوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ان حالات میں غیر شعوری طور پر جو بشری کمزوری پیدا ہوجا تی ہے اگلی آیتوں میں اسی کا ذکر ہے۔

 

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَۃٍ۝۰ۙ

یقیناً اللہ تعالیٰ نے جنگ کے کئی ایک مو قعوں پر تمہاری مدد کی ہے۔

وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ۝۰ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ

اور اسی طرح جنگ ِ حنین میں بھی جبکہ تم کو اپنی کثرت پر بھروسہ ہو گیا تھا۔
(تم یہ خیال کرنے لگے تھے کہ ہم تعداد میں زیادہ ہیں یقیناً دشمنوں پرغالب رہیں گے۔ اس طرح اعتماد علی اللہ وانا بت اِلیٰ اللہ کی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوئی جو پچھلی لڑائیوں میں ہوا کر تی تھی۔ظاہری اسباب پر بھروسہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کے طور پر کچھ دیر کے لیے تمہاری طرف سے اپنی توجہ ہٹا لی اور تم نے دیکھ لیا)

فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا

پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی۔

وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ۝۲۵ۚ

زمین اپنی وسعت کے با وجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کا بھاگ کھڑے ہوئے۔

ثُمَّ اَنْزَلَ اللہُ سَكِيْنَتَہٗ عَلٰي رَسُوْلِہٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ

پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مو منین پر تسکین نازل فرمائی

وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا وَعَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ وَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۶

اور فرشتوں کے ایسے لشکر اُتار ے جنھیںتم نے نہیں دیکھا اور کافروں (انکار حق کرنے والوں)کو سزا دی اور کافروں کی(دنیوی زندگی میں) یہی سزا ہے۔

توضیح : واقعہ یہ ہے کہ جب اسلامی فوجیں حنین کے قریب پہنچیں تو دشمن کے منتخب تیر انداز راستے کی گھاٹیوں میں چھپے بیٹھے تھے ۔ اسلامی فوج کا اگلا دستہ ان کی زد میں آتے ہی دشمن نےتیر برسانے شروع کر دیئے۔ اسلامی فوج میں انتشار پیدا ہوگیا اور فوج پلٹ کر ادھر اُدھر بھاگنے لگی۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ حال دیکھ کر پیچھے سے للکارا آئو میری طرف میں اللہ کا رسول ہوں۔ اسلامی فوج آپ کی آواز سن کر آپ کی طرف لوٹ آئی اور ایک جگہ جمع ہو کر دشمن پر حملہ کر دیا۔ پہلے ہی حملہ میں دشمن شکست کھا گئے۔

ثُمَّ يَتُوْبُ اللہُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ

پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جس پر چا ہا مہر بانی فر مائی

عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۲۷

اور اللہ بڑے ہی بخشنے رحم کرنے والے ہیں۔
(اب سر زمین عرب شرک و کفر کی گند گی سے پاک ہو چکی تھی، حکم دیا گیا)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ

ائے ایمان والو ! یقیناً مشرک نجس و نا پاک ہیں

فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا۝۰ۚ

لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔

توضیح : حج کے مہینے تجارت کے لیے مخصوص تھے۔ حج کے زمانے میں شہر مکّہ تجارت کی ایک بڑی منڈی بن جا تا ہے اطراف سے لو گ حج کے لیے مکّہ سے مختلف سا مان خرید لیتے اور اپنا سامان ان کو بیچتے اس کے علاوہ اس زمانے میں اہل مکّہ کے لیے آمدنی کے اور بھی ذرائع پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً سواری اور مکا نات کا کرایہ، اشیا ئے خورد ونوش کی خریدی وغیرہ اس امتناعی حکم کے بعد کہ آئندہ سے مشرکین مسجد حرام کے قریب بھی نہ آئیں، مکّہ کے مسلمانوں کے لیے تشویش ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس آیت کے ذریعہ تسلی فر مائی۔

وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَۃً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَاۗءَ۝۰ۭ

اور اگر تم کو مفلسی (یا تجا رت کے منقطع ہو جا نے ) کا اندیشہ پیدا ہواہے تو اللہ تعالیٰ عنقریب اپنے فضل سے تمہیں غنی کردے گا اگر چاہے

اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۲۸

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔
(تم سے زیادہ تمہارے مستقبل کو جانتے ہیں اور تمہارے نفع وضرر کو تم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔پھر تم کیوں اپنے مستقبل کے تعلق سے فکر مند ہو)

قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

(ائے ایمان والو) اُن لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ تعا لیٰ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ قیا مت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔

وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ

اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو اللہ رسول نے حرام بتلا یا ہے

وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ 

اورنہ دین حق کو قبول کرتے ہیں جو اہل کتاب میں سے ہیں،

حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ۝۲۹ۧ

یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جز یہ دینا قبول کرلیں اور مطیع ہو جائیں۔

وَقَالَتِ الْيَہُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللہِ

اور یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کے بیٹے ہیں۔

وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللہِ۝۰ۭ

اور عیسائی کہتے ہیں مسیح (ابن مریم ) اللہ کے بیٹے ہیں۔

ذٰلِكَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ۝۰ۚ

یہ ان کا من گھڑت قول ہے۔

يُضَاہِـــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ

ان کی یہ باتیں اُن کافروں کے قول کے مشابہ ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔

توضیح :مشرکین کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکومت چلانے کے لیے افرادِ خلق میں سے مقرب بندوں کو اپنا بیٹا بیٹی بنا لیتے ہیں اور اپنے اختیارات انھیں عطا کرتے ہوئے مختلف اُمور ان کے تفویض کرتے ہیں۔ یہ مقرب بندے اپنے اختیاراتِ حاصلہ کے تحت دنیا و آخرت کا نظام چلاتے ہیں۔یعنی بندوں کا رزق ۔ موت ، حیات، خوش حالی وبدحالی کا انتظام کسی کے جنّتی و دوزخی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مذہبی پیشوا ایسی مشر کا نہ تعلیم دیتے اور مُتبعین اس کو صحیح سمجھتے تھے۔ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ ان کے پیشوائوں سے نسبت و عقیدت ہی ان کی نجات کا ذریعہ ہے۔

یعنی 

قٰتَلَہُمُ اللہُ۝۰ۚۡاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۝۳۰

اللہ ان کو غارت کرے یہ کد ھر بہکائے جا رہے ہیں۔
(اسی عقیدے کے حامل لو گوں پر اللہ تعالیٰ پھٹکار فرماتے ہیں)

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ۝۰ۚ

انھوں نے اپنے علماء و مشائخ اور مسیح ابنِ مریم کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا۝۰ۚ

اور انھیں تو یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ اِلٰہ واحد کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں۔

لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۳۱

اس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مشرکا نہ باتوں سے پاک ومنزہ ہیں۔ جو وہ اللہ سے منسوب کرتے ہیں۔

توضیح :مآیات کریمہ۰۳ و۳۱سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ملائکہ وانبیاء علیہم السلام،بزرگان دین،صالحین اُمت اور مشائخین وغیرہ کو نا فع وضارقراردینا اور نافع وضـارقرار دینے کے لیے انھیں خدا کا بیٹا وغیرہ کہنا یہ سب اعمال شرک ہیں۔

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور(دین ِاسلام)کو اپنے منہ سے پھونک مارکر بجھادیں۔ (اس غرض سے اعتراض کرتے ہیںکہ دین کو فروغ نہ ہو)

وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۳۲

اور اللہ تعالیٰ تو اپنے دین کی روشنی پھیلاکر رہیں گے،چاہے کافروں (انکارِحق کرنے والوں) کو کتنا ہی بُرالگے۔

ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ

اللہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا۔

لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۳۳

تاکہ تمام افترائی ادیان پر دینِ حق کو غالب کر دے چاہے مشرک کتنے ہی نا خوش ہوں۔
(مقصدیہ ہے کے بنی آدم کی اکثریت اپنے من گھڑت اور افترائی ادیان کو چھوڑکردین ِحق کی پیروہوجائے)

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ

ائے ایمان والو (ان) اہلِ کتاب کے اکثر علماء ومشائخ اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ

لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ

لوگوں کا مال نا جائزطریقوں سے کھاجاتے ہیں اور اُن کو راہ حق سے روکتے ہیں۔
(جو باتیں دین کی نہیں ہیں اُنھیں دینِ حق باور کراتے ہیں)

وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ

اور (جن کی دنیا پر ستانہ ذہنیت کا یہ حال ہے کہ) وہ ہر وقت چاندی سونے کے ذخائر جمع کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔

وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۙ

اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔

فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۳۴ۙ

(ائے نبیﷺ)انھیں دردناک عذاب کی خبر سُنادیجئے۔

يَّوْمَ يُحْمٰي عَلَيْہَا فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ

جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا

فَتُكْوٰي بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ۝۰ۭ

پھر اس سے ان کی پیشانیوں اور اُن کے بازوئوں اور اُن کی پشت کو داغا جائے گا

ہٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ

(پھر ان سے کہا جائے گا)یہ وہی خزانہ ہے جس کو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھاتھا۔

فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ۝۳۵

اب اس کا مزہ چکھو جس کو تم جمع کرتے رہے تھے۔

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِيْ كِتٰبِ اللہِ

یقیناً اللہ تعالیٰ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ مہینے ہے(یعنی اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ میں سال کے بارہ مہینے یہی مقرر فرمائے ہیں)

يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۝۰ۭ

(اس وقت سے)جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان بنائے۔ ان بارہ مہینوں میں چار مہینے حُرمت کے قرار دئے گئے۔

ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ۝۰ۥۙ

یہی دینِ مستقیم(دین کا سیدھا راستہ) ہے

فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْہِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّۃً كَـمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّۃً۝۰ۭ

لہٰذااِن مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم(قتال) مت کرو۔ اور مشرکین سے اپنی پوری اجتماعی قوت کے ساتھ لڑو۔ جس طرح وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ۝۳۶

اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہیں(یعنی ان کی مد د کرتے ہیں)

اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَۃٌ فِي الْكُفْرِ

یقیناً نسی(امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کرنا) منجملہ اور کافرانہ طریقوں کی ایک کا فرانہ روِش ہے۔
(نسی حُرمت کے مہینے کوغیرحرمت کا قرار دیتے ہوئے، غیر حرمت کے مہینے کو حرمت کا مہینہ قراردینا ہے)

يُضَلُّ بِہِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

اس سے کافر گمراہی میںپڑے رہتے ہیں۔

يُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّيُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا

کسی سال اس کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور کسی سال حرام کر لیتے ہیں۔

لِّيُوَاطِــــُٔــوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللہُ فَيُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللہُ۝۰ۭ

تا کہ اللہ تعالیٰ نے جو مہینے حرام کیے ہیں، ان کی موافقت ہو جائے اوراللہ تعالیٰ کا حرام کیا ہوا حلال ہوجائے۔

زُيِّنَ لَہُمْ سُوْۗءُ اَعْمَالِـہِمْ۝۰ۭ

(کفر کی پاداش میں) ان کے برے اعمال ان کی نظروں میں خوشنما بنا دئیے گئے ہیں۔

وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝۳۷ۧ

اللہ تعالیٰ(ایسے) کافروں کو ہدایت نہیں دیتے۔