☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۝۱ۙ
لَيْسَ لِوَقْعَتِہَا كَاذِبَۃٌ۝۲ۘ
خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ۝۳ۙ
اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۝۴ۙ
وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙ

جب وہ پیش آنے والا واقعہ پیش آجائیگا(یعنی قیامت برپا ہو جائے گی)
تو کوئی ان کے وقوع کا انکار نہ کرسکے گا ۔
وہ تہ وبالاکرنے والی آفت ہوگی۔
جب کہ ساری زمین یکبار گی ہلا ڈالی جائے گی۔
اور پہاڑ (آپس میں ٹکراکر)اس طرح ریزہ ریزہ کردیئے جائیںگے۔

فَكَانَتْ ہَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ۙ
وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً۝۷ۭ
فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝۰ۥۙ
مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝۸ۭ
وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۝۰ۥۙ

کہ پر اگندہ غبار بن کر اڑجائیں گے۔
اور تم اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے ۔
پس دائیں بازو والے
دائیں بازوں والوں(کی خوشی نصیبی) کا کیا کہنا ؟
اور بائیں بازووالے

مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۝۹ۭ
وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۝۱۰ۚۙ
اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ۝۱۱ۚ
فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۱۲
ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۳ۙ
وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۱۴ۭ

تو بائیں بازووالوں(کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا؟
تیسرا گروہ ان لو گوں کا ہوگا جو نیکیوں میں پیش پیش ہوں گے۔
وہی تو (اللہ تعالیٰ کے ) مقرب بندے ہیں۔
جو نعمتوں سے بھری ہوئی جنتوں میں رہیں گے۔
یہ اگلے لو گوں میں سے بہت زیادہ ہوں گے ۔
اور پچھلوں میں سے تھوڑے ہوں گے ۔

توضیح :یہاں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر نبی کریم ﷺکی بعثت تک جتنی امتیں گزری ہیں وہ اولین ہیں اور نبی کریم ﷺ کے بعد قیامت تک کے لوگ آخرین ہیں۔اوربعض کہتے ہیں کہ یہاں اولین وآخرین سے مراد نبی کریم ﷺ کی امت کے اولین وآخرین ہیں۔

عَلٰي سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۝۱۵ۙ

سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر(جو سو نے جواہرات، یاقوت ولعل سے جڑے ہوئے ) ہوں گے۔

مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا مُتَقٰبِلِيْنَ۝۱۶
يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙ

بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۝۰ۥۙ
وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۝۱۸ۙ
لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙ
وَفَاكِہَۃٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ۝۲۰ۙ
وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَہُوْنَ۝۲۱ۭ
وَحُوْرٌ عِيْنٌ۝۲۲ۙ
كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ
جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۲۴

تکیہ لگائے یہ اور ان کی بیویاں آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔
ان کی خدمت میں ایسے لڑکے آیا جا یا کریںگے،جوہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔(یعنی معصوم بچے)
(اور یہ لڑکے)آفتابے اور آب خورے
اور چھلکتی ہوئی شراب سے لبریز پیالے لئے ہوئے آمد ورفت کیا کریں گے
اس کے پینے سے انھیں دردِ سر ہوگااورنہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔
اور وہ انکے سامنے ہر قسم کے لذیذ ترین، پسندیدہ میوے پیش کریں گے۔
اور پرندوں کا گوشت بھی جوانھیں مرغوب ہو۔
اور ان کے لئے بڑی آنکھوں والی نہایت ہی خوبصورت حوریں ہونگی۔
گو یا کہ صدف میں چھپے ہوئے دُرِّنا سُفتہ (یعنی کنواری) ہوں گی۔
یہ سب کچھ انھیں ان کے حسن عمل کے صلہ میں ملے گا جو وہ (دنیا میں) کرتے رہے تھے۔

لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا۝۲۵ۙ
اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶
وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۰ۥۙ
مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۲۷ۭ

وہ وہاں کوئی بے ہودہ اور گناہ کی بات نہ سنیں گے۔
ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں سنیں گے۔
اور داہنے بازو والے
کیا ہی خوش نصیب ہیں داہنی بازووالے۔

فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۝۲۸ۙ
وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۝۲۹ۙ
وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ
وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۝۳۱ۙ
وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۝۳۲ۙ

وہ ان باغوں میں ہوں گے جہاں بے خار درختوں کی لذیذ ترین بیریاں
اور تہہ بہ تہہ چڑھے ہوئے موز کی پھنیاں ہوں گی ۔
اور (درختوںکے)دور دور تک پھلے سائے ہوں گے ۔
اور پانی کے آبشار
اور کثرت سے میوے ہوں گے ۔

لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۝۳۳ۙ

جو کبھی ختم ہوں گے اور نہ (ان کے کھانے میں) کوئی روک ٹوک ہوگی۔

وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۝۳۴ۭ
اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۝۳۵ۙ
فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۝۳۶ۙ

اور وہ اونچے فرش کئے ہوئے تختوں پر بیٹھیں گے۔
ہم نے ان (حوروں) کو خاص طور پر پیدا کیا۔
اور ہم نے انھیں باکرہ(کنواری و نوخیز ) بنا یا ہے۔

عُرُبًا اَتْرَابًا۝۳۷ۙ
لِّاَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۝۳۸ۭۧ

اپنے شوہروں کو دل و جان سے چاہنے والی حسین وہم سن ہوں گی یہ ساری چیزیں داہنے بازو والوں کے لئے ہیں ۔

توضیح :یعنی بہترین نسوانی خوبیاں رکھنے والی طر حدار خوش اطوار و خوش گفتار ہوںگی اور ان کے شوہر بھی ان کے شیدائی ہوں گے جو خود بھی ان کے ہم سن و خوبصورت ہوں گے ۔

ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۹ۙ
وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۴۰ۭ
وَاَصْحٰبُ الشِّمَالِ۝۰ۥۙ
مَآ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ۝۴۱ۭ
فِيْ سَمُوْمٍ وَّحَمِيْمٍ۝۴۲ۙ

ایسے لوگ اگلوں میں سے بہت سے ہوں گے ۔
اور پچھلوں میں سے بھی بہت ہوں گے۔
اور بائیں بازو والے
بائیں بازووالوں کی بدنصیبی کا کیا پوچھنا۔
وہ جہنم کی شدید ترین حرارت (جھلسا دینے والی آگ کی لپیٹ) اور کھولتے ہوئے پانی میں

وَّظِلٍّ مِّنْ يَّحْمُوْمٍ۝۴۳ۙ
لَّا بَارِدٍ وَّلَا كَرِيْمٍ۝۴۴
اِنَّہُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُتْرَفِيْنَ۝۴۵ۚۖ

وَكَانُوْا يُصِرُّوْنَ عَلَي الْحِنْثِ الْعَظِيْمِ۝۴۶ۚ
وَكَانُوْا يَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ
اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙ
اَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۴۸

اور سیاہ دھویں کے گرم سایہ میں ہوں گے۔
جو نہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ آرام دہ۔
یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس سے پہلے(دنیا میں)خوش حال زندگی گزا ر رہےتھے۔
اوروہ گناہ عظیم(شرک،وکفر،طغیان وسرکشی) پر اڑے ہوئے تھے۔

اور وہ کہا کر تے تھے:
جب ہم مرجائیں گے مٹی اور ہڈیاںہوکر رہ جائیںگے تو کیا ہم دوبارہ (دفعتہً) پیدا کئے جائیں گے؟
اور کیا ہمارے باپ دادا بھی(اٹھائے جائیں گے) جو پہلے گذر چکے ہیں؟

قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِيْنَ وَالْاٰخِرِيْنَ۝۴۹ۙ
لَمَجْمُوْعُوْنَ۝۰ۥۙ
اِلٰى مِيْقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۵۰
ثُمَّ اِنَّكُمْ اَيُّہَا الضَّاۗلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ۝۵۱ۙ
لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ۝۵۲ۙ

(ائے نبی ﷺ) کہہ دیجئے، یقیناً اگلے اور پچھلے سب کے سب ایک دن(محاسبہ اعمال کے لئے )جمع کئے جائیںگے۔
جس کاوقت مقر رہے۔
پھر (ان سے کہا جائے گا) ائے گمراہی اختیار کرنے اورجھٹلا نے والو ۔

اب تم (جہنم کے) ایک نہایت ہی بدترین خار دار پھل کھا نے والے ہو۔

فَمَالِــــُٔـوْنَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ۝۵۳ۚ
فَشٰرِبُوْنَ عَلَيْہِ مِنَ الْحَمِيْمِ۝۵۴ۚ
فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْہِيْمِ۝۵۵ۭ
ھٰذَا نُزُلُہُمْ يَوْمَ الدِّيْنِ۝۵۶ۭ
نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ۝۵۷

اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تُمْـنُوْنَ۝۵۸ۭ

اسی سے تم اپنا پیٹ بھرو گے ۔
پھر اوپر سے کھولتا ہوا پانی ۔
پیاسے اونٹوں کی طرح پیو گے۔
قیا مت کے دن ان کی اس طرح مہمان داری کی جائے گی ۔
ہم نے تم کو پیدا کیا پھر تم(ہمارے خالق ہونے کی ) تصدیق کیوں نہیں کرتے؟
کیا کبھی تم نے غور بھی کیا ہے۔ تمہارے ذریعہ تمہاری بی بیوں کو جو حمل قرار پا تا ہے۔

ءَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ۝۵۹
نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ
وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِيْنَ۝۶۰ۙ
عَلٰٓي اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَكُمْ
وَنُنْشِـىَٔـكُمْ فِيْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۶۱
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰى

تم اس کے خالق ہو یا ہم اس کے خالق ہیں؟
ہم نے تمہارے درمیان (ہر ایک کی )موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے
اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں۔
کہ تمہاری شکلیں بدل دیں
اور تمہیں ایسی شکل میں پیدا کردیں جس کو تم نہیں جانتے۔
اور یقیناً تم اپنی پہلی پیدائش کو تو جانتے ہو(کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو کس محیّرالعقول طریقہ سے پیدا کیا)

فَلَوْلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۶۲
اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ۝۶۳ۭ

پھر تم مرنے کے بعد دوبارہ دفعتہً پیدا کئے جانے کو کیوں نہیں مانتے؟
کیا تم نے کبھی سوچا بھی کہ جو بیج تم بوتے ہو

ءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ۝۶۴
لَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّہُوْنَ۝۶۵
اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ۝۶۶ۙ

بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ۝۶۷
اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ۝۶۸ۭ
ءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۝۶۹
لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝۷۰
اَفَرَءَيْتُمُ النَّارَ الَّتِيْ تُوْرُوْنَ۝۷۱ۭ

کیا اسے تم اگا تے ہو(یعنی لہلہا تی کھیتیاں بنا تے ہو) یاہم ان کے اُگانے والے ہیں۔
اگر ہم چاہیں تو اس کو خشک ریزہ ریزہ ناکارہ بنا دیں اورتم اس تباہی کو دیکھ کر حیران رہ جاؤ ۔
(اور طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جاؤ) اور کہنے لگو کہ ہم پر تاوان لگا یا گیا ہے۔
بلکہ ہم محروم کر دیئے گئے(ہمارے نصیب ہی پھوٹے ہوئے ہیں)
کیا تم نے کبھی غور بھی کیا ہے کہ یہ پانی جو تم پیتے ہو۔
کیا تم نے اسے بادلوں سے بر سا یا ہے یااس کے برسانے والے ہم ہیں ۔
اگر چاہیں تو اسے کھاری اور کڑوابناکر رکھ دیں(پھر وہ پینے کے قابل نہ رہے) پھر تم ہمارے شکر گزار کیوں نہیں ہو تے؟
کیا کبھی تم نے غور بھی کیا ہے کہ یہ آگ جو تم سلگا تے ہو کیا اس کا درخت

ءَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَہَآ
اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــُٔوْنَ۝۷۲
نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْكِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ۝۷۳ۚ

تم نے پیدا کیا ہے؟
یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟
ہم نے اس کونصیحت ویاد دہانی کاذریعہ بنایا اور مسافرو محتاج کے لئے منفعت بخش بنایا ۔

فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ۝۷۴ۧ

پس (ائے نبی ﷺ ) اپنے رب اعلی و عظیم کے نام کی تسبیح کیا کیجئے (کہ وہ تمام مشرکانہ تصورات سے منزہ ہے)

فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ۝۷۵ۙ

(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) میں قسم کھا تا ہوں ستاروں کی گذر گاہ کی ۔

توضیح :اُقْسِمُ کے معنی ہیں میں قسم کھا تا ہوں ۔لَااُقْسِمُ میں لا تاکید مزید کیلئے آتا ہے ۔ قسم کی نفی کیلئے نہیں آتا۔

وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِيْمٌ۝۷۶ۙ

اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔ (اللہ تعالیٰ کا قسم کھا کر کسی بات کا فرمانا

ایک نہایت ضروری بات کا یقین دلانا ہو تاہے،تاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے یقین کر لیں وہ یہ کہ

اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ۝۷۷ۙ

بے شک یہ ایک نہایت ہی بلند پا یہ قرآن ہے ۔

توضیح : یعنی قرآن کریم نہایت ہی باعظمت،کثیر النفع اور اللہ تعالیٰ جامع نصیحتوں کا مجمو عہ ہے،جس پر عمل کے نتیجہ میں انسانی کردار نشو ونماپاتا اور مقصد حیات کو پورا کرتا ہے۔

فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ۝۷۸ۙ

جو ایک محفوظ کتاب(لوحِ محفوظ)میں لکھا ہوا ہے۔

ہر طرح کی تحریف اورردّوبدل سے محفوظ حالت میں نازل کیا گیا ہے اور مخلوق کی دست و بر د سے بھی محفوظ ہے۔

لَّا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ۝۷۹ۭ
تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۸۰

اس (قرآن مجید)کومطہرین (پاک فرشتوں) کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا
یہ پر ور دگار عالم کی طرف سے اتاراگیاہے۔

توضیح :کفار مکّہ کہا کرتے تھے کہ محمد ﷺ پر یہ کلام اجنہّ وشیا طین نازل کیا کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے اس قول کی اس طرح تردید کی گئی ہے وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّيٰطِيْنُ۝۲۱ومَا يَنْۢبَغِيْ لَہُمْ وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۝۲۱۱ۭ اِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ۝۲۱۲ۭ (سورۃ الشعرا آیت ۲۱۰تا ۲۱۲) ترجمہ : اس کولے کر شیاطین نہیں اتر تے۔ نہ یہ کلام انھیں زیب دیتا ہے اور نہ اس کے اہل ہیں اور نہ ایسا کر سکتے ہیں وہ تو اس کی سماعت سے بھی معزول کردیئے گئے ہیں یعنی سن بھی نہیں سکتے۔

اَفَبِھٰذَا الْحَدِيْثِ اَنْتُمْ مُّدْہِنُوْنَ۝۸۱ۙ

تو پھر کیا اس کلام سے تم بے اعتنائی بر تتے ہو۔ (سنجید گی کے ساتھ اس

وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ۝۸۲

کےمضامین کو سننے سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتے (گویا اس کلام کی تمہارے پاس کوئی اہمیت ہی نہیں ہے)
اور تم نے اس انعام کی تکذیب کو اپنا (محبوب ترین ) مشغلہ بنا یا ہے ۔

توضیح : یعنی قرآن مجید کے ذریعہ حق و باطل کو سمجھنے اور مرضیات الٰہی سے واقف ہونے کا تمہیں ایک موقع دیا گیا۔چاہیئے تو یہ تھا کہ تم رضائے الٰہی کے حصول میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر تے ۔ لیکن تم نے اپنی ساری صلاحیتیں انعام الٰہی کی تکذیب میں صرف کر دیں۔

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۝۸۳ۙ
وَاَنْتُمْ حِيْـنَىِٕذٍ تَنْظُرُوْنَ۝۸۴ۙ
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۝۸۵

پھر جب مرنے والے کی روح حلق تک آپہنچے۔
اور تم اس وقت اس کی کیفیت (جان کنی)بھی دیکھتے ہو۔
اور ہم اس وقت تم سے زیادہ اس (مرنے والے ) کے قریب ہو تے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس پر کیا گزر تی ہے ، لیکن تم کو کچھ بھی نظر نہیںآتا ۔

فَلَوْلَآ اِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْـنِيْنَ۝۸۶ۙ
تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۸۷

پھر اگر تم کسی کے بس میں نہیں ہو(اور صا حب قدرت ہو)۔
اور اپنے اس خیال میں سچے ہو تو (پھر اس ) مرنے والے کی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟

یعنی پیدا کر نے سے تو روح کا بدن میں لوٹا دینا زیادہ آسان ہے، کم ازکم اتنا توکرو اگر تم سچے ہو۔

فَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ۝۸۸ۙ
فَرَوْحٌ وَّرَيْحَانٌ۝۰ۥۙ وَّجَنَّتُ نَعِيْمٍ۝۸۹
وَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۝۹۰ۙ
فَسَلٰمٌ لَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۝۹۱ۭ

پھر وہ مرنے والا اگر مقر بین میں سے ہو ۔
تو اس کے لئے راحت ہی راحت،فرحت ہی فرحت ہے اور نعمتوں سے بھری جنت ہے۔
اور اگر وہ اصحب یمین میں سے ہو۔
تو اس کو (خوشخبری دی جائے گی اور ) کہا جائے گا کہ تیرے لئے سلا متی ہے تو اصحب الیمین میں سے ہے۔

وَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِيْنَ الضَّاۗلِّيْنَ۝۹۲ۙ
فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِيْمٍ۝۹۳ۙ

اوراگر وہ جھٹلا نے والوں ، گمراہوں میں سے ہو گا۔

تو اس کی تواضع کھولتے ہوئے پانی سے کی جائے گی ۔

وَّتَصْلِيَۃُ جَحِــيْمٍ۝۹۴
اِنَّ ھٰذَا لَہُوَحَقُّ الْيَقِيْنِ۝۹۵ۚ
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ۝۹۶ۧ

اوراسے دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔
یہ سب کچھ قطعی اور یقینی ہے۔(لہٰذا ائے نبی ﷺ )
اپنے رب اعلیٰ کے نام کی تسبیح کیا کیجئے ۔

توضیح :جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیاکہ اس کو رکوع میں رکھو، یعنی سُبْحَانَ رَبِّی الْعَظِیْم کہا کرو۔ اور جب آیت سَبِّحِ اسْمَ نازل ہوئی تو فرمایا اسکو سجدے میں رکھو یعنی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہو (مسند احمد، ابو داود، ابن ماجہ)
اس سے اس بات کابھی پتہ چلتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کا جو طریقہ مقرر فرما یا ہے، اس کے چھوٹے سے چھوٹے اجزاتک وحئی الٰہی پر مبنی ہیں۔