☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰى۝۱ۙ
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى۝۲ۚ

قسم ہے تارے کی جب وہ غروب ہو ۔
تمہارے رفیق (محمدﷺ) نہ بھٹکے ہیں اورنہ بہکے ہیں۔

توضیح : (یعنی راستہ نہ جاننے کی وجہ کسی غلط راستے پرنہیں چل پڑے۔ یا جان بوجھ کرکوئی غلط راستہ نہیں اختیار کئے ہیں)

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى۝۳ۭ

اور نہ وہ اپنی خواہش نفس سے کوئی بات کہتے ہیں(یعنی قرآن کریم اپنے دل سے بناکر نہیں سناتے)

توضیح :حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ سے جوبات بھی سنتا، اس کو لکھ لیا کرتا، تا کہ یاد کرلوں تواس کام سے قریش نے مجھ کو منع کیا اور کہا کہ جو کچھ تو’حضورﷺ سے سنتا ہے لکھ لیتا ہے۔ حالانکہ حضرتﷺ بشر ہیں، کبھی غصہ کی حالت میں بھی کچھ بولتے ہیں، تب میں لکھنے سے رک گیا اور حضورﷺ سے یہ بات بیان کی، آپ نے فرمایا: لکھو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میںمیری جان ہے مجھ سے سوائے حق بات کے کچھ نہیں نکلتا‘‘۔(ابن کثیر)

اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى۝۴ۙ

یہ (قرآن) وحی الٰہی کے سوا کچھ نہیں۔ جوان (محمدﷺ) پرنازل کی جاتی ہے

عَلَّمَہٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى۝۵ۙ
ذُوْ مِرَّۃٍ۝۰ۭ فَاسْتَوٰى۝۶ۙ

انھیں ایک فرشتہ (جبرئیل) بہ حکم الٰہی تعلیم دیتا ہے، جو بڑا ہی طاقت ور ہے۔
پھر وہ (فرشتہ اپنی اصلی صورت میں) نمودار ہوا۔

وَہُوَبِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى۝۷ۭ
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى۝۸ۙ

فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى۝۹ۚ

اور وہ اس وقت آسمان کے مشرقی کنارہ پر تھا۔
پھر وہ فرشتہ (آپؐ کے) نزدیک آنے لگا اور قریب ترہوتا گیا (بڑھتے بڑھتے فضا میں آپ پر معلق ہوگیا)
یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔

توضیح : قاب قوسین کے معنی بقدرِ دو قوس ہی بیان کئے گئے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قوس کوذراع (ہاتھ) کے معنی میں لیا ہے یعنی دونوں کے درمیان دو ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا۔

فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰى۝۱۰ۭ
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى۝۱۱

تب اس نے اللہ کے بندہ کووحی پہنچائی جو اسے پہنچانی تھی ۔
جو کچھ پیغمبر نے دیکھا ان کے دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا ۔

توضیح : یہ مشاہدہ دن کی روشنی کی طرح بیداری کی حالت میں ہوا اور آپ کے دل نے ٹھیک ٹھیک وہی سمجھا جوآپ کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔ انھیں اس امر میں کوئی شک لاحق نہیں ہوا کہ فی الواقع یہ جبرئیل ہیں اورجوپیغام پہنچارہے ہیں وہ واقعی خدا کی طرف سے ہے۔ اصولاً اللہ تعالیٰ جب کسی کو اپنی نبوت کے لئے منتخب فرمالیتے ہیں تواس کے دل کوشکوک وشبہات اور وساوس سے پاک کرکے یقین سے بھردیتے ہیں۔ پھر اس کی صحت کے متعلق ادنیٰ سا تردد بھی ان کے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا۔

اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰي مَا يَرٰى۝۱۲
وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰى۝۱۳ۙ
عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰى۝۱۴

توکیا ان (پیغمبر) سے ان کی آنکھوں دیکھی چیز پرجھگڑتے ہو
اورانہوں نے اس (فرشتے) کو ایک اور دفعہ (اصلی صورت میں)
دیکھا، سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔

توضیح : سدرہ عربی میں بیری کے درخت کوکہتے ہیں اور منتہیٰ کے معنی آخری سرا کے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مقام ہے، جس کے آگے کوئی بشر یا فرشتہ جا نہیں سکتا، جہاں ہر عالم کا علم ختم ہوجاتا ہے آگے جو کچھ ہے اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰى۝۱۵ۭ

اس کے قریب ہی جنت الماویٰ ہے۔

توضیح : جنت الماویٰ کے لغوی معنی ہیں وہ جنت جوقیام گاہ بنے۔ حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ یہ وہی جنت ہے جوآخرت میں اہل ایمان واہل تقویٰ کوملنے والی ہے۔

اِذْ يَغْشَى السِّدْرَۃَ مَا يَغْشٰى۝۱۶ۙ

اس وقت سدرہ پرچھارہا تھا جو کچھ کہ چھارہا تھا۔

(اس کی کیفیت بیان سے باہر ہے وہ کس طرح کی تجلیات تھیں،ان کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا )

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى۝۱۷

(نبی کی) نگاہ نہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی۔

توضیح : (یعنی وہاں کی شان وشوکت اورحیرت انگیز عجیب وغریب مناظر دیکھے توتماشائی کی طرح ان کے دیکھنے میں مشغول نہ ہوئے بلکہ جس مقصد کے لئے بلائے گئے تھے۔ اپنی ساری توجہ اسی جانب مرکوز فرمائی)

لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّہِ الْكُبْرٰى۝۱۸
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى۝۱۹ۙ
وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰى۝۲۰

اس پیغمبر نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔
اب ذرا بتاؤ، کیا تم نے کبھی لات اورعزیٰ
اورتیسری ایک اور دیوی منات کی حقیقت پر کچھ غور بھی کیا ہے؟ (عقل سے کام لے کرسونچا بھی ہے)

توضیح : یہ بت زمانہ جاہلیت میں دیویوں کے نام سے پوجے جاتے تھے اور یہ دیویاں اللہ کی بیٹیاں سمجھی جاتی تھیں۔ ان کا طواف کیا جاتا تھا ان کی نذرمانی جاتی تھی۔ جانور بھینٹ چڑھائے جاتے تھے ان کے باطل عقیدہ، جاہلانہ طوروطریق، رسم ورواج کی نسبت اگلی آیتوں میں ارشاد ہے۔

اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰى۝۲۱

کیا تم اپنے لئے توبیٹے پسند کرتے ہو اور اس (اللہ تعالیٰ) کیلئےبیٹیاں۔

توضیح : بیٹیوں کو تم حقیرسمجھتے ہو جن کی پیدائش کی خبر سن کررنج و الم میں مبتلا ہوجاتے ہو۔ اپنی ذلت جان کرلوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے ہو اور سوچتے ہو کہ ایسی ذلت کوسہہ کر لڑکی کوزندہ رہنے دیا جائے اس سے بچنے کے لئے اس کو زندہ دفن کردیا جائے کتنی عجیب بات ہے کہ اپنے لئے تولڑکی کی پیدائش کو اس درجہ حقیر جانتے ہو مگر اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہو ۔ (پ ۱۴، رکوع ۱۳)

تِلْكَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِيْزٰى۝۲۲
اِنْ ہِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ سَمَّيْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ
مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ۝۰ۭ

اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْاَنْفُسُ۝۰ۚ
وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰى۝۲۳ۭ

اس صورت میں تویہ بڑی ہی بے ڈھنگی تقسیم ہوئی ۔
یہ (معبودات مذکورہ) محض نام ہی نام ہیں جنہیں تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑرکھے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے تواس تعلق سے (ان کے معبود ومستعان ہونے کی) کوئی سند نازل نہیں کی۔
یہ تومحض ظن وگمان (بیہودہ خیالات ) کی پیروی اورخواہشات نفس کی اتباع کرتے ہیں۔
حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی جانب سے (کتاب اور رسول کے ذریعہ) ہدایت آچکی ہے۔

پس ہدایت آجانے کے بعد کس کویہ حق پہنچتا ہے کہ وہ جسے چاہے اپنا معبود بنالے۔

اَمْ لِلْاِنْسَانِ مَا تَمَــنّٰى۝۲۴ۡۖ

کیا انسان کوہر وہ چیز ملتی ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے۔

توضیح : انسان معبودان باطل سے اپنی مرادیں پالینے کی جوتمنائیں رکھتا ہے کیا وہ پوری بھی ہوسکتی ہیں؟ محض تمنا سے توکام نہیں بنتے۔اس کے برخلاف حق تعالیٰ کے احکام کے مطابق عمل کروگے توفلاح پاؤگے، ورنہ اپنے خود ساختہ طریقہ پر چلوگے توگمراہ ہوجاؤگے۔

فَلِلّٰہِ الْاٰخِرَۃُ وَالْاُوْلٰى۝۲۵ۧ

پس دنیا وآخرت اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے (وہی ان کا مالک ہے)

توضیح : جن افراد خلق کوتم مالک، مختار، مقرب اور سفارشی سمجھ کر مدد کے لئے پکارتے ہو ان کی نذر مانتے ہو وہ سب بے بس وبے اختیار ہیں۔

وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِيْ شَفَاعَتُہُمْ شَـيْــــًٔــا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللہُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَرْضٰى۝۲۶

اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں، جن کی سفارش کچھ بھی کام نہیں آسکتی۔
سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی کسی کے لئے اجازت بخشیں اور (سفارش کو) پسند کریں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ لَيُسَمُّوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃَ تَسْمِيَۃَ الْاُنْثٰى۝۲۷
وَمَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ۝۰ۭ

یقیناً جو لوگ عالم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔
وہ فرشتوں کو ( اللہ تعالیٰ کی ) بیٹیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
جب کہ انھیں اس تعلق سے کوئی علم نہیں ہے (حقیقت حال سے بے خبر ہیں)

اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ۝۰ۚ
وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔا۝۲۸ۚ
فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى۝۰ۥۙ عَنْ ذِكْرِنَا

یہ تومحض وہم وگمان کی پیروی کرتے ہیں
اوریقیناً وہم وگمان حقائق کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
لہٰذا ائے نبیﷺ اس شخص سے اعراض کیجئے جو ہماری تعلیم اور نصیحتوں سے روگردانی کرتا ہے(نصیحتوں کوسننا بھی نہیں چاہتا)

وَلَمْ يُرِدْ اِلَّا الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝۲۹ۭ
ذٰلِكَ مَبْلَغُہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ۝۰ۭ

اور دنیا کی زندگی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا (آخرت اس کو مطلوب نہیں)
ان کے علم ودانش کی رسائی بس یہی کچھ ہے اس لئے ان منکروں کوان کے حال پر چھوڑدیجئے۔

اِنَّ رَبَّكَ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ

بے شک آپ کا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے

عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰ۙ
وَہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اہْتَدٰى۝۳۰
وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۙ

بھٹکاہوا ہے۔
اوروہی خوب جانتا ہے کہ کون سیدھے راستے(دین اسلام) پرقائم ہے۔
اورجوکچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، وہ سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا
وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى۝۳۱ۚ
اَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ۝۰ۭ

تا کہ جن لوگوں نے برے کام کئے انھیں ان کے اعمال کی سزادے۔
اورجنہوں نے نیکیاں کیں ہیں انھیں بہترین جزادے ۔
یہ وہ لوگ ہیں جو کبیرہ گناہوں
اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں سوائے اس کے کہ ان سے کچھ قصور سرزد ہوجائے۔

اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ۝۰ۭ
ہُوَاَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ
وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ۝۰ۚ
فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ

بے شک تمہارا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا بے پایاں رحمت کا مالک ہے
وہ تمہیں اس وقت سے ہی خوب جانتا ہے جب تم کو زمین سے پیدا کیا۔

اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین ہی تھے۔
پس (چند اچھے اعمال کے ساتھ) اپنے آپ کوقابل تعریف نہ سمجھو۔

ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۝۳۲ۧ

وہی خوب جانتا ہے کہ متقی کون ہے۔

اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى۝۳۳ۙ
وَاَعْطٰى قَلِيْلًا وَّاَكْدٰى۝۳۴

ائے نبیﷺ کیا آپ نے اس شخص کوبھی دیکھا ہے،
جس نے (دین حق سے) منہ پھیرلیا اور تھوڑا سا دے کررک گیا۔

توضیح : دین حق سے منہ پھیرنے والا شخص ولید بن مغیرہ تھا اس کا شمار قریش کے بڑے سرداروں میں ہوتا تھا۔ ابن جرید طبری کی روایت ہے کہ یہ شخص رسول اللہﷺ کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ ہوگیا تھا۔ مگر جب اس کے ایک مشرک دوست کو معلوم ہوا کہ وہ مسلمان ہونے کا ارادہ کررہا ہے تواس نے کہا کہ تم دین آبائی نہ چھوڑو۔ اگر تمہیں عذاب آخرت کا خطرہ ہے تو مجھے رقم دے دو۔ میں تمہارے بدلے وہاں کا عذاب بھگت لوں گا۔ ولید بن مغیرہ نے یہ بات مان لی اور خدا کی راہ پر آتے آتے دین حق سے پھرگیا، اور جورقم دوست کودینی طے کی تھی وہ تھوڑی سی دی اور باقی روک لی۔

اَعِنْدَہٗ عِلْمُ الْغَيْبِ فَہُوَيَرٰى۝۳۵

کیا اس شخص کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ اس کودیکھ رہا ہے (یعنی کیا وہ

اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰى۝۳۶ۙ
وَاِبْرٰہِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰٓي۝۳۷ۙ
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۳۸ۙ

جانتا ہے کہ کوئی اس طرح بچ بھی سکتا ہے؟)
کیا اس کو ان باتوں کو خبر نہیں پہنچی، مو سیٰؑ
اور ابراہیمؑ کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہے ۔
یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

توضیح : ۔یعنی ایک مجرم کو اس بناء پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے کہ اس کی جگہ سزا بھگتنے کے لئے کوئی اور آدمی اپنے آپ کو پیش کررہا ہے۔

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙ

اور ہر انسان اپنے کئے کا بدل پاتا ہے۔ُ م

یعنی ہر شخص صرف اپنے ہی عمل کا پھل پائے گا کسی دوسرے کے عمل کا پھل نہیں پاسکتا۔

وَاَنَّ سَعْيَہٗ سَوْفَ يُرٰى۝۴۰۠

اور یہ کہ اس کی کوشش، محنت وجستجو جو اس نے کی ہے۔عنقریب دیکھی جائے گی۔

توضیح : یعنی اسکے اعمال کا جائزہ لیا جائے گا کہ کس حد تک اس نے احکام الٰہی کی تعمیل کی ہے۔اور کس قدر جزا کا مستحق ہے۔

ثُمَّ يُجْزٰىہُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰى۝۴۱ۙ
وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَہٰى۝۴۲ۙ
وَاَنَّہٗ ہُوَاَضْحَكَ وَاَبْكٰى۝۴۳ۙ

پھرا سے اس کی پوری پوری جزادی جائے گی۔
اور (بالآخر سب کو) آپ کے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے۔
او ریہ کہ وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔

یعنی خوشی اور غم دونوں اسی کی طرف سے ہیں۔ اچھی بری قسمت مصائب وآلام اسی کے ہاتھ میں ہیں۔

وَاَنَّہٗ ہُوَاَمَاتَ وَاَحْيَا۝۴۴ۙ
وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى۝۴۵ۙ
مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰى۝۴۶۠
وَاَنَّ عَلَيْہِ النَّشْاَۃَ الْاُخْرٰى۝۴۷ۙ

اوروہی مارتا ہے اور وہی جلاتا ہے۔
اور اسی نے نر ومادہ کا جوڑا پیدا کیا۔
نطفہ سے جب وہ (رحم میں) ٹپکایا جاتا ہے۔
اور یہ کہ دوبارہ پیدا کرنا بھی اسی کے ذمہ ہے۔

توضیح : جو اللہ نطفہ کی حقیر بوند سے انسان جیسی مخلوق عورت ومرد کی دو الگ الگ صنف پیدا کرتا ہے اس کے لئے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اس کا محاسبہ کرنا کیا مشکل ہے۔

وَاَنَّہٗ ہُوَاَغْنٰى وَاَقْنٰى۝۴۸ۙ
وَاَنَّہٗ ہُوَرَبُّ الشِّعْرٰى۝۴۹ۙ

اور یہ کہ وہی غنی بناتا ہے اور وہی مفلس بناتا ہے۔
اوریہ کہ وہی شعریٰ (ستارہ) کا بھی رب ہے۔

توضیح :زمانہ جاہلیت میں اہل مصر بعض وجوہ کی بنا پر اس کی پرستش کرتے تھے۔ نیز قریش کا ہمسایہ قبیلہ خزاعہ اس کی پرستش کے لئے مشہور تھا۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ ستارہ شعریٰ تمہیں نفع یا نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو شعریٰ کا بھی مالک ہے۔

وَاَنَّہٗٓ اَہْلَكَ عَادَۨا الْاُوْلٰى۝۵۰ۙ

وَثَمُوْدَا۟ فَمَآ اَبْقٰى۝۵۱ۙ
وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ۝۰ۭ
اِنَّہُمْ كَانُوْا ہُمْ اَظْلَمَ وَاَطْغٰى۝۵۲ۭ
وَالْمُؤْتَفِكَۃَ اَہْوٰى۝۵۳ۙ

اور یہ کہ اسی نے عاد اولیٰ کوہلاک کیا (یہ وہ لوگ تھے جن کی طرف ہودؑ بھیجے گئے تھے)
اورثمود کوبھی ایسا مٹایا کہ ان میں سے کسی کوبھی باقی نہ چھوڑا
اور ان سے پہلے قوم نوح کوبھی تباہ وبرباد کیا۔
بے شک وہ تھے ہی بڑے ظالم اورنہایت سرکش
اوراسی نے قوم لوط کی بستیوں کوالٹا کربلندی سے زمین پر دے مارا۔

فَغَشّٰـىہَا مَا غَشّٰى۝۵۴ۚ

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكَ تَتَـمَارٰى۝۵۵
ھٰذَا نَذِيْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى۝۵۶
اَزِفَتِ الْاٰزِفَۃُ۝۵۷
لَيْسَ لَہَا مِنْ دُوْنِ اللہِ كَاشِفَۃٌ۝۵۸ۭ

پھر ان پر جوچھانا تھا چھاگیا (بحر لوط کا پانی ان دھنسی ہوئی بستیوں پر پھیل گیا)
(ائے انسان) تو اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں میں شک کرے گا۔
یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے
آنے والی گھڑی (قیامت یا موت) قریب آلگی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس کوہٹانے والا نہیں۔

توضیح : جب فیصلہ کی گھڑی آجائے گی تو تم اس کو نہ روک سکوگے کیا مجال کہ تمہارے معبودانِ باطل اس کوٹال بھی سکیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ چاہیں تواس کوٹال سکتے ہیں۔

اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِيْثِ تَعْجَبُوْنَ۝۵۹ۙ

کیا یہی وہ باتیں ہیں جنہیں سن کرتم تعجب کرتے ہو۔

توضیح :تعجب توانوکھی اورناقابل یقین باتوں پرہوتا ہے رسول اللہﷺ نے جو تعلیم دی ہے وہ کوئی انوکھی تعلیم نہیں ہے آپ سے پہلے کئی ایک انبیاءؑ یہی تعلیم پیش کرتے آئے ہیں چاہئے تو یہ تھا کہ تم اس تعلیم کوقبول کرتے اور اس کے مطابق عمل پیرا ہوتے بجائے اس کے تم اس کا انکار کرتے ہو۔

وَتَضْحَكُوْنَ وَلَا تَبْكُوْنَ۝۶۰ۙ

اور ہنستے ہو( اس کا مذاق اڑاتے ہو) اورروتے نہیں ہو۔

چاہئے تو یہ تھا کہ اپنی اس جہالت وگمراہی پرتمہیں رونا آتا۔

وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ۝۶۱

اور تم (لہوولعب) غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔

فَاسْجُدُوْا لِلہِ وَاعْبُدُوْا۝۶۲ ۧ۞

پس اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جاؤ (اللہ تعالیٰ کے ہرحکم کی بسروچشم ُ تعمیل کرواللہ کے رسول کی تعلیم کے مطابق ) اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کئے جاؤ