بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
طٰسۗ۰ۣ
طٰ س یہ حروف مقطعات ہیں ان کے کوئی معنی بہ سند صحیح رسول اللہﷺ سے منقول نہیں ہیں۔
تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ۱ۙ
یہ قرآن کی آیتیں ہیں اور قرآن ایک ایسی کتاب ہے، جس کے مضامین نہایت ہی صاف اور کھلے کھلے ہیں۔
ہُدًى وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ۲ۙ
اس کتاب میں اہل ایمان کے لئے ہدایتیں ہیں، اور (انجام کے لحاظ سے جنت ودرجات جنت کی) خوشخبریاں ہیں۔
الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ
اہل ایمان وہ ہیں جو نماز قائم کرتے،
وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ
اور زکوۃ دیتے ہیں۔
وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ يُوْقِنُوْنَ۳
اور وہ اخروی زندگی کے نفع وضرر کا ایسا ہی یقین رکھتے ہیں جیسے دنیا کی زندگی کا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ
یقیناً جو لوگ اللہ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی تعلیم کے مطابق حیات آخرت پرایمان نہیں رکھتے۔
زَيَّنَّا لَہُمْ اَعْمَالَہُمْ فَہُمْ يَعْمَہُوْنَ۴ۭ
ہم نے (انتقاماً) ان کے کاموں کوان کی نظروں میں مزین کررکھا ہے، چنانچہ وہ اسی میں بھٹکتے پھرتے ہیں( انھیں اپنے برے کام بھلے دکھائی دیتے ہیں جو وہ نجات کے تعلق سے انجام دیتے ہیں)
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَہُمْ سُوْۗءُ الْعَذَابِ
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں بہت ہی برا عذاب ہے۔
وَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ ہُمُ الْاَخْسَرُوْنَ۵
اور وہ آخرت میں بہت نقصان اٹھانے والے ہیں (ایسا نقصان جس کی تلافی کسی طرح ممکن نہیں)
وَاِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ۶
( لوگ مانیں یا نہ مانیں یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ) یہ قرآن اللہ علیم وحکیم کی طرف سے آپ پرالقا کیا جاتا ہے (جس کی تعلیم نہایت ہی حکیمانہ وعالیمانہ ہے)
اِذْ قَالَ مُوْسٰي لِاَہْلِہٖٓ اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا۰ۭ
(وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب موسیٰؑ نے اپنے گھر والوںسے کہا میں نے آگ دیکھی ہے۔
سَاٰتِيْكُمْ مِّنْہَا بِخَــبَرٍ اَوْ اٰتِيْكُمْ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ۷
میں ابھی وہاں سے راستے کی کوئی خبر لے آتا ہوں یا پھر تمہارے لئے تھوڑی سی آگ لے آتا ہوں تا کہ تم اس سے کچھ گرمی حاصل کرسکو۔
فَلَمَّا جَاۗءَہَا نُوْدِيَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا۰ۭ
پھر جب موسیٰؑ وہاں پہنچے تو انھیں آواز دی گئی نہایت ہی مبارک( بے حد وحساب فائدہ پہنچانے والا) مقدس ومطہر ہے وہ جو آگ کےپاس ہے اور وہ بھی جواس وادی کے ارد گرد ہیں( حضرت موسیٰؑ اور فرشتے مراد ہیں)
وَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۸
اللہ جو سارے عالم کا رب ہے پاک ومنزہ ہے( ہر قسم کے نقص وعجز سے، آگ میں حلول کرنے۔ بہ شکل نور آنکھوں میں سماجانے دکھائی دینے۔ درخت پرمحدود ہوجانے سے پاک ومنزہ)
يٰمُوْسٰٓي اِنَّہٗٓ اَنَا اللہُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۹ۙ
ائے موسیٰؑ (سارے نقائص وتحدیدات سے منزہ بذات خود میں ہی آپ سے مخاطب ہوں) میں ہی اللہ ہوں، بڑا ہی زبردست صاحب قدرت نہایت ہی دانا بڑی حکمت والا۔
وَاَلْقِ عَصَاكَ۰ۭ
اورحکم ہوا کہ اے موسیٰؑ اپنا عصا زمین پرڈال دو
فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ كَاَنَّہَا جَاۗنٌّ
جب (موسیٰؑ نے) اسے دیکھا کہ وہ (عصا) سانپ کی طرح بل کھارہا ہے، گویا کہ سانپ ہے۔
وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْ۰ۭ
توپیٹھ پھیر کربھاگے اورپیچھے مڑکر بھی نہ دیکھا۔
يٰمُوْسٰي لَا تَخَفْ۰ۣ
(آواز آئی) ائے موسیٰؑ ڈرو مت
اِنِّىْ لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُوْنَ۱۰ۤۖ
میری حفاظت میں رسول ڈرا نہیں کرتے۔
اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْـنًۢا بَعْدَ سُوْۗءٍ فَاِنِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۱
سوائے اس کے کہ جس نے اپنے آپ پرکوئی زیادتی کی ہو (برائی کی ہو) پھر برائی کے بعد اسے نیکی سے بدل دیا ہو (یعنی توبہ کی ہو) پھر تومیں بڑا ہی معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہوں۔
وَاَدْخِلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ
اور( اس وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑسے اس طرح ارشاد فرمایا) اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو۔
تَخْرُجْ بَيْضَاۗءَ مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ۰ۣ
کسی نقص کے بغیر چمکدار بنکر نکلے گا
فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہٖ۰ۭ
نو معجزات کے منجملہ ان دومعجزوں کے ساتھ فرعون اور اسکی قوم کے پاس جاؤ
اِنَّہُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ۱۲
کہ وہ بس نافرمان قوم ہیں۔
فَلَمَّا جَاۗءَتْہُمْ اٰيٰتُنَا مُبْصِرَۃً
جب ہماری واضح اورکھلی کھلی نشانیاں ان کے سامنے آئیں۔
قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ۱۳ۚ
(جو ان کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھیں) توکہنے لگے یہ تو کھلاجادو ہے۔
وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَيْقَنَتْہَآ
انہوں نے اپنے ظلم وتکبر کی وجہ ان معجزات کا انکار کیا،
اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۰ۭ
حالانکہ ان کے دل قائل ہوچکے تھے( کہ آپ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں)
فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِيْنَ۱۴ۧ
پس دیکھئے ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًا۰ۚ
اوریقیناً ہم نے داؤدؑ اورسلیمانؑ کوایک خاص علم بھی دیا تھا۔
وَقَالَا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلٰي كَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِيْنَ۱۵
تو ان دونوں نے (شکر گزاری کے ساتھ) کہا، ساری تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں جس نے ہم کواپنے بہت سے بندوں پرفضیلت بخشی۔
وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ
اور(داؤدؑ کے انتقال کے بعد) سلیمانؑ اپنے باپ کے قائم مقام ہوئے۔
وَقَالَ يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ
اور(شکریہ کے طورپر) ائے لوگو ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں (یعنی اس کے سمجھنے اور بولنے کا علم دیا گیا)
وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ۰ۭ
اور(حکمرانی کے لئے) ہم کوہر طرح کی چیزیں دی گئیں ہیں (یعنی اللہ کا دیا ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے)
اِنَّ ھٰذَا لَہُوَالْفَضْلُ الْمُبِيْنُ۱۶
بے شک یہ اللہ تعالیٰ کا نمایاں فضل ہے۔
وَحُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّيْرِ فَہُمْ يُوْزَعُوْنَ۱۷
اور سلیمانؑ کیلئے جناتوں، انسانوں اور پرندوں کے خصوصی لشکر مہیا کئے گئے (جنات وپرندے دنیا کے کسی بادشاہ کیلئے مسخر نہیں ہوسکتے)
حَتّٰٓي اِذَآ اَتَوْا عَلٰي وَادِ النَّمْلِ۰ۙ قَالَتْ نَمْــلَۃٌ يّٰٓاَيُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ۰ۚ
تاآنکہ جب سلیمانؑ اپنے لشکر کے ساتھ چونٹیوں کے میدان پرپہنچے توایک چونٹی نے دوسری چونٹیوں سے کہا کہ اب تم اپنی اپنی بلوں میں گھس جاؤ۔
لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ۰ۙ وَہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۱۸
کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور ان کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اورانھیں خبر بھی نہ ہو۔
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِہَا
توسلیمانؑ اس (چونٹی) کی بات سن کر ہنس پڑے۔
وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ
اور اپنے رب سے دعا کی۔ ائے میرے پروردگار، جن نعمتوں سے آپ نے مجھے اورمیرے والدین کونوازا ہے ان نعمتوں کا کماحقہ، شکر ادا کرنے کے لئے مجھے توفیق عنایت فرمائیے (یعنی میری مدد کیجئے)
وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىہُ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ۱۹
اور ایسے نیک کام کروں جن سے آپ راضی ہوں اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرمالیجئے
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ اَرَى الْہُدْہُدَ۰ۡۖ
اور ایک موقعہ پرسلیمانؑ نے پرندوں کا جائزہ لیا اور کہا، کیا بات ہے کہ میں ہد ہد کودیکھ نہیں رہا ہوں۔
اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ۲۰
یا وہ کہیں غائب ہوگیا ہے۔
لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّہٗٓ اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ۲۱
یا میں اس کو سخت سزادوں گا یا اس کوذبح ہی کرڈالوں گا اگر وہ اپنے غائب ہونے کی کوئی معقول وجہ بیان نہ کرے ۔
فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ
پس تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ہد ہد آموجود ہوا۔
فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ
اورکہا میںایک ایسی بات سے واقف ہو کر آیا ہوں جس سے آپ واقف نہیں ہیں۔
وَجِئْتُكَ مِنْ سَـبَـاٍؚبِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ۲۲
اور میں آپ کے پاس ملک سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں ۔
اِنِّىْ وَجَدْتُّ امْرَاَۃً تَمْلِكُہُمْ وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّلَہَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ۲۳
میں نے وہاں ایک عورت دیکھی ہے جو وہاں کے باشندوں پرحکمران ہے اور(قدرت کی طرف سے) اسے ہر طرح کا ساز وسامان دیا گیا ہے، اور اس کے پاس نہایت ہی عظیم الشان تخت شاہی بھی ہے۔
وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا يَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللہِ
اور میں نے دیکھا کہ وہ اس کی قوم اللہ کوچھوڑکرآفتاب کوسجدہ کرتی ہے(یعنی آفتاب کے پرستش کرتی اور اس کونجات کا ذریعہ سمجھتی ہے)
وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ
اور شیطان نے ان کے اعمال کوان کی نظروں میں مزین کردیا ہے۔
فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَہُمْ لَا يَہْتَدُوْنَ۲۴ۙ
اور انھیں راہ حق سے روک رکھا ہے پس وہ اسی وجہ صحیح راہ پا نہ سکے۔
اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلہِ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آگے کیوں سجدہ ریز نہ ہوئے جوآسمانوں وزمین کی پوشیدہ چیزوں کوظاہر کرتا ہے۔
وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۲۵
اور جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔
اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۲۶ ۞
اللہ وہی ہے، جس کے سوا اور جس کے ساتھ کوئی اورمستحق عبادت اور لائق استعانت نہیں( وہ بلاشرکت غیرے تنہا فرماں روا ہے) اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔
قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ
سلیمانؑ نے کہا اچھا ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تونے سچ کہا ہے۔
اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ۲۷
یا جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔
اِذْہَبْ بِّكِتٰبِيْ ھٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَيْہِمْ
اچھا میرا خط لے جا اور اس کو ان کی طرف ڈال دے
ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُوْنَ۲۸
پھر ان سے ذرا ہٹ کردیکھتا رہ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔
قَالَتْ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَؤُا اِنِّىْٓ اُلْقِيَ اِلَيَّ
(خط دیکھ کر) ملکہ سبا نے کہا۔ ائے میرے درباریو !
كِتٰبٌ كَرِيْمٌ۲۹
میری طرف ایک قابل احترام خط ڈالا گیا ہے۔
اِنَّہٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۳۰ۙ
وہ سلیمانؑ کی طرف سے ہے اور اس خط کے آغازمیں لکھا ہوا ہے۔ اللہ کے نام کی مدد سے جو رحمٰن ورحیم ہے۔
اَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَاْتُوْنِيْ مُسْلِـمِيْنَ۳۱ۧ
اس کے بعد لکھا ہوا ہے کہ تم لوگ(یعنی بلقیس اوراعیان سلطنت اور تمام عوام کومعلوم ہونا چاہئے) میرے مقابلہ میں سرکشی نہ کریں اور سب میرے اطاعت گزار فرماں بردار ہوکر چلے آئیں۔
قَالَتْ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ فِيْٓ
(خط پڑھ کر) ملکہ سبا نے اہل دربار سے مشورہ کیا، اور کہا میں کسی کام
اَمْرِيْ۰ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَۃً اَمْرًا حَتّٰى تَشْہَدُوْنِ۳۲
کے کرنے کا قطعی فیصلہ اس وقت تک نہیں کرتی جب تک کہ تم سے مشورہ نہ لے لوں۔
قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّۃٍ وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍ۰ۥۙ
انہوں نے جواب دیا ہم بڑے ہی طاقت ور اوربڑے ہی جنگجوہیں۔
وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ فَانْظُرِيْ مَاذَا تَاْمُرِيْنَ۳۳
اوراب فیصلہ آپ کے ہاتھ ہے، جو کچھ فیصلہ ہے اس کے انجام کوپیش نظررکھتے ہوئے سوچ سمجھ کرکیجئے۔
قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَۃً اَفْسَدُوْہَا
ملکہ نے کہا کہ، بادشاہ جب کسی کے ملک پرحملہ آور ہوتے ہیں تواس کوتباہ وبرباد کرتے ہیں۔
وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً۰ۚ
اور شہر کے باعزت لوگوں کوذلیل کرتے ہیں۔
وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ۳۴
اور یہ لوگ (سلیمان اور ان کی فوج) بھی یہی کریں گے۔
وَاِنِّىْ مُرْسِلَۃٌ اِلَيْہِمْ بِہَدِيَّۃٍ
بالفعل میں ان کے پاس چند تحفے بھیجتی ہوں۔
فَنٰظِرَۃٌۢ بِمَ يَرْجِـــعُ الْمُرْسَلُوْنَ۳۵
پھر دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں۔
فَلَمَّا جَاۗءَ سُلَيْمٰنَ
جب ملکہ کا سفیر سلیمان کے پاس پہنچا۔
قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ۰ۡفَمَآ اٰتٰىـنِۦ اللہُ خَيْرٌ مِّمَّآ اٰتٰىكُمْ۰ۚ
توسلیمان نے کہا کیا تم اپنے مال سے میری مدد کرتے ہو۔جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے(یہ تحفے تمہیں کومبارک)
بَلْ اَنْتُمْ بِہَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ۳۶
بلکہ تم ہی اپنے ان تحفوں پرخوش ہوتے اتراتے ہو ۔
اِرْجِعْ اِلَيْہِمْ فَلَنَاْتِيَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمْ بِہَا
ائے سفیر ان تحفوں کولے کراپنے بھیجنے والوں کی طرف واپس جا، ہم ان کے پاس ایسا لشکر جرار لے کر آئیں گے۔ جس کے مقابلہ کی انھیں طاقت نہ ہوگی۔
وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِّنْہَآ اَذِلَّۃً وَّہُمْ
اورہم انھیں ان کے ملک سے ذلت کے ساتھ نکال باہر کریں گے اور وہ
صٰغِرُوْنَ۳۷
ہمیشہ کے لئے ماتحت رہیں گے۔
قَالَ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَؤُا اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ يَّاْتُوْنِيْ مُسْلِـمِيْنَ۳۸
( اور فوراً ہی) سلیمان نے اپنے درباریوں سے کہا، تم میں کوئی ایسا بھی ہے کہ اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ فرمانبردار ہوکر میرے پاس آئے۔
قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ۰ۚ
جنات میں سے ایک قوی ہیکل جن نے کہا قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ یعنی اجلاس سے اٹھیں میں اس کولاحاضر کئے دیتا ہوں۔
وَاِنِّىْ عَلَيْہِ لَقَوِيٌّ اَمِيْنٌ۳۹
اورمیں اس تخت کواٹھانے کی طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار بھی ہوں۔
قَالَ الَّذِيْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ
کہنے لگا، اس نے جس کے پاس کتاب اللہ کا کوئی (غیرمعمولی) علم تھا۔
اَنَا اٰتِيْكَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ۰ۭ
میں چشم زدن میں (پلک جھپکنے سے پہلے) اس تخت کو آپ کے پاس لاحاضر کئے دیتا ہوں۔
فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ۰ۣۖ
پھر جب سلیمان نے اس تخت کواپنے پاس رکھا ہوا دیکھا توکہا یہ میرے رب کا فضل ہے۔
لِيَبْلُوَنِيْٓ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ۰ۭ
تا کہ میرا امتحان لیا جائے کہ آیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوںیا نا شکری (یعنی اس نعمت کوخلق کی طرف سے سمجھتا ہوں یا خالق کی طرف یا مخلوق کوخالق کی نعمتوں کے پانے کا ایک ذریعہ جانتا ہوں)
وَمَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِہٖ۰ۚ
اورجو شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے تودراصل اپنے ہی فائدہ کیلئے شکر کرتا ہے۔
وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّيْ غَنِيٌّ كَرِيْمٌ۴۰
اور جوناشکری کرتا ہے تومیرا پروردگار بے پرواہ ہے۔(یعنی بڑا ہی بے نیاز صاحب عزت ہے)
قَالَ نَكِّرُوْا لَہَا عَرْشَہَا
(مکہ سبا کی عقل کا امتحان لینے کے لئے) سلیمان نے کہا، یعنی حکم دیا کہ اس کے تخت میں تبدیلی کردی جائے۔
نَنْظُرْ اَتَہْتَدِيْٓ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِيْنَ لَا يَہْتَدُوْنَ۴۱
ہم دیکھیں گے کہ وہ اس کو پہچان لیتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہے جو ناسمجھ ہوتے ہیں۔
فَلَمَّا جَاۗءَتْ قِيْلَ اَہٰكَذَا عَرْشُكِ۰ۭ
جب وہ آپہنچیں تو پوچھا گیا کیا آپ کا تخت ایسا ہی ہے۔
قَالَتْ كَاَنَّہٗ ہُوَ۰ۚ
ملکہ نے کہا گویا کہ یہ وہی ہے۔
وَاُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَكُنَّا مُسْلِـمِيْنَ۴۲
اور(کہا) ہم توپہلے ہی سے آپ کی شان وشوکت جان چکے ہیں اور (اسی وقت سے) فرماں برداروں میں شامل ہوچکے ہیں (اس معجزہ کی ضرورت ہی نہ تھی)
وَصَدَّہَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭ
اور اللہ کے سوا جن غیراللہ کی وہ عبادت کیا کرتی تھی اسی عمل نے اس کوراہ حق سے روک رکھا تھا یعنی اس کے ایمان نہ لانے کا ذریعہ بنا،
اِنَّہَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ۴۳
کیونکہ وہ ایک کافر قوم سے تھی۔
قِيْلَ لَہَا ادْخُلِي الصَّرْحَ۰ۚ
پھراس (ملکہ) کومحل میں چلنے کے لئے کہا گیا۔
فَلَمَّا رَاَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّـۃً وَّكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْہَا۰ۭ
جب اس نے محل کے صحن کودیکھا تواس کوپانی کا حوض سمجھا(بھیگ جانے کے خیال سے) اپنی پنڈلیاں کھول دیں (پائنچے اوپر کوچڑھالئے)
قَالَ اِنَّہٗ صَرْحٌ
(اس وقت) سلیمان نے فرمایا۔
مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِيْرَ۰ۥۭ
یہ ایک ایسا محل ہے جوشیشوں سے جڑا ہوا ہے۔
قَالَتْ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ
(فورا ًہی ملکہ) بول اٹھی ائے میرے پروردگار (اب تک) میں اپنے آپ پرظلم کرتی رہی (نا حق کوحق جانا)
وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۴۴ۧ
اور اب میں سلیمانؑ کے ساتھ اللہ ہی پرایمان لاتی ہوں جوکائنات کا پروردگار ہے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ فَاِذَا ہُمْ فَرِيْقٰنِ يَخْتَصِمُوْنَ۴۵
اوریقیناً ہم نے ثمود کے پاس انھیں کی برادری کے ایک فرد صالح ؑ کوبھیجا کہ (بلاشرکت غیرے) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے پس دعوت حق کے ساتھ ہی ان میں دوفریق ہوکر آپس میں جھگڑنے لگے (ایک فریق ایمان لانے والوں کا دوسرا اہل کفر کا، اس طرح حق وباطل کی کشمکش شروع ہوگئی)
قَالَ يٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ
صالح ؑنے کہا ائے میری قوم کے لوگو بھلائی سے پہلے برائی کے لئے
بِالسَّيِّئَۃِ قَبْلَ الْحَسَنَۃِ۰ۚ
کیوں جلدی کررہے ہو۔
لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۴۶
تم اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں (باطل پرستیوں) سے معافی کیوں نہیں مانگتے، تا کہ اللہ تعالیٰ تم پررحم فرمائیں( اور تمہیں اپنے عذاب سے بچالیں)
قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ۰ۭ
قوم نے کہا ہم تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے بدشگونی لیتے ہیں (تمہیں منحوس سمجھتے ہیں، یعنی جب سے تم نے یہ اسلامی تحریک شروع کی ہے ہم پر طرح طرح کی مصیبتیں آرہی ہیں)
قَالَ طٰۗىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللہِ
صالحؑ نے کہا تمہاری بداعمالیوں کی نحوست اللہ تعالیٰ کے پاس طے شدہ ہے(یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس تم ہی منحوس ہو)
بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ۴۷
بلکہ تم ایک ایسی قوم ہو کہ تم کوآزمائش میں ڈالا گیا ہے۔
وَكَانَ فِي الْمَدِيْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ۴۸
اور شہر میں نواشخاص تھے جو ملک میں فساد برپا کیا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہ لیتے تھے۔
قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللہِ
آپس میں مشورہ کرنے کے بعد کہنے لگے کہ تم اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاؤ (اور یہ اقرار کرو)
لَـنُبَيِّتَـنَّہٗ وَاَہْلَہٗ
کہ ہم رات کوضرور صالحؑ اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے یعنی حملہ کرینگے اور مارڈالیں گے ( پھر رات ہی رات اس شہر سے نکل جائینگے)
ثُمَّ لَـنَقُوْلَنَّ لِوَلِيِّہٖ
پھر ان کے ورثا (دعویداروں) سے کہیں گے۔
مَا شَہِدْنَا مَہْلِكَ اَہْلِہٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۴۹
کہ ہم ان کے اہل وعیال کی ہلاکت کے موقع پرشہر میں موجود ہی نہ تھے اور ہم سچ کہتے ہیں۔
وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۵۰
انہوں نے ایک چال چلی اور ہم نے بھی ایک ایسی خفیہ تدبیر کی جس کا انھیں شعور نہ تھا۔
فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ مَكْرِہِمْ۰ۙ
پس دیکھ لو ان کے مکروفریب کا کیسا انجام ہوا۔
اَنَّا دَمَّرْنٰہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِيْنَ۵۱
کہ ہم نے ان کو اوران کی تمام قوم کوتباہ و برباد کردیا۔
فَتِلْكَ بُيُوْتُہُمْ خَاوِيَۃًۢ بِمَا ظَلَمُوْا۰ۭ
یہ ان کے گھر ان کے ظلم کی وجہ اجڑے پڑے ہیں۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۵۲
اس واقعہ میں سمجھ بوجھ سے کام لینے والوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔
وَاَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۵۳
جو لوگ ایمان لائے اور نافرمانی سے بچتے رہے، ہم نے انھیں نجات دی(اپنے عذاب سے بچالیا)
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ
اور لوطؑ نے جب اپنی قوم سے کہا کہ تم( برائیوں کی خباثتوں سے)
الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۵۴
واقف ہوتے ہوئے بھی فواحش کے مرتکب ہوتے ہو ۔
اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ۰ۭ
کیا تم (جائز طریقہ چھوڑکر) عورتوں کے بجائے مردں سے (فواحش کی صورت میں) جنسی مطالبات کی تکمیل کرتے ہو
بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْـہَلُوْنَ۵۵
بلکہ تم بڑی ہی ہٹ دھرم قوم ہو۔
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ۰ۚ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَہَّرُوْنَ۵۶
لہٰذا قوم کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا( کہا تو) یہ کہا لوطؑ اور ان کے ساتھیوں کواپنی بستی سے نکال باہر کردو (کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں) وہ (ان امور سے) اپنے کوبڑے ہی پاکباز انسان سمجھتے ہیں۔
فَاَنْجَيْنٰہُ وَاَہْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ۰ۡ
لہٰذا ان کی بیوی کے سوا ان کواور ان کے ساتھیوں کو ہم نے بچالیا۔
قَدَّرْنٰہَا مِنَ الْغٰبِرِيْنَ۵۷
ہم نے اس کا شمار عذاب پانے والوں میں مقدر کر رکھا ہے۔
وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہِمْ مَّطَرًا۰ۚ
اور ہم نے ان پر(پتھروں کی طوفانی) بارش برسائی۔
فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ۵۸ۧ
کیا ہی بری بارش تھی ان لوگوں کے لئے جنہیں (عذاب الٰہی سے) ڈرایا گیا تھا۔
قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ
کہئے تمام تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔
وَسَلٰمٌ عَلٰي عِبَادِہِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى۰ۭ
اور سلام ہے اللہ تعالیٰ کے ان بندوں پرجنہیں اللہ تعالیٰ نے (دین حق کی اشاعت کے لئے) منتخب فرمایا۔
اٰۗللہُ خَيْرٌ اَمَّا يُشْرِكُوْنَ۵۹ۭ
(سوچو تو سہی) کیا اللہ کا الٰہ ہونا بہتر ہے یا (وہ افراد خلق) جنہیں وہ (جہل کی وجہ) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کار قرار دیتے ہیں۔
اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۰ۚ
وہ کون ہے جس نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔
فَاَنْۢبَتْنَا بِہٖ حَدَاۗىِٕقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ۰ۚ
پھر ہم نے اس(پانی) کے ذریعہ خوش نما پر رونق باغ اگائے۔
مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَہَا۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ
تمہارے لئے ان (باغوں) کے درختوں کا اگانا نا ممکن نہ تھا توکیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اورالٰہ (ان کاموں میں) شریک ہے؟ (کیا اللہ تعالیٰ کا بلاشرکت غیرے الٰہ ہونا، فرماں روا معبود ومستعان ہونا حق نہیں ہے)
بَلْ ہُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ۶۰ۭ
بلکہ وہ تو(حق سے منحرف ہوکر) باطل کو حق کے برابر سمجھنے والی قوم ہے
اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا
یا وہ کون ہے جس نے زمین کوپرسکون اور رہنے سہنے کے قابل بنایا۔
وَّجَعَلَ خِلٰلَہَآ اَنْہٰرًا وَّجَعَلَ لَہَا رَوَاسِيَ
اورزمین کے درمیان نہریں بنائیں اور اس کے لئے پہاڑ بنائے تا کہ اس کا توازن قائم رہے اور ہلنے نہ پائے۔
وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا۰ۭ
اور دو دریاؤں کے درمیان (جو ساتھ ساتھ مل کر چلتے ہیں، ایک دوسرے میں شامل نہ ہونے کیلئے) ایک حد فاصل رکھی (یعنی قدرتی پردے حائل کردیئے)
ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ
کیا (ایسے کامل القدرت) اللہ کے ساتھ کوئی اورالٰہ ہوسکتے ہیں ؟
بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۶۱ۭ
بلکہ ان میں اکثر (اس حقیقت سے) ناواقف ہیں
اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ
وہ کون ہے جوبے قرار کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اور کون ان کی تکلیف دور کرتا ہے ؟
وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ۰ۭ
اور تم کوزمین کا خلیفہ بنایا (کس نے زمین پرتصرف بخشا، زمین پر رہنے والی مخلوقات پر کس نے تمہیں اختیار عطا کررکھاہے )
ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ
کیا (ایسے کامل القدرت) اللہ کے سوا کوئی اوربھی معبود ومستعان ہوسکتے ہیں ؟
قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۶۲ۭ
(ایسے لوگ) بہت ہی کم ہیں جو (غور وفکر) سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں۔
اَمَّنْ يَّہْدِيْكُمْ فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ
وہ کون ہے جو بحروبر (خشکی وسمندر) کی تاریکیوں میں تمہیں راہ دکھاتا
وَالْبَحْرِ
ہے (کس نے ایسے ذرائع پیدا کئے جن سے راہ متعین ہوتی ہے، مثلا ستارے وغیرہ)
وَمَنْ يُّرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِہٖ۰ۭ
اور کون( بارش) سے پہلے بارش کی خوش خبری دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے ؟
ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ
کیا (ایسے کامل القدرت) اللہ کے ساتھ کوئی اورمعبود بھی ہوسکتے ہیں (جواس طرح کے کام کرسکیں، ہرگز نہیں)
تَعٰلَى اللہُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۶۳ۭ
نہایت ہی بالا وبرتر ہے اللہ تعالیٰ اس شرک سے جویہ لوگ کرتے ہیں۔
اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ
یا وہ وکون ہے جس نے پہلی دفعہ پیدائش کی ابتداء کی جب کہ اس سے
پہلے کچھ نہ تھا۔ اس وقت کون تھا جس سے رائے مشورہ لیا جاتا پھر ان سب کے فنا ہوجانے کے بعد کون دوبارہ پیدا کرے گا۔ ؟
وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۰ۭ
وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۰ۭ
ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ
(ائے مشرکوبتاؤ توسہی) کیا (ایسی قدرت رکھنے والے) اللہ کے ساتھ کوئی اوربھی معبود ہوسکتے ہیں ؟ جو مذکورہ امور انجام دے سکیں، جیسا کہ تمہارا خود ساختہ عقیدہ ہے۔ (ہرگز نہیں)
قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۶۴
کہئے، اگر تم (اپنے اس عقیدہ میں) سچے ہو تو کوئی ثبوت پیش کرو۔
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللہُ۰ۭ
ائے نبیﷺ ان سے کہئے جومخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے (فرشتے، اجنہ، انسان) ان میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب کا علم نہیں جانتا۔
وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ۶۵
(ائے مشرکو ! تم نے اللہ تعالیٰ کے جن مقرب بندوں کوشریک خدائی قراردے رکھا ہے ان کی بے خبری کا یہ حال ہے کہ) وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ دوبارہ کب زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے (یعنی کسی کوخبر بھی نہیں کہ قیامت کب آئے گی)
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ۰ۣ
بلکہ واقعہ یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں ان شرک کرنے والوں کا علم ’’نَسِیًّا مَّنْسِیَّا‘‘ بھولا بسرا ہوگیا، کچھ بھی نہیں ہے۔
بَلْ ہُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْہَا۰ۣۡ
بلکہ وہ تو انجام آخرت کے تعلق سے شک وشبہات میں پڑے ہوئے ہیں۔
بَلْ ہُمْ مِّنْہَا عَمُوْنَ۶۶ۧ
بلکہ وہ اندھے بنے ہوئے ہیں۔
اور اسی اندھے پن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کواللہ تعالیٰ کی فرماں روائی میں شریک سمجھ بیٹھے ہیں، اور یہ بھی عقیدہ پیدا کرلیا ہے کہ ان ہی کی نسبت سے نجات ہوجائے گی۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا
اور ان لوگوں نے کہا جوکافر ہیں۔
ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّاٰبَاۗؤُنَآ اَىِٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ۶۷
جب ہم اور ہمارے باپ دادا مر کرمٹی ہوجائیں گے توکیا ہم دوبارہ (قبروں سے) نکالے جائیں گے ؟
لَقَدْ وُعِدْنَا ہٰذَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا مِنْ قَبْلُ۰ۙ
یہ وعدہ ہم سے اورہمارے آبا اجداد اور ان سے بھی بہت پہلے والوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔
اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۶۸
یہ سب پہلے لوگوں کے پرانے قصے، افسانے ہیں۔ (جوسلسلہ وارپشت درپشت ایک دوسرے سے نقل ہوتے چلے آرہے ہیں)
قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِيْنَ۶۹
ائے نبیﷺ ان سے کہئے کہ زمین کے مختلف ملکوں میں گھوم پھر کر تودیکھو کہ مجرمین کا کیا انجام ہوا۔ (جنہوں نے پیغمبروں کا کہنا نہ مانا اورتعلیمات الٰہی کا انکار کیا)
وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْہِمْ وَلَا تَكُنْ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ۷۰
ائے نبیﷺ آپ ان کا یہ حال دیکھ کر ملول نہ ہوں اور جو کچھ مکرو فریب وہ کررہے ہیں اس سے آپ تنگی محسوس نہ کریں(یعنی آپ کے دل میں کسی قسم کی گھٹن نہ پیدا ہونی چاہئے)
وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۷۱
اور وہ کہتے ہیں، اگر آپ سچے ہیں تویہ وعدہ (عذاب کا) کب پورا ہوگا ؟ (جس کا واقع ہونا بیان کیا جاتا ہے)
قُلْ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ تَسْتَعْجِلُوْنَ۷۲
ائے نبیﷺ ان سے کہئے کیا عجب ہے کہ اس کا کوئی جزو لاحق ہی ہوچکا ہو، اورتم تک پہنچنے ہی کو ہو جس کی تم جلدی کرتے ہو(جیسے قحط، جنگ بدر وغیرہ)
وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ
اور ائے نبیﷺ آپ کا پروردگار لوگوں پربڑا فضل فرمانے والا ہے (یعنی فوری عذاب نازل نہیں فرماتا، کچھ مہلت دی جاتی ہے تا کہ لوگ سنبھل جائیں)
وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَشْكُرُوْنَ۷۳
لیکن ان میں سے اکثر شکرادا نہیں کرتے( مہلت کا فائدہ نہیں اٹھاتے) بلکہ مواخذہ میں دیر ہونے کا غلط مطلب لیتے ہیں کہ کیسی ہی نافرمانی کی جائے یہاں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں)
وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُہُمْ وَمَا يُعْلِنُوْنَ۷۴
اور (جومنصوبے) ان کے سینوں میں چھپے ہوئے ہیں اور (حقیقت کے خلاف )جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں، آپ کا پروردگار ان سب کوجانتا ہے( اس لئے ان کے ایک ایک جرم کی سزا انھیں دے گا)
وَمَا مِنْ غَاۗىِٕبَۃٍ فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ
اورزمین وآسمان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے۔
اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ۷۵
لوح محفوظ میں لکھی ہوئی نہ ہو۔
اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَقُصُّ عَلٰي بَنِيْٓ
بے شک یہ قرآن عموماً بنی اسرائیل کے سامنے ان حقائق کوظاہر کرتا ہے
اِسْرَاۗءِيْلَ اَكْثَرَ الَّذِيْ ہُمْ فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۷۶
جن میں وہ اکثر اختلاف رکھتے ہیں( جیسے احوال قیامت محاسبہ اعمال کیلئے قبروں سے اٹھایا جانا حضرت عزیرؑ کا زندہ کرکے اٹھایا جانا وغیرہ)
وَاِنَّہٗ لَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۷۷
اور بے شک یہ (قرآن) اہل ایمان کے لئے سراسر ہدایت ورحمت ہے(اہل ایمان وہ ہیں جو اس کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق کے ساتھ ان احکام کے مطابق عمل پیرا ہوتے ہیں)
اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَہُمْ بِحُكْمِہٖ۰ۚ
(ائے نبیﷺ ) بے شک آپ کا رب اپنے اختیار سے (کسی کی سعی وسفارش کے بغیر) فیصلہ کردے گا۔
وَہُوَالْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ۷۸ۙۚ
اور وہ بڑا ہی زبردست (ہر طرح کی قدرت رکھنے والا) سب کچھ جاننے والا ہے( کوئی چیز اس سے ڈھکی چھپی نہیں رہتی)
فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّكَ عَلَي الْحَقِّ الْمُبِيْنِ۷۹
(لہٰذا ائے نبیﷺ) آپ اللہ پر بھروسہ رکھئے، (اور اشاعت حق کا کام کئے جائیے) بے شک آپ صریح حق پر ہیں یقیناً آپ مُردوں کو نہیں سناسکتے۔
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ۸۰
اور نہ آپ ان بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے ہیں جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے جارہے ہوں( بہرا سامنے (روبرو) ہو تو اشارہ سے بھی سمجھ سکتا ہے لیکن پیٹھ پھیردے توکیا سنے گا)
وَمَآ اَنْتَ بِہٰدِي الْعُمْىِ عَنْ ضَلٰلَتِہِمْ۰ۭ
اور نہ آپ اندھوں کو(اندھوں کی طرح بھٹکتے پھرنے والوں کو) ان کی اپنی گمراہی سے نکال کرراستہ دکھانے والے ہیں
اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا فَہُمْ مُّسْلِمُوْنَ۸۱
آپ توانھیں سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پریقین رکھتے ہیں، لہٰذا وہی مسلمان ہیں۔
وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْہِمْ
اورجب ان کے بارے میں ہماری بات پوری ہوگی ( یعنی جب قیامت کا وقت قریب آئے گا اور اس کے آثار ان پر ظاہر ہونے لگیں گے)
اَخْرَجْنَا لَہُمْ دَاۗبَّۃً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُہُمْ۰ۙ
تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جانور نکالیں گے کہ وہ ان سے باتیں کرے گا۔
اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ۸۲ۧ
اس لئے کہ یہ لوگ ہماری آیتوں پریقین نہ لاتے تھے۔
فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ
تو جو لوگ آسمانوں اورزمین میں ہیں سب کے سب گھبرا اٹھیں گے۔
اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللہُ۰ۭ وَكُلٌّ اَتَوْہُ دٰخِرِيْنَ۸۷
سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے (محفوظ رکھنا) چا ہا اور سب کے سب اللہ تعالیٰ کے سامنے سرجھکائے عاجزانہ حاضر ہوں گے۔
وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً
اور آپ پہاڑوں کودیکھ کر سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی جگہ کھڑے ہیں، ذرا حرکت نہیں کرتے۔
وَّہِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۰ۭ
مگر وہ اس دن بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔
ترجمہ:۔ اور ائے نبی آپ سے لوگ پہاڑوں کے بارے پوچھتے ہیں، کہئے اللہ تعالیٰ انھیں اس دن اڑا کربکھردیں گے۔
صُنْعَ اللہِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ۰ۭ
یہ اللہ تعالیٰ کی کاریگری ہے جس نے ہرچیز کوٹھیک ٹھیک طورپربنایا۔
اِنَّہٗ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ۸۸
بے شک وہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔
مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَيْرٌ مِّنْہَا۰ۚ
حو شخص صحیح عمل لے کر آئے گا تواس کو اس سے بہتر بدلہ ملے گا( جنت درجاتِ جنت اور اس کی نہ ختم ہونے والی نعمتیں)
وَہُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ۸۹
اور وہ قیامت کی ہولناکیوں، پریشانیوں سے محفوظ رہیں گے۔
وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَۃِ
اور جو کوئی غلط عقائد وبرے اعمال (کفر وشرک) کے ساتھ آئے گا۔
فَكُبَّتْ وُجُوْہُہُمْ فِي النَّارِ۰ۭ
توایسے تمام لوگ جہنم میں اوندھے منہ ڈال دیئے جائیں گے
ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۹۰
(اور انھیں کہا جائے گا) تم کو انہی اعمال کا بدلہ دیا جارہا ہے، جو تم دنیا میں کرتے رہے تھے۔
اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ ہٰذِہِ الْبَلْدَۃِ الَّذِيْ حَرَّمَہَا وَلَہٗ كُلُّ شَيْءٍ۰ۡ
(کہئے) مجھے تویہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے مالک کی عبادت کروں، جس نے اسے محترم قرار دیا( ادب واحترام کا مقام قرار دیا) اور ہر چیز اسی کے اختیار میں ہے۔
(اس نے کسی کواپنا اختیار دے کر اپنا شریک نہیں بنایا)
وَّاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۹۱ۙ
اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبردار ہوجاؤں۔
وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ۰ۚ
اور یہ بھی کہ قرآن پڑھ کرسنایا کروں۔
فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۰ۚ
جو شخص راہ راست اختیار کرے گا تواس کا فائدہ اسی کے لئے ہوگا۔ (اسی کی نجات ہوگی)
وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۹۲
اور جوگمراہی اختیار کرے گا توکہئے میں توصرف انجام آخرت سے ڈرانے والوں میں سے ہوں۔
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ سَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِہٖ فَتَعْرِفُوْنَہَا۰ۭ
اور کہئے ساری خوبیاں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں وہ تم کو عنقریب اپنی نشانیاں قیامت کے واقعات دکھائے گا توتم (ان کے وقوع پذیر ہونے کے وقت) انھیں پہچان لوگے
وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۹۳ۧ
اور جو کچھ کام تم کررہے ہو تمہارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں ہے۔